Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 130
وَ مَنْ یَّرْغَبُ عَنْ مِّلَّةِ اِبْرٰهٖمَ اِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهٗ١ؕ وَ لَقَدِ اصْطَفَیْنٰهُ فِی الدُّنْیَا١ۚ وَ اِنَّهٗ فِی الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ
وَمَنْ : اور کون يَرْغَبُ : منہ موڑے عَنْ مِلَّةِ : دین سے اِبْرَاهِيمَ : ابراہیم اِلَّا مَنْ : سوائے اس کے سَفِهَ : بیوقوف بنایا نَفْسَهُ : اپنے آپ کو وَ لَقَدِ : اور بیشک اصْطَفَيْنَاهُ : ہم نے اس کو چن لیا فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَاِنَّهُ : اور بیشک فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں لَمِنَ : سے الصَّالِحِينَ : نیکو کار
اور نہیں اعراض کرتا ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت سے مگر وہ شخص جس نے اپنی نفس کو بیوقوف بنا لیا اور البتہ تحقیق ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پسند فرمایا دنیا میں اور بیشک وہ آخرت میں البتہ نیکوکاروں میں شمار ہوگا ۔
گذشتہ سے پیوستہ : اللہ تعالیٰ نے پہلے بیت اللہ شریف کی بنیاد اور اس کی تعمیر کا ذکر فرمایا اور پھر اسی ضمن میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر تھا دعا میں سب سے پہلے عمل کی قبولیت اور پھر اطاعت اور فرمانبرداری کی توفیق طلب کی گئی تھی اس کے بعد دونوں باپ بیٹے کی اولاد میں سے امت مسلمہ کے قیام اور پھر ان میں سے ایک عظیم الشان رسول کی بعثت کی دعا تھی اور پھر ان فرائض کا ذکر تھا جو آخری رسول انجام دے گا ، یہاں پر مرکزی نکتہ حضور خاتم النبیین ﷺ کی بعثت ہی ہے کیونکہ اہل کتاب آپ کی رسالت کا انکار کرتے تھے ، یہ مرکزی مضمون آگے دور تک جائے گا ابتداء میں حضرت خلیل (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر ہے اور پھر اس دعا کے مصداق کا بیان ہے تو جیسا کہ دعائے خلیل سے ظاہر ہے کہ وہ ذات والا صفات صرف حضرت محمد مصطفے ﷺ کی ہی ہو سکتی ہے آپ ہی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے ہیں ، آپ کا خاندان قریش اسی نسل سے ہی چلا آرہا تھا ، انہیں میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کا قیام فرمایا اور دعا کے مطابق انہیں میں نبی آخر الزمان ﷺ کو مبعوث فرمایا ۔ (حضور ﷺ کی بعثت کے آثار) آپ کی بعثت کے متعلق مسند احمد میں آتا ہے (1) (مسند احمد ص 27 ج 4 ، فتح الباری ص 394 ، ج 7) کہ کسی نے پوچھا حضور آپ کی ابتداء کیسے ہوئی ، آپ نے ارشاد فرمایا ” انا دعوۃ الی ابرھیم ورع یا امی وبشارۃ عیسیٰ “۔ یعنی میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا اپنی ماں کے خواب اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا مصداق ہوں یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اسی دعا کا ذکر ہے ، جو گذشتہ درس میں گذر چکی ہے (آیت) ” ربنا وابعث فیھم رسولا منھم “۔ یعنی اے اللہ ! ان میں انہیں میں سے ایک رسول مبعوث فرما۔ حضور ﷺ کی والدہ ماجدہ نے آپ کی پیدائش سے پہلے خواب دیکھا تھا (2) (مسند احمد ص 127 ج 4 ، فتح الباری ص 394 ، ج 7 ، طبقات ابن سعد ص 102 ج 1) کہ ان کے پہلو سے ایک ایسی روشنی نکلی ہے جس سے شام اور بصری کے محلات روشن ہوگئے ہیں یہاں تک کہ اونٹوں کی گردنیں نظر آ رہی ہیں اس حدیث کی ترجمانی مولانا الطاف حسین حالی (رح) نے اپنی طویل نظم مدروجزر اسلام میں خوب کی ہے ۔ ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا دعائے خلیل ونوید مسیحا : جہاں تک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت کا تعلق ہے قرآن پاک نے اس کو بھی واضح کردیا ہے ، آپ نے اپنی قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ میں تمہاری طرف رسول مبعوث ہوا ہوں میں اپنے سے پہلی کتاب توراۃ کی تصدیق کرنے والا ہوں ، (آیت) ” ومبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد “۔ اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں ، جن کا نام نامی اور اسم گرامی احمد ہوگا ، عبرانی اور سریانی زبان میں احمد کو فارقلیط کہا گیا ہے جس کا معنی دنیا بھر کا تعریف کیا ہوا۔ شاعری میں مولانا الطاف حسین حالی پانی پتی ، غالب کے شاگرد تھے اور علوم دینیہ میں حضرت مولانا شاہ اسحاق صاحب (رح) کے شاگرد تھے ، 1857 ء کی جنگ آزادی میں آپ زیر تعلیم تھے مگر اس ہنگامے کی وجہ سے اپنی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے ، آپ کا شمار قومی شاعروں میں ہوتا ہے آپ نے اسلام کے عروج وزوال کی داستان نہایت موثر انداز میں نظم کی صورت میں پیش کی ہے آج کل لوگ میلاد خوانی کرتے ہیں حضور ﷺ کی مدح کے نام پر کفریہ اور شرکیہ کلمات کہہ جاتے ہیں ، ایسی تمام نعمتوں کے مقابلے میں مولانا حالی (رح) کا یہ ایک ہی شعر کافی ہے ، حدیث کے مضمون کو ایک شعر میں کمال طریقے سے سمو کر حضور ﷺ کی تعریف کی ہے ۔ (آیت کا شان نزول) تفسیر معالم التنزیل میں شان نزول اس طرح بیان کیا گیا ہے (1) (معالم التنزیل ص 52 ج 1 ، تفسیر ابو السعود ص 126 ، ج 1) کہ یہودی علماء میں سے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کو اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی آپ کے بھائی کے دو بیٹے بھی صاحب علم تھے ، آپ نے ان سے کہا کہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ توراۃ میں یہ بیان موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل ایک نبی مبعوث کرو گا ۔ جس کا نام احمد ہوگا ، اور جو شخص اس پر ایمان لائے گا ، ہدایت پا جائے گا اور جو اس کا انکار کرے گا وہ معلون ہوگا ، چناچہ ان دو بھائیوں میں سے ایک بھائی مسلمان ہوگیا اور دوسرا یہودیت پر قائم رہا آیات زیر درس میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ (ملت ابراہیمی سے اعراض) فرمایا (آیت) ” ومن یرغب عن ملۃ ابرھیم الا من سفہ نفسہ “۔ اور نہیں اعراض کرتا ملت ابراہیمی سے مگر وہ شخص جس نے اپنے نفس کو بیوقوف بنا لیا یعنی ایسا کام وہی کرسکتا ہے جو پرلے درجہ کا بیوقوف ہو ، اپنی عقل وخرد کو بروئے کار نہ لاتا ہو ، ورنہ عقلمند شخص جس کی اپنی کوئی رائے ہو وہ ملت ابراہیمی سے اعراض نہیں کرسکتا ۔ (دین ، ملت اور شریعت) دین ، ملت اور شریعت تین مختلف چیزیں ہیں ، دین تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی مشترک میراث ہے ، قرآن پاک کے دوسرے مقام پر آتا ہے ” شرع لکم من الدین ما وصی بہ نوحا والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراہیم “۔ یعنی ہم نے آپ کی طرف وہی دین نازل کیا جو نوح (علیہ السلام) اور ابراہیم کی طرف نازل کیا دین ایک بنیادی عقیدہ ہوتا ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) سے لیکر حضور خاتم النبیین ﷺ تک ایک ہی رہا ہے اس میں اولین چیز توحید ہے اس کے بعد فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں اور قیامت پر ایمان ہے یہ ایسے بنیادی عقاید ہیں ، جن میں کسی زمانے میں کوئی تغیر وتبدل نہیں ہوا ۔ ملت میں موٹے موٹے اصول اور کلیات ہوتے ہیں مختلف انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ملت میں بھی بہت حد تک اشتراک ہوتا ہے اور ملت کبھی منسوخ نہیں ہوتی ، بلکہ ہمیشہ قائم رہتی ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ بعض کلیات ہر ملت میں قائم رہے ہیں مثلا طہارت ، خدا کے سامنے عاجزی ، سماحت وفیاضی ، عدل و انصاف ، تہذیب نفس وغیرہ یہ ایسی چیزیں ہیں جو تمام عمل میں قدر مشترک رہی ہیں چناچہ ابراہیم (علیہ السلام) اور حضور ﷺ گویا ایک ہی ملت ہے ، اسے ملت اسلامیہ کہہ لیں ، یا ملت ابراہیمی ، مطلب ایک ہی ہے ، اور اس آخری دور میں حضور ﷺ کا اتباع ہی ملت ابراہیمی کا اتباع ہے جو شخص نبی آخری الزمان ﷺ کی ملت کا فرد نہیں ہے ، اس کی طرف سے ملت ابراہیمی سے تعلق کا دعوی باطل ہے ، ایسا شخص گمراہ ہوگا ، چناچہ اس وقت یہودی اور نصرانی دونوں ملعون گروہ ہیں ۔ ہر نبی کی شریعت مختلف ہوتی ہے ، شریعت میں مسائل کی جزئیات ہوتی ہیں ، جو مکان و زبان کی مناسبت سے بدلتی رہتی ہیں ، اسی لیے فرمایا (آیت) ” لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جاء “۔ ہم نے ہر امت کے لیے جدا جدا شریعت بنائی ہے حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1) (تفسیر ابن کثیر ص 186۔ ج 1) ” نحن معشر الانبیآء اولاد علات دیننا واحد “۔ ہم انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کا گروہ علاقی بھائی ہیں مگر ہمارا دین ایک ہی ہے ، علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کا باپ ایک ہو اور مائیں مختلف ہوں ، حضور ﷺ نے اس مثال سے یہ بات سمجھائی کہ دین ایک بنیادی چیز ہے جو کہ غیر تغیر پذیر ہے ، مگر شرائع یعنی جزیات مختلف زمانوں میں بدلتی رہتی ہیں ، جیسے حلال و حرام کے مسائل ہیں ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی شریعت میں دو سگی بہنیں بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں آسکتی تھیں ، ہماری شریعت میں یہ ناجائز ہے ان کی شریعت میں اونٹ کا گوشت کھانا جائز نہیں تھا مگر ہماری شریعت میں جائز ہے مقصد یہ کہ شریعت ایک تغیر پذیر چیز ہے ملت کے بڑے بڑے اصول مشترک ہوتے ہیں اور دین بالکل غیر تغیر پذیر ہے یہ ہمیشہ قائم رہتا ہے ،۔ (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مرتبہ ذیشان) ملت ابراہیمی کے تذکرہ کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی یہاں پر تعریف بیان فرمائی ہے ، (آیت) ” ولقد اصطفینہ فی الدنیا “۔ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو دنیا میں نبوت و رسالت اور امامت و پیشوائی کے لیے منتخب فرمایا ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں درجہ کمال تک پہنچایا اور آپ کو عزت اور شرف عطا کیا ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے منتخب شدہ برگزیدہ انسان تھے (آیت) ” وانہ فی الاخرۃ لمن الصلحین “۔ اور آخرت میں وہ نیکو کاروں میں شمار ہوں گے ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا اور آخرت ہر دو مقام میں بزرگی عطا فرمائی ، لہذا ان کے طریقے سے انحراف کرنے والا ملعون کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ، (حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی فرمانبرداری) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے نبوت و امامت جیسے منصب جلیلہ پر فائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ (آیت) ” اذ قال لہ ربہ اسلم “۔ جب ان کے رب نے ان سے کہا کہ فرمانبردار ہوجاؤ تو (آیت) ” قال اسلمت لرب العلمین “۔ انہوں نے کہا میں ہمہ تن جان ومال ، ظاہر و باطن میں رب العلمین “۔ کا فرمانبردار ہوں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنا ملت کا اولین اصول ہے ، امت کا یہ فرض ہے کہ ہر آنے والے نبی کا اتباع کرے فرمانبرداری کی یہی شان ہے ، ملت ابراہیمی میں جب بگاڑ پیدا ہوا تو یہودیت اور نصرانیت پیدا ہوئی اسی لیے ان دو گروہوں کی مذمت کی گئی ہے حقیقت میں ملت ابراہیمی ہی ملت اسلامیہ ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کار بند تھے ، اور جس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) بھی کار بند رہے ، حضور خاتم النبیین ﷺ کو بھی یہی ارشاد ہوا (آیت) ” ان اتبع ملۃ ابرھیم حنیف “۔ لہذا حضور ﷺ کا اتباع ہی حقیقت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا اتباع ہے جو شخص پہلے نبی کی اطاعت کا دعویدار ہو اور آخری نبی کا انکار کرے ، وہ ملت ابراہیمی کا پیروکار کیسے ہو سکتا ہے بنی اسرائیل کو سمجھایا جا رہا ہے کہ وہ ہٹ دھرمی چھوڑ کر دین اسلام کو قبول کرلیں ۔ (حضرت ابراہیم اور یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کو اسی ملت اسلامیہ پر کاربند رہنے کی وصیت کی ، (آیت) ” ووصی بھا ابرھیم بنیہ ویعقوب “۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کتنے بیٹے تھے ، اس میں مختلف روایات ہیں (1) (تفسیر ابو السعود ص 137 ج 1۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 491 پارہ 1 ، درمنثور ص 139۔ ج 1) بعض کہتے ہیں کہ چار (4) بیٹے تھے ، بعض نے سات (7) اور بعض نے چودہ (14) لکھے ہیں ، آپ کی متعدد بیویاں تھیں ، اور مدین ، مدائن ، اسماعیل اور اسحاق سب ابراہیم (علیہ السلام) کے فرزند تھے ، اسی طرح یعقوب (علیہ السلام) کے بھی بارہ بیٹے تھے ، تو ان دونوں جلیل القدر انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی (آیت) ” یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین “۔ اے بیٹو ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دین اسلام کو منتخب فرمایا ، یہ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے اسی پر کاربند رہنا ۔ (آیت) ” فلا تموتن الا وانتم مسلمون “۔ اور تمہاری موت صرف اسی حالت میں آنی چاہئے کہ تم فرمانبرداری کرنے والے ہو یعنی دین اسلام پر قائم ہو ، مقصد یہ تھا کہ موت ایک غیر اختیاری چیز ہے پتا نہیں کس وقت وارد ہوجائے ، لہذا تمہارا ہر لمحہ اطاعت خداوندی میں دین اسلام پر گذرنا چاہئے یعنی مرتے دم تک ملت اسلامیہ پر قائم ہو حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1) (جامع صغیر مع شرح فیض القدیر ص 226 ، ج 6 ، بحوالہ مسند احمد ومستدرک حاکم عن جابر ؓ) من مات علی شیء بعثہ اللہ علیہ “۔ جو شخص جس عقیدے پر مرے گا اسی پر قیامت کے دن اٹھایا جائے گا ، لہذا تمہاری موت دین حق پر آنی چاہئے ، تاکہ روز محشر یہی دین لے کر اٹھو۔ یہودیوں کے لٹر یچر میں اس وصیت کے ضمن میں حضرت اسحاق (علیہ السلام) کا بھی ذکر ہے کہ انہوں نے بھی اپنی اولاد کو ایسی ہی وصیت کی تھی ، جب ان کا وقت موعود آپہنچا تو انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں کو بلا کر کہا کہ میں تم کو اس خدا کا واسطہ دیتا ہوں ، جس کی صفات الہیہ حلیم ، قیوم اور عزیز ہے اور جو آسمان و زمین کے درمیان ہر چیز کا خالق ہے تم اسی خدا کا خوف رکھنا اور اسی کی عبادت کرنا ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے بھی وقت آخر اپنے بیٹوں کو پاس بلا کر کہا مجھے خدشہ ہے کہ تم میں سے کوئی بت پرستی اور شرک کی طرف میلان رکھتا ہے تو بیٹوں نے جواب دیا سن اے اسرائیل ! اے ہمارے باپ ! ہمارا خدا وہی ہے جو ” لم یزل “ ہے اور جس طرح ایک خدا تعالیٰ پر تیرا ایمان ہے ، اسی طرح ایک خدا پر ہمارا بھی ایمان ہے ، بہرحال یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت کا ذکر تھا جو اس آیت میں بیان ہوا۔ اگلی آیت میں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وصیت کا بطور خاص ذکر فرمایا ، یہود ونصاری کو یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ تمہار یہ دعوی باطل کہ تم ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) کو ماننے والے ہو انہوں نے یہودیت یا نصرانیت کی تعلیم نہیں دی تھی ان کی تعلیم تو واضح طور پر توحید پر مبنی تھی ، فرمایا اس واقعہ کو یاد کرو (آیت) ” ام کنتم شہدآء اذ حضر یعقوب الموت “۔ کیا تم اس وقت موجود تھے ، جب یعقوب (علیہ السلام) کے پاس موت آئی ۔ (آیت) ” اذ قال لبنیہ ما تعبدون من بعدی “ جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا ، تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے یہودیوں کی روایت میں یہ بھی موجود ہے کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا مجھے شبہ ہے کہ تم میں کوئی شرک کی طرف میلان نہ رکھتا ہو تو بیٹوں نے بیک آواز جواب دیا ۔ (آیت) ” قالوا نعبد الھک ، ہم تیرے معبود کی عبادت کریں گے (آیت) ” والہ ابآئک “۔ اور تمہارے آباؤ اجداد (آیت) ” ابرھیم واسمعیل واسحق “۔ ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) اور اسحاق (علیہ السلام) کے معبود کی عبادت کریں گے ، (آیت) ” الھاواحد “۔ سے جو ایک ہی معبود ہے ہم صرف اسی کی عبادت کریں گے ، (آیت) ” ونحن لہ مسلمون “۔ اور ہم صرف اسی کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں یہ سب باتیں حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے دم واپسین کے وقت کی ہیں ، جو اپنی اولاد کو دین توحید اور ملت ابراہیمی پر کاربند رہنے کی تلقین فرما رہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان تمام واقعات کے پیش نظر یہود ونصاری کے لیے ملت ابراہیمی سے انحراف کی کوئی گنجائش نہیں ، اگر ان میں ذرا بھی انصاف کا مادہ موجود ہو ، اور وہ تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انہیں حضور ﷺ پر ایمان لانا ہوگا ، کیونکہ آپ ہی ملت ابراہیمی کے سچے پیروکار اور سچے جانشین ہیں ، اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاری کے اس دعوے کی تردید فرمائی ہے کہ وہ ملت ابراہیمی پر ہیں ، آگے سورة آل عمران میں آئے گا کہ اے بنی اسرائیل ! اگر تمہارے دعوی یہ ہے کہ تم حضرت ابراہیم کے طریقے پر ہو تو نبی آخر الزمان ﷺ پر ایمان لانا پڑے گا ، آپ کے بغیر سب ادیان باطل ہیں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف تمہاری جھوٹی نسبت کچھ مفید نہ ہوگی ۔ (ہر امت اپنے افعال کی ذمہ دار ہے) ان جلیل القدر پیغمبروں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اسماعیل (علیہ السلام) اسحاق (علیہ السلام) اور یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد کی توحید پر پختگی کے بعد فرمایا (آیت) ” تلک امۃ قد خلت “۔ یہ ایک جماعت تھی جو گذر گئی وہ دین توحید پر قائم رہی (آیت) ” لھا ما کسبت “۔ انہیں کے لیے ہے جو کچھ انہوں نے کمایا ، یعنی ان کے عقیدہ اور اعمال وافعال کا اجر ان کو ملے گا (آیت) ” ولکم ما کسبتم “ اور تمہارے لیے وہ ہوگا جو تم کماؤ گے اگر تم بھی ان کے طریقے پر چلتے ہوئے دین اسلام اور ملت ابراہیمی کا دامن تھام لو گے تو مراد کو پہنچو گے اور اگر اپنی ضد اور عناد پر قائم رہے ، تو ملت ابراہیمی سے خالی خولی نسبت کچھ کام نہ آئے گی اور تمہارے عقیدے اور اعمال کے مطابق ہی تمہیں بدلہ دیا جائے گا ، امام غزالی (رح) نے بڑی عمدہ مثال دی ہے ، کہتے ہیں کہ اگر بیٹا بھوکا یا پیاسا ہو اور باپ کھا پی لے ، تو بیٹے کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، اس کی بھوک اور پیاس رفع نہیں ہوگی ۔ جب تک وہ خود نہیں کھائے پئے گا ، اسی طرح یہود ونصاری کے آباؤاجداد کا دین اسلام پر قائم ہونا انہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا جب تک یہ خود ہٹ دھرمی چھوڑ کر ملت ابراہیمی کو نہ اپنا لیں فرمایا (آیت) ” ولا تسئلون عما کانوا یعملون “۔ تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہارے آباؤ اجداد کا دین کیا تھا ، وہ کیا کرتے تھے ، بلکہ تمہیں خود ان کی صحیح معنوں میں پیروی کرنا ہوگا تمہارے اعمال کی باز پرس تمہیں سے ہوگی ۔
Top