Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 83
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنْ ذِی الْقَرْنَیْنِ١ؕ قُلْ سَاَتْلُوْا عَلَیْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًاؕ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور آپ سے پوچھتے ہیں عَنْ : سے (بابت) ذِي الْقَرْنَيْنِ : ذوالقرنین قُلْ : فرمادیں سَاَتْلُوْا : ابھی پڑھتا ہوں عَلَيْكُمْ : تم پر۔ سامنے مِّنْهُ : اس سے۔ کا ذِكْرًا : کچھ حال
اور لوگ آپ سے ذوالقرنین کے بارے میں پوچھتے ہیں آپ کہ دیجئے کہ میں پڑھ کر سناتا ہوں تمہیں اس کا کچھ ذکر ۔
(تین واقعات تین اصول) یہ بات گذشتہ سورة اور اس سورة کے مضامین کے سلسلہ میں بیان ہوچکی ہے کہ مشرکین مکہ نے یہودیوں کے ایماء پر حضور ﷺ سے تین سوال کیے تھے ، پہلا سوال روح کے بارے میں تھا ، جس کا مختصر جواب اللہ تعالیٰ نے سورة بنی اسرائیل میں دیا ہے باقی دوسوالات اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے متعلق تھے جن میں سے اصحاب کہف کی تفصیل اسی سورة کی ابتدا میں بیان ہوچکی ہے اور ذوالقرنین کے متعلق بعض انکشافات اب آرہے ہیں ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس سورة میں مذکورہ تین واقعات میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے تین بنیادی قوانین بیان فرمائے ہیں ، اصحاب کہف کے واقعہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں استقلال کا قانون سمجھایا ہے ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے والے اصحاب کہف اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے اور نہایت بےسروسامانی کی حالت میں ایک غار میں پناہ گزیں ہوگئے ، اس میں سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ایماندار شخص کو اصحاب کہف کے واقعہ سے استقلال کی تعلیم حاصل کرکے ایمان کے سلسلہ میں ہمیشہ مستقل مزاج رہنا چاہئے جس طرح اللہ نے اصحاب کہف کی حفاظت فرمائی اسی طرح وہ ہر استقلال اختیار کرنے والے شخص کی مدد فرمائے گا ۔ دوسرا واقعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور خضر (علیہ السلام) کا بیان ہوا ہے جس میں ہمارے لیے صبر کی تقلین ہے انسان کو چاہئے کہ ناقابل فہم اور ناقابل برداشت امور میں صبر کا دامن تھامے رکھے ، مذکورہ واقعہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو بڑی پریشانی اٹھانا پڑی ، انہوں نے ہر چند برداشت کرنے کی کوشش کی مگر وہ خضر (علیہ السلام) کی رفاقت کو قائم نہ رکھ سکے ، خضر (علیہ السلام) نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ میری معیت میں عجیب و غریب واقعات دیکھ کر صبر نہیں کرسکیں گے ، چناچہ ان تین واقعات کے علاوہ موسیٰ (علیہ السلام) مزید معلومات حاصل نہ کرسکے اور دونوں حضرات میں جدائی واقع ہوگئی گویا اس واقع میں ہمارے لیے سبق یہ ہے کہ ہم صبر کا دامن کبھی نہ چھوڑیں ، اسی طرح ذوالقرنین کے واقعہ میں ہمیں شکر کی تلقین کی گئی ہے جس طرح ذوالقرنین نے خدا تعالیٰ کی طرف سے انعامات پاکر اس کا شکر ادا کیا اسی طرح ہمیں بھی ہمیشہ شکر کا الترام کرنا چاہئے ۔ (ذوالقرنین کا تعارف) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ویسئلونک عن ذلقرنین “۔ اے پیغمبر ! ﷺ لوگ آپ سے ذوالقرنین کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ وہ کون تھا اور اس نے کیا کارگزاری انجام دی ؟ ذوالقرنین کی شخصیت کے متعلق لوگوں کے نظریات مختلف ہیں بعض نے کہا کہ ذوالقرنین سے مراد سکندر یونانی ہے جس نے تیس پینتس برس کی عمر میں آدھی دنیا کو فتح کرلیا تھا تاریخ میں اس کا ذکر کثرت سے ملتا ہے اس کا وزیر ارسطاطالیس (ارسطو) تھا ، یہ بہت بڑا حکیم تھا ، منطق کا موجد تھا ، اخلاق اور سیاسیات میں اس کی تصنیفات بڑی مشہور ہیں ، ارسطو افلاطون کا شاگرد تھا یہ سکندر ابن فیلقوس مسیح (علیہ السلام) سے تقریبا سوا تین سو سال پہلے گزرا ہے تاریخ میں آتا ہے کہ یہ ٹیکسلا اور پھر جہلم تک بھی آیا تھا اس شخص پر ذوالقرنین کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ آدمی مشرک تھا جب کہ جس ذوالقرنین کا ذکر قرآن پاک نے کیا ہے وہ مومن اور نیک آدمی تھا ، اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا تھا اس نے خانہ کعبہ کا طواف بھی کیا ، یہ سب تفسیری روایات میں آتا ہے قرآن وحدیث سے یہ تفصیلات نہیں ملتیں ، اس قیاس کی بناء پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ذوالقرنین سے مراد سکندر یونانی نہیں بلکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کے قریب پیدا ہونے والا سکندر اول ہے ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ذوالقرنین سے مراد ایرانی سلطنت کا بانی کے خسرو ہے جسے سائرس بھی کہا جاتا ہے ، یہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کے قریب گزرا ہے اس کو ذوالقرنین اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس نے فارس اور میڈیا کی دو سلطنتوں کو یکجا کردیا تھا مفسرین یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس شخص کی پیش گوئی پہلے انبیاء کی کتابوں میں بھی موجود تھی ، وہاں بھی اسے دو سینگوں والا ہی کہا گیا تھا ، گویا یہ ایسا بادشاہ ہوگا کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کرسکے گی ، بعض مفسرین فریدون بادشاہ کا نام بھی لیتے ہیں جس کا ذکر فارسی تاریخ میں ملتا ہے بعض کہتے ہیں کہ ذوکا لقب عام طور پر یمن کی قوم تبع کے ساتھ لگتا ہے ، لہذا ہو سکتا ہے کہ اسی قوم کا کوئی بادشاہ ہو ، ان تمام شواہد کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ ذوالقرنین سے مراد سکندر یونانی نہیں بلکہ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کا سکندر اول ہے بعض نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ شاید یہ بنی تھا مگر اکثر مفسرین نے اسے نبی کی بجائے نیک اور صالح انسان کہا ہے بعض مفسرین کہتے ہیں کہ دنیا میں چار بادشاہ ایسے گز رہے ہیں جنہیں مجموعی طور پر ساری دنیا پر تسلط حاصل رہا ہے ان میں سے دو بادشاہ کا فر اور دو ایماندار تھے پہلا بادشاہ ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانے کا نمرود تھا اور دوسرا بخت نصر تھا جس نے یہودیوں پر غلبہ حاصل کیا تھا یہ دونوں کافر تھے ، البتہ ایماندار بادشاہوں میں ایک سکندر ذوالقرنین ہیں جن کا ذکر ہو رہا ہے اور دوسرے حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے مثالی حکومت کے لیے اس طرح دعا کی تھی (آیت) ” ھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی (ص ، 35) یا اللہ ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما ، جو میرے بعد کسی دوسرے کے حصے میں نہ آئے ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی ہی سلطنت عطا فرمائی ۔ (قرنین کی وجہ تسمیہ) قرنین کا لغوی معنی دو سینگ ہیں ، اس کی ایک وجہ تو پہلے بیان ہوچکی ہے کہ اس شخص نے فارس اور میڈیا کی دوسلطنتوں کو جوڑ کر ایک کردیا تھا بعض فرماتے ہیں کہ ذوالقرنین کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ شخص دنیا کے دونوں مشرقی اور مغربی کناروں تک پہنچا ، اس لیے ذوالقرنین کا لقب دیا گیا ۔ (ذوالقرنین پر انعامات) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ویسئلونک عن ذالقرنین “۔ آپ سے ذوالقرنین کے متعلق پوچھتے ہیں ” قل “ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کہہ دیجئے (آیت) ” ساتلوا علیکم منہ ذکرا “۔ میں تم کو اس کا کچھ حال پڑھ کر سناتا ہوں ، اللہ نے فرمایا (آیت) ” انا مکنا لہ فی الارض “۔ ہم نے اسے زمین میں ٹھکانا دیا ، یعنی اس کو خوب اقتدار عطا کیا (آیت) ” واتینہ من کل شیء سببا “۔ اور اسے ہر قسم کا سازو سامان بھی وافر دیا ، سبب سے مراد رسی بھی ہوتی ہے اور وسیلہ یا تعلق بھی ، اس سے راستہ بھی مراد لیا جاتا ہے ، آگے راستہ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے ، اس کا اطلاق سامان پر بھی ہوتا ہے ، اس میں علم بھی داخل ہے کیونکہ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جس چیز کے ذریعے انسان اپنے مقصود تک پہنچتا ہے وہ سبب کہلاتا ہے اور اس میں روپیہ پیسہ ، آلات اور علم بھی شامل ہے ، مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو وہ تمام ضروریات فراہم کردی تھیں جن کے ذریعے اتنی وسیع سلطنت کا انتظام وانصرام کیا جاسکتا تھا ، بہرحال (آیت) ” کل شیء سے مراد کائنات کی ہر بڑی چھوٹی چیز مراد نہیں بلکہ وہ تمام اشیاء مراد ہیں جو اس زمانے کی ضروریات مملکت کے لیے مطلوب تھیں ۔ (مغربی سفر) جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے ذوالقرنین نے اپنی زندگی میں تین طویل سفر کیے ، یہاں پر پہلے مغربی سفر کا ذکر ہورہا ہے ، (آیت) ” فاتبع سببا “ پھر وہ ایک راستے پر چلا (آیت) ” حتی اذا بلغ مغرب الشمس “ یہاں تک کہ جب وہ سورج غروب ہونے کی جگہ پر پہنچا (آیت) ” وجدھا تغرب فی عین حمئۃ “۔ تو اسے ایک سیاہ ندی میں غروب ہوتا پایا ، وہاں کا پانی اور مٹی سیاہ رنگ کی تھی ، بعض نے اس سے بحرہ اسود مراد لیا ہے جس کی سرحد روس اور ترکی کے ساتھ ملتی ہے اس طرح معلوم ہوتا تھا کہ سورج سیاہ دلدل میں ڈوب رہا ہے ایک قرات میں ” عین حامئۃ “ بھی پڑھا گیا ہے جس کا مطلب گرم چشمہ ہے ۔ دراصل سورج تو کہیں غروب نہیں ہوتا بلکہ اپنی منزل پر چوبیس گھنٹے اور بارہ مہینے رواں دواں رہتا ہے ، اللہ نے سورج اور چاند کے متعلق فرمایا ہے (آیت) ” کل فی فلک یسبحون “ (یونس ۔ 40) سب اپنے اپنے مدار میں چل رہے ہیں بات یہ ہے کہ زمین کا جو حصہ سورج کے سامنے آجاتا ہے ، وہاں سورج طلوع ہوتا نظر آتا ہے اور جو حصہ زمین سورج کی دوسری طرف جا رہا ہوتا ہے ، موجود ہو اسے وہیں سورج طلوع اور غروب ہوتا نظر آئے گا اگر وہ کسی صحرا میں ہے تو وہ سورج کو زمین میں غروب ہوتا پائے گا اور اگر وہ سمندر کے کنارے پر ہے یا سمندر میں سفر کر رہا ہے کررہا ہے تو اسے سورج پانی میں ڈوبتا نظر آئے گا جب حاجی کراچی اور جدہ کے درمیان ہفتہ بھر کا بحری سفر اختیار کرتے ہیں تو وہ ہر روز سورج کو سمندر سے طلوع ہوتا اور اسی میں غروب ہوتا دیکھتے ہیں بہرحال ذوالقرنین مغرب کی طرف چلتے چلتے ایسے مقام تک پہنچ گیا ، جہاں کوئی ندی تھی یا بحر اسود تھا اس نے دیکھا کہ سورج پانی میں غروب ہو رہا ہے ” حما “ سے دلدل بھی مراد لی جاتی ہے ، ہوسکتا ہے کہ وہاں سیاہ رنگ کی دلدل ہو۔ (مفسد قوم سے سلوک) جب ذوالقرنین اس مقام پر پہنچا (آیت) ” ووجدعندھا قوما “۔ تو وہاں اس نے کچھ لوگوں کو پایا یہ لوگ ایماندار نہیں تھے بلکہ سرکش اور فسادی تھے ان کی زبان اور معاشرت بھی مختلف تھی ، مفسریں فرماتے ہیں کہ یہ وحشی قسم کے لوگ تھے جو چمڑے کا لباس پہنتے تھے اور عقیدے کی برائی میں مبتلا تھے جب وہاں پہنچے تو اللہ نے فرمایا (آیت) ” قلنا یذا القرنین “ ہم نے کہا اے ذوالقرنین ! (آیت) ” ام ان تعذب “ یا تو تم ان کو سزا دو (آیت) ” واما ان تتخذ فیھم حسنا “۔ اور یا ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو ، مفسد لوگوں کو ان کو ان کی بری کار گزاری کی سزا بھی دی جاسکتی ہے اور بعض اوقات اگر ان کے ساتھ حسن سلوک اختیار کیا جائے تو تب بھی وہ برائی سے باز آجائے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو اختیار دیدیا کہ ان کے ساتھ جو چاہو سلوک کرو (آیت) ” قال ذوالقرنین “۔ نے کہا (آیت) ” اما من ظلم “ جو شخص ظلم کرے گا (آیت) ” فسوف نعذبہ “۔ تو ہم اس کی سزا دیں گے کفر شرک ، ظلم اور تعدی کرنے والوں کو سزا دی جاسکتی ہے ، یہ اصول بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ تعدی کرنے والوں کو معاف نہ کیا جائے ، امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اجتماعی نظام کے لیے ضروری ہے کہ اچھے لوگوں کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور بدمعاشوں کی سرکوبی کی جائے اگر ایسا نہیں ہوگا تو نظام سلطنت بگڑ جائے گا اور ملک میں بدامنی پیدا ہو جائیگی ، البتہ انگریزی قانون میں اس اصول کی پانبدی نہیں کی جاتی ، وہاں تو مفاد کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس طرف ہے بعض اوقات مفاد کی خاطر غنڈوں کو بھی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں فتنہ و فساد کا بازار گرم ہے بہرحال سکندر ذوالقرنین نے کہا کہ ہم ہر ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دیں گے (آیت) ” ثم یرد الی ربہ “ پھر وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جاے گا ، (آیت) ” فیعذبہ عذابا نکرا “۔ پھر وہ اس کو سخت سزا دے گا جب آخرت میں خدا کی عدالت میں پیش ہوگا تو وہاں کا عذاب بھی چکھنا پڑیگا ذوالقرنین نے کہا کہ قانون کی خلاف ورزی پر تو ہم سزا دیں گے مگر حقیقی اور آخری سزا خدا تعالیٰ دے گا ۔ (اہل ایمان کے لیے جزائ) ذوالقرنین نے یہ بھی (آیت) ” واما من امن “۔ اور جو شخص ایمان لائے گا (آیت) ” وعمل صالحا “۔ اور اچھے اعمال انجام دے گا ، اچھے اعمال میں نماز ، روزہ ، زکوۃ ، اور حج عبادات اربعہ ہیں ، اس کے علاوہ جہاد ، قربانی ، صدقہ ، خیرات ، سماحت ، عدل وغیرہ سب نیک افعال ہیں جن کو انجام دینے سے انسان نجات کا مستحق بنتا ہے ، تاہم ان سب اعمال کا مدار ایمان پر ہے کہ انسان اللہ کی وحدانیت پر ایمان لائے اس کے رسولوں ، ملائکہ کتب کو برحق مانے ، تقدیر اور معاد پر یقین کرے ایسا شخص مومن ہوگا اور اعمال صالحہ کی انجام دی پر اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر اجر کا مستحق ہوگا ، فلہ جزآء الحسنی “ اس کے لیے اچھا بدلہ ہوگا اس کا احترام کیا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی شخص کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا (آیت) ” وسنقول لہ من امرنا یسرا “۔ اور ہم اپنے معاملہ میں اس کے لیے آسان بات کہیں گے نیک اور ایماندار آدمی کے ساتھ حسن سلوک ہی روا ہے ، ایسے شخص کے ساتھ بدسلوکی کرنا ظلم کے مترادف ہے چناچہ سکندر ذوالقرنین نے بھی یہی کہا کہ ایماندار اور نیک آدمی کے ساتھ ہم بھی آسانی کریں گے اور سرکش کو ضرور سزا دیں گے ۔
Top