Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 116
وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا١ۙ سُبْحٰنَهٗ١ؕ بَلْ لَّهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا اتَّخَذَ : بنا لیا اللہُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحَانَهٗ : وہ پاک ہے بَلْ : بلکہ لَهٗ : اسی کے لیے مَا : جو فِي : میں السَّمَاوَاتِ : آسمانوں وَ الْاَرْضِ : اور زمین كُلٌّ : سب لَهٗ : اسی کے قَانِتُوْنَ : زیر فرمان
اور کہا ان لوگوں نے کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ، پاک ہے اس کی ذات بلکہ اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اسی کی اطاعت کرنے والے ہیں ۔
(اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے) اہل کتاب کے غلط عقائد کی بحث مسلسل چلی آرہی ہے ان آیات میں ان کی ایک اور بدعقیدگی کا بیان ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے (آیت) ” قالوا اتخذ اللہ ولدا “۔ اس غلط عقیدے میں یہ تینوں گروہ شامل ہیں یعنی یہود ، نصاری اور مشرکین ” قالوا “ کی ضمیر ان تینوں کی طرف لوٹتی ہے ، سورة توبہ میں موجود ہے کہ یہودیوں کے ایک فرقہ نے حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بنایا ہے ، (آیت) ” وقالت الیھود عزیر ابن اللہ “۔ اگرچہ تمام یہود کا یہ عقیدہ نہیں ہے ، تاہم ایک گروہ ایسا ہے جو اہل کتاب میں شامل ہے مگر عقیدہ یہ رکھتا ہے اسی طرح نصاری کا عقیدہ تو واضح ہے کہ یہ کھل کر کہتے ہیں ” المسیح بن اللہ “۔ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں ، قرآن پاک نے یہ بات تصریح کے ساتھ بیان کی ہے کسی مخلوق کو خدا کو بیٹا بنانا اتنا قبیح فعل ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہوجائے ، اس کے حکم سے زمین وآسمان پھٹ جائے اور خدا تعالیٰ کا قہر نازل ہوجائے ، اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی بات منسوب کرنا بڑی بیہودہ بات ہے مشرکین عرب کے متعلق تصریح موجود ہے کہ وہ فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے (آیت) ” وجعلوا الملئکۃ الذین ھم عبدالرحمن اناثا “۔ اس باطل عقیدے کے رد میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” سبحنہ “ اللہ کی ذات پاک ہے مبرا اور منزہ ہے ، بیٹے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا دو وجوہ سے معیوب ہے اگر بیٹا غیر جنس کا ہو تو یہ انسان کے لیے عیب ہے اور اگر ہم جنس ہو تو یہ اللہ تعالیٰ کے لیے عیب ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، فرونیت اور یگانگت کے خلاف ہے ۔ مخلوق کے لیے اولاد کا ہونا اس لیے معیوب نہیں کہ مخلوق عاجز ہے اسے اولاد کی ضرورت ہے ، خاص طور پر انسان اولاد کے بڑے مشتاق ہوتے ہیں اولاد کی عدم موجودگی میں انہیں سلسلہ نسب منقطع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ، اس کے علاوہ وہ آخری عمر میں خدمت سے محروم ہوتے ہیں ، برخلاف اس کے اللہ تعالیٰ تو ” احد “ ہے ، اس کی صفت تو غنی ہے ، وہ ” صمد “ ہے وہ ہر ایسی چیز سے بےنیاز ہے لہذا اس کی طرف اولاد کی نسبت کرنا بہت بری بات ہے ۔ یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ اولاد کی پیدائش اس کے باپ کے مادہ سے ہوتی ہے جو اس کے جسم سے الگ ہو کر رحم مادر میں منتقل ہوتا ہے اور پھر وہ بچے کی صورت میں ماں کے جسم سے علیحدہ ہوتا ہے تو اس قسم کی تولید کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا بہت قبیح حرکت ہے کیونکہ اللہ جل شانہ ہر ایسی چیز سے منزہ ہے ” سبحنہ “ سے یہی مراد ہے ۔ (تشبیہ اور شرک) جب انسان کے عقیدے میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میں نقصان آتا ہے تو اس کے نتیجے میں یا تو تشبیہ آتی ہے یا شرک پیدا ہوتا ہے تشبیہ مراد یہ ہے کہ مخلوق کی صفت اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کی جائے جیسے اولاد والد ہونا مخلوق کی صفت ہے اگر یہی صفت اللہ تعالیٰ میں ثابت کی جائے تو یہ تشبیہ کا ارتکاب ہوگا ، اور اگر اللہ تعالیٰ کی صفت مختصہ کو مخلوق میں ثابت کیا جائے تو شرک ہوجائے گا مثلا قادر مطلق علیم کل اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ، اور اگر یہ صفت کسی مخلوق میں مانی جائے تو شرک ہوگا ” سبحنہ “ کا لفظ اللہ تعالیٰ کی اس پاکیزگی پر دلالت کرتا ہے ۔ (سبحنہ کا معنی) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے حضور ﷺ سے ” سبحنہ “ کا مطلب پوچھا تو آپ نے فرمایا (1) (تفسیر عزیزی فارسی ص 422 پارہ 1 ، درمنثور ص 110 ، ج 1) ” تنزیہ اللہ من کل سوئ “۔ ہر قسم کی برائی اور عیب سے پاکیزگی کسی نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے دریافت کیا کہ حضرت اللہ اکبر “۔ کا معنی تو ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے ” لا اللہ الا اللہ “۔ کا مطلب بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ” الحمد للہ “ کا معنی یہ ہے کہ سب حمد وثنا اور تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے حضرت سبحنہ کا مطلب آپ سمجھا دیں ، آپ نے جواب دیا یہ کون سی مشکل بات ہے ۔ ” سبحن اللہ “ ایک ایسا کلمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کے لیے منتخب فرمایا ہے اور فرشتوں کو بھی حکم دیا ہے کہ اس کلمے کے ساتھ میری تعریف کیا کرو ، الغرض ، یہ چاروں کلمات یعنی ” اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ “۔ الحمد للہ اور سبحن اللہ “ ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف کے لیے مقرر فرمائے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے تمام تعریفیں اسی ذات کے لیے ہیں ۔ (مالک اور مملوک) فرمایا اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ (آیت) ” بل لہ ما فی السموت والارض “۔ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے ، یعنی یہ تمام چیزیں مملوک ہیں اور اللہ جل شانہ ان کا مالک ہے گویا اللہ تعالیٰ اور انسان میں باپ اور بیٹے کی نسبت نہیں ہے بلکہ مالک اور مملوک کی نسبت ہے اور پھر مالک بھی ایسا ہے جسے ہر قسم کا اختیار حاصرحمۃ اللہ علیہ ہے اور اس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا (آیت) ” کل لہ قانتون “۔ سب اسی کی اطاعت کرنے والے ہیں اس کے تکوینی حکم کی خلاف ورزی کی کسی میں مجال نہیں وہ کسی کو بیمار کر دے ، بیمار کو تندرست کر دے کسی پر موت طاری کر دے ، اس کے حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا کائنات کی ہر چیز کو اس کی فرمانبرداری کرنا ہوگی ، ہاں شریعت کے احکام ایسے ہیں جسے انسان ٹال سکتے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے نماز پڑھو ، زکوۃ ادا کرو ، جہاد کرو ، انسان ان احکام پر عملدر آمد میں کوتاہی کرسکتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کے سامنے سب کو سرتسلیم خم کرنا پڑے گا جب موت کے فرشتے آجاتے ہیں تو پھر کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو ٹال سکے ، خود مرنے والا اور اس کے سارے حمایتی دیکھتے ، رہ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا تکوینی حکم پورا ہوجاتا ہے ، گویا یہاں پر اللہ تعالیٰ کی دو صفات کا ذکر ہوا ، اول یہ کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے اور دوسری یہ کہ وہ ہر چیز کا متصرف بھی ہے جو چاہے کرے اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی ۔ (صفت ابداع) اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی تیسری صفت ابداع کا ذکر بھی ہے فرمایا (آیت) ” بدیع السموت والارض “۔ وہ آسمانوں اور زمین کا ایجاد کرنے والا ہے ، ابداع اس تخلیق کو کہتے ہیں جس کا پہلے نمونہ موجود نہ ہو کہ جسے دیکھ کر کوئی چیز تیار کی جاسکے ، اور پھر موجد بھی ایسا ہے کہ (آیت) ” واذا قضی امرا “۔ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ کرتا ہے (آیت) ” فانما یقول لہ کن “۔ تو وہ کہتا ہے ہوجا (آیت) ” فیکون “ پس وہ ہوجاتی ہے ، یہ کن ایسا لفظ ہے جس میں سرعت اور تیزی کا حکم پایا جاتا ہے یعنی جب اللہ تعالیٰ کن فرماتے ہیں تو کسی چیز کے معرض وجود میں آنے کے لیے نہ کسی مادے کی ضرورت پڑتی ہے نہ ڈیزائن مطلوب ہوتا ہے اور نہ کسی کاریگر یا مددگار کی مدد درکار ہوتی ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم صادر ہوتے ہی کام ہوجاتا ہے ، دراصل یہ کن کا لفظ بھی محض تعبیر کے لیے ہے ورنہ اس کی بھی ضرورت نہیں جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ فرما لیتے ہیں کہ کون سی چیز کس سطح پر مطلوب ہے تو وہ فورا ہوجاتی ہے ۔ (اللہ تعالیٰ کی طرف غلط نسبت) اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد کی نسبت کرنا سخت بےادبی اور گستاخی ہے یہ بےمحل اور فضول بات ہے ، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک اور منزہ ہے اس کی چار صفات کا بیان بھی ہوگیا ، حدیث میں شریف میں آتا ہے ۔ (1) بخاری 744 ج 2) کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں ” کذبنی ابن ادم ولم یکن لہ ذلک “۔ انسان مجھ کو جھٹلاتا ہے حالانکہ اس کے لیے یہ بات مناسب نہیں اور انسان مجھ کو گالی دیتا ہے ، حالانکہ یہ بھی اس کے مناسب حال نہیں پھر فرمایا کہ ” فاما تکذیبہ ایای “۔ اس کا جھٹلانا یہ ہے کہ ” لن یعیدنی کما بدانی “۔ انسان کہتا ہے کہ مجھے دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا جس طرح کہ پہلی مرتبہ کیا یعنی انسان قیامت کا منکر ہے یہ اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کے مترادف ہے ، اور گالی اس لحاظ سے دیتا ہے کہ ہو میری طرف اولاد کی نسبت کرتا ہے حالانکہ نہ میری بیوی ہے اور نہ اولاد ہے اور نہ ہی مجھے ان کی ضرورت ہے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیٹا بنا لیا ہے تو وہ گویا اللہ تعالیٰ کو گالی دیتا ہے ، نعوذ باللہ من ذلک ۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حقیقی بیٹا نہیں ہے اگر ایسا ہو تو وہ خدا کا جز ہوگا اگر خدا تعالیٰ کا جز مانا جائے گا تو اللہ تعالیٰ خود بھی حادث ہوگا ، بسیط نہیں رہے گا ، اسی طرح مجازا بھی کسی کو خدا کا بیٹا نہیں کہہ سکتے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا اس قدر قرب حاصل کرلے کہ بیٹے کی طرح ہوجائے ، بیٹا چونکہ متصرف ہوتا ہے ، وہ باپ کی مرضی کے خلاف بھی کوئی کام کرسکتا ہے بعض اوقات باپ کو مجبورا بیٹے کی بات ماننا پڑتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی صفت تو یہ ہے (آیت) ” کل لہ قانتون “۔ سب کے سب اس کے مطیع ہیں اس پر کوئی بھی تصرف نہیں کرسکتا ، لہذا یہ بات بھی غلط ہے کہ کسی کو مقرب الہی ہونے کی بناء پر خدا تعالیٰ کا بیٹا تسلیم کرلیا جائے جیسا کہ عیسائیوں میں یہ چیز پائی جاتی ہے ۔ (اللہ تعالیٰ سے کلام کی خواہش) ایک اور غلط بات جو بعض لوگ کرتے ہیں وہ یہ ہے (آیت) ” وقال الذین لا یعلمون “ علم سے عاری ، جاہل لوگ کہتے ہیں (آیت) ” لولا یکلمنا اللہ “ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست کلام کیوں نہیں کرتا ، (آیت) ” اوتاتینا ایۃ “۔ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی جس کی بنا پر ہم اللہ تعالیٰ کے نبی اور اس کی کتاب کی تصدیق کرسکیں مفسرین کرام بیان کرتے ہیں (2) (تفسیر ابن کثیر ص 161 ج 1 ، درمنثور ص 110 ج 1) کہ مشرکین میں سے ایک شخص رافع بن حریملہ حضور ﷺ کے پاس آکر کہنے لگا آپ دعوی کرتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں تو آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سے براہ راست کلام کرے ، یا وہ کوئی خاص نشانی ہمارے پاس بھیجے ، جسے دیکھ کر ہم تصدیق کریں ، فرمایا بیوقوفی اور حماقت کا سوال ہے ، (آیت) ” کذلک قال الذین من قبلھم مثل قولھم “۔ اس طرح کی باتیں تو ان سے پہلے لوگوں نے بھی کی تھیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، بلکہ پرانا بیہودہ سوال ہے آج کے دور کے کافر مشرک اور جاہل لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ فلاں نشانی ہونی چاہئے یا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ کلام کیوں نہیں کرتا ، فرمایا (آیت) ” تشابھت قلوبھم “۔ اس قماش کے تمام اگلے پچھلے لوگوں کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں اسی لیے تو وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اور لایعنی سوال پیش کرتے ہیں ۔ (حضور ﷺ کے معجزات) اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ کون سی نشانی طلب کرتے ہیں حالانکہ (آیت) ” قد بینا الایت لقوم یوقنون “۔ ہم نے تو یقین رکھنے والے لوگوں کے لیے بیشمار نشانیاں یا معجزات دکھا دے ہیں ، کسی ایک آدھ نشانی کی بات نہیں ، اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے دست مبارک پر تقریبا تین ہزار معجزات ظاہر فرمائے ، اور یہ سارے ان لوگوں کے سامنے ہیں کیا شق القمر کا معجزہ کوئی ڈھکی چھپی بات ہے کیا ان لوگوں نے کھجور کے خشک تنے کو روتے ہوئے نہیں دیکھا آپ کی انگلیوں سے پانی کی نہریں جاری ہوجانا کس کے علم میں نہیں یہ سب کچھ ان لوگوں کے سامنے ہے مگر یہ نشانیاں ان لوگوں کو نظر آتی ہیں ، جو یقین رکھتے ہیں اور جن کے دل میں ایمان کی دولت موجود ہے وہ سمجھ چکے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں اور جن کے دل میں عناد ہے اس قسم کی بےمعنی باتیں وہی کرتے ہیں البتہ نبی کے دل میں تکلیف ہوگی غم لاحق ہوگا ، کہ اتنی واضح نشانیاں موجود ہونے کے باوجود یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے براہ راست باتیں کرکے فرشتوں کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا اپنے آپ کو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے برابر سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے بات کرے ، یہ سب ناجائز مطالبات ہیں ۔ (حضور ﷺ کیلے تسلی) جب کوئی شخص تمام تر نشانیاں دیکھنے کے باوجود ایمان نہ لائے تو یقینا دل میں افسوس پیدا ہوگا ، حضور ﷺ کے ساتھ یہی معاملہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا (آیت) ” انا ارسلنک بالحق بشیرا ونذیرا “۔ اے پیغمبر ﷺ ہم نے آپ کو حق کے ساتھ نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے آپ اپنی امت کے لیے بشیر اور نذیر ہیں یعنی آپ اہل ایمان کو جنت کی خوشخبری سناتے ہیں اور منکرین کو دوزخ کی وعید بھی سناتے ہیں جو لوگ آپ کا انکار کرتے ہیں وہ لازما اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئیں گے آپ ان کی حرکات پر غمگین نہ ہوں ، اور نہ ہی ان کے دوزخ میں جانے پر کوئی قلق محسوس کریں کیونکہ (آیت) ” ولا تسئل عن اصحب الجحیم “۔ آپ سے دوزخیوں کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا کہ یہ لوگ جہنم میں کیوں گئے ، بلکہ الٹا ان سے سوال ہوگا ، (آیت) ” ما سلککم فی سقر “۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا تمہاری جہنم رسید ہونے کی کیا وجہ تھی پھر وہ خود ہی اس کا جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے مسکین سے ہمدردی نہیں کرتے تھے فضولیات میں لگے رہتے تھے اور روز قیامت کی تکذیب کرتے تھے ، لہذا آپ ان کی حرکات سے دل برداشتہ نہ ہوں (آیت) ” انما علیک البلغ “۔ آپ کا کام صرف سمجھانا ہے باقی ان سے ہم خود نپٹ لیں گے ۔
Top