Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 144
قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِ١ۚ فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا١۪ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ١ؕ وَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ
قَدْ نَرٰى : ہم دیکھتے ہیں تَقَلُّبَ : بار بار پھرنا وَجْهِكَ : آپ کا منہ في : میں (طرف) السَّمَآءِ : آسمان فَلَنُوَلِّيَنَّكَ : تو ضرور ہم پھیردینگے آپ کو قِبْلَةً : قبلہ تَرْضٰىھَا : اسے آپ پنسد کرتے ہیں فَوَلِّ : پس آپ پھیر لیں وَجْهَكَ : اپنا منہ شَطْرَ : طرف الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام (خانہ کعبہ) وَحَيْثُ مَا : اور جہاں کہیں كُنْتُمْ : تم ہو فَوَلُّوْا : سو پھیرلیا کرو وُجُوْھَكُمْ : اپنے منہ شَطْرَهٗ : اسی طرف وَاِنَّ : اور بیشک الَّذِيْنَ : جنہیں اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب لَيَعْلَمُوْنَ : وہ ضرور جانتے ہیں اَنَّهُ : کہ یہ الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّهِمْ : ان کا رب وَمَا : اور نہیں اللّٰهُ : اللہ بِغَافِلٍ : بیخبر عَمَّا : اس سے جو يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے ہیں
تحقیق ہم آپ کے چہرے کا آسمان کی طرف (بار بار) پلٹنا دیکھتے ہیں۔ پس ہم آپ کو والی بنا دیں گے اس قبلے کا جس کو آپ پسند کرتے ہیں۔ پس اب پھیر دیں آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف ۔ پھر جہاں بھی آپ ہوں ، پس پھیر دیں اپنے چہروں کو اس کی طرف اور بیشک وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی۔ البتہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے ، ان کے رب کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ ان کاموں سے غافل نہیں ہے ، جن کو یہ کرتے ہیں
ربط آیات بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ شریف کو قبلہ مقرر کرنے کی ایک وجہ یہ بیان کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ امتحان لے کر ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ کون اللہ کے رسول کا اتباع کرتا ہے اور کون ہے جو تعصب اور عناد پر ٹھہرا رہتا ہے۔ چناچہ اہل کتاب اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہے۔ کیونکہ وہ لوگ قتل انبیاء ، ضد اور عناد میں مبتلا تھے۔ انہوں نے اپنی کتابوں کو تبدیل کردیا تھا اور برائیوں میں منہمک ہوچکے تھے۔ وہ اگرچہ اپنی نسبت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف کرتے تھے۔ مگر عملی طور پر ان میں نسبت کا شائبہ تک نہ تھا۔ تحویل قبلہ کی دوسری وجہ بیت اللہ شریف کو قبلہ مقرر کرنے کی دوسری وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی قدنری لقلب وجھک فی السمآء تحقیق ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھتے ہیں۔ ہجرت مدینہ کے بعد اگرچہ حضور نبی کریم ﷺ بیت المقدس کی طرف ہی منہ کر کے نماز ادا فرماتے تھے۔ مگر آپ کی دلی خواہش یہ تھی کہ بیت اللہ شریف قبلہ مقرر ہوجائے۔ چناچہ تبدیلی قبلہ کے حکم کے لئے وحی کا انتظار کرتے تھے اور اپنا چہرہ مبارک آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کی عام عادت مبارکہ یہ تھی۔ نظرہ الی الارض اکثرمن نظرہ الی السمآء یعنی آپ کی نگاہ مبارک اکثر و بیشتر زمین کی طرف رہتی ہے۔ مگر انتظار وحی میں آپ اپنی نگاہ بار بار آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ سابقہ کتب میں اس بات کی پیشین گوئی موجود تھی کہ نبی آخر الزمان کا قبلہ وہی ہوگا ، جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قبلہ تھا یعنی خانہ کعبہ ، نیز یہی جذبہ آپ کے قلب مبارک میں بھی ڈال دیا گیا تھا۔ لہٰذا آپ کی خواہش تھی کہ بیت اللہ شریف کی طرف منہ کرنے کا حکم نازل ہوجائے اور آخری نبی کی آخری امت کا قبلہ قومی کی بجائے بین الاقوامی مقرر ہوجائے مسلمانوں کو اسی قبلہ (بیت اللہ شریف) کی طرف منہ کرنے کا حکم ہو۔ جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا ۔ لہٰذا آپ اسی شوق میں نگاہ مبارک بار بار آسمان کی طرف اٹھاتے تھے۔ تحویل قبلہ کا حکم آخر اللہ تعالیٰ نے آپ کی خواہش کو شرف قبولیت بخشا اور تحویل قبلہ کا حکم نازل فرما دیا ۔ فلنولیک قبلۃ ترضھا اب ہم آپ کو اس قبلے کا والی بنا دیں گے ، جس کو آپ پسند کرتے ہیں۔ لہٰذا حکم ہوا۔ فول وجھک شطر المسجد الحرام آپ اپنا چہرہ انور مسجد حرام کی طرف پھیر دیں۔ وحیث ما کنتم قولوا وجوھکم شطرہ اور آپ لوگ جہاں بھی ہوں اپنے چہروں کو اسی کی طرف پھیریں۔ تاریخی روایتوں میں آتا ہے کہ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) بنی سلمہ کے محلہ میں بشر ابن براء ابن معرور کے گھر میں تشریف فرما تھے۔ یہ جگہ مدینہ طیبہ سے چار میل کے فاصلہ پر ہے۔ نماز ظہر کا وقت ہوا تو حضور ﷺ بمع دیگر صحابہ محلہ کی مسجد میں نماز کے لئے تشریف لے گئے آپ نماز ادا فرما رہے تھے کہ اسی دوران میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی فول وجھک شطر المسجد الحرام آپ دو رکعت ادا فرما چکے تھے۔ نزول وحی پر فوراً آپ نے اپنا رخ مبارک بیت المقدس سے بیت اللہ شریف کی طرف پھیرلیا۔ آپ کی اقتداء میں مرد اور عورتیں نماز پڑھ رہے تھے جب آپ نے رخ تبدیل کیا تو تمام صحابہ نے بھی اپنی صفوں کو پلٹ دیا۔ اسی لئے نبی سلمہ کی اس مسجد کو مسجد قباہتیں یعنی دو قبلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔ جہت قبلہ اس آیت کریمہ میں لفظ شطر تفصیل طلب ہے۔ اس میں ایک حکم تو یہ ہے کہ فول وجھک شطر المسجد الحرام یعنی آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلیں دوسری بات یہ فرمائی وحیث ما کنتم فولوا وجوھکم شطرہ تم جہاں کہیں بھی ہو ، اس کی طرف منہ کرو۔ لفظ شطر مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کا ایک معنی …… ” نصف “ آتا ہے۔ جیسے حدیث شریف میں آتا ہے۔ اننی ارجوا ان تکونوا شطر اھل الجنۃ یعنی مجھے امید ہے کہ جنت میں جانے والے کل لوگوں میں نصب تعداد تمہاری ہوگی۔ شطر کا دوسرا معنی جزو بھی آتا ہے۔ جیسا کہ ان الفرائض شطر العلم یعنی فرائض اور وراثت علم کا جزو ہے۔ مگر اس آیت کریمہ میں شطر جہت کے معنی میں آیا ہے۔ اس سلسلے میں فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ نماز شروع کرتے وقت جس شخص کو کعبہ شریف نظر آ رہا ہو۔ اس عین کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہے اور جس کو کعبہ نظر نہ آتا ہو ، اسے عین کعبہ کی بجائے اس کی طرف یا اس کی جہت میں رخ کرنے کا حکم ہے۔ اس آیت میں عین کعبہ کی بجائے مسجد احلرام کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عین کعبہ کی طرف رخ کرنا قدرے مشکل ہے۔ لہٰذا پوری مسجد حرام کہ کر جہت کو وسعت دے دی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں آتا ہے کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے والوں کے لئے عین کعبہ جہت ہوگی۔ جو لوگ حدود حرم کے اندر رہنے والے ہیں۔ ان کے لئے مسجد احلرام جہت ہے اور جو لوگ حدود حرم سے باہر دور دراز کے رہنے والے ہیں۔ ان کے لئے پورا حرم جہت ہے۔ مقصد یہ کہ جوں جوں لوگ خانہ کعبہ سے دور ہوتے جائیں گے ان کے لئے جہت میں وسعت پیدا ہوتی جائے گی۔ ایک دوسری حدیث شریف میں آتا ہے ۔ مابین المشرق والمغرب قبلۃ یعنی مشرق و مغرب کے درمیان قبلہ ہے اور یہاں اس کو ہم یوں کہیں گے کہ شمال اور جنوب کے درمیان قبلہ ہے۔ مقصد یہ کہ اگر عین کعبہ کی طرف رخ کرنے ا حکم ہوتا تو یہ دشوار تھا۔ اور جہت عام ہے۔ حتی کہ جب تک کعبہ کی طرف بالکل پشت نہ ہوجائے۔ نماز درست ہے ۔ اس کے لئے زاویہ قائمہ ضروری نہیں ہے اگر زاویہ حادہ کے ساتھ رخ کر کے بھی نماز پڑھی جائے گی۔ تو وہ درست ہوگی۔ البتہ اگر آسانی کے ساتھ جہت کا تعین ہو سکے ، تو ضرور کرنا چاہئے۔ ایک زمانہ میں عنایت اللہ خاں مشرقی نے اپنی تحقیق کے مطابق عام مسجدوں کے رخ غلط بتائے تھے۔ وہ ایک ریاضی دان تھے۔ ان کے نزدیک صرف بادشاہی مسجد کا رخ درست تھا ، باقی سب غلط تھے ان کے بقول نمازیوں کا رخ عین قبلہ کی طرف نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نمازیں باطل تھیں۔ ان کا یہ نظریہ غلط تھا کیونکہ قبلہ کا تعین اللہ تعالیٰ نے ریاضی کے اصولوں پر کرنے کا حکم نہیں دیا۔ بلکہ فطری اصول پر جہت کعبہ یا جہت مسجد حرام کا حکم ہے۔ اگر عین کعبہ یا عین مسجد حرام کی پابندی لازمی ہوتی تو واقعی یہ بڑا مشکل کام تھا بعض مقامات پر جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں بڑی بڑی لمبی قطاریں بن جاتی ہیں ایسی صورت میں ہر نمازی کا رخ عین کعبہ یا عین مسجد حرام کی طرف ہونا ممکن ہی نہیں رہتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے صرف جہت کا حکم دیا ہے۔ جس طرح بدن ، کپڑا اور مکان کی طہارت نماز کی شرائط میں سے ہے۔ اسی طرح استقبال قبلہ بھی نماز کے لئے بمنزلہ شرط کے ہے۔ اسی لئے حکم یہ ہے کہ نماز شروع کرتے وقت جہت قبلہ کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ریل گاڑی یا جہاز پر بھی سفر کر رہا ہے ۔ تو قبلہ کا تعین کرسکتا ہے۔ تاہم اگر دوران نماز سواری پر ہو نیکی وجہ سے تعین قبلہ ممکن نہ ہو ، وہاں تحری کا حکم ہے۔ یعنی اپنی طرف سے استقبال قبلہ کی پوری کوشش کرے اور نماز شروع کرلے اور پھر اس طرح سے متعین کیا ہا رخ غلط بھی ہوگا ، تو نماز درست ہوگی۔ کیونکہ یہ نمازی کے اختیار سے باہر تھا اس کے متعلق آیت گزر چکی ہے۔ ” فاینما تولوا فثم وجہ اللہ ایک موقع پر رتا کے وقت صحابہ کرام سے یقین کے ساتھ تعین قبلہ نہ ہوسکا۔ ہر ایک نے اپنی اپنی کوشش اور سمجھ کے مطابق قبلہ کا تعین کیا۔ اگرچہ ان کے استقبال قبلہ میں ایک دوسرے سے اختلاف پایا جاتا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب کی نمازوں کو شرف قبولیت بخشا اور اس آیت کے ذریعے نماز کی درستگی کی تصدیق فرمائی۔ مخالفت برائے مخالفت استقبال قبلہ کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی ہٹ دھرمی کا ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ اہل ایمان کی مخالفت محض مخالفت کی بناء پر کرتے ہیں۔ وگرنہ ان پر حق تو واضح ہوچکا ہے۔ فرمایا ، وان الذین اوتوا الکتب اور وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی ہے۔ لیعلمون انہ الحق من ربھم وہ جانتے ہیں کہ یہ حق ہے ان کے رب کی طرف سے مگر دیدئہ دانستہ حق کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہیں علم ہے۔ کہ ان کی اپنی کتابوں کے مطابق بیت اللہ شریف کی جہت بالکل درست ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ نبی آخر الزمان کا قبلہ یہی ہے اس کے باوجود مخالفت پر کمربستہ ہیں۔ ام المئومنین حضرت صفیہ یہودی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ آپ کا باپ اور چچا یہودی عالم تھے اور خیبر میں رہتے تھے۔ جب حضور ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ دونوں بھائی آپ کو ملنے کے لئے آئے۔ آپ سے بالمشافہ گفتگو ہوئی ملاقات کے بعد جب واپس خیبر پہنچے تو دونوں بھائیوں نے حضور ﷺ کے متعلق آپس میں کچھ بات چیت کی جسے ام المومنین نے بھی سن لیا۔ آپ کے چچا نے آپ کے باپ سے پوچھا کہ سچ سچ بتائو کہ کیا یہ وہی نبی ہیں۔ جن کا ذکر ہماری کتابوں میں موجود ہے۔ صفیہ کے باپ نے تصدیق کی کہ ہاں یہ وہی نبی آخر الزمان ہیں۔ جن کی نشانیاں ہمارے پاس موجود ہیں۔ اس پر چچا نے کہا کہ اگر ایسا ہی ہے۔ تو پھر ہمیں ان پر ایمان لے آنا چاہئے۔ مگر باپ کہنے لگا کہ جب تک میری جان میں جان ہے میں اس کی مخالفت کرتا رہوں گا اور آپ کے پروگرام میں رکاوٹ بنا رہوں گا۔ مقصد یہ ہے کہ محض عناد کی وجہ سے حضور ﷺ اور اہل ایمان کے ساتھ مخالفت ان کا جزو ایمان بن چکی تھی۔ حضرت صفیہ کا باپ جنگ خیبر میں قتل ہوا۔ آپ لونڈی کی حیثیت میں آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچیں۔ حضور ﷺ نے ان کو آزاد کردیا اور پھر ان سے نکاح کرلیا۔ یہ واقعہ خود حضرت صفیہ نے سنایا۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے ان کی ضد اور عناد کا تذکرہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ یہ لوگ حق کو چھپانے کی جتنی بھی کوشش کریں۔ مگر وما اللہ بغافل عما یعملون اللہ تعالٰ ان کے اعمال سے غافل نہیں بلکہ ان کی ایک ایک حرکت کو خوب جانتا ہے۔ فرمایا ، اے نبی کریم ﷺ ولئن اتیت الذین اوتوا الکتب بکل ایۃ اگر آپ اہل کتاب کے پاس ہر قسم کی نشانی بھی لے آئیں اور دلائل کے ساتھ ثابت کردیں کہ بیت اللہ شریف ہی صحیح قبلہ ہے۔ ماتبعوا قبلتک پھر بھی یہ لوگ آپ کے قبلہ کو تسلیم نہیں کریں گے۔ حالانکہ یہ چیز انجیل میں بھی موجود ہے کہ جب مسیح (علیہ السلام) آسمان کی طرف اٹھائے جا رہے تھے تو اس سے کچھ عرصہ پہلے آپ نے فرمایا تھا کہ بھائی ! میں تمہاری طرف اپنے خداوند کی جانب سے اس موعود کو بھیجتا ہوں ، جس کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ مگر اے لوگو ! جب تک تمہیں عالم بالا سے قوت حاصل نہ ہوجائے تم یروشلم میں ہی ٹھہرنا یعنی تمہارا قبلہ یہی ہوگا اور پھر جب تمہیں قوت حاصل ہوجائے گی ، تو تمہارا قبلہ بھی تبدیل ہوجائے گا۔ اس کے باوجود یہودیوں نے بیت اللہ شریف کو قبلہ تسلیم نہ کیا۔ شاہجہان کے زمانے میں مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی بہت بڑے عالم ہوئے ہیں۔ انہوں نے بیضاوی پر حاشیہ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ سابقہ کتب کی پیش گوئیاں بعض صریح لافاظ میں ہیں۔ اور بعض کنایۃ کی زبان میں ہیں۔ اس آیت میں کنایۃ بتایا گیا ہے کہ موعود سے مراد حضور خاتم النبین ﷺ کی ذات گرامی ہے اور انجیل کے الفاظ میں اس بات کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ جب حضور ﷺ کی بعثت ہوجائے اور انہیں قوت یعنی فتح اور غلبہ حاصل ہوجائے گا تو قبلہ بھی تبدیل ہوجائے گا اس کے بعد یروشلم قبلہ نہیں رہے گا۔ چناچہ قبلہ ہونے کی وجہ سے یروشلم یعنی بیت المقدس اب بھی محترم اور معزز ہے۔ مگر وہ قبلہ نہیں رہا۔ اس طرف رخ کر کے نماز ادا نہیں کرسکتے۔ استقبال قبلہ اور شعائر اسلامی فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ نماز کی حالت میں نمازی کے سینے کا جہت قبلہ ہونا فرض ہے اور چہرے کا اس رخ پر ہونا سنت ہے۔ چناچہ اگر نماز کے دوران سینہ جہت قبلہ سے منحرف ہوگیا تو نماز باطل ہوجائے گی۔ چہرے کے منحرف ہونے سے نماز باطل نہیں ہوگی۔ بلکہ یہ محض مکروہ ہوگا۔ استقبال قبلہ سے متعلق ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا کہ ملت ابراہیمی کو ماننے والوں میں سے من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا واکل زبیحتنا فذلک المومن یعنی جس نے ہمارے جیسی نماز پڑھی ہمارے قبلہ کی طرف رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا ، تو وہ مئومن ہے۔ اگرچہ یہودی بھی بیت المقدس کی طرف رخ کرتے ہیں۔ مگر یہاں پر ہمارا قبلہ کہہ کر ان کے قبلہ کی نفی کردی۔ اسی طرح وہ ہماری طرح نماز نہیں پڑھتے اور مسلمانوں کا ذبیحہ بھی نہیں کھاتے لہٰذا وہ ملت اسلامیہ میں شامل نہیں گویا حضور ﷺ نے استقبال قبلہ کو شعائر اسلامی میں شامل کیا۔ سرسوتی کا اعتراض دیانند سرسوتی آریہ سماجی ہندوئوں کا مشہور لیڈر گزرا ہے۔ اس نے مسلمانوں پر اعتراض کیا تھا۔ کہ یہ لوگ ہندوئوں کو توبت پرستی کا طعنہ دیتے ہیں۔ مگر خود ایک مکان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں جو پتھروں سے تعمیر کیا ہوا ہے کیا یہ بت پرستی نہیں ہے ؟ اس کے جواب میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے دو حصوں پر مشتمل کتاب لکھی اس کے ایک حصہ میں سرسوتی کے اہل اسلام پر دس عام اعتراضات کے جوابات لکھے اور دوسرے حصے میں صرف قبلہ پر اعتراضات کا جواب دیا۔ ” قبلہ نما “ نامی یہ کتاب بڑی دقیق اور نہایت ہی عمدہ کتاب ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ عجیب اعتراض ہے ۔ کجا ہمارا استقبال قبلہ اور کجا تمہاری بت پرستی تم تو بتوں کو نافع اور ضاد سمجھ کر ان کے سامنے سجدہ کرتے ہو ، ان کی پوجا کرتے ہو۔ مگر ہم تو خانہ کعبہ کا صرف استقبال کرتے ہیں۔ لفظ استقبال خود بتلا رہا ہے کہ خانہ کعبہ کی طرف صرف توجہ کرتے ہیں۔ اس کی پوجا ہرگز نہیں کرتے۔ لہٰذا تمہاری بت پرستی اور ہمارے استقبال میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ بت تمہارے مقصود ہیں مگر ہمارا صرف رخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے۔ مقصود تو ذات خداوندی ہوتی ہے۔ پھر دیکھیے عبادت کے لئے نیت ضروری ہے۔ اس کے لئے بغیر عبادت قبول نہیں مگر استقبال قبلہ کے لئے نیت ضروری نہیں ہے۔ محض اس طرف رخ کرلینا ہی کافی ہے۔ مشرکین بتوں کی پوجا نیت اور ارادے سے کرتے ہیں لہٰذا محض استقبال قبلہ عبادت کے زمرے میں نہیں آتا۔ پھر یہ بھی ہے کہ اول سے آخر تک نماز کے کسی لفظ سے بھی تعظیم کعبہ کا اظہار نہیں ہوتا۔ یہاں تو ایک ایک لفظ سے اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثنا اور تعظیم بیان ہوتی ہے۔ لہٰذا کعبہ شریف کی عبادت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ذرا اور آگے چلئے خانہ کعبہ کی دیواریں یا اس کے پتھر مسلمان کا مقصود و منشاء نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر کسی وقت کعبہ کی دیواریں منہدم بھی ہوجائیں۔ العیاذ باللہ تو پھر بھی مسلمان نماز پڑھتے وقت اسی طرف رخ کریں گے۔ گویا ان کے نزدیک اینٹوں اور پتھروں کی کوئی حیثیت نہیں ، بلکہ اس جگہ کو مرکز تجلیات الٰہی سمجھ کر اس طرف رخ کیا جاتا ہے۔ عبداللہ بن زبیر کے زمانے میں بیت اللہ شریف کی تعمیر نو کے سلسلے میں جب ساری دیواریں گرا کر اس جگہ پر قناتیں کھڑی کردی تھیں تو نماز کے وقت رخ اسی طرف ہی کیا جاتا تھا۔ لہٰذ ا معلوم ہوا کہ بیت اللہ شریف صرف جہت ہے ، وہ معبود نہیں ہے۔ برخلاف اس کے بت پرست ہراس طرکو رخ کر کے عبادت کریں گے۔ جس طرف بت رکھے ہوں گے کیونکہ بت ان کے معبود ہیں اور بتوں کی منتقلی پر ان کا رخ بھی اسی طرف منتقل ہوجائیگا۔ لفظ بیت اللہ سے خود بخود واضح ہے کہ اس سے مراد اللہ کا گھر ہے ، نہ کہ خود اللہ رب العزت اور یہ مکان یا جگہ اللہ تعالیٰ عنایات کا مرکز ہے ، یہ بذات خود معبود نہیں ہے۔ ایک اور بات بھی ہے کہ جب کوئی کسی مکان کی طرف جاتا ہے تو اس کا مقصود مٹی اور پتھر کا بنا ہوا مکان نہیں ہوتا ، بلکہ اس کا مقصود و مطلوب اس مکان کا مکین ہوتا ہے۔ لہٰذا استقبال قبلہ سے ہمارا مقصود اللہ تعالیٰ ہوتا ہے ، نہ کہ خانہ کعبہ اور یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ مستحق عبادت وہ ذات ہو سکتی ہے ۔ جو خود بخود ہو اور جس چیز کا قیام و بقا دوسروں کا مرہون منت ہو ، وہ عبادت کے لائق کیسے ہو سکتی ہے۔ اس خانہ کعبہ کو تو فرشتوں نے بنایا۔ آدم (علیہ السلام) نے تعمیر کیا ، پھر ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچا ، یہ کیونکر معبود ٹھہرا۔ مولانا نانوتوی نے آخری بات یہ فرمائی کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ کسی چیز کا عکس یا تجلی اس چیز کا عین ہوتا ہے اور یہ تصویر یا تجلی اسی چیز کی سمجھی جائیگی جس کی وہ فی الواقع ہے تو بھائی ہم کعبہ کو معبود نہیں مانتے بلکہ تجلی گاہ معبود مانتے ہیں اور اس طرف رخ کر کے عبادت کرتے ہیں تو گویا عین معبود حقیقی یعنی خداوند تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں۔ خانہ کعبہ کے مرکز تجلیات ہونے کو ایک دوسرے طریقے سے سمجھے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کی مثال ایسی ہے ، جیسے سورج کی تجلی جو پوری کائنات پر پڑی ہے اور کائنات کیا ہے۔ یہ زمین ہے اس کے اوپر کچھ فضا ہے اور پھر عدم ہے۔ یعنی آگے کچھ بھی نہیں۔ جب سورج کی تجلی عدم پر پڑتی ہے تو زمین یک طرف واپس پلٹتی ہے اور زمین پر بیت اللہ شریف مثل آئینہ کے ہے آپ دیکھتے ہیں کہ جب سورج کی شعائیں آئینہ پر پڑتی ہیں اور اس میں سورج کی چمک نظر آتی ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ کی تجلیات خانہ کعبہ پر پڑتی ہیں تو اس میں آ کر ٹک جاتی ہیں اور اسے مرکز تجلیات بنا دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات کے اس مرکز خانہ کعبہ کو قبلہ مقرر کیا گیا ہے ۔ چناچہ خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے سے خشوع اور اخبات پیدا ہوتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے ، جس طرح خداوند تعالیٰ جہت سے پاک ہے۔ اسی طرح روح جیسی لطیف چیز کو بھی جہت کی ضرورت نہیں۔ برخلاف اس کے جسم انسانی مادی چیز ہے اور مادی چیز کا رخ جس چیز کی طرف متعین کیا جائے گا وہ مادی ہوگی۔ لہٰذا مادی چیز ہونے کی بناء پر خانہ کعبہ کو قبلہ مقرر کیا گیا ہے کہ اس کے اندر ایک قسم کا جمائو اور استقرار ہوتا ہے۔ مقصد یہ کہ ہم اس تجلی الٰہی کی طرف رخ کرتے ہیں اور اس مالک الملک کی عبادت کرتے ہیں ، جس ذات کی تجلی خانہ کعبہ پر پڑ کر اس کی صفت بنتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ تجلی اسی مقام پر پڑ رہی ہے اور یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ پوری زمین کی ابتداء اسی مکہ مکرمہ کے مقام سے ہوئی تھی یہ جگہ ساری زمین کی ناف ہے۔ سب سے پہلے اسی مقام سے پانی کا ایک بلبلہ اٹھا تھا جو پھیل کر زمین جیسی بڑی چیز میں تبدیل ہوگیا۔ اسی وجہ سے اس جگہ کو مقسم بلاد بھی کہا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ تجلیات اسی مقام پر پڑتی ہیں۔ لہٰذا یہ ہمارا قبلہ ٹھہرایا گیا۔ مسلمانوں کے قبلہ سے متعلق اعتراضات کے جواب حضرت مولانا نوتوی کے علاوہ بعض دیگر علمائے کرام نے بھی دیئے ہیں۔ ان میں دہلی کے مولانا ابوالمنصور ہیں اور پھر مولانا رحمت اللہ کیرانوی ہیں۔ جو ہندوستان سے ہجرت کر کے مکہ معظمہ چلے گئے۔ وہاں انہوں نے مدرسہ صولتیہ کی بنیاد رکھی۔ جو گزشتہ ایک صدی سے دینی طلبہ کی آبیاری کے علاوہ حجاج کرام کی خدمات بھی سر انجام دے رہا ہے۔ آپ نے عیسائیت کے رد میں ایک مدلل کتاب لکھی جس پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن کے سنڈے ٹائمز ، اخبار نے لکھا تھا کہ اگر دنیا میں اس کتاب کو پڑھا گیا تو عرصہ تک عیسائیت کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی۔ آریہ سماج اور تثلیث آریہ سماج ہندوئوں کا ایک فرقہ ہے ۔ ہندوئوں کے 33 کروڑ دیوتا سمجھے جاتے ہیں۔ یہ لوگ بت پرستی کے خلاف اعتراضات کا جواب نہ دے سکے اور گھبرا گئے ظاہر ہے کہ بت پرستی فطرت کے خلاف ہے اس لئے یہ لوگ بحث و مباحثے میں مار کھا جاتے چناچہ انہوں نے تمام بتوں کا انکار کر کے تثلیث کا ایک نیا عقیدہ وضع کیا اور کہا کہ بت وغیرہ کچھ نہیں ، صرف تین چیزیں قدیم ہیں یعنی خدا ، مادہ اور روح ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات قدیم ہے۔ مادہ اور روح حادث ہیں یہ بدبخت بت پرستی کو ترک کرنے کے باوجود بھی مشرک ہی رہے۔ جس طرح نصاریٰ باپ ، بیٹا اور روح القدس کی تثلیث میں مبتلا ہوئے ، اسی طرح آریہ سماج بھی خدا ، مادہ اور روح کی تثلیث کے قائل ہوئے۔ استقبال قبلہ میں اختلاف الغرض ! فرمایا اے نبی (علیہ السلام) ، اگر آپ ان کے پاس ہر طرح کی نشانی بھی لے آئیں ، تو اہل کتاب آپ کے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔ ان میں سے ہر ایک کا الگ الگ قبلہ ہے اور یہ آپس میں ایک دوسرے کے قبلہ کو بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یہودیوں کا قبلہ بیت المقدس ہے اور نصاری صخرۃ پتھر کی طرف رخ کرتے ہیں اور ہر ایک اپنے اپنے قبلہ پر مگن ہے۔ یہ لوگ اس قدر تعصب میں مبتلا ہیں۔ فرمایا جس طرح یہ لوگ آپ کے قبلہ کا اتباع کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح وما انت بتابع قبلتھم آپ بھی ان کے قبلہ کی پیروی کرنے والے نہیں ہیں۔ کیونکہ جب تک اللہ کا حکم تھا۔ آپ اس طرف رخ کرتے رہے جب خداوند تعالیٰ کا دوسرا حکم آ گیا۔ تو آپ نے اس کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا۔ اور بیت اللہ شریف کی طرف رخ کرلیا اور ان کا اپنا حال بھی یہی ہے۔ وما بعضھم بتابع قبلۃ بعض وہ بھی بعض بعض کے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے ولئن اتبعت اھوآء ھم اور اگر آپ نے ان کی خواہشات کی پیروی کی من بعد ما جآء ک من العلم بعد اس کے کہ آپ کے پاس قطعی علم آ چکا ہے۔ انک اذا لمن الظلمین تو پھر آپ نا انصافوں میں سے ہوں گے دوسرے مقام پر شرک کے متعلق فرمایا لئن اشرکت لیبطن عملک ولتکونن من الخسرین۔ “ یعنی فرض کرو اگر آپ شرک سرزد ہوگیا تو آپ کے اعمال ضائع ہوجائیں گے آپ نقصان اٹھانیوالوں میں ہوجائیں گے۔ اس مقام پر فرمایا کہ اگر آپ نے لوگوں کو راضی کرنے کے لئے ان کی بات مان لی بعد اس کے کہ آپ کے پاس قطعی حکم آ چکا ہے تو پھر آپ کے لئے یہ بڑی ناانصافی کی بات ہوگی۔ امام رومی اور قبلہ اس آیت کی روشنی میں کہ بعض لوگ بعض لوگ بعض لوگوں کے قبلہ کی پیروی نہیں کرتے۔ مولانا رومی نے اپنی مثنوی میں قبلہ سے متعلق بڑے نکات پیدا کئے ہیں۔ فرماتے ہیں : - قبلہ شاہاں بود تاج و کمر ، قبلہ ارباب دنیا سیم و زر بادشاہوں کا قبلہ تاج و تخت ہوتا ہے وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ سنہری ٹپکا انہیں کے پاس رہے اور دنیا دار لوگوں کا قبلہ سونا چاندی یعنی مال و دولت ہوتا ہے۔ قبلہ صورت پرستاں آب و گل ، قبلہ معنی شناساں جان و دل سورج پرستوں کا قبلہ پانی اور مٹی کا بنا ہوا پتلا ہوتا ہے اور وہ اسی بات پر فریضتہ ہوتے ہیں۔ مگر معانی سے واقف حال لوگوں کا قبلہ جان اور دل ہے ۔ وہ ہمیشہ ، جان ، دل ، روح اور قبر کی صفائی کے لئے کوشاں ہوتے ہیں۔ قبلہ زہاد محراب قبول ، قبلہ بدسیرتاں کار فضول عابد و زاہد لوگوں کا قبلہ قبولیت کا محراب ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح ان کی نیکیاں قبول ہوجائیں اور بدکردار لوگ فضول کاموں میں منہمک ہیں۔ ان کا قبلہ ویہ ہے۔ قبلہ تن پر وراں خواب و خورش ، قبلہ انساں بد انش پرورش پیٹ کے پجاریوں کا قبلہ کھانے پینے اور سونے کے سوا کچھ نہیں۔ وہ اسی فکر میں رہتے ہیں۔ مگر انسان بحیثیت انسان عقل و دانش کی پرورش کرتے ہیں۔ وہ اسی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ قبلہ عاشق وصال بےزوال ، قبلہ عارف جمال ذوالجلال عاشق کا قبلہ وصل لازوال ہوتا ہے۔ یعنی وہ ایسی ملاقات کا خواہشمند ہوتا ہے جس کو کبھی زوال نہ آئے اور عارف لوگوں کا منتہائے مقصود حق تعالیٰ کا دیدار ہے وہ ہمیشہ وہاں تک کی رسائی کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ قبلہ اصحاب منصب مال و جاہ ، قبلہ اہل سلوک اسباب راہ منصب پر فائز لوگوں کا قبلہ مال و دولت اور عزت و عظمت ہوتا ہے جب کہ خدا تعالیٰ کے راستے پر چلنے والے لوگوں کا قبلہ اس راستے کے اسباب ہوتے ہیں جن کے ذریعے وہ مطلوبہ منزل حاصل کرتے ہیں۔ قبلہ حرص و امل باشد ہوا ، قبلہ قانع توکل بر خدا حرص اور آرزو والے لوگوں کا قبلہ ان کی خواہش کی تکمیل ہوتا ہے اور قناعت کرنے والوں کا قبلہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے۔ کتمان حق فرمایا الذین اتینھم الکتب جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے یعنی یہود و نصاریٰ ، یعرفونہ کما یعرفون ابنآء ھم وہ اس کو یعنی پیغمبر اسلام (علیہ السلام) یا قرآن پاک کو اسی طرح جانتے ہیں۔ جس طرح وہ اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں۔ وان فریقاً منھم لیکتمون الحق اور بیشک ان میں ایک گروہ حق کو چھپاتا ہے۔ وھم یعلمن حالانکہ وہ سب کچھ جانتے بوجھتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ پیغمبر اور کلام پاک کو بیٹوں کی طرح جاننے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بیٹا گود میں ہونے کی وجہ سے اس پر شک نہیں گزرتا ، اسی طرح اہل کتاب حضور ﷺ کو اپنی ہی کتابوں میں موجود نشانیوں سے پہچانتے ہیں کہ یہ آخری نبی ہیں۔ مگر تسلیم نہیں کرتے۔ حضرت عمر اور حضرت عبداللہ بن سلام کا مقولہ ہے کہ مجھے اپنے بیٹے کے متعلق شک ہو سکتا ہے کہ شائد اس کی ماں نے خیانت کی ہو۔ مگر پیغمبر اسلام (علیہ السلام) کے بارے میں تردد نہیں ہو سکتا۔ فرمایا الحق من ربک یہ حق آپ کے رب کی طرف سے ہے۔ فلا تکونن من المسترین آپ شک اور تردد کرنے والوں میں نہ ہوں۔
Top