Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 124
وَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ١ؕ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا١ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ١ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَهْدِی الظّٰلِمِیْنَ
وَاِذِ : اور جب ابْتَلٰى : آزمایا اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم رَبُّهٗ : ان کا رب بِکَلِمَاتٍ : چند باتوں سے فَاَتَمَّهُنَّ : وہ پوری کردیں قَالَ : اس نے فرمایا اِنِّيْ : بیشک میں جَاعِلُکَ : تمہیں بنانے والا ہوں لِلنَّاسِ : لوگوں کا اِمَامًا : امام قَالَ : اس نے کہا وَ : اور مِنْ ذُرِّيَّتِي : میری اولاد سے قَالَ : اس نے فرمایا لَا : نہیں يَنَالُ : پہنچتا عَهْدِي : میرا عہد الظَّالِمِينَ : ظالم (جمع)
اور اس وقت کو دھیان میں لاؤ ، جب آزمایا ابراہیم (علیہ السلام) کو اس کے رب نے چند باتوں کے ساتھ پس انہوں نے ان باتوں کو پورا کردیا ، (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا میں تمہیں لوگوں کے لیے پیشوا بنانے والا ہوں (براہیم علیہ السلام) نے کہا کہ میری اولاد میں سے بھی (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا میرا وعدہ ظالموں کے لیے نہیں ہے ۔
گذشتہ دروس پر ایک نظر۔ سورة بقرہ کی ابتداء میں قرآن پاک کے کتاب ہدایت ہونے کا بیان تھا ، اس کے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے تین گروہوں کا ذکر کیا پہلا گروہ ہدایت کو قبول کرنے والوں کا دوسرا منکرین کا اور تیسرا منافقین کا ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع سے اپنی توحید کا اقرار اور اپنی عبادت کے لیے کہا پھر قرآن پاک کی صداقت اور حقانیت کو بیان فرمایا ، اس کے ساتھ پیغمبر (علیہ السلام) کی نبوت اور آپ کی صداقت کا ذکر کیا اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ نے آگے تخلیق آدم (علیہ السلام) اور پھر ان کی خلافت ارضی کا ذکر کیا ، جو اللہ تعالیٰ کی حکمت میں طے ہوچکا تھا ۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کا ذکر شروع ہوتا ہے جو کہ اپنے زمانے میں ایک عظیم قوم تھی اسے اس وقت اقوام عالم پر فضیلت حاصل تھی ، اس کے بعد ان خرابیوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر آتا ہے جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوچکی تھیں ، اگرچہ بنی اسرائیل کی خرابیاں لاتعداد ہیں مگر ان آیات میں ان کی چالیس کے قریب خرابیاں بیان ہوئی ہیں ، آخر میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خطاب کیا اور فرمایا اے بنی اسرائیل ! میری نعمتوں کو یاد کرو اور ان کی ناقدری نہ کرو ، فرمایا (آیت) ” وامنوا بما انزلت مصدقالما معکم “۔ اس کتاب پر ایمان لاؤ جس کو میں نے سب سے آخر میں نازل کیا ہے اور وہ سابقہ کتب کی مصدق ہے ، (آیت) ” یبنی اسرآء یل اذکروا “۔ کے جملہ کو دوبارہ دہرایا گیا اور اس قوم کو بار بار توجہ دلائی گئی کہ وہ ہٹ دھرمی ، ضد اور عناد کو ترک کے حق کو قبول کرلیں مگر یہ لوگ اپنے باطل عقائد پر اڑے رہے اور پیغمبر آخر الزمان (علیہ السلام) اور اللہ تعالیٰ کی آخر کتاب قرآن پاک کا انکار کرتے رہے ۔ قیامت کے متعلق بنی اسرائیل کا نظریہ درست نہیں ہے شفاعت کے متعلق انہوں نے غلط عقیدے بنا رکھے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان تمام باتوں کی نشاندہی کردی ہے یہاں سے لیکر آگے دور تک حضور ﷺ کی نبوت آپ کی صداقت اور حقانیت کا ذکر ہے آپ کی معرفت نازل ہونے والی کتاب اللہ کا ذکر ہے اس کے ساتھ ساتھ ملت حنیفہ کے پہلے امام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ بھی آتا ہے کیونکہ حضور خاتم النبیین ﷺ اسی ملت کے آخری امام ہیں اور پھر اسی ضمن میں مرکز ہدایت مکہ معظمہ اس کی تاسیس اور اس کی فضیلت کا ذکر ہے یہ ساری باتیں آگے آرہی ہیں ۔ یہاں سے کر (آیت) ” لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق المغرب “۔ تک ملت ابراہیمی کا تذکرہ آئے گا ، درمیان میں ضمنا اور بھی بہت سے مسائل آئیں گے لیکن بنیادی طور پر حضور ﷺ کی رسالت اور نبوت کا تذکرہ ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضور خاتم النبیین ﷺ کی بعثت سے کئی ہزار سال پہلے دعا کی تھی (آیت) ” ربنا وبعث فیھم رسولا منھم “۔ اے مولا کریم ! ان میں رسول بھیج چناچہ آپ کی نبوت کے علاوہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں پیدا ہونے والے دیگر انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کا ذکر بھی آئے گا ۔ (امتحان کی غرض وغایت) یہاں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے تذکرہ میں ان امتحانات کا بیان ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے جد الانبیاء (علیہ السلام) کو آزمایا چناچہ ارشاد ہوتا ہے (آیت) ” واذا ابتلی ابرھیم ربہ بکلمت فا تمھن “۔ اور اس وقت کو یاد کرو جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے رب نے بعض باتوں میں آزمایا ‘ ” ابتلی “ کا معنی امتحان یا آزمائش ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر آتا ہے (آیت) ” بلونھم بالحسنت والسیات “۔ ہم نے اچھائی اور برائی کے ساتھ لوگوں کو امتحان لیا تاکہ بات کھل کر سامنے آجائے ، حدیث شریف میں حضرت عمر ؓ کا قال ہے (1) ” بلینا بالسرآء فصبرنا “۔ ہم کو تکلیفوں کے ذریعے آزمایا گیا تو ہم نے صبر کیا مگر جس وقت ہمیں راحتوں کے ساتھ آزمایا گیا ہم صبر نہ کرسکے گویا ” ابتلی “ کا معنی آزمائش ہے ۔ یہاں پر اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آزماتا تو وہ ہے جسے کسی کی اہلیت یا کارکردگی کا علم ہو مگر اللہ تعالیٰ تو علیم کل ہے وہ تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے بھی جانتا تھا کہ آپ کس حیثیت اور قدر ومنزلت کے نبی ہوں گے اور پھر جس قدر بھی آپ میں اوصاف پائے جاتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کے عطا کردہ تھے ، تو ان حالات میں خود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش کا کیا مطلب ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں (1) (معالم التنزیل ص 48 ج 1 (تفسیر عزیزی فارسی ص 436 پارہ 1) کہ آزمائش کی غرض وغایت یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی کو آزمائش میں ڈال کر اس کی حیثیت کو دوسروں پر واضح کیا جائے امتحان لینے والے کو تو علم ہوتا ہے کہ اس کی حیثیت کیا ہے مگر دوسرے لوگ اس سے ناواقف ہوتے ہیں لہذا امتحان کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ، اس مقام پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے امتحان کی یہی غرض وغایت ہے اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں پر ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ جس ہستی کو میں نے اپنا خلیل منتخب کیا ہے ، اس میں کیا ہے ، اس میں کیا خوبیاں ہیں جن کی بنا پر انہیں بلند مقام حاصل ہوا ہے ، الغرض اللہ تعالیٰ مالک الملک ہے ، وہ چاہے تو انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کا امتحان لے لے اور نہ چاہے تو ایک گنہگار کو معاف کر دے ، بہرحال یہاں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائشوں کا ذکر ہے ۔ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن مالوف) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بابل کے مقام ار میں پیدا ہوئے جو موجودہ بغداد سے ساٹھ ستر میل کے فاصلے پر واقع ہے اس زمانے میں بابل آشوریوں کو دارالسلطنت اور بڑا متمدن ملک تھا یہ شہر کلدانیوں کا پایہ تخت بھی رہا مگر زمانے کی دست برد کے آگے ٹھہر نہ سکا اور تباہ وبرباد ہوگیا اب اس کے کھنڈرات سے اس زمانے کی اشیا نکال نکال کر انہیں عجائب گھروں میں تبدیل کر رہے ہیں یہ بالکل اسی طرح کے کھنڈرات ہیں جس طرح ہمارے ہاں ٹیکسلا کے کھنڈرات ہیں اسی طرح کے بعض مقامات سندھ میں پائے جاتے ہیں جہاں کے کھنڈرات سے پرانی تہذیبوں کے متعلق معلومات ہوتی ہیں ، بہرحال حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن مالوف بابل تھا جس کے اب کھنڈرات ہی باقی رہ گئے ہیں مگر اپنے زمانے میں یہ بہت بڑا شہر اور تہذیب و تمدن کا مرکز تھا ۔ (پہلی آزمائش قوم سے مقابلہ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مختلف آزمائشوں کے لیے یہاں پر ” کلمت “ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ جمع کا صیغہ ہے تاہم مبہم ہے ، مفسرین کرام بہت سی آزمائشوں کا ذکر کرتے ہیں آپ کی آزمائش کا پہلا مرحلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب آپ نے ہوش وحواش سنبھالا اور ارد گرد کے ماحول مطالعہ کیا ، قرآن پاک کی مختلف سورتوں میں آپ کے جو واقعات بیان ہوئے ہیں ان کے مطابق سب سے پہلے آپ کی اپنے والد ، قوم اور بادشاہ وقت کے ساتھ کشمکش پیدا ہوئی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اوائل عمر میں ہی رشد وہدایت سے نوازا تھا ، دوسری جگہ آتا ہے (آیت) ” ولقد اتینا ابرھیم رشدہ “۔ ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سمجھ عطا کی چناچہ آپ نے اپنے مشرکانہ ماحول کا یہ اثر لیا کہ آپ شرک اور کفر سے متنفر ہوگئے ، چناچہ آپ نے کفر وشرک کی مذمت بیان کرنا شروع کی خاندان ، قوم اور بادشاہ سب آپ کے دشمن ہوگئے ، یہاں تو معمولی تنازعہ ہوجائے تو لوگ بھاگ جاتے ہیں مگر آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی اور آپ پچاس ساٹھ سال تک اپنے ماحول کے سامنے سینہ سپر رہے ۔ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قوم کے عبادت خانہ میں جا کر سارے بتوں کو توڑ دیا تو آپ کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ، ادنی سے لے کر اعلی تک مخالف تو پہلے ہی تھے اب انہیں یقین ہوگیا کہ ان کے بتوں کی توہین حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا بادشاہ قوم کے ساتھ تھا ، لہذا فیصلہ یہ ہوا (آیت) ” حرقوہ وانصروا الھتکم “۔ یعنی ہمارے معبودوں کو جو نقصان پہنچایا گیا ، اس کی تلافی صرف اسی طرح ہو سکتی ہے ، کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں زندہ جلا دیا جائے چناچہ جیسا کہ واقعات بیان ہوئے ہیں ، اس فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے بہت بڑی مقدار میں ایندھن جمع کیا گیا اور پھر اسے ایک کھائی میں اچھی طرح جلا کر منجنیق کے ذریعے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس میں پھینک دیا گیا ان حالات میں بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) آزمائش میں پورے اترے انہوں نے آگ میں ڈالے جانے کے وقت بھی کوئی جزع فزع نہیں کی ، آپ نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر معافی کی کوئی درخواست تک پیش نہیں کی بلکہ نہایت خدوپیشانی سے آگ میں ڈالے جانے کو قبول کرلیا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” ارادوا بہ کیدا فجعلنھم الاخسرین “۔ وہ ایک داؤ کھیلنا چاہتے تھے کسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو صفحہ ہستی سے ناپید کردیا جائے ، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ان بدبختوں کو ہی گھاٹے والا بنایا یعنی ان سب کو ناکام کردیا ، اللہ تعالیٰ نے آپکو ثابت قدم رکھا اور آپ اس امتحان میں کامیاب وکامران ہوئے ، اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بعض باتوں میں آزمایا (آیت) ” فا تمھن “۔ تو آپ ان آزمائشوں میں پورے اترے یہ آپ کی پہلی بڑی آزمائش تھی ۔ (دوسری آزمائش وطن سے ہجرت) اتنی بڑی آزمائش دیکھنے کے باوجود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم آپ پر ایمان نہ لائی بلکہ آپ کو ایک دوسرے امتحان سے گذرنا پڑا ، آپ کا خاندان ایک بیوی حضرت سارہ ؓ اور بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) پر مشتمل تھا ، لوط (علیہ السلام) بچپن ہی سے آپ کی تحویل میں تھے اور آپ پر یقین بھی رکھتے تھے اتنی بڑی متمدن سلطنت میں کوئی دوسرا شخص ایمان نہیں لایا ، اگرچہ قوم پہلے منصوبے میں ناکام ہوچکی تھی اس کے باوجود وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی جان کے دشمن تھے اور آپ کے قتل کے منصوبے بناتے رہتے تھے ، ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کا حکم دیا ، یہ آپ کی دوسری آزمائش تھی ہجرت کرنا یعنی وطن اور گھر بار چھوڑنا بڑا مشکل کام ہے مگر جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوتا ہے تو بنی اس کی تعمیل میں ذرا تامل نہیں کرتا ، بلکہ نبی کے ساتھ اگر اہل ایمان کو بھی ہجرت کا حکم دیا جائے تو وہ اس کٹھن گھاٹی کو عبور کرلیتے ہیں ہمارے نبی آخر الزمان ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی ہجرت ایک اہم تاریخی واقعہ ہے ، اسی لیے تو (آیت) ” والسبقون والاولون من المھجرین “۔ کہہ کر ان کی تعریف فرمائی ۔ الغرض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے ہجرت کے لیے تیار ہوگئے اور فرمایا (آیت) ” انی مھاجر الی ربی “۔ میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں چناچہ آپ نے بیوی اور بھتیجے کے ہمراہ بابل اور عراق کو چھوڑا ، آپ کو مصر کے راستے سے شام اور فلسطین پہنچنے کا حکم تھا راستے میں شرق اردن کے علاقے میں بحرمیت آتا ہے اس کے کنارے پر بڑے متمدن لوگ آباد تھے ، انہوں نے علی درجے کا نظام حکومت قائم کر رکھا تھا ، اس مقدمہ پر حضرت لوط (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ تم یہیں قیام کرو ، اور ان لوگوں کو دین حق کی دعوت دو چناچہ آپ وہیں قیام پذیر ہوگئے ، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے بیوی بچے کے ہمراہ آگے شام اور فلسطین اور پھر مصر تک چلے گئے ، مصر میں آپ کو ایک اور آزمائش سے دو چار ہونا پڑا جب وہاں کے ظالم حاکم نے آپ کی بیوی حضرت سارہ ؓ کو قبضہ میں کرنا چاہا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ثابت قدم رکھا ، اور اس جابر حاکم سے نجات دلائی ۔ (تیسری آزمائش بیوی بچے سے جدائی) مصر کے حاکم نے حضرت سارہ ؓ کو ایک لونڈی دی تھی اگرچہ وہ لونڈی نہیں تھی مگر اس وقت وہ لونڈی کی حیثیت میں تھی ، حضرت سارہ ؓ نے ہاجرہ لونڈی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بخش دی اور اس طرح وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی بن گئی ، شام و فلسطین کے قیام کے دوران حضرت ہاجرہ ؓ سے بچہ پیدا ہوا جس کا نام نامی اسمعیل (علیہ السلام) رکھا گیا ، حضرت اسمعیل (علیہ السلام) ابھی شیر خوارگی کی عمر میں تھے کی اللہ تعالیٰ کا آگیا کہ اے ابراہیم ! اس بچے اور اس کی مال کو عرب کے دور دراز بیابان وادی غیر ذی ذرع میں چھوڑ آؤ ، آپ نے حکم کی تعمیل میں بیوی اور بچے کو ہمراہ لیا اور موجودہ مکہ مکرمہ والے مقام پر پہنچے جو کہ اس وقت بےآب وگیاہ وادی تھی ، اس مختصر قافلے کے ساتھ کوئی سامان بھی نہیں تھا ، ایک مشکیزے میں تھوڑا سا پانی اور کچھ کھجوریں تھیں ، جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے لخت جگر اور بیوی کے پاس چھوڑ کر چلے آئے یہ سارے واقعات آپ سنتے رہتے ہیں اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کبھی کبھی جاتے اور اپنے بیوی بچے کی خبر گیری کرتے ، اللہ تعالیٰ نے اس بیابان وادی میں زمزم جیسے بہترین پانی کا انتظام فرما دیا ، پھر وہاں بنو جرہم قبیلہ کے لوگ آباد ہوگئے اور اس طرح وہ ویران اور غیر آباد جگہ بستی میں تبدیل ہوگئی ۔ (چوتھی آزمائش بیٹے کی قربانی) اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایک اور بڑی آزمائش آئی جب حضرت اسماعیل بارہ تیرہ سال کے ہوگئے ، تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم آگیا ، کہ اس بچے کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دو ، اس واقعہ کی تفصیل بھی قرآن پاک کے مختلف مقامات پر آئی ہے آپ کو بار بار خواب آیا آخر آپ نے اس کا ذکر بچے سے کیا بچہ بڑا صابر تھا ، اس نے جواب دیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کردیں ، چناچہ آپ اس کے لیے تیار ہوگئے ، حتی کہ بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی ، وہ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت تھی کہ اس نے قربانی بھی قبول کرلی اور بچہ بھی صحیح سلامت بچ گیا ، الغرض اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جان ، مال ، اولاد ہر طریقے سے آزمایا اور آپ اس آزمائش میں پورے اترے پھر اللہ تعالیٰ نے اس ثابت قدمی پر جو انعامات عطا کیے ان کا ذکر بھی قرآن پاک میں آتا ہے ۔ (احکام القرآن) احکام القرآن کے نام سے بہت سے بزرگوں نے کتابیں لکھی ہیں جن میں حلال و حرام سے متعلق قرآنی احکام کی تشریح کی گئی ہے سب سے پہلی تفسیر امام ابوبکر جصاص (رح) نے کی ہے یہ حنفی امام ہیں ان کا زمانہ چوتھی صدی ہجری ہے ان کے بعد پانچویں صدی میں امام ابوبکر بن العربی (رح) ہوئے ہیں آپ کا تعلق مالکی مسلک سے ہے ، اور آپ کا وطن مالوف اندلس تھا ، آپ بھی بہت بڑے مفسر قرآن تھے حضرت امام شافعی (رح) کی احکام القرآن موجود ہے ، اگرچہ انہوں نے خود یہ کتاب نہیں لکھی ، مگر امام بیہقی (رح) نے ان کی کتابوں سے متعلقہ تفسیری آیات کو منتخب کر کے علیحدہ کتابی صورت دی ہے آپ چوتھی صدی ہجری کے محدث اور امام ہیں کشف اور سلوک کے بہت بڑے امام شیخ ابن عربی (رح) ساتویں صدی میں ہوئے ہیں انہوں نے بھی احکام القرآن کے نام سے کتاب لکھی ہے ، انہوں نے حلال و حرام کے مسائل کی بجائے تصوف پر زیادہ مسائل جمع کیے ہیں ۔ موجودہ دور میں مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) کو بھی احکام القرآن تالیف کرنے کا خیال پیدا ہوا آپ نے اپنے بعض شاگردوں اور مریدوں کو اس کام کی تکمیل کے لیے کہا ، چناچہ احکام القرآن کا ایک حصہ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب (رح) نے اور دوسرا مولانا ظفر احمد عثمانی (رح) نے تالیف کیا اور ایک حصہ مولانا محمد ادریس کاندھلوی (رح) کی کاوش کا نتیجہ ہے اس کتاب کے دو حصے ابھی بقایا ہیں ، جن کی تکمیل نہیں ہوسکی ۔ (امتحان میں کامیابی) الغرض امام ابوبکر بن العربی (رح) نے اپنی کتاب احکام القرآن میں لکھا ہے (1) (احکام القرآن ص 27 ج 1) کہ سورة نجم کی آیت و ابرہیم الذی وفی “۔ کا یہی مطلب ہے کیا تم کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی خبر نہیں پہنچی جنہوں نے پورا پورا کر دکھایا ، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی حکم آیا ، انہوں نے پورا کیا ، اور اس طرح ہر آزمائش پر پورے اترے ، آپ نے اپنا سارا مال مہمانوں اور محتاجوں کے لیے وقف کر رکھا تھا آپ اکیلے کھانا نہیں کھایا کرتے تھے جب تک کوئی مہمان نہ شامل ہوجاتا آپ نے اپنے آپ کو آگ میں ڈالے جانے کے وقت بھی ذرا پیش وپیش نہ کیا اپنے قلب کو ہمیشہ رحمان کے سامنے رکھا ، یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے وقف کردیا اور آپ ہر امتحان میں کامیاب ہوئے ۔ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) امام الناس میں) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) وہ مبارک ہستی ہیں کہ جب ان امتحانوں میں کامیاب ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر انعام مرحمت فرمایا (آیت) ” قال انی جاعلک للناس اماما “۔ میں تمہیں لوگوں کا امام یعنی پیشوا بنانے والا ہوں ، امام وہ ہوتا ہے جس کی اقوال وافعال میں اقتداء کی جائے ، اس لحاظ سے تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اپنی اپنی امت کے امام ہوتے ہیں (آیت) ” وجعلنا منھم ائمۃ یھدون بامرنا “۔ جو ہمارے حکم سے امت کی راہنمائی کرتے ہیں ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جن کا ذکر خیر ہو رہا ہے ، وہ تو ملت حنیفیہ کے بہت بڑے امام ہیں ، آپ کا لقب ابو الانبیاء ہے ، آپ تمام بعد میں آنے والے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے باپ اور جدامجد ہیں ، الغرض تمام آزمائشوں میں سے گذرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مژدہ سنایا کہ اے ابراہیم ! میں تجھے لوگوں کا امام یعنی پیشوا بناتا ہوں ۔ (ظالم محروم ہے) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے امامت کا انعام پایا تو فورا درخواست پیش کردی (آیت) ” قال ومن ذریتی “۔ عرض کیا ، مولا کریم ! جس طرح تو نے مجھے منصب امامت سے نوازا ہے کیا یہ سلسلہ میری اولاد میں بھی جاری رہے گا کیا میری اولاد میں بھی اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہوگی ، اللہ تعالیٰ نے جواب دیا منصب امامت صرف اہل ایمان کے لیے ہے (آیت) ” قال لا ینال عھدی الظلمین “۔ فرمایا میرا یہ وعدہ ظالموں کو نہیں پہنچے گا ، کیونکہ ظالم اس قابل نہیں ہوتا کہ اسے منصب امامت عطا کیا جائے یہ تو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے حصہ میں آتا ہے اور یہاں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جو چیز عطا ہوئی ، وہ نبوت ہے فقہاء محدثین متکلمین وغیرہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے آنکھ جھپکنے کے وقت کی مقدار بھی کفر یا شرک کیا ہو تو وہ عہدہ نبوت کا مستحق نہیں ہے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کو اس قدر پاک رکھتا ہے ۔ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے علاوہ خلافت اور حکومت والے جو امام ہیں ، ان میں سے بھی جو کوئی ظالم ہے اس آیت کی رو سے حکومت کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک امامت کے قابل وہی لوگ ہیں جو عدل و انصاف کو سربلند رکھنے والے ہیں کوئی بھی ظالم پیشوائی کے لائق نہیں ہے ۔
Top