Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 102
اَفَحَسِبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَنْ یَّتَّخِذُوْا عِبَادِیْ مِنْ دُوْنِیْۤ اَوْلِیَآءَ١ؕ اِنَّاۤ اَعْتَدْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِیْنَ نُزُلًا
اَفَحَسِبَ
: کیا گمان کرتے ہیں
الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا
: وہ جنہوں نے کفر کیا
اَنْ يَّتَّخِذُوْا
: کہ وہ بنالیں گے
عِبَادِيْ
: میرے بندے
مِنْ دُوْنِيْٓ
: میرے سوا
اَوْلِيَآءَ
: کارساز
اِنَّآ
: بیشک ہم
اَعْتَدْنَا
: ہم نے تیار کیا
جَهَنَّمَ
: جہنم
لِلْكٰفِرِيْنَ
: کافروں کے لیے
نُزُلًا
: ضیافت
کیا گمان کرتے ہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا کہ وہ ٹھہرائیں گے میرے بندوں کو میرے سوا اپنا کارساز بیشک ہم نے کیا ہے جہنم کافروں کے لیے مہمانی ۔
(خدا کی رحمت کا ذکر) اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء اور اولیاء کا ذکر فرما کر ان کے ایک مشترکہ نظریہ کو بیان کیا ہے کہ وہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار تھے اور انہوں نے اپنی ہر کارگزاری کو رحمت خداوندی پر محمول کیا اس سورة میں پہلا واقعہ اصحاب کہف کا بیان ہوا ہے ، وہ اللہ کے برگزیدہ بندے اور اس کے دوست تھے جنہوں نے عقیدہ توحید پر قائم رہنے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ کر غار میں پناہ لی ، انہوں نے اپنی قوم سے علیحدہ ہوتے وقت یہی کہا تھا کہ ہمارا تعلق صرف اللہ وحدہ لاشریک کے ساتھ ہے (آیت) ” ینشرلکم ربکم من رحمتہ “۔ وہ تمہارے لیے اپنی رحمت پھیلا دے گا اور تمہارے معاملہ میں تمہارے لیے آسانی پیدا کردیے گا ۔ آگے اسی سورة میں اللہ نے مومن اور کافر بھائی کا ذکر کیا ہے کافر مالدار اور دو باغوں کا مالک تھا جب کہ مومن آدمی نادار تھا پھر ایک دن باغ والے نے دیکھا کہ اس کی ہر چیز تباہ ہوچکی ہے تو مومن بھائی نے اس سے کہا کہ تو نے اپنے خالق کے ساتھ کفر کیا اور اس کی عطا کردہ نعمت کا شکریہ ادا کرنے کی بجائے اسے اپنی عقل اور محنت کا ثمرہ سمجھا ، اسے اللہ کی رحمت پر محمول نہ کیا تجھے چاہئے تھا کہ جب باغ میں داخل ہوتے تو یوں کہتے ” ماشآء اللہ لا قوۃ الا باللہ “ میں اگرچہ تم سے مال میں کم ہوں مگر مجھے اللہ کی رحمت سے امید ہے کہ وہ مجھے بہتر بدلہ دیگا ۔ اس کے بعد اللہ نے موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا ہے ان دونوں ساتھیوں کے سامنے جن میں تین واقعات کا ظہور ہوا ان کی حقیقت موسیٰ (علیہ السلام) پر واضح نہیں تھی لہذا وہ ہر بار خضر (علیہ السلام) کو ٹوکتے رہے ، پھر جب انکی جدائی کا وقت آیا تو خضر (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تینوں واقعات کی حقیقت اور حکمت سے آگاہ کیا اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ جو کچھ مجھ سے سرزد ہوا ، اس میں میرا کوئی کمال نہیں بلکہ ” رحمۃ من ربک “ تیرے رب کی رحمت اور مہربانی سے ہوا ہے سکندر ذوالقرنین بھی اللہ کے نیک بندوں میں سے تھے اللہ نے انہیں دنیا کی سلطنت عطافرمائی اور انہوں نے مغرب ، مشرق اور شمال کا سفر اختیار کیا پھر جب انہوں نے ایک قوم کی فرمائش پر اقوام یاجوج وماجوج سے بچاؤ کے لیے دیوار بنا دی تو اس فعل کو بھی اللہ ہی کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہا (آیت) ” ھذا رحمۃ من ربی “۔ یہ تو میرے پروردگار کی رحمت ہے کہ اس نے میرے ہاتھوں سے مفسدوں کا راستہ بند کروا دیا ۔ (کفار کا زعم باطل) اب آگے اللہ نے توحید کی بات سمجھائی ہے کہ جب اللہ کے مقربین انبیاء اور اولیاء اللہ کی رحمت کے طلبگار ہیں تو ان کافروں نے اللہ کو چھوڑ کر غیروں کو اپنا دوست اور کار ساز کیسے بنا لیا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” افحسب الذین کفروا “۔ کیا کافر لوگ یہ گمان کرتے ہیں (آیت) ” ان یتخذوا عبادی من دونی اولیآئ “۔ کہ میرے بندوں کو میرے سوا اپنا کارساز بنا لیں گے فرمایا یہ گمراہ کن اور باطل عقیدہ ہے اس سورة میں مذکورہ انبیاء اور اولیاء کا حال دیکھ لو وہ تو کسی کی حاجت روائی اور مشکل مشکل کشائی نہیں کرتے تھے مگر مشرک لوگ انہی انبیاء اور اولیاء کو دنیا میں اپنا کارساز سمجھتے ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ کی صفات میں شریک سمجھتے ہیں ۔ یہاں پر عبادی کا لفظ آیا ہے اور بندوں میں انبیاء اولیاء فرشتے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگ آتے ہیں ، اللہ نے اپنے بندوں کے لیے بھی عباد کا لفظ ہی استعمال کیا ہے سورة بنی اسرائیل کی ابتداء میں اللہ نے فرمایا ہے (آیت) ” فاذا جآء وعد اولیھما بعثنا علیکم عبادا لنا اولی باس شدید فجاسوا خلل الدیار “۔ پس جب ان میں سے پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے تمہارے اوپر سخت لڑائی والے بندے بھیجے ، غرضیکہ اللہ نے فرمایا کہ کیا کافر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ میرے کسی بھی بندے کو اپنا کار ساز اور حمائتی بنا لیں گے فرمایا ان کا یہ خیال درست نہیں ہے ، نیک لوگوں کا حال تو اس سورة مبارکہ میں بیان ہوچکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور رحمت پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں مگر ان کی پرستش کرنے والے انہی کو اپنا حمایتی اور کارساز سمجھتے ہیں ایک وقت آنے والا ہے جب عابد اور معبود سب اللہ کی بارگار میں پیش ہونگے اس وقت معبودوں کی حالت یہ ہوگی (آیت) ” سیکفرون بعبادتھم ویکونون علیھم ضدا “۔ (مریم ، 82) کہ وہ عبادت کرنے والوں کی عبادت سے انکار کردیں گے اور انکے دشمن بن جائیں گے وہ اللہ کے دربار میں عرض کریں گے کہ ہم نے تو انہیں نہیں کہا تھا کہ ہمیں اپنا معبود بنا لو ، ہم سے حاجتیں طلب کرو اور ہمیں نذر ونیاز پیش کرو ، درحقیقت انہوں نے شیطان کا اتباع کیا اور اپنے نفس کی پیروی کی ۔ (نذرونیاز میں شرک) دیکھیں ! اصحاب کہف کا ذکر ہوچکا ہے انہوں نے اللہ کی رحمت کے بھروسے پر غار میں پناہ لی مگر اب لوگ انہی کو حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنے لگے ہیں ، بعض علاقوں میں مشرک اصحاب کہف کے نام کی نیاز دیتے ہیں ، سات روٹیاں اصحاب کہف کی اور آٹھویں ان کے کتے کی مشہور ہیں جو نیاز میں دی جاتی ہیں ، اگر ایصال ثواب مقصود ہو تو پھر تو کوئی حرج نہیں اور اگر ان کو حاجت روا سمجھ کر نیاز دی جاتی ہے تو یہی شرک بن جاتا ہے کیونکہ اللہ کے مقرب ترین بندے بھی کوئی اختیار نہیں رکھتے اور نہ وہ کسی کی مشکل کشائی کرسکتے ہیں ، یہ تو محض وسوسہ اندازی اور گمراہی ہوتی ہے ، فرمایا جو لوگ میرے بندوں میں سے میرے سوا کسی کو اپنا کارساز بنائیں گے (آیت) ” انا اعتدنا جھنم للکفرین نزلا “۔ بیشک ہم نے ایسے کافروں کے لیے جہنم کی آگ بطور مہمانی تیار کر رکھی ہے ان کو وہاں پر کوئی راحت نہیں ہوگی بلکہ طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوں گے ۔ (خاسر ترین لوگ) فرمایا اے پیغمبر ! ﷺ ” قل “ آپ کہہ دیجئے (آیت) ” ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالا “۔ کیا میں تمہیں بتلاؤ کہ ایسے لوگ اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ خسارے میں ہیں اور وہ کون لوگ ہیں ۔ (آیت) ” الذین ضل سعیھم فی الحیوۃ الدنیا “۔ جن کی کوشش دنیا کی زندگی میں ہی گم ہوگئی یعنی دنیا میں جو کچھ کارگزاری انہوں نے کی تھی وہ یہی بھٹک کر رہ گئی ، (آیت) ” ضل سعیھم “ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ، ایک یہ کہ ان کی ساری کاوش صرف دنیا طلبی کے لیے تھی اور آخرت سے انکو کوئی غرض نہ تھی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے دنیا میں جو بھی عمل اختیار کیا وہ ضائع ہوگیا ۔ ہم اس وقت دیکھ رہے ہیں کہ پوری دنیا کی اکثر آبادی مع ارباب اقتدار دنیا کی بہتری کے لیے ہی ساری تگ ودو کر رہے ہیں ، روسی تو ویسے ہی منکر خدا ہیں اور وہ عقیدہ خدا کو ” افیون “ سے تعبیر کرتے ہیں ان کے نزدیک یہ مادی دنیا ہی اول وآخر ہے خدا تعالیٰ ، اس کے رسول ، اس کی کتابیں ، وقوع قیامت اور جزا وسزا سب بناوٹی باتیں ہیں اور لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے وضع کی گئی ہیں ، سرمایہ داری نظام میں بھی عام لوگوں کو پھنسایا جاتا ہے اور امیر لوگ غریبوں کا خون چوستے رہتے ہیں وہ بھی محض سرمایہ اکٹھا کرنے کے لیے اور دنیا میں عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے کے لیے جائز وناجائز ذرائع اختیار کرتے ہیں ، آخرت کا تصور ان کے ہاں بھی برائے نام ہی ہے ، جو لوگ چاروناچار خدا کا نام لیتے بھی ہیں ان میں سے بھی کچھ مشرک ہیں اور کچھ تثلیث کے قائل ہیں امریکہ ہو یا برطانیہ ، فرانس ہو یا جرمنی کسی کا منتہائے مقصود آخرت اور رضائے الہی نہیں بلکہ ان کی ساری بھاگ دوڑ ، علم وہنر ، سائنس اور ٹیکنا لوجی محض دنیا کی خاطر ہے وہ ہمیشہ معیاری خوراک ، معیاری لباس ، معیاری رہائش اور معیاری سواری کے چکر میں پڑے رہتے ہیں ، ان کے تمام منصوبے ، تمام کارخانے اور تمام کمپنیاں دنیا کے آرام و راحت کے سامان مہیا کرنے پر کام کر رہے ہیں (آیت) ” ذلک مبلغھم من العلم “۔ ان کے علم کی انتہا دنیا تک محمد ود ہے نہ ہو کسی برزخ کے قائل ہیں نہ آخرت کے ، نہ کسی نبی کو مانتے ہیں اور نہ کسی آسمانی کتاب کو چین اور روس کے اکثر لوگ تو سرے سے منکر خدا ہیں ، باقیوں میں سے بھی اکثر محلد ہیں ، خاص طور پر امریکہ تو ملحدین کا گڑھ ہے کمیونسٹ تو کارل مارکس کی کتاب کو ہی صحفیہ آسمانی سمجھتے ہیں جس میں صرف معاشی بہتری کے اصول بتلائے گئے ہیں اور اس سے آگے کچھ نہیں ، اسی لیے تو حضور ﷺ نے دعا (1) (ترمذی ص 504) (فیاض) میں سکھلایا ” اللھم لا تجعل الدنیا اکبر ھمنا ولا مبلغ علمنا “۔ اے اللہ ! ہمارا منتہائے مقصود اور مبلغ علم صرف دنیا کو ہی نہ بنا کہ ہم دنیا کے علاوہ آخر سے آنکھیں موند لیں قرآن پاک نے کفار ومشرکین اور دہریوں کی یہی صفت بیان کی ہے (آیت) ” ان ھؤلاء یحبون العاجلۃ ویذرون وراء ھم یوما ثقیلا “۔ (الدھر : 27) یہ جلدی والی یعنی دنیا کی زندگی کو ہی پسند کرتے اور آگے آنے والے بوجھل دن یعنی قیامت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں فرمایا کہ یہ لوگ اعمال کے لحاظ سے سخت خسارے میں ہیں کیونکہ جس مادی دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں وہ تو جلد ہی ختم ہوجائے گی اور پھر سوائے خدا تعالیٰ کی گرفت کے ان کے لیے کچھ نہیں ہوگا ۔ (اعمال کا ضیاع) خسارے کی دوسری صورت اعمال کا ضیاع ہے جیسا کہ اگلی آیت میں آرہا ہے (آیت) ” فحبطت اعمالھم “۔ ان کے تمام اعمال ہی ضائع ہوگئے ، انہوں نے دنیا میں اچھے کام بھی کیے صدقہ خیرات کیا ، غریبوں اور محتاجوں کی خبر گیری کی سرائیں اور ہسپتال بنوائے ، کنوئیں لگوائے اور دیگر رفاعہ عامہ کے کام انجام دیے مگر ان کے کفر وشرک نے ان تمام نیکیوں کو ضائع کردیا کیونکہ ایمان کے بغیر کوئی عمل کارآمد نہیں اس مضمون کو سورة الغاشیہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے (آیت) ” عاملۃ ناصبۃ تصلی نارا حامیۃ “۔ (آیت 3 ، 4) بڑی بڑی عبادتیں اور ریاضتیں کر کرکے تھک چکے ہوں گے مگر بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل کیے جائیں گے کیونکہ کفر وشرک کی وجہ سے ان کے اعمال ضائع ہوچکے ہوں گے مشرک کی نمازیں ، روزے ، حج ، زکوۃ صدقہ و خیرات سب برباد ہوجائیں گے کیونکہ اصول یہ ہے (آیت) ” فمن یعمل من الصلحت وھو مومن فلاکفران لسعیہ “۔ (الانبیائ 94) جو بھی اچھے اعمال انجام دے گا ، بشرطیکہ وہ مومن ہو تو اس کی محنت کی ناقدری نہیں کی جائے گی ، ایمان بطور شرط ہے اگر ایمان ہی نہیں تو کوئی عمل بھی قابل قبول نہیں ، اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ نماز کے لیے طہارت اور استقبال قبلہ شرائط ہیں اگر کوئی شخص بغیر طہارت کے نماز پڑھتا ہے یا قبلہ کی طرف رخ نہیں کرتا تو وہ ہزار رکعت بھی پڑھ جائے کچھ فائدہ نہیں ہوگا اسی طرح جس شخص میں ایمان کی شرط مفقود ہے ، کفر وشرک میں ملوث ہے ، اس کی کوئی عبادت و ریاضت یا عوامی بہبود کے کام کچھ مفید نہیں ہوں گے اس کے باوجود ان کی حالت یہ ہے (آیت) ” وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا “۔ وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں فرمایا (آیت) ” اولئک الذین کفروا بایت ربھم ولقاء ہ “۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیتوں اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ، آیات سے اللہ تعالیٰ کے تمام احکام ، کتب ، معجزات ، انبیاء بعث بعد الموت وغیرہ مراد ہیں ، ان لوگوں نے کسی حقیقت کو تسلیم نہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا (آیت) ” فحبطت اعمالھم “۔ کہ انکے تمام نیک اعمال ضائع ہوگئے ، (آیت) ” فلا نقیم لھم یوم القیمۃ وزنا “۔ ہم انکے لیے قیامت جو الے دن میزان بھی قائم نہیں کریں گے ، وزن کرنے کی ضرورت تو تب پیش آئے گی جب برائیوں کے ساتھ نیک اعمال بھی ہوں گے ، اور اگر نیک اعمال ان کے کفر وشرک کی وجہ سے پہلے ہی ضائع ہوچکے ہیں تو اب ترازو لگانے کا کیا مطلب ؟ ان کے لیے جہنم کا حکم ہوجائے گا ، (آیت) ” فیؤخذ بالنواصی والا قدام “۔ (الرحمن : 41) لہذا انہیں سر اور پاؤں سے پکڑ کر گھیسٹ کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اعمال تولے جائیں گے مگر وہ بالکل بےوزن ہوں گے اور ان کا کوئی اچھا نتیجہ مرتب نہیں ہوگا ، وزن کے متعلق حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ قیامت والے دن بڑے موٹے تازے لوگ آئیں گے ، خوب کھا پی کر جسم کو پالا پوسا ہوگا ، مگر اللہ کی میزان میں ان کا وزن مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہوگا ۔ (تمسخر کرنے والوں کیلئے سزا) فرمایا (آیت) ” ذلک جزآء ھم جھنم بما کفروا “۔ ان کے کفر کے وجہ سے ان کا بدلہ جہنم کی آگ ہوگی ، اور اس وجہ سے بھی (آیت) ” واتخذوا ایتی ورسلی ھزوا “۔ کہ انہوں نے میری آیتوں اور میرے رسولوں کو تمسخر کا نشانہ بنایا ٹھٹھا اور تمسخر کی قباحت کا ذکر موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی آچکا ہے ایک شخص کے قتل پر جب موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم سے کہا کہ گائے ذبح کرکے اس کے گوشت کا ٹکڑا مردے پر مارو تو وہ تمہیں اپنے قاتل کی نشاندہی کر دے گا ، تو قوم کہنے لگی (آیت) ” اتتخذنا ھزوا “۔ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! کیا تو ہم سے مذاق کرتا ہے (آیت) ” قال اعوذ باللہ ان اکون من الجھلیں “۔ (البقرۃ ۔ 67) پناہ بخدا کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں گویا ٹھٹھا مذاق تو نادانوں کا کام ہے میں ایسا کام کیوں کروں گا ، سورة توبہ میں اللہ نے منافقوں کے متعلق بھی فرمایا ہے (آیت) ” قل اب اللہ وایتہ ورسولہ کنتم تستھزء ون “۔ (التوبۃ ، 65) اے پیغمبر ! ﷺ آپ ان سے کہہ دیں بھلا تم اللہ ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ٹھٹھا کرتے ہو ، یہ تو گناہ کبیرہ ہے اور بعض صورتوں میں کفر ہے ، آج پوری دنیا میں دیکھ لیں ہنسی مذاق کو کتنا عروج حاصل ہے تمام فلمیں ، ڈرامے ، ناول ، اخباری کارٹون وغیرہ کی بنیاد تمسخر پر ہی تو قائم ہے ہر کام میں دوسروں کو خوش کرنے کے لیے نقالی کی جاتی ہے خاص طور پر کارٹوں سازی ایسی قباحت ہے جس سے بڑے سے بڑا آدمی بھی محفوظ نہیں ، اخبار نویس قانون طور پر مجاز ہیں کہ وہ کسی بھی آدمی کا کارٹون کا شکار بنا سکتے ہیں ، فلم سازوں نے تو پیغمبروں کی نقالی کرنے میں بھی پش وپیش نہیں کیا ، کہیں حضرت شمعون کی فلمبندی ہو رہی ہے تو کوئی سلیمان (علیہ السلام) کا پارٹ ادا کر رہا ہے کہیں امیر حمزہ ؓ کا پارٹ ادا کیا جارہا ہے اور کوئی حضرت عمر ؓ کے روپ میں ظاہر ہو رہا ہے ، اسلام کے اولین جانثاروں کو ناول میں پیش کرنے پر سلمان رشدی کے خلاف ساری دنیا میں کیوں شور اٹھا ، یہ نقالی اور ہنسی مذاق کا نتیجہ ہے ، جس نے دنیا کو اس حد تک پہنچا دیا ہے ۔ (نیک لوگوں کے لیے جنت الفردوس) اب نیک لوگوں کا حال بھی سن لیں (آیت) ” ان الذین امنوا وعملوا الصلحت “۔ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے اعمال انجام دیے ، نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ پر مداومت اختیار کی جہاد میں حصہ لیا ، صدقہ خیرات ، محتاجوں کے حقوق ادا کیے مظلوموں کی اعانت کی حرام و حلال میں امتیاز برقرار رکھا ، خدا کی کتاب کو پڑھا ، اس کے نظام کے قیام کی کوشش کی ، تعلیم وتبلیغ میں حصہ لیا مساجد اور مدارس قائم کیے ۔ شراب ، جوا ، فراڈ اور فحاشی سے اجنتاب سے اجتناب کیا ، فرمایا ایسے لوگوں کے لیے (آیت) ” کانت لھم جنت الفردوس نزلا “۔ جنت الفردوس میں مہمانی ہوگی ، فردوس ، رومی یا حبشی زبان کا لفظ ہے ، جس کا معنی باغ ہے عربی زبان میں باغ کے لیے بستان اور جنت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں حضور ﷺ نے فردوس کو جنت کا اعلی طبقہ قرار دیا ہے اسی لیے فرمایا کہ جب اللہ سے مانگو ” فاسئل اللہ الفردوس “ تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو ، اسی طبقہ سے تمام نہرین جاری ہوتی ہیں جو جنت کے دوسرے طبقات میں پہنچتی ہیں اسی جنت الفردوس کے اوپر رحمان کا عرش ہے جس کی تجلی اعظم یہاں پڑتی رہتی ہیں ، فرمایا اہل ایمان کی مہمانی جنت الفردوس میں ہوگی (آیت) ” خلدین فیھا “۔ جنتی لوگ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ، (آیت) ” لایبغون عنھا حولا “ وہ وہاں سے کسی تبدیلی کے خواہش مند نہیں ہوں گے یعنی جنت الفردوس ایسا مقام ہوگا اور وہاں ایسی آسائشیں حاصل ہوں گی کہ دل میں کبھی اکتاہٹ پیدا نہیں ہوگی کہ جنتی کسی دوسری جگہ کی خواہش کرے اور اللہ تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ جنتی وہاں سے نکالے بھی نہیں جائیں گے ان کا داخلہ کسی خاص مدت کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہوگا ۔
Top