Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ
: اور آپ سے پوچھتے ہیں
عَنْ
: سے (بابت)
ذِي الْقَرْنَيْنِ
: ذوالقرنین
قُلْ
: فرمادیں
سَاَتْلُوْا
: ابھی پڑھتا ہوں
عَلَيْكُمْ
: تم پر۔ سامنے
مِّنْهُ
: اس سے۔ کا
ذِكْرًا
: کچھ حال
اور لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ کہ دیجئے کہ میں پڑھ کر سناتا ہوں تمہیں اس کا کچھ ذکر ۔
(تین واقعات تین اصول) یہ بات گذشتہ سورة اور اس سورة کے مضامین کے سلسلہ میں بیان ہوچکی ہے کہ مشرکین مکہ نے یہودیوں کے ایماء پر حضور ﷺ سے تین سوال کیے تھے ، پہلا سوال روح کے بارے میں تھا ، جس کا مختصر جواب اللہ تعالیٰ نے سورة بنی اسرائیل میں دیا ہے باقی دوسوالات اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق تھے جن میں سے اصحاب کہف کی تفصیل اسی سورة کی ابتدا میں بیان ہوچکی ہے اور ذوالقرنین کے متعلق بعض انکشافات اب آرہے ہیں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس سورة میں مذکورہ تین واقعات میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے تین بنیادی قوانین بیان فرمائے ہیں ، اصحاب کہف کے واقعہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں استقلال کا قانون سمجھایا ہے ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے والے اصحاب کہف اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے اور نہایت بےسروسامانی کی حالت میں ایک غار میں پناہ گزیں ہوگئے ، اس میں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ایماندار شخص کو اصحاب کہف کے واقعہ سے استقلال کی تعلیم حاصل کرکے ایمان کے سلسلہ میں ہمیشہ مستقل مزاج رہنا چاہئے جس طرح اللہ نے اصحاب کہف کی حفاظت فرمائی اسی طرح وہ ہر استقلال اختیار کرنے والے شخص کی مدد فرمائے گا ۔ دوسرا واقعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا بیان ہوا ہے جس میں ہمارے لیے صبر کی تقلین ہے انسان کو چاہئے کہ ناقابل فہم اور ناقابل برداشت امور میں صبر کا دامن تھامے رکھے ، مذکورہ واقعہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو بڑی پریشانی اٹھانا پڑی ، انہوں نے ہر چند برداشت کرنے کی کوشش کی مگر وہ خضر (علیہ السلام) کی رفاقت کو قائم نہ رکھ سکے ، خضر (علیہ السلام) نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میری معیت میں عجیب و غریب واقعات دیکھ کر صبر نہیں کرسکیں گے ، چناچہ ان تین واقعات کے علاوہ موسیٰ (علیہ السلام) مزید معلومات حاصل نہ کرسکے اور دونوں حضرات میں جدائی واقع ہوگئی گویا اس واقع میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم صبر کا دامن کبھی نہ چھوڑیں ، اسی طرح ذوالقرنین کے واقعہ میں ہمیں شکر کی تلقین کی گئی ہے جس طرح ذوالقرنین نے خدا تعالیٰ کی طرف سے انعامات پاکر اس کا شکر ادا کیا اسی طرح ہمیں بھی ہمیشہ شکر کا الترام کرنا چاہئے ۔ (ذوالقرنین کا تعارف) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ویسئلونک عن ذلقرنین “۔ اے پیغمبر ! ﷺ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ وہ کون تھا اور اس نے کیا کارگزاری انجام دی ؟ ذوالقرنین کی شخصیت کے متعلق لوگوں کے نظریات مختلف ہیں بعض نے کہا کہ ذوالقرنین سے مراد سکندر یونانی ہے جس نے تیس پینتس برس کی عمر میں آدھی دنیا کو فتح کرلیا تھا تاریخ میں اس کا ذکر کثرت سے ملتا ہے اس کا وزیر ارسطاطالیس (ارسطو) تھا ، یہ بہت بڑا حکیم تھا ، منطق کا موجد تھا ، اخلاق اور سیاسیات میں اس کی تصنیفات بڑی مشہور ہیں ، ارسطو افلاطون کا شاگرد تھا یہ سکندر ابن فیلقوس مسیح (علیہ السلام) سے تقریبا سوا تین سو سال پہلے گزرا ہے تاریخ میں آتا ہے کہ یہ ٹیکسلا اور پھر جہلم تک بھی آیا تھا اس شخص پر ذوالقرنین کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ آدمی مشرک تھا جب کہ جس ذوالقرنین کا ذکر قرآن پاک نے کیا ہے وہ مومن اور نیک آدمی تھا ، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا تھا اس نے خانہ کعبہ کا طواف بھی کیا ، یہ سب تفسیری روایات میں آتا ہے قرآن وحدیث سے یہ تفصیلات نہیں ملتیں ، اس قیاس کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذوالقرنین سے مراد سکندر یونانی نہیں بلکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کے قریب پیدا ہونے والا سکندر اول ہے ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ذوالقرنین سے مراد ایرانی سلطنت کا بانی کے خسرو ہے جسے سائرس بھی کہا جاتا ہے ، یہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کے قریب گزرا ہے اس کو ذوالقرنین اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس نے فارس اور میڈیا کی دو سلطنتوں کو یکجا کردیا تھا مفسرین یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس شخص کی پیش گوئی پہلے انبیاء کی کتابوں میں بھی موجود تھی ، وہاں بھی اسے دو سینگوں والا ہی کہا گیا تھا ، گویا یہ ایسا بادشاہ ہوگا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گی ، بعض مفسرین فریدون بادشاہ کا نام بھی لیتے ہیں جس کا ذکر فارسی تاریخ میں ملتا ہے بعض کہتے ہیں کہ ذوکا لقب عام طور پر یمن کی قوم تبع کے ساتھ لگتا ہے ، لہذا ہو سکتا ہے کہ اسی قوم کا کوئی بادشاہ ہو ، ان تمام شواہد کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ ذوالقرنین سے مراد سکندر یونانی نہیں بلکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کا سکندر اول ہے بعض نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ شاید یہ بنی تھا مگر اکثر مفسرین نے اسے نبی کی بجائے نیک اور صالح انسان کہا ہے بعض مفسرین کہتے ہیں کہ دنیا میں چار بادشاہ ایسے گز رہے ہیں جنہیں مجموعی طور پر ساری دنیا پر تسلط حاصل رہا ہے ان میں سے دو بادشاہ کا فر اور دو ایماندار تھے پہلا بادشاہ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کا نمرود تھا اور دوسرا بخت نصر تھا جس نے یہودیوں پر غلبہ حاصل کیا تھا یہ دونوں کافر تھے ، البتہ ایماندار بادشاہوں میں ایک سکندر ذوالقرنین ہیں جن کا ذکر ہو رہا ہے اور دوسرے حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے مثالی حکومت کے لیے اس طرح دعا کی تھی (آیت) ” ھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی (ص ، 35) یا اللہ ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما ، جو میرے بعد کسی دوسرے کے حصے میں نہ آئے ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی ہی سلطنت عطا فرمائی ۔ (قرنین کی وجہ تسمیہ) قرنین کا لغوی معنی دو سینگ ہیں ، اس کی ایک وجہ تو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ اس شخص نے فارس اور میڈیا کی دوسلطنتوں کو جوڑ کر ایک کردیا تھا بعض فرماتے ہیں کہ ذوالقرنین کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ شخص دنیا کے دونوں مشرقی اور مغربی کناروں تک پہنچا ، اس لیے ذوالقرنین کا لقب دیا گیا ۔ (ذوالقرنین پر انعامات) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ویسئلونک عن ذالقرنین “۔ آپ سے ذوالقرنین کے متعلق پوچھتے ہیں ” قل “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیجئے (آیت) ” ساتلوا علیکم منہ ذکرا “۔ میں تم کو اس کا کچھ حال پڑھ کر سناتا ہوں ، اللہ نے فرمایا (آیت) ” انا مکنا لہ فی الارض “۔ ہم نے اسے زمین میں ٹھکانا دیا ، یعنی اس کو خوب اقتدار عطا کیا (آیت) ” واتینہ من کل شیء سببا “۔ اور اسے ہر قسم کا سازو سامان بھی وافر دیا ، سبب سے مراد رسی بھی ہوتی ہے اور وسیلہ یا تعلق بھی ، اس سے راستہ بھی مراد لیا جاتا ہے ، آگے راستہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، اس کا اطلاق سامان پر بھی ہوتا ہے ، اس میں علم بھی داخل ہے کیونکہ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جس چیز کے ذریعے انسان اپنے مقصود تک پہنچتا ہے وہ سبب کہلاتا ہے اور اس میں روپیہ پیسہ ، آلات اور علم بھی شامل ہے ، مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو وہ تمام ضروریات فراہم کردی تھیں جن کے ذریعے اتنی وسیع سلطنت کا انتظام وانصرام کیا جاسکتا تھا ، بہرحال (آیت) ” کل شیء سے مراد کائنات کی ہر بڑی چھوٹی چیز مراد نہیں بلکہ وہ تمام اشیاء مراد ہیں جو اس زمانے کی ضروریات مملکت کے لیے مطلوب تھیں ۔ (مغربی سفر) جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے ذوالقرنین نے اپنی زندگی میں تین طویل سفر کیے ، یہاں پر پہلے مغربی سفر کا ذکر ہورہا ہے ، (آیت) ” فاتبع سببا “ پھر وہ ایک راستے پر چلا (آیت) ” حتی اذا بلغ مغرب الشمس “ یہاں تک کہ جب وہ سورج غروب ہونے کی جگہ پر پہنچا (آیت) ” وجدھا تغرب فی عین حمئۃ “۔ تو اسے ایک سیاہ ندی میں غروب ہوتا پایا ، وہاں کا پانی اور مٹی سیاہ رنگ کی تھی ، بعض نے اس سے بحرہ اسود مراد لیا ہے جس کی سرحد روس اور ترکی کے ساتھ ملتی ہے اس طرح معلوم ہوتا تھا کہ سورج سیاہ دلدل میں ڈوب رہا ہے ایک قرات میں ” عین حامئۃ “ بھی پڑھا گیا ہے جس کا مطلب گرم چشمہ ہے ۔ دراصل سورج تو کہیں غروب نہیں ہوتا بلکہ اپنی منزل پر چوبیس گھنٹے اور بارہ مہینے رواں دواں رہتا ہے ، اللہ نے سورج اور چاند کے متعلق فرمایا ہے (آیت) ” کل فی فلک یسبحون “ (یونس ۔ 40) سب اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں بات یہ ہے کہ زمین کا جو حصہ سورج کے سامنے آجاتا ہے ، وہاں سورج طلوع ہوتا نظر آتا ہے اور جو حصہ زمین سورج کی دوسری طرف جا رہا ہوتا ہے ، موجود ہو اسے وہیں سورج طلوع اور غروب ہوتا نظر آئے گا اگر وہ کسی صحرا میں ہے تو وہ سورج کو زمین میں غروب ہوتا پائے گا اور اگر وہ سمندر کے کنارے پر ہے یا سمندر میں سفر کر رہا ہے کررہا ہے تو اسے سورج پانی میں ڈوبتا نظر آئے گا جب حاجی کراچی اور جدہ کے درمیان ہفتہ بھر کا بحری سفر اختیار کرتے ہیں تو وہ ہر روز سورج کو سمندر سے طلوع ہوتا اور اسی میں غروب ہوتا دیکھتے ہیں بہرحال ذوالقرنین مغرب کی طرف چلتے چلتے ایسے مقام تک پہنچ گیا ، جہاں کوئی ندی تھی یا بحر اسود تھا اس نے دیکھا کہ سورج پانی میں غروب ہو رہا ہے ” حما “ سے دلدل بھی مراد لی جاتی ہے ، ہوسکتا ہے کہ وہاں سیاہ رنگ کی دلدل ہو۔ (مفسد قوم سے سلوک) جب ذوالقرنین اس مقام پر پہنچا (آیت) ” ووجدعندھا قوما “۔ تو وہاں اس نے کچھ لوگوں کو پایا یہ لوگ ایماندار نہیں تھے بلکہ سرکش اور فسادی تھے ان کی زبان اور معاشرت بھی مختلف تھی ، مفسریں فرماتے ہیں کہ یہ وحشی قسم کے لوگ تھے جو چمڑے کا لباس پہنتے تھے اور عقیدے کی برائی میں مبتلا تھے جب وہاں پہنچے تو اللہ نے فرمایا (آیت) ” قلنا یذا القرنین “ ہم نے کہا اے ذوالقرنین ! (آیت) ” ام ان تعذب “ یا تو تم ان کو سزا دو (آیت) ” واما ان تتخذ فیھم حسنا “۔ اور یا ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، مفسد لوگوں کو ان کو ان کی بری کار گزاری کی سزا بھی دی جاسکتی ہے اور بعض اوقات اگر ان کے ساتھ حسن سلوک اختیار کیا جائے تو تب بھی وہ برائی سے باز آجائے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو اختیار دیدیا کہ ان کے ساتھ جو چاہو سلوک کرو (آیت) ” قال ذوالقرنین “۔ نے کہا (آیت) ” اما من ظلم “ جو شخص ظلم کرے گا (آیت) ” فسوف نعذبہ “۔ تو ہم اس کی سزا دیں گے کفر شرک ، ظلم اور تعدی کرنے والوں کو سزا دی جاسکتی ہے ، یہ اصول بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ تعدی کرنے والوں کو معاف نہ کیا جائے ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اجتماعی نظام کے لیے ضروری ہے کہ اچھے لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور بدمعاشوں کی سرکوبی کی جائے اگر ایسا نہیں ہوگا تو نظام سلطنت بگڑ جائے گا اور ملک میں بدامنی پیدا ہو جائیگی ، البتہ انگریزی قانون میں اس اصول کی پانبدی نہیں کی جاتی ، وہاں تو مفاد کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس طرف ہے بعض اوقات مفاد کی خاطر غنڈوں کو بھی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں فتنہ و فساد کا بازار گرم ہے بہرحال سکندر ذوالقرنین نے کہا کہ ہم ہر ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دیں گے (آیت) ” ثم یرد الی ربہ “ پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جاے گا ، (آیت) ” فیعذبہ عذابا نکرا “۔ پھر وہ اس کو سخت سزا دے گا جب آخرت میں خدا کی عدالت میں پیش ہوگا تو وہاں کا عذاب بھی چکھنا پڑیگا ذوالقرنین نے کہا کہ قانون کی خلاف ورزی پر تو ہم سزا دیں گے مگر حقیقی اور آخری سزا خدا تعالیٰ دے گا ۔ (اہل ایمان کے لیے جزائ) ذوالقرنین نے یہ بھی (آیت) ” واما من امن “۔ اور جو شخص ایمان لائے گا (آیت) ” وعمل صالحا “۔ اور اچھے اعمال انجام دے گا ، اچھے اعمال میں نماز ، روزہ ، زکوۃ ، اور حج عبادات اربعہ ہیں ، اس کے علاوہ جہاد ، قربانی ، صدقہ ، خیرات ، سماحت ، عدل وغیرہ سب نیک افعال ہیں جن کو انجام دینے سے انسان نجات کا مستحق بنتا ہے ، تاہم ان سب اعمال کا مدار ایمان پر ہے کہ انسان اللہ کی وحدانیت پر ایمان لائے اس کے رسولوں ، ملائکہ کتب کو برحق مانے ، تقدیر اور معاد پر یقین کرے ایسا شخص مومن ہوگا اور اعمال صالحہ کی انجام دی پر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر اجر کا مستحق ہوگا ، فلہ جزآء الحسنی “ اس کے لیے اچھا بدلہ ہوگا اس کا احترام کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا (آیت) ” وسنقول لہ من امرنا یسرا “۔ اور ہم اپنے معاملہ میں اس کے لیے آسان بات کہیں گے نیک اور ایماندار آدمی کے ساتھ حسن سلوک ہی روا ہے ، ایسے شخص کے ساتھ بدسلوکی کرنا ظلم کے مترادف ہے چناچہ سکندر ذوالقرنین نے بھی یہی کہا کہ ایماندار اور نیک آدمی کے ساتھ ہم بھی آسانی کریں گے اور سرکش کو ضرور سزا دیں گے ۔
Top