Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 34
وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗ١۪ وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ١ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْرَبُوْا : اور پاس نہ جاؤ مَالَ الْيَتِيْمِ : یتیم کا مال اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : اس طریقہ سے ھِيَ : وہ اَحْسَنُ : سب سے بہتر حَتّٰى : یہاں تک کہ يَبْلُغَ : وہ پہنچ جائے اَشُدَّهٗ : اپنی جوانی وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِالْعَهْدِ : عہد کو اِنَّ : بیشک الْعَهْدَ : عہد كَانَ : ہے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور نہ قریب جاؤ تم یتیم کے مال کے مگر اس (طریقے) کے ساتھ جو بہتر ہے ، یہاں تک کہ وہ پہنچ جائے جوانی کو ، اور پورا کرو عہد کو ہے سوال کیا گیا ۔
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے معاشرتی نظام کے جو پندرہ قوانین ان دو رکوعوں میں بیان فرمائے ہیں ان میں سے دس قوانین گذشتہ دروس میں بیان ہوچکے ہیں گذشتہ درس میں تین دفعات بیان ہوئی تھیں یعنی قتل ناحق ، زنا اور اسراف فی القتل کی ممانعت ۔ اب آج کے درس میں مزید تین اصول آرہے ہیں یعنی یتیم کے مال کی حفاظت ، ایفائے عہد اور ماپ تول میں دیانت ، اس کے بعد اگلے درس میں آخری دو اصول بیان ہو کر پندرہ کی گنتی پوری ہوجائے گی ، (11) (یتیم کے مال کی حفاظت) گیارہواں اصول یہ ہے (آیت) ” ولا تقربوا مال الیتیم الا بالتی ھی احسن “۔ اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر درست طریقے سے جو بہتر ہے یتیموں کی پرورش نگہداشت اور حسن سلوک کے احکام سورة بقرہ ، سورة نساء ، اور بعض دیگر سورتوں میں بھی بیان فرمائے جا چکے ہیں اور ان کا ایک حصہ یہاں بھی موجود ہے کمزور طبقات میں یتامی کی نگہداشت اور ان کے مال کی حفاظت کے متعلق بڑے سخت احکام نازل فرمائے ہیں جیسے سورة النساء میں ہے (آیت) ” ان الذین یاکلون اموال الیتمی ظلما انما یاکلون فی بطونھم نارا وسیصلون سعیرا “۔ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ گویا اپنے پیٹوں میں دوزخ کی آگ ڈال رہے ہیں ، عنقریب ایسے لوگ جہنم میں داخل کیے جائیں گے ، سورة بقرہ میں یتیموں کے مال کو اپنے مال کے ساتھ اس صورت میں ملانے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ یتیم کا سرپرست یہ کام یتیم کی بہتری کو محلوظ خاطر رکھ کر کرے ، مثلا اپنے ساتھ کھیتی باڑی یا صنعت یا تجارت میں لگا دے کہ جس سے یتیم کا مال ضائع ہونے کی بجائے بڑھتا رہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت) ” وان تخالطوھم فاخوانکم “۔ (البقرہ : 220) اگر تم نیکی نیتی سے ان کے مال کو ملاؤ گے تو وہ تمہارے بھائی ہیں ، ان کی ہمدردی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کرو تاکہ ان کا مال نہ صرف محفوظ رہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا رہے ، آج کے افراط زر کے دور میں اگر کوئی رقم جوں کی توں پڑی رہے تو خرچ نہ کرنے کے باوجود اس میں کمی واقع ہوتی رہتی ہے ، اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ محفوظ رقم کی قوت خرید میں کمی کا باعث بنتا ہے ، لہذا اب یہ ضروری ہوگیا کہ نقد رقم کو کسی کاروبار میں لگایا جائے اگر اس کی قوت خرید میں اضافہ نہیں تو کمی بھی تو واقع نہ ہو ، غرضیکہ یتیموں کے مال کو ان کی بہتری کے لیے اچھے مصرف میں لگانے کی اجازت دی گئی ہے ، اسی طرح ان کے راشن کو سرپرست کے راشن میں ملا لینا کہ اس سے یتیم کے خرچہ میں بچت ہوگی یہ بھی درست ہے ، برخلاف اس کے اگر کوئی شخص یتیم کے مال کو اپنے مال کے ساتھ بدنیتی سے ملاتا ہے تاکہ یتیم کا مال خود ہضم کرسکے تو اس کی سختی سے مذمت بیان کی گئی ہے (آیت) ” ولا تاکلوا اموالھم الی اموالکم “۔ (النسآء 2) یتیموں کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ (آیت) ” واللہ یعلم المفسد من المصلح “۔ (البقرہ : 220) اللہ تعالیٰ فسادی اور اصلاح کنندہ کو خوب جانتا ہے ، اسے خوب علم ہے کہ کون یتیموں کا خیرخواہ اور کون ان کا بدخواہ ہے ، بعض ناہنجار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو یتیموں کے مال کو جلدی جلدی خرچ کرتے ہیں تاکہ ان کے سن بلوغت تک پہنچنے سے پہلے پہلے ہی ختم ہوجائے ، اسی لیے اللہ نے یہ بھی فرمایا (آیت) ” ولا تاکلوھا اسرافا وبدارا ان یکبروا “۔ (النسآ 60) یتیموں کا مال مت کھاؤ فضول خرچی کرکے اور جلدی کرکے کہ بالغ ہونے پر مال ان کے سپرد کرنا پڑیگا فرمایا اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنا (آیت) ” انہ کان حوبا کبیرا “۔ (النسائ 20) بڑے گناہ کی بات ہے جس کا بھگتان کرنا پڑے گا ۔ قرآن اولی میں یتمی کے مسائل زیادہ ترجہاد میں شہید ہوجانے والے لوگوں کی وجہ سے پیدا ہوتے تھے شہدا کے بچوں کے ساتھ حسن سلوک اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ مسلمانوں میں جذبہ جہاد بیدار رہے ، اگر شہدا کے پس ماندگان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوگا تو جذبہ جہاد سست پڑجانے کا خطرہ تھا لہذا اللہ تعالیٰ نے یتیموں کی نگہداشت کے قانون پر سختی سے علمدار کا حکم دیا اس سلسلے میں حضور ﷺ نے ترغیب بھی دی ہے فرمایا ” خیر بیت من بیوت المسلمین فیہ یتیم یحسن علیہ “۔ مسلمانوں کے گھروں میں بہتر گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم زیر پرورش ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو ، آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کے گھروں میں برا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو مگر اس سے بدسلوکی کی جاتی ہو۔ (یتیم کا سن بلوغت) فرمایا یتیم کے مال کی اس وقت تک نگرانی کرتے رہو (آیت) ” حتی یبلغ اشدہ “۔ یہاں تک کہ وہ اپنی قوت کو پہنچ جائے ، یتیم کے قوت ، جوانی یا سن بلوغت تک پہنچنے کی مدت میں فقہائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے ، بعض بچپن میں ہی باشعور ہوتے ہیں اور وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی صلاحیت جلدی حاصل کرلیتے ہیں البتہ بعض ناسمجھ بھی ہوتے ہیں اور ان کے مال کی نگہداشت کے لیے زیادہ عرصہ مطلوب ہوتا ہے ، اسی لیے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ سرپرست پچیس 25 سال کی عمر تک مال کی نگرانی کرے اور اس کے بعد مال یتیم کے حوالے کر دے بعض آئمہ اس سے بھی زیادہ عرصہ کے قائل ہیں تاکہ یتیم کا مال ضائع ہونے سے بچ جائے ہاں اگر بچہ باصلاحیت ہے اپنے مال کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھا سکتا ہے تو 14 ۔ 15 سال کی عمر میں بھی اس کا مال اس کے حوالے کیا جاسکتا ہے ، ” اشد “ کے لفظ میں یہی بات سمجھائی گئی ہے اور یہ بھی آتا ہے کہ ” لایتم بعد البلوغ یعنی سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد یتیمی باقی نہیں رہتی ، چونکہ بعض لوگوں میں ضعف ہوتا ہے ، دماغی صلاحیت زیادہ نہیں ہوتی اس لیے یتیم کی عمر میں رعایت برتنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ (ابوذرغفاری ؓ کو نصیحت) حضور ﷺ نے حضرت ابوذر غفاری ؓ سے (1) (مسلم ص 121 ج 23 (فیاض) سے فرمایا ” انی ارک ضعیفا وانی احب لکم ما احب نفسی میں تجھے کمزور آدمی خیال کرتا ہوں ، اور میں تمہارے لیے وہی چیز پسند کرتا ہوں جو اپنے لیے پسند کرتا ہوں ، فرمایا ” لا تولین علی اثنین ولا تولین مال الیتیم “ کبھی دو آدمیوں پر بھی حاکم نہ بننا اور کسی یتیم کی سرپرستی قبول نہ کرنا ، حضرت ابوذرغفاری ؓ جسمانی لحاظ سے کمزور نہ تھے بلکہ آپ کی کمزور یہ تھی آپ کی طبعیت میں جوش غضب اور غصہ رہتا تھا اور آپ جذب والی کیفیت طاری رہتی تھی ۔ حضور ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ حاکمیت کے لیے طبیعت میں ٹھہراؤ اور سوچ بچار کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ آپ کی طبعیت میں جوش وغضب تھا ، تو ایسی حالت میں صحیح فیصلے کی توقع نہیں کی جاسکتی اس لیے فرمایا کہ تم حاکمیت کو قبول نہ کرنا اسی طرح یتیم کی پرورش اور اس کے مال کی حفاظت کے لیے بھی ٹھنڈے دل کی ضرورت ہوتی ہے ، ہو سکتا ہے کہ گرم طبعیت آدمی یتیم کی کوئی جائز ضرورت بھی پوری کرنے سے انکار کر دے یا طبعیت میں لا ابالی کی وجہ سے اس کا مال ہی ضائع کر دے ، اس لیے آپ نے ان دونوں چیزوںٗ سے منع فرما دیا ، البتہ جہاں تک حضرت ابوذر غفاری ؓ کے زہد وتقوی کا تعلق ہے حضور ﷺ نے آپ کی بڑی تعریف کی ہے ، فرمایا گرد آلود زمین اور نیلے آسمان کے درمیان ابوذر غفاری ؓ سے سچا کوئی آدمی نہیں اور یہ زہدوتقوی اور پرہیز گاری میں عیسیٰ ابن مریم (علیہا السلام) سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ بہرحال فرمایا کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر اس طریقے کے ساتھ جو بہتر ہے ، معاشرے کی درستگی کا انحصار اس بات پر ہے کہ کمزور طبقات کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے اور اس معاملہ میں یتامی سرفہرست ہیں ۔ (1) (ایفائے عہد) اللہ نے بارہواں اصول یہ بیان فرمایا ہے (آیت) ” واوفوا بالعھد “ اور عہد کو پورا کرو کیونکہ (آیت) ” ان العھد کان مسئولا “۔ بیشک عہد کے متعلق پوچھا جائے گا کہ تم نے پورا کیا یا نہیں قرآن پاک میں ایفائے عہد کی جگہ جگہ تاکید کی گئی ہے مثلا سورة مائدہ کی پہلی آیت میں فرمایا (آیت) ” اوفوا بالعقود “ اپنے عہدوں کو پورا کرو ، سورة الانعام میں ہے (آیت) ” وبعھد اللہ اوفوا “۔ کے ساتھ کیے گئے عہد کو پورا کرو اور یہاں منشور اسلامی میں اس کا بارہواں نمبر ہے عہدعام میں ہوتا ہے اور خاص میں بھی مفسرین کرام بیان کرتے ہیں کہ ایک مومن آدمی جب اپنی زبان سے کلمہ شہادت ادا کرتا ہے ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ “۔ تو وہ گویا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول سے عہد کرتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی تعمیل کرے گا اور ان کی ہدایت کی پیروی کرے گا ، اللہ نے سورة الانعام اور دوسری سورتوں میں بھی فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت ، رسالت اور قیامت سے متعلق عہد و پیمان کی باز پرس ہوگی ۔ انسان اللہ کے ساتھ بصورت نذر بھی عہد کرتا ہے کہ فلاں کام کروں گا اب یہ بھی اس کے ذمہ لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اس عہد کو پورا کرے روز مرہ زندگی میں انفرادی اور اجتماعی بیشمار قسم کے عہد و پیمان ایک دوسرے کے ساتھ کیے جاتے ہیں ، خرید وفروخت لین دین ، قرضہ ، امانت ، نکاح طلاق سب عہد میں جن کا ایفا ضروری ہے ، اسی طرح حکومتی سطح پر بھی ملکی جماعتوں یا غی ملکی حکومتوں کے ساتھ عہد کیے جاتے ہیں ، ان سب کا پورا کرنا لازم ہے ، بشرطیکہ جائز ہوں اور ان میں حلال و حرام یا حرام کو حلال نہ بنایا گیا ہو جو شخص جماعت یا حکومت عہد کی خلاف ورزی کرے گی ، وہ غدار سمجھی جائے گی اور رسول اللہ ﷺ کا فرمان یہ ہے ” لا تغدروا “ غداری مت کرو کہ یہ بہت بڑا جرم ہے البتہ سورة انفال میں اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ کوئی عہد و پیمان کرنے کے بعد اگر تم سمجھتے ہو کہ اسے نبھا نہیں سکتے (آیت) ” بانبذ الیھم علی سوآء “ اگر دوسری قوم کی طرف سے بدعہدی کا خطرہ ہو تو آپ ان کے عہد کو ان کی طرف برابر سرابر پھینک دیں یعنی اس معاہدے کے خاتمے کا اعلان کردیں اور اس کے بعد جو کاروائی مناسب سمجھیں کریں بہرحال عہد کی پابندی ضروری ہے ، عہد شکنی نفاق کی علامت ہے ، حضور ﷺ نے (1) (الترغیب والترھیب ص 10 ج 4) فرمایا کہ عملی منافق کی ایک نشانی یہ ہے ” اذا عاھد غدر “۔ جب وہ عہد کرتا ہے تو غداری کرتا ہے ، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے ، اور اگر اس سے جھگڑا ہوجائے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے ۔ (13) (ماپ تول میں دیانت) اسلامی معاشرے کا تیرہواں اصول اللہ نے یہ بیان فرمایا ہے (آیت) ” واوفوا الکیل اذا کلتم “۔ اور پورا کرو ماپ کو جگ تم کوئی چیز ماپتے ہو ، اس میں کمی بیشی نہ کرو ، اور جب کسی چیز کالین دین بذریعہ وزن ہو ۔ (آیت) ” وزنوا بالقسطاس المستقیم “۔ تو سیدھے ترازو کے ساتھ پورا پورا وزن کرکے دو اس میں ڈنڈی مارنے کی قطعا اجازت نہیں ، ایسا کرنا خیانت ہے جو کہ حرام ہے ، قرآن پاک میں موجود ہے کہ بعض قومیں ماپ تول میں کمی کی وجہ سے ہلاک ہوئیں جن میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کے ایکہ اور مدین والے لوگ سرفہرست ہیں یہ لوگ بین الاقوامی شاہراہ پر آباد تھے تاجر پیشہ تھے ، مگر ماپ تول میں خیانت کرتے تھے مدینہ کے اطراف میں یہودی بھی تاجر پیشہ تھے اور یہ خرابی ان میں بھی پائی جاتی تھی ، اللہ تعالیٰ نے سورة المطففین میں سخت وعید فرمائی (آیت) ” ویل للمطففین “۔ ہلاکت ، تباہی اور بربادی ہے ماپ تول میں کمی بیشی کرنے والوں کے لیے ، جب اپنا حق لینا ہو تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب لوگوں کا حق ادا کرنا ہو تو اس میں ڈنڈی مار جاتے ہیں ، یہ بڑی ہی قبیح حرکت ہے ۔ ترمذی شریف کی روایت (2) (ترمذی ص 196) (فیاض) میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضور ﷺ بازار میں تشریف لے گئے اور تاجروں سے یوں خطاب فرمایا ” ما معشر التجار قدولیتم امرین ھلکت فیہ الامم السابقۃ قبلکم “۔ اے تاجروں کے گروہ ! تمہیں دو چیزوں کا ذمہ دار بنایا گیا ہے جن کی وجہ سے کئی سابقہ اقوام ہلاک ہوئیں ، فرمایا وہ دو چیزیں (آیت) ” المکیال والمیزان “۔ ماپ اور تول ہیں ، سابقہ قومیں ان دو چیزوں میں کمی بیشی کی وجہ سے عذاب کی مستحق ٹھہریں ، لہذا تمہیں آگاہ کرتا ہوں کہ تم ان کے نقش قدم پر نہ چلنا اور کسی کا حق ضائع نہ کرنا ، حضرت شعیب (علیہ السلام) کے واقعہ میں موجود ہے کہ جب آپ لوگوں کو اس قبیح فعل سے منع کرتے تو وہ کہتے اے شعیب (آیت) ” اصلوتک تامرک ان نترک ما یعبد ابآؤنا اوان نفعل فی اموالنا مانشؤا “۔ کیا تمہاری نماز تمہیں حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے آباؤ و اجداد کے معبودوں کو چھوڑ دیں یا اپنے مالوں میں اپنی مرضی کا تصرف کرنا ترک کردیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کا غضب نازل ہوا اور ساری قوم ہلاک ہوگئی ، ماپ تول میں کمی بیشی عام طور پر تاجر لوگوں کا کام ہے یہ دھوکہ دینے کے مترادف ہے جو کہ قطعی حرام فعل ہے ، جھوٹے دعوے اور جھوٹی قسمیں اٹھانے سے برکت اٹھ جاتی ہے اور مال کی تباہی قریب آجاتی ہے ، فرمایا جھوٹی قسم مال کو تو چلا دیگی مگر برکت کو بالکل مٹا دیگی ، ایسا سرمایہ غلط کاروبار میں ہوگا اور پھر مال حرام بود بجائے رفت “ والا مقولہ صادق آئے گا ، ہیرا پھیری اور دھوکے فریب سے کمایا ہوا پیسہ باطل رسوم اور لہو ولعب میں ہی ضائع ہوجاتا ہے ، لہذا لین دین اور تجارت میں دیانت کو برقرار رکھنا چاہئے کہ اسی میں انسانی حقوق کا تحفظ اور برکت ہے ۔ جب کوئی شخص حضور ﷺ کی موجودگی میں کوئی مال ماپتا یا تولتا تو آپ فرماتے ” زن وارجح “ یعنی تولو اور زیادہ ہی دو ، کم نہ دو اسی لیے اللہ نے فرمایا ہے کہ ماپتے وقت پورا پورا اور وزن کرتے وقت سیدھے ترازو کے ساتھ کرو (آیت) ” ذلک خیر “ یہی بہتر ہے (آیت) ” واحسن تاویلا “ اور انجام کے اعتبار سے بھی اچھا ہے ، اس طرح لوگوں کے حقوق ادا ہوتے رہیں گے کہ ان حقوق کی ادائیگی کے بعد ” بقیت اللہ خیرلکم ان کنتم مؤمنین “۔ (ہود) جو کچھ بچ جائے وہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو ، ایماندار تاجر کے متعلق حضور کا فرمان (1) (سنن دارمی ص 163 ج 2 و ترمذی ص 195 (فیاض) ہے ” التاجر الصدوق الامین مع النبین والصدیقین والشھدآء “ سچے اور امانت دار تاجر کا حشر نبیوں ، صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا تاجروں کا فرض ہے کہ وہ کاروبار میں دیانت وامانت کی پاسداری کریں کسی کو دھوکے سے ناقص مال فروخت کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ اگر کوئی نقص ان کے نوٹس میں آگیا ہے تو گاہک کو واضح طور پر بتلا دیں کہ بھائی اس مال میں یہ خامی ہے ، اسی لیے فرمایا کہ ماپ تول میں پورا پورا دنیا انجام کے اعتبار سے بہتر ہے ۔
Top