Mualim-ul-Irfan - Maryam : 88
وَ قَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًاؕ
وَقَالُوا : اور وہ کہتے ہیں اتَّخَذَ : بنالیا ہے الرَّحْمٰنُ : رحمن وَلَدًا : بیٹا
اور کہا (کفار ومشرکین نے) کہ بنا لیا ہے خدائے رحمان نے بیٹا۔
ربط آیات : گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار ومشرکین کا رد فرمایا اور پھر ان کا انجام بھی ذکر کیا اللہ تعالیٰ نے قیامت کو پیش آنیوالے حالات کا تذکرہ بھی فرمایا اور ساتھ ایمان والوں کا انجام بھی بیان فرمایا کہ وہ اللہ کے حضور میں وفد کی شکل میں باعزت طور پر پیش ہوں گے برخلاف اس کے کافر اور مشرک مجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح ہانک کرلے جایا جائے گا اور ان کی سخت تذلیل ہوگی ۔ (عقیدہ ابنیت) آج کی آیات میں بھی اللہ تعالیٰ نے کفار ومشرکین کے عقیدہ ابنیت کی تردید فرمائی ہے ، سورة بنی اسرائیل کے آخر میں اور سورة کہف میں بھی یہی تذکرہ ہے وہاں ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” لم یتخذ ولدا ولم یکن لہ شریک فی الملک ولم یکن لہ ولی من الذل وکبرہ تکبیرا “۔ (بنی اسرائیل ، 111) اللہ نے کسی کو اولاد نہیں بنایا نہ حقیقی اور نہ مجازی اس کی نہ تو جنس سے کوئی اولاد ہے اور نہ اس نے کسی کو منہ بولا بیٹا بنایا ہے ، حقیقی اولاد اس لیے نہیں کہ اے نسب باقی رکھنے کا شوق نہیں اور مجازی اولاد اس لیے نہیں کہ اس کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ، وہ قادر مطلق اور تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے ، وہ تمام نقائص اور کمزوریوں سے پاک ہے ، لہذا اسے کسی قسم کی اولاد کی بھی حاجت نہیں ، یہ بات سورة کہف کی ابتدائی آیات میں بھی بیان ہوئی ہے اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کے مقاصد میں سے ایک یہ مقصد بھی بیان کیا ہے (آیت) ” وینذر الذین قالو اتخذ اللہ ولدا “۔ (آیت ۔ 4) تاکہ یہ ان لوگوں کو ڈراوے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے پھر پیچھے اسی صورت میں بھی گزر چکا ہے ، (آیت) ” ماکان للہ ان یتخذ من ولد سبحنہ “۔ (آیت : 36) خدا تعالیٰ کی ذات اس بات سے پاک ہے کہ ہو کسی کو اپنا بیٹا بنائے اور اس باطل عقیدے میں عیسائیوں کی اکثریت مبتلا ہے کہ وہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا تعالیٰ کا بیٹا بتلاتے ہیں اسی طرح یہودیوں کا عزیزی فرقہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتا ہے ، یہ دونوں غلط ہیں اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید فرمائی ہے (آیت) ” ذلک قولھم بافواھھم “۔ (التوبۃ : 30) یہ محض ان کے مونہوں کی باتیں ہیں ، ان میں حقیقت کچھ نہیں ہے مشرکین عرب بھی اس باطل عقیدہ میں ملوث تھے سورة بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ وہ فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے ، یہ عقیدہ ہندوستان کے پرانے مشرکوں میں بھی پایا جاتا تھا ، اور آج بھی ہے دیوی دیوتا کا عقیدہ کم وبیش یہی ہے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں ، اللہ نے اس باطل عقیدے کا واضح طور پر رد فرمایا ہے ۔ (حجاب سوء معرفت) امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ اکثر لوگ تین قسم کے حجابات یعنی حجاب طبع ، حجاب رسم اور حجاب سوء معرفت میں مبتلا رہتے ہیں حجاب طبع یہ ہے کہ انسان مادیت میں ہی پھنس کر اپنے جسم کو ہی سنوارنے میں مصروف رہے اس کے پیش نظر اور کچھ نہ ہو ، حجاب رسم سے مراد یہ ہے کہ انسان قوم ، ملک ، علاقہ ، برادری وغیرہ کے رسم و رواج کا بندہ ہو کر رہ جائے اور آخرت سے بالکل آنکھیں بند کرے ، اس کی فکر ہی نہ ہو ، تیسرا حجاب سوء معرفت ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے مگر غلط طریقے سے ، اسے اللہ کی صحیح معرفت نہیں ہے مثلا یہودونصاری ، ہندو ، سکھ وغیرہ سب اللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی نام سے پہچانتے ہیں مگر ان کی پہچان صحیح نہیں ہے ۔ (آیت) ” وما قدروا اللہ حق قدرہ “۔ (انعام : 91) انہوں نے اللہ کو اس طرح نہیں پہچانا جس طرح اس کو پہچاننے کا حق تھا یہی حاجت سوء معرفت ہے ، یہ اسی حجاب کا نتیجہ ہے کہ انسان یا تو شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے اور یا پھر عقیدہ تشبیہہ میں پھنس جاتا ہے شرک یہ ہے کہ اللہ کی کوئی صفت خاصہ مخلوق میں تسلیم کی جائے ، مثلا خدا تعالیٰ علیم کل ہے اگر یہ صفت کسی نبی ولی ، فرشتے یا جن وغیرہ میں مانی جائے گی تو آدمی مشرک ہوجائے گا خدا قادر مطلق ہے اگر یہی صفت مخلوق میں مان کر کوئی یہ کہے کہ فلاں دیوی دیوتا ، پیر یا بزرگ بھی مرادیں پوری کرسکتا ہے تو اس نے گویا خدا تعالیٰ کی قدرت تامہ کی صفت مخلوق میں ثابت کی اور شرک میں مبتلا ہوگیا ۔ حجاب سوء معرفت کی دوسری شاخ عقیدہ تشبیہہ ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق کی کوئی صفت اللہ تعالیٰ میں ثابت کی جائے مثلا سلسلہ نسب کا قیام مخلوق کی صفت ہے ، اگر یہی صفت اللہ میں مانی جائے کہ اسے بقائے نسب کے لیے اولاد کی ضرورت ہے تو یہ عقیدہ رکھنے والا آدمی مشرک ہوجائے گا ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل ؓ کو یمن روانہ کرتے وقت ان کے سپرد دو کام کیے ان کا ایک فرض بطور حاکم تھا اور دوسرا بطور مبلغ دین ، اسی تبلیغ کے متعلق حضور ﷺ نے حضرت معاذ ؓ کو نصیحت فرمائی کہ یمن کے یہود و نصاری کو سب سے پہلے توحید و رسالت کی دعوت دینا مسلم شریف کے الفاظ ہیں ” فاذا عرفوا “ یعنی جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں تو پھر انہیں بتلانا کہ اللہ نے ان پر دن میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں ، سال بھر میں ایک ماہ کے روزے ہیں ، صاحب نصاب پر سال مکمل ہونے پر زکوۃ واجب ہے اور زندگی بھر میں صاحب استطاعت پر ایک دفعہ بیت اللہ کا حج فرض ہے اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب بھی اللہ کو پہچانتے ہیں ، مگر ان کی پہچان درست نہیں ہے ، انہوں نے خدا تعالیٰ کے لیے اولاد تجویز کی تو کیا پہچانا ؟ اللہ تعالیٰ تو ہر نقص ، کمزوری ، بیوی اولاد اور ایسی ہی دیگر چیزوں سے پاک ہے ، اس قسم کے نجس عقیدہ رکھنے والے کو نجات حاصل نہیں ہو سکتی ، کامیابی تو جب حاصل ہوگی جب انسان شرک اور شتبیہہ سے پاک خالص توحید کا عقیدہ اختیار کرے گا ۔ (خدا اولاد سے پاک ہے) ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” وقالوا اتخذ الرحمن ولدا “۔ ان مشرکوں نے کہا (ان میں یہود ونصاری اور عرب کے مشرکین سب شامل ہیں) کہ خدائے رحمان نے اولاد بنا لی ہے ، حالانکہ خدا تعالیٰ کی نہ حقیقی اولاد ہو سکتی ہے اور نہ مجازی حقیقی اس لیے نہیں کہ وہ ہم جنس ہوتی ہے ، ہر بچہ اپنے والدین کا ہم جنس اور مرکب ہوتا ہے اگر یہی تصور اللہ تعالیٰ کے متعلق بھی کرلیا جائے تو پھر وہ بھی مخلوق کی طرح ہو کر بسیط نہیں رہے گا بلکہ حادث ہوجائے گا ، اور ایسی ذات الہ ہونے کے قابل نہیں ہو سکتی لہذا خدا تعالیٰ کے لیے حقیقی اولاد کا عقیدہ رکھنا بالکل کافرانہ عقیدہ ہے ۔ اسی طرح مجازی اولاد کا عقیدہ بھی باطل ہے ، عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ نے مسیح (علیہ السلام) کو اپنا پیارا یعنی بیٹا بنا لیا ہے اور پھر اس کو اختیا ردے دیا ہے کہ جو چاہے کرے ، پھر اس پر مستزاد یہ کہ اللہ کے نبی کو اللہ کا بندہ کہنے سے اس کی توہین ہوجاتی ہے حالانکہ یہ بھی بالکل غلط عقیدہ ہے ، ہر نبی انسان ہوتا ہے جو کہ اللہ کی بہترین مخلوق ہے مگر اس نے اپنی مخلوق میں کسی اعلی وادنی کو کوئی اختیار نہیں دیا وہ ہر کام اپنی مرضی اور ارادے سے کرتا ہے ، سورة سجدہ میں موجود (آیت) ” یدبر الامر من السمآء الی الارض “۔ (آیت : 5) آسمان کی بلندیوں سے لے کر انتہائی پستیوں تک ہر چیز کی تدبیر وہ خود کرتا ہے جو شخص تدبیر میں کسی مخلوق کو خدا کے ساتھ شریک کرتا ہے وہ مشرک یا کافر ہوگیا ، اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے ، وہ خالقیت واجب الوجود ہونے ، تدبیر اور عبادت میں یگانہ ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں خالق اور واجب الوجود ہونے کو تو مشرک بھی مانتے ہیں یہ کہ صفات صرف اللہ تعالیٰ کی ہیں اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ، البتہ تدبیر اور عبادت میں یہ لوگ دوسروں کو بھی شریک کرلیتے ہیں کہتے ہیں کہ اللہ نے ان کو بھی کچھ اختیارات دے رکھے ہیں جن کی بناء پر یہ لوگوں کی حاجتیں پوری کرتے ہیں چناچہ شرکاء کو خوش کرنے کے لیے معبودان کی تعظیم کی جاتی ہے ان کو نذرانے پیش کیے جاتے ہیں اور ان کو پکارا جاتا ہے ، اس طرح گویا عبادت میں بھی دوسروں کو شریک کیا جاتا ہے اور مشرک ہونے کی یہی بنیاد ہے ۔ (بدترین کلمہ) انہوں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے ، فرمایا (آیت) ” لقد جئتم شیئا ادا “۔ یہ تم ایک نہایت ہی ناگوار بات لائے ہو ، خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا بڑی ہی مکروہ بات ہے ، حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ صابر اور کوئی نہیں ، دیکھو ! لوگ اس کے لیے اولاد جیسا گندا عقیدہ رکھتے ہیں ، مگر اس کے باوجود وہ نہیں فوری طور پر گرفت نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا رہتا ہے حالانکہ یہ سخت گستاخی کا کلمہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ تو بےنیاز ہے (آیت) ” یایھا الناس انتم الفقرآء الی اللہ واللہ ھو الغنی الحمید “۔ (فاطر ، 15) وہ تو غنی ہے ، صمد ہے باقی ساری مخلوق اس کی محتاج ہے ، فرمایا خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا اتنا برا کلمہ ہے (آیت) ” تکادالسموت یتفطرن منہ “۔ کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں ، (آیت) ” وتنشق الارض “۔ اور زمین شق ہوجائے ۔ (آیت) ” وتخر الجبال ھدا “۔ اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر گر پڑیں ۔ (آیت) ” ان دعوا للرحمن ولدا “۔ اس وجہ سے کہ یہ لوگ خدائے رحمان کے لیے اولاد پکارتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اس قبیح کلمہ کا اتنا شدید اثر ہوسکتا ہے کہ اللہ کا غضب بھڑک اٹھے اور کائنات کی تمام چیزیں درہم برہم ہوجائیں ۔ فرمایا حقیقت یہ ہے (آیت) ” وما ینبغی للرحمن ان یتخذ ولدا “۔ خدائے رحمان کے لیے یہ بات ہرگز لائق نہیں کہ وہ کسی کو بیٹا بنائے ، نہ تو اسے نسب کی ضرورت ہے اور نہ وہ (نعوذ باللہ) محتاج ہے کہ اسے امداد کی حاجت ہو ، لہذا اس کے لیے اولاد ثابت کرنا کسی طور پر مناسب نہیں ، تمام کائنات کی اللہ کے ساتھ نسبت باپ بیٹھے کی نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی ہے ، اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا ۔ (ایک اشکال اور اس کا جواب) اس مقام پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے ، سورة ابراہیم میں خبیث کلمہ کی ایک مثال بیان کی گئی ہے (آیت) ” ومثل کلمۃ خبیثۃ کشجرۃ خبیثۃ ، اجتثت من فوق الارض مالھا من قرار “۔ (آیت : 26) یعنی خبیث کلمے کی مثال خبیث درخت کی ہے جس کی جڑیں زمین کے اوپر ہی ہوں اور اس درخت کو پختگی حاصل نہ ہو ایسا پودا یا درخت معمولی سی ٹھوکر یا آندھی وغیرہ سے اکھڑ جاتا ہے گویا خبیث کلمہ بالکل ناپائدار ہوتا ہے مگر یہاں اس مقام پر اس کی شدت اس قدر بیان کی ہے کہ اس سے آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجائیں ، اس تعارض کے متعلق امام محمد بن ابی بکر عبدا القادر رازی (رح) اور دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ سورة ابراہیم میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ توحید کے مقابلے میں کلمہ شرک کو کلمہ خبیثہ کہہ کر اس کا ضعف بیان کیا ہے کہ شرک کی بات بالکل ناپائیدار ہوتی ہے ، اللہ نے ہر باطل بات کی متعلق فرمایا (آیت) ” ان الباطل کان زھوقا “۔ (بنی اسرائیل 81) باطل تو ایک کمزور اور مٹ جانے والی چیز ہے اور استحکام حق کو ہی حاصل ہوتا ہے ۔ البتہ اس سورة میں شرکیہ کلمہ کی شدت کو بیان کر کے درحقیقت اس کی قباحت کو بیان کیا ہے کہ خدا کے لیے اولاد تجویز کرنا اتنی بری بات ہے کہ اس سے کائنات کا نظام ہی درہم برہم ہوجائے مطلب یہ ہے کہ سورة ابراہیم میں کلمہ خبیثہ کا ایک پہلو بیان کیا گیا ہے اور یہاں پر اس کا دوسرا پہلو خیال کیا گیا ہے ، لہذا دونوں آیات میں کوئی تعارض نہیں ہے ۔ (ساری مخلوق عاجز ہے) فرمایا (آیت) ” ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمن عبدا “۔ جو کچھ بھی آسمان اور زمین میں ہے سب اللہ کے سامنے عاجز بندہ ہو کر آئیں گے ، بیٹے اور غلام میں فرق ہے بیٹا مساوی اور ہم جنس ہوتا ہے جب کہ غلام عاجز اور محتاج ہوتا ہے فرمایا اللہ اور بندے کے درمیان عباد اور معبود کی نسبت ہے ، خدا معبود ہے باقی سب عابد ہیں ، وہ قادر ہے یہ اس کے عاجز بندے ہیں ، اور اولاد کا عقیدہ رکھنا اس تعلق کے منافی ہے ۔ فرمایا (آیت) ” لقد احصھم “۔ ہم نے تمام مخلوق کو گھیر رکھا ہے ، اس کا احاطہ کیا ہوا ہے (آیت) ” وعدھم عدا “ اور ہر ایک کو شمار کر رکھا ہے مخلوق کا ہر فرد ، ہر چیز ، اس کا ہر عمل اور نقل و حرکت اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور اس نے شمار کر رکھا ہے جب قیامت کا دن آئے گا تو سب خدائے رحمان کے حضور پیش ہوجائیں گے اور ساتھ یہ بھی وضاحت فرما دی (آیت) ” وکلھم اتیہ یوم القیمۃ فردا “ قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک خدا کے حضور تنہا پیش ہوگا ، اس دن نہ خاندان ساتھ ہوگا ، نہ برادری ، نہ باڈی گارڈ ہوں گے اور نہ مصاحب ، بلکہ ہر شخص اکیلا حاضر ہوگا ، اور یہ بھی ہے کہ اس دنیا کے لحاظ سے ہر اعلی وادنی کی پیشی برہنی حالت میں ہوگی ، لباس تو آگے چل کر قسمت سے نصیب ہوگا وہاں نفسا نفسی کا عالم ہوگا ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی اس وقت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا ماننے والے سخت پریشانی کے عالم میں ہوں گے ، بہرحال عقیدہ ابنیت کی تردید اللہ نے مسلسل تین سورتوں میں بیان فرما دی ہے ۔
Top