Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 158
اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا١ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا١ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الصَّفَا : صفا وَالْمَرْوَةَ : اور مروۃ مِنْ : سے شَعَآئِرِ : نشانات اللّٰهِ : اللہ فَمَنْ : پس جو حَجَّ : حج کرے الْبَيْتَ : خانہ کعبہ اَوِ : یا اعْتَمَرَ : عمرہ کرے فَلَا جُنَاحَ : تو نہیں کوئی حرج عَلَيْهِ : اس پر اَنْ : کہ يَّطَّوَّفَ : وہ طواف کرے بِهِمَا : ان دونوں وَمَنْ : اور جو تَطَوَّعَ : خوشی سے کرے خَيْرًا : کوئی نیکی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَاكِرٌ : قدر دان عَلِيْمٌ : جاننے والا
بیشک صفا اور مردہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ پس جس شخص نے بیت اللہ شریف کا حج کیا یا عمرہ کیا ، اس پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ ان دونوں کا طواف کرے اور جس شخص نے خوشی سے نیکی کا کام کیا ، تو بیشک اللہ تعالیٰ قادر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
صفا اور مردہ تہذیب الاخلاق کے تین اصول پہلی آیات میں بیان ہوچکے ہیں اور وہ ہیں ذکر الٰہی ، شکر الٰہی ، صبر اور دعا اس آیت میں ایک اور اہم اصول شعائر اللہ کا بیان ہے۔ منجملہ دیگر شعائر کے اس آیت میں صفاء اور مردہ کو خاص طور پر شعائر اللہ کہا گیا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ان الصفا و المروۃ من شعآئر اللہ بیشک صفا اور مردہ اللہ کی نشانیوں (شعائر) میں سے ہیں۔ یہ دونوں پہاڑیاں بیت اللہ شریف سے متصل واقع ہیں۔ زیادہ اونچی نہیں ہیں۔ اس زمانہ میں بھی یہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں تھیں۔ بس اردگرد کے خطے سے ذرا بھری ہوئی تھیں۔ اب تو جغرافیہ ہی بدل چکا ہے …… ان کا بیشتر حصہ کاٹ دیا گیا ہے اور نشان کے طور پر تھوڑی تھوڑی چھوڑ دی گئی ہیں ان دونوں پہاڑیوں کے درمیانی جگہ پست ہے۔ جہاں پر سعی کی جاتی ہے اور جو حج وعمرہ کے ارکان میں سے ہے۔ لغوی طور پر صفا سخت قسم کی چکنی چٹان کو کہتے ہیں اور مردہ سفید رنگ کے پتھروں کو کہا جاتا ہے۔ شاید انہی خصوصیات کی بنا پر ان پہاڑویں کو یہ نام دیئے گئے۔ تہذیب اخلاق کا پانچواں اصول شعائر اللہ کی تعظیم ہے یہاں پر صفا مروہ کو شعائر اللہ کہا گیا ہے قرآن کریم کے دوسرے مقام پر شعائر اللہ کی عظمت کے بیان میں فرمایا لاتحلوا شعآئر اللہ یعنی اللہ کے شعائر کی بےحرتمی مت کرو۔ بلکہ ان کی تعظیم کرو۔ اس کو شعیرہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی یاد کی علامت اور نشانی ہوتی ہے۔ اس کو دیکھ کر اللہ کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ شعائر اللہ کی تعظیم اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے مترادف ہے۔ کیونکہ یہ چیزیں اللہ کی یاد آوری کا ذریعہ ہیں ان کو بت پرستی یا شرک اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ ہم ان چیزوں کی تعظیم ان کی ذات کی وجہ سے نہیں کرتے ہیں بلکہ حقیقت میں یہ اللہ تعالیٰ کی ہی تعظیم ہے جن کو دیکھ کر اس کی عظمت اور یاد دل میں آتی ہے۔ شعائر اللہ میں مکان کے علاوہ کئی قسم کے افعال بھی داخل ہیں۔ مثلاً امام شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ من اعظم شعائر اللہ چار چیزیں اللہ کے شعائر میں سب سے بڑی ہیں اور ان میں خانہ کعبہ ، حضو ر (علیہ السلام) کی ذات مبارکہ ، نماز اور قرآن پاک شامل ہیں اسی طرح شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ، تفسیر عزیزی فرماتے ہیں کہ شعائر اللہ میں عرفات بھی داخل ہے۔ جہاں نو ذوالحجہ کو لوگ جمع ہوتے ہیں۔ یہاں کا وقوف ہی حج کا رکن اعلیٰ ہے۔ لوگ غروب آفتاب تک وہاں قیام کرتے ہیں اور خوب گڑ گڑا کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگتے ہیں۔ اسی طرح شعر الحرام جسے مزدلفہ کہا جاتا ہے وہ بھی شعائر اللہ میں شامل ہے۔ منیٰ میں رمی جمار بھی شعائر اللہ میں داخل ہے۔ صفا ومروہ کا ذکر تو خود قرآن پاک نے کردیا۔ علاوہ ازیں تمام مساجد رمضان کا مینہ اور اشہر و الحرام صحرمت والے مہینے) یعنی رجب ، ذی قعدہ ، ذوالحجہ اور محرم الحرام یہ سب شعائر اللہ ہیں۔ یہ سب واجب الاحترام مہینے ہیں اور ان میں گناہوں سے بچنا زیادہ ضروری ہے۔ ان میں عبادت کا اجر وثواب بھی بڑھ جاتا ہے اور گناہ کا وزن بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ عید الاضحی ، عید الفطر ، جمعہ ، ایام تشریق ، اقامت ، ختنہ ، نماز باجماعت ، رمل ، طواف ، ہدی قربانی اور صفا مروہ کی سعی سب شعائر اللہ میں داخل ہیں۔ قرآن پاک کا ارشاد ہے۔ ومن یعظم شعآئر اللہ فانھا من نقوی القلوب یعنی شعائر اللہ کی تعظیم دلوں کے تقویٰ کی بناء پر ہے جس کے دل میں خدا کا تقویٰ ہوگا ، وہی شعائر اللہ کی تعظیم کرے گا۔ تفسیری عزیزی تفسیر عزیزی شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی مشہور تفسیر ہے جو کہ فاسری زبان میں لکھی گئی۔ آپ کے والد ماجد امام شاہ ولی اللہ نے سب سے پہلے قرآن پاک کا فاسری میں ترجمہ کیا جس کا نام فتح الرحمٰن رکھا۔ اس زمانے میں ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی۔ کابل سے لے کر برما تک سارا علاقہ مسلمان کے زیر نگین تھا۔ سرکاری زبان فارسی تھی۔ ساتھ ساتھ عربی کو بھی اعلیٰ مقام حاصل تھا۔ اس وقت اردو زبان اپنے ابتدائی مراحل میں تھی اور محدود تھی البتہ مرہٹی اور تامل ناڈو زبانیں اپنے اپنے علاقوں میں مروج تھیں۔ ہندی کا بھی عام چرچا تھا تاہم ان دو بزرگوں نے فارسی زبان کو ذریعہ ابلاغ بنایا۔ امام شاہ ولی اللہ کی کتابیں فاسری اور عربی دونوں زبانوں میں پائی جاتی ہیں۔ آپ کی مشہور عالم تصنیف اصول تفسیر فاسری زبان میں ہے۔ ازالتہ الخفا بھی فارسی میں ہے موطا کی شرح ایک فاسری میں ہے اور ایک عربی میں مقصد بہرحال ابلاغ دین تھا ، جس میں آپ کے خاندان کو کما حقہ کامیابی حاصل ہوئی۔ الغرض ! آپ کے زمانہ میں رائج الوقت زبان فاسری تھی۔ دفتری خط و کتابت بھی اسی زبان میں ہوتی تھی ، جس طرح آج کل سکولوں ، کالجوں دفتروں اور بیرون ملک انگریزی زبان کا چرچا ہے۔ اسی طرح اس زمانے میں فاسری مروج تھی۔ لہٰذا آپ نے زیادہ فارسی کے ذریعے ہی دین کی اشاعت کا کام کیا۔ شاہ ولی اللہ کا خاندان برصغیر پاک و ہند میں بڑا نورانی خاندانی گزرا ہے آپ تمام مسلمانوں کے پیرو مرشد اور مربی تھے۔ برصغیر میں دینی تعلیم کا بیڑا آپ نے ہی اٹھایا۔ آپ وقت کے فقیہہ تھے۔ ان لوگوں نے تعلیم کے مراکز اور مدارس قائم کئے۔ شاہ ولی اللہ اپنے والد ماجد کے مدرسہ رحیمیہ میں تعلیم و تربیت اور درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے۔ آپ حج کے لئے حجاز مقدس گئے تو وہاں دو سال تک قیام کیا اور وہاں کے علما سے علمی استفادہ کیا۔ واپس آ کر پھر درس و تدریس کے سلسلہ میں منہمک ہوگئے۔ شاہ عبدالعزیز نے لمبی عمر پائی ہے۔ آپ ساری عمر تدریس کے کام میں مشغول رہے۔ فتویٰ بھی دیتے رہے۔ آپ نے سنت جہاد کو دوبارہ زندہ کیا اور بڑے بڑے مجاہد پیدا کئے۔ آپ کے زمانہ میں برصغیر میں انگریز کا عمل دخل ہوچکا تھا۔ اسی زمانے میں آپ نے یہ تفسیر عزیزی لکھی۔ تفسیر عزیزی کے آخری دوپارے یعنی پارہ 29 اور 30 دو مختلف جلدوں میں ہیں۔ ابتداء میں سورة بقرہ کی نصف تک تفسیر لکھی تھی کہ زندگی نے ساتھ نہ دیا اور یہ کام وہیں رہ گیا۔ یہ عظیم تفسیر حکیمانہ فکر کے ساتھ لکھی گئی ہے جس میں اسلام کے حقائق کو خوب اجاگر کیا گیا ہے۔ حضرت انور شاہ صاحب کشمیری فرماتے ہیں کہ اگر تفسیر عزیزی مکمل ہوجاتی تو یہ سمجھا جاتا کہ قرآن پاک کا حق ادا ہوگیا ہے۔ اس وقت اس تفسیر کی صرف تین جلدیں موجود ہیں۔ تاہم یہ کمال درجہ کی چیز ہے۔ اس کا ترجمہ اردو میں بھی ہوچکا ہے۔ طواف و سعی امام ابن جریر نے مفسر قرآن حضرت قتادہ سے روایت نقل کی ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی سنت ہے۔ حاکم نے مستدرک میں بیان کیا ہے کہ صفا مروہ کی سعی حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ کی میراث ہے۔ ان سے یہ چیز بطور وراثت نقل ہوتی چلی آ رہی ہے حضرت ہاجرہ پہلی شخصیت ہیں۔ جنہوں نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کی ام المومنین حضرت عائشہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور سرور کائنات ﷺ نے فرمایا ب یت اللہ شریف کا طواف ، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار اللہ کے ذکر کے اقامت کے لئے ہے طواف تو بجائے خود نماز کی مانند ہے کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے الطواف حول البیت مثل الصلوۃ یعنی بیت اللہ شریف کے گرد طواف کرنا نماز کی مثل ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ نماز کے دوران گفتگو کی قطعا ً اجازت نہیں جب کہ طواف کے دوران حسب ضرورت بات چیت کی جاسکتی ہے۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ کلام سے اجتنبا کرے اور اللہ کے ذکر میں منہمک رہے۔ ذکر الٰہی کے لئے مختلف کلمات موجود ہیں۔ حضرت لاہوری کے بڑے فرزند مولانا حبیب اللہ طواف کے ساتھ چکروں میں پورا قرآن پاک ختم کرلیتے تھے۔ اللہ نے اس قدر توفیق بخشی تھی۔ آپ بڑے ہی عبادت گزار تھے۔ طواف میں دو تین گھنٹے صرف کرتے تھے۔ اور شدید ترین گرمی میں بھی طواف کرتے رہتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) لیہ السلام حج کے لئے آتے تو صفا ومروہ کے درمیان لبیک پکارتے ہوئے دوڑتے ادھر اللہ کی طرف سے بھی لبیک عبدی کی آواز سنتے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرماتے کہ تمہاری پکار پر میں بھی موجود ہوں۔ سعی کے دوران پڑھی جانے والی مشہور دعا رب اغفروارحم انک انت الاعززالاکرم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ یعنی اے اللہ معاف فرما دے اور رحم فرما تو عزت والا اور بڑے کرم والا ہے۔ اس کے علاوہ سعی کی اور بھی دعائیں منقول ہیں جن میں لا الہ الا اللہ ہے۔ اس کے علاوہ ایمان پر ثابت قدمی کی دعا ہے۔ یعنی اللھم انی اسئلک کما ھدینی لایمان ان لاتنزع منی حتی توفنی علی ذلک اے اللہ ! جس طرح تو نے مجھے ایمان اور اسلام کی طرف ہدایت فرمائی ہے۔ میں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ اسے مجھ سے نہ چھیننا یہاں تک میری موت آجائے۔ صفا مروہ کی سعی کی حیثیت کے متعلق مختلف آراء ہیں مشہور روایت یہ ہے کہ امام احمد کے نزدیک سعی سنت ہے البتہ امام شافعی اسے رکن کہتے ہیں اگر حج میں سعی نہیں کی تو حج نہیں ہوگا۔ امام ابوحنیفہ اسے واجب کہتے ہیں اگر سعی نہ ہو سکے تو دم دینا پڑے گا۔ جس سے اس کی تلافی ہوجائے گی واجب بھی بہت بڑا درجہ ہے۔ فرض کے بعد اسی کا نمبر ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ گرامی ہے۔ ایھا النسا اسعوا اے لوگو ! صفا ومروہ کے درمیان سعی کرو ان اللہ کتب علیکم السعی اللہ تعالیٰ نے تم پر سعی کو ضروری قرار دیا ہے حضور ﷺ جب سعی کے لئے تشریف لاتے تو فرماتے ابدا بمابداللہ تعالیٰ میں وہیں سے شروع کرتا ہوں جہاں سے اللہ تعالیٰ نے ابتداء فرمائی ہے یعنی صفا سے کیونکہ آیت زیر درس میں ان الصفا والمروۃ فرمایا گیا ہے گویا صفا سے کیونکہ آیت زیر درس میں ان الصفا و المروۃ فرمایا گیا ہے گویا صفا سے ابتداء کی گئی ہے۔ الغرض ! حضور ﷺ سعی صفا سے شروع کر کے مردہ پر ختم کرتے آپ کی یہ سنت مبارکہ آج تک جاری ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جسے محبوب سے محبت ہوتی ہے اسے اس کے متعلقات سے بھی محبت ہوتی ہے حج کے تمام شعائر منیٰ ، عرفات ، قربانی وغیرہ محبوب کے متعلقات ہیں۔ جب دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت جاگزیں ہوتی ہے۔ تو پھر وہ اس کے شعائر سے بھی محبت کرے گا ان کی تعظیم کرے گا صبر اور شکر ادا کرے گا ، یہی چیزیں تہذیب نفس کے حصول کی علامتیں ہیں۔ چاہ زم زم چاہ زم زم کے اجراء کا واقعہ مشہور ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) بےآب وگیاہ وادی میں حضرت ہاجرہ اور اسماعیل (علیہ السلام) کو چھوڑ گئے۔ تھوڑی بہت کھجوریں اور چھا گل میں پانی تھا۔ جب پانی ختم ہوگیا تو مائی صاحبہ نے ادھر ادھر پانی کی تلاش شروع کردی آپ کبھی صفا پر جائیں اور وہاں سے مایوس ہو کر مردہ پہاڑی پر پہنچ جاتیں بچہ پیاس سے تڑپ رہا تھا۔ جب آپ کی پریشانی انتہا کو پہنچ جائیں بچہ پیاس تے تڑپ رہا تھا جب آپ کی پریشانی انتہا کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت تامہ سے جبرائیل (علیہ السلام) کو بھیجا۔ انہوں نے اللہ کے حکم سے اپنا پر زمین پر مارا تو وہاں سے پانی جاری ہوگیا۔ یہ بڑا متبرک پانی ہے فاسی نے تاریخ مکہ میں روایت بیان کی ہے کہ یہ پانی کوثر اور سلسبیل سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔ پانی کے اس چشمہ کو کئی حوادثات بھی آئے مگر بالآخر اسے کنواں کی صورت حاصل ہوگئی۔ جاہلیت کے زمانہ میں یہ کئی دفعہ بند ہوا اور کھولا گیا اب اس کنواں سے ساری دنیا سیراب ہوتی ہے۔ زائرین حرم خوب سیر ہو کر یہ پانی پیتے ہیں اور جاتے وقت دنیا کے اکناف و اطراف میں یہ تبرک کے طور پر لے جاتے ہیں ۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس کی آبیاری جاری ہے۔ اور انشاء اللہ تاقیامت جاری رہے گی اس کا ذائقہ بھی عام پانیوں سے مختلف ہے۔ یہ پانی بیک وقت دوا شفا اور غذا کا قدرتی مجموعہ ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کے لئے اس سے بہتر کوئی پانی دنیا بھر میں موجود نہیں ہے۔ صفا اور دعوت توحید صفا کی یہ وہی تاریخی پہاڑ ی ہے جس پر چڑھ کر حضور ﷺ نے قریش کو دعوت توحید دی۔ عربوں میں یہ طریقہ رائج تھا کہ کسی سخت خطرے کے وقت بلند جگہ پر چڑھ کر واصباحاہ کا نعرہ لگاتے جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ دشمن آ گیا ہے یا اور کوئی خطرہ ہے۔ لہٰذا سب لوگ اکٹھے ہوجائیں اور پھر ایسا ہی ہوتا تھا۔ حضور نبی کریم ﷺ نے بھی صفا پر چڑھ کر یہی نعرہ لگیا ا قوم کے لوگ اکٹھے ہوگئے کہ کوئی خطرے کی بات ہوگی جب سارے لوگ آگئے تو آپ نے فرمایا اگر میں تم سے یوں کہوں کہ صبح کے قوت اس پہاڑ کے پیچھے سے تمہارا دشمن حملہ آور ہو رہا ہے تو کیا تم میری بات کو تسلیم کرلو گے ۔ سب نے بیک زبان ہو ککر کہا ما جربنا علیک کذباً ہم نے کبھی آپ پر جھوٹ کا تجزبہ نہیں کیا۔ آپ ہمیشہ سچ فرماتے ہیں۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا انی نذیر لکم اے لوگو میں تم کو اس بات سے ڈرانے کے لئے آیا ہوں کہ تم پر سخت عذاب آنے والا ہے۔ اگر اس سے بچنا چاہتے ہو تو میری بات مان لو قولوا لا الہ الا اللہ کلمہ طیبہ کا اقرار کرلو ، فلاح پا جائو گے۔ ان لوگوں میں حضور ﷺ کے چچا ابولہب بھی تھے۔ وہ اس بات سے بڑے سیخ پا ہوئے اور کہا تبالک یا محمد اے محمد ! آپ کے لئے ہلاکت ہوالھذا جمعتنا کیا تو نے اس لئے ہمیں جمع کیا تھا۔ ہم تو سمجھے تھے کہ کوئی خاص بات ہوگی ، مگر تو نے ہمیں ایسی بات بتا دی۔ فتح مکہ کے روز بھی آپ اسی صفا پر کھڑے ہوئے اور فرمایا الحمد للہ الذی انجز و عدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ یعنی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ، جس نے اپنا وعدہ پورا کیا ، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور اس وحدہ لاشریک نے اکیلے ہی ان سب کو شکست دی۔ یہاں پر اللہ کے وعدے سے مراد ہی وعدہ ہے۔ جب مشرکین مکہ حضور ﷺ کو طرح طرح کی تکالیف پہنچاتے تھے اور آپ کو مکہ میں رہنے نہیں دیتے تھے تو اللہ نے وعدہ فرمایا کہ یہ مکہ ایک دن فتح ہوگا اور یہ سب لوگ مغلوب ہوجائیں گے۔ بیت اللہ شریف میں شرک بیت اللہ شریف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر کیا تھا۔ وہی ابراہیم (علیہ السلام) جنہوں نے بت خانے کے تمام بتوں کو پاش پاش کردیا تھا۔ مگر انہیں کے نام نہاد پیروں کاروں یعنی مشرکین مکہ نے اسی کعبہ شریف میں جگہ جگہ بت رکھے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ کے سامنے بت تھے۔ اس کی دیواروں پر بت تھے۔ چاہ زم زم کے پاس بت رکھے تھے۔ صفا اور مردہ پر بت موجود تھے۔ غرضیکہ مشرکین نے ہر چیز کو بگاڑ دیا تھا اور اس طرح خود خانہ کعبہ میں شرک کے مرتکب ہو رہے تھے۔ مشہور روایت کے مطابق صفا اور مردہ پر جو بت رکھے ہوئے تھے ان میں سے احناف مرد کا بت تھا اور وہ صفا پہاڑی پر تھا اور نائلہ عورت کا بت تھا اور وہ مروہ پر رکھا ہوا تھا۔ یہ مرد و زن مشرک تھے ۔ انہوں نے خانہ کعبہ میں برائی کا ارتکاب کیا تھا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے پتھر کی صورت میں مسخ کردیا۔ لوگوں نے ان پتھروں کو اٹھا کر باہر رکھ دیا تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں کہ برائی کا نتیجہ کیا ہوتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ان بتوں کی پوجا ہونے لگی اور یہ لوگوں کے معبود بن گئے پھر لوگوں نے ان میں سے ایک کو صفا پر رکھ دیا اور دوسرے کو مروہ پر۔ سعی قدیم جب اسلام کا دور آیا تو مسلمانوں کو صفا ومروہ کی سعی کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس ہوئی۔ ان کا خیال تھا کہ یہ سعی شاید ان بتوں کی وجہ سے ہو۔ اس دور میں اس سے ملتی جلتی اور بھی مثالیں موجود تھیں۔ مثلاً اوس اور خزرج قبیلہ کے لوگ جب حج کے لئے آتے تھے ۔ تو منتا نامی بت کے نام پر احرام مدنیہ سے باندھتے تھے یہ بت کسی بزرگ کے نام سے موسوم تھا اور سمندر کے کنارے مشل کے مقام پر رکھا ہوا تھا یہ لوگ خانہ کعبہ کا طواف تو کرتے تھے مگر صفا ومروہ کی سعی نہیں کرتے تھے اس قسم کے نظریات اس وقت موجود تھے۔ مسلمانوں کے اس شک کو دور کرنے کے لئے قرآن پاک نے فرمایا ان الصفا و المروۃ من شعآئر اللہ صفا اور مردہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اور یہ قدیم سلسلہ سے مسنلک ہیں۔ ان کے درمیان دوڑنا ان بتوں کی تعظیم کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو محض اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی رضا جوئی کے لئے ہے ۔ چناچہ ان بتوں کو وہاں سے ہٹا دیا گیا۔ خطہ عرب کے تمام بتوں کو توڑ دیا گیا۔ بیت اللہ شریف کو ان کی نجاست سے پاک و صفا کردیا گیا اور اس طرح مرکز اسلام سے ایک دفعہ پھر توحید کی صدا بلند ہونے لگی۔ اسی لئے فرمایا کہ صفا مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں۔ فمن حج البیت اواعتمر پس جو کوئی حج یا عمرہ کرے فلا جناح علیہ اس پر کوئی حرج نہیں ہے ان یطوف بھما کہ ان دونوں کا طواف کرے سعی احکام حج میں سے ہے اور قدیم سنت ہے۔ فرمایا ومن تطوع خیراً جس نے خوشی سے نیکی کا کام کیا فان اللہ شاکر علیہم تو اللہ تعالیٰ قدر دان اور جاننے والا ہے۔ یاد رہے کہ شکر سے فاعل کا صیغہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے تو اس کا معنی قدر دانی ہوتا ہے یعنی اللہ بڑا قدر دان ہے۔ اگر معمولی سی نیکی بھی خلوص نیت سے کی جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی بڑے سے بڑا اجر عطا کرتا ہے اور علیم سے مراد یہ ہے کہ وہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ اس کے علم سے کوئی چیز مخفی نہیں حتیٰ کہ وہ انسان کی نیت اور باطنی ارادہ کو بھی جانتا ہے۔
Top