Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 151
كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَؕۛ
كَمَآ
: جیسا کہ
اَرْسَلْنَا
: ہم نے بھیجا
فِيْكُمْ
: تم میں
رَسُوْلًا
: ایک رسول
مِّنْكُمْ
: تم میں سے
يَتْلُوْا
: وہ پڑھتے ہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اٰيٰتِنَا
: ہمارے حکم
وَيُزَكِّيْكُمْ
: اور پاک کرتے ہیں تمہیں
وَيُعَلِّمُكُمُ
: اور سکھاتے ہیں تم کو
الْكِتٰبَ
: کتاب
وَالْحِكْمَةَ
: اور حکمت
وَيُعَلِّمُكُمْ
: اور سکھاتے ہیں تمہیں
مَّا
: جو
لَمْ تَكُوْنُوْا
: تم نہ تھے
تَعْلَمُوْنَ
: جانتے
جس طرح کہ ہم نے تم میں سے تمہارے درمیان ایک رسول بھیجا ، جو تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے اور تم کو پاک کرتا ہے اور تم کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور تمہیں وہ سکھاتا ہے ، جو تم نہیں جانتے تھے
ربط آیات اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہت قبلہ کے متعلق فرمایا کہ تم جہاں کہیں ہو ، اپنا رخ بوقت نماز بیت اللہ شریف کی طرف کرلو۔ مگر یہود و نصاریٰ جو ظالم لوگ ہیں اور بات بات پر بےجا اعتراض کرتے ہیں ، ان سے خوفزدہ نہ ہوں۔ ان کے طعن وتشنیع اور اعتراضات کی پروا نہ کریں۔ بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔ لہٰذا آپ ہر قسم کی مخالفت سے بےنیاز ہو کر بیت اللہ شریف کو اپنا قبلہ اپنا لیں۔ فرمایا اس کی غایت یہ ہے کہ ولا تم نعمتی علیکم تاکہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں۔ ولعلکم تھتدون اور تاکہ تم ہدایت پا جائو۔ مقصد یہ کہ قبلہ کی طرف رخ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف کو زیادہ فضیلت والا قبلہ مقرر فرمایا ہے۔ جو کسی خاص قوم اور علاقے کے لئے نہیں بلکہ اقوام عالم کے لئے بین الاقوامی نوعیت کا قبلہ ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس خطہ کو یہ شرافت بخشی ہے کہ اس جگہ عبادت اور ریاضت کا اجر وثواب دوسرے کسی بھی مقام کی نسبت بہت زیادہ ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے اور پھر اس انعام کے دو حصے ہیں یعنی مادی اور روحانی پیغمبر خدا ﷺ کا وجود مبارک مادی انعام ہے اور قرآن پاک اللہ تعالیٰ کا روحانی انعام ہے۔ اتمام نعمت اتمام نعمت کے متعلق حضرت علی کی روایت میں آتا ہے۔ حضور علی السلام کا ارشاد گرامی ہے۔ انسان کے لئے اتمام نعمت یہ ہے من دخل الجنۃ کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے۔ جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا مقام ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے اتمام نعمت یہ ہے کہ انسان کا خاتمہ ایمان پر ہوجائے۔ کیونکہ صحیح معنوں میں مومن وہی ہے جس کا خاتمہ بالایمان ہو۔ اسی لئے خود ابنیائے کرام بھی یہی دعا کرتے رہے۔ توفنی مسلماً والحقی بالصلحین یعنی اے مولا کریم مجھے اسلام اور ایمان کی حالت میں موت دینا اور میرا حشر صالح لوگوں کے ساتھ کرنا۔ اسی طرح خلافت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت ہے۔ جو اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو عطا فرماتا ہے۔ بعث رسول فرمایا کما ارسلنا فیکم رسولا منکم جس طرح ہم نے تم میں سے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا۔ یہاں پر لفظ کما تشبیہ کے لئے آیا ہے۔ یعنی جس طرح ہم نے بیت اللہ شریف کو قبلہ مقرر کر کے تم کو فضیلت بخشی اور اتمام نعمت کیا۔ اسی طرح ہم نے تمہاری طرف عظیم الشان رسول بھیج کر تم پر احسان کیا اور اپنی نعمت کو کامل بنایا۔ رسول کا بھیجنا بھی اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے انعامات میں سے ہے دوسری جگہ قرآن پاک نے حضور ﷺ کے وجود مباک کو نعمت سے تعبیر کیا ہے۔ الم ترالی الذین بدلوا نعمۃ اللہ کفراً کیا آپ نے قریش مکہ اور مشرکین عرب کو نہیں دیکھا۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے انعام کی ناقدری کی۔ گویا نعمت کو کفر کے ساتھ تبدیل کیا۔ مراد یہ ہے کہ خود حضور ﷺ جن کا وجود پاک اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس کی ناقدری کا مقصد یہ کہ جس طرح ہم نے تمہاری طرف تمہیں میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔ کما کا یہ کاف علمت کے لئے بھی ہو سکتا ہے اس لحاظ سے کم اسے مراد یہ ہوگا ۔ تاکہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کروں اور تاکہ تم ہدایت کے راستے پر قائم رہو۔ اور اس طرح یہ کاف تشبیہ کا نہیں بلکہ تعلیل کا ہوگا اور معنی یہ ہوگا کہ ہم نے تمہارے درمیان ایک عظیم الشان رسول اس لئے بھیجا تاکہ اتمام نعمت ہوجائے اور ہدایت کا راستہ بھی واضح ہوجائے۔ اس لحاظ سے یہ لفظ کما بالکل اسی طرح ہے۔ جس طرح حضور ﷺ نے دعا میں سکھایا۔ اللھم ربنا لک الحمد کما کسوتنی کہ جب لباس پہنو تو یوں کہو کہ اے اللہ تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمیں لباس پہنایا۔ یہ لباس بھی تو نے ہی عطا کیا ہے گویا اس لحاظ سے یہ کاف تشبیہ کی بجائے تعلیل کے لئے ہے یعنی جو علت کا معنی دیتا ہے۔ یہاں پر بھی لفظ رسولاً بطور اسم نکرہ آیا ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے تمہاری طرف ایک عظیم الشان رسول بھیجا ہے۔ بڑا رسول بھیجا ہے جو کہ منکم تم میں سے ہی اس سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں بھی گ ذر چکا ہے ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم “ یعنی اے ہمارے رب مہاری اولاد میں سے امت مسلمہ برپا کر اور پھر ان کے اندر ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ تلاوت اور تزکیہ فرمایا ایک ایسا رسول یتلوا علیکم ایتنا جو تمہارے سامنے ہماری آیتیں پڑھتا ہے۔ لفظ آیت مختلف معانی کے لئے آتا ہے۔ اس سے مراد معجزہ ، نشانی ، حکم یا فرمان ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارا مبعوث کردہ رسول ہماری آیات یعنی ہمارا کلام جو بذریعہ وحی نال ہوتا ہے وہ پڑھ کر سناتا ہے۔ ویزکیکم اور تمہارا تزکیہ کرتا ہے یعنی پاک صاف کرتا ہے۔ رذیل اور گندے اعتقادات سے بچا کر تمہارے اندر اچھے اخلاق اچھے اعمال اور اچھے عقائد کرتا ہے۔ کتاب و حکمت کی تعلیم یہ ایسا عظیم ا لشان رسول ہے۔ جو تلاوت و تزکیہ کے ساتھ ساتھ ویعلمکم اللکتب والحکمۃ تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ اس تعلیم کا ذکر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا میں بھی آ چکا ہے وہاں بھی انہوں نے یہی دعا کی تھی کہ اے ہمارے رب اس امت مسلمہ میں ایسا رسول بھیج جو انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے۔ وہاں پر تزکیہ کا ذکر کتاب و حکمت کی تعلیم کے بعد کیا تھا۔ مگر یہاں پر اس کا ذکر پہلے آیا ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس تقدم و تاخر میں بھی نکتہ پنہاں ہے۔ وہاں پر دعا کا مقام تھا کہ مولا کریم ! ایسا رسول مبعوث فرما جو ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے۔ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ ان کا تزکیہ ہوجائے وہ ظاہری اور باطنی طور پر ہر لحاظ سے پاک صاف ہوجائیں اور یہ مقام عمل کا مقام ہے۔ تعلیم کتاب و حکمت کی غرض وغایت یہ ہے کہ انسان کا تزکیہ ہوجائے۔ اب جب کہ امت مسلمہ پیدا ہوچکی ۔ عظیم الشان رسول مبعوث ہوچکا تو اب کتاب و حکمت کی تعلیم کی اصل غرض وغایت یعنی تزکیہ کو پہلے بیان فرمایا کہ جس طرح ہم نے تم میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ہماری آیات پڑھتا ہے۔ تمہارا تزکیہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ الغرض ! ابراہیم (علیہ السلام) کی داع کا مقام تعلیم اور پیش گوئی کا مقام تھا اور یہ عمل کا مقام ہے۔ لہٰذا کتاب و حکمت کی تعلیم کی غرض وغایت یعنی تزکیہ کو پہلے بیان فرمایا جب تک مقصد حاصل نہ ہو ، عمل کا کچھ فائدہ نہیں تعلیم اسی وقت مفید ہوگی۔ جب اس کا مقصد تزکیہ حاصل ہوجائے۔ تعلیم مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصود بالذات تزکیہ ہے جس کا تذکرہ اس مقام پر پہلے کیا ہے۔ ان جانی چیزوں کی تعلیم فرمایا کتاب و حکمت کی تعلیم کے علاوہ ہمارا رسول ویعلمکم مالم تکونوا تعلمون۔ تمہیں وہ چیزیں بھی سکھاتا ہے۔ جو تم نہیں جانتے تھے۔ مثلاً لوگ وضو اور طہارت کا طریقہ نہیں جانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں پیغمبر (علیہ السلام) کی تعلیم کے ذریعے سکھایا۔ لوگ غسل جنابت کے طریقہ سے ناواقف تھے۔ انہیں تعداد رکعات معلوم نہ تھیں ۔ نماز اور دیگر عبادات کا طریقہ معلوم نہیں تھا۔ حلال و حرام کی تمیز نہ تھی۔ یہ سب چیزیں اللہ نے نبی کے ذریعے سکھائیں۔ اسی کو فریاد کہ ہمارا رسول تمہیں وہ چیزیں سکھاتا ہے۔ جو تمہارے علم میں نہ تھیں۔ حضرت جعفر کی روایت میں آتا ہے کہ جب کچھ مسلمان قریش مکہ کی ایذا رسانیوں سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے اور کفار نے وہاں بھی مسلمانوں کا پیچھا کیا تو حضر جعفر نے نجاشی کے دربار میں جو تقریر کی اس کا لب لباب یہ تھا کہ اے بادشاہ ! ہم بت پرستی کرتے تھے۔ ہمارے اندر ہر قسم کی برائیاں موجود تھیں۔ حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتے تھے۔ ظلم و جور کرنے کے عادی ہوچکے تھے۔ حق و انصاف کے تقاضوں سے نا آشنا تھے ، اللہ تعالیٰ نے ہم میں نبی آخر الزمان مبعوث فرما کر سب سے پہلا حکم یہ دیا کہ خدا کے ساتھ شرک نہ کرو ، بت پرستی سے باز آ جائو۔ صرف اسی وحدئہ لاشریک کی عبادت کرو۔ حلال و حرام میں تمیز پیدا کرو کسی کو ظلم کا نشانہ نہ بنائو۔ اللہ کے نبی نے ہمیں عبادت کا صحیح طریقہ سکھایا۔ تہذیب و تمدن کے اصول بتلائے اور معیشت کے نکات سمجھائے۔ آپ نے عقائد کی اصلاح کے اصول بتائے اور پھر پیش آنیوالے واقعات کو بیان فرمایا مثلاً یہ کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا۔ قبر کی زندگی ، قیامت کو دوبارہ جی اٹھنا پل صراط پر سے گزرنا اور آخر میں محاسبے کی منزل ، میزان عدل کا قیام اور پھر رب العزت کا آخری فیصلہ ، یہ سب باتیں حضور ﷺ نے امت کو بتلا دیں گویا انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ سورة اعراف میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی زبان سے کہلوایا اے لوگو ! آئو میں تم کو نہ بتلائو کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے کس کس چیز کو حلال اور کس کس کو حرام قراردیا ہے۔ مطلب یہی ہے کہ میں تمہیں وہ چیزیں بتلائو ، جو تم نہیں جانتے۔ اسی طرححضور ﷺ نے مظالم سے بچنے کا طریقہ بتلایا۔ مولانا عبید اللہ سندھی فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام یہ ہے کہ اس نے بہترین نظام حکومت قائم کرنے کے اصول بتلائے اور پھر انہی اصولوں کے مطابق نظام خلافت قائم ہوا۔ عرب کے لوگ ہزاروں سال تک نظام حکومت سے نابلد رہے ، حالانکہ دیگر اقوام مثلاً رومی اور ایرانی نظام حکومت سے بخوبی واقف تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان تھا کہ اپنے پیغمبر کے ذریعے نظام حکومت کی تعلیم دی جس کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصہ میں پرچم اسلام آدھی دنیا پر لہرانے لگا۔ یہ سب چیزیں ویعلمکم تنالم تکونوا تعلمون کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تہذیب اخلاق کے پانچ اصول ذکر ، شکر ، صبر ، دعا تعظیم شعائر اللہ ان انعامات کا تذکرہ بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ جب میں نے اتنے بڑے بڑے انعامات تم پر کئے ہیں تو پھر تمہارا بھی فرض ہے کہ فاذکرونی مجھے یاد کرو۔ گویا یہاں سے تہذیب کا باب شروع ہوتا ہے۔ پہلے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی قباحتیں بیان کیں۔ پھر ملت ابراہیمی کی بنیاد کا ذکر کیا۔ خانہ کعبہ کے مرکز ہدایت ہونے کا بیان ہوا۔ پیغمبر (علیہ السلام) کا ذکر ہوا۔ کتاب کا بیان آیا اور اب یہاں سے تہذیب اخلاق یا تہذیب نفس کے احکام شروع ہوتے ہیں۔ جن کی بدولت انسان میں تہذیب اور شائستگی پیدا ہوتی ہے۔ اس ضمن میں اس مقام پر دو اصول بیان ہوئے ہیں اور باقی تین اصول آئندہ رکوع میں بیان ہوں گے۔ پہلا اصول ذکر الٰہی تہذیب نفس کا پہلا اصول جو یہاں بیان ہوا ، وہ ذکر الٰہی ہے۔ گویا ہمارا نصاب تعلیم اللہ تعالیٰ کے ذکر سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ذکر زبان ، عمل ، قلب اور روح کے ذریعے ہوتا ہے۔ ذکر کا عام فہم طریقہ زبان کے ذریعہ سے ہے۔ انسان زبان کے ساتھ خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرتا ہے۔ اس کی تعریف و توصیف کرتا ہے۔ تلاوت کلام پاک کرتا ہے۔ یہ سب ذکر کی زبانی صورتیں ہیں۔ ایک صحابی نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا۔ حضور ای الاعمال افضل کونسا عمل افضل ہے۔ فرمایا لایزال لسانک رطباً من ذکر اللہ یعنی تمہاری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہئے۔ ایک دوسری روایت میں فرمایا افضل عمل ایمان باللہ ہے۔ کہیں فرمایا کہ نماز سب سے افضل عمل ہے اور کہیں جہاد فی سبیل اللہ کو افضل عمل قرار دیا تاہم یہ بھی ارشاد فرمایا کہ انسان کی زبان ہر وقت ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہئے ۔ ذکر الٰہی ایک ایسی عبادت ہے۔ جس کی کوئی حد نہیں ، نماز ، روزہ ، جہاد وغیرہ سب محدود ہیں مگر ذکر الٰہی غیر محدود ہے اسی لئے فرمایا اذکروا اللہ ذکر اکثیراً اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس قدر کثرت سے یاد کرو ، ذکر الٰہی میں اتنے محور ہو کہ لوگ دیوانہ کہنے لگیں۔ اور پھر ذکر الٰہی کا صلہ یہ ملے گا۔ کہ ” لعلکم تفلحون “ تاکہ تم فلاح پا جائو۔ الغرض ذکر الٰہی کثرت سے کرو ، کیونکہ اس کی کوئی حد مقرر نہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محمد ث دہلوی کی حکمت کے مطابق جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا ذکر اخلاص ، نیک نیتی اور اچھی کیفیت کے ساتھ کرتا ہے۔ تو اس کا رخ خطیرۃ القدس کی طرف ہوجاتا ہے۔ پھر اس کا تعلق روح اعظم کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے جو کہ خطیرۃ القدس میں ایک بڑی روح ہے۔ بنی نوع انسان کی یہ چھوٹی چھٹوی روحیں بڑی روح کے اعضاء وجوارح ہیں۔ اس طرح گویا ذکر الٰہی کرنے والے کا تعلق براہ راست خدا تعالیٰ کی تجلی اعظم کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ اس طرح ذاکر کی نفسیاتی کیفیت جس قدر روح اعظم کے مطابق ہوگی اسی قدر اس کو قرب الٰہی حاصل ہوگا تو ظاہر ہے کہ اس سے انسان کے اندر شائستگی پیدا ہوگی ، جس کے بغیر وہاں داخلہ ممکن نہیں۔ اگر جسم ، روح قلب یا نفس میں کسی قسم کی نجاست ہوگی تو قرب الٰہی نصیب نہیں ہو سکتا۔ یہ ملت ابراہیم کا اہم اصول ہے ۔ جس سے انسان کو تہذیب نصیب ہوتی ہے۔ الغرض ! فرمایا فاذکرونی اذکرکم پس تم مجھے یاد کرو ، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ یعنی میں تمہیں اس ذکر کی ہدایت اجر وثواب عطا کرتا رہوں گا ، تقریب نصیب کرتا رہوں گا حدیث شریف میں آتا ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص مجھے اپنے جی میں یاد کریگا میں بھی اس کو اپنے جی میں یاد کروں گا جس کو اللہ جل شانہ اپنے جی میں یاد کرے اس کی عظمت و فوقیت کس قدر قابل رشک ہوگی پھر فرمایا جو مجھے کسی مجمع میں یاد کرے گا ، میں اس کا ذکر اس سے بہتر مجمع میں کروں گا۔ جو شخص میری طرف چل کر آئے گا ، میں اس کی طرف دوڑ کر آئوں گا۔ یہ سب ذکر الٰہی کی برکات ہیں ۔ حضور ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا ، اے معاذ ! جب بھی نماز پڑھو۔ تو اس کے بعد یوں کہا کرو اللھم اعنی علی ذکرک وشکرک و حسن عبادتک یعنی اے اللہ ! مجھے اپنا ذکر کرنے ، شکر کرنے اور اچھے طریقے سے عبادت کرنے کی توفیق عطا فرما۔ دوسرا اصول شکر الٰہی تہذیب نفس کا دوسرا اصول یہاں پر یہ بیان فرمایا واشکرولی اور میرا شکریہ ادا کرو ولات کفرون اور میرے ناشکرگزار نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کی مختلف صورتیں ہیں شکریہ زبان سے بھی ادا ہوتا ہے اور عمل سے بھی ادا ہوتا ہے ۔ مثلاً جب کوئی انسان کھانا کھاتا ہے۔ تو زبان سے الحمد للہ کہتا ہے۔ گویا اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ اس سے اللہ راضی ہوتا ہے۔ اگر اللہ نے اولاد دی ہے۔ تو انسان عقیقہ کر کے اللہ کا شکر گزار بنتا ہے۔ اللہ کی نعمت کا شکر یہ ادا کرتا ہے۔ اگر انسان کو حج نصیب ہو ، تو قربانی کر کے شکریہ ادا کرتا ہے۔ اگر انسان کو نیا لباس میسر آجائے تو اس کا شکریہ یہ ہے کہ پرانا لباس فی سبیل اللہ دیدے ۔ حضور ﷺ کی عادت مبارک یہی تھی۔ جب نیا کپڑا پہنا ، دعا کی اور پرانا کپڑا کسی محتاج کو دے دیا۔ اگر کسی کو اللہ نے دودھ دینے والا جانور دیا ہے۔ تو اس کا شکریہ یہ ہے کہ اس کا دودھ کبھی کبھی محتاجوں کو بھی دے دیا کرے۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ اگر جانور نے کسی دن دودھ نہیں دیا تو پیڑا دم کرانے کے لئے لے آتے ہیں۔ بھائی ! تم نے اس کا دودھ محتاج کو دیکر اس کا شکریہ تو ادا ہی نہیں کیا۔ کرنے کا اصل کام تو وہ تھا۔ الغرض زبان جوارح ، مال اور عمل سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا تہذیب نفس کا دوسرا اصول ہے۔ فرمایا ولاتکفرون ناشکر گزار نہ بنو۔ ظاہر ہے کہ اگر حصول نعمت پر شکریہ ادا نہیں کیا تو گویا انسان نے اللہ کی ناشکری کی۔ ایسا شخص اتصال خطیرۃ القدس سے محروم رہ گیا۔ لہٰذا گر کامیابی کی خواہش ہے تو ہر نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرو اور کسی صورت میں بھی ناشکر گزار نہ بنو۔
Top