Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ
: اور
اٰتَيْنَا
: ہم نے دی
مُوْسَي
: موسیٰ
الْكِتٰبَ
: کتاب
وَجَعَلْنٰهُ
: اور ہم نے بنایا اسے
هُدًى
: ہدایت
لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
اَلَّا تَتَّخِذُوْا
: کہ نہ ٹھہراؤ تم
مِنْ دُوْنِيْ
: میرے سوا
وَكِيْلًا
: کارساز
اور دی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور بنایا ہم نے اس کو ہدایت بنی اسرائیل کے لیے (اور ان کو حکم دیا) کہ نہ بناؤ میرے سوا کسی کو کارساز ۔
ربط آیات : جیسا کہ گذشتہ درس میں عرض کیا تھا اس سورة مبارکہ کی پہلی اور ساٹھویں آیات معراج نبوی سے متعلق ہیں اور اس واقعہ کا بعض حصہ سورة النجم میں بھی بیان کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ واقعہ معراج کی باقی تفصیلات صحیح احادیث میں مذکور ہیں جن میں سے بعض کا ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ فضیلت بخشی کہ آپ کو معراج کی بلندیوں تک لے گیا اور مقصد معراج کے متعلق فرمایا تاکہ ہم اپنے پیغمبر کو اپنی قدرت کی بہت سی نشانیاں دکھائیں ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس رات ایسی بہت سی نشانیاں دکھائیں جن میں آپ کی امت کے لیے تربیت کا پروگرام موجود ہے ، آپ کو جنت اور دوزخ کی سیر کرائی گئی اور امت کی تعلیم کے لیے بعض احوال بتلائے گئے جبرائیل (علیہ السلام) کو اپنی اصل شکل میں دکھایا گیا ، انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ مختلف آسمانوں پر ملاقات کرائی خاص طور پر موسیٰ (علیہ السلام) سے دو بار ملاقات ہوئی ، ایک دفعہ قبر میں نماز پڑھتے دکھایا گیا اور دوسری دفعہ نماز میں تخفیف کے سلسلہ میں آپ سے بار بار گفتگو ہوئی ۔ (خادمہ فرعون کا مقام) امام ابن کثیر (رح) نے ایک روایت بیان کی ہے کہ جنت کی سیر کے دوران حضور ﷺ کا گزر ایک ایسے مقام سے ہوا جہاں بڑی زبردست خوشبو آرہی تھی آپ ﷺ کے دریافت کرنے پر بتلایا گیا کہ یہ بنت فرعون کی خادمہ کا مقام ہے ایک موقع پر یہ خادمہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کر رہی تھی کہ کنگھی اس کے ہاتھ سے گر پڑی جسے اس خادمہ نے بسم اللہ پڑھ کر اٹھا لیا فرعون کی بیٹی بڑی حیران ہوئی کہ کیا اس کے باپ کے علاوہ کوئی اور بھی خدا ہے جس کا نام اس خادمہ نے لیا ہے بات فرعون تک پہنچی تو اس نے خادمہ کو بلاکر پوچھا کہ کیا تم میرے علاوہ کسی دوسرے کو بھی خدا تسلیم کرتی ہو ، خادمہ نے جواب دیا کہ ہاں ، ہم تو اس اللہ کو معبود مانتے ہیں جو ہمارا تمہارا اور سب کا معبود ہے ، فرعون جو اس وقت تک بلاشرک غیر خدائی کا دعویدار تھا خادمہ کی صاف گوئی پر سخت برہم ہوا اور حکم دے دیا کہ اس کے سارے خاندان کو ہلاک کردیا جائے ، اس کا طریقہ یہ تجویز کیا کہ تانبے کے بنے ہوئے بیل کے مجسمہ کو خوب تپایا جائے اور پھر اس کے خاندان کے ایک ایک فرد کو اس کے پیٹ میں جھونک دیا جائے پہلے ایک شیر خوار بچے کو اس کی ماں کی آنکھوں کے سامنے اس آگ میں جھونکا گیا ، پھر اس کی ماں کی باری آئی تو وہ ہچکچائی ، اس پر اس بچے نے بول کر کہا کہ ماں ! بلاتردد اس آگ میں داخل ہوجاؤ کہ تم حق پر ہو ، اسی طرح خاندان کے تمام افراد کو آگ میں ڈال کر ہلاک کردیا گیا ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے بتلایا گیا کہ یہ اس خاندان کا مقام ہے جہاں سے اتنی خوشبو آرہی ہے ۔ (امام الانبیاء کا اعزاز) پچھلے درس میں بیان ہوچکا ہے کہ حضور ﷺ نے مختلف آسمانوں پر مختلف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے ملاقات کی ، پھر جب آسمانوں کی سیر کے بعد واپس بیت المقدس پہنچے تو دیکھا کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نماز پڑھ رہے ہیں ۔ ابھی میں نے اتنا ہی خیال کیا تھا کہ ان کی امامت کون کرائے گا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے پکڑ کر آگے مصلے پر کھڑا کردیا پھر میں نے تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو نماز پڑھائی ، حدیث کے الفاظ میں ” فاممتھم “۔ یعنی میں نے ان کی امامت کرائی یہ بھی حضور ﷺ کا بہت بڑا اعزاز ہے کہ آپ امام الانبیاء ہیں ۔ (موسی (علیہ السلام) کے لیے تورات) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر توراۃ ملنے کا تذکرہ مختلف سورتوں میں کیا گیا ہے یہاں بھی اس واقعہ کا مختصر ذکر ہے ، واقعہ معراج سے اس کا ربط یوں ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر تورات عطا کی تھی ، اسی طرح اللہ نے اپنے پیغمبر آخرالزماں کی عزت افزائی کے لیے معراج کے موقع پر بلند تیرین مقام تک پہنچایا تو اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر تورات کے نزول کا ذکر فرمایا (آیت) ” واتینا موس الکتب “۔ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات عطا فرمائی ، تورات کا ذکر دراصل نزول قرآن کی تمہید ہے جس کا ذکر اسی رکوع کے آخر میں بایں الفاظ آرہا ہے (آیت) ” ان ھذا القران یھدی للتی ھی اقوم “۔ اللہ کی یہ آخری کتاب قرآن مجید بہترین راستہ کی طرف راہنمائی کرتی ہے ، اسی طرح تورات کے متعلق یہاں فرمایا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دی (آیت) ” وجعلنہ ھدی البنی اسرآئیل “۔ اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا ۔ (آسمانی کتب کا لب لباب) اور واضح کردیا کہ اس کی تعلیمات کا لب لباب یہ ہے (آیت) ” الا تتخذوا من دونی وکیلا “۔ کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بنانا ، قرآن پاک کی تعلیم بھی یہی ہے ، ابتدائی زمانے کی سورة مزمل میں فرمایا (آیت) ” لا الہ الا ھو فاتخذہ وکیلا “۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں لہذا کارساز بھی اسی کو پکڑو ، گویا اللہ کی توحید ہی تمام کتب سماویہ کا نچوڑ ہے خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو کارساز نہ سمجھا جائے ، اس کے علاوہ کوئی کسی کی بگڑی نہیں بنا سکتا ، نہ کوئی مافوق الاسباب تصرف کرسکتا ہے کوئی نافع اور ضار نہیں ، خدا کے سوا قادر مطلق اور عالم الغیب بھی کوئی نہیں ، کوئی اس لائق نہیں کہ اسے اپنی حاجات میں غائبانہ طور پر پکارا جائے ، تو تورات میں بنی اسرائیل کو یہی بات سمجھائی گئی ہے تحریف شدہ تورات میں اب بھی اس قسم کی آیات موجود ہیں کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارا غیور خدا ہوں ، میرے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہ بنانا ، اسی مسئلہ میں آکر اکثر لوگ پھسل جاتے ہیں ، اس وقت دنیا کی چار ارب آبادی کفر وشرک میں مبتلا ہے یاد رکھو ، خدا کا شریک بنانا سب سے بڑا گناہ ہے ، دنیا میں بمشکل پانچواں حصہ ایسا ہوگا جو توحید کا مانتا ہے ، مگر اس کے ماننے والوں کی اکثریت بھی کسی نہ کسی طرح شرک میں ملوث ہے اور خالص توحید کو ماننے والے بہت کم ہیں ، اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کار ساز نہ بناؤ ۔ (نوح (علیہ السلام) کی شکر گزاری) آگے اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلائی ہے (آیت) ” ذریۃ من حملنا مع نوح “۔ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کرایا تھا بنی اسرائیل کو خطاب ہے کہ تمہارے آباؤ اجداد نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے اور طوفان نوح سے بچ جانے والے لوگ ہیں اور نوح (علیہ السلام) (آیت) ” انہ کان عبدا شکورا “۔ اللہ کے شکر گزار بندے تھے وہ اور آپ کے ماننے والے اسی شکر گزاری کی بنا پر بچ گئے اور پھر ان سے آگے نسل انسانی چلی اور جو لوگ مشرک اور ناشکر گزار تھے ان کو اللہ نے پانی میں غرق کردیا ، لہذا اے بنی اسرائیل ! خبردار ہو کہ اگر تم نے بھی اللہ ناشکری کی تو تمہارا انجام بھی قوم سے مختلف نہیں ہوگا لہذا شکر گزاری کو اپنا وطیرہ بنا لو ، اس شکر گزاری کا پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کیا جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا جائے نہ عبادت میں ، نہ پکار میں اور نہ نذر ونیاز میں شکر ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق ارشاد خداوندی ہے (آیت) ” لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید “۔ (ابراھیم) اگر میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو میں مزید عطا کروں گا ، اور اگر ناشکری کرو گے تو پھر عذاب بھی بڑا سخت ہے بہرحال شکر کی اولین شرط توحید باری تعالیٰ کو تسلیم کرنا ہے ۔ نوح (علیہ السلام) کی شکر گزاری کا عالم یہ تھا کہ آپ کوئی چھوٹا یا بڑا کام اللہ کے ذکر اور اس کی تعریف کے بغیر نہیں کرتے تھے ، آپ نے لمبی عمر پائی پھر تکالیف اٹھائیں مگر ہمیشہ صبر کا دامن تھامے رکھا اور اللہ تعالیٰ کا ہر حالت میں شکر ادا کرتے رہے شفاعت والی حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور عرض کرے گے ” انت اول الرسل الی اھل الارض “۔ آپ اہل زمین کی طرف مبعوث ہونے والے اولین رسول ہیں ، ” وقد سماک اللہ عبدا شکورا “۔ اور اللہ نے آپ کا لقب شکر گزار بندہ رکھا ہے لہذا آپ ہماری اللہ کے ہاں سفارش کریں مگر آپ کہیں گے کہ میں اس مقام کا اہل نہیں ہوں ” اذھبوا الی غیری “ کسی دوسرے کے پاس جاؤ ، بہرحال اللہ نے نوح (علیہ السلام) کو عبدشکور کہا ہے اور بنی اسرائیل کو یاد دلایا ہے کہ تم اس جلیل القدر نبی کی اولاد میں سے ہو ، لہذا تمہیں عبرت حاصل ہونی چاہئے کہ طوفان نوح میں صرف وہی لوگ بچ سکے جو اپنے نبی کے متبع اور شکر گزار تھے ۔ (شکر کی تعریف) جس طرح صبر ، اللہ کا ذکر اور شعائر اللہ کی تعظیم اصول دین میں سے ہے اسی طرح شکر بھی دین کا اہم جزو ہے جس کی بڑی تلقین کی گئی ہے ، بزرگان دین فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کا شکر زبان سے ہوتا ہے ، عابد لوگوں کا اعمال سے اور عارف لوگوں کا شکر استقامت احوال سے ہوتا ہے ، حضرت جنید بغدادی (رح) فرماتے ہیں کہ میں ابھی سات آٹھ سال کی عمر میں تھا کہ مجھے میرے استاد اور ماموں حضرت سری (رح) نے پوچھا ، بیٹا ، شکر کیا ہوتا ہے ، فرماتے ہیں کہ حضرت استاد کی صحبت سے اتنا فیض حاصل ہوچکا تھا کہ میں نے جواب دیا حضرت ! شکر یہ ہے کہ اللہ کی کسی نعمت کو معصیت میں نہ لگایا جائے ، سری صاحب (رح) نے فرمایا تمہیں یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی کہنے لگے آپ کی مجلس میں بیٹھنے سے غرضیکہ خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کو اگر معصیت کے کام میں لگا دیا تو یہ اس نعمت کی ناشکر گزاری ہوگی ۔ ایک شخص نے حضرت سہل (رح) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا حضرت میرے ساتھ بہت برا سلوک ہوا چور گھر میں داخل ہو کر سارا مال ومتاع لوٹ کرلے گئے ہیں ، آپ نے جوابا فرمایا ، خدا کا شکر کرو کہ تمہارے مال کا ہی نقصان ہوا ہے ، اگر شیطان تمہارے دل میں داخل ہو کر توحید ہی کو خراب کر دے ، تو تم کیا کرو گے ؟ لہذا ایمان سلامت بچ جائے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ، ایک دفعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کی خدمت میں ایک وفد آیا وفد میں سے ایک نوجوان نے گفتگو شروع کی تو آپ نے فرمایا ، بھائی ، کسی بڑے آدمی کو بولنے دو ، وہ نوجوان کہنے لگا کہ اگر بات چیت کا دارومدار صرف بڑوں پر ہی ہے تو پھر آپ مسند خلافت پر کیسے متمکن ہیں جب کہ آپ سے بڑی عمر کے بہت سے لوگ موجود ہیں ، اس پر آپ نے اسے گفتگو جاری رکھنے کی اجازت دیدی ، وہ نوجوان بولا ، ہم نہ تو کسی چیز کے حصول کے لیے آئے ہیں اور نہ ہی ہمیں کسی قسم کا خوف یہاں تک کھینچ لایا ہے جہاں تک ہمارے حق کا تعلق ہے ، وہ تو ہمیں ہمارے علاقے میں ہی مل جاتا ہے کیونکہ ؤپ کسی کا حق ضائع نہیں کرتے ، اور خوف ہمیں اس لیے نہیں کہ آپ کے عدل نے اسے یقینی بنا دیا ہے ، ایک چیز سے آپ کے فضل نے ہمیں فائدہ پہنچایا ہے اور دوسری چیز عدل نے ہمیں مامون کیا ہے ، حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے پوچھا ، پھر آئے کس لیے ہو ؟ کہنے لگے کہ ہم آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق بخشی ہے کہ آپ خلیفہ عادل ہیں اور تمام مخلوق کی آرام و آسائش کا خیال رکھتے ہیں ۔ (اللہ کے شکر گزار بندے) بزرگان دین فرماتے ہیں کہ کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کی کسی نعمت کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا مگر اللہ تعالیٰ تھوڑے سے شکر پر ہی راضی ہوجاتا ہے ، اللہ نے آل داؤد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” اعملوا ال داؤد شکرا وقلیل من عبادی الشکور “۔ (سبا) اے داؤد (علیہ السلام) کے گھر والو اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ میرے بندوں میں شکر گزار بندے بہت قلیل تعداد میں ہیں ، ترمذی شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ شدید سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے اور رات کی نماز میں طویل قیام کی وجہ سے حضور ﷺ کے پاؤں پھٹ جاتے تھے اور ان میں ورم آجاتا تھا ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا ، حضور ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت بڑی فضیلت عطا فرمائی ہے حتی کہ سورة فتح میں آپ کی اگلی پچھلی تمام لغزشوں کی معافی کا اعلان فرما دیا ہے ، پھر آپ اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں کہ آپ کے پاؤں متورم ہوجاتے ہیں ، آپ ﷺ کا جواب یہ تھا (آیت) ” افلا اکون عبدا شکورا “۔ کیا میں اللہ کا شکرگرازبندہ نہ بنوں ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیشمار انعامات سے نوازا ہے ، اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو انسان کے ایک ایک بال کے ساتھ اس قدر نعمتیں ہیں کہ وہ عمر بھر ان کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا ، باقی نعمتوں کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا ، اللہ نے وجود بخشا ہے ، جسمانی اور دماغی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں ۔ مال واسباب ، زمین مکان ، ملازمت ، اور اولاد عطا کی ہے ، مگر انسان نعمتوں کا شکریہ کیسے ادا کرسکتا ہے ؟ ان نعمتوں کے شکریہ کی صورت یہ ہے کہ انسان ان نعمتوں کو اطاعت کے کاموں میں لگائے اور دل میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا پختہ یقین رکھے ، شرک کفر اور معاصی سے بیزار رہے ۔ آثار میں آتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے پیغمبر ! ﷺ میں تو تیرا شکریہ کسی طرح بھی ادا نہیں کرسکتا کیونکہ شکریہ ادا کرنا بھی تیری ایک نعمت ہے ، اور جب بھی میں شکر ادا کرتا ہوں تو ایک اور نعمت تلے دب جاتا ہوں ، اللہ نے فرمایا ، اے داؤد ! اب تم نے مقام شکر کو پالیا ہے انسان کی طرف سے عجزوانکساری کا اظہار ہی بہت بڑا شکر ہے ، اگر اور کچھ نہیں تو انسان کو زبان سے تو بہرحال اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جب کوئی بندہ کھانا کھاتا ہے یا مشروب پیتا ہے اور پھر (آیت) ” الحمد للہ “ کہہ کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے میرا شکریہ ادا کیا ہے ۔
Top