Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 130
وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا١ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَنْ
: اور کون
يَرْغَبُ
: منہ موڑے
عَنْ مِلَّةِ
: دین سے
اِبْرَاهِيمَ
: ابراہیم
اِلَّا مَنْ
: سوائے اس کے
سَفِهَ
: بیوقوف بنایا
نَفْسَهُ
: اپنے آپ کو
وَ لَقَدِ
: اور بیشک
اصْطَفَيْنَاهُ
: ہم نے اس کو چن لیا
فِي الدُّنْيَا
: دنیا میں
وَاِنَّهُ
: اور بیشک
فِي الْآخِرَةِ
: آخرت میں
لَمِنَ
: سے
الصَّالِحِينَ
: نیکو کار
اور نہیں اعراض کرتا ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت سے مگر وہ شخص جس نے اپنی نفس کو بیوقوف بنا لیا اور البتہ تحقیق ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پسند فرمایا دنیا میں اور بیشک وہ آخرت میں البتہ نیکوکاروں میں شمار ہوگا ۔
گذشتہ سے پیوستہ : اللہ تعالیٰ نے پہلے بیت اللہ شریف کی بنیاد اور اس کی تعمیر کا ذکر فرمایا اور پھر اسی ضمن میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر تھا دعا میں سب سے پہلے عمل کی قبولیت اور پھر اطاعت اور فرمانبرداری کی توفیق طلب کی گئی تھی اس کے بعد دونوں باپ بیٹے کی اولاد میں سے امت مسلمہ کے قیام اور پھر ان میں سے ایک عظیم الشان رسول کی بعثت کی دعا تھی اور پھر ان فرائض کا ذکر تھا جو آخری رسول انجام دے گا ، یہاں پر مرکزی نکتہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی بعثت ہی ہے کیونکہ اہل کتاب آپ کی رسالت کا انکار کرتے تھے ، یہ مرکزی مضمون آگے دور تک جائے گا ابتداء میں حضرت خلیل (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر ہے اور پھر اس دعا کے مصداق کا بیان ہے تو جیسا کہ دعائے خلیل سے ظاہر ہے کہ وہ ذات والا صفات صرف حضرت محمد مصطفے ﷺ کی ہی ہو سکتی ہے آپ ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں ، آپ کا خاندان قریش اسی نسل سے ہی چلا آرہا تھا ، انہیں میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کا قیام فرمایا اور دعا کے مطابق انہیں میں نبی آخر الزمان ﷺ کو مبعوث فرمایا ۔ (حضور ﷺ کی بعثت کے آثار) آپ کی بعثت کے متعلق مسند احمد میں آتا ہے (1) (مسند احمد ص 27 ج 4 ، فتح الباری ص 394 ، ج 7) کہ کسی نے پوچھا حضور آپ کی ابتداء کیسے ہوئی ، آپ نے ارشاد فرمایا ” انا دعوۃ الی ابرھیم ورع یا امی وبشارۃ عیسیٰ “۔ یعنی میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اپنی ماں کے خواب اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا مصداق ہوں یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اسی دعا کا ذکر ہے ، جو گذشتہ درس میں گذر چکی ہے (آیت) ” ربنا وابعث فیھم رسولا منھم “۔ یعنی اے اللہ ! ان میں انہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما۔ حضور ﷺ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی پیدائش سے پہلے خواب دیکھا تھا (2) (مسند احمد ص 127 ج 4 ، فتح الباری ص 394 ، ج 7 ، طبقات ابن سعد ص 102 ج 1) کہ ان کے پہلو سے ایک ایسی روشنی نکلی ہے جس سے شام اور بصری کے محلات روشن ہوگئے ہیں یہاں تک کہ اونٹوں کی گردنیں نظر آ رہی ہیں اس حدیث کی ترجمانی مولانا الطاف حسین حالی (رح) نے اپنی طویل نظم مدروجزر اسلام میں خوب کی ہے ۔ ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا دعائے خلیل ونوید مسیحا : جہاں تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا تعلق ہے قرآن پاک نے اس کو بھی واضح کردیا ہے ، آپ نے اپنی قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ میں تمہاری طرف رسول مبعوث ہوا ہوں میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کی تصدیق کرنے والا ہوں ، (آیت) ” ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “۔ اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں ، جن کا نام نامی اور اسم گرامی احمد ہوگا ، عبرانی اور سریانی زبان میں احمد کو فارقلیط کہا گیا ہے جس کا معنی دنیا بھر کا تعریف کیا ہوا۔ شاعری میں مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی ، غالب کے شاگرد تھے اور علوم دینیہ میں حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحب (رح) کے شاگرد تھے ، 1857 ء کی جنگ آزادی میں آپ زیر تعلیم تھے مگر اس ہنگامے کی وجہ سے اپنی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے ، آپ کا شمار قومی شاعروں میں ہوتا ہے آپ نے اسلام کے عروج وزوال کی داستان نہایت موثر انداز میں نظم کی صورت میں پیش کی ہے آج کل لوگ میلاد خوانی کرتے ہیں حضور ﷺ کی مدح کے نام پر کفریہ اور شرکیہ کلمات کہہ جاتے ہیں ، ایسی تمام نعمتوں کے مقابلے میں مولانا حالی (رح) کا یہ ایک ہی شعر کافی ہے ، حدیث کے مضمون کو ایک شعر میں کمال طریقے سے سمو کر حضور ﷺ کی تعریف کی ہے ۔ (آیت کا شان نزول) تفسیر معالم التنزیل میں شان نزول اس طرح بیان کیا گیا ہے (1) (معالم التنزیل ص 52 ج 1 ، تفسیر ابو السعود ص 126 ، ج 1) کہ یہودی علماء میں سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی آپ کے بھائی کے دو بیٹے بھی صاحب علم تھے ، آپ نے ان سے کہا کہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ توراۃ میں یہ بیان موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل ایک نبی مبعوث کرو گا ۔ جس کا نام احمد ہوگا ، اور جو شخص اس پر ایمان لائے گا ، ہدایت پا جائے گا اور جو اس کا انکار کرے گا وہ معلون ہوگا ، چناچہ ان دو بھائیوں میں سے ایک بھائی مسلمان ہوگیا اور دوسرا یہودیت پر قائم رہا آیات زیر درس میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ (ملت ابراہیمی سے اعراض) فرمایا (آیت) ” ومن یرغب عن ملۃ ابرھیم الا من سفہ نفسہ “۔ اور نہیں اعراض کرتا ملت ابراہیمی سے مگر وہ شخص جس نے اپنے نفس کو بیوقوف بنا لیا یعنی ایسا کام وہی کرسکتا ہے جو پرلے درجہ کا بیوقوف ہو ، اپنی عقل وخرد کو بروئے کار نہ لاتا ہو ، ورنہ عقلمند شخص جس کی اپنی کوئی رائے ہو وہ ملت ابراہیمی سے اعراض نہیں کرسکتا ۔ (دین ، ملت اور شریعت) دین ، ملت اور شریعت تین مختلف چیزیں ہیں ، دین تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی مشترک میراث ہے ، قرآن پاک کے دوسرے مقام پر آتا ہے ” شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم “۔ یعنی ہم نے آپ کی طرف وہی دین نازل کیا جو نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم کی طرف نازل کیا دین ایک بنیادی عقیدہ ہوتا ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے لیکر حضور خاتم النبیین ﷺ تک ایک ہی رہا ہے اس میں اولین چیز توحید ہے اس کے بعد فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں اور قیامت پر ایمان ہے یہ ایسے بنیادی عقاید ہیں ، جن میں کسی زمانے میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوا ۔ ملت میں موٹے موٹے اصول اور کلیات ہوتے ہیں مختلف انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ملت میں بھی بہت حد تک اشتراک ہوتا ہے اور ملت کبھی منسوخ نہیں ہوتی ، بلکہ ہمیشہ قائم رہتی ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض کلیات ہر ملت میں قائم رہے ہیں مثلا طہارت ، خدا کے سامنے عاجزی ، سماحت وفیاضی ، عدل و انصاف ، تہذیب نفس وغیرہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو تمام عمل میں قدر مشترک رہی ہیں چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) اور حضور ﷺ گویا ایک ہی ملت ہے ، اسے ملت اسلامیہ کہہ لیں ، یا ملت ابراہیمی ، مطلب ایک ہی ہے ، اور اس آخری دور میں حضور ﷺ کا اتباع ہی ملت ابراہیمی کا اتباع ہے جو شخص نبی آخری الزمان ﷺ کی ملت کا فرد نہیں ہے ، اس کی طرف سے ملت ابراہیمی سے تعلق کا دعوی باطل ہے ، ایسا شخص گمراہ ہوگا ، چناچہ اس وقت یہودی اور نصرانی دونوں ملعون گروہ ہیں ۔ ہر نبی کی شریعت مختلف ہوتی ہے ، شریعت میں مسائل کی جزئیات ہوتی ہیں ، جو مکان و زبان کی مناسبت سے بدلتی رہتی ہیں ، اسی لیے فرمایا (آیت) ” لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جاء “۔ ہم نے ہر امت کے لیے جدا جدا شریعت بنائی ہے حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1) (تفسیر ابن کثیر ص 186۔ ج 1) ” نحن معشر الانبیآء اولاد علات دیننا واحد “۔ ہم انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کا گروہ علاقی بھائی ہیں مگر ہمارا دین ایک ہی ہے ، علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کا باپ ایک ہو اور مائیں مختلف ہوں ، حضور ﷺ نے اس مثال سے یہ بات سمجھائی کہ دین ایک بنیادی چیز ہے جو کہ غیر تغیر پذیر ہے ، مگر شرائع یعنی جزیات مختلف زمانوں میں بدلتی رہتی ہیں ، جیسے حلال و حرام کے مسائل ہیں ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی شریعت میں دو سگی بہنیں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں آسکتی تھیں ، ہماری شریعت میں یہ ناجائز ہے ان کی شریعت میں اونٹ کا گوشت کھانا جائز نہیں تھا مگر ہماری شریعت میں جائز ہے مقصد یہ کہ شریعت ایک تغیر پذیر چیز ہے ملت کے بڑے بڑے اصول مشترک ہوتے ہیں اور دین بالکل غیر تغیر پذیر ہے یہ ہمیشہ قائم رہتا ہے ،۔ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مرتبہ ذیشان) ملت ابراہیمی کے تذکرہ کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہاں پر تعریف بیان فرمائی ہے ، (آیت) ” ولقد اصطفینہ فی الدنیا “۔ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں نبوت و رسالت اور امامت و پیشوائی کے لیے منتخب فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں درجہ کمال تک پہنچایا اور آپ کو عزت اور شرف عطا کیا ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے منتخب شدہ برگزیدہ انسان تھے (آیت) ” وانہ فی الاخرۃ لمن الصلحین “۔ اور آخرت میں وہ نیکو کاروں میں شمار ہوں گے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا اور آخرت ہر دو مقام میں بزرگی عطا فرمائی ، لہذا ان کے طریقے سے انحراف کرنے والا ملعون کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ، (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فرمانبرداری) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نبوت و امامت جیسے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ (آیت) ” اذ قال لہ ربہ اسلم “۔ جب ان کے رب نے ان سے کہا کہ فرمانبردار ہوجاؤ تو (آیت) ” قال اسلمت لرب العلمین “۔ انہوں نے کہا میں ہمہ تن جان ومال ، ظاہر و باطن میں رب العلمین “۔ کا فرمانبردار ہوں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنا ملت کا اولین اصول ہے ، امت کا یہ فرض ہے کہ ہر آنے والے نبی کا اتباع کرے فرمانبرداری کی یہی شان ہے ، ملت ابراہیمی میں جب بگاڑ پیدا ہوا تو یہودیت اور نصرانیت پیدا ہوئی اسی لیے ان دو گروہوں کی مذمت کی گئی ہے حقیقت میں ملت ابراہیمی ہی ملت اسلامیہ ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کار بند تھے ، اور جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) بھی کار بند رہے ، حضور خاتم النبیین ﷺ کو بھی یہی ارشاد ہوا (آیت) ” ان اتبع ملۃ ابرھیم حنیف “۔ لہذا حضور ﷺ کا اتباع ہی حقیقت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا اتباع ہے جو شخص پہلے نبی کی اطاعت کا دعویدار ہو اور آخری نبی کا انکار کرے ، وہ ملت ابراہیمی کا پیروکار کیسے ہو سکتا ہے بنی اسرائیل کو سمجھایا جا رہا ہے کہ وہ ہٹ دھرمی چھوڑ کر دین اسلام کو قبول کرلیں ۔ (حضرت ابراہیم اور یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو اسی ملت اسلامیہ پر کاربند رہنے کی وصیت کی ، (آیت) ” ووصی بھا ابرھیم بنیہ ویعقوب “۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کتنے بیٹے تھے ، اس میں مختلف روایات ہیں (1) (تفسیر ابو السعود ص 137 ج 1۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 491 پارہ 1 ، درمنثور ص 139۔ ج 1) بعض کہتے ہیں کہ چار (4) بیٹے تھے ، بعض نے سات (7) اور بعض نے چودہ (14) لکھے ہیں ، آپ کی متعدد بیویاں تھیں ، اور مدین ، مدائن ، اسماعیل اور اسحاق سب ابراہیم (علیہ السلام) کے فرزند تھے ، اسی طرح یعقوب (علیہ السلام) کے بھی بارہ بیٹے تھے ، تو ان دونوں جلیل القدر انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی (آیت) ” یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین “۔ اے بیٹو ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین اسلام کو منتخب فرمایا ، یہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے اسی پر کاربند رہنا ۔ (آیت) ” فلا تموتن الا وانتم مسلمون “۔ اور تمہاری موت صرف اسی حالت میں آنی چاہئے کہ تم فرمانبرداری کرنے والے ہو یعنی دین اسلام پر قائم ہو ، مقصد یہ تھا کہ موت ایک غیر اختیاری چیز ہے پتا نہیں کس وقت وارد ہوجائے ، لہذا تمہارا ہر لمحہ اطاعت خداوندی میں دین اسلام پر گذرنا چاہئے یعنی مرتے دم تک ملت اسلامیہ پر قائم ہو حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1) (جامع صغیر مع شرح فیض القدیر ص 226 ، ج 6 ، بحوالہ مسند احمد ومستدرک حاکم عن جابر ؓ) من مات علی شیء بعثہ اللہ علیہ “۔ جو شخص جس عقیدے پر مرے گا اسی پر قیامت کے دن اٹھایا جائے گا ، لہذا تمہاری موت دین حق پر آنی چاہئے ، تاکہ روز محشر یہی دین لے کر اٹھو۔ یہودیوں کے لٹر یچر میں اس وصیت کے ضمن میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا بھی ذکر ہے کہ انہوں نے بھی اپنی اولاد کو ایسی ہی وصیت کی تھی ، جب ان کا وقت موعود آپہنچا تو انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو بلا کر کہا کہ میں تم کو اس خدا کا واسطہ دیتا ہوں ، جس کی صفات الہیہ حلیم ، قیوم اور عزیز ہے اور جو آسمان و زمین کے درمیان ہر چیز کا خالق ہے تم اسی خدا کا خوف رکھنا اور اسی کی عبادت کرنا ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بھی وقت آخر اپنے بیٹوں کو پاس بلا کر کہا مجھے خدشہ ہے کہ تم میں سے کوئی بت پرستی اور شرک کی طرف میلان رکھتا ہے تو بیٹوں نے جواب دیا سن اے اسرائیل ! اے ہمارے باپ ! ہمارا خدا وہی ہے جو ” لم یزل “ ہے اور جس طرح ایک خدا تعالیٰ پر تیرا ایمان ہے ، اسی طرح ایک خدا پر ہمارا بھی ایمان ہے ، بہرحال یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت کا ذکر تھا جو اس آیت میں بیان ہوا۔ اگلی آیت میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت کا بطور خاص ذکر فرمایا ، یہود ونصاری کو یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ تمہار یہ دعوی باطل کہ تم ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کو ماننے والے ہو انہوں نے یہودیت یا نصرانیت کی تعلیم نہیں دی تھی ان کی تعلیم تو واضح طور پر توحید پر مبنی تھی ، فرمایا اس واقعہ کو یاد کرو (آیت) ” ام کنتم شہدآء اذ حضر یعقوب الموت “۔ کیا تم اس وقت موجود تھے ، جب یعقوب (علیہ السلام) کے پاس موت آئی ۔ (آیت) ” اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی “ جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا ، تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے یہودیوں کی روایت میں یہ بھی موجود ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا مجھے شبہ ہے کہ تم میں کوئی شرک کی طرف میلان نہ رکھتا ہو تو بیٹوں نے بیک آواز جواب دیا ۔ (آیت) ” قالوا نعبد الھک ، ہم تیرے معبود کی عبادت کریں گے (آیت) ” والہ ابآئک “۔ اور تمہارے آباؤ اجداد (آیت) ” ابرھیم واسمعیل واسحق “۔ ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) کے معبود کی عبادت کریں گے ، (آیت) ” الھاواحد “۔ سے جو ایک ہی معبود ہے ہم صرف اسی کی عبادت کریں گے ، (آیت) ” ونحن لہ مسلمون “۔ اور ہم صرف اسی کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں یہ سب باتیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دم واپسین کے وقت کی ہیں ، جو اپنی اولاد کو دین توحید اور ملت ابراہیمی پر کاربند رہنے کی تلقین فرما رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان تمام واقعات کے پیش نظر یہود ونصاری کے لیے ملت ابراہیمی سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں ، اگر ان میں ذرا بھی انصاف کا مادہ موجود ہو ، اور وہ تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انہیں حضور ﷺ پر ایمان لانا ہوگا ، کیونکہ آپ ہی ملت ابراہیمی کے سچے پیروکار اور سچے جانشین ہیں ، اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاری کے اس دعوے کی تردید فرمائی ہے کہ وہ ملت ابراہیمی پر ہیں ، آگے سورة آل عمران میں آئے گا کہ اے بنی اسرائیل ! اگر تمہارے دعوی یہ ہے کہ تم حضرت ابراہیم کے طریقے پر ہو تو نبی آخر الزمان ﷺ پر ایمان لانا پڑے گا ، آپ کے بغیر سب ادیان باطل ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف تمہاری جھوٹی نسبت کچھ مفید نہ ہوگی ۔ (ہر امت اپنے افعال کی ذمہ دار ہے) ان جلیل القدر پیغمبروں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسماعیل (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی توحید پر پختگی کے بعد فرمایا (آیت) ” تلک امۃ قد خلت “۔ یہ ایک جماعت تھی جو گذر گئی وہ دین توحید پر قائم رہی (آیت) ” لھا ما کسبت “۔ انہیں کے لیے ہے جو کچھ انہوں نے کمایا ، یعنی ان کے عقیدہ اور اعمال وافعال کا اجر ان کو ملے گا (آیت) ” ولکم ما کسبتم “ اور تمہارے لیے وہ ہوگا جو تم کماؤ گے اگر تم بھی ان کے طریقے پر چلتے ہوئے دین اسلام اور ملت ابراہیمی کا دامن تھام لو گے تو مراد کو پہنچو گے اور اگر اپنی ضد اور عناد پر قائم رہے ، تو ملت ابراہیمی سے خالی خولی نسبت کچھ کام نہ آئے گی اور تمہارے عقیدے اور اعمال کے مطابق ہی تمہیں بدلہ دیا جائے گا ، امام غزالی (رح) نے بڑی عمدہ مثال دی ہے ، کہتے ہیں کہ اگر بیٹا بھوکا یا پیاسا ہو اور باپ کھا پی لے ، تو بیٹے کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، اس کی بھوک اور پیاس رفع نہیں ہوگی ۔ جب تک وہ خود نہیں کھائے پئے گا ، اسی طرح یہود ونصاری کے آباؤاجداد کا دین اسلام پر قائم ہونا انہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا جب تک یہ خود ہٹ دھرمی چھوڑ کر ملت ابراہیمی کو نہ اپنا لیں فرمایا (آیت) ” ولا تسئلون عما کانوا یعملون “۔ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے آباؤ اجداد کا دین کیا تھا ، وہ کیا کرتے تھے ، بلکہ تمہیں خود ان کی صحیح معنوں میں پیروی کرنا ہوگا تمہارے اعمال کی باز پرس تمہیں سے ہوگی ۔
Top