Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 16
وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْیَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِیْهَا فَفَسَقُوْا فِیْهَا فَحَقَّ عَلَیْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِیْرًا
وَاِذَآ : اور جب اَرَدْنَآ : ہم نے چاہا اَنْ نُّهْلِكَ : کہ ہم ہلاک کریں قَرْيَةً : کوئی بستی اَمَرْنَا : ہم نے حکم بھیجا مُتْرَفِيْهَا : اس کے خوشحال لوگ فَفَسَقُوْا : تو انہوں نے نافرمانی کی فِيْهَا : اس میں فَحَقَّ : پھر پوری ہوگئی عَلَيْهَا : ان پر الْقَوْلُ : بات فَدَمَّرْنٰهَا : پھر ہم نے انہیں ہلاک کیا تَدْمِيْرًا : پوری طرح ہلاک
اور جب ہم چاہتے ہیں کہ ہلاک کریں کسی بستی کو ، تو حکم دیتے ہیں اس کے آسودہ حال لوگوں کو ، پس وہ فسق کرتے ہیں اس میں پس ثابت ہوجاتی ہے اس پر بات ، پس ہم اکھاڑ دیتے ہیں اس کی جڑ بنیاد کو اور اس کو ملیا میٹ کردیتے ہیں ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ کے نیک بندوں پر انعامات اور نافرمانوں کی گرفت کا ذکر ہوا ، پھر اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے تیار کیے جانے والے اعمالنامے اور قیامت کے دن ان کے ظہور کا تذکرہ فرمایا ، اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ ہدایت یا گمراہی انسان کے اپنے ہی فائدے یا نقصان کے لیے ہے ، ہر شخص کو اپنا بوجھ خود ہی اٹھانا پڑے گا اور کوئی دوسرا شخص کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ، اللہ نے ایک اصولی بات یہ بھی بیان فرمائی کہ ہم کسی فرد یا قوم کو اس وقت تک سزا نہیں دیتے جب تک ان کے پاس اپنا رسول بھیج کر اتمام حجت نہ کریں ، اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے سزا سے متعلق اپنی سنت بیان کی ہے اس سلسلے میں بعض واقعات کی طرف اشارہ بھی ہے اور مشرکین عرب اور بعد میں آنے والوں کے لیے وعید بھی ہے کہ اگر وہ بھی کفر شرک اور برائی سے باز نہ آئے تو ان کا حشر بھی پہلی نافرمان قوموں سے مختلف نہیں ہوگا ۔ (ہلاکت کا فلسفہ) اب اللہ تعالیٰ نے انسان کی بداعمالیوں پر اس کی ہلاکت کا فلسفہ بیان فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واذا اردنا ان نھلک قریۃ “۔ جب ہم کسی بستی ، شہر ، علاقے یا ملک کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ، (آیت) ” امرنا مترفیھا “۔ تو ہم اس بستی کے آسودہ اور خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں ، یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ناز ونعمت میں پرورش پاتے ہیں ، انہیں تمام سہولتیں یا افراط میسر ہوتی ہیں اور عیش و آرام میں زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ، ہم ان کو حکم دیتے ہیں ۔ (آیت) ” ففسقوافیھا “۔ تو وہ اس بستی میں فسق کرتے ہیں (آیت) ” فحق علیھا القول “ پھر اس پر بات ثابت ہوجاتی ہے ، خدا کی گرفت آتی ہے اور وہ ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ اس آیت کریمہ کے ظاہری الفاظ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود خوشحال لوگوں کو فسق کا حکم دیتے ہیں ، پھر جب وہ ایسا کرنے لگتے ہیں تو ان پر جرم ثابت ہوجاتا ہے اور وہ سزا میں مبتلا کردیے جاتے ہیں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایسی بات نہیں ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کسی کو فسق کا حکم دیتے ہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” ان اللہ لا یامر بالفحشآء “۔ (الاعراف) کہ وہ کبھی بھی بیحیائی کا حکم دیتے مفسرین اس کی توجہیہ یوں بیان کرتے ہیں کہ حکم دو قسم کا ہوتا ہے ، ایک تشریعی اور دوسرا تکوینی ، تشریعی حکم ہمیشہ شریعت اور قانون کے مطابق ہوتا ہے ، اور نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کا حکم ہوتا ہے نہ کہ برائی کے ارتکاب کا ، اور تکوینی حکم کائنات میں طبعی طور پر جاری ہوتا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی یا برائی کا ارتکاب اللہ نے بندے کے اختیار میں دے دیا ہے ، لہذا کوئی انسان جب بھی کسی اچھائی یا برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں ڈالتا بلکہ اس کی مرضی کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا کردیتا ہے ، یہی تکوینی حکم ہے ، جو بندہ خود اپنے ارادے اور اختیار سے انجام دیتا ہے اور اللہ اس کی توفیق کو سلب نہیں کرتا ، سورة النساء میں موجود ہے ” نولہ ما تولی “ کوئی شخص جدھر جانا چاہتا ہے ہم اسی طرف اس کا رخ موڑ دیتے ہیں ، حالانکہ ہم چاہیں تو اس سے برائی کرنے کی توفیق ہی سلب کرلیں ، مگر ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ اسے اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ تکوینی حکم کے ذریعے انسان کو آزماتا ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ انسان کو کھلی چھٹی دے دیتا ہے (آیت) ” فمن شآء فلیؤمن ومن شآء فلیکفر “۔ (الکہف) اب جس کا جی چاہے ایمان لے آئے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرلے ، البتہ فرمایا کہ جو شخص کفر کا طریقہ اپنائے گا تو اس کے لیے آگے جہنم بھی تیار ہے غرضیکہ یہاں پر ” امرنا “ اور ” ففسقوا “ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یا قوم نافرمانی کا راستہ اختیار کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توفیق کو سلب نہیں کرتے بلکہ اسے اپنی مرضی کے مطابق چلنے دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین اس کا دوسرا معنی بھی کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو وہاں کے دولت مند لوگوں کو ” اطاعت “ کا حکم دیتے ہیں ، ہم ان کی طرف اپنے نبی بھیجتے ہیں ، ان کے نائبین اور مبلغین ان کے پاس پہنچ کر انہیں اطاعت اور نیکی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ، اس کے باوجود جب وہ قوم یا بستی کے لوگ نافرمانی کرتے ہیں ، اللہ کی اطاعت کی طرف نہیں آتے (آیت) ” فدمرنھا تد میرا “۔ تو پھر ہم اس بستی کو ملیامیٹ کردیتے ہیں ، اسے جڑ بنیاد سے اکھاڑ دیتے ہیں اور اس طرح انہیں نافرمانی کی سزا مل جاتی ہے ۔ (آسودہ حالی اور مخالف اسلام) اس آیت کریمہ میں آسودہ حال لوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے تشریعی اور تکوینی احکام ہر قسم کے لوگوں پر نافذ العمل ہوتے ہیں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہاں پر خوشحال لوگوں کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ دین کی مخالفت میں عام طور پر یہی لوگ پیش پیش ہوتے ہیں اور پھر ان کی اقتداء میں دیگر لوگ بھی اسی راستہ پر چل نکلتے ہیں ، عربی محاورہ ہے کہ اگر حاکم کی اصلاح ہوجائے تو رعیت خود بخود سدھر جائے گی اور اگر کسی قوم یا ملک کا سرپرست ہی بگڑ جائے تو سارے لوگ ہی ایسے ہوجائیں گے ، بات تو بڑے لوگوں کی چلتی ہے اور باقی ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے ہوتے ہیں ، فساد فی الارض کی ابتداء ہمیشہ روسا کی طرف سے ہوتی ہے ، تاریخ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اٹھا کر دیکھ کر کمزور لوگ تو اکثر ایمان لاتے رہے ہیں مگر مخالفت بڑوں نے ہی کی ، یہ لوگ خدا اور رسول کی اطاعت کو اپنی چودھراہٹ کے منافی سمجھتے ہیں ، ظاہر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے دین کی اطاعت شروع ہوجائے گی تو پھر چودھریوں کی بات کون سنے گا ، تو جب بھی ان آسودہ حال لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا جاتا ہے تو یہ مخالفت پر اتر آتے ہیں اگر ان کو کوئی وعید سنائی جائے تو کہتے ہیں ، (آیت) ” نحن اکثر اموالاو اولادا “۔ (سبا ، 35) ہمارے پاس مال و دولت کی فراوانی ہے ہماری کثیر اولاد ہے ہمیں کس بات کا ڈر ہے ہم کسی قیامت اور محاسبے کے عمل کو تسلیم نہیں کرتے (آیت) ” وما نحن معذبین “۔ (الشعرا) ہمیں کون سزا دیگا ، فرمایا ایسے ہی لوگوں کو ہم اطاعت وفرمانبرداری کا حکم دیتے ہیں ، تو وہ فسق کا راستہ اختیار کرتے ہیں ، خروج عن الطاعۃ کے مرتکب ہوتے ہیں ، فسق کا اطلاق نافرمانی کے علاوہ کفر ، نفاق اور معصیت پر بھی ہوتا ہے ، احکام شریعت کے خلاف چلنے والا شخص فاسق کہلاتا ہے پھر جب فسق کی بات ثابت ہوجاتی ہے تو ایسے لوگوں کو ملیامیٹ کردیا جاتا ہے ۔ (امر کے دیگر معانی) بعض مفسرین ” امرنا “ کی بجائے ” امرنا “ قرات کرتے ہیں جس کا معنی حاکم بنانا ہے ، اگر اس قرات کو پیش نظر رکھا جائے تو آیت کا معنی یہ ہوگا کہ جب ہم کسی بستی کے آسودہ حال لوگوں کو وہاں کا امیر یا حاکم بنا دیتے ہیں تو وہ اطاعت کا راستہ پکڑنے کی بجائے عیاشی ، فحاشی اور بدکاری کے راستے پر چل پڑتے ہیں جس کے نتیجے میں ان پر خدا کی طرف سے عذاب آتا ہے یہ لوگ عام طور پر معاصی کی سکی میں بناتے ہیں اور نیکی کے کام نہیں کرتے ۔ چوتھی تفسیر کے مطابق ” امر یا امر کا معنی زیادہ کرنا بھی ہوتا ہے ، یعنی ہم جس بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں ، وہاں کے آسودہ حال لوگوں کی تعداد میں اضافہ کردیتے ہیں ، اس سلسلے میں مکہ والوں کا حال دیکھ لیں ، قوم عاد ، قوم ثمود ، قوم فرعون ، قوم لوط ، قوم تبع ، اور سبا والوں کا حال دیکھ لیں یہ سب خوشحال اور آسودہ حال لوگ تھے ، بڑی بڑی عمارات اور بڑے بڑے باغات کے مالک تھے ، ان کی تہذیبوں کے نشانات آج بھی ٹیکسلا ، منجودھاڑو ، اجینٹا ار آلورہ میں دیکھے جاسکتے ہیں ، ان کے بارے میں سورة العنکبوت میں فرمایا ہے کہ شیطان نے ان کے اعمال کو مزین کر کے دکھایا اور انہیں صراط مستقیم سے روک دیا (آیت) ” وکانوا مستبصرین “۔ دنیا کے معاملات میں بڑے ہوشیار تھے ، اپنے فن میں بڑے ماہر تھے مگر معاد کے معاملہ میں فرمایا (آیت) ” انھم کانوا قوما عمین “۔ (الاعراف) بالکل اندھے تھے ۔ (رفاہیت بالغہ) فرمایا جب ان کی ہلاکت کا وقت آتا ہے تو ہم ان کو زیادہ کردیتے پھر وہ کھیل کود ، رسم و رواج ، گانے بجانے اور عیش و عشرت میں مبتلا ہو کر رہ جاتے ہیں اور پھر ان پر تباہی مسلط کردی جاتی ہے ، پرانی قومیں اسی اصول کے تحت نیست ونابود ہوئیں اور پھر آخر میں مکہ والوں کا زمانہ آیا ان کو یاد دلایا گیا کہ پہلی قوموں کے مقابلے میں تم عشر عشیر کے حامل بھی نہیں ہو جب وہ نہ رہے تو تم کیسے بچ سکتے ہو تم اپنی معمولی طاقت پر کیوں اتراتے ہو اور اللہ کی نافرمانی کیوں کرتے ہو ، بہرحال اللہ نے دولت مندوں کو مترف کہا ہے قرآن میں اتراف کی مذمت بیان کی گئی ہے اور سابقہ قوموں کا حال بیان کرکے مکہ والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ اپنی آسودہ حالی کا غلط مطلب نہ لیں ، سورة الواقعہ میں اللہ نے واضح فرمایا ہے (آیت) ” انھم کانوا قبل ذلک مترفین ، وکانوا یصرون علی الحنث العظیم “۔ اس سے پہلے یہ لوگ آسودہ حال تھے ، مگر گناہ عظیم پر اڑے ہوئے تھے ، اسلامی نظام میں انتہائی آسودہ حالی کو رفاہیت بالغہ کا نام دیا گیا ہے ، اسلام افراط وتفریط سے ہٹ کر میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے ، نہ تو بالکل یموست والی اور نہ تکشف والی حالت اختیار کرنے کی اجازت ہے بہترین مکان ، بہترین لباس اور بہترین غذا رفاہیت بالغہ کی تعریف میں آتا ہے جو کہ اتراف کا نتیجہ ہے اس کی بجائے عام نوعیت کی چیزیں استعمال کرنی چاہئیں جن سے نہ تو فقر ظاہر ہوتا ہو اور نہ غرور وتکبر جھلکتا ہو امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) نے حجۃ اللہ البالغہ میں باب باندھ کر فارسیوں اور رومیوں کا ذکر فرمایا ہے وہ چاہتے تھے کہ ان کے پاس محلات باغات ، اچھی سواریاں اور نوکر چاکر ہوں ، پھر اس مقصد کے حصول کے لیے انہیں ٹیکس لگانے پڑتے تھے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ایک طبقہ امراء کا وجود میں آتا اور دوسرا طبقہ گدھوں کی طرح بن کر رہ جاتا جنہیں کام کے علاوہ عبادت و ریاضت کا وقت بھی نہیں ملتا تھا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے رومیوں اور ایرانیوں کی جڑ بنیاد ہی اکھاڑ دی اور اپنے نبی بھیج کر دونوں تہذیبوں کو ختم کردیا اور انبیاء کی وساطت سے اسلامی تہذیب کو پیش کیا تو فرمایا کہ جب ان پر فسق ثابت ہوجاتا ہے تو ہم انہیں جڑ سے اکھاڑ دیتے ہیں ۔ (سامان عبرت) سابقہ اقوام کا ذکر کرکے اللہ نے خلاصہ یہ بیان فرمایا (آیت) ” ولکم اھلکنا من القرون من بعد نوح “۔ ہم نے نوح (علیہ السلام) کے بعد کتنی ہی قوموں کو ہلاک کردیا قرون ، قرن کی جمع ہے جس کا اطلاق دس ، چالیس ، ساٹھ ، اسی ، سو اور ایک سو بیس پر بھی ہوتا ہے ، قرن سے مراد ایک زمانے اور ایک تہذیب کے لوگ بھی ہوتے ہیں ، تو فرمایا ہم نے نوح (علیہ السلام) کے بعد عاد ثمود جیسی کتنی ہی تہذیبوں کو ہلاک کردیا ، تمہیں ان کے حالات سے عبرت پکڑنی چاہئے ، جب وہ اپنے رسولوں کی تکذیب کرکے سزا سے نہیں بچ سکے تو تم اللہ کی گرفت سے کیسے بچ سکتے ہو ؟ اللہ کا آخری رسول آگیا ہے اب حجت تمام ہوچکی ہے ۔ (آیت) ” وکفی بربک بذنوب عبادہ خبیرا بصیرا “۔ تیرا پروردگار اپنے بندوں کے گناہوں کی خبر رکھنے والا اور دیکھنے والا ہے ، اس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ، ہر شخص کا عقیدہ ، عمل اور اخلاص اس کے سامنے ہے اور وہ ہر ایک کا محاسبہ کریگا لوگوں کو تباہ حال اقوام کے حالات سے عبرت حاصل کرنا چاہئے ،
Top