Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 135
وَ قَالُوْا كُوْنُوْا هُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى تَهْتَدُوْا١ؕ قُلْ بَلْ مِلَّةَ اِبْرٰهٖمَ حَنِیْفًا١ؕ وَ مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَ
وَ : اور قَالُوْا : انہوں نے کہا كُوْنُوْا : تم ہوجاؤ هُوْدًا۔ اَوْ : یہودی۔ یا نَصَارٰی : نصرانی تَهْتَدُوْا : ہدایت پالوگے قُلْ : کہہ دو بَلْ : بلکہ مِلَّةَ : دین اِبْرَاهِيْمَ : ابراہیم حَنِيْفًا : ایک وَمَا : اور نہیں کَانَ : تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
اور (یہود ونصاری) کہتے ہیں یہودی یا نصرانی ہوجاؤ ، ہدایت پا جاؤ گے اے پیغمبر ! آپ کہہ دیجئے ہرگز نہیں بلکہ ہم ملت ابراہیمی کی پیروی کریں گے جو ایک طرف کو جھکنے والے (یکسو) تھے اور شرک کرنے والوں میں نہیں تھے ۔
گذشتہ سے پیوستہ : یہود ونصاری اور مشرکین تینوں گروہ ملت ابراہیمی کے مخالف تھے خصوصا اہل کتاب یعنی یہودونصاری اپنی یہودیت اور نصرانیت کو ہی ملت ابراہیمی کے مخالف تھے ، خصوصا اہل کتاب یعنی یہود ونصاری اپنی یہودیت اور نصرانیت کو ہی ملت ابراہیمی خیال کرتے تھے ، اور دوسروں کو بھی یہی چیز اختیار کرنے کی دعوت دیتے تھے مدینہ طیبہ کے اطراف میں رہنے والے یہودیوں میں ایک بڑا عالم عبداللہ بن صوریا مشہور زمانہ تھا اس نے خود آنحضرت ﷺ کو دعوت دی کہ آپ یہودیت اختیار کرلیں ہدایت پا جائیں گے ، دلیل اس کی بھی یہی تھی کہ وہی اصل ابراہیمی طریقے پر قائم ہیں حالانکہ ان کا یہ دعوے غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ یہودیت توراۃ کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور نصرانیت انجیل کی مسخ شدہ صورت انہوں نے آسمانی کتابوں میں شرک کی آمیزش کرکے اپنے مذہب کو باطل کرلیا ، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف خالی نسبت پر ہی اتراتے رہے ، لہذا اللہ تعالیٰ نے ان کے باطل عقائد کا رد فرمایا ہے ۔ (راہ ہدایت) اہل کتاب کا باطل کی طرف دعوت دینے کا طریقہ یہ تھا کہ (آیت) ” وقالوا کونوا ھودا اونصری تھتدوا “۔ وہ کہتے تھے کہ یہودی یا نصرانی بن جاؤ ، ہدایت پاجاؤ گے اللہ تعالیٰ نے ان کی دعوت کو رد فرماتے ہوئے نبی (علیہ السلام) کو ارشاد فرمایا کہ اہل کتاب کی دعوت کے جواب میں (آیت) ” قل بل ملۃ ابرھیم حنیفا “۔ آپ ان کو کہہ دیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا کہ ہم تمہارا باطل مذہب اختیار کرلی ، اور اگر اس میں بگاڑ نہ بھی پیدا ہوا ہو تو بھی توراۃ اور انجیل تو منسوخ ہوچکی ہے آپ قرآن پاک اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو کہ پہلی کتابوں کی ناسخ ہے لہذا اب توراۃ انجیل پر عمل نہیں کیا جاسکتا ، یہودیت کا باطل طریقہ تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد ایجاد ہوا موجودہ یہودیت ، ہرگز ان کا طریقہ نہیں ہے جسے اختیار کیا جاسکے ، اسی طرح موجودہ نصرانیت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دو سو سال بعد ایجاد ہوئی ہے موجودہ نصرانیت کا پیش کردہ عقیدہ تثلیث ہرگز حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی تعلیم نہیں ہے لہذا یہ دونوں مذہب کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہیں ۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا طریقہ ابراہیمی نہیں ہے (آیت) ” بل ملۃ ابرھیم حنیفا “۔ ہم تو اصل ملت ابراہیمی کی پیروی کریں گے اس حقیقی ملت کو اختیار کرکے اس پر کاربند رہیں گے پہلی آیتوں میں گذر چکا ہے کہ صحیح ملت ابراہیمی ہی ملت اسلامیہ ہے (آیت) ” ومن یرغب عن ملۃ ابرھیم الا من سفہ نفسہ “۔ اور اس ملت سے انحراف تو کوئی بیوقوف ہی کرسکتا ہے اور ان کا طریقہ تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا طریقہ ہے اور اس آخری دور میں شریعت محمد ہی ملت ابراہیمی کی اصل جانشین ہے لہذا ہم تو اس ملت کا اتباع کریں گے جو حضرت ابراہیم حنیف (علیہ السلام) کی ملت ہے اور یہ اب شریعت محمدی کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے ۔ (لفظ حنیف کا معنی) حنیف عربی زبان میں اس اونٹ کو کہتے ہیں جس کے پاؤں میں کجی ہو اور وہ چلتے وقت ایک طرف کو مائل ہوجاتا ہو ، اس کو احنف بھی کہتے ہیں لفظ حنیف اسی مادے سے ہے اور اس کا معنی ہے ہر طرف سے کٹ کر ایک طرف لگنے والا یعنی یکسو اور اصطلاحا حنیف اس شخص کو کہتے ہیں جو ہر طرف سے کٹ کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا ہو (آیت) ” حنفآء للہ غیر مشرکین بہ “۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق بھی یہی آتا ہے (آیت) ” وما کان من المشرکین “۔ آپ شرک کرنے والوں میں نہ تھے مگر جس یہودیت اور نصرانیت کی دعوت تم دے رہے ہو وہ تو شرک سے آلودہ ہے تم تو عقیدہ الوہیت کے قائل ہو جس میں تشبیہ پائی جاتی ہے لہذا ہم تمہارا مشرکانہ دین قبول نہیں کرسکتے بلکہ ہم تو ملت ابراہیمی کا اتباع کریں گے کیونکہ حضرت ابراہیم حنیف تھے اور شرک سے پاک تھے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اور بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں (1) (فتح الرحمان 56 ، مطبع ہاشمی ، الفوز اکبیر ص 3 ، تفسیر ابن کثیر ص 186 ، معالم التنزل ص 52 ج 1) کہ حنیف وہ شخص ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل ہو ، حج کرنے والا ہو ، نماز میں بیت اللہ شریف کی طرف رخ کرنے والا ہو ، ختنہ کرنے والا ہو ، اور محرمات نکاح کو حرام سمجھتا ہو شاہ عبدالعزیز (رح) نے اپنی تفسیر میں ملت ابراہیمی کی چالیس خصوصیات بیان کی ہیں (2) (تفسیر عزیزی فارسی ص 451 پارہ 1) جو اسلام میں پائی جاتی ہیں یہاں پر حج کرے والے سے مراد ایسا شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانتا ہو ، بہرحال حضرت ابراہیم حنیف تھے ، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں کہ ہم تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا اتباع کریں گے تمہاری خود ساختہ یہودیت اور نصرانیت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ (ایمان باللہ) فرمایا کہ آپ ان کو اصل ملت ابراہیمی کی تشریح بھی کردیں ، قولوا امنا باللہ “۔ یعنی یوں کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر یعنی ہماری جڑ بنیاد ہی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ہے ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ، نہ ذات میں نہ صفات میں ، نہ حلال و حرام میں کسی چیز میں اس کا شریک نہیں بناتے ، برخلاف اس کے بنی اسرائیل نے حلال و حرام کا منصب پادریوں کے سپرد رکر رکھا ہے جسے پادری حلال کر دے وہ حلال ہے اور جس چیز کو پادری حرام قرار دے دے ، وہ حرام ہوجاتی ہے حالانکہ تحلیل وتحریم تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے یہ منصب اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہے اور کسی کے پاس نہیں ہے ہاں جب نبی کسی چیز کی حلت و حرمت کا فتوی دیتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام کردہ حکم کے مطابق ایسا کرتا ہے خود اپنی مرضی سے کسی چیز کو حلال و حرام قرار نہیں دیتا ، یہودی چونکہ حلال و حرام کا اختیار اپنے احبار اور رہبان کو سونپتے ہیں اس لیے وہ تحلیل وتحریم میں شرک کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ (کتابوں پر ایمان) اہل ایمان کو خطاب ہو رہا ہے کہ ایمان باللہ کے بعد تمام کتب سماویہ پر ایمان لانے کا بھی اعلان کر دو (آیت) ” وما انزل الینا “۔ ہم اس کتاب پر ایمان لائے ہیں جو ہماری طرف نازل کی گئی یعنی قرآن پاک (آیت) ” وما انزل الی ابرھیم واسمعیل واسحق ویعقوب والاسباط “۔ اور جو کچھ نازل کیا گیا ابراہیم (علیہ السلام) ، اسماعیل (علیہ السلام) ، اسحاق (علیہ السلام) یعقوب (علیہ السلام) اور ان کی اولاد پر مکمل آسمانی کتابیں تو چار ہیں ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) پر چھوٹے چھوٹے صحیفے بھی نازل فرمائے چناچہ قرآن کریم میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحائف کا ذکر آتا ہے یہاں پر اسی صحائف کا ذکر ہے کہ جس طرح دیگر کتب سماویہ پر ایمان لانا ضروری ہے اسی طرح صحائف آسمانی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ـ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چار انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کا ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کے بعد سے چار انبیاء مبعوث فرمائے ۔ ہیں ان سب پر اور ان پر نازل ہونے والی چیز پر ایمان لانا اہل ایمان کا شیوہ ہے ۔ فرمایا ہمارا ان کتابوں پر بھی ایمان ہے (آیت) ” وما اوتی موسیٰ و عیسیٰ “۔ جو موسیٰ (علیہ السلام) اور عیسیٰ (علیہ السلام) کو عطا کی گئیں ، یعنی توراۃ اور انجیل (آیت) ” وما اوتی النبیون من ربھم “۔ اور اس چیز پر بھی ایمان لائے جو دیگر انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی غرضیکہ یہ ایک قاعدہ کلیہ آگیا کہ اللہ تعالیٰ نے نوع انسان پر جس وقت اور جو کچھ اپنے نبیوں کے ذریعے بھیجا ہے سب پر ایمان لانا لازم ہے ۔ ابن ابی حاتم ؓ کی روایت میں آتا ہے (1) (تفسیر ابن کثیر ص 187 ج 1 ، بحوالہ ابن ابی حاتم) کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جہاں تک ایمان لانے کا تعلق ہے تم زبور ، توراۃ اور انجیل پر ایمان رکھو مگر ” ولیعکم القرآن “۔ عمل کرنے کے لیے تمہارے لیے قرآن پاک کافی ہے یعنی سابقہ کتب پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن پاک نے سابقہ کتب کے احکام کو منسوخ کردیا ہے اب قابل عمل احکام صرف قرآن پاک کے ہیں ۔ امام شافعی (رح) کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کل ایک سو چار (104) کتابیں نازل فرمائی ہیں ، ان میں چار تو یہ عظیم کتابیں ہیں یعنی زبور ، توراۃ ، انجیل اور قرآن کریم اور سو (100) چھوٹی کتابیں صحیفے ہیں جو حضرت آدم (علیہ السلام) ، شیث (علیہ السلام) ، ادریس (علیہ السلام) ، نوح ، (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) ، اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ، ایسے ہی صحیفوں کا ذکر حضرت یونس (علیہ السلام) ، حضرت ایوب (علیہ السلام) ، حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور دیگر کئی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی آتا ہے موجودہ مجموعہ کتب مقدمہ ہے جسے بائیبل کہتے ہیں ، اس میں 39 صحائف شامل ہیں ، ان کتابوں اور صحائف میں اگرچہ بہت کچھ تحریف وتنسیخ ہوچکی ہے تاہم یہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہیں اور ہمارا ان سب پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بذریعہ وحی انبیاء کرام پر نازل فرمائے ۔ ّ (رسولوں پر ایمان) آگے اس بات کا اقرار ہے (آیت) ” لا نفرق بین احد منھم “۔ ہمارا ان تمام رسولوں پر مکمل ایمان ہے جن پر کتابیں اور صحیفے نازل ہوئے ، بلکہ ان انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر بھی ایمان ہے جن پر کوئی باقاعدہ کتاب نازل نہیں ہوئی اور ہم ان کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھتے حقیقت یہ ہے کہ ایمان مکمل اسی صورت میں ہوتا ہے جب تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر بلا تفریق ایمان ہو کسی پر ایمان لانا اور کسی پر نہ لانا یہ تو کفر کے مترادف ہے بنی اسرائیل اسی وجہ سے گمراہ ہوئے کہ وہ بعض انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر تو ایمان لائے مگر نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفے ﷺ کا انکار کردیا ، دیکھو ! اہل اسلام تمام سابقہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عیسیٰ (علیہ السلام) و دیگر سب پر ایمان رکھنے کے ساتھ نبی آخر الزمان ﷺ پر بھی ایمان لائے ہیں مگر یہود ونصاری آخری نبی کے منکر ہیں ، اس لیے یہ کافر ٹھہرے ہیں (آیت) ” لا نفرق بین احد منھم کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر یکساں ایمان ہے ہم کسی میں بھی تفریق نہیں رکھتے جو انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام جس قوم کی طرف اور جس زمانے میں بھی مبعوث ہوئے ، اگرچہ ہم انہیں جانتے نہیں مگر ان کی بعثت کے یکساں طور پر قائل ہیں ۔ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اہل ایمان تمہارے برحق ہونے کی نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام نبیوں اور اس کی تمام کتابوں کو برحق مانتے ہو ، اور ان میں کوئی تفریق روا نہیں رکھتے ، (آیت) ” ونحن لہ مسلمون “۔ اور ہم اسی اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرنے والے ہیں جس نے تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور کتابیں نازل فرمائیں اور یہی ملت ابراہیمی کا اصول ہے ۔ (میعار حق) اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو معیار حق قرار دیا اور فرمایا (آیت) ” فان امنوا بمثل ما امنتم بہ “۔ اگر یہ کفار ومشرکین اور یہود ونصاری بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو (آیت) ” فقد اھتدوا “۔ تو یہ بھی ہدایت پا جائیں گے گویا نزول قرآن کے زمانہ میں تو حضور ﷺ کے اولین صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین معیار قرار پائے ، مگر بعد میں آنے والوں کے لیے بھی لازم ہے کہ وہ بھی انہیں کا طریقہ اختیار کریں ، وہ بھی اسی معیار پر پرکھے جائیں گے چونکہ اس زمانے کے یہود ونصاری صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے معیار پر پورے نہ اترے ، وہ اس طرح تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور تمام کتابوں پر ایمان نہ لائے جس طرح حضور ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ایمان لائے تھے لہذا وہ مردود ہوئے آج بھی جو کوئی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے طریقے کے خلاف کرے گا یہ گمراہ ہوگا ، اسی لیے تو حضور ﷺ نے ناجی گروہ کے متعلق فرمایا (ترمذی ص 379) ” ما انا طیہ و اصحابی “۔ یعنی نجات یافتہ وہی لوگ ہیں جو میرے اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے طریقے پر ہوں گے باقی سب گمراہ ہوں گے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین میں سے آپ نے خلفائے راشدین المہدیین کا خاص طور پر ذکر فرمایا (1) (ترمذی 383) کیونکہ ان کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام خطہ زمین پر دین کو استحکام بخشا ، واقعہ جنگ صفین تک کوئی طاقت ایسی نہ تھی جو مسلمانوں سے ٹکر لے سکے ، سب مغلوب ہوچکے تھے نہ صرف دلیل سے بلکہ سیاسی طور پر اسلام غالب آچکا تھا یہ تو حضرت علی ؓ اور امیر معاویہ ؓ کے مابین چپقلش کی وجہ سے حالات نے پلٹا کھایا ورنہ پچاس سال تک اسلام ہر طرح سے غالب رہا ۔ الغرض ! یہود ونصاری کو فرمایا کہ تمہارا دین اور تمہارا ایمان درست نہیں ہے ہدایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تم بھی دین حق پر اسی طرح ایمان لے آؤ جس طرح اہل ایمان لاتے ہیں اگر ایسا نہیں کرو گے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے رہو گے تو ہدایت نہیں پا سکو گے ۔ (اہل ایمان کی کامیابی) فرمایا اگر یہ مکمل ایمان لانے کی بجائے (آیت) ” وان تولوا “۔ اگر یہ روگردانی کریں گے (آیت) ” فانما ھم فی شقاق “۔ تو یہ محض ضد اور اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں یہ نہ تو منصف مزاج ہیں اور نہ ہی حقیقت کے طلبگار ہیں آپ اپنا کام کرتے جائیں ، ان کی پرواہ نہ کریں ، (آیت) ” فسیکفیکھم اللہ “۔ ان کی طرف سے ہر شر و فساد کے جواب میں اللہ تعالیٰ آپ کی کفایت کرے گا ، آپ کو ان کی شرارتوں اور حیلہ سازیوں سے محفوظ رکھے گا ، اور جو لوگ آپ کے متبع ہیں ، وہ بھی مامون ہوں گے (آیت) ” ان شانئک ھو الابتر “۔ آپ کے دشمن ہی ذلیل و خوار ہوں گے آپ اور آپ کے ساتھی بالآخر کامیاب وکامران ہوں گے چناچہ اہل کتاب نے دیکھ لیا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام پور کے عرب اور پھر آدھی دنیا تک پھیل گیا وہی اہل کتاب جو آپ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے تھے انہیں مدینہ طیبہ اور دیگر قلعوں سے نکلنا پڑا ۔ (ملوکیت کی خرابیاں) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے جو معیار قائم کیا تھا وہ بڑے اونچے درجے کا معیار تھا اور اس پر کار بند رہنا بھی آسان نہیں تھا ، چناچہ بعد میں آنے والے لوگ ان معیار کو قائم نہ رکھ سکے اور خلافت کی بجائے ملوکیت کا راستہ اختیار کرلیا ، خلافت راشدہ کے طریقے کو پس پشت ڈال دیا اور عیاشی وفحاشی والا طریقہ اختیار کرلیا ، نتیجہ یہ نکلا کہ بنی اسرائیل کی طرح یہ بھی ذلیل ہوئے یہ درست ہے کہ بعد میں کچھ اچھے لوگ بھی آئے اور اسلام کو وقتی طور پر تقویت بھی حاصل ہوئی ، مگر بحیثیت مجموعی بگاڑ پیدا ہوتا چلا گیا ، اور ملوکیت اور ڈکٹیٹر شپ آگئی اور ہر صاحب اقتدار اپنی من مانی کرنے لگا چوہدری افضل حق ” ہمارے قوم کے بڑے مدبر انسان ہوئے ہیں انہوں نے اپنی کتاب میں بڑے دکھ کے ساتھ ایک جملہ لکھا ہے کہتے ہیں کہ جب بنی امیہ کا دور آیا تو انہوں نے خلافت راشدہ کے نفیس فرش کی جگہ شہنشاہیت کا ٹاٹ بچھا دیا ، واقعہ بھی یہی ہے کہ جو معیار حق صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے قائم کیا تھا اس میں زوال آگیا ، اور امت میں اتفاق و اتحاد کا دامن تار تار ہوگیا ، جنگ احد میں اگرچہ شکست کا سامنا کرنا پڑا مگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین نے (آیت) ” وامرھم شوری بینھم “۔ پر عمل کرکے نہ صرف اس شکست کو برداشت کیا بلکہ اپنے اتحاد کو اور مضبوط کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر کبھی ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑا بلکہ تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام عرب سے نکل کا دور دور تک پھیل گیا ۔ امام ابوبکر جصاص (رح) فرماتے ہیں (1) (احکام القرآن ص 41 ج 2) کہ جس معاملہ میں وحی کے ذریعہ راہنمائی نہ کی گئی ہو اس معاملے میں نبی کے لیے بھی واجب ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرے ، مگر ملوکیت کے راستے پر چل نکلنے والے صاحب اقتدار لوگوں کو اپنی من مانی کرنے کا کہاں حق پہنچتا ہے ایسے لوگ تو ابلیس کے راستے پر چلنے والے ہیں کابل مصر اور بخارا وغیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں وہاں کے ملوک نے کس قدر ظلم کیے ، اسلام کے صحیح طریقے کو چھوڑ کر باطل طریقے پر چل نکلے نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر صدیوں سے زوال چھایا ہوا ہے الغرض ! اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم ﷺ اور اہل ایمان کو فرمایا کہ اگر کفار ومشرکین اور یہود ونصاری اپنی ضد پر اڑے رہیں ، تو آپ گھبرائیں نہیں اللہ تعالیٰ تمہارا حامی وناصر ہوگا ، ان کے مقابلے میں وہ تمہارے لیے کفایت کرے گا (آیت) ” وھو السمیع العلیم “۔ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے وہ ہر ایک کی دعا کو سنتا اور ہر چیز کو جانتا ہے اس سے کچھ مخفی نہیں ۔ (صبغۃ اللہ) فرمایا یہ آپ کی یہودیت اور نصرانیت کی طرف دعوت دیتے ہیں آپ انہیں فرما دیجئے کہ (آیت) ” صبغۃ اللہ “ ہم نے تو اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرلیا ہے تمہاری باطل یہودیت اور نصرانیت سے ہمارا کیا تعلق ؟ اور اللہ تعالیٰ کے رنگ سے مراد کوئی روائتی رنگ از قسم سرخ نیلا یا پیلا نہیں بلکہ توحید اور اخلاص کا رنگ ہے یہ وہ رنگ ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے انسان کے چہرے پر نمایاں ہوتا ہے یہ رنگ ان کے اقوال وافعال اور اعمال وکردار کی وجہ سے اور چمکتا ہے ہم نے یہ رنگ اختیار کیا ہے یہ یہودیت اور نصرانیت والا رنگ نہیں جو یکہ کپڑوں اور جسم پر لگا کر عیسائیت میں پختگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ فرمایا (آیت) ” ومن احسن من اللہ صبغۃ “۔ اور اللہ کے رنگ سے اچھا کون سا رنگ ہوگا جو کہ توحید ، عبادت ، ریاضت ، دیانت اور ایمان کا رنگ ہے یہ ملت ابراہیمی کا رنگ ہے جو صرف اہل ایمان کو حاصل ہے جو اس ملت پر صحیح معنوں میں کاربند ہیں ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں جس نے ہمیں اپنے رنگ میں رنگ لیا (آیت) ” ونحن لہ عبدون “۔ اس لیے ہم اسی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہیں ہم کسی کو اس کی عبادت میں شریک نہیں کرتے ۔
Top