Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Maryam : 88
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ
وَقَالُوا
: اور وہ کہتے ہیں
اتَّخَذَ
: بنالیا ہے
الرَّحْمٰنُ
: رحمن
وَلَدًا
: بیٹا
اور کہا (کفار ومشرکین نے) کہ بنا لیا ہے خدائے رحمان نے بیٹا۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار ومشرکین کا رد فرمایا اور پھر ان کا انجام بھی ذکر کیا اللہ تعالیٰ نے قیامت کو پیش آنیوالے حالات کا تذکرہ بھی فرمایا اور ساتھ ایمان والوں کا انجام بھی بیان فرمایا کہ وہ اللہ کے حضور میں وفد کی شکل میں باعزت طور پر پیش ہوں گے برخلاف اس کے کافر اور مشرک مجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح ہانک کرلے جایا جائے گا اور ان کی سخت تذلیل ہوگی ۔ (عقیدہ ابنیت) آج کی آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے کفار ومشرکین کے عقیدہ ابنیت کی تردید فرمائی ہے ، سورة بنی اسرائیل کے آخر میں اور سورة کہف میں بھی یہی تذکرہ ہے وہاں ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” لم یتخذ ولدا ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل وکبرہ تکبیرا “۔ (بنی اسرائیل ، 111) اللہ نے کسی کو اولاد نہیں بنایا نہ حقیقی اور نہ مجازی اس کی نہ تو جنس سے کوئی اولاد ہے اور نہ اس نے کسی کو منہ بولا بیٹا بنایا ہے ، حقیقی اولاد اس لیے نہیں کہ اے نسب باقی رکھنے کا شوق نہیں اور مجازی اولاد اس لیے نہیں کہ اس کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ، وہ قادر مطلق اور تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے ، وہ تمام نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے ، لہذا اسے کسی قسم کی اولاد کی بھی حاجت نہیں ، یہ بات سورة کہف کی ابتدائی آیات میں بھی بیان ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے مقاصد میں سے ایک یہ مقصد بھی بیان کیا ہے (آیت) ” وینذر الذین قالو اتخذ اللہ ولدا “۔ (آیت ۔ 4) تاکہ یہ ان لوگوں کو ڈراوے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے پھر پیچھے اسی صورت میں بھی گزر چکا ہے ، (آیت) ” ماکان للہ ان یتخذ من ولد سبحنہ “۔ (آیت : 36) خدا تعالیٰ کی ذات اس بات سے پاک ہے کہ ہو کسی کو اپنا بیٹا بنائے اور اس باطل عقیدے میں عیسائیوں کی اکثریت مبتلا ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا تعالیٰ کا بیٹا بتلاتے ہیں اسی طرح یہودیوں کا عزیزی فرقہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتا ہے ، یہ دونوں غلط ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی ہے (آیت) ” ذلک قولھم بافواھھم “۔ (التوبۃ : 30) یہ محض ان کے مونہوں کی باتیں ہیں ، ان میں حقیقت کچھ نہیں ہے مشرکین عرب بھی اس باطل عقیدہ میں ملوث تھے سورة بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے ، یہ عقیدہ ہندوستان کے پرانے مشرکوں میں بھی پایا جاتا تھا ، اور آج بھی ہے دیوی دیوتا کا عقیدہ کم وبیش یہی ہے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں ، اللہ نے اس باطل عقیدے کا واضح طور پر رد فرمایا ہے ۔ (حجاب سوء معرفت) امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اکثر لوگ تین قسم کے حجابات یعنی حجاب طبع ، حجاب رسم اور حجاب سوء معرفت میں مبتلا رہتے ہیں حجاب طبع یہ ہے کہ انسان مادیت میں ہی پھنس کر اپنے جسم کو ہی سنوارنے میں مصروف رہے اس کے پیش نظر اور کچھ نہ ہو ، حجاب رسم سے مراد یہ ہے کہ انسان قوم ، ملک ، علاقہ ، برادری وغیرہ کے رسم و رواج کا بندہ ہو کر رہ جائے اور آخرت سے بالکل آنکھیں بند کرے ، اس کی فکر ہی نہ ہو ، تیسرا حجاب سوء معرفت ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے مگر غلط طریقے سے ، اسے اللہ کی صحیح معرفت نہیں ہے مثلا یہودونصاری ، ہندو ، سکھ وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی نام سے پہچانتے ہیں مگر ان کی پہچان صحیح نہیں ہے ۔ (آیت) ” وما قدروا اللہ حق قدرہ “۔ (انعام : 91) انہوں نے اللہ کو اس طرح نہیں پہچانا جس طرح اس کو پہچاننے کا حق تھا یہی حاجت سوء معرفت ہے ، یہ اسی حجاب کا نتیجہ ہے کہ انسان یا تو شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یا پھر عقیدہ تشبیہہ میں پھنس جاتا ہے شرک یہ ہے کہ اللہ کی کوئی صفت خاصہ مخلوق میں تسلیم کی جائے ، مثلا خدا تعالیٰ علیم کل ہے اگر یہ صفت کسی نبی ولی ، فرشتے یا جن وغیرہ میں مانی جائے گی تو آدمی مشرک ہوجائے گا خدا قادر مطلق ہے اگر یہی صفت مخلوق میں مان کر کوئی یہ کہے کہ فلاں دیوی دیوتا ، پیر یا بزرگ بھی مرادیں پوری کرسکتا ہے تو اس نے گویا خدا تعالیٰ کی قدرت تامہ کی صفت مخلوق میں ثابت کی اور شرک میں مبتلا ہوگیا ۔ حجاب سوء معرفت کی دوسری شاخ عقیدہ تشبیہہ ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق کی کوئی صفت اللہ تعالیٰ میں ثابت کی جائے مثلا سلسلہ نسب کا قیام مخلوق کی صفت ہے ، اگر یہی صفت اللہ میں مانی جائے کہ اسے بقائے نسب کے لیے اولاد کی ضرورت ہے تو یہ عقیدہ رکھنے والا آدمی مشرک ہوجائے گا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن روانہ کرتے وقت ان کے سپرد دو کام کیے ان کا ایک فرض بطور حاکم تھا اور دوسرا بطور مبلغ دین ، اسی تبلیغ کے متعلق حضور ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو نصیحت فرمائی کہ یمن کے یہود و نصاری کو سب سے پہلے توحید و رسالت کی دعوت دینا مسلم شریف کے الفاظ ہیں ” فاذا عرفوا “ یعنی جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں تو پھر انہیں بتلانا کہ اللہ نے ان پر دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ، سال بھر میں ایک ماہ کے روزے ہیں ، صاحب نصاب پر سال مکمل ہونے پر زکوۃ واجب ہے اور زندگی بھر میں صاحب استطاعت پر ایک دفعہ بیت اللہ کا حج فرض ہے اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب بھی اللہ کو پہچانتے ہیں ، مگر ان کی پہچان درست نہیں ہے ، انہوں نے خدا تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کی تو کیا پہچانا ؟ اللہ تعالیٰ تو ہر نقص ، کمزوری ، بیوی اولاد اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے پاک ہے ، اس قسم کے نجس عقیدہ رکھنے والے کو نجات حاصل نہیں ہو سکتی ، کامیابی تو جب حاصل ہوگی جب انسان شرک اور شتبیہہ سے پاک خالص توحید کا عقیدہ اختیار کرے گا ۔ (خدا اولاد سے پاک ہے) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وقالوا اتخذ الرحمن ولدا “۔ ان مشرکوں نے کہا (ان میں یہود ونصاری اور عرب کے مشرکین سب شامل ہیں) کہ خدائے رحمان نے اولاد بنا لی ہے ، حالانکہ خدا تعالیٰ کی نہ حقیقی اولاد ہو سکتی ہے اور نہ مجازی حقیقی اس لیے نہیں کہ وہ ہم جنس ہوتی ہے ، ہر بچہ اپنے والدین کا ہم جنس اور مرکب ہوتا ہے اگر یہی تصور اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی کرلیا جائے تو پھر وہ بھی مخلوق کی طرح ہو کر بسیط نہیں رہے گا بلکہ حادث ہوجائے گا ، اور ایسی ذات الہ ہونے کے قابل نہیں ہو سکتی لہذا خدا تعالیٰ کے لیے حقیقی اولاد کا عقیدہ رکھنا بالکل کافرانہ عقیدہ ہے ۔ اسی طرح مجازی اولاد کا عقیدہ بھی باطل ہے ، عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ نے مسیح (علیہ السلام) کو اپنا پیارا یعنی بیٹا بنا لیا ہے اور پھر اس کو اختیا ردے دیا ہے کہ جو چاہے کرے ، پھر اس پر مستزاد یہ کہ اللہ کے نبی کو اللہ کا بندہ کہنے سے اس کی توہین ہوجاتی ہے حالانکہ یہ بھی بالکل غلط عقیدہ ہے ، ہر نبی انسان ہوتا ہے جو کہ اللہ کی بہترین مخلوق ہے مگر اس نے اپنی مخلوق میں کسی اعلی وادنی کو کوئی اختیار نہیں دیا وہ ہر کام اپنی مرضی اور ارادے سے کرتا ہے ، سورة سجدہ میں موجود (آیت) ” یدبر الامر من السمآء الی الارض “۔ (آیت : 5) آسمان کی بلندیوں سے لے کر انتہائی پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر وہ خود کرتا ہے جو شخص تدبیر میں کسی مخلوق کو خدا کے ساتھ شریک کرتا ہے وہ مشرک یا کافر ہوگیا ، اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے ، وہ خالقیت واجب الوجود ہونے ، تدبیر اور عبادت میں یگانہ ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں خالق اور واجب الوجود ہونے کو تو مشرک بھی مانتے ہیں یہ کہ صفات صرف اللہ تعالیٰ کی ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ، البتہ تدبیر اور عبادت میں یہ لوگ دوسروں کو بھی شریک کرلیتے ہیں کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کو بھی کچھ اختیارات دے رکھے ہیں جن کی بناء پر یہ لوگوں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں چناچہ شرکاء کو خوش کرنے کے لیے معبودان کی تعظیم کی جاتی ہے ان کو نذرانے پیش کیے جاتے ہیں اور ان کو پکارا جاتا ہے ، اس طرح گویا عبادت میں بھی دوسروں کو شریک کیا جاتا ہے اور مشرک ہونے کی یہی بنیاد ہے ۔ (بدترین کلمہ) انہوں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے ، فرمایا (آیت) ” لقد جئتم شیئا ادا “۔ یہ تم ایک نہایت ہی ناگوار بات لائے ہو ، خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا بڑی ہی مکروہ بات ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ صابر اور کوئی نہیں ، دیکھو ! لوگ اس کے لیے اولاد جیسا گندا عقیدہ رکھتے ہیں ، مگر اس کے باوجود وہ نہیں فوری طور پر گرفت نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا رہتا ہے حالانکہ یہ سخت گستاخی کا کلمہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ تو بےنیاز ہے (آیت) ” یایھا الناس انتم الفقرآء الی اللہ واللہ ھو الغنی الحمید “۔ (فاطر ، 15) وہ تو غنی ہے ، صمد ہے باقی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ، فرمایا خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا اتنا برا کلمہ ہے (آیت) ” تکادالسموت یتفطرن منہ “۔ کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں ، (آیت) ” وتنشق الارض “۔ اور زمین شق ہوجائے ۔ (آیت) ” وتخر الجبال ھدا “۔ اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں ۔ (آیت) ” ان دعوا للرحمن ولدا “۔ اس وجہ سے کہ یہ لوگ خدائے رحمان کے لیے اولاد پکارتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اس قبیح کلمہ کا اتنا شدید اثر ہوسکتا ہے کہ اللہ کا غضب بھڑک اٹھے اور کائنات کی تمام چیزیں درہم برہم ہوجائیں ۔ فرمایا حقیقت یہ ہے (آیت) ” وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولدا “۔ خدائے رحمان کے لیے یہ بات ہرگز لائق نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے ، نہ تو اسے نسب کی ضرورت ہے اور نہ وہ (نعوذ باللہ) محتاج ہے کہ اسے امداد کی حاجت ہو ، لہذا اس کے لیے اولاد ثابت کرنا کسی طور پر مناسب نہیں ، تمام کائنات کی اللہ کے ساتھ نسبت باپ بیٹھے کی نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی ہے ، اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا ۔ (ایک اشکال اور اس کا جواب) اس مقام پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے ، سورة ابراہیم میں خبیث کلمہ کی ایک مثال بیان کی گئی ہے (آیت) ” ومثل کلمۃ خبیثۃ کشجرۃ خبیثۃ ، اجتثت من فوق الارض مالھا من قرار “۔ (آیت : 26) یعنی خبیث کلمے کی مثال خبیث درخت کی ہے جس کی جڑیں زمین کے اوپر ہی ہوں اور اس درخت کو پختگی حاصل نہ ہو ایسا پودا یا درخت معمولی سی ٹھوکر یا آندھی وغیرہ سے اکھڑ جاتا ہے گویا خبیث کلمہ بالکل ناپائدار ہوتا ہے مگر یہاں اس مقام پر اس کی شدت اس قدر بیان کی ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائیں ، اس تعارض کے متعلق امام محمد بن ابی بکر عبدا القادر رازی (رح) اور دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ سورة ابراہیم میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ توحید کے مقابلے میں کلمہ شرک کو کلمہ خبیثہ کہہ کر اس کا ضعف بیان کیا ہے کہ شرک کی بات بالکل ناپائیدار ہوتی ہے ، اللہ نے ہر باطل بات کی متعلق فرمایا (آیت) ” ان الباطل کان زھوقا “۔ (بنی اسرائیل 81) باطل تو ایک کمزور اور مٹ جانے والی چیز ہے اور استحکام حق کو ہی حاصل ہوتا ہے ۔ البتہ اس سورة میں شرکیہ کلمہ کی شدت کو بیان کر کے درحقیقت اس کی قباحت کو بیان کیا ہے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا اتنی بری بات ہے کہ اس سے کائنات کا نظام ہی درہم برہم ہوجائے مطلب یہ ہے کہ سورة ابراہیم میں کلمہ خبیثہ کا ایک پہلو بیان کیا گیا ہے اور یہاں پر اس کا دوسرا پہلو خیال کیا گیا ہے ، لہذا دونوں آیات میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔ (ساری مخلوق عاجز ہے) فرمایا (آیت) ” ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمن عبدا “۔ جو کچھ بھی آسمان اور زمین میں ہے سب اللہ کے سامنے عاجز بندہ ہو کر آئیں گے ، بیٹے اور غلام میں فرق ہے بیٹا مساوی اور ہم جنس ہوتا ہے جب کہ غلام عاجز اور محتاج ہوتا ہے فرمایا اللہ اور بندے کے درمیان عباد اور معبود کی نسبت ہے ، خدا معبود ہے باقی سب عابد ہیں ، وہ قادر ہے یہ اس کے عاجز بندے ہیں ، اور اولاد کا عقیدہ رکھنا اس تعلق کے منافی ہے ۔ فرمایا (آیت) ” لقد احصھم “۔ ہم نے تمام مخلوق کو گھیر رکھا ہے ، اس کا احاطہ کیا ہوا ہے (آیت) ” وعدھم عدا “ اور ہر ایک کو شمار کر رکھا ہے مخلوق کا ہر فرد ، ہر چیز ، اس کا ہر عمل اور نقل و حرکت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اس نے شمار کر رکھا ہے جب قیامت کا دن آئے گا تو سب خدائے رحمان کے حضور پیش ہوجائیں گے اور ساتھ یہ بھی وضاحت فرما دی (آیت) ” وکلھم اتیہ یوم القیمۃ فردا “ قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک خدا کے حضور تنہا پیش ہوگا ، اس دن نہ خاندان ساتھ ہوگا ، نہ برادری ، نہ باڈی گارڈ ہوں گے اور نہ مصاحب ، بلکہ ہر شخص اکیلا حاضر ہوگا ، اور یہ بھی ہے کہ اس دنیا کے لحاظ سے ہر اعلی وادنی کی پیشی برہنی حالت میں ہوگی ، لباس تو آگے چل کر قسمت سے نصیب ہوگا وہاں نفسا نفسی کا عالم ہوگا ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی اس وقت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا ماننے والے سخت پریشانی کے عالم میں ہوں گے ، بہرحال عقیدہ ابنیت کی تردید اللہ نے مسلسل تین سورتوں میں بیان فرما دی ہے ۔
Top