Mualim-ul-Irfan - Maryam : 77
اَفَرَءَیْتَ الَّذِیْ كَفَرَ بِاٰیٰتِنَا وَ قَالَ لَاُوْتَیَنَّ مَالًا وَّ وَلَدًاؕ
اَفَرَءَيْتَ : پس کیا تونے دیکھا الَّذِيْ : وہ جس نے كَفَرَ : انکار کیا بِاٰيٰتِنَا : ہمارے حکموں کا وَقَالَ : اور اس نے کہا لَاُوْتَيَنَّ : میں ضرور دیا جاؤں گا مَالًا : مال وَّوَلَدًا : اور اولاد
کیا دیکھا آپ نے اس شخص کو جس نے کفر کیا ہماری آیتوں کے ساتھ اور اس نے کہا کہ البتہ دیا جاؤں گا میں مال اور اولاد ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار ومشرکین کا رد فرمایا جو اہل ایمان کو طعن دیتے تھے اور ان کے ساتھ استہزاء کرتے تھے کہتے تھے کہ ہمارے پاس زندگی کا سارا سازو سامان ہے جب کہ مسلمانوں کے پاس کچھ نہیں ہمارے گھر بہتر ہیں ، اور ہماری مجلسیں اچھی ہیں ، نوکر چاکر ہیں اور پشت پر دوست احباب ہیں ، پھر وہ اہل ایمان سے کہتے کہ بتاؤ ہماری حالت اچھی ہے یا تمہاری ، اللہ نے ایسے بیہودہ خیالات کا رد فرمایا اور اس کا الزامی اور حکیمانہ جواب بھی دیا ، پھر اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے ہدایت کے سامان کی زیادتی کا ذکر فرمایا ، اور باقی رہنے والی نیکیوں کے اچھے بدلے کا تذکزہ فرمایا اب آج کی آیات میں کفار ومشرکین کے بیہودہ خیالات کا مزید رد فرمایا ہے ۔ (شان نزول) آج کی آیات کے شان نزول کے متعلق مفسرین کرام نے صحیحین کی حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ حضور ﷺ کے ایک صحابی خباب ابن ارت ؓ غلامی سے آزاد ہوئے تھے ، لوہاروں کا کام کرتے تھے اور تلواریں وغیرہ بناتے تھے مالی حالت نہایت کمزور تھے انہوں نے عاص ابن وائل کا کچھ کام کیا اور ان سے مزدور لینے کے لیے گئے یہ شخص قبیلہ سہم کا سردار تھا اور بڑا مغرور تھا ، کہنے لگا کہ میں تمہاری مزدوری اس وقت دوں گا جب تم اپنے نبی محمد ﷺ کی نبوت کا انکار کر دو گے ، یعنی تم دین اسلام سے مرتد ہوجاؤ ، حضرت خباب ؓ نے فرمایا کہ میں تو سچے دین کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوں اگرچہ تم مر کر دوبارہ زندہ ہوجاؤ ۔ عاص نے کہا کہ تمہارا عقیدہ ہے کہ ہر شخص مرنے کے بعد دو بار زندہ ہوگا اور پھر حساب کتاب کی منزل آئے گی اچھا توق پھر جب میں قیامت میں دوبارہ زندہ ہوں گا تو تمہاری مزدوری اس وقت ادا کروں گا ، اس طرح گویا اس نے عقیدہ بعث بعد الموت کے ساتھ استہزا کیا ، یہ آیات اسی سلسلہ میں نازل ہوئیں ۔ (مال واولاد پر فخر) ان آیات کا اطلاق صرف عاص بن وائل پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ان کا مصداق ہر وہ شخص ہے جو مال اور اولاد پر فخر کرتا ہے اور قیامت پر ایمان نہیں رکھتا اللہ کے نبیوں کے میں دولت مند لوگ ہمیشہ ہی کہا کرتے ہیں (آیت) ” نحن اکثر اموالا واولادا “ (سبا۔ 25) ہمارے پاس مال اور اولاد زیادہ ہے (آیت) ” وما نحن بمعذبین “۔ (الشعرآء 138) بھلا ہمیں کون سزا دے سکتا ہے ، چناچہ عاص بن وائل نے بھی حضرت خباب ؓ سے از راہ تمسخر کہا کہ اپنی مزدور قیامت کے دن مجھ سے وصول کرلینا ، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” افرء یت الذی کفر بایتنا “۔ کیا آپ نے اس شخص کی طرف دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا (آیت) ” وقال لاوتین مالا وولدا “۔ اور اس نے یوں کہا کہ میرے پاس قیامت والے دن مال بھی ہوگا اور میرے ساتھ میری اولاد بھی ہوگی لہذا تم اپنا حساب وہاں چکا لینا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” اطلع الغیب “ کہا اس شخص نے غیب کو جھانک کر دیکھ لیا ہے کہ دوبارہ اٹھائے جانے پر اس کے پاس اسی طرح مال و دولت ہوگا جس طرح اس دنیا میں ہے ، امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں کہ غیب تو خدائے واحد وقہار کے ساتھ خاص ہے ، اس کے سوا کوئی غیب دان نہیں مگر اس شخص نے غیب کی بات کیسے معلوم کرلی مطلب یہ کہ اس شخص کا دعوئے غلط ہے کیا پتہ قیامت والے دن اس کی کیا حالت ہوگی ، فرمایا کی اس کو غیب کا علم ہے (آیت) ” ام اتخذ عند الرحمن عھدا “ ۔ یا اس نے خدائے رحمان کے ساتھ کوئی عہد کر رکھا ہے کہ وہ آخرت میں بھی اسے مال اور اولاد عطا کرے گا ، فرمایا (آیت) ” کلا “ خبردار ! یہ سب دعوے غلط ہیں ، نہ تو اس کے پاس علم ہے اور نہ وہ غیب کی بات جانتا ہے علم تو وحی کے ذریعہ اللہ کے نبیوں کو حاصل ہوتا ہے مگر یہ تو اللہ تعالیٰ کے نافرمان لوگ ہیں ، ان کو غیب کا علم کہاں سے حاصل ہوگیا فرمایا یہ شخص اپنے دعوی میں تو جھوٹا ہے البتہ (آیت) ” سنکتب مایقول “ ہم ضرور لکھ لیں گے جو کچھ وہ کہتا ہے ، ہمارے فرشے اس کی ہر حرکت اور قول کو نوٹ کر رہے ہیں ، اس کو ایک تو نافرمانی کی سزا ملیگی اور دوسرا وہ غلط دعوے کی وجہ سے بھی مستحق سزا ٹھہریگا کہ اس نے ایسی بیہودہ بات کیوں کی ، اتنی اکڑ دکھائی اور ایک مزدور کا حق مارا بلکہ اسے کفر کرنے پر مجبور کیا اس نے اللہ کی توحید اور رسول کی رسالت کا بھی انکار دیا تو اللہ نے فرمایا کہ ہمارے فرشتے اس کے نامہ اعمال میں یہ سب کچھ ضرور درج کرینگے (آیت) ” ونمد لہ من العذاب مدا “ اور ہم دراز کریں گے اس کے لیے سزا کو دراز کرنا ایسا شخص ہماری سزا سے بچ نہیں سکے گا ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا (آیت) ” ونرثہ مایقول “ اور جو کچھ وہ کہتا ہے اس کے وارث ہم ہوں گے مطلب یہ کہ یہ شخص تو عنقریب مرجائے گا پھر اس کے ساتھ مال و دولت کے وارث ہم ہوں گے جس پر آج یہ فخر کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا قانون ہی یہ ہے (آیت) ” وللہ میراث السموت والارض “۔ (آل عمران ۔ 180) زمین وآسمان کی ساری وراثت اللہ تعالیٰ ہی کے قبضے میں ہے انسان اس دنیا سے خالی ہاتھ جاتے ہیں ان کا سارا سازوسامان یہیں رہ جاتا ہے ، ایمان اور اعمال صالحہ کے علاوہ انسان کے ساتھ کچھ نہیں جاتا باقی چیزیں تو وبال جان بن جائیں گی ، فرما ای (آیت) ” ویاتینا فردا “ اور ہمارے پاس یہ اکیلا ہی آئے گا اس شخص کو مال اور اس کی اولاد ساتھ نہیں جائے گی جو کسی مشکل میں بھی اس کی مدد کرسکیں ، عاص ابن وائل کے دو بیٹے تھے جنہوں نے اسلام قبول کرلیا اور اس لحاظ سے بھی یہ اکیلا رہ گیا عاص بن وائل کی طرح بعض دوسرے متکبر لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں اللہ نے ان سب کا رد فرمایا ہے ۔ (جبری سفارش) اگلی آیات میں پھر توحید کا بیان ہے اللہ نے شرک کا رد فرمایا ہے اور ساتھ قیامت کا ذکر بھی کیا ہے ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واتخذ من دون اللہ الھۃ “۔ انہوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بنالیا ہے دون کا معنی سوا بھی ہوتا ہے اور درے بھی ، گویا انہوں نے اللہ کے سوا غیروں کو اپنا کارساز ، حاجت روا اور مشکل کشا بنا لیا ہے ، کہتے ہیں کہ بڑا خدا تعالیٰ تو اپنی جگہ موجود ہے اور ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے ماتحت کچھ چھوٹے چھوٹے معبود بھی ہیں جو سفارش کرکے اللہ تعالیٰ سے کام کروا دیتے ہیں کہتے تھے ہم خداوند تعالیٰ سے اپنا تعلق براہ راست نہیں جوڑ سکتے لہذا درمیان میں یہ معبود ہمارا وسیلہ ہیں جو ہماری بات کو آگے پہچانتے ہیں یہ جبری سفارش کا تعلق ہے جو بدترین قسم کا شرک ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا نظام بھی دنیا کے بادشاہوں جیسا ہے اگر بادشاہ کسی سے ناراض ہوجائے تو اسے راضی کرنے کے لیے یا کسی مطلب براری کے لیے کسی وزیر یا بادشاہ کے مقرب کی سفارش کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے سامنے بھی سفارشی کام آتے ہیں خدا تعالیٰ راضی ہو یا ناراض یہ اس کے سفارشی ضرور ہی اسے منوا لیتے ہیں گویا اللہ تعالیٰ سفارش قبول کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ، مگر نادان یہ نہیں سمجھتے کہ دنیا کے بادشاہ تو مجبور ہوجاتے ہیں کہ انہیں اپنے امیروں ، وزیروں یامصاحبوں کی طرف سے بغاوت کا خطرہ ہوتا ہے یا وہ کسی سازش کا شکار ہوجانے سے ڈرتے ہیں ، اور سفارش قبول کرنے پر مجبور ہوتے ، مگر اللہ تعالیٰ تو قادر مطلق اور ہر چیز کا متصرف ہے ، اسے کسی کام کے لیے کسی دوسرے کی مدد کی ضرورت نہیں ہوتی اسے اپنی مخلوق کی طرف سے کسی بغاوت کا خطرہ نہیں بھلا وہ کسی کی سفارش قبول کرنے پر کیسے مجبور ہوگا ، یہ تو مشرکین کی خام خیالی ہے ، وہ اپنے شرکاء کے متعلق کہتے تھے (آیت) ” ھؤلآئشرکآء نا عنداللہ “۔ (یونس ، 18) یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارش ہیں ، پھر جب ان سے کہا جاتا کہ تم ان کے نذرونیاز کیوں دیتے ہو تو یہی جواب دیتے (آیت) ” مانعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی “۔ (الزمر ، 3) ہم تو ان کی عبادت محض کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کا قرب دلا دیں گے ، اس قسم کا عقیدہ یہود ونصاری میں بھی پایا جاتا ہے یہود کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوزخ کے دروازے پر کھڑے ہوں گے اور کسی ختنہ شدہ یہودی کو دوزخ میں نہیں گرنے دیں گے بلکہ جنت میں پہنچا کر چھوڑیں گے اسی طرح عیسائی بھی یہی کہتا ہیں کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت کو مان لو ، ان کے کفارہ بن جانے کے عقیدہ کو تسلیم کرلو تو پھر تم جنت میں ضرور پہنچ جاؤ گے خواہ کچھی بھی کرتے پھرو اللہ تعالیٰ نے اس جبری سفارش کا رد فرمایا ہے (آیت) ” من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ “۔ (البقرہ۔ 255) کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے پوری کائنات اللہ کی مخلوق میں سے مقرب ترین ہستی حضور خاتم النبیین ﷺ ہیں مگر آپ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش نہیں کریں گے روایات میں آتا ہے کہ قیامت والے دن حضور ﷺ مقام محمود پر خدا کے سامنے دنیوی مدت کے اعتبار سے دس سال تک سجدے میں پڑے رہیں گے ، خدا تعالیٰ کی حمد وثنا کریں گے تو اس کے بعد جا کر آپ کوئی سفارش بھی نہیں کرسکتا چہ جائیکہ جبری سفارش کا عقیدہ تسلیم کرلیا جائے وہ قادر مطلق اور علیم کل ہے ، وہ جو چاہے سو کرے (آیت) ” لارآد لحکمہ “۔ اس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا سفارش بھی اسی کے حق میں قبول ہوگی جس کا عقیدہ پاک ہوگا ، مشرک اور منافق کے حق میں سفارش نہیں ہوگی ، اس معاملے میں اللہ کے نبی ، فرشتے اولیاء اور شہداء سب بےبس ہوں گے سفارش اس کے حق میں ہوگی جو ایماندار ہوگا مگر اپنے گناہوں کی وجہ سے سزا کا مستحق ہوگا ۔ (شرک کا مزعومہ فائدہ) فرمایا ان لوگوں نے اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بنا لیا ہے جس سے ان کا مقصود یہ ہے (آیت) ” لیکونوا لھم عذا “ تاکہ یہ شرکا ان کے لیے عزت کا باعث بن جائیں مطلب یہ کہ انہیں ہر کام میں کامیابی حاصل ہو اور ان کی مرادیں پوری ہوتی رہیں ، چناچہ مشرکین نے مختلف امور کے لیے مختلف معبود بنا رکھے تھے ، کہتے تھے فلاں بت کی نیاز دی جائے تو مقدمے میں بری ہوجاتے ہیں ، فلاں معبود بیماری میں شفا دیتا ہے اور فلاں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دلانے میں پیش پیش ہے چناچہ یہ لوگ ان معبودوں کی تعظیم کرتے ان کے لیے نذر مانتے اور چڑھاوے چڑھاتے کوئی اقتدار کی خاطر کسی معبود کے آگے جھک جاتا ، کوئی محبت کا دیوتا سمجھ کر اس کی خدمت کرتا اور کوئی دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے نذر مانتا حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے کے پانچ مشہور بت ود ، سواع ، یغوث ، یعوق اور نسر تھے ان کو مشرکوں نے خود ہی محکمے تفویض کر رکھے تھے کہ یہ اولاد دیتا ہے یہ جنگ میں کامیابی دلاتا ہے اور یہ فلاں حاجت پوری کرتا ہے وغیرہ وغیرہ ، قبر پرستوں کا بھی یہی معمول ہے قبروں پر سجدہ کرتے ہیں ان کی تعظیم کرتے اور ان کی نذر ونیاز دیتے ہیں ، اب تو قبر پرستی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کی قبروں پر بھی پھول چڑھائے جاتے ہیں ، حکومتوں کے درمیان یہ رواج بن چکا ہے کہ باہر سے کوئی بڑا آدمی آتا ہے تو وہ مسٹر جناح اور علامہ اقبال کی قبر پر پھول چڑھاتا ہے اور ہمارے اکابر بیرون ملک جاتے ہیں تو پتھر کے مجسموں پر پھول چڑھاتے ہیں ہمارے صدر صاحب آج کل رنگون گئے ہوئے ہیں انہوں نے بدھ کے مجسمے پر پھولوں کی چادر چڑھائی ، یہ اسلام کے داعی ہیں اگر ایسا شرکیہ فعل نہ انجام دیں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی ہر امیر ، وزیر حضرت علی ہجویری (رح) کی قبر چادر چڑھانا ضروری سمجھتا ہے کہ مشرک لوگ خوش ہوجائیں کہ وزیر بھی ہمارا ہم مسلک ہے ، غیر آدمی کوئی ایسا کام کرے تو شور مچ جاتا ہے مگر صدرہ صاحب کو کوئی نہیں پوچھتا کہ کیا کر رہے ہو کیا یہی اسلام ہے کیا یہ غیر اللہ کی تعظیم نہیں ہے ؟ کیا اس فعل کے بغیر غیر ممالک سے دوستی نہیں ہو سکتی مگر یہ ایسا شرکیہ رواج قائم ہوگیا ہے جس سے بچنا محال ہو رہا ہے بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ دوسروں کو اس لیے معبود بناتے ہیں تاکہ ان کی عزت کا سامان ہو اور ان کی مرادیں پوری ہوتی رہیں ، حالانکہ ان کے پاس مراد پوری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ (معبوداں باطلہ انکار کردیں گے) فرمایا آج تو یہ لوگ دوسروں کو معبود بنا رہے ہیں مگر قیامت کے روز کیا ہوگا (آیت) ” کلا “ خبردا ! ” سیکفرون بعبادتھم “۔ یہ معبود مشرکین کی طرف سے عبادت کا انکار کردیں گے ، اللہ کے نیک بندے عرض کریں گے مولا کریم ! ہم نے تو انہیں کیا کہا تھا کہ ہماری عبادت کریں ، انہوں نے ہماری تعلیم کو پس پشت ڈال دیا ، اور ہماری قبروں کو پختہ بنایا ان پر چادریں چڑھائیں اور ان پر جانور ذبح کیے اسی طرح فرشتے بھی اپنی عبادت سے انکار کریں گے اور کہیں کہ پروردگار ! ہم تو تیرے سوا کسی کو کارساز اور مشکل کشا نہیں سمجھتے ہم نے تو انہیں ہر گزر نہیں کہا تھا کہ ہمیں حاجت روا سمجھ کر ہماری پرستش کرو ، یہ سب ان کے اپنے ذہن کی خلفشار ہے پھر وہ مٹی اور پتھر کے بت بھی انکار کردیں گے جن کی یہ مشرکین پوجا کرتے رہے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ یہ مجسمے بھی اسی طرح کلام کریں گے جس طرح انسان کے ہاتھ پاؤں قیامت کے روز گواہی دیں گے ، یہ بت کہیں گے کہ خداوند کریم ! ہم تو بےجان اور بےاختیار تھے ہم نے تو نہیں کہا کہ ہماری پوجا کرو انہوں نے خود ہی ہماری نذر ونیاز دینا شروع کردی اور مشکل میں ہمیں پکارنا شروع کردیا ، یہ خود ہی اس قبیح حرکت کے ذمہ دار ہیں فرمایا (آیت) ” ویکونون علیھم ضدا “۔ قیامت کے دن معبودان ان مشرکین کے مخالف ہوجائیں گے ، ان کے خلاف گواہی دیں گے اور یہ لعنت کے مستحق ٹھہریں گے ۔
Top