Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 148
وَ لِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّیْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ١ؐؕ اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یَاْتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِیْعًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَلِكُلٍّ : اور ہر ایک کے لیے وِّجْهَةٌ : ایک سمت ھُوَ : وہ مُوَلِّيْهَا : اس طرف رخ کرتا ہے فَاسْتَبِقُوا : پس تم سبقت لے جاؤ الْخَيْرٰتِ : نیکیاں اَيْنَ مَا : جہاں کہیں تَكُوْنُوْا : تم ہوگے يَاْتِ بِكُمُ : لے آئے گا تمہیں اللّٰهُ : اللہ جَمِيْعًا : اکٹھا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ عَلٰي : پر كُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز قَدِيْر : قدرت رکھنے والا
اور ہر ایک کے لئے ایک جہت ہے ، وہ اس کی طرف اپنا رخ کرنے والا ہے۔ پس سبقت کرو نیکیوں کی طرف تم جہاں بھی ہو گے تم سب کو اللہ تعالیٰ اکٹھا کر کے لائے گا۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
ربط آیات تحویل قبلہ کا حکم نازل کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے بتلا دیا کہ بیوقوف لوگ یعنی متعصب یہود و نصاریٰ یہ ضرور اعتراض کریں گے کہ تحویل قبلہ کی ضروتر کیوں محسوس ہوئی۔ مگر اے نبی کریم آپ ان کے اعتراضات کو خاطر لائیں نہ لائیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کردیا کہ بیت المقدس کا استقبال عارضی حکم تھا اور کس خاص مصلحت کے تحت دیا گیا تھا مستقل قبلہ تو بیت اللہ شریف ہے جس کا حکم حضور نبی کریم (علیہ السلام) کی دلی خواہش کے پیش نظر دیا گیا۔ یہ تقرر کوئی نیا نہیں ہے ، بلکہ سابقہ کتب سماویہ میں موجود تھا۔ کہ آخری دور اور آخری نبی کا قبلہ وہی خانہ کعبہ ہوگا جو ابراہیم (علیہ السلام) لیہ السلام کا قبلہ ہے اور اس میں اہل کتاب کے لئے آزمائش کا سامان بھی تھا کہ ان میں سے کون ہے جو اللہ کے نازل کردہ احکام کی پیروی کر کے ابراہیمی قبلہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ کو تسلی بھی دی گئی کہ آپ ان کے بیہودہ اعتراضات کی پرواہ نہ کریں ۔ بلکہ آپ صراط مستقیم پر گامزن رہیں اور اس سلسلہ میں آپ کو کسی قسم کا شک یا تردد نہیں ہونا چاہئے۔ ہر امت کے لئے جہت مقرر ہے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک اصولی بات بیان فرمائی ہے۔ ولکل وجھۃ ھومولیھا یعنی ہر امت کے لئے ایک جہت ہوتی ہے جس کی طرف وہ رخ کرتے ہیں۔ دنیا میں کوئی امت ایسی نہیں ہوگی جس کی جہت مقرر نہ ہو۔ اب یہ جہت صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی ہو سکتی ہے اور محرف بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم ہر امت کا قبلہ ضرور مقرر ہے۔ اور پھر آخری امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کو قبلہ مقرر فرمایا۔ جب یہ ایک اصول موجود ہے تو پھر اہل کتاب کو مسلمانوں کے قبلہ پر معترض نہیں ہونا چاہئے۔ ایسا کرنا سخت ناانصافی کے مترادف ہے۔ جہت فروعی چیز ہے یہاں پر اس بات کی وضاحت بھی کردی کہ استقبال قبلہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے ایک حکم ہے اور فرعی حیثیت کا حامل ہے۔ یہ کوئی ایسا بنیادی مسئلہ نہیں ہے جس پر انسان بہت اصرار کرے لہٰذا اس قسم کی معمولی بات پر جھگڑنا انصاف پسند لوگوں کا کام نہیں ہے۔ اسی سورة میں آگے چل کر آئے گا کہ اصل مقصد تو عبادت الٰہی ہے۔ جہت کا تعین تو محض توجہ کے لئے ہوتا ہے ورگنہ مشرق و مغرب سب اللہ ہی کے لئے ہیں۔ جہت کی وجہ سے امت میں مرکز یت پیدا ہوجاتی ہے اور یہ عبادت کے لئے وسیلہ یا شرط ہے۔ بنیادی چیز نیکی ہے فرمایا اصل اور بنیادی چیزی نیکی ہے۔ فاستبقوا الخیرات لہٰذا نیکیوں کی طرسبقت کرو۔ یعنی زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اینماتکونوا تم جہاں بھی ہو گے ، یات بکم اللہ جمیعاً اللہ تعالیٰ تم سب کو اکٹھا کرلے گا اور پھر آخرت میں بھی سب کو اکٹھا کر کے سب کا محاسبہ کرے گا۔ یہ تو بعد کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی بیت اللہ شریف کو قبلہ مقرر کر کے سب کا رخ ادھر مقرر کردیا اور سب کو اس پر جمع کردیا۔ فرمایا آگے چل کر نیکی ہی تمہارے کام آئے گی۔ لہٰذا نیکی میں سبقت حاصل کرو۔ حضور ﷺ نے حضرت علی کو فرمایا ، اے علی ! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو۔ ” الصلوۃ اذا اتت “ یعنی نماز کا وقت ہوجائے تو تاخیر نہ کرو۔ ” والجنازۃ اذا حضرت اور جب جنازہ تیار ہوجائے تو جلد پڑھو ، تاخیر نہ کرو۔ ” ولایم اذا وجدت لھا کفواً “ اور جب بےنکاح (مرد یا عورت) کا ہمسر مل جائے تو نکاح میں تاخیر نہ کرو۔ یہ سب نیکی میں سبقت کرنیوالی باتیں ہیں۔ فرمایا جس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا میں سب کو ایک قبلہ پر اکٹھا کر دای ہے اسی طرح آخرت میں بھی سب کو جمع کر دے گا اور یہ اس کے لئے قطعاً محال نہیں کیونکہ ان اللہ علی کل شیء قدیر اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اس کے احاطہ اختیار سے کوئی چیز باہر نہیں۔ استقبال قبلہ کے سہ گونہ احکام اگلی دو آیات میں استقبال قبلہ کا تنی دفعہ حکم دیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے ومن حیث خرجت فول جھک شطر المسجد الحرام اور آپ جس جگہ نکلیں ، اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر دیں۔ فرمایا۔ وانہ للحق من ربک اور بیشک یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے وما اللہ بغافل عما تعملون اور اللہ تعالیٰ ان کاموں سے غافل نہیں ہے جو تم کرتے ہو۔ دوسری بار پھر ارشاد فرمایا ومن حیث خرجت فول وجھک شطر المسجد الحرام اور آپ جہاں کہیں بھی نکلیں ، اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں۔ اسی آیت میں پھر آگے فرمایا وحیث ماکنتم اور آپ لوگ جس مقام پر بھی ہوں فولوا وجوھکم شطرہ اپنے چہروں کو اسی کی طرف پھیر لیں۔ ایک ہی مقام پر تین بار استقبال قبلہ کا حکم دینے کی مختلف توجیہات ہیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ استقبال قبلہ کا پہلا حکم ان لوگوں کے لئے ہے۔ جو حدود حرم کے اندر رہتے ہیں اور دوسرا حکم ان کے لئے ہے جو ملک عرب میں اقامت پذیر ہیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ تیسرا حکم عرب کے علاوہ باقی ساری دنیا کے رہنے والوں کے لئے نازل ہوا ہے۔ بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ پہلا حکم اس لئے دیا گیا کہ حضور نبی کریم ﷺ کی اپنی مرضی اور خواہش تھی کہ قبلہ ابراہیمی ہی ہمارا قبلہ مقرر وہ۔ لہٰذا یہ حکم دیا گیا۔ فرمایا دوسرا حکم اس واسطے دیا گیا کہ سابقہ حکم میں اس کی پیش گوئیاں موجود تھیں۔ اور ان کی تصدیق کے لئے یہ دوسرا حکم نازل کیا گیا۔ پھر تیسری دفعہ استقبال کا حکم اس لئے دیا کہ لوگوں کو الزام کا موقع نہ ملے کہ دیکھو ! مسلمان ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں۔ لہٰذا ہمارا دین سچا ہے ، اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ عنادی اہل کتاب اس قسم کے اعتراض کریں گے۔ لہٰذا ان کو رفع کرنے کیلئے فرمایا لیلایکون للناس علیکم حجۃ تاکہ آپ پر لوگوں کا الزام یا کوئی حجت باقی نہ رہے۔ کبھی یہ نہ کہنے لگیں کہ جب قبلہ ہمارا تسلیم کرتے ہیں تو ہمارا باقی دین کیوں تسلیم نہیں کرتے۔ فرمایا اس اتمام حجت کے باوجود بعض لوگ حجت بازی سے باز نہیں آئیں گے۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا الا الذین ظلموا منھم یہ ان اہل کتاب میں سے ظالم لوگ ہونگے جو اپنی بات پر اڑے رہیں گے اور تحویل قبلہ پر بیہودہ قسم کے اعتراض کرتے ہیں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے فرمایا کہ اہل کتاب تو صرف تحویل قبلہ پر ایک اعتراض کرینگے مگر مشرکین ہر دو صورتوں میں معترض ہونگے یعنی بیت المقدس کو قبلہ پکڑنے پر بھی اعتراض کرینگے اور اس کے بیت اللہ شریف کی طرف پلٹنے پر بھی معترض کے معترض رہیں گے۔ فرمایا اس قسم کے حجت بازوں کی آپ بالکل پرواہ نہ کریں۔ فلا تخشوھم آپ ان سے خوفزدہ نہ ہوں واخشونی بلکہ آپ مجھ سے ہی خوف کھائیں۔ یہ لوگ محض تعصب کی وجہ سے حق کو چھپاتے ہیں اور آپ پر طرح طرح کے اعتراض کرتے ہیں ان کے اعتراضات سے گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا خوف جانگزیں ہونا چاہئے۔ جب اللہ کا خوف پیدا ہوجائیگا تو باقی تمام خوف خودبخود ختم ہوجائیں گے۔ قبلہ تکمیل نعمت ہے اللہ تعالیٰ نے قبلہ مقرر کرنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان فرمائی ولا تم نعمتی علیکم اور تاکہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں گویا بیت اللہ کا تقرر نعمت خداوندی کی تکمیل ہے۔ وہی بیت اللہ شریف جو تمام قبلوں سے افضل ہے۔ تجلی گاہ خداوندی اور پوری دنیا کے لئے مرکز ہدایت ہے وہاں پر کئے جانے والے عمل کا اجر وثواب لاکھ گناہ زیادہ ہے۔ اسی لئے یہ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) اور آپ کے ماننے والوں کے لئے ایک عظیم نعمت ہے۔ اگلی آیتوں میں کتاب ، نہی اور عبادت خانے کا ذکر بھی آئے گا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بےمثال قبلہ مقرر کیا ہے۔ اسی طرح کتاب بھی بےمثال دی ہے اور دین بھی جامع اور کامل عطا کیا ہے گویا اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت اس آخری امت کے لئے اٹھا رکھی ہے۔ منجملہ ان کے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی خلافت بخشی ہے۔ یہ بھی بہت بڑا انعام ہے۔ جو اولاد آدم کے علاوہ کسی اور مخلوق کو حاصل نہیں ہوا ۔ ” واذ قال ربک للملٓئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ “ خلافت نیابت الٰہی ہے۔ اس میں تقویٰ کا اظہار ضروری ہے اور عدل و انصاف قائم کرنا بہت بڑی بات ہے پھر یہ ہے کہ خلافت کے لئے قانون اور شریعت کی ضرورت ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کی۔ یہ خلافت اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بھی عطا کی ” یاد و دانا جعلنک خلیفۃ فی الارض “ مقصد یہی ہے کہ ولا تم نہعمتی علیکم تاکہ تم پر تکمیل نعمت ہوجائے۔ بیشک اللہ نے خلافت جیسی نعمت عطا کی یہ الگ بات ہے کہ دوسری قوموں کی طرح مسلمانوں نے بھی اپنی نالائقی کی وجہ سے اسے خراب کردیا اور ملوکیت میں مبتلا ہو کر برائیاں اختیار کرلیں۔ ظلم و زیادتی کے مرتکب ہوئے۔ تاہم اللہ نے اپنی نعمت مکمل کردی۔ یاں سای بات کی طرف اشارہ ہے۔ قبلہ ذریعہ ہدایت ہے اللہ تعالیٰ نے تقرر قبلہ کی ایک اور وجہ یہ بیان فرمائی و لعلکم تھتدون اور تاکہ تم ہدایت پا جائو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے تمام ہی سامان مہیا کردیئے ہیں۔ جیسا کہ دعا میں درخواست کی جاتی ہے۔ ” اھدنا الصراط المستقیم “ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا ” لعلکم تھتدون “ اسی طرح ابتدائے سورة میں فرمایا ” ذلک الکتب لاریب فیہ ھدی للمتقین “ یہ متقی لوگوں کے لئے ہدایت ہے۔ گویا کتاب اللہ بھی ذریعہ ہدایت ہے۔ یہ کتاب تقویٰ اور عدل و انصاف اختیار کرنیوالوں کی راہنمائی کرتی ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی ” واللہ لایھدی القوم الظلمین “ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ان کی راہنمائی راہ راست کی طرف نہیں کرتا وہ اندھیروں میں ہی بھٹکتے رہتے ہیں۔ الغرض ! جس طرح بعض دوسری چیزیں ذریعہ ہدایت ہیں۔ سای طرح قبلہ کو بھی ذیعہ ہدایت فرمایا ولعلکم تھتدون تاکہ تم ہدایت پا جائو۔ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے یہ سارے سامان مہیا فرما دیئے۔
Top