Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 89
ثُمَّ اَتْبَعَ سَبَبًا
ثُمَّ : پھر اَتْبَعَ : وہ پیچھے پڑا سَبَبًا : ایک سامان
پھر وہ چلا ایک راستے پر ۔
(ذوالقرنین کا مشرقی سفر) ذوالقرنین کے تین سفروں میں مغربی سفر کا حال گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے اب آج کے درس میں مشرقی اور شمالی سفر کا حال بیان ہو رہا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ثم اتبع سببا “۔ پھر وہ ایک راستے پر چلا جو کہ مشرق کی طرف تھا تفسیری روایات کے مطابق یہ سفر بارہ سال میں مکمل ہوا ۔ واللہ اعلم کم وبیش عرصہ بھی ہو سکتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو خاص فضیلت بخشی تھی اور خصوصی قوت بھی عطا فرمائی آپ سے بعض امور معجزانہ طور پر بھی سرزد ہوئے ، اس لیے عین ممکن ہے کہ یہ سفر کم ترعرصہ میں طے ہوگیا ہو اللہ تعالیٰ نے اس کی توفیق اپنی قدرت اور حکمت کے مطابق بخشی تھی بہرحال انہوں نے مشرق کی طرف سفر اختیار کیا (آیت) ” حتی اذا بلغ مطلع الشمس “۔ یہاں تک کہ جب وہ سورج نکلنے کی جگہ پر پہنچا ، (آیت) ” وجدھا تطلع علی قوم لم نجعل لھم من دونھا سترا “۔ وہاں اس نے پایا کہ سورج ایک ایسی قوم پر طلوع ہوتا ہے کہ نہیں بنایا ہم نے ان کے اور سورج کے درے کوئی حجاب مطلب یہ ہے کہ وہ قوم بالکل بےحجاب تھی انہوں نے کوئی مکان نہیں بنا رکھے تھے اور نہ وہ کسی پہاڑ وغیرہ کی آڑ میں زندگی بسر کرتے تھے ، سورج کی تپش براہ راست ان لوگوں کے اجسام پر پڑتی تھی ہو سکتا ہے کہ مغربی لوگوں کی طرح یہ مشرقی لوگ بھی غیر متمدن ہوں ، مغربی لوگوں کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو اختیار دے دیا تھا کہ اختیار دے دیا تھا کہ چاہے تو ان کو سزا دے دے یا ان کے ساتھ رعایت برتے ، اسی طرح ہو سکتا ہے کہ مشرق کے رہنے والے بھی غیر متمدن ہوں اور مکان وغیرہ بنانے کی وہ ضرورت ہی محسوس نہ کرتے ہوں یا مکانیت کا وہاں رواج ہی نہ ہو ، بعض کہتے ہیں کہ اس قوم کے لوگوں نے زیر زمین پناہ گاہیں بنا رکھی تھیں جب سورج کی دھوپ تیز ہوتی تو ان پناہ گاہوں میں چلے جاتے ، بعض کہتے ہیں کہ شدت کی گرمی کے دوران یہ لوگ پانی میں داخل ہوجاتے ، جیسے بھینسیں وغیرہ پانی میں چلی جاتی اور جب دھوپ کی شدت میں کمی واقع ہوتی تو پھر باہر نکل آتے ، یہ سب غیر یقینی باتیں ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ، صحیح بات اتنی ہی ہے جو قرآن وسنت سے ثابت ہے اللہ نے فرمایا ” کذلک “ معاملہ ایسا ہی تھا (آیت) ” وقد احطنا بما لدیہ خبرا اور تحقیق ہم نے ذوالقرنین کے ساتھ پیش آنے والے تمام حالات کا احاطہ کر رکھا ہے وہ سب کچھ ہمارے علم میں ہے تاہم اللہ تعالیٰ نے ان حالات وواقعات کی مزید تفصیل نہیں بتائی ، مشرق اور مغرب میں ذوالقرنین جن مقامات تک پہنچا ، اللہ نے تمام علاقوں پر آپ کو تسلط عطا کیا تھا آپ کے لقب ذوالقرنین کی ویک وجہ تسمیہ یہ بھی ہے کہ آپ دنیا کے دونوں کناروں تک پہنچے قرن کا معنے سینگ بھی ہوتا ہے اور کنارہ بھی ۔ (ذوالقرنین کا شمالی سفر) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ثم اتبع سببا “۔ پھر وہ ایک راستے پر چلا یعنی تیسرا سفر اختیار کیا مفسرین اور مؤرخین اپنے اندازے سے بتاتے ہیں کہ یہ سفر بجانب شمال تھا (آیت) ” حتی اذا بلغ بین السدین “۔ یہاں تک کہ جب وہ دو پہاڑوں کے درے میں پہنچا (آیت) ” وجد من دونھما قوما “۔ تو اس نے پہاڑوں کی اس طرف ایک قوم کو پایا (آیت) ” لا یکادون یفقھون قولا “۔ وہ ذوالقرنین ان لوگوں کی بات سمجھتے تھے اور نہ وہ لوگ ذوالقرنین کی زبان سے واقف تھے ، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اگلی آیات میں ذوالقرنین اور اس قوم کے درمیان مکالمے کا ذکر فرمایا ہے ۔ (ترجمان کی ضرورت) ظاہر ہے کہ یہ بات چیت کسی ترجمان کی وساطت سے ہوئی ہوگئی مختلف زبانیں جاننے والوں کے درمیان ترجمانی کا طریقہ قدیم زمانے سے رائج ہے اسکی مثال حضور ﷺ کے زمانہ میں بھی ملتی ہے ، آپ نے دعوت اسلام کے جو خطوط 7 ھ ؁ میں مختلف سلاطین کو بھیجے تھے ان میں ایک خط قیصر روم کے نام بھی تھا جو حضور کے صحابی حضرت دحیہ ابن خلیفہ کلبی ؓ کے ہاتھ بھیجا گیا ، حضور ﷺ نے دحیہ کلبی ؓ کو رخصت کرتے وقت ہدایت کی تھی کہ یہ خط براہ راست قیصر کے پاس نہ لے جانا بلکہ اسے گورنر بصرہ کو پیش کرکے کہنا کہ ہمارا یہ خط قیصر روم تک پہنچا دو ، دحیہ ؓ نے ایسا ہی کیا گورنر نے وہ خط آگے قیصر کو پہنچایا ، اس دوران قیصر اپنی نظر پوری کرنے کی خاطر عبادت کے لیے پاپیادہ بیت المقدس گیا ہوا تھا واپسی پر اسے خط پیش کیا گیا اور خط پڑھنے کے لیے ترجمان کی خدمات حاصل کی گئیں ، پیشتر اس کے کہ قیصر اس خط کے مندرجات سے آگاہی حاصل کرتا اس نے حکم دیا کہ اس کے علاوقے میں اگر کوئی عرب شخص موجود ہو تو اسے بھی پیش کیا جائے تاکہ وہ اس سے خط بھیجنے والے کہ متعلق کچھ معلومات حاصل کرسکے بادشاہ کے کارندے فورا قریبی شہروں میں روانہ ہوگئے تاکہ کسی عرب باشندے کو تلاش کرسکیں اور وقت ابو سفیان ؓ جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے ، ایک تجارتی قافلے کے ساتھ موجود تھے ، شاہ کے کارندے ان کو ساتھ لے گئے اور بادشاہ کے دربار میں پیش کردیا ، بادشاہ نے ابو سفیان کی عزت افزائی کی ، ان کو آگے بٹھایا اور ان کے ساتھیوں کو پیچھے جگہ دی پھر ترجمان کو بلایا گیا جو عربی اور رومی زبانوں سے واقف تھا اور ساری گفتگو اس کے ذریعے ہوئی قیصر روم نے ان اجنبیوں سے پوچھا کہ تم میں مدعی نبوت کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے والا کوئی آدمی بھی ہے تو ابوسفیان ؓ نے کہا کہ ہاں میں انہیں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہوں ، ہمارے پڑدادا ایک ہی تھے نیز ابوسفیان کی بیٹی بھی حضور ﷺ کے نکاح میں تھی ، لہذا قربت کا یہ بھی ایک ذریعہ تھا ، بہرحال یہ ساری گفتگو ترجمان کے ذریعے ہوئی ، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین اور اس شمالی قوم کے درمیان گفتگو بھی کسی ترجمان کے ذریعے ہی ہوتی ہوگی ، کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتے تھے ۔ (ذوالقرنین اور قوم کا معاملہ) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” قالوا یذالقرنین “۔ ان لوگوں نے کہا اے ذوالقرنین ! (آیت) ” ان یاجوج وماجوج مفسدون فی الارض “۔ بیشک اقوام یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرنے والے ہیں دراصل یاجوج ماجوج دو پہاڑوں کے درے سے اس طرح آباد تھے اور یہ قوم ادھر تھی یاجوج ماجوج درے سے گزر کر اس قوم کی طرف آجاتے تھے اور یہاں آکر قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم کرتے فصلیں تباہ کردیتے اور جو کچھ ہاتھ آتا لے کر اپنے علاقے میں چلے جاتے یہ قوم کمزور تھی اور یاجوج ماجوج کا مقابلہ کرنے کے قابل نہ تھی لہذا یہ ان سے بڑے تنگ تھے انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے ذوالقرنین کے سامنے اس طرح درخواست پیش کی ، کہنے لگے اے ذوالقرنین ! یہ فسادی لوگ ہیں (آیت) ” فھل نجلع لک خرجا علی “۔ کیا ہم آپ کے لیے کوئی خراج یا ٹیکس مقرر کردیں جو آپ کو باقاعدگی سے ادا کرتے رہیں اس کام کے عوض (آیت) ” ان تجعل بیننا وبینھم سدا “۔ کہ تو ہمارے اور یاجوج ماجوج کے درمیان اس پہاڑ درے میں رکاوٹ کھڑی کردے تاکہ یہ لوگ ہماری طرف آکر ہمیں تنگ نہ کریں ، ذوالقرنین نے ان کی یہ درخواست قبول کرلی اور دو پہاڑوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جس کا ذکر اگلے درس میں آئے گا ، انشاء اللہ ۔ (اقوام یاجوج ماجوج) قرآن پاک میں یاجوج وماجوج کا ذکر دو مقامات پر آیا ہے پہلا مقام تو یہی سورة الکہف ہے اور دوسرا مقام سورة الانبیاء میں ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی نشانی کے طور پر یاجوج ماجوج اقوام کا تذکرہ کیا ہے مفسرین اور مؤرخین نے ان اقوام کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے مگر صحیح بات وہی ہے جو یا قرآن پاک میں آگئی ہے یا حضور ﷺ کے ارشادات میں ملتی ہے ، باقی باتیں تو بالکل ڈھکوسلے ہیں ، یا پھر غیر یقینی ہیں ، تاہم اتنا یقینی ہے کہ یاجوج وماجوج کا تعلق نسل انسانی سے ہے کعب احبار کی روایت کے مطابق ان اقوام کا سلسلہ نسب حضرت آدم (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے مگر ان کا تعلق حضرت حوا سے قائم نہیں ہوتا ، زیادہ صحیح اور راجح بات یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی اولاد سے ہیں اور اس طرح ان کا سلسلہ نسب آدم اور حوا دونوں تک پہنچتا ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ قیامت سے پہلے ساری دنیا پر یاجوج ماجوج کا غلبہ ہوگا یہ لوگ بڑی تباہی مچائیں گے ، حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق کسی وبائی مرض (طاعون وغیرہ میں) مبتلا ہو کر ایک دم ہی ہلاک بھی ہوجائیں گے ، کتاب الایمان میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ عام انسانوں اور اقوام یاجوج ماجوج کی آبادی کا تناسب ایک اور نو سو نناوے (999) کا ہے یہ تمام لوگ کفر وشرک میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جہنمی ہوں گے ۔ اس آیت میں مذکور دو پہاڑوں اور ان کے درمیان درے کے مقام وقوع کے متعلق بھی بڑا اختلاف پایا جاتا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ بحراخضر کے قریب یہ وہ جگہ ہے جو باب الابواب یا در بند کے نام سے مشہور ہے اس زمانے میں بند کی تعمیر بعض دوسرے بادشاہوں سے بھی ثابت ہے جیسے چینیوں نے پندرہ سو میل لمبی مشہور دیوار چین تعمیر کرلی تھی ، بہرحال یاجوج ماجوج اور ان پہاڑوں کے محل وقوع کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا صحیح بات یہ ہے کہ یہ اقوام اس وقت نظروں سے اوجھل ہیں اور ان کا ظہور قیامت کے قریبی زمانے میں ہوگا ، اس زمانے میں لوگ کہتے ہیں کہ آج کے سائنسی دور میں دنیا کا کوئی گوشہ نظروں سے اوجھل نہیں رہا مگر یاجوج وماجوج کہیں نظر نہیں آئے ، تو یہ کوئی حتمی بات نہیں ہے اگر اللہ تعالیٰ کسی چیز کو مخفی رکھنا چاہے تو وہ قادر مطلق ہے ایسا کرسکتا ہے تفسیری روایات کے مطابق یاجوج ماجوج چار ہزار اقوام پر مشتمل ہیں ، ان میں سے ہر مرنے والا شخص اپنے پیچھے کم از کم ایک ہزار قابل جنگ آدمی چھوڑ جاتا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان اقوام کی تعداد کس قدر کثرت میں ہے اب اگلی آیات میں ذوالقرنین کے بند باندھنے کا ذکر آرہا ہے ۔
Top