Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 2
وَ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ جَعَلْنٰهُ هُدًى لِّبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَكِیْلًاؕ
وَ : اور اٰتَيْنَا : ہم نے دی مُوْسَي : موسیٰ الْكِتٰبَ : کتاب وَجَعَلْنٰهُ : اور ہم نے بنایا اسے هُدًى : ہدایت لِّبَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل اَلَّا تَتَّخِذُوْا : کہ نہ ٹھہراؤ تم مِنْ دُوْنِيْ : میرے سوا ‎وَكِيْلًا : کارساز
اور دی ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور بنایا ہم نے اس کو ہدایت بنی اسرائیل کے لیے (اور ان کو حکم دیا) کہ نہ بناؤ میرے سوا کسی کو کارساز ۔
ربط آیات : جیسا کہ گذشتہ درس میں عرض کیا تھا اس سورة مبارکہ کی پہلی اور ساٹھویں آیات معراج نبوی سے متعلق ہیں اور اس واقعہ کا بعض حصہ سورة النجم میں بھی بیان کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ واقعہ معراج کی باقی تفصیلات صحیح احادیث میں مذکور ہیں جن میں سے بعض کا ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو یہ فضیلت بخشی کہ آپ کو معراج کی بلندیوں تک لے گیا اور مقصد معراج کے متعلق فرمایا تاکہ ہم اپنے پیغمبر کو اپنی قدرت کی بہت سی نشانیاں دکھائیں ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس رات ایسی بہت سی نشانیاں دکھائیں جن میں آپ کی امت کے لیے تربیت کا پروگرام موجود ہے ، آپ کو جنت اور دوزخ کی سیر کرائی گئی اور امت کی تعلیم کے لیے بعض احوال بتلائے گئے جبرائیل (علیہ السلام) کو اپنی اصل شکل میں دکھایا گیا ، انبیاء (علیہ السلام) کے ساتھ مختلف آسمانوں پر ملاقات کرائی خاص طور پر موسیٰ (علیہ السلام) سے دو بار ملاقات ہوئی ، ایک دفعہ قبر میں نماز پڑھتے دکھایا گیا اور دوسری دفعہ نماز میں تخفیف کے سلسلہ میں آپ سے بار بار گفتگو ہوئی ۔ (خادمہ فرعون کا مقام) امام ابن کثیر (رح) نے ایک روایت بیان کی ہے کہ جنت کی سیر کے دوران حضور ﷺ کا گزر ایک ایسے مقام سے ہوا جہاں بڑی زبردست خوشبو آرہی تھی آپ ﷺ کے دریافت کرنے پر بتلایا گیا کہ یہ بنت فرعون کی خادمہ کا مقام ہے ایک موقع پر یہ خادمہ فرعون کی بیٹی کو کنگھی کر رہی تھی کہ کنگھی اس کے ہاتھ سے گر پڑی جسے اس خادمہ نے بسم اللہ پڑھ کر اٹھا لیا فرعون کی بیٹی بڑی حیران ہوئی کہ کیا اس کے باپ کے علاوہ کوئی اور بھی خدا ہے جس کا نام اس خادمہ نے لیا ہے بات فرعون تک پہنچی تو اس نے خادمہ کو بلاکر پوچھا کہ کیا تم میرے علاوہ کسی دوسرے کو بھی خدا تسلیم کرتی ہو ، خادمہ نے جواب دیا کہ ہاں ، ہم تو اس اللہ کو معبود مانتے ہیں جو ہمارا تمہارا اور سب کا معبود ہے ، فرعون جو اس وقت تک بلاشرک غیر خدائی کا دعویدار تھا خادمہ کی صاف گوئی پر سخت برہم ہوا اور حکم دے دیا کہ اس کے سارے خاندان کو ہلاک کردیا جائے ، اس کا طریقہ یہ تجویز کیا کہ تانبے کے بنے ہوئے بیل کے مجسمہ کو خوب تپایا جائے اور پھر اس کے خاندان کے ایک ایک فرد کو اس کے پیٹ میں جھونک دیا جائے پہلے ایک شیر خوار بچے کو اس کی ماں کی آنکھوں کے سامنے اس آگ میں جھونکا گیا ، پھر اس کی ماں کی باری آئی تو وہ ہچکچائی ، اس پر اس بچے نے بول کر کہا کہ ماں ! بلاتردد اس آگ میں داخل ہوجاؤ کہ تم حق پر ہو ، اسی طرح خاندان کے تمام افراد کو آگ میں ڈال کر ہلاک کردیا گیا ، حضور ﷺ نے فرمایا کہ مجھے بتلایا گیا کہ یہ اس خاندان کا مقام ہے جہاں سے اتنی خوشبو آرہی ہے ۔ (امام الانبیاء کا اعزاز) پچھلے درس میں بیان ہوچکا ہے کہ حضور ﷺ نے مختلف آسمانوں پر مختلف انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے ملاقات کی ، پھر جب آسمانوں کی سیر کے بعد واپس بیت المقدس پہنچے تو دیکھا کہ انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام نماز پڑھ رہے ہیں ۔ ابھی میں نے اتنا ہی خیال کیا تھا کہ ان کی امامت کون کرائے گا تو جبرائیل (علیہ السلام) نے مجھے پکڑ کر آگے مصلے پر کھڑا کردیا پھر میں نے تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو نماز پڑھائی ، حدیث کے الفاظ میں ” فاممتھم “۔ یعنی میں نے ان کی امامت کرائی یہ بھی حضور ﷺ کا بہت بڑا اعزاز ہے کہ آپ امام الانبیاء ہیں ۔ (موسی (علیہ السلام) کے لیے تورات) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر توراۃ ملنے کا تذکرہ مختلف سورتوں میں کیا گیا ہے یہاں بھی اس واقعہ کا مختصر ذکر ہے ، واقعہ معراج سے اس کا ربط یوں ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر تورات عطا کی تھی ، اسی طرح اللہ نے اپنے پیغمبر آخرالزماں کی عزت افزائی کے لیے معراج کے موقع پر بلند تیرین مقام تک پہنچایا تو اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر تورات کے نزول کا ذکر فرمایا (آیت) ” واتینا موس الکتب “۔ اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب تورات عطا فرمائی ، تورات کا ذکر دراصل نزول قرآن کی تمہید ہے جس کا ذکر اسی رکوع کے آخر میں بایں الفاظ آرہا ہے (آیت) ” ان ھذا القران یھدی للتی ھی اقوم “۔ اللہ کی یہ آخری کتاب قرآن مجید بہترین راستہ کی طرف راہنمائی کرتی ہے ، اسی طرح تورات کے متعلق یہاں فرمایا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دی (آیت) ” وجعلنہ ھدی البنی اسرآئیل “۔ اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ذریعہ ہدایت بنایا ۔ (آسمانی کتب کا لب لباب) اور واضح کردیا کہ اس کی تعلیمات کا لب لباب یہ ہے (آیت) ” الا تتخذوا من دونی وکیلا “۔ کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ بنانا ، قرآن پاک کی تعلیم بھی یہی ہے ، ابتدائی زمانے کی سورة مزمل میں فرمایا (آیت) ” لا الہ الا ھو فاتخذہ وکیلا “۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں لہذا کارساز بھی اسی کو پکڑو ، گویا اللہ کی توحید ہی تمام کتب سماویہ کا نچوڑ ہے خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو کارساز نہ سمجھا جائے ، اس کے علاوہ کوئی کسی کی بگڑی نہیں بنا سکتا ، نہ کوئی مافوق الاسباب تصرف کرسکتا ہے کوئی نافع اور ضار نہیں ، خدا کے سوا قادر مطلق اور عالم الغیب بھی کوئی نہیں ، کوئی اس لائق نہیں کہ اسے اپنی حاجات میں غائبانہ طور پر پکارا جائے ، تو تورات میں بنی اسرائیل کو یہی بات سمجھائی گئی ہے تحریف شدہ تورات میں اب بھی اس قسم کی آیات موجود ہیں کہ اے بنی اسرائیل میں تمہارا غیور خدا ہوں ، میرے ساتھ کسی کو عبادت میں شریک نہ بنانا ، اسی مسئلہ میں آکر اکثر لوگ پھسل جاتے ہیں ، اس وقت دنیا کی چار ارب آبادی کفر وشرک میں مبتلا ہے یاد رکھو ، خدا کا شریک بنانا سب سے بڑا گناہ ہے ، دنیا میں بمشکل پانچواں حصہ ایسا ہوگا جو توحید کا مانتا ہے ، مگر اس کے ماننے والوں کی اکثریت بھی کسی نہ کسی طرح شرک میں ملوث ہے اور خالص توحید کو ماننے والے بہت کم ہیں ، اسی لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو کار ساز نہ بناؤ ۔ (نوح (علیہ السلام) کی شکر گزاری) آگے اللہ تعالیٰ نے مشرکین عرب کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلائی ہے (آیت) ” ذریۃ من حملنا مع نوح “۔ تم ان لوگوں کی اولاد ہو جن کو ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سوار کرایا تھا بنی اسرائیل کو خطاب ہے کہ تمہارے آباؤ اجداد نوح (علیہ السلام) پر ایمان لانے اور طوفان نوح سے بچ جانے والے لوگ ہیں اور نوح (علیہ السلام) (آیت) ” انہ کان عبدا شکورا “۔ اللہ کے شکر گزار بندے تھے وہ اور آپ کے ماننے والے اسی شکر گزاری کی بنا پر بچ گئے اور پھر ان سے آگے نسل انسانی چلی اور جو لوگ مشرک اور ناشکر گزار تھے ان کو اللہ نے پانی میں غرق کردیا ، لہذا اے بنی اسرائیل ! خبردار ہو کہ اگر تم نے بھی اللہ ناشکری کی تو تمہارا انجام بھی قوم سے مختلف نہیں ہوگا لہذا شکر گزاری کو اپنا وطیرہ بنا لو ، اس شکر گزاری کا پہلا فرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کیا جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا جائے نہ عبادت میں ، نہ پکار میں اور نہ نذر ونیاز میں شکر ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق ارشاد خداوندی ہے (آیت) ” لئن شکرتم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید “۔ (ابراھیم) اگر میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو میں مزید عطا کروں گا ، اور اگر ناشکری کرو گے تو پھر عذاب بھی بڑا سخت ہے بہرحال شکر کی اولین شرط توحید باری تعالیٰ کو تسلیم کرنا ہے ۔ نوح (علیہ السلام) کی شکر گزاری کا عالم یہ تھا کہ آپ کوئی چھوٹا یا بڑا کام اللہ کے ذکر اور اس کی تعریف کے بغیر نہیں کرتے تھے ، آپ نے لمبی عمر پائی پھر تکالیف اٹھائیں مگر ہمیشہ صبر کا دامن تھامے رکھا اور اللہ تعالیٰ کا ہر حالت میں شکر ادا کرتے رہے شفاعت والی حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن لوگ نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور عرض کرے گے ” انت اول الرسل الی اھل الارض “۔ آپ اہل زمین کی طرف مبعوث ہونے والے اولین رسول ہیں ، ” وقد سماک اللہ عبدا شکورا “۔ اور اللہ نے آپ کا لقب شکر گزار بندہ رکھا ہے لہذا آپ ہماری اللہ کے ہاں سفارش کریں مگر آپ کہیں گے کہ میں اس مقام کا اہل نہیں ہوں ” اذھبوا الی غیری “ کسی دوسرے کے پاس جاؤ ، بہرحال اللہ نے نوح (علیہ السلام) کو عبدشکور کہا ہے اور بنی اسرائیل کو یاد دلایا ہے کہ تم اس جلیل القدر نبی کی اولاد میں سے ہو ، لہذا تمہیں عبرت حاصل ہونی چاہئے کہ طوفان نوح میں صرف وہی لوگ بچ سکے جو اپنے نبی کے متبع اور شکر گزار تھے ۔ (شکر کی تعریف) جس طرح صبر ، اللہ کا ذکر اور شعائر اللہ کی تعظیم اصول دین میں سے ہے اسی طرح شکر بھی دین کا اہم جزو ہے جس کی بڑی تلقین کی گئی ہے ، بزرگان دین فرماتے ہیں کہ عام لوگوں کا شکر زبان سے ہوتا ہے ، عابد لوگوں کا اعمال سے اور عارف لوگوں کا شکر استقامت احوال سے ہوتا ہے ، حضرت جنید بغدادی (رح) فرماتے ہیں کہ میں ابھی سات آٹھ سال کی عمر میں تھا کہ مجھے میرے استاد اور ماموں حضرت سری (رح) نے پوچھا ، بیٹا ، شکر کیا ہوتا ہے ، فرماتے ہیں کہ حضرت استاد کی صحبت سے اتنا فیض حاصل ہوچکا تھا کہ میں نے جواب دیا حضرت ! شکر یہ ہے کہ اللہ کی کسی نعمت کو معصیت میں نہ لگایا جائے ، سری صاحب (رح) نے فرمایا تمہیں یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی کہنے لگے آپ کی مجلس میں بیٹھنے سے غرضیکہ خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کو اگر معصیت کے کام میں لگا دیا تو یہ اس نعمت کی ناشکر گزاری ہوگی ۔ ایک شخص نے حضرت سہل (رح) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا حضرت میرے ساتھ بہت برا سلوک ہوا چور گھر میں داخل ہو کر سارا مال ومتاع لوٹ کرلے گئے ہیں ، آپ نے جوابا فرمایا ، خدا کا شکر کرو کہ تمہارے مال کا ہی نقصان ہوا ہے ، اگر شیطان تمہارے دل میں داخل ہو کر توحید ہی کو خراب کر دے ، تو تم کیا کرو گے ؟ لہذا ایمان سلامت بچ جائے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ، ایک دفعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) کی خدمت میں ایک وفد آیا وفد میں سے ایک نوجوان نے گفتگو شروع کی تو آپ نے فرمایا ، بھائی ، کسی بڑے آدمی کو بولنے دو ، وہ نوجوان کہنے لگا کہ اگر بات چیت کا دارومدار صرف بڑوں پر ہی ہے تو پھر آپ مسند خلافت پر کیسے متمکن ہیں جب کہ آپ سے بڑی عمر کے بہت سے لوگ موجود ہیں ، اس پر آپ نے اسے گفتگو جاری رکھنے کی اجازت دیدی ، وہ نوجوان بولا ، ہم نہ تو کسی چیز کے حصول کے لیے آئے ہیں اور نہ ہی ہمیں کسی قسم کا خوف یہاں تک کھینچ لایا ہے جہاں تک ہمارے حق کا تعلق ہے ، وہ تو ہمیں ہمارے علاقے میں ہی مل جاتا ہے کیونکہ ؤپ کسی کا حق ضائع نہیں کرتے ، اور خوف ہمیں اس لیے نہیں کہ آپ کے عدل نے اسے یقینی بنا دیا ہے ، ایک چیز سے آپ کے فضل نے ہمیں فائدہ پہنچایا ہے اور دوسری چیز عدل نے ہمیں مامون کیا ہے ، حضرت عمر بن عبدالعزیز (رح) نے پوچھا ، پھر آئے کس لیے ہو ؟ کہنے لگے کہ ہم آپ کا شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ توفیق بخشی ہے کہ آپ خلیفہ عادل ہیں اور تمام مخلوق کی آرام و آسائش کا خیال رکھتے ہیں ۔ (اللہ کے شکر گزار بندے) بزرگان دین فرماتے ہیں کہ کوئی شخص صحیح معنوں میں اللہ کی کسی نعمت کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا مگر اللہ تعالیٰ تھوڑے سے شکر پر ہی راضی ہوجاتا ہے ، اللہ نے آل داؤد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا (آیت) ” اعملوا ال داؤد شکرا وقلیل من عبادی الشکور “۔ (سبا) اے داؤد (علیہ السلام) کے گھر والو اللہ کا شکر ادا کیا کرو کہ میرے بندوں میں شکر گزار بندے بہت قلیل تعداد میں ہیں ، ترمذی شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ شدید سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے اور رات کی نماز میں طویل قیام کی وجہ سے حضور ﷺ کے پاؤں پھٹ جاتے تھے اور ان میں ورم آجاتا تھا ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا ، حضور ﷺ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت بڑی فضیلت عطا فرمائی ہے حتی کہ سورة فتح میں آپ کی اگلی پچھلی تمام لغزشوں کی معافی کا اعلان فرما دیا ہے ، پھر آپ اس قدر تکلیف کیوں اٹھاتے ہیں کہ آپ کے پاؤں متورم ہوجاتے ہیں ، آپ ﷺ کا جواب یہ تھا (آیت) ” افلا اکون عبدا شکورا “۔ کیا میں اللہ کا شکرگرازبندہ نہ بنوں ؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بیشمار انعامات سے نوازا ہے ، اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو انسان کے ایک ایک بال کے ساتھ اس قدر نعمتیں ہیں کہ وہ عمر بھر ان کا شکریہ ادا نہیں کرسکتا ، باقی نعمتوں کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا ، اللہ نے وجود بخشا ہے ، جسمانی اور دماغی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں ۔ مال واسباب ، زمین مکان ، ملازمت ، اور اولاد عطا کی ہے ، مگر انسان نعمتوں کا شکریہ کیسے ادا کرسکتا ہے ؟ ان نعمتوں کے شکریہ کی صورت یہ ہے کہ انسان ان نعمتوں کو اطاعت کے کاموں میں لگائے اور دل میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا پختہ یقین رکھے ، شرک کفر اور معاصی سے بیزار رہے ۔ آثار میں آتا ہے کہ حضرت داؤد (علیہ السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اے پیغمبر ! ﷺ میں تو تیرا شکریہ کسی طرح بھی ادا نہیں کرسکتا کیونکہ شکریہ ادا کرنا بھی تیری ایک نعمت ہے ، اور جب بھی میں شکر ادا کرتا ہوں تو ایک اور نعمت تلے دب جاتا ہوں ، اللہ نے فرمایا ، اے داؤد ! اب تم نے مقام شکر کو پالیا ہے انسان کی طرف سے عجزوانکساری کا اظہار ہی بہت بڑا شکر ہے ، اگر اور کچھ نہیں تو انسان کو زبان سے تو بہرحال اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ جب کوئی بندہ کھانا کھاتا ہے یا مشروب پیتا ہے اور پھر (آیت) ” الحمد للہ “ کہہ کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بندے سے راضی ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے میرا شکریہ ادا کیا ہے ۔
Top