Mualim-ul-Irfan - Al-Israa : 36
وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ١ؕ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰٓئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًا
وَلَا تَقْفُ : اور پیچھے نہ پڑ تو مَا لَيْسَ : جس کا نہیں لَكَ : تیرے لیے۔ تجھے بِهٖ : اس کا عِلْمٌ : علم اِنَّ : بیشک السَّمْعَ : کان وَالْبَصَرَ : اور آنکھ وَالْفُؤَادَ : اور دل كُلُّ : ہر ایک اُولٰٓئِكَ : یہ كَانَ : ہے عَنْهُ : اس سے مَسْئُوْلًا : پرسش کیا جانے والا
اور نہ پیچھے پڑو اس چیز کے جس کا تمہیں علم نہیں ہے بیشک کان ، آنکھیں ، اور دل ، ان سب سے سوال کیا جائے گا۔
(14) (تحقیق کی ضرورت) اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کے سلسلے میں اب تک تیرہ اصول بیان کیے جا چکے ہیں اب چودھواں اصول یہ ہے (آیت) ” ولا تقف مالیس لک بہ علم “۔ جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو ، مطلب یہ ہے کہ بلا تحقیق کسی چیز کو نہ دل میں جگہ دو ، نہ زبان سے نکالو اور نہ اس پر عمل کرو حضور ﷺ کا فرمان (1) (مسلم ص 8 ج 1 (فیاض) ہے ’ کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع “۔ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بلاتحقیق آگے چلا دے ، مثلا یہ ہے کہ کوئی شخص بغیر تحقیق کیے گواہی دے دے ، کسی پر تہمت لگا دے ، بغیر تحقیق کسی سے نفرت وعداوت رکھے یا ایذا پہنچائے ، رسومات باطلہ کی اندھی تقلید بھی اسی فہرست میں آتی ہے کیونکہ یہ بھی قوم ، برادری یا آباؤ اجداد سے منسوب بلاتحقیق کی جاتی ہے ، ان دیکھی اور ان سنی باتوں کو اس طرح بیان کرنا گویا کہ وہ چشم دید ہیں خلاف حق باتوں کی حمایت اور جھوٹا خواب بیان کرنا سب ایسی باتیں ہیں جو بلاتحقیق عمل درآمد متعلق پورا پورا علم حاصل کرے اور پھر اس کے متعلق کوئی فیصلہ کرے محض اٹکل پچو اور غیر یقینی باتوں پر حکم دینا یا اس پر عمل کرنا ہرگز روا نہیں ، یہ تو جھوٹا ہونے کی علامت ہے اور وہ شخص اللہ کے ہاں ماخوذ ہوگا ۔ (کان آنکھ اور دل کے متعلق سوال) فرمایا (آیت) ” ان السمع والبصر والفؤاد “۔ بیشک کان ، آنکھ اور دل (آیت) ” کل اولئک کان عنہ مسئولا “۔ ان سب سے سوال کیا جائے گا ، انسان سے پوچھ گچھ ہوگی کہ اس نے اللہ کی ان نعمتوں کو غلط طور پر کیوں استعمال کیا وہم و گمان پر مبنی غلط باتیں کانوں میں کیوں ڈالیں ؟ آنکھ جیسی عظیم نعمت سے غلط چیزوں کو کیوں دیکھا اور دل تو بہت بڑی دولت ہے جو اللہ نے انسان کے سینے میں رکھی ہے ، اعتقاد ، اخلاق ، عزم اور قوت عملیہ کا مرکز دل ہی ہے ، اگر یہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگر جاتا ہے اور یہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے ، اس کے متعلق بھی باز پرس ہوگی کہ اتنی بڑی نعمت کو غلط سوچ اور غلط کاموں پر کیوں لگایا ، سورة ہمزہ میں عذاب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا (آیت) ” نار اللہ الموقدۃ التی تطلع علی الافدۃ “۔ جہنم کی آگ کا اثر سب سے پہلے دل پر ہوگا کیونکہ مرکز اخلاق اور ہر فعل کا منبع دل ہی ہے ، اس لیے سب سے پہلے یہی ماخوذ ہوگا ۔ کان سنتے ہیں ، آنکھ دیکھتی ہے جب کہ دل غور وفکر کرتا ہے محبت ونفرت دل میں ہی پیدا ہوتی ہے عزم و ارادہ اسی سے وابستہ ہے توحید اور ایمان کا مرکز بھی یہی ہے کفر ، نفاق ، بداخلاقی ، حسد اور کینہ بھی یہی جہنم لیتے ہیں اور بغض وعداوت کا منبع بھی دل ہی ہے ، اگر اعتقاد کے معاملے میں دل کو غلط طور پر استعمال کرے گا تو اللہ کا ارشاد ہے ، (آیت) ” اولئک کالانعام بل ھم اضل “۔ ایسے لوگ جانوروں کی مانند ہیں یا ان سے بھی بدتر ، اسی دل کو صحیح طور پر استعمال نہ کرنے والے کافروں کے متعلق فرمایا (آیت) ” ان شرالدوآب عند اللہ الصم البکم الذین لا یعقلون “۔ (الانفال) یہ اندھی اور بہری بدترین مخلوق ہے جو عقل کو صحیح طور پر استعمال نہیں کرتی ، یہ ساری باتیں اللہ نے چودھویں اصول کے تحت بیان فرمائی ہیں ۔ (15) (اکڑ اور تکبر کی ممانعت) اللہ نے پندرہواں اصول یہ بیان فرمایا (آیت) ” ولا تمش فی الارض مرحا “۔ اور زمین میں اتراتے ہوئے مت چلو ، غرور اور اکڑ نہ دکھاؤ ، کیونکہ (آیت) ” انک لن تخرق الارض “ تم غرور وتکبر کر کے زمین کو نہیں پھاڑ سکتے ، اور نخوت کی بنا پر کتنا بھی سراونچا کرو (آیت) ” ولن تبلغ الجبال طولا “۔ تم پہاڑوں کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتے تمہارا قد پانچ چھ فٹ سے زیادہ نہیں ہو سکتا ، لہذا تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ خدا کی زمین پر اکڑ کر اور گردن اونچی کرکے چلو ، عاجزی اختیار کرنے والا شخص اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے نزدیک بھی قابل عزت ہوتا ہے ، مگر جو شخص غرور وتکبر کو اپناتا ہے اپنے آپ میں بڑا بننے کی کوشش کرتا ہے ، وہ اللہ اور اس کی مخلوق کے نزدیک ذلیل و خوار ہی ہوتا ہے ، ” من تواضع للہ رفعہ اللہ “ جو اللہ کی خاطر عاجزی کرے گا ، اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرے گا ” ومن تکبر کسرہ اللہ “۔ اور جو تکبر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی گردن توڑ دے گا اور کسی نہ کسی مرحلے میں وہ ذلیل ہو کر رہے گا ، اس کو دنیا میں بھی سزا ملے گی اور آخرت کا عذاب تو دائمی ہے ۔ قارون کے تکب کا ذکر خود قرآن میں موجود ہے ، اللہ نے اس کو خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا ، بخاری شریف میں حضور ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے کہ ایک آدمی بڑی خوشنما قسم کی دو بڑی چادریں پہنے جا رہا تھا ، غالبا ایک تہبند کے طور پر استعمال کی ہوگی اور دوسری اوپر اوڑھی ہوگی تو اللہ نے اس کے تکبر کی وجہ سے اسے زمین میں دھنسا دیا ” وھو یتجلجل الی یوم القیمۃ “۔ اور وہ قیامت تک دھنستا ہی چلا جائے گا ، جب قیامت برپا ہوگی تو اس کا قدم کہیں جا کر ٹکے گا ، اللہ نے عاد ، ثمود اور قوم فرعون جیسی متکبر قوموں کا ذکر بھی فرمایا ہے ان کے تکبر کی وجہ سے اللہ نے انہیں دنیا میں ہی سخت سزائیں دیں۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے زمین پر اکڑ کر چلنے سے منع فرمایا ہے ، اس کے برخلاف اللہ کے نیک بندوں کی یہ صفت بیان کی ہے (آیت) ” وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا “۔ (البرقان) اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں ، حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ جس انسان میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا ، تکبر ہمیشہ حق کے مقابلہ میں ہوتا ہے حضور ﷺ نے فرمایا ” الکبر بطرالحق وغمط الناس “۔ تکبر یہ ہے کہ حق بات کو ٹھکرا دیا جائے اور دوسروں کو حقیر سمجھا جائے سچی بات کو بلاسوچے سمجھے ٹھکرا دیا اور چھوٹے آدمیوں کی بات کو کوئی حیثیت نہ دینا تکبر کی علامت ہے حق یہ ہے کہ سچی بات خواہ کسی اعلی کیطرف سے ہو یا ادنی کی طرف سے اس کو تسلیم کرنا چاہئے ، جو شخص تکبر کی وجہ سے حق بات کو ٹھکراتا ہے اور کسی کو حقیر سمجھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتا ہے ۔ (اللہ تعالیٰ کی ناپسندگی ) زمین پر اترا کر چلنا منہیات میں داخل ہے ا س سے پہلے بھی بہت سی ممنوع باتوں کا ذکر ہوچکا ہے ، جیسے قتل اولاد ، قتل ناحق ، اسراف فی القتل ، زنا ، بدعہدی ، ماپ تول میں خرابی ، یتیم کا مال کھانا ، بلاتحقیق کسی چیز پر اعتقاد رکھنا ، زبان سے کہنا یا اس پر عمل کرنا ، ان سب کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” کل ذلک کان سیئہ عند ربک مکروھا “۔ کہ ان کی برائی تیرے پروردگار کے ہاں سخت ناپسندیدہ ہے تیرا رب ان سے بیزار ہے ، لہذا ان سے بچنے کی کوشش کرو ، فرمایا (آیت) ” ذلک ما اوحی الیک رب من الحکمۃ “۔ یہ ساری باتیں ان میں سے ہیں جو آپ کے پروردگار نے آپ کی طرف وحی کے ذریعے نازل فرمائی ہیں اور ہیں بھی یہ حکمت کی باتیں ان باتوں میں علم ، دانائی سمجھ اور فہم پایا جاتا ہے ، اللہ کے نزدیک حکمت بہت بڑی چیز ہے سورة البقرہ میں فرمایا (آیت) ” یؤتی الحکمۃ من یشآء ومن یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا “۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہے حکمت عطا کرے اور جسے حکم عطا کی جاتی ہے ، اسے بہت بڑی بھلائی حاصل ہوجاتی ہے ، امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ سنت ساری کی ساری حکمت ہے قرآن میں ان کی مختلف مقامات پر تشریح کی گئی ہے ، تو فرمایا کہ یہ جتنی باتیں بیان کی گئی ہیں ، یہ ان حکمت و دانش کی باتوں میں سے ہیں جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہیں ۔ (شرک سے بیزاری) اب آخر میں اللہ تعالیٰ نے پھر وہی بات کی ہے جو ان پندرہ اصولوں کی ابتداء میں کہی گئی تھی یعنی شرک کی تردید ، ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ولا تجعل مع اللہ الھا اخر “ اور نہ بناؤ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود ، اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو کسی کو نافع اور ضار نہ سمجھو ، مشکل کشا اور حاجت روا تسلیم نہ کرو اگر ایسا کرو گے (آیت) ” فتلقی فی جھنم “ تو جہنم میں ڈال دیے جاؤ گے (آیت) ” ملوما مدحورا “ ایسی حالت میں کہ ملامت کیے ہوئے اور دھکیلے ہوئے ہوں شرک میں مبتلا ہونا سخت ترین جرم ہے ، اللہ نے اپنے پاک نبیوں کے متعلق بھی فرمایا (آیت) ” لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخسرین “۔ (الزمر) اگر شرک کرو گے تو تمہارے اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوجاؤ گے ، ایمان اور اخلاص بڑی حقیقت ہے جس میں کسی صورت میں بھی خرابی نہیں آنی چاہئے ، اگر کفر ، شرک ، یا بدعقیدگی پیدا ہوگئی تو سارے نیک اعمال بھی ضائع ہوجائیں گے ، اللہ نے شرک کی تاکیدا دوبارہ تردید فرمائی ہے کہ خدا کے ساتھ کسی کو الہ نہ بناؤ ورنہ تمہارا ٹھکانہ جہنم ہوگا ۔ (شان خدا وندی میں گستاخی) آگے ایک بات کی طرف بھی اشارہ فرمایا (آیت) ” افاصفکم ربکم بالبنین “۔ بھلا کیا منتخب فرمایا ہے تمہارے پروردگار نے تمہیں بیٹوں کے ساتھ یعنی تم اپنے لیے بیٹے پسند کرتے ہو (آیت) ” واتخذ من الملئکۃ اناثا “۔ اور اس نے فرشتوں میں سے اپنی بیٹیاں بنالی ہیں یہ دراصل مشرکین کے باطل عقیدے کا رد ہے جو کہتے تھے کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں فرمایا کیسی بےعقلی کی بات ہے کہ لڑکیوں کو اپنے لیے تو پسند نہیں کرتے بلکہ اسے پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیتے ہیں مگر ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنے سے ذرا شرم نہیں کرتے ، یہ تو احمقانہ تجویز ہے ، فرشتے تو تذکیر وتانیث سے پاک اللہ کی مخلوق ہیں ، بھلا ان کو خدا کی بیٹیاں کیسے کہتے ہو ؟ فرمایا (آیت) ” انکم لتقولون قولا عظیما “۔ بیشک تم بہت بڑی ناشائستہ بات کہتے ہو ، خدا تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنا اور خاص طور پر بیٹیوں کی نسبت اس کی طرف کرنا جنہیں تم خود حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہو ، اللہ کے ساتھ بڑی بھاری گستاخی کی بات ہے ، دوسری جگہ اللہ کا فرمان ہے کہ خدا تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنا اس کی ناراضگی کا سبب ہے (آیت) ” تکاد السموت یتفطرن منہ وتنشق الارض وتخر الجبال ھدا “۔ (مریم) قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں (آیت) ” ان دعوا للرحمن ولد “۔ (مریم) کہ انہوں نے خدا کے لیے بیٹا تجویز کیا ہے ، یہ تو بڑی گستاخی کی بات ہے اللہ نے مشرکین کے باطل عقیدہ بنات کا رد بھی فرما دیا ہے اور پہ کار بند رہنے کی تلقین کی ہے ،
Top