Mualim-ul-Irfan - Maryam : 16
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَ١ۘ اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاۙ
وَاذْكُرْ : اور ذکر کرو فِى الْكِتٰبِ : کتاب میں مَرْيَمَ : مریم اِذِ انْتَبَذَتْ : جب وہ یکسو ہوگئی مِنْ اَهْلِهَا : اپنے گھروالوں سے مَكَانًا : مکان شَرْقِيًّا : مشرقی
اور ذکر کریں آپ کتاب میں مریم (علیہ السلام) کا ، جب کہ وہ جدا ہوئیں اپنے گھر والوں سے ایک مشرقی مکان میں ۔
ربط آیات : پہلے رکوع میں حضرت زکریا (علیہ السلام) کا ذکر ہوا انہوں نے حضرت مریم (علیہا السلام) کے پاس بےموسم پھل دیکھے تو اللہ کی بارگاہ میں اولاد کے لیے درخواست کی حالانکہ وہ جس بڑھانے کو پہنچ چکے تھے وہاں عادۃ اولاد ہونے کا امکان نہیں ہوتا ، اللہ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور یحی (علیہ السلام) جیسا عظیم الشان فرزند عطا کیا جس کا نام بھی اللہ خود تجویز فرمایا اور اس نام کا پہلے کوئی بچہ نہیں تھا ۔ آپ کی پیدائش اللہ کی قدرت کا عظیم نمونہ تھی یہ اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی تھی جو اس نے اپنے برگزیدہ بندے زکریا (علیہ السلام) پر کی ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یحی (علیہ السلام) کی حیثیت اور ان کی فضیلت کا ذکر کیا ، اللہ نے آپ کو بچپن میں ہی علم و دانش کی دولت عطا فرمائی آپ اللہ کے اطاعت گزار بندے اور اخلاق عالیہ کے حامل تھے ، انہوں نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورے طریقے سے ادا کیا ، ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کا بہترین نمونہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں بشارت سنائی کہ ان پر پیدائش کے وقت ، موت کے وقت اور دوبارہ جی اٹھنے کے موقع پر اللہ کی طرف سے سلامتی ہے ۔ (حیرت انگیز واقعات) گذشتہ سورة میں اصحاب کہف ، موسیٰ اور خضر (علیہ السلام) اور سکندر ذوالقرنین کے حیرت انگیز واقعات کا ذکر ہوچکا ہے ، یہ واقعات اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سامنے معمولی چیزیں ہیں کیونکہ وہ قادر مطلق ہے اور کوئی بھی کام کرنے پر قدرت رکھتا ہے ان واقعات میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی قادر مطلق ہے اور کوئی بھی کام کرنے پر قدرت رکھتا ہے ان واقعات میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی بھی ساتھ رہی ہے اصحاب کہف نے بھی اللہ کی رحمت کا ذکر کیا ، پھر خضر (علیہ السلام) کے ہاتھ پر جو محیرالعقول واقعات پیش آئے تھے ، آپ نے انہیں بھی اللہ تعالیٰ کی مہربانی پر محمول کیا ، اس کے بعد سکندر ذوالقرنین نے جو سد سکندری تعمیر کی ، اسے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ منسلک کیا ، اس اب اس سورة میں حضرت زکریا (علیہ السلام) یحی (علیہ السلام) حضرت ؓ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حیرت انگیز واقعات کا تذکرہ ہو رہا ہے یہ واقعات بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی کا نمونہ ہیں ۔ ان واقعات کی تفصیل بیان کر کے دواصل اللہ تعالیٰ نے عقیدہ انبیت کا رد فرمایا ہے اور مسئلہ توحید سمجھایا ہے ، شرک کی بدترین قسم خدا تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کرنے کی خاص طور پر نفی کی ہے آگے حضرت مریم (علیہ السلام) کا واقعہ ہو رہا ہے ، جو کہ دراصل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ کی تمہید ہے یہ واقعات بعض دوسری سورتوں میں بھی بیان ہوئے ہیں خاص طور پر سورة آل عمران تو حضرت مریم (علیہ السلام) کے والد عمران کے نام پر ہی موسوم ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے خاندان عمران اور مسیح (علیہ السلام) کے متعلق تفصیلات بیان فرمائی ہیں ۔ (حضرت مریم (علیہ السلام) کا تذکرہ) اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی آخر الزمان سے خطاب کرکے فرمایا ہے (آیت) ” واذکر فی الکتب مریم “۔ آپ کتاب میں حضرت مریم (علیہ السلام) کا ذکر کریں ، کتاب سے مراد یہاں قرآن پاک ہے جو کہ حضور ﷺ پر نازل ہو رہا تھا ، لہذا اللہ تعالیٰ نے اسی کتاب میں حضرت مریم (علیہ السلام) کا واقعہ نازل فرمایا اور اپنی نبی کو اس کا ذکر کرنے کے لیے کہا ، اس سے پہلے یحی (علیہ السلام) کے واقعہ میں بھی کتاب کا ذکر آچکا ہے (آیت) ” ییحی خذالکتب بقوۃ “۔ یعنی اے یحی (علیہ السلام) اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لو ، وہاں پر کتاب سے مراد تورات تھی کیونکہ اس دور میں تورات ہی کے احکام نافذ العمل تھے اور حضرت زکریا (علیہ السلام) اور یحی (علیہ السلام) اسی کی تبلیغ و اشاعت پر مامور من اللہ تھے ، تاہم اللہ کی آخری کتاب قرآن حکیم میں باقی کتب سماویہ کی نسبت علوم ومعارف کے زیادہ خزانے موجود ہیں ، یہ کتاب ہر قسم کے تغیر وتبدل سے محفوظ ہے کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کی جامع ترین کتاب ہے اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں حضرت مریم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا ہے ۔ مریم کا معنی خادم ہوتا ہے آپ کی والدہ نے منت مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ بیٹا عطا کر دے تو وہ اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردیں گی ، مگر اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی بجائے بیٹی عطا فرمائی تو عمران کی بیوی نے کہا کہ میرے ہاں تو بیٹی پیدا ہوئی ہے (آیت) ” ولیس الذکر کالانثی “ اور بیٹا اور بیٹی برابر تو نہیں ہوتے (آیت) ” وانی سمیتھا مریم “۔ (ال عمران ، 36) اور میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا ، اس نے جو بزرگی ، کرامت اور شرف اس لڑکی کو بخشا وہ عام لڑکوں کو بھی کم نصیب ہوتا ہے ، بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ کتاب میں حضرت مریم (علیہ السلام) کا تذکرہ کریں ۔ (حضرت مریم (علیہ السلام) کی علیحدگی) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” اذانتبذت من اھلھا مکانا شرقیا “۔ جب مریم (علیہ السلام) علیحدہ ہوئیں اپنے گھر والوں سے ایک مشرقی مکان میں یہ واقع یروشلم شہر میں ہی پیش آیا مفسرین کہتے ہیں کہ حضرت مریم (علیہ السلام) کی عمر 13 یا 15 سال کی تھی جب آپ کو پہلی دفعہ حیض آیا آپ کو بڑی تشویش لاحق ہوئی حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کے لیے بیت المقدس میں الگ کمرہ مخصوص کر رکھا تھا ، جہاں وہ عبادت و ریاضت میں مصروف رہتیں ، جب انہیں حیض کی شکایت پیدا ہوئی تو ان کو وہاں رہنا ممکن نہ رہا ، چناچہ وہ بیت المقدس سے مشرقی جانب بیت اللحم میں منتقل ہوگئیں ، جہاں مسیح (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی تھی یہ وہی جگہ ہے جس کی طرف رخ کرکے عیسائی نماز پڑھتے ہیں ۔ مشرقی مکان کی مختلف تاویلات کی گئی ہیں ، اس سے بیت المقدس بھی مراد ہو سکتا ہے کہ یہ حضرت مریم (علیہ السلام) کے اپنے گھر سے مشرقی جانب تھا اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بیت المقدس ہی میں مشرق ہی کے کسی کمرے میں چلی گئی ہوں ، یا پھر بیت المقدس سے باہر ذرا فاصلے پر بھی مشرق کی طرف کوئی جگہ ہو سکتی ہے جہاں حضرت مریم (علیہ السلام) چلی گئیں ، کیونکہ انہیں ایام ماہواری شروع ہوچکے تھے اور انہوں نے غسل بھی کرنا تھا ۔ پھر کیا ہوا ؟ (آیت) ” فاتخذت من دونھم حجابا “۔ انہوں نے گھر والوں سے ورے ایک پردہ لگا لیا تاکہ غسل کرسکیں ، قرآن میں تو صرف گھر والوں سے علیحدگی ہی کا ذکر ہے تاہم مفسرین فرماتے ہیں کہ انہوں نے غسل کرنے کے لیے پردہ لگا لیا ۔ (تنہائی میں فرشتے کی آمد) جب حضرت مریم (علیہ السلام) بالکل تنہائی میں چلی گئیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فارسلنا الیھا روحنا “۔ ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا روح سے مراد فرشتہ ہے اور روح الامین جبرائیل (علیہ السلام) کا لقب ہے جیسے فرمایا (آیت) ” نزل بہ الروح الامین “۔ (الشعراء 193) قرآن پاک روح الامین کی وساطت سے نازل ہوا ، بہرحال ، اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو حضرت مریم (علیہ السلام) کے پاس بھیجا (آیت) ” فتمثل لھا بشرا سویا “۔ پس وہ ایک مکمل انسان کی شکل و صورت میں حضرت مریم (علیہ السلام) کے سامنے آکھڑا ہوا (آیت) ” سویا “ سے مراد یہ ہے کہ وہ شکل و صورت ، رنگ ڈھنک غرضیکہ ہر لحاظ سے ایک خوبصورت انسانی شکل میں وارد ہوئے ، جس طرح جنات کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ وہ جس شکل میں چاہیں متشکل ہو سکتے ہیں اسی طرح فرشتے بھی جس صورت میں چاہیں اپنے آپ کو تبدیل کرسکتے ہیں ، احادیث میں کثرت سے آتا ہے کہ حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اکثر آپ کے پاس آپ کے ایک صحابی حضرت دحیہ ابن خلیفہ کلبی ؓ کی شکل میں آتے تھے ، حضرت دحیہ ؓ قبیلہ کلب کے سردار تھے ، بڑے لمبے چوڑے قد کاٹھ کے وجیہہ انسان تھے ، حضور ﷺ نے آپ کو قیصر روم کے پاس اپنا نامہ مبارک دے کر بھیجا تھا ، بہرحال حضرت جبرائیل (علیہ السلام) دحیہ کلبی ؓ کی شکل میں متشکل ہر کر حضور ﷺ کے پاس آتے تھے ، لوگ سمجھتے تھے دحیہ کلبی ؓ بیٹھے ہیں مگر ان کے جانے کے بعد پتہ چلتا کہ وہ تو جبرائیل (علیہ السلام) تھے اور فلاں آیات نازل ہوئی ہیں ، ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا تھا بلکہ بعض اوقات جبرائیل (علیہ السلام) کسی اجنبی شخص کی شکل و صورت میں بھی آتے تھے چناچہ ارکان اسلام والی مشہور حدیث میں آتا ہے کہ جبرائیل (علیہ السلام) ایک خوبصورت وجیہہ شکل انسان کی شکل میں آئے ، ان کے کپڑے بالکل سفید اور بالکل سیاہ تھے ، اجنبی ہونے کے باوجود ان پر سفر کے آثار نظر نہیں آتے تھے انہوں نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی مجلس میں حضور ﷺ سے گفت و شنید کی اور پھر چلے گئے ان کے جانے کے بعد آپ ﷺ نے بتلایا کہ وہ جبرائیل (علیہ السلام) تھے اور تمہیں دین سکھانے کے لئے آئے تھے ۔ محدث عبد الغنی نابلسی (رح) اور بعض دیگر علماء فرماتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) حضرت مریم (علیہ السلام) کے سامنے حضور خاتم النبیین ﷺ کی شکل میں آئے تھے ان کا استدلال یہ ہے کہ سویا سے ایسی شخصیت مراد ہے جو پوری نوع انسانی میں ہر لحاظ سے معتدل ہو اور یہ صفت صرف حضور ﷺ میں پائی جاتی ہے کہ آپ اعدل البشر ہیں ، آپ اپنے قوی واعضا اور شکل و صورت میں سب سے زیادہ معتدل ہیں شیخ ابن سینا (رح) کا بھی یہی قول ہے کہ پوری کائنات میں اپنے جسم اور قوی کے اعتبار سے معتدل ترین شخصیت حضور ﷺ کی ہے ، ہر انسان کے قوی کم وبیش ہوتے ہیں کسی میں بلغم کی زیادتی ہوتی ہے اور کسی میں خشکی کی ، کسی میں سودا کا مادہ زیادہ ہوتا ہے تو کسی میں صفرا کا ، مگر حضور ﷺ کے تمام اخلاط معتدل تھے اور اللہ نے آپ کو بہترین شکل و صورت اور معتدل ترین اخلاط پر پیدا فرمایا تھا ۔ (حضرت مریم (علیہ السلام) سے گفتگو) جب حضرت مریم (علیہ السلام) نے اس تنہائی میں ایک شخص کو اپنے سامنے موجود پایا تو سخت گھبرائیں ، یہ ان کے لیے بڑی آزمائش کا وقت تھا اور آپ کو اپنی عفت و پاکدامنی کا پاس تھا ۔ (آیت) ” قالت “ فورا بولیں (آیت) ” انی اعوذ بالرحمن منک “ میں تجھ سے خدائے رحمن کی پناہ میں آتی ہوں ، (آیت) ” ان کنت تقیا “۔ اگر تو متقی ہے ، یہ محاورہ ایسا ہی ہے ، جیسے کوئی کہتا ہے کہ یہ کام نہ کر اگر تو مومن ہے ، تو مریم (علیہ السلام) نے بھی یہ کہا کہ اگر تو متقی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کی پناہ لیتی ہوں ، بھلا تو اس تنہائی میں کیسے یہاں آگیا ؟ بعض فرماتے ہیں کہ (آیت) ” ان کنت “ میں ان نافیہ ہے اور اصل میں یہ ہے (آیت) ” ماکنت تقیا “ یعنی تو متقی نہیں ہوتا جو اس تنہائی میں آوارد ہوا بہرحال نفی کا معنی ہو یا اثبات کا مطلب ایک ہی ہے کہ اگر تیرے دل میں خوف خدا ہے تو فورا یہاں سے چلا جا ، اللہ تعالیٰ مجھے اپنی امان میں رکھے حضرت مریم (علیہ السلام) پر گھبراہٹ کا عالم تھا اور اسی حالت میں ان کی زبان سے یہ کلمات ادا ہوئے ۔ اس کے جواب میں ” قال “ فرشتے نے کہا ، (آیت) ” انما انا رسول ربک “ گھبراؤ نہیں ، میں تو تیرے پروردگار کا فرستادہ ہوں ، میں انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہوں ، اور میرے یہاں آنے کا مقصد یہ ہے (آیت) ” لاھب لک غلما زکیا “۔ تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ بچہ عطا کروں مجھے اللہ نے اس کام پر مامور کیا ہے ، اس پر حضرت مریم (علیہ السلام) کو سخت استعجاب ہوا ” قالت “ کہنے لگیں (آیت) ” انی یکون لی غلم “ کہاں سے ہوگا بچہ میرے لیے (آیت) ” ولم یمسسنی بشر “ کیونکہ مجھے تو آج تک کسی مرد نے نہیں چھوا (آیت) ” ولم اک بغیا “۔ اور نہ ہی میں بدکار ہوں ، بچہ پیدا ہونے کی دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ، کہ یا تو عورت کسی مرد کی منکوحہ ہو اور پھر دونوں کے ملاپ کے نتیجہ میں حمل قرار پائے یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ یہ بدکاری کا نتیجہ ہو ، مگر مریم کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین تو دونوں چیزوں سے پاک تھیں ، لہذا انہیں بچے کی بشارت پر سخت حیرانگی ہوئی کہ میرے ہاں کیسے بچہ پیدا ہوگا ۔ جب کہ اس کے لیے ظاہری اسباب تو موجود ہی نہیں ہیں تب فرشتے نے جواب دیا (آیت) ” قال کذلک “ کہا یونہی ہوگا ، اللہ تعالیٰ کی منشا یہی ہے کہ بغیر ظاہری اسباب کے ہی تمہیں بچہ عطا کرے (آیت) ” قال ربک “ تیرے پروردگار نے فرمایا ہے (آیت) ” ھو علی ھین “ کہ ایسا کرنا میرے لیے بالکل آسان ہے میری قدرت تامہ اور حکمت بالغہ سے کوئی چیز بعید نہیں ، میں ہر چیز کرنے پر قادر ہوں ، لہذا بغیر ظاہری اسباب کے بچہ عطا کرسکتا ہوں ۔ (اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ) سورة آل عمران میں یہ ذکر آچکا ہے (آیت) ” ان مثل عیسیٰ عنداللہ کمثل ادم “۔ (آل عمران ، 59) اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال حضرت آدم (علیہ السلام) کی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے محض مٹی سے پیدا کیا ، جب کہ وہاں انسان کی پیدائش کے لیے روایتی اسباب نہیں تھے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم عیسیٰ (علیہ السلام) کی بغیر باپ کے پیدائش پر تعجب کرتے ہو مگر آدم (علیہ السلام) کی پیدائش پر تعجب نہیں کرتے عیسیٰ (علیہ السلام) تو پھر بھی ماں کے بطن سے پیدا ہوئے مگر آدم (علیہ السلام) کے لیے تو یہ ذریعہ بھی موجود نہیں تھا ، نہ ماں نہ باپ بلکہ مٹی کا مجسمہ بنا کر اللہ تعالیٰ نے اس میں روح پھونکی اور آدم (علیہ السلام) کو وجود بخشا انسان کی اصل خاکی ہے اور خاک میں عجز ونیاز مندی کا عنصر غالب ہے لہذا انسان کو غرور وتکبر میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے ، انسان کا انسان ہونا ہی اس کے لیے بہت بڑی بات ہے ۔ میرے مالک نے میرے حق میں یہ احسان کیا خاک ناچیز تھا ، سو مجھے انسان کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ملاحظہ کیجئے اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا ، پھر حضرت حوا ؓ کو آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے ماں کے واسطہ کے بغیر پیدا فرمایا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور نسل انسان کی بقاء کا عام اصول یہ ہے کہ یہ نسل ماں باپ دونوں کے توسط سے آگے بڑھتی ہے خدا قادر مطلق ہے اس نے زکریا (علیہ السلام) کو ایک سو بیس سال کی عمر میں فرزند عطا کیا حالانکہ ان کی بیوی بھی بانجھ تھی یہ بھی خدا کی قدرت کا ایک نمونہ اور اس کی رحمت کی ایک نشانی ہے تو جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ اے مریم (علیہ السلام) ! بغیر کسی مرد کے ہاتھ لگائے تجھے بچہ عطا کردینا اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے لہذا اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے ۔ (نشان قدرت) فرمایا بچہ عطا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے ۔ (آیت) ” ولنجعلہ ایۃ للناس “۔ تاکہ ہم اسے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دیں ، سورة المؤمنوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” وجعلنا ابن مریم وامہ ایۃ “۔ (آیت 50) ہم نے عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو تمام جہاں کے لیے ایک نشانی بنا دیا ان دونوں کی پوری زندگی کے حالات ہی ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کی نشانی کے طور پر قائم کردیا ، تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی قدرت تامہ پر ایمان لائیں فرمایا یہ صرف نشانی نہیں بلیہ (آیت) ” ورحمتہ منا “ ہماری جانب سے مہربانی بھی شامل حال ہے ، حضرت زکریا (علیہ السلام) ، حضرت یحی (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی والدہ پر اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی تھی کہ انہیں برگزیدہ بنایا اور ان پر طرح طرح کے انعامات کیے اللہ تعالیٰ نے خود مسیح (علیہ السلام) اور ان کی والدہ میں بھی کمال درجے کا مادہ ترحم ودیعت فرمایا تھا (آیت) ” وکان امرا مقضیا “۔ اور یہ ایک طے شدہ فیصلہ تھا اللہ تعالیٰ کی حکمت میں یہ طے شدہ بات تھی کہ حضرت مریم (علیہ السلام) کو اس طریقے سے بغیر باپ کے بیٹا عطا کرنا ہے جو کہ اللہ کا جلیل القدر صاحب کتاب رسول ہوگا ۔ اب اگلی آیات میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش اور دیگر حالات بیان ہو رہے ہیں ۔
Top