Mualim-ul-Irfan - Maryam : 51
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى١٘ اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا
وَاذْكُرْ : اور یاد کرو فِي الْكِتٰبِ : کتاب میں مُوْسٰٓى : موسیٰ اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : تھا مُخْلَصًا : برگزیدہ وَّكَانَ : اور تھا رَسُوْلًا : رسول نَّبِيًّا : نبی
(اے پیغمبر ! ﷺ آپ ذکر کریں کتاب (قرآن) میں موسیٰ (علیہ السلام) کا بیشک وہ تھے چنے ہوئے اور تھے اللہ کے رسول اور نبی ۔
ربط آیات : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے انکے اور انکے والد کے درمیان مکالمے کا ذکر کیا ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نہایت نرم طریقے سے اپنے باپ کو توحید کی دعوت دی مگر والد نے بڑی سختی سے ڈانٹ دیا ، اور کہا کہ یہاں سے چلا جا ورنہ تمہیں سنگسار کر دوں گا ، چناچہ آپ اپنے آبائی وطن سے ہجرت کر گئے ، اس دوران میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی آپ کے شامل حال ہوئی اللہ آپ کو حضرت اسحاق جیسا بیٹا اور حضرت یعقوب جیسا عظیم المرتب پوتا عطا فرمایا ، یہ دونوں اللہ کے برگزیدہ نبی تھے اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا درس دیتے تھے ، کفر وشرک کی تردید کرتے تھے اور لوگوں کو ان سے باز رہنے کی تعلیم دیتے تھے ، اللہ تعالیٰ ہاں ان کا بڑا مرتبہ ہے دنیا کی تمام بڑی بڑی اقوام ان کی تعریف کرتی ہیں اور ان کا ذکر خیر نیکی کے ساتھ ہوتا ہے ۔ (موسی (علیہ السلام) کا تذکرہ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کی اولاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ کیا ہے آپ انبیائے بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی اور رسول تھے آپ بھی توحید کے قائل تھے اور اللہ تعالیٰ ہی سے اپنی حاجتیں طلب کرتے تھے اور اسی کی رحمت پر بھروسہ رکھتے تھے ، آپ کی کوئی مشکل کشا اور حاجت روا نہیں تھے کہ آپ کو ہی معبود بنا لیا جائے ، آگے بعض دوسرے انبیاء کا بھی مجموعی طور پر ذکر آرہا ہے جن کے حالات پر اللہ تعالیٰ نے تبصرہ فرمایا ہے اور ان کے مشن کا ذکر کیا ہے ۔ تو یہاں پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تذکرہ اس طرح کیا گیا ہے (آیت) ’ واذکر فی الکتب موسیٰ “۔ اے پیغمبر ! ﷺ آپ کتاب یعنی قرآن پاک میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر کریں (آیت) ” انہ کان مخلصا “ بیشک آپ منتخب شدہ برگزیدہ تھے سورة الاعراف میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات اس طرح بیان کی ہے (آیت) ” یموسی انی اصطفیتک علی الناس برسلتی وبکلامی “۔ (ایت 44) اے موسیٰ (علیہ السلام) ! بیشک میں نے تجھے اپنی رسالت اور کلام کے ساتھ منتخب کیا ہے اللہ نے آپ کو شرف تکلم بخشا ، اور فرمایا کہ آپ اسی انعام پر اکتفا کریں اور بالمشافہ دیکھنے کی خواہش نہ کریں ۔ مخلصا کی دو قراتیں ہیں ۔ اگر ” مخلصا “ پڑھا جائے تو یہ فاعل کا صیغہ بنتا ہے اور اس کا معنی ہوگا نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے والے ، آپ کی عبادت بالکل خالص تھی اور اس میں شرک یاریا کا شائبہ تک نہیں تھا کیونکہ اخلاص اور برگزیدگی جبھی پیدا ہوتی ہے جب یہ چیزیں نہ ہوں سورة المؤمن میں اللہ کا فرمان ہے (آیت) ” فادعوہ مخلصین لہ الدین “۔ (آیت : 65) تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے اس اللہ تعالیٰ کو پکارو ، اس لفظ کی دوسری قرات ” مخلصا “ جس کا معنی منتخب شدہ برگزیدہ اور یہ مفعول کا صیغہ ہے ۔ ّ (نبی اور رسول میں فرق) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت اور نبوت کی گواہی بھی دی (آیت) ” وکان رسولا نبیا “۔ اور آپ اللہ کے رسول اور نبی تھے رسول وہ ہوتا ہے جسے اللہ نے مستقل شریعت ، کتاب یا صحیفہ عطا کیا ہو ، اور نبی وہ ہوتا ہے جس کے لیے مستقل شریعت نازل نہیں ہوتی بلکہ وہ سابقہ شریعت ہی کی تبلیغ کرتا ہے بنی اسرائیل کے ہزاروں انبیاء صرف تورات کی تعلیم دیتے رہے ، تاہم وحی الہی نبی اور رسول ہر دو پر نازل ہوتی ہے ۔ رسول اور نبی میں ایک اور امتیاز یہ ہے کہ رسول کا اطلاق انسانوں کے علاوہ ملائکہ پر بھی ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ ملائکہ کو بھی رسول بنا کر بھیجتا ہے (آیت) ” اللہ یصطفی من الملکئۃ رسلا ومن الناس “ (الحج 75) اللہ تعالیٰ فرشتوں اور لوگوں میں سے اپنے رسول منتخب فرماتا ہے ، البتہ نبی کا اطلاق صرف انسانوں پر ہوتا ہے اور وہ بھی اللہ کا پیغام لاتے ہیں ، علم کلام والے نبی کی تعریف یوں کرتے ہیں ” انسان بعثہ اللہ لتبلیغ ما اوحی الیہ “۔ یعنی بنی وہ ہوتا ہے جس کی طرف وحی کی جاتی ہے ایک صورت میں رسول عام ہے کہ اس کا اطلاق فرشتوں اور انسانوں دونوں انواع پر ہوتا ہے اور نبی خاص ہے کہ یہ صرف انسانوں میں سے ہوتے ہیں ، دوسری صورت میں نبی عام ہے کہ اس کا اطلاق نبی اور رسول دونوں پر ہوتا ہے جسکی طرف وحی کی جاتی ہے اور رسول خاص ہے کہ یہ لفظ صرف صاحب کتاب اور صاحب شریعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور سابقہ کتب کی تبلیغ کرنے والے انبیاء پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ۔ (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تقرب الی اللہ) اللہ نے فرمایا (آیت) ” ونادینہ من جانب الطور الایمن “۔ ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا کوہ طور پر ان کی دائیں جانب سے یہاں پر لفظ ایمن کا تعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہے نہ کہ پہاڑ سے کیونکہ پہاڑ کا تو دایاں بایاں پہلو نہیں ہوتا ، تو جملے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی دائیں طرف سے آواز دی ، یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب آپ مدین سے واپس مصر آرہے تھے ، اس کی تفصیلات اگلی سورة میں تفسیری روایات کے حوالے سے آئیں گی ، تو فرمایا ہم نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پکارا (آیت) ” وقربنہ نجیا “۔ اور ہم نے انہیں قریب کیا سرگوشی کے لیے اللہ تعالیٰ نے درمیان والے بہت سے حجابات اٹھا کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے اتنا قریب کرلیا کہ آپ عالم بالا میں قضا وقدر کے دفتر میں ملائکہ کے قلموں کے چلنے کی آواز سن رہے تھے یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انتہائی عروج تھا اور پھر کیا ہوا (آیت) ” وکلم اللہ موسیٰ تکلیما “۔ (النسآء 164) اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے براہ راست کلام کیا جب کہ درمیان میں کوئی واسطہ نہیں تھا ۔ (ہارون (علیہ السلام) تذکرہ) آگے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” ووھبنا لہ من رحمتنا اخاہ ھرون نبیا “۔ ہم نے اپنی رحمت خاصہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبی بنایا موسیٰ (علیہ السلام) نے خود اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تھی (آیت) ” واجعل لی وزیرامن اھلی ھرون اخی “۔ (طہ ، 29۔ 30) میرے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو میرا معاون بنا دے کیونکہ وہ زبان میں مجھ سے زیادہ فصیح ہے ، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت عطا کی اور پھر ان دونوں کو فرعون اور اس کے حواریوں کی طرف مامور کیا کہ جا کر انہیں خدا کا پیغام سنائیں دونوں بھائی اپنی قوم بنی اسرائیل کی طرف بھی نبی تھے اور ان کی تعلیم وتربیت بھی انہی کے ذمے تھی اللہ تعالیٰ نے دونوں کو بڑی بزرگی اور شان عطا فرمائی یہ بھی لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف دیتے تھے اور کفر وشرک کی مذمت بیان کر کے لوگوں کو باز رہنے کی تلقین کرتے تھے ۔ (اسماعیل (علیہ السلام) کا تذکرہ) پہلے ابراہیم (علیہ السلام) ، اسحاق اور یعقوب (علیہما السلام) کا ذکر گذشتہ رکوع میں ہوچکا ہے اب یہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بڑے فرزند حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا تذکرہ مستقل عنوان کے تحت کیا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واذکر فی الکتب واسمعیل “۔ اور آپ کتاب یعنی قرآن حکیم میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کا تذکرہ بھی کریں ۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے متعلق بیان ہوچکا ہے کہ آپ حضرت ابراہیم کی بڑی بیوی حضرت سارہ ؓ کے بطن سے تھے ، اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ ہاجرہ ؓ تھیں جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہجرت کرکے مصر پہنچے تو مصر کے بادشاہ نے حضرت ہاجرہ ؓ لونڈی حضرت سارہ ؓ کو خدمت کے لیے دی تھی آپ نے یہ لونڈی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بخش دی جنہوں نے ان سے نکاح کرلیا اور اللہ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جیسا عظیم فرزند عطا کیا البتہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پہلے پیدا ہوئے اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) اس کے چودہ سال بعد تولد ہوئے پھر آگے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سے اتنی کثیر اولاد پیدا کی کہ پورا عرب وعجم ان سے بھر گیا عرب کے لوگ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد ہونے پر فخر کرتے تھے ، اللہ نے آپ کا تذکرہ کرکے مشرکین عرب کو تنبیہ کی کہ دیکھو تمہارے آباؤ اجداد ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے تھے مگر تم شرک میں کیسے مبتلا ہوچکے ہو ؟ (وعدے کی سچائی) اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی یہ صفت بیان کی ہے (آیت) ” انہ کان صادق الوعد “۔ بیشک آپ بڑے سچے وعدے والے تھے (آیت) وکان رسولا نبیا “۔ اور آپ اللہ کے رسول اور نبی تھے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام تو بلاشبہ وعدے کے سچے ہوتے ہیں مگر عام مومنوں میں بھی صفت پائی جانی چاہئے حضور ﷺ کا فرمان ہے ” العدۃ دین “۔ یعنی وعدہ ایک قرض ہوتا ہے جس کا چکانا ضروری ہے ، وعدہ کرکے خلاف ورزی کرنا منافق کی نشانی ہے کیونکہ منافق کی ایک نشانی یہ ہے ” اذا وعدا خلف “ جب وہ وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے مفسرین بیان کرتے ہیں کہ کسی شخص نے اسماعیل (علیہ السلام) سے کسی مقام پر ملنے کا وعدہ کیا ، آپ وہاں پہنچ گئے مگر وہ شخص نہ آیا حتی کہ مختلف روایات کے مطابق آپ کو وہاں پر تین دن ، ایک ماہ یا سال بھر انتظار کرنا پڑا پابندی عہد کی یہ عمدہ مثال ہے ۔ ابوداؤد شریف میں یہ روایت بھی آتی ہے کہ قبل از نبوت حضور ﷺ کی لین دین کے معاملہ میں عبداللہ ابن ابو رحمۃ اللہ علیہلحمساء نامی شخص سے بات چیت ہوگئی ، اس نے کہا کہ آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی فلاں چیز لے کر آتا ہوں اتفاق کی بات کہ وہ شخص اپنا وعدہ بھول گیا ، تین دن کے بعد اسے وعدہ یا آیا اور وہاں پہنچا تو حضور ﷺ کو اپنا منتظر پایا آپ نے فرمایا اے نوجوان ! تو نے حضور ﷺ کو اپنا منتظر پایا آپ نے فرمایا اے نوجوان ! تو نے ہمیں مشقت میں ڈال دیا ، اسی طرح حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بھی وعدے کے بڑے پکے اور سچے تھے ۔ وعدہ اللہ سے کیا ہو یا مخلوق سے اس کا ایفا ضروری ہے تاجروں کو اپنے وعدے کا ضرور پاس کرنا چاہئے اور یہی ذمہ داری کار پردازان حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اندرونی اور بیرونی معاہدات پر عمل درآمد کریں ، اخلاق کا دارومدار ایفائے عہد پر ہے اور یہی کامیابی کی ضمانت ہے وعدہ خلافی کرنے والا منافق ہمیشہ ذلیل و خوار ہی ہوتا ہے ، تو اللہ نے فرمایا کہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) سچے وعدے والے اور اللہ کے رسول اور نبی تھے ۔ (نماز اور زکوۃ کی تاکید) فرمایا (آیت) ” وکان یامر اھلہ بالصلوۃ والزکوۃ “ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کی تاکید کرتے تھے اہل سے مراد پوری قوم بھی ہو سکتی ہے کہ سب کو نماز پڑھنے اور زکوۃ ادا کرنے کی تعلیم دیتے تھے ، یہ دونوں بنیادی عبادات ہیں ، نماز کے ذریعے تعلق باللہ استوار ہوتا ہے اور زکوۃ کے ذریعے مخلوق خدا کے ساتھ تعلقات کی استواری ہوتی ہے اور یہ نفس کی اصلاح کا ذریعہ بھی ہے ایک مومن اور غیر مومن کے درمیان یہی عبادات علامات فارقہ بھی ہیں ، سورة التوبہ میں ہے (آیت) ” فان تابوا واقاموا الصلوۃ واتوالزکوۃ فاخوانکم فی الدین “۔ (آیت۔ 11) کفار ، مشرکین اور منافقین کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ تائب ہو کر نماز پڑھنے لگیں اور زکوۃ ادا کرنے لگین تو وہ تمہارے دینی بھائی بن گئے ، اب جھگڑے ختم ہوگئے ، ان سے جنگ کرنے کی ضرورت نہیں مطلب یہ کہ جو شخص ان دو عبادات ، نماز اور زکوۃ کی ادائیگی شروع کر دے وہ جماعت المسلمین کا ممبر بن گیا ، اگر یہ عبادات انجام نہیں دیتا تو پھر دین کے ساتھ اس کی وفاداری مشکوک ہے ۔ (اللہ کے پسندیدہ بندے ) (آیت) ” وکان عند ربہ مرضیا “۔ اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اپنے پروردگار کے ہاں پسندیدہ شخصیت تھے ، ظاہر ہے کہ آپ اللہ کے نبی اور رسول تھے ، وعدے کے سچے اور اعلی اخلاق کے مالک تھے ، صرف خدا کی عبادت کرتے تھے اور لوگوں کو بھی توحید کی دعوت دیتے تھے ، نماز اور زکوۃ کی پابندی کی تعلیم دیتے تھے ، یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا ذریعہ ہیں گویا آپ اللہ تعالیٰ کے منظور نظر تھے مراد یہ ہے کہ عربوں کو بھی لازم ہے کہ وہ انہی کا طریقہ اختیار کریں جن کی وہ اولاد ہیں کفر وشرک کو ترک کرکے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو اپنا لیں ، کتنی بری بات ہے کہ اپنی نسبت تو ان پاک ہستیوں کی طرف کرتے ہیں مگر ان کے طریقے کے سراسرا خلاف چلتے ہیں ۔ (حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تذکرہ) اب اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کا تذکرہ فرمایا ہے (آیت) ” واذکر فی الکتب ادریس “۔ اور آپ کتب یعنی قرآن میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کریں حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بارے میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ آپ نوح (علیہ السلام) سے پہلے تھے یا انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بنی سرائیل میں سے ہوئے ہیں ، بائیبل میں آپ کا لقب اخنوخ بیان کیا گیا ہے ، صاحب مدارک (رح) اور امام بغوی (رح) وغیرہ لکھتے ہیں کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اور آپ پر کئی صحیفے بھی نازل ہوئے یہ وہ ہستی ہیں جنہوں نے بنی نوع انسان کی سہولت کے لیے کئی چیزیں ایجاد کیں ، مثلا سب سے پہلے قلم کے ساتھ لکھنا انہوں نے شروع کیا ، کپڑے سینے کی سوئی اور جنگی اوزار انہی کی ایجاد ہیں ، انہوں نے ترازو بھی بنایا آپ علم فلکیات میں بھی دسترس رکھتے تھے ، دنیا میں ریاضی کا نظام بھی اللہ نے آپ ہی کے ذریعے جاری کیا ارشاد ہوتا ہے ۔ (آیت) ” انہ کان صدیقا نبیا “۔ بیشک وہ صدیق اور نبی تھے ۔ (آپ کا مرتبہ عالیہ) (آیت) ” ورفعنہ مکانا علیا “۔ ہم نے حضرت ادریس (علیہ السلام) کو بڑا بلند مقام عطا فرمایا ، بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ (آیت) ” مکانا علیا “ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ ہی آسمان پر اٹھا لیا تھا ، صحیح حدیث میں آتا ہے کہ شب معراج میں چوتھے آسمان پر حضور ﷺ کی ملاقات حضرت ادریس (علیہ السلام) سے بھی ہوئی تھی ، اسرائیلی روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کی کسی فرشتے کے ساتھ دوستی ہوگئی تھی اور فرشتہ انہیں اپنے پروں میں چھپا کر آسمانوں پر لے گا پھر جب ان کی وفات کا وقت آیا تو ملک الموت آپ کو زمین پر تلاش کرنے لگا مگر اس میں ناکام ہوا پھر اس کی ملاقات اس فرشتے سے ہوگئی فرشتے نے ملک الموت سے دریافت کیا کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کی زندگی کا کتنا حصہ باقی ہے تو اس نے کہا کہ میں تو انہیں کی تلاش میں ہوں کیونکہ ان کا وقت قریب آچکا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ان کی روح چوتھے آسمان پر قبض کروں فرشتے نے اپنے پر کھولے تو حضرت ادریس (علیہ السلام) وہاں موجود تھے چناچہ ان کی روح وہیں قبض کی گئی ، اس روایت کو کعب احبار نے بیان کیا ہے مگر یہ یقینی بات نہیں ہے صرف آپ کا چوتھے آسمان پر ہونا صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ (آیت) ” مکانا علیا “۔ سے شرف اور بزرگی بھی مراد ہوسکتی ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی جو نوع انسانی میں بلند ترین مرتبہ ہے آپ پر صحیفے بھی نازل ہوئے تو گویا آپ عالی مرتبت ہیں اس آیت میں حضرت ادریس (علیہ السلام) کا اجمالی بیان ہے ، تاہم آپ کا مجموعی تذکرہ جس میں آپ کی تبلیغ اور مشن کا ذکر ہے بعد میں آئے گا ۔
Top