Mualim-ul-Irfan - Maryam : 83
اَلَمْ تَرَ اَنَّاۤ اَرْسَلْنَا الشَّیٰطِیْنَ عَلَى الْكٰفِرِیْنَ تَؤُزُّهُمْ اَزًّاۙ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اَنَّآ اَرْسَلْنَا : بیشک ہم نے بھیجے الشَّيٰطِيْنَ : شیطان (جمع) عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) تَؤُزُّهُمْ : اکساتے ہیں انہیں اَزًّا : خوب اکسانا
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بیشک ہم نے مسلط کیا ہے شیاطین کو کفر کرنے والوں پر وہ ابھارتے ہیں ان کو ابھارنا ۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ نے کفر اور شرک کرنے والوں کا عقیدہ اور ان کی بیہودہ گفتگو کا رد فرمایا ، اس کے علاوہ اللہ نے ان کا انجام بھی بیان فرمایا ، اللہ نے واضح کیا کہ مشرکین اپنے معبودان کو باعث عزت سمجھتے تھے وہ ان کے مخالف بن جائیں گے اور ان کی عبادت سے انکار کردیں گے ، نیز مشرکین کو ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا ، اب اللہ نے مشرکین اور کفار کی گمراہی کے اسباب کا تذکرہ کیا ہے اور بتلا دیا ہے کہ جملہ اسباب ضلالت میں سے سب سے بڑا سبب انسانوں پر شیطان کا تسلط ہے ۔ (شیاطین کا تسلط) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” الم تر انا ارسلنا الشیطین علی الکفرین “۔ اے پیغمبر ! ﷺ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بیشک ہم نے کافروں پر شیطانوں کو مسلط کیا ہے ، ” ارسلنا “ کا عام فہم معنی تو بھیجنا ہوتا ہے تاہم اس مقام پر مسلط کرنا مراد ہے ، اور پھر شیطانوں کا کافروں پر یہ اثر ہوتا ہے (آیت) ” تؤزھم ازا “ کہ وہ انکو ابھارتے رہتے ہیں یعنی کافروں کو کفر اور شرک پر اکساتے رہتے ہیں ، وہ لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں اور لوگ کفر شرک ، بدعات اور معاصی کو اختیار کرنے لگتے ہیں ایسے افعال کا ذکر گزشتہ آیات میں ہوچکا ہے کہ لوگ ضد عناد اور تعصب کا شکار ہوجاتے ہیں اہل ایمان کو حقیر سمجھتے ہیں کمزوروں کی تذلیل کرتے ہیں قیامت کا انکار کرتے ہیں اور شرکیہ رسومات کو بڑے زور شور سے ادا کرتے ہیں اور اسے کار ثواب سمجھتے ہیں یہ سب کچھ شیطان کے اغواء کرنے سے ہوتا ہے اللہ کا ارشاد ہے (آیت) ” ومن یعش عن ذکر الرحمن نقیص لہ شیطنا فھولہ قرین “۔ (الزخرف ، 26) ، جو شخص خدائے رحمان کی یاد سے روگردانی کرتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ شیطان مقرر کردیتا ہے جو اس کا ساتھی بن کر گمراہ کرتا رہتا ہے لوگ زندگی کے آخری لمحات تک یہی سمجھتے ہیں کہ وہ بڑا اچھا اور کار ثواب کر رہے ہیں حالانکہ وہ غلط ہوتا ہے اور پھر مرنے کے بعد اس کا بڑا افسوس ہوگا اللہ کی یاد سے غفلت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے ۔ ذکرالرحمان سے خدا تعالیٰ کی یاد اور اس کا کلام یعنی قرآن پاک دونوں مراد ہیں قرآن سے اعراض بھی شیطان کے تسلم کا ذریعہ بنتا ہے جب انسان اپنی فطرت کو ترک کرکے اللہ کی یاد اور اس کے کلام سے اعراض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر شیطان کو مسلط کردیتا ہے گویا گمراہی کے اسباب میں سے شیطان کا اغوا سب سے بڑا سبب ہے ، اللہ تعالیٰ نے شیطان کے متعلق فرمایا ہے ۔ (آیت) ” انہ لکم عدومبین “۔ (البقرہ : 168) یہ تمہارا کھلا دشمن ہے ، اور یہ خطرناک بھی ہے کیونکہ (آیت) ” انہ یرکم ھو وقبیلہ من حیث لا ترونھم “۔ (الاعرف 27) وہ اور اس کا سارا قبیلہ تمہیں ایسی جگہ سے دیکھ رہا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے ، وہ تمہاری نگاہوں سے چھپ کر تم پر حملہ آور ہو رہا ہے اور تمہیں کچھ خبر نہیں ، آدم (علیہ السلام) کو روئے زمین پر اتارنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ آدم ! (آیت) ” ان ھذا عدولک ولزوجک “۔ (طہ ، 117) شیطان تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے اس سے خبردار رہنا کہیں تمہیں جنت سے نہ نکلوا دیے ۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں ” رب اقلیم استولی علیہ الشیطان “۔ بعض ملک ایسے ہوتے ہیں جن پر شیطان کا غلبہ ہوتا ہے ، ساری کی ساری قوم شیطان کے اغوا اور تسویل میں مبتلا ہوتی ہے ، اور سب اس کے کہنے میں آکر کفر ، شرک ، بدعات اور معاصی میں غرق ہوتے ہیں شیطان کے تسلط سے یہی مراد ہے اس کے ذریعہ وہ لوگوں کو غلط کاموں پر ابھارتا رہتا ہے ۔ (دیگر اسباب ضلالت) اسباب ضلالت میں سے انسان کا نفس امارہ بھی ایک بڑا سبب ہے جو انسان کو برائیوں کی طرف راغب کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا یہ قول بھی نقل کیا ہے (آیت) ” وما ابریء نفسی ان النفس لامارۃ ، بالسوٓء “۔ (یوسف ، 53) میں اپنے نفس کو بری قرار نہیں دیتا کیونکہ نفس برائی کی طرف آمادہ کرتا ہے نفس آزادی چاہتا ہے مگر شریعت نے ان پر کنٹرول کرنے کے لیے مختلف احکام عائد کیے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ نفس امارہ کی بجائے انسان کی عقل وخرد اور وحی الہی غالب ہو تاکہ وہ نیکی کی طرف مائل ہو سکے اور برائی سے بچ سکے بزرگان دین اسی نفس کے متعلق فرماتے ہیں ، ” ان عدوک الذی بین جنبیک “۔ تمہارا ایک بڑا دشمن وہ ہے جو تمہارے پہلو میں بیٹھا ہے تو گویا نفس امارہ بھی انسان کے لیے گمراہی کے اسباب میں سے ہے اس کے علاوہ زیب وزینت کے سامان اور لہو ولعب کے ذرائع بھی اسباب ضلالت میں سے ہیں عام طور پر لوگوں کا رجحان نیکی طرف بہت کم ہوتا ہے ، مگر کھیل تماشے اور برائیوں کی طرف دوڑ کر جاتے ہیں ، بدعات بھی اسی قبیل سے ہیں جو انسان کے نفس کو خوش کرتے ہیں مگر حقیقت میں وہ گمراہی کی طرف جارہا ہوتا ہے ۔ مال و دولت بھی انسان کی گمراہی کا سبب بنتا ہے ، مالدار آدمی مغرور ہوجاتا ہے اور اس کے ہاتھ سے انصاف کا دامن چھوٹ جاتا ہے حکومت اور اقتدار بی آدمی کو گمراہی کردیتا ہے ، اقتدار کے نشے میں چور آدمی حق وناحق کی پہچان سے عاری ہوجاتا ہے اور پھر من مانی کرنے پر اترآتا ہے ، پھر ظلم وجور کا دوردورہ ہوتا ہے اور انسان خواہشات کے پیچھے لگ جاتا ہے آج دنیا میں دیکھ لیں بڑی بڑی سلطنتیں اپنی طاقت کی وجہ سے شدید ترین گمراہیوں میں مبتلا ہیں ہر حکومت کے ڈکٹیٹر اور عہدیدار اقتدار کی وجہ سے ہی بےراہروی کا شکار ہو کر گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتے ہیں۔ بہرحال اسباب ضلالت میں سے شیطان کا اغواء سب سے بڑا سبب ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ اس آیت میں کرکے انسان کو اس سے بچنے کی تلقین کی ہے حقیقت یہ ہے کہ اس اغواء سے بچنے والے اللہ کے خاص بندے ہی ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے ذکر سے اعراض نہیں کرتے ، ایسے لوگوں پر شیطان کا تسلط قائم نہیں ہوتا ، ورنہ عالم لوگوں کا معاملہ یہ ہے (آیت) ” زین لھم الشیطن ما کانوا یعملون “۔ (الانعام ، 43) شیطان اس کے بدترین اعمال کو بھی مزین کر کے دکھاتا ہے ، ان کے فوائد بتلاتا ہے اور کہتا ہے کہ اسی میں تمہاری عزت ، وقار اور نیک نامی ہے انسان اس کے کہنے میں آجاتے ہیں اور پھر کھیل تماشے ، کفر ، شرک ، اور بدعات کی طرف مائل ہو کر شیطان کے پنجے میں جکڑے جاتے ہیں ۔ (سزا میں جلدی کی خواہش) بعض اوقات حضور ﷺ کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ نافرمانوں کو جلدی سزا ملنی چاہئے کیونکہ جب تک ان کو موقع ملتا رہے گا وہ دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہیں گے ، ایسے لوگوں کے لے سزا کی خواہش کوئی بری بات نہیں بلکہ انصاف کے عین مطابق ہے مگر اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ” فلا تعجل علیھم “۔ آپ ان پر جلدی نہ کریں بلکہ برداشت کریں کیونکہ ہم نے بھی ان کے خلاف پروگرام بنا رکھا ہے (آیت) ” انما نعدلھم عدا “ بیشک ہم شمار کر رہے ہیں انکے لیے شمار کرنا ، مطلب یہ کہ ایسے نافرمانوں کی زندگی کے دن ہم گن رہے ہیں حتی کہ ان کے ایک ایک سانس کا حساب ہمارے پاس موجود ہے اس وقت ہم انہیں قانون امہال کے تحت مہلت دے رہے ہیں انکی ایک ایک حرکت کو جانتے ہیں ، جب ہماری مہلت پوری ہوجائے گی تو پھر ہم انکی رسی کو کھینچ لیں گے لہذا آپ جلدی نہ کریں اور صبر سے کام لیں ۔ (متقین کی عزت افزائی) اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے متقین اور مجرمین کے انجام کا ذکر کیا ہے کہ مرنے بعد جب دوبارہ اٹھیں گے تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائیگا پہلے متقیوں کا ذکر ہے (آیت) ” یوم نحشر المتقین الی الرحمن وفدا “۔ جس دن ہم متقیوں کو رحمان کی طرف اکٹھا کریں گے وفد کی صورت میں وفد (REPRESENTATIVE پریذینٹو) کسی قوم ، برداری یا حکومت کی طرف ہو ، قابل احترام سمجھا جاتا ہے ، وفد کے ارکان کسی خاص مقصد کیلے آتے ہیں لہذا ان کا خیر مقدم کرنے والے ان کی عزت افزائی کرتے ہیں ، ان کو اچھی جگہ اتارتے ہیں اور ان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اسی طرح متقین بھی اللہ کے پاس وفد کی حیثیت سے جائیں گے اور عزت واکرام پائیں گے صحیحین کی روایت میں آتا ہے کہ قیامت کے دن تین گروہ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوں گے پہلا گروہ راغبین اور راہبین کا ہوگا ، یہ انبیاء اور مقربین کا گروہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی طرف رغبت رکھنے والے اور اس کے عذاب سے ڈرنے والے ہوں گے ، دوسرا گروہ سواروں کا ہوگا ایک ایک اونٹ پر ایک ایک ، دو دو ، تین تین ، آدمی سوار ہوں گے حتی کہ دس تک کا ذکر بھی آتا ہے پھر تیسرا گروہ ذیل لوگوں کا ہوگا جو پیدل چل کر آئیں گے یہ جہنم کی آگ کے سزاوار ہوں گے ۔ خود حضور ﷺ بھی بیرونی وفود کی بڑی تکریم کیا کرتے تھے آپ نے اپنے آخری وقت میں یہ نصیحت فرمائی کہ باہر سے آنے والے وفود کے ساتھ اسی طرح حسن سلوک کرنا جس طرح میں کرتا ہوں طبقات ابن سعد میں ہے کہ 9 ھ؁ میں حضور ﷺ کی خدمت میں کم وبیش ڈیڑھ سو وفود آئے ان میں سے اکثر وبیشتر نے اسلام قبول کیا بعض ہدایات حاصل کیں اور بعض محض زیارت کے لیے آئے قطع نظر اس کے کی کسی کا عقیدہ کیا ہے حضور ﷺ عرب کے مختلف گوشوں سے آنے والے وفود کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے اور حتی المقدور انکی خدمت تواضع کرتے ، قبیلہ ثقیف کے مشرکین کا ایک وفد حاضر ہوا تو آپ نے حکم دیا کہ ان کا خیمہ مسجدہ کے صحن میں لگا دیا جائے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا ، حضور ﷺ یہ تو ناپاک لوگ ہیں ان کا مسجد میں داخلہ کیسے ہوگا ؟ آپ نے فرمایا (1) ” انجاس علی انفسھم “ ان کی نجاست ان کے نفسوں میں بھری ہوئی ہے یہ زمین پر تو نہیں گرتی کہ مسجد ناپاک ہوتی ہو ان کو مسجد میں ٹھہرانے میں یہ مصلحت تھی کہ لوگ یہاں رہ کر ہمارے حالات کو اچھی طرح جان لیں گے اور ان کو ہماری نماز کا طریقہ بھی معلوم ہوجائے گا اور پھر اس کے ظاہری فوائد سے بھی آگاہ ہوں گے لہذا ان کو مسجد میں ٹھہرانا ہی بہتر ہے ، آپ کے حسن سلوک کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ مسیلمہ کذاب کا وفد بھی آیا تو حضور ﷺ نے ان لوگوں سے کوئی بدسلوکی نہیں کی بلکہ ان کے سوالات کے جوابات خندہ پیشانی سے دے بہرحال فرمایا کہ متقین حشر کے میدان میں وفد کی شکل میں نہایت عزت واحترام کے ساتھ جائیں گے ۔ (شفاعت سے محروم مجرمین) اس کے برخلاف نافرمانوں کے متعلق فرمایا (آیت) ” ونسوق المجرمین الی جھنم وردا “۔ اور ہم مجرم لوگوں کو جہنم کی طرف پیاسے جانوروں کی طرح چلائیں گے ، جب جانور کئی دن سے پیاسے ہوں تو پھر انہیں ہانک کر جلدی جلدی پانی کے گھاٹ کی طرف لے جایا جاتا ہے مجرمین کو بھی سی طرح ہانک کر میدان حشر میں لایا جائے گا پھر حساب کتاب کی منزل آئیگی اور ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہی ہوگا ، ایسے مجرموں کے متعلق فرمایا (آیت) ” لایملکون الشفاعۃ “ یہ کسی قسم کی شفاعت کے مالک نہیں ہوں گے کیونکہ کافر ، مشرک اور منافق کی کوئی بھی سفارش کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں کے حصے میں آئیگی ” من لایشرک باللہ شیئا “ جو اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتے یعنی جس کا ایمان صحیح اور عقیدہ پاک ہے بدعقیدہ کو شفاعت حاصل نہیں ہوگی اللہ تعالیٰ نے شفاعت کا مرجع دو چیزوں کو قرار دیا ہے ایک یہ کہ اللہ کی مرضی کے بغیر کسی کی شفارش نہیں ہوگی اور دوسری یہ کہ سفارش انہی کے حق میں ہوگی جن کو بات اللہ کو پسند ہوگی ، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایمان والی بات ہی پسند ہوگی ، ایمان لاؤ گے تو اللہ راضی ہوگا اور اگر نافرمانی کرو گے تو ناراض ہوگا ، نہ تو کسی بدعقیدہ آدمی کی بات کو اللہ پسند کرے گا اور نہ ان کے حق میں سفارش قبول کرے گا ، یہ بات اٹل ہے کہ اللہ مرضی اور اس کے اختیار سے ہی سفارش ہوگی (آیت) ” قل اللہ الشفاعۃ جمیعا “۔ (الزمر ، 44) شفاعت کا سارا اختیار اللہ کے پاس ہے نبی ، ملائکہ اور اس کے مقربین بھی اس کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں کریں گے کیونکہ اللہ کا واضح فرمان ہے (آیت) ” من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ “ ۔ کون ہے اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے ؟ مگر یہودونصاری اور گلمہ گو پیرپرست جبری سفارش کا عقیدہ رکھتے ہیں رافضیوں کا عقیدہ ہے کہ امام حسین ؓ کا ماتم کرلینے سے ہی جنت کے حقدار ہوجائیں گے ، باقی کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ، پیرپرست لوگ بیعت کرلینے اور عرس میں شریک ہوجانے کو ہی ذریعہ نجات سمجھتے ہیں ، مگر اس قسم کی جبری سفارش کا اسلام میں کوئی مقام نہیں ہے ۔ (شفاعت کے حقدار) فرمایا مجرم تو شفاعت کے مستحق نہیں ہوں گے (آیت) ” الا من اتخذ عندالرحمن عھدا “۔ البتہ سفارش کا حقدار وہ ہوگا جس نے خدائے رحمان کے پاس عہد قائم کرلیا جو شخص توحید و رسالت کے عقیدے پر پختہ یقین رکھے گا خدا تعالیٰ اس کو ضرور جنت میں پہنچائے گا یہی اس کا عہد ہے اسی کے حق میں سفارش ہوگی اور وہ نجات پائے گا ، امام رازی (رح) نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے حوالے سے عہد نامے والی روایت نقل کی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو ہر روز صبح شام خدا تعالیٰ کے ساتھ اس قسم کا عہد کرے ۔ ” اللھم انی اعھد الیک فی ھذہ الحیوۃ الدنیا انی اشھد ان لا الہ الا انت وحدک لا شریک لک وان محمدا عبدک ورسولک فلا تکلنی الی نفسی فانک ان تکلنی الی نفسی طرفۃ عین تقربنی من الشر وتباعدنی من الخیر وانی لا اثق الا برحمتک فاجعل لی عندک عھدا توفینیہ یوم القیمۃ انک لا تخلف المیعاد “۔ (قرطبی ص 154 ج 11) ترجمہ : اللہ میں اس دنیا کی زندگی میں تجھ سے اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیرا کوئی شریک نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں پس تو مجھے میرے نفس کے سپرد نہ فرما کیونکہ اگر تو مجھے میرے نفس کے سپرد کر دے گا تو مجھے برائی سے قریب کردے گا اور مجھے بھلائی سے دور کر دے گا ، مجھے بس تیری لیے اپنے ہاں (بخشش اور رحمت) کا عہد فرما اور اس کو قیامت کے دن پورا فرما یقینا تو وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ یہ عہد کرتا ہے تو اس کو لکھ کر عرش کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے پھر قیامت والے دن اعلان ہوگا کہ جن کا عہد خدائے رحمان کے پاس موجود ہے وہ سامنے آجائیں ایسے ہی لوگوں کے حق میں سفارش مفید ہوگی اور مجرموں کے لیے کوئی سفارش نہیں ہوگی ان کو پیاسے جانوروں کی طرح ہانک کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا اس کے برخلاف اہل ایمان کو عزت کے ساتھ وفد کی صورت میں خدا کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا اور آخر کار وہ اس کی رحمت کے مقام جنت میں پہنچ جائیں گے ۔
Top