Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 95
قَالَ مَا مَكَّنِّیْ فِیْهِ رَبِّیْ خَیْرٌ فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَهُمْ رَدْمًاۙ
قَالَ : اس نے کہا مَا مَكَّنِّيْ : جس پر قدرت دی مجھے فِيْهِ : اس میں رَبِّيْ : میرا رب خَيْرٌ : بہتر فَاَعِيْنُوْنِيْ : پس تم میری مدد کرو بِقُوَّةٍ : قوت سے اَجْعَلْ : میں بنادوں گا بَيْنَكُمْ : تمہارے درمیان وَبَيْنَهُمْ : اور ان کے درمیان رَدْمًا : مضبوط آڑ
کہا (ذوالقرنین نے) جو اللہ نے مجھے قدرت دی ہے وہ بہتر ہے پس تم تعاون کرو میرے ساتھ جسمانی محنت کے ساتھ تاکہ میں بنادوں تمہارے درمیان اور محنت کے ساتھ تاکہ میں بنادوں تمہارے درمیان اور ان (مفسد یاجوج و ماجوج) کے درمیان ایک دیوار۔
(بند باندھنے کی پیش کش) گذشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ جب سکندر ذوالقرنین انتہائی شمال میں ایک قوم کے ایک قوم کے پاس پہنچے تو ان لوگوں نے شکایت کی کہ اس پہاڑی درے سے اس طرف یاجوج وماجوج کی اقوام ہیں جو اس درے سے گذر کر ہمیں تنگ کرتے ہیں ، لہذا آپ سے درخواست ہے کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان اس درے میں دیوار کھڑی کردیں تاکہ وہ ادھر نہ آسکیں ، انہوں نے اس کام کے لیے معاوضے کی پیشکش بھی کی ، اب آج کی آیات میں ذوالقرنین کا جواب آرہا ہے (آیت) ” قال مامکنی فیہ ربی خیر “۔ کہا کہ میرے لیے اللہ کی عطا کردہ قدرت بہتر ہے یعنی خدا تعالیٰ نے حکومت دی ہے ، مال واسباب عطا فرمائے ہیں لہذا مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں ہے ، تم صرف یہ کرو (آیت) ” فاعینونی بقوۃ “۔ تم جسمانی مشقت میں میرے ساتھ تعاون کرو ، مجھے افرادی قوت کی ضرورت ہے جو مطلوبہ خام مال مہیا کر دے ، باقی سارا خرچہ میری حکومت برداشت کرے گی اور اگر تم افرادی قوت مہیا کر دو (آیت) ” اجعل بینکم وبینھم ردما “۔ تو میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک بند باندھ دوں گا جس کو وہ مفسد قوم عبور نہیں کرسکے گی اور اس طرح تم ان کے شر سے محفوظ ہوجاؤ گے ، اس سے مفسرین کرام یہ بات بھی اخذ کرتے ہیں کہ کسی اچھی حکومت کے مناسب حال نہیں کہ وہ لوگوں سے بلاوجہ ٹیکس وصول کرکے اپنی عیاشی کے کاموں میں خرچ کرے ، بلکہ اچھی حکومت وہ ہے جو سکندر ذوالقرنین کی طرح لوگوں کی بےلوث خدمت کرے ۔ (بند کی تعمیر) ذوالقرنین نے ان لوگوں سے کہا کہ بند کی تعمیر کے لیے (آیت) ” اتونی زبرالحدید “۔ لاؤ میرے پاس لوہے کے تختے ، لوہا وہاں کسی جگہ پر موجود ہوگا جس کو لانے کا حکم دیا گیا ، چناچہ لوہا اس پہاڑ درے میں بھرنا شروع کیا گیا (آیت) ” حتی اذا ساوی بین الصدفین “َ یہاں تک کہ جب وہ انتہائی کناروں تک برابر ہوگیا مطلب یہ کہ لوگ لوہے کے تختے لا لا کر دو پہاڑوں کے درمیان درے کو پڑ کرتے رہے ، اس بات کی تصریح نہیں ہے کہ لوہے کے تختے انتہائی بلندی تک کس طرح جوڑے گئے کیا ان کے پاس کوئی خاص آلات تھے ، ہو سکتا ہے کہ سکندر ذوالقرنین نے کرامت کے طور پر خود اپنے ہاتھوں سے جوڑ دیے ہوں ، بہرحال حاصل وسائل کے ذریعے پورے درے کو تختوں سے پر کردیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ ایندھن کا انتظام بھی کیا گیا ، لوہے کے گرم کرنے کے لیے لکڑی ، تیل ، کوئلہ یا گندھک وغیرہ جو کچھ بھی مہیا تھا وہ بھی تختوں کے درمیان رکھ دیا گیا اور آگ تپانے کے لیے ان کے درمیان پھونکنیاں بھی لگائیں جب یہ سارا سامان تیار ہوگا (آیت) ” قال انفخوا “۔ تو ذوالقرنین نے کہا کہ آگ جلا کر ان کو پھونکو تاکہ آگ بھڑک اٹھے اور لوہا پگھل کر یکجان ہوجائے ، آج کل تو لوہے کو پگھلانے کے لیے فرنسیں (بھٹیاں) کام کر رہی ہیں مگر اس زمانے میں ذوالقرنین نے کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا اور ایک کھلی جگہ میں لوہے کو اتنی آگ دی کہ اس کے تمام تختے پگھل کر یکجان ہوگئے ۔ فرمایا (آیت) ” حتی اذا جعلہ نارا “۔ یہاں تک کہ جب اس لوہے کو بالکل آگ کی طرح کردیا ” قال “ ذوالقرنین نے کہا (آیت) ” اتونی افرغ علیہ قطرا “۔ میرے پاس تانبہ لاؤ تاکہ میں اس لوہے پر ڈال دوں ، ظاہر ہے کہ تانبہ لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے اور اسے پگھلانے کے لیے درجہ حرارت بھی زیادہ درکار ہوتا ہے ، چناچہ جب لوہا گرم ہو کر پگھل گیا تو پھر اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دیا گیا جس سے لوہے کی وہ دیوار مزید مضبوط ہوگئی اور اس میں شگاف پڑنے کا اندیشہ تک نہ رہا جب یہ درہ لوہے کی مضبوط دیوار سے بند ہوگیا تو پھر شرپسند قوم یاجوج ماجوج کے کے دوسری طرف جانے کا امکان ختم ہوگیا ، کیونکہ اس درے کے اطراف میں بڑے دشوار گزار پہاڑ تھے جنہیں عبور نہیں کیا جاسکتا تھا سکندر ذوالقرنین نے یہ بہت بڑا کارنامہ انجام دے کر درے سے اس طرف رہنے والے لوگوں کو مفسدین کے شر سے محفوظ کردیا ، اللہ کا فرمان ہے (آیت) ” فما استطاعوا ان یظھروا “ اب اس مفسد قوم کے بس میں نہیں رہا تھا کہ وہ پہاڑ کے اوپر چڑھ سکتے (آیت) ” وما استطاعوا لہ نقبا “۔ اور نہ وہ طاقت رکھتے تھے کہ اس مضبوط بند میں شگاف ڈال سکتے ۔ یہ عظیم کام سرانجام دینے کے باوجود سکندر ذوالقرنین نے اسے اپنا کمال نہیں جتلایا بلکہ (آیت) ” قال ھذا رحمۃ من ربی “ کہا یہ تو میرے پروردگار کی مہربانی کا نتیجہ ہے ، میں نے یہ کام اس کی توفیق سے پورا کیا ہے اب یہ بند نہایت مضبوط اور ناقابل تسخیر ہے (آیت) ” فاذا جآء وعد ربی جعلہ دکآء “۔ مگر جب پروردگار کا وعدہ آجائیگا تو وہ اس کی تمام تر مضبوطی کے باوجود اس کو توڑ دے گا بند میں شگاف پڑجائیں گے اور یاجوج ماجوج کی قوم اپنے علاقے سے نکل کر پھیل جائیگی (آیت) ” وکان وعد ربی حقا “۔ اور میرے پروردگار کا وعدہ بالکل برحق ہے وہ پورا ہو کر رہے گا ۔ (یاجوج وماجوج کی تلاش) جیسا کہ گذشتہ درس میں عرض کیا تھا اقوام یاجوج وماجوج کے متعلق مختلف نظریات پائے جاتے جاتے ہیں ، مولانا ابوالکلام (رح) کا رجحان یہ ہے کہ اسلام کے ایک ہزار سال گزرنے کے بعد یاجوج ماجوج کا اظہار تاتاریوں کی شکل میں ہوا یہ ایک بہت بڑا فتنہ تھا جس نے پورے ایشیاء میں پھیل کر بڑی تباہی مچائی دمشق ، عراق ، اور خراسان وغیرہ میں تقریبا ایک کروڑ آدمیوں کو ذبح کر ڈالا لوٹ مار کی اور اس طرح جانی اور مالی نقصان کا باعث ہوا ، مولانا انور شاہ کشمیری صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ یاجوج ماجوج سے روسی یا برطانوی اقوم مراد ہو سکتی ہے بعض نے منگول اور ترکوں کو یاجوج وماجوج قرار دیا ہے مگر یہ سب احتمالات ہیں ، یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا ، صحیح روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج وماجوج انسان ہیں ان کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے آدم (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے مگر حوا تک نہیں پہنچتا بائیبل کی بعض روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کیا تو آدم (علیہ السلام) نے کہا کہ تو لعنتی ہوگیا ، اب تو اس زمین پر رہنے کے قابل نہیں رہا ، چناچہ وہ اس متمدن زمین سے نکل کر کہیں دوسری جگہ چلا گیا تھا ، اس کی بیوی اور اولاد کا بھی پتہ چلتا ہے ، اس کی اولاد کے اوصاف کا ذکر بعض انبیاء کے صحیفوں میں بھی کیا گیا ہے ، ہو سکتا ہے کہ اقوام یاجوج وماجوج اسی نسل سے ہوں مگر یہ بھی کوئی معتبر بات نہیں ہے بہرحال احادیث سے جو باتیں معلوم ہوتی ہیں وہ روسی برطانوی ترکی یا منگول اقوام پر منطبق نہیں ہوتیں اگرچہ ان اقوام نے بھی دنیا میں بڑا شروفساد پھیلایا ہے مگر یاجوج وماجوج کوئی اور ہی مخلوق ہے جو اس وقت کسی خطہ میں بند ہے اور اس کا ظہور قرب قیامت میں ہوگا ۔ اکثرلوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر یاجوج وماجوج نامی واقعی کوئی اقوام ہیں تو پھر وہ کہاں ہیں ؟ اس ضمن میں مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) کی بات زیادہ اوفق ہے ، آپ فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں بعض باتیں قرآن پاک سے ظاہر ہوتی ہیں اور بعض احادیث سے ، مثلا قرآن پاک سے ثابت ہے کہ ذوالقرنین اللہ کا مقبول بندہ تھا وہ جلیل القدر بادشاہ تھا سد سکندری ایک آہنی دیوار تھی ، دو پہاڑوں کے درمیان درہ میں انتہائی بلندی تک بند باندھا گیا ، اس درے سے دوسری طرف اقوام یاجوج وماجوج کا مسکن تھا ، اس کے علاوہ حضور ﷺ کے فرمادات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے زمانہ میں اس بند میں تھوڑا سا سوراخ ہوگیا تھا ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش ؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور ﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے ” لا الہ الا اللہ ویل اللعرب من شرقد اقترب “۔ یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، عربوں کے واسطے ہلاکت ہے کہ ایک شر ان کے قریب آچکا ہے ، آپ نے یہ بھی فرمایا ” فتح من ردم یاجوج وماجوج “ یعنی یاجوج وماجوج کے بند کو تھوڑا سا کھول دیا گیا ہے آپ نے ہاتھ کی انگلیوں سے دس کا اور ایک روایت کے مطابق نوے کا سوراخ بھی بنا کر دکھایا کہ اس دیوار میں اتنا سوراخ ہوگیا ہے ام المؤمنین نے عرض کیا حضور ! ” انھلک وفینا صالحون “۔ کیا ہم ہلاک کردیے جائیں گے جب کہ ہمارے درمیان نیک لوگ بھی ہوں گے آپ نے فرمایا کہ لوگ اس وقت ہلاک کردیے جائیں گے ” اذا کثر الخبث “ جب خباثت اور فتنہ و فساد بڑھ جائے گا چاہے ان میں نیک آدمی بھی موجود ہوں ترمذی شریف کی روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج وماجوج اس بند کو دن بھر توڑتے رہتے ہیں مگر جب رات ہوتی ہے تو وہ بند یا دیوار پھر ویسے کی ویسے مکمل ہوجاتی ہے ، عیسیٰ (علیہ السلام) کے دوبارہ نزول پر جب ان اقوام کے خروج کا وقت آئیگا تو ان وقت ان کی زبان سے نکلے گا کہ ہم انشاء اللہ کل اس دیوار کو توڑ دیں گے اور پھر اگلے دن دیوار میں شگاف پڑجائے گا ، اور یاجوج وماجوج وہاں سے نکل کھڑے ہوں گے یہ درجہ دوئم کی روایت ہے ۔ (یاجوج وماجوج کا خروج اور ہلاکت) بہرحال اقوام یاجوج وماجوج کا خروج قیامت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دور میں ہوگا ، اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے فرمائیں گے ” انی اخرجت عبادا لی “۔ میں نے اپنے بندوں کو نکال دیا ہے اب کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا ، اس دوران میں یاجوج وماجوج ساری دنیا پر پھیل جائیں گے ، بڑا شروفساد ومچائیں گے ، سورة انبیاء میں موجود ہے (آیت) ” حتی اذا فتحت یاجوج وماجوج وھم من کل حدب ینسلون “۔ (آیت 96) یاجوج وماجوج اقوام ہر اونچے پہاڑ اور ٹیلے سے اچھلتے کودتے چلے آئیں گے اور ساری متمدن دنیا میں پھیل جائیں گے ۔ یاجوج وماجوج کی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ لوگ بیت المقدس کے قریب ایک پہاڑ پر آکر کہیں گے (آیت) ” قتلنا من فی الارض “۔ ہم نے زمین پر سب کو قتل کردیا ہے آؤ اب آسمان والوں کو بھی ختم کردیں ، پھر وہ بعض آلات کے ذریعے آسمان کی طرف تیر پھینکیں گے جو خون آلود حالت میں واپس آئیں گے پھر یہ لوگ نعرہ ماریں گے کہ دیکھو ہم نے آسمان والوں کو بھی ختم کردیا ہے ، پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوگا کہ آپ میرے کچھ خاص بندوں کو لے کر کوہ طور پر چلے جائیں اور دعا میں مصروف ہوجائیں ، عیسیٰ (علیہ السلام) ایسا ہی کریں گے اس دوران میں یاجوج وماجوج ساری دنیا میں پھیل چکے ہوں گے اور بڑا شروفساد برپا کریں گے پھر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجے میں طاعون کی قسم کی وبائی مرض پیدا ہوگی جس سے یہ سارے یاجوج وماجوج ہلاک ہوجائیں گے ، ان کی لاشیں جگہ جگہ بکھری پڑی ہوں گی ، ان سے تعفن پیدا ہونے کا خطرہ ہوگا ، اللہ کے حکم سے بڑے بڑے پرندے آئیں گے اور وہ لاشوں کو اٹھا کر کہیں لے جائیں گے پھر خوب بارش برسے گی جس سے تمام روئے زمین دھل جائے گی ، اور زمین ایک چٹیل میدان اور آئینے کی طرح صاف ہوجائے گی ، حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ یاجوج ماجوج کے بعد لوگ حج اور عمرہ بھی ادا کریں گے احادیث سے یہ باتیں معلوم ہوتی ہیں ان میں سے بعض احادیث پہلے درجے کی ہیں اور بعض دوسرے درجے کی ہیں ۔ (حرف آخر) دراصل یاجوجیت اور ماجوجیت انکار خدا اور ظلم وتعدی کا نام ہے تاہم جن یاجوج وماجوج اقوام کا ذکر یہاں ہو رہا ہے انکی اکثریت کفر وشرک میں مبتلا ہوگی ، بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ان میں سے کچھ ایمان بھی لائیں گے تو شروفساد میں بھی مبتلا ہوں گے ، اقوام یاجوج وماجوج اور سد سکندری کے محل وقوع کے متعلق لوگوں نے بہت سے سوال کیے ہیں اور ان کے جواب بھی دیے گئے ہیں تاہم شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) کی بات توجہ طلب ہے فرماتے ہیں کہ اس ضمن میں پیدا ہونے والے مختلف سوالات اور ان کے جوابات کے باوجود اس کی حقیقت کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ یہ قوم عام جنوں اور انسانوں کے درمیان ایک برزخی مخلوق ہو ، صاحب تفسیر روح المعانی علامہ آلوسی بغدادی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمیں تو ان اقوام اور سد سکندر کا محل وقوع معلوم نہیں ہو سکتا ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان بڑے بڑے سمندر حائل ہوں لوگوں کا یہ دعوی کہ ہم ساری خشکی اور تری پر محیط ہوچکے ہیں ، درست نہیں ہو سکتا ہے کہ بعض مقامات اور اشیاء اب بھی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوں کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج سے پانچ سو سال پہلے تک ہمیں چوتھے براعظم کا علم نہیں تھا ، ساری متمدن دنیا امریکہ سے ناواقف تھی جس طرح پورا براعظم دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا اسی طرح وہ سکتا ہے کہ یاجوج وماجوج اور سد سکندری اب تک دنیا کی نظروں سے غائب ہو ، دنیا کے عجائبات میں سے آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحل پر واقع دیوار اعظم بھی ہے ایک ہزار میل سے زیادہ لمبی ایک ہزار فٹ اونچی اور بعض مقامات پر بارہ بارہ میل چوڑی اس دیوار پر برطانوی سائنسدانوں کی ایک ٹیم تحقیقات کر رہی ہے ان کی ایک سال کی رپورٹ سے سمندر کے عجیب و غریب اسرار منکشف ہوئے ہیں لہذا یہ کیسے دعوے کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دنیا کے لوگ دنیا کی ہر خشکی اور تری سے مکمل طور پر واقف ہوچکے ہیں ، مطلب یہ کہ اپنی طرف سے کسی چیز کا تعین کرنا جس میں تمام علامتیں نہ پائی جائیں درست نہیں ہے ۔ (وقوع قیامت) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وترکنا بعضھم یومئذ یموج فی بعض “۔ اور ہم چھوڑ دیں گے بعض کو اس دن کہ وہ ایک دوسرے میں گھس رہے ہوں گے ، بعض نے اس کو بھی یاجوج وماجوج پر محمول کیا ہے حالانکہ ان کے متعلق سورة انبیاء میں آچکا ہے کہ وہ ہر اونچے پہاڑ اور ٹیلے سے اچھلتے کودتے آئیں گے چناچہ صحیح بات یہ ہے کہ اس مقام پر آیت کا مصداق وقوع قیامت ہے جب پہلا بگل بجے گا تو دنیا کی ہر چیز فنا ہوجائے گی (آیت) ” ونفخ فی الصور “ پھر جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا (آیت) ” فجمعنھم جمعا “۔ تو ہم سب کو جمع کرلیں گے مخلوق زندہ ہو کر حساب کتاب کے لیے میدان محشر میں جمع ہوجائے گی ، اس وقت بڑا خلفشار ہوگا اور لوگ ایک دوسرے میں گھستے چلے جائیں گے ، ان کی مثال پروانوں کی ہوگی جن کی نہ کوئی مقرر رفتار ہوتی ہے اور نہ کوئی سمت متعین ہوتی ہے اسی طرح تمام لوگ افراتفری کے عالم میں بھاگیں گے اور ایک دوسرے میں گھسیں گے ۔ پھر کیا ہوگا ؟ (آیت) ” وعرضنا جھنم یومئذ للکفرین عرضا “۔ اللہ نے فرمایا اس دن ہم حق کو کافروں کے سامنے کردیں گے وہ کافر (آیت) ” الذین کانت اعینھم فی غطآء عن ذکری “۔ جن کی آنکھوں میں میری یاد سے پردے تھے انہوں نے دنیا میں کبھی مجھے یاد نہیں کیا تھا اس طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔ آنکھیں اندھی ہوچکی تھیں یہ لوگ حساب کتاب کے بعد یقینا جہنم میں جائیں گے ان کی دنیا میں یہ حالت بھی تھی (آیت) ” وکانوا لا یستطیعون سمعا “۔ ان کو اچھی بات سننے کی توفیق بھی نہیں ملتی تھی ، یہ لوگ ہمیشہ غفلت میں پڑے رہے پیغمبروں کی تعلیم کو انہوں نے اپنے کانوں میں کوئی جگہ نہ دی لہذا اب یہ جہنم کا شکار ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے آنکھوں پر پردے پڑنے کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ انسان آج تک یاجوج وماجوج کی اقوام کو نہیں دیکھ سکے کہ وہ کہاں ہیں جب اللہ کا حکم ہوگا تو وہ ظاہر ہوجائیں گے اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ بعید نہیں کہ وہ کسی چیز کو انسانوں پر ایک مدت تک مخفی رکھے اس نے حضرت عزیز (علیہ السلام) کو سو سال تک لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھا اور اصحاب کہف کو تین سونوسال تک غار میں سلائے رکھا اور اس عرصہ میں کسی انسان کی نظر ان پر نہیں پڑی ۔ اللہ تعالیٰ نے قیامت کا تذکرہ بھی فرما دیا ہے یاجوج وماجوج کے خروج اور پھر ان کی ہلاکت کے بعد مسیح (علیہ السلام) مزید کچھ عرصہ دنیا میں رہیں گے اور پھر وفات پاجائیں گے ، نیک لوگ بھی کچھ مدت تک دنیا میں موجود رہیں گے ، پھر نہایت نرم ہوا چلے گی جو ہر نیک آدمی تک پہنچے گی اس سے نیکوکار لوگ مرتے چلے جائیں گے اور پھر روئے زمین پر بدترین قسم کے لوگ ہی رہ جائیں گے یہ گدھوں سے زیادہ بےشرم وبے حیا ہوں گے گلی کوچوں میں بدکاری کریں گے ، اس وقت قیامت کا بگل بجے گا اور وہ برپا ہوجائیں گے ۔
Top