Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 127
وَ اِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰهٖمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَ اِسْمٰعِیْلُ١ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَ : اور اِذْ : جب يَرْفَعُ : اٹھاتے تھے اِبْرَاهِيمُ : ابراہیم الْقَوَاعِدَ : بنیادیں مِنَ الْبَيْتِ : خانہ کعبہ کی وَ : اور اِسْمَاعِيلُ : اسماعیل رَبَّنَا : ہمارے رب تَقَبَّلْ : قبول فرما مِنَّا : ہم سے اِنَکَ : بیشک اَنْتَ : تو السَّمِيعُ : سننے والا الْعَلِيمُ : جاننے والا
اور اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم اور اسمعیل (علیہما السلام) بیت اللہ شریف کی بنیادیں اٹھا رہے تھے ، اور دونوں کہتے تھے اے ہمارے پروردگار ! ہم سے قبول فرما بیشک تو سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
ربط آیات : اس آیت کا تعلق سابقہ درس کی آیت مبارکہ (آیت) ” واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس “۔ کے ساتھ ہے وہاں پر تھا کہ اس بات کو یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ شریف کو لوگوں کے رجوع کی جگہ مرکز ہدایت اور جائے امن بنایا اس کے ساتھ مقام ابراہیم کا ذکر ہوا ، بیت اللہ شریف کو پاک وصاف رکھنے کا حکم ہوا ، وہاں پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر بھی تھا جس میں اہالیان شہر مکہ کے لیے پھلوں کی روزی طلب کی گئی تھی ، اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو شرف قبولیت بخشا جسے ہر شخص اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ۔ (تاریخ کعبہ) آیت زیر درس میں بیت اللہ شریف کی تعمیر کا ذکر ہے یہ بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے فضائل میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کی تعمیر آپ کے ہاتھوں سے کرائی چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے (آیت) ” واذ یرفع ابرھیم القواعد من البیت واسمعیل “۔ وہ کتنی مبارک گھڑی تھی جب ابراہیم اور اسمعیل (علیہما السلام) یعنی باپ بیٹا اپنے مبارک ہاتھوں سے بیت اللہ شریف کی بنیادیں اٹھا رہے تھے ، بعض دوسری احادیث میں آتا ہے (1) (تفسیر ابن کثیر ص 383 ج 1) کہ بیت اللہ شریف کی ابتدائی تعمیر حضرت آدم (علیہ السلام) نے کی تھی ، حضرت ابوذر غفاری ؓ کی روایت میں آتا ہے (2) (مسند احمد ص 151 ج 5) کہ حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا ، تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے اولین گھر کی تعمیر کا ذکر آیت پاک (آیت) ” ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا “۔ میں آیا ہے اس آیت میں لفظ بکہ استعمال ہوا ہے مگر بکہ اور مکہ ہم معنی الفاظ ہیں ۔ توراۃ میں بکہ کا ذکر بھی آتا ہے ، اسے ام القری بھی کہتے ہیں گویا دنیا میں اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلے تعمیر ہونے والا گھر بیت اللہ شریف ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے عرض کیا حضور ﷺ اس کے بعد کون سا گھر تعمیر ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا بیت المقدس ، نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ بیت اللہ اور بیت المقدس کی تع میرات میں چالیس (40) سال کا وقفہ ہے یہاں پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت داود (علیہ السلام) کے زمانہ میں تو بہت زیادہ فرق ہے پھر دونوں گھروں کی تعمیر میں صرف چالیس (40) سال کے واقفہ کا کیا مطلب ؟ مفسرین کرام فرماتے ہیں (3) (معالم التنزیل ص 51 ، ج 3 ، تفسیر طبری ص 546 ج 1) کہ اس تعمیر سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت داؤد (علیہما السلام) والی تع میرات مراد نہیں بلکہ ان دونوں گھروں کی اولین تع میرات مراد ہیں جو حضرت آدم (علیہ السلام) کے ہاتھوں انجام پائیں ، اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے کا طوفان آیا ، اس کے علاوہ اور بھی کئی سیلاب آئے جن میں بیت اللہ شریف کی عمارت بہ گئی ، اور وہاں پر صرف ایک ٹیلہ سا باقی رہ گیا ، عمارت منہدم ہوگئی ، پھر جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا دور آیا ، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی دوبارہ تعمیر کا حکم دیا ۔ قرآن پاک کے لفظ ” قواعد “ سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ اس عمارت کی اولین تعمیر نہیں تھی بلکہ یہ عمارت اپنی اصل بنیادوں پر دوبارہ اٹھائی جارہی تھی ، چونکہ اس وقت عمارت کے کوئی نشانات باقی نہ تھے صرف ایک ٹیلہ سا باقی تھا ، تو عمارت کی اصل بنیادوں کی نشاندھی کے لیے اللہ تعالیٰ نے بادل کا ایک ٹکڑا بھیجا جس نے اس اصل جگہ پر سایہ کر کے اس کا تعین کردیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ بیت اللہ شریف کا اصل مقام یہ ہے چناچہ آپ نے اسی جگہ پر دو بار تعمیر شروع کی اس وقت حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی عمر مبارک چودہ سال کی تھی ۔ (خبر گیری کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آمد ورفت) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت سارہ ؓ شام وفسلطین میں تھے جب کہ حضرت ہاجرہ ؓ اور اسمعیل (علیہ السلام) حجاز میں تھے آپ ایک سال یا دو سال میں ایک مرتبہ آکر بیوی بچے کی خبرگیری کرتے ، تاہم آپ کی بیوی سارہ ؓ کی یہ شرط تھی کہ آپ بیوی بچے کی خبرگیری کے لیے قلیل وقت کے لیے جاسکتے ہیں ، ان کے پاس رات کو ٹھہرنے کی اجازت نہیں ہوگی ، اس عرصہ میں حضرت ہاجرہ ؓ کا انتقال ہوگیا اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) نے قبیلہ بنو جرہم میں نکاح کرلیا روایات میں آتا ہے (1) (بخاری ص 475۔ ج۔ 1) کہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بیٹے کی خبر گیری کے لیے آئے تو حضرت اسماعیل (علیہ السلام) گھر پر موجود نہیں تھے ، انہوں نے ان کی بیوی سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ کہیں شکار کے لیے گئے ہوئے ہیں آپ نے گذران اوقات بارہ میں پوچھا تو اس عورت نے کہا کہ ذریعہ معاش کوئی نہیں ہے بڑی مشکل سے گذر اوقات ہورہا ہے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کوئی کام نہیں کرتے ، اس لیے فاقے آتے ہیں یہ شکایت سن کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ جب تیرا شوہر آئے تو اسے میرا سلام کہنا اور ساتھ یہ پیغام بھی دینا کہ وہ اپنے گھر کی چوکھٹ بدل دیں جب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) شکار سے واپس آئے تو انہیں باپ کی آمد کی خیر و برکت معلوم ہوئی ، چناچہ انہوں نے بیوی کے بتانے سے پہلے خود ہی پوچھ لیا کہ میرے بعد کون آیا تھا بیوی نے بتایا کہ ایک بوڑھا آدمی آیا تھا ، اس نے حال احوال پوچھا تو میں نے سب احوال بتا دیے ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے پھر دریافت کیا کہ وہ کوئی پیغام بھی دے گئے ہیں تو بیوی نے کہا کہ ہاں وہ کہہ گئے ہیں کہ اپنے گھر کی چوکھٹ تبدیل کر دو آپ پیغام کا مطلب سمجھ گئے چناچہ بیوی کو الگ کردیا اور بتایا کہ اب میں تمہیں گھر میں نہیں رکھ سکتا ، اس کے بعد حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے دوسرا نکاح کیا کئی سال بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوبارہ تشریف لائے ، اتفاق سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) پھر گھر میں موجود نہیں تھے ان کی بیوی موجود تھی آپ نے اس سے گھر کے حالات دریافت کیے اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے گھر کے حالات بہت اچھے ہیں ، میرا خاوند بھی بڑا اچھا آدمی ہے نیک سیرت اور عبادت گذار ہے اللہ تعالیٰ نے ہمیں رزق بھی وافر دیا ہے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) شکار بھی کرتے ہیں گزر اوقات بھی بڑی اچھی ہو رہی ہے اس عورت نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے سواری سے اترنے کی درخواست کی تاکہ آپ کی خاطر تواضع کرسکے ، مگر آپ نے کہا کہ میں نے ٹھہرنا نہیں ہے ہاں جب تمہارا خاوند آئے تو اسے میرا یہ پیغام دینا کہ تمہارے مکان کی چوکھٹ بہت اچھی ہے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں آپ یہ پیغام دے کر چلے گئے جب حضرت اسماعیل (علیہ السلام) گھر واپس آئے ، تو بیوی نے پیغام دیا ، آپ نے فرمایا وہ میرے باپ تھے اور یہ پیغام دے گئے ہیں کہ میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں ۔ (تعمیر کعبہ) یہ واقعہ بھی تفسیری روایتوں میں موجود ہے (1) (تفسیر عزیزی فارسی ص 477 پارہ 1) کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تیسری مرتبہ مکہ معظمہ آنے کا ارادہ کیا تو اپنی بیوی حضرت سارہ ؓ سے طے کرلیا کہ اس دفعہ میں کچھ عرصہ وہاں ٹھہروں گا چناچہ یہ ان ایام کا ذکر ہے کہ آپ کو بیت اللہ شریف کی تعمیر کا حکم ہوا ، جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ خانہ کعبہ کی اصل بنیادوں کی نشاندہی کے لیے اللہ تعالیٰ نے بادل کے ایک ٹکڑے کو مامور کیا اور اس طرح باپ بیٹے نے بیت اللہ شریف کی تعمیر کی ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مقام ابراہیم پر کھڑے ہو کر دیواریں چنیں اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) آپ کے لیے گارا اور پتھر لاتے رہے ، اس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) کی تعمیر کے بعد جب یہ عمارت طوفان نوح کی نذر ہوگئی تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے ہاتھوں دوبارہ تعمیر ہوئی کہتے ہیں کہ یہ عمارت ذی قعدہ میں شروع ہو کر ذی الحجہ میں تقریبا ایک ماہ میں پایہ تکمیل کو پہنچی ۔ (تعمیر اور کعبہ کے مختلف ادوار) بیت اللہ شریف کی تعمیر مذکور کے بعد دوبارہ تعمیر قصی بن کلاب کے زمانے میں ہوئی جو حضور خاتم النبیین ﷺ کے جد امجد تھے ، حضور ﷺ کے اپنے زمانہ مبارک میں بیت اللہ شریف کی عمارت پھر بوسیدہ ہوچکی تھی چناچہ قریش مکہ نے چندہ جمع کر کے بیت اللہ شریف کو دوبارہ تعمیر کیا اس وقت حضور ﷺ کی عمر مبارک پینتیس (35) برس تھی گویا یہ تعمیر آپ کی بعثت سے پانچ برس قبل ہوئی کہتے ہیں کہ رؤسا مکہ نے طے کرلیا تھا کہ اس مقدس تعمیر میں ناپاک مال استعمال نہیں کیا جائے گا چناچہ پاک وصاف اور حلال مال سے جو چندہ جمع ہوا وہ پوری عمارت کی تعمیر کے لیے ناکافی تھا لہذا حطیم والا سات ہاتھ کا حصہ چھوڑ کر باقی جگہ پر بیت اللہ تعمیر کرلیا گیا ، اسی موقع پر حجر اسود کی تنصیب کا جھگڑا کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا فیصلہ حضور ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے اس طرح کروایا کہ سارے لوگ خوش ہوگئے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے زمانہ نبوت میں بیت اللہ شریف کی تجدید نہیں کی ، اس کی ایک وجہ تو سرمایہ کی کمی تھی ، اور دوسری یہ کہ حضور ﷺ نے فرمایا (1) (بخاری ص 470 ج 1 ، مسلم ص 429۔ ج 1) کہ اگر میں اس کو دوبارہ تعمیر کرتا ، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرز پر کرتا ، اور اس وقت عمارت میں تغیر وتبدل کرنا مناسب نہیں تھا یزید کی وفات کے بعد حجاز میں نو سال تک حکومت حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کے پاس رہی ، حجاز ، مکہ ، مدینہ اور طائف وغیرہ آپ ہی کے زیر نگرانی تھے ، اس زمانہ میں آپ نے بیت اللہ شریف کو دوبارہ تعمیر کیا اور آپ نے یہ عمارت ابراہیمی بنیادوں پر قائم کی یعنی حطیم کو خانہ کعبہ میں داخل کر لای ، حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شہادت کے بعد حجاج بن یوسف نے عبدالملک بن مروان کے حکم پر عمارت کی تجدید کی اور حطیم کو پھر باہر نکال دیا ۔ ہارون الرشید نے اپنے زمانے میں حطیم کو پھر شامل کر کے از سر نو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا اس وقت امام مالک (رح) نے اسے ایسا نہ کرنے کی درخواست کی (2) (تفسیر عزیزی فارسی ص 479 پارہ 1 ، ابن کثیر ص 183 ج 1) آپ کا نظریہ یہ تھا کہ ایسا کرنے سے یہ مقدس گھر آئندہ آنے والوں کے لیے کھلونا بن جائے گا چناچہ ہارون الرشید نے اپنا ارادہ ترک کردیا ، اس کے بعد ترکوں کے عہد میں سلطان مراد خان کے زمانے میں بیت اللہ شریف کی تعمیر کی تجدید ہوئی یہ 1040 ء کا واقعہ ہے موجودہ عمارت وہی ترکوں کی تعمیر کردہ ہے ، اب تک بیت اللہ کی عمارت میں کوئی تبدل و تغیر نہیں ہوا ، البتہ موجودہ سعودی حکومت کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی ہے کہ انہوں نے بھاری رقوم خرچ کر کے حرم پاک کو وسیع کردیا ہے اور زائرین کے آرام و سہولت کے لیے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کیا ہے ۔ (دعا کی قبولیت) الغرض جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے تو ساتھ ساتھ نہایت مخلصانہ انداز میں دعا بھی کر رہے تھے ، (آیت) ” ربنا تقبل منا “۔ اے ہمارے پروردگار ! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے (آیت) ” انک انت السمیع العلیم “۔ بیشک تو سننے والا اور جاننے والا ہے تو دعا کو سنتا بھی ہے اور ہمارے اخلاص کو بھی جانتا ہے ، لہذا ہمارے عمل کو قبول فرما لے ۔ ظاہر ہے کہ قبولیت کے بغیر ہر عمل بیکار محض ہے اسی لیے انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام ہمیشہ دعا کیا کرتے تھے ، کہ ہمارا عمل قبول ہوجائے ، ہر مومن کی بھی یہی تمنا ہوتی ہے کہ اس کی نیکی بارگاہ رب العزت میں مقبول ہوجائے ، حضرت ابودرداء ؓ کی روایت میں آتا ہے (1) (تفسیر ابن کثیر 43 ج 2) کہ اگر مجھے علم ہوجائے کہ میری دو رکعت نماز قبول ہوگئی ہے تو میں اس کے بدلے میں دنیا ومافیہا کی ہر چیز کو ٹھکرا دوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا جو معیار مقرر فرمایا ہے وہ بہت بلند ہے (آیت) ” انما یتقبل اللہ من المتقین “۔ یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ متقیوں کے اعمال کو ہی قبول کرتا ہے نیکی اسی کی قبول ہوگی جس کا دل تقوی سے معمور ہے اگر تقوی سے خالی ہے دل میں کفر شرک ، نفاق ، اور ریا کاری بھری ہوئی ہے ، تو کوئی عمل بھی قبول نہیں ہوگا ، قبولیت کا معیار خلوص اور تقوی ہے ۔ اس وقت حضرت اسماعیل (علیہ السلام) اگرچہ چودہ سال کے بچے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے نیکی اور تقوی کی دولت ابتدائے زندگی سے ہی ودیعت کردی تھی ، لہذا اللہ تعالیٰ نے ان دونوں باپ بیٹا کے عمل کو شرف قبولیت بخشا ، حضرت اسماعیل (علیہ السلام) بڑے ہو کر ” رسولا نبیا “۔ بنے اللہ تعالیٰ نے مختلف سورتوں میں آپ کی تعریف کی ہے آپ صاحب شریعت رسول ہوئے ہیں تاریخی روایتوں سے پتہ چلتا ہے (2) (معالم التنزیل ص 53 ج 1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 451 پارہ 1) کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی متعدد بیویاں اور بارہ بیٹے تھے اور حضرت اسماعیل کے بارہ بیٹے اور ایک بیٹی تھی ایک بیٹے کی نسل سے اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے خاندان پیدا کیے ، آپ کا سب سے بڑا بیٹا نابت تھا اور سب سے چھوٹا قیدار تھا آپ کے بعد بیت اللہ شریف کی تولیت آپ کے بڑے بیٹے نابت کو ہی ملی تھی ، اللہ تعالیٰ نے دونوں باپ بیٹے کو اتنی فضیلت بخشی ۔ (قبولیت دعا کی شرائط) ترمذی شریف کی حدیث میں نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1) (ترمذی ص 26) ” لا تقبل صلوۃ بغیر طھور “۔ یعنی اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر کسی نماز کو قبول نہیں ۔ فرماتے گویا نماز کی قبولیت کے لیے طہارت بمنزلہ شرط کے ہے پاکیزگی کے بغیر کتنی نمازیں پڑھو قیام کرو ، رکوع و سجود کرو ، کوئی فائدہ نہیں ، اسی طرح دیگر نیکیوں کی شرط بھی ایمان اور اخلاص ہے اس کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ، اسی طرح بعض برائیاں ایسی ہیں جن کے ارتکاب سے نیکیاں مردود ہوجاتی ہیں ، حضور ﷺ کا ارشاد (2) (ترمذی ص 279) کہ ایک مرتبہ شراب نوشی کرنے والے کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی ، اگر توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں ورنہ قانون یہی ہے فرمایا جو غلام اپنے مالک کی مرضی کے خلاف بھاگ جائے وہ جب تک واپس نہ آئے اس کی کوئی نماز قبول نہیں ہوتی کیونکہ اس نے مالک کو دھوکا دیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت میں آتا ہے (3) (جامع صغیر مع شرح فیض القدیر ص 216 ج 1) کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ” اخلص فی دینک یکفیک قلیلا من العمل “۔ دین میں اخلاص پیدا کرلو تو پھر تمہارا تھوڑا عمل بھی کفایت کر جائے گا اسی واسطے قرآن پاک میں آتا ہے (آیت) ” مخلصین لہ الدین “۔ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو ، اور اخلاص ایک ایسی نعمت ہے جو توحید کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے (1) (احکام القرآن ص 474 ، ج 3) اگر انسان میں خلوص موجود ہے ، اس کا عقیدہ تو حید پر ہے فکر درست ہے تو پھر اس کے اعمال بھی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہیں ۔ (اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری) بیت اللہ شریف کی تعمیر کے تذکرہ کے بعد امت مسلمہ کی تاسس اور پھر نبی آخرالزمان ﷺ کی بعثت کی دعا ہے یہی مرکزی مضمون ہے جو اگلی آیت میں آرہا ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں حضور خاتم النبیین ﷺ کی بعثت کی درخواست پیش کی ، گویا نبی کریم ﷺ کے ظہور سے ہزاروں سال پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے آپ کے لیے دعا کی اور دعا کے پہلے حصے میں عرض کیا (آیت) ” ربنا واجعلنا مسلمین لک “۔ اے پروردگار ! ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا لے کہ ہم دونوں ہر حالت میں تیری اطاعت کرنے والے بن جائیں ، انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ہمیشہ یہی دعا رہی (آیت) ” توفنی مسلماوالحقنی بالصلحین “۔ اے اللہ ! ہماری موت فرمانبرداری کی حالت میں آئے اور جب وصیت کرتے ہیں تو فرماتے ہیں (آیت) ” فلا تموتن الا وانتم مسلمون “ کوشش کرو بھائی کہ تمہارا خاتمہ اسلام اور فرمانبرداری کی حالت میں ہو ، چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل (علیہ السلام) نے بھی ہی دعا کی (آیت) ” ربنا واجعلنا مسلمین لک “۔ اے اللہ ! ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنا ، اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ممکن ہے ، دوسری جگہ موجود ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم ! ” اسلم “ فرمانبردار ہو جاء ، آپ نے جواب دیا (آیت) ” اسلمت لرب العلمین “۔ میں رب العلمین کا مطیع ہوگیا ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے بعض امتحانوں کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) کو امامت عطا کی ۔ (امت مسلمہ کی تاسیس) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پہلے اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی دعا مانگی اور پھر اپنی اولاد کے متعلق عرض کیا (آیت) ” ومن ذریتنا امۃ مسلمۃ لک “۔ اور ہماری اولاد میں سے ایک فرمانبردار امت پیدا فرما ، یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس وقت یہ دعا کی گئی اس وقت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی موجود تھے ، لہذا امت مسلمہ کی دعا حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد کے حق جاتی ہے کیونکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) تو اس وقت تک ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے اسی مقام پر یہود ونصاری دھوکا کھاتے ہیں اور حضور ﷺ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں ان کا دعوی یہ ہے کہ یہ دعا حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے حق میں ہے ، اور امت مسلمہ بھی آپ ہی کی قوم ہے حالانکہ تاریخی شواہد سے واضح ہو رہا ہے کہ امت مسلمہ کا تعلق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے ہے جو اس وقت موجود تھے ، اور دعا میں شامل تھے چناچہ یہ قبولیت دعا کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے مبعوث فرمایا ۔ (مناسک حج کی تعلیم) دعا کے دوسرے حصہ میں باپ بیٹے نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی (آیت) ” وارنا منا سکنا “ اے پروردگار ! ہم کو ہمارے مناسک حج بھی بتلا دے ، مناسک منسک کی جمع ہے جس کا لفظی معنی دھونا ہے اسی لیے عربی والے کپڑا دھونے کو نسک الثوب بولتے ہیں ، نسک قربانی کو بھی کہتے ہیں اسی مناسبت سے عبادت و ریاضت کو نسک کہتے ہیں اور عابد کو ناسک اور عبادت گاہ یا قربانی کی جگہ کو منسک کہتے ہیں گویا معنی یہی نکلتا ہے کہ جس طرح دھونے سے کپڑا میل کچیل سے پاک ہوجاتا ہے ، اسی طرح قربانی اور عبادت سے انسان کے گناہ دھل جاتے ہیں ۔ جب خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو جیسا کہ گذشتہ درس میں ذکر آچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اعلان حج کا حکم صادر فرمایا تو ضروری تھا کہ جس حج کا حکم دیا جا رہا ہے اس کا طریقہ اور احکام بھی معلوم ہونے چاہئیں اسی لیے باپ اور بیٹا دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ہمیں ارکان حج بھی سکھلا دے تاکہ جو لوگ اس ارادہ سے آئیں وہ تیرے احکام کے مطابق اس فریضہ کو ادا کرسکیں ۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نبی کریم ﷺ نے عرفات کے میدان میں اونٹ کی سواری پر خطبہ ارشاد فرمایا (1) (مسلم ص 419 ج 1) ” یایھا الناس خذوا عنی مناسککم “۔ اے لوگو ! مجھ سے احکام حج اچھی طرح سیکھ لو ” لعلی لا اراکم بعد عامی ھذا “ شاید اس سال کے بعد تمہارے ساتھ ملاقات نہ ہو سکے ، اور پھر واقعی ایسا ہی ہوا ، آپ اس حج کے بعد دوبارہ مکہ مکرمہ نہ آسکے ، اور تین ماہ بعد خالق حقیقی سے جا ملے ، غرض مناسک سے حج کا طریقہ اور اس کے احکام مراد ہیں جن کے مطابق قیامت تک آنے والے لوگ حج کرتے رہیں گے ۔ لفظ ارنا “ رؤیت یا ” رای “ سے ہے ، اس کا مصدر رای بھی آتا ہے اگر رویت مصدر لیا جائے تو اس کا معنی آنکھ سے دیکھنا ہے اے اللہ ! ہمیں مناسک حج دکھادے ، اور رائی مصدر ہو تو اس کا معنی دل سے جاننا ہوگا (آیت) ” الم تر الی الذی “ سے رویت قلبی مراد ہے تو یہاں بھی ” ارنا “ کا معنی یہ ہوگا ، کہ ہمیں مناسک حج کا علم عطا فرما (آیت) ” وتب علینا “۔ اور ہماری توبہ قبول فرما ، مہربانی کے ساتھ ہم پر رجوع فرما (آیت) ” انک انت لتواب الرحیم “۔ بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا ہے یعنی مہربانی کے ساتھ رجوع کرنے والا ہے تو از حد مہربان ہے ، باپ اور بیٹے کی دعا کی دو حصے مکمل ہوئے ، تیسرے حصے میں حضور خاتم النبیین ﷺ کی بعثت کی درخواست کی گئی ہے جو اگلے درس میں آئے گی ۔
Top