Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 172
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے كُلُوْا : تم کھاؤ مِنْ : سے طَيِّبٰتِ : پاک مَا رَزَقْنٰكُمْ : جو ہم نے تم کو دیا وَاشْكُرُوْا : اور شکر کرو لِلّٰهِ : اللہ کا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو اِيَّاهُ : صرف اسکی تَعْبُدُوْنَ : بندگی کرتے ہو
اے ایمان والو ! پاکیزہ چیزیں کھائو جو ہم نے تم کو روزی دی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ، اگر تم خاص اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔
اکل حلال گزشتہ آیات میں ” یا یھا الناس کہ کر پوری نوع انسانی کو خطاب کیا گیا تھا اب ان آیات میں خاص طور پر مومنوں سے خطاب ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔ یایھا الذین امنوا کلوا من طیبت مارزقنکم اے ایمان والو۔ پاک چیزکھائو ، جو ہم نے تمہیں روزی دی ہے۔ حدیث شرفی میں آتا ہے کہ اکل حلال کا یہ وہی حکم اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو دیا ہے۔ جو اس نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو دیا ہے۔ یعنی یایھا الرسل کالوا من الطیبت واعملوا صالحاً “ یعنی اے رسولوں کی جماعت پاک چیزیں کھائو اور نیک اعمال کرو۔ غرضیکہ تمام انبیاء اور اہل ایمان کو ناپاک چیزوں کے کھانے سے منع فرمایا ہے ۔ کیونکہ ایسی چیزیں کھانے سے انسان میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ پاک اشیاء کا کھانا اور نا پاک چیزوں سے پرہیز ایک ایسا عمل ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پیغمبر اسلام ﷺ کی صفت کے طور پر بیان فرمایا ہے وہ ایسا رسول ہے ہے کہ ” یحل لھم الطیبت ویحرم علیھم الخبآئث “ لوگوں کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور خبیث اور ناپاک چیزوں کو حرام ٹھہراتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو خبیث قرار دیا ہے۔ ان کے استعمال سے یا تو جسمانی طور پر خرابی پیدا ہوگی یا روحانی طور پر پاک چیز وہ ہے جس میں کوئی خباثت نہ ہو ، خباثت ظاہری بھی ہوتی ہے اور باطنی بھی ہوتی ہے۔ ظاہری خباثت تو یہ ہے کہ کوئی چیز ظاہری طور پر گندی ہو اور باطنی زندگی میں مال حرام از قسم چوری اور خیانت وغیرہ آتا ہے۔ اسی طرح روحانی گندگی یہ ہے کہ اس میں کسی غیر کا حق شامل ہو۔ علامہ اقبال مرحوم نے بھی کہا ہے کہ اکل حلال اور صدق مقال دین کی گروہ اور راز ہے۔ مسلم شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ ایک آدمی لمبا سفر کرتا ہے ۔ جسم اور لباس گرد آلود ہے ، بڑی تکلیفپاتا ہے وہ دعا کرتا ہے یا رب یا رب اے مولا کریم ! میری دعا قبول کرلے مگر حضور فرماتے ہیں فانی یستجاب لہ ، اس کی دعا کیسے قبول ہوگی جب کہ مطمعہ حرام و مشربہ حرام جب کہ اس کا کھانا پینا حرام ہے۔ وغذی بحرام حرام غذا سے پرورش پاتا ہے۔ مقصد یہ کہ دعا کی قبولیت کے لئے اکل حلال بمنزلہ شرط کے ہے اسی طرح عبادت کی قبولیت کے لئے بھی لازم ہے کہ عابد حلال اور طیب چیزیں استعمال کرے۔ شکر الٰہی فرمایا اللہ کی عطا کردہ روزی میں سے پاکیزہ چیزیں کھائو واشکرو اللہ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو ، ان کنتم ایاہ تعبدون “ اگر تم خلاص اسی کے عبادت گذار ہو شکر ادا کرنے کے کئی طریقے ہیں مثلاً زبان سے شکر ادا کرنا یہ ہے کہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرے۔ اعضا کا شکر یہ ہے کہ ایسے اعمال انجام دیئے جائیں۔ جن سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کا اظہار ہو۔ اور دل سے شکر ادا کرنا یہ ہے کہ دل میں یہ اعتقاد رکھے کہ مستحق تعظیم صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس کے ساتھ اس کا کوئی شریک نہیں ہے ایک حدیث فاسری میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جنوں اور انسانوں کی ایک حالت یہ بھی ہے کہ اخلق ویعبد غیری پیدا میں کرتا ہوں اور عبادت دوسروں کی کرتے ہیں۔ ان کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں۔ اسی طرح فرمایا ارزق ویشکر غیری رزق میں دیتا ہوں ، روزی میں پہنچاتا ہوں مگر شکر دوسروں کا ادا کرتے ہیں۔ اس مضمون کو امام رازی اور بعض دیگر مفسرین نے بھی نقل کیا ہے۔ محرمات اربعہ اکل حلال کا قانون بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر محرمات اربعہ یعنی چار حرام چیزوں کا تذکرہ کیا۔ جن کا استعمال انسان کے لئے قطعاً جائز نہیں۔ فرمایا انما حرم علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر ومآ اھل بہ لغیر اللہ بیشک تم پر حرام ہے ، مردار ، خون ، خنزیر کا گوشت اور وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی غیر کا نام پکارا گیا ہو۔ مردار محرمات میں پہلا نمبر مردار کا ہے۔ اس سے وہ جانور مراد ہے جو حلال ہو اور ذبح کرنے کے قابل ہو ، مگر بغیر ذبح کئے مر جائے ۔ ایسا جانور حرام کی فہرست میں آجائے گا۔ اس کا کھانا قطعاً ناجائز ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے سورة مائدہ میں اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے۔ وہاں پر بھی مذکورہ بالا چار محرمات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ محرمات میں مردار کی یہ صورتیں بھی شامل ہیں ” والمنخنقۃ والموقودۃ والمتردیۃ والنطیحۃ ومآ اکل السبع الا ماذکیتم وما ذبح علی النصب وان تستقسموا بالازلام “ یعنی وہ حلال جانور جو گلا گھٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گر کر یا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو۔ سوائے اس کے کہ جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا۔ یا جو کسی تھان پر ذبح کیا گیا ہو ، یا یہ کہ پانسوں کے ذریعے اپنی قسمت معلوم کرو۔ ایسی چیزوں کا کھانا مسلمان کے لئے حلال نہیں ہے۔ مردار کے حرام ہونے میں حکمت یہ ہے کہ اس کے گوشت کھانے سے انسان میں سستی اور کاہلی پیدا ہوجاتی ہے۔ کسی عبادت اور نیکی کے کام میں نشاط حاصل نہیں ہوتی۔ خون یہاں پر جس خون کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ وہ بہتا ہوا خون ہے۔ جو رگوں میں چلتا ہے اور ذبح کرتے وقت بہ جاتا ہے۔ سورة انعام میں اسے دما مسفوحاً یعنی بہایا ہوا خون کہا گیا ہے۔ یہ قطعی حرام ہے اور اس کا استعمال جائز نہیں۔ البتہ رگوں کا خون بہ جانے کے بعد جو خون گوشت میں رہ جاتا ہے ، وہ حرام نہیں ہے اگر گوشت بغیر دھوئے بھی پکا کر کھالیا جائے تو وہ پاک ہے۔ تاہم نظامت کا تقاضا ہے کہ اسے دھو لیا جائے ، مگر اس کی حلت میں کوئی شبہ نہیں۔ البتہ جس جانور کو شرعی طریقہ سے ذبح کرنا ممکن نہ ہو ، اس کو ذبح کرنا شرط نہیں ہے۔ بلکہ اسے اللہ کا نام لے کر زخمی کردینا ہی کافی ہے۔ بھاگ جانے والے جانور کو اگر تیر چلاتے وقت یا نیزہ بھالا وغیرہ مارتے وقت اللہ کا نام سے لیا جائے تو وہ جانور حلال ہوگا ، خواہ اسے زخم جسم کے کسی بھی حصہ پر آیا ہو۔ حضرت مولانا شیخ الہند لکھتے ہیں کہ مردار وہ جانور ہے جو خود بخود مر جائے ، یعنی جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے۔ سورة انعام میں موجود ہے ولاتاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو۔ اس کو مت کھائو۔ ہاں جس جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے گا ، تو ایسے گوشت کا کھانا جائز نہیں ہوگا۔ حدیث شریف میں آتا ہے۔ ما ابین من الحی فھو میتۃ زندہ جانور کا کوئی حصہ علیحدہ کردیا جاوے تو وہ مردار ہی تصور ہوگا۔ اسی طرح لکڑی ، غلیل یا بندوق سے مارا جائے اور ذبح نہ کیا جائے تو وہ مردار ہوگا ایک موقع پر مولانا مودوید صاحب نے فتویٰ دیا تھا کہ بندوق کا شکار بغیر ذبح کئے ہوئے جائز ہے ، حالانکہ تمام فقہائے کرام اس کے خلاف فتویٰ دیتے ہیں تاہم بعد میں انہوں نے رجوع کرلیا۔ صحیحین اور نسائی شریف کی روایت کے مطابق صرف وہ جانور بغیر ذبح کے حلال ہے۔ جو تیر کے نوکدار حصہ سے زخمی ہوا ہو۔ اگر ویسے ہی تیر کی چوٹ سے مر جائے تو ایسا جانور موقوذہ شمار ہوگا اور حلال نہیں ہوگا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی عام چوٹ از قسم لکڑی پتھر وغیرہ کے لگنے سے موت واقع ہوجائے۔ بندوق کی گولی بھی ٹھوس ہوتی ہے۔ نوکدار چیز نہیں ہوتی ، اس لئے بندوق کے ساتھ شکار کیا ہوا جانور بغیر ذبح کئے حلال نہیں ہوتا۔ لم یذکر اسم اللہ علیہ میں وہ جانور آئے گا جس پر بوقت ذبح قصداً اللہ کا نام نہ لیا جائے۔ ہاں اگر ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہنا بھول جائے۔ تو وہ مردار نہیں ہوگا اس کا کھانا جائز ہوگا۔ اگر قصداً تکبیر کو ترک کیا ہے ۔ تو ایسا جانور مردار تصور ہوگا۔ البتہ حدیث شریف کے مطابق وہ جانور اس حرمت سے مستثنیٰ ہیں اور ان کا کھانا جائز ہے۔ فرمایا احلت لنا میستتان ہمارے لئے دو مردار حلال ہیں السمک والجرار یعنی مچھلی اور ٹڈی ان کا شکار کر کے بغیر ذبح کئے کھا جاسکتا ہے۔ حضور نے انہیں جائز قرار دیا ہے۔ خون کی ایک قسم بستہ یعنی جما ہوا خون ہے۔ اسے شریعت نے حلال قرار دیا ہے۔ فرمایا حلت لنا دمان ہمارے لئے دو خون حلال ہیں الکبد و الطحال یعنی جگر اور تلی یہ دونوں اعضاء منجمند خون ہیں مگر حلال ہیں۔ دم مسفوح یعنی رگوں سے نکلنے والے خون کی حرمت کی حکمت یہ ہے کہ اسے استعمال کرنے والے آدمی میں درندگی کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔ شیر ، ریچھ وغیرہ جو شکار کا خون پی جاتے ہیں۔…… اس لئے ان میں درندگی کی صفات پائی جاتی ہیں۔ اگر کوئی انسان بھی ایسا ہی خون استعمال کرے گا۔ تو اس میں بھی ایسی خصلتیں پیدا ہوجائیں گی۔ لہٰذا دم مسفوح کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ہر چیز کا خاصہ ہوتا ہے جو شخص سورج نکلنے تک سوتا رہے گا وہ دن بھر خبیث النفس اور کسلان یعنی سست رہے گا۔ محمد ثین کرام فرماتے ہیں کہ ایسا شخص نیکی کے کاموں میں بیحد سست ہوگا۔ مگر برائی کے کاموں میں بڑا چست ہوگا۔ یہ زیادہ سونے کا خاص ہے۔ فرمایا اسی طرح مردار کھانے کا خاصہ یہ ہے کہ ایسے شخص کو اچھائی کے کاموں میں نشاط نہیں ہوگی۔ حلال و حرام جانوروں کی حکمت شاہ ولی اللہ یوں بیان کرتے ہیں کہ بھیمۃ الانعام میں سے جو مویشی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے حلال قرار دیئے ہیں ، وہ انسان کے ساتھ بڑی مناسبت رکھتے ہیں ، انسان کے قریب رہتے ہیں ، اس کی خدمت کرتے ہیں ، لہٰذا ان کا گوشت اور دودھ بھی انسانی طبیعت کے موافق ہے۔ جیسے بکری ، گائے بھینس اونٹ وغیرہ ان کا گوشت کھانے اور دودھ پینے سے انسان میں اچھی خصلت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح جن جانوروں کو حرام قرار دیا ہے۔ مثلاً شیر ریچھ کتا ، بندر وغیرہ انسان سے مناسبت نہیں رکھتے ، لہٰذا ان کا گوشت کھانے سے ان جیسی خصلتیں پیدا ہوں گی۔ بلی اور کتے … کا گوشت کھانے سے انسان میں ویسی ہی صفات پیدا ہوجائیں گی۔ لہٰذا شریعت نے ان سے منع فرمایا۔ خنزیر کا گوشت فرما یا دیگر حرام جانوروں ک طرح ولحم الخنزیر خنزیر کا گوشت بھی قطعی حرام ہے یہاں پر ذکر صرف گوشت کا کیا ہے ۔ مگر مراد یہ ہے کہ جب اس کا گوشت حرام ہے تو اس کی ہر چیز کا استعمال حرام ہے اس کی ہڈیاں ، بال ، چربی ، لعاب وغیرہ ، سورة انعام میں خنزیر کے متعلق آتا ہے۔ ” انہ رجس “ یہ بالکل ناپاک ہے۔ اس کا استعمال بالکل حرام ہے حدیث شریف میں آتا ہے کہ قرب قیامت جب مسیح (علیہ السلام) کا ظہور ہوگا تو آپ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے۔ ان دونوں کاموں سے عیسائیوں کی تذلیل مقصود ہے۔ مسیح (علیہ السلام) صلیب کو توڑ کر یہ ثابت کردیں گے کہ ان کے نام نہاد پیروکاروں کا یہ عقیدہ باطل تھا کہ انہوں نے مسیح (علیہ السلام) کو سولی پر لٹکا دیا ہے۔ اسی طرح عیسائی خنزیر کا گوشت بڑے شوق سے کھاتے ہیں ، خنزیر کو قتل کرنے کا مقصد بھی عیسائیوں کی اس بات پر تذلیل ہے۔ کہ وہ خنزیر کے گوشت کو بکری کی طرح حلال سمجھ کر کھاتے رہے۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ خنزیر کی حرمت کی وجہ یہ ہے کہ اس جانور میں ایسی خصلتیں پائی جاتی ہیں جو انسانی فطرت کے خلاف ہیں۔ اولاً یہ گندگی کھانے والا جانور ہے اور حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جلالہ جانور یعنی گندگی کھانے والا جانور کا کھانا مکروہ تحریمی ہے۔ حتیٰ کہ اگر حلال جانور مثلاً گائے ، بھینس ، اونٹ ، بکری وغیرہ بھی گندگی کھانے لگ جائے تو اسے باندھ کر دس 1 ؎ دن تک گھاس کھلائو ورنہ اس کا دودھ اور گوشت مکروہ ہوگا۔ بعض اوقات گندگی کھانے کی وجہ سے جانور میں طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اور اس کی وجہ سے جانور کا ذوق بھی بگڑ جاتا ہے۔ چونکہ خنزیر گندگی کھاتا ہے۔ لہٰذا اس کا اثر اس کے گوشت بلکہ ہر عضو میں سرایت کرجاتا ہے اس واسطے اس کا کھانا قطعی حرام ہے۔ خنزیر میں ایک اور قبیح خصلت بھی پائی جاتی ہے۔ جو کسی اور جانور میں نہیں ملتی یہ اس قدر بےغیرت جانور ہے کہ اس کے متعدد نر بیک وقت ایک مادہ سے ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور جانور نہیں ہے۔ جو دوسرے نر کی موجودگی میں مادہ سے جفتی کرے ۔ اگر کوئی دوسرا موجود ہوگا تو جب تک اسے بھگا نہیں دے گا ، نفسانی خواہش پوری نہیں کرے گا۔ مگر خنزیر ہی ایک ایسا جانور ہے۔ جس کو دوسرے نر جانور کی موجودگی قطعاً ناگوار نہیں گذرتی اور یہ بےغیرتی کی انتہا ہے۔ چناچہ اس جانور کا گوشت کھانے والی اقوام میں بھی اس خصلت کا پیدا ہوجانا لازمی امر ہے۔ انگریز اور سکھ خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں ، دیکھ لیجیے دونوں قومیں اس قسم کی بےغیرتی کا شکار ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خنزیر کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے۔ اگرچہ خنزیر کی ہر چیز حرام ہے۔ تاہم اس مقام پر صرف گوشت کی حرمت دو وجوہ کی بناء پر بیان کی گئی ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے چونکہ یہاں پر ذکر کھانے کا ہو را ہے کہ اے مومنو ! حلال اور پاکیزہ چیزیں کھائو ، تو کھانے کی مناسبت سے گوشت کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس جانور کی باقی اشیاء یعنی ہڈیاں ، چمڑا ، چربی 1 ؎ مرغی تین دن بکری چار دن اونٹ گائے دس دن (در مختار ص 528/ج 4) (فیاض) وغیرہ حرام تو ہیں مگر یہ کھانے کے کام نہیں آتیں بلکہ بعض دوسرے طریقوں سے انسانی استعمال میں آتی ہیں۔ گوشت کے ذکر کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس کا گوشت ہر حالت میں حرام ہے۔ خواہ وہ شرعی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ حلال جانور کی حرمت اس وقت ثابت ہوتی ہے۔ جب کہ وہ خود مر گیا ہو یا شرعی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا وہ مگر خنزیر کی حرمت ہر صورت میں قائم رہے گی خواہ اسے شرعی طریقہ پر ہی کیوں نہ ذبح کیا گیا ہو جس طرح باقاعدہ ذبح کرنے سے کتے کا گوشت جائز نہیں ہوجاتا ، اسی طرح خنزیر کا گوشت بھی حلال نہیں خود اسے شرعی طریقہ سے ہی کیوں نہ ذبح کیا گیا ہو۔ اس کا گوشت ہر صورت میں حرام ہی رہے گا۔ اسی لئے اسے نجس العین کہتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کا فتویٰ ہے کہ ہر جانور کی کھال رنگ دینے کے بعد پاک ہوجاتی ہے خواہ وہ جانور حلال مگر مردار ہو یا جانور ہی سرے سے حرام ہو ، سوائے خنزیر کی کھال کے یہ دباغت سے بھی پاک نہیں ہوتی۔ رہی انسان کی کھال ، تو وہ احتراماً استعمال میں نہیں لائی جاتی مگر دباغت سے وہ بھی پاک ہوجاتی ہے۔ غرضیکہ خنزیر ایسا جانور ہے ۔ جس کی کوئی چیز بھی کسی حالت میں بھی قابل استعمال نہیں ہوتی۔ انسانی اخلاق پر اس کی غذا کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ انسان جس قسم کی غذا استعمال کرے گا۔ اس کے اخلاف کی تعمیر اس کے مطابق ہوگی۔ اگر کوئی شخص خنزیر یا کوئی دوسری حرام چیز استعمال کرتا ہے۔ تو اس کا اثر اسکے اخلاقیات یعنی طہارت ، اخبات ، سماحت اور عدالت پر پڑے گا اور وہ شخص اپنے مقام کو قائم نہیں رکھ سکے گا۔ اسی لئے اللہ نے حلت و حرمت کا قانون نافذ کر کے انسانی اخلاقیات کی تعمیر کی ہے۔ (آیت 172- 173) ترجمہ ، - اے ایمان والو ! وہ پاکیزہ چیزیں کھائو ، جو ہم نے تمہیں روزی دی ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم خاص اسی کی عبادت کرنے والے ہو (a) بیشک اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیا ہے مردار خون خنزیر کا گوشت اور وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ پھر جو شخص مجبور ہوگیا اس حال میں کہ وہ نافرمانی کرنے والا نہیں ہے اور نہ زیادتی کرنے والا ، پس اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بخشش کرنیوالا مہربان ہے۔ (a) گزشتہ سے پیوستہ گزشتہ درس میں حلال و حرام کی بحث آ چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دیا ہے اور انہیں کھانے کی اجازت دی ہے اور حرام چیزوں سے منع فرمایا۔ حلال اشیاء کی تفصیل قدرے بیان ہوچکی ہے۔ اسی سلسلے میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے الطیب ما اکل الرجل من کسبہ پاکیزہ چیز وہ ہے ۔ جو انسان اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتا ہے۔ یعنی جو چیز محنت کر کے حاصل کی جائے۔ وہ پاکیزہ ہے۔ انسان کی اولاد کے متعلق فرمایا وانہ من کسبہ یعنی اولاد بھی انسان کی کمائی کا ایک حصہ ہے۔ لہٰذا ماں باپ کے لئے اولاد کی کمائی سے کھانا بالکل درست اور جائز ہے ۔ حرام اشیاء میں سے مردار ، خون اور خنزیر کے گوشت کا ذکر ہوچکا ہے اور ان کی وضاحت بھی گزشتہ درس میں ہوچکی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا گیا ، حضور ! سمندری سفر کے دوران ہمارے پاس میٹھے پانی کا وافر ذخیرہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم وضو بھی میٹھے پانی سے کریں تو پینے کے لئے پانی کی مقدار بہت کم رہ جاتی ہے ان حالات میں کیا ہم سمندر کے کڑوے پانی سے وضو کرسکتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔ امام اعظم نے اس مردار سے مراد ہر قسم کی مچھلی لی ہے ، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی یا سانپ کی مانند ہو۔ امام صاحب کے نزدیک مچھلی کے علاوہ دیگر سمندری جانور حلال نہیں ہیں۔ تاہم دیگر آئمہ کرام باقی سمندری جانوروں کو بھی حلال قرار دیتے ہیں۔ خون کے متعلق بھی سابقہ درس میں بیان ہوچکا ہے کہ اس سے مراد دم مستفوح یعنی بہتا ہوا خون ہے ، جو بوقت ذبح جانوروں کی رگوں سے نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ روبستہ خون یعنی جگر اور تلی حلال ہیں۔ انسانی جسم میں جگر خون تیار کرنے والی فیکٹری ہے اور تلی خون ذخیرہ کرنے کا ایک آلہ ہے۔ اس میں بیک وقت سات سو مکعب ملی میٹر خون جمع رہتا ہے جب کبھی کسی حادثہ میں انسانی جسم سے خون ضائع ہوجاتا ہے تو اس کمی کو پورا کرنے کے لئے تلی کا محفوظ خون حرکت میں آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں اس قسم کا خود کار انتظام پیدا کردیا ہے۔ خون کی کمی تلی کے اس ذخیرہ سے پوری ہوجاتی ہے۔ مسئلہ انتقال خون موجودہ زمانے میں انتقال خون (Blood Transfusion) یعنی جب کسی شخص کا خون بہت زیادہ مقدار میں بہ جائے تو اس کے جسم میں دوسرے شخص کا خون داخل کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ دراصل واضح مسئلہ ی ہے کہ کسی انسان کے کسی بھی عضو کو کسی دوسری جگہ استعمال کرنا احترام انسانیت کے خلاہے۔ لہٰذا کسی فوت شدہ آدمی کی آنکھ یا کوئی اور عضو عطیہ میں دنیا اور پھر اسے دوسرے انسانی جسم کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ حتی کہ ایک عورت کے بال بھی دوسری عورت اپنی زیب وزینت کے لئے استعمال کرسکتی ہیں۔ مگر کسی دوسرے انسان کے بال استعمال کرنا حرام ہے۔ قرآن پاک کا حکم ہے ولقد کر منا بنی ادم ہم نے انسان کو باقی تمام مخلوق پر عزت بخشی ہے۔ لہٰذا انسان کے کسی عضو کو دوائی کے طور پر بھی استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ انسان کا خون اگرچہ اعضا کی مانند تو نہیں ہے۔ مگر اعضا کی طرح محترم ضرور ہے لہٰذا اس کا استعمال بھی دوسرے اعضا کے اسعتمال کی طرح ناجائز ہے۔ اور عام حالات میں ایک شخص کا خون دوسرے کے جسم میں منتقل کرنا درست نہیں ہے۔ ہاں ایک اضطراری حالت ایسی ہے ۔ جس میں وقتی طور پر حرام چیز بھی جائز ہوجاتی ہے۔ اس کا ذکر آیت کے اگلے حصے میں آ رہا ہے۔ چونکہ انسانی اور حیوانی جسم و روح کا تعلق خون کے واسطہ سے قائم رہتا ہے۔ اس لئے جب جسم میں خون کی مقدار اس قدر کم ہوجائے کہ جان بچانا مشکل نظر آئے تو ایسی مجبوری کی حالت میں انتقال خون کی اجازت ہوگی۔ اور وہ بھی اس مقدار تک کہ اس سے کم پر جان کو خطرہ ہو ۔ بلا وجہ کئی کئی بوتل خون لگائے جانا جائز نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس معاملہ میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔ انتقال خون دوائی سے بڑھ کر خوراک کی حد میں داخل نہیں ہونا چاہئے۔ خنزیر کی حرمت کا بیان بھی گزشتہ درس میں آ چکا ہے۔ یہ جانور پچھلی ساری امتوں میں حرام رہا ہے ۔ مگر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ عیسائیوں نے اسے بھیڑ بکری کی طرح استعمال کیا حالانکہ تورات کے سفر الاحبار میں صاف موجود ہے کہ خنزیر نہ تو جگالی کرتا ہے اور نہ ہی اس کا پائو پھٹا ہوا ہے لہٰذا یہ قطعی حرام ہے۔ سفر استثناء میں بھی خنزیر کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ غیر اللہ کے نام پر محرمات اربعہ میں سے پہلے تین کا بیان گزشتہ دسر میں ہوچکا ہے۔ اب یہاں پر چوتھے حرام کا بیان آئے گا اور وہ ہے وما اھل بہ لغیر اللہ یعنی تمہارے لئے وہ چیز بھی حرام ہے جس پر اللہ کے سوا غیر کا نام پکارا جائے۔ یعنی ایسا جانور یا کوئی دوسری چیز جسے غیر اللہ کے قرب اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے نامزد کیا جائے ایسی چیز میں مردار سے بھی زیادہ خباثت سرایت کر جاتی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اجمع العلماء اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ لو قصد بذبحھا التقرب الی غیر اللہ جو شخص غیر اللہ کے تقریب اور خوشنودی کے لئے جانور ذبح کرے مارمرتداً وہ مرتد ہوجائے گا۔ اور اس کا مذبوح بھی مردار کی طرح حرام ہوگا۔ مثلاً کسی بات لات ، عزیٰ کے نام پر ذبح کیا ہے یا فرشتوں جنوں ، انبیائ ، بزرگ ، پیر ، فقیر کے نام پر ذبح کیا ہے ، سب حرام ہوگا۔ اس میں مجوسی بھی شامل ہیں کیونکہ وہ بھی آگ کے نام پر تقریب حاصل کرتے ہیں۔ ذبح کے بارے میں مسلم شریف کی روایت موجود ہے۔ لعن اللہ من ذبح لغیر اللہ جو اللہ کے سوا کسی غیر کے نام پر ذبح کرتا ہے۔ اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ فقہائے کرام نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص حاکم کی آمد پر اس کی تعظیم کے طور پر جانرو ذبح کرے گا ، تو وما اھل بہ لغیر اللہ میں داخل ہو کر حرام ہوجائے گا۔ ایسی وصرت میں اگر بوقت ذبح بسم اللہ اللہ اکبر بھی کہ دیا۔ تو و ہ حلال نہیں ہوگا ، بلکہ مردار ہی رہے گا ، وجہ یہی ہے کہ اس نے ایک جاندار کی جان حاکم کے تقرب اور اس کی خوشنودی کے لئے لی ہے۔ حالانکہ جان کا لینا صرف اللہ ہی کے نام پر ہو سکتا ہے۔ اور اگر جانور ذبح کرنے سے مقصود مہمان کی ضیافت کرنا ہو ، تو پھر یہ جائز ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ تقرب اور ضیافت میں تفریق کرنا آسان ہے۔ کسی شخص سے کہ اجائے کہ بھائی یہ جانور مت ذبح کرو بلکہ اس کی بجائے اتنی ہی مقدار میں گوشت لے کر پکالو اور مہمان کی مہمان نوازی کرلو۔ اور اگر وہ شخص مان جائے تو یہ ضیافت ہوگی اور اگر وہ کہے کہ میں تو جانور ہی ذبح کروں گا ، تو اس کی نیت ضیافت کی نہ ہوگی بلکہ تقرب کی ہوگی اور یہی چیز حرام ہے ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ذبح کرتے وقت جو بسم اللہ اللہ اکبر کہا جاتا ہے اس میں اللہ اکبر کی بالکل وہ یحیثیت ہے ، جو نماز شروع کرتے وقت اللہ اکبر کی ہے اگر نماز میں ریکاری کا مادہ ہوگا ، تو وہ نماز حرام ہوگی ، اسی طرح بوقت ذبح اگر نیت تقرب غیر اللہ کی ہوگی ، تو وہ ذبیح بھی مردار کی طرح حرام ہوگا۔ ہاں اگر نفلی نماز تقر الی اللہ کے لئے ادا کرے اور اس کا ثواب کسی دوسرے کو ایصال کرے تو جائز ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص ذبح تقرب الی اللہ کے لئے کرے اور اس کا ثواب کسی دوسرے کو پہنچا دے ، تو اس کی ممانعت نہیں۔ ما اھل بہ لغیر اللہ کا مسئلہ بڑا ہم مسئلہ ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور مولانا نانوتوی نے اس کو وضاحت سے بیان فرمایا ہے اس سلسلہ میں مولانا نانوتی کا ایک مکتوب بھی موجود ہے۔ فرماتے ہیں کہ ذبیح کے حلال ہونے کی علت وہ نیت ہے جو خلاص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ہو ، اور اس کے حرام ہونے کی علت وہ نیت ہے ، جو غیر اللہ کی رضا کے لئے ہو۔ زمانہ جاہلیت کے مشرک نیت سے بھی غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے اور ذبح کرتے وقت نام بھی غیر اللہ کا لیتے تھے۔ مومنوں کا شیوہ یہ ہے کہ وہ نیت سے بھی تقریب الٰہی چاہتے ہیں اور بوقت ذبح بھی اللہ اکبر کہتے ہیں۔ البتہ اس دور میں مبدعین کا ایک تیسرا گروہ پیدا ہوا ہے۔ جو ذبح کرتے وقت تو اللہ ہی کا نام لیتے ہیں مگر نیت غیر اللہ کی خوشنودی کی ہوتی ہے۔ یہ شرک اور نفاق ہے۔ داتا صاحب کی نیاز کے طور پر ذبح کئے گئے جانور پر اگر اللہ اکبر بھی کہ دیا جائے گا ، تو وہ حلال نہیں ہوگا کیونکہ یہاں پر نیت میں فتور ہے یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص خنزیر کو بسم اللہ ، اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے ، یا یہی عمل کتے پر دہرائے ، تو وہ حرام ہی رہیگا ہاں کوئی شخص غیر اللہ کی نیاز سے توبہ کرلے اور پھر اللہ اکبر کہہ کر ذبح کرے ، تو جانور حلال ہوگا۔ کیونکہ عمل کا دار و مدار نیت پر ہوتا ہے۔ اھل کا مفہوم بعض لوگ کہتے ہیں کہ اھل نعیر اللہ کا مطلب یہ ہے کہ بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیا جائے ، تو وہ چیز حرام ہوجاتی ہے اور اگر بوقت ذبح اللہ کا نام لیا جائے تو ذبیح حلال ہے۔ یہ غلطی ہے۔ اہلال کا معنی آواز کو بلند کرنا یا شہرت دینا ہے اسی لئے چاند نظر آجانے کو اہلال کہتے ہیں۔ اب اگر کسی جانور یا چیز کے متعلق شہرت دی جائے کہ یہ چیز پیران پیر یا فرشتوں یا پیغمبر کی نیاز ہے تو یہ اھل لغیر اللہ میں داخل ہو کر شرک کا ارتکاب ہوا اور چیز حرام ہوگئی۔ تابعین کے زمانہ میں ایک مسئلہ پیدا ہوا تھا ، جسے امام قرطبی نے نقل کیا ہے مسئلہ یہ تھا کہ بچوں نے کھیل کھیل میں گڑیا اور گڈے کی شادی طے کی اور اس خوشی میں اونٹ ذبح کیا ، تو اس اونٹ کا کیا حکم ہے ، وہ جائز ہوگا یا ناجائز ، امام حسن صری فرماتے ہیں کہ یہ ناجائز ہے کیونکہ یاونٹ گڑیا گڈے کے مجسمے کے نام پر ذبح کیا گیا ہے جو بت کی مثال ہے۔ ہاں اگر یہی ذبح کسی مرد و عورت کے اصل نکاح کے لئے ہوتا تو درست تھا۔ اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور میں طعام متبارربین کا مسئلہ پیدا ہوا ۔ دو سرداروں میں اس بات پر مقابلہ ہوگیا کہ ان میں سے کن مہمان نواز ہے ، ایک سردار نے مہمانوں کے لئے دس اونٹ ذبح کئے تو دوسرے نے بیس کردیئے۔ پہلے نے سو اونٹ ذبح کئے تو دوسرے نے چار سو ذبح کردیئے اسی طرح ایک سردار نے مہمان نواز کے لئے دس من آٹا گوندھا تو دوسرے نے بیس من گوندھ دیا۔ پھر پہلے نے حوض بھر آٹا گوندھا تو دوسرے نے اتنی زیادہ مقدار میں آٹا گوندھا کہ جب اس میں گھڑوا دوڑایا گیا تو وہ پھنس گیا۔ حضرت علی کی خدمت میں مسئلہ پیش ہوا کہ آیا اس قسم کا کھانا جائز ہے یا نہیں ، تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سب کچھ ریا کاری کی بناء پر ہوا ہے۔ لہٰذا ایسا کھانا حرام ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا تقرب مطلوب نہیں بلکہ غیر اللہ کی خوشنودی مقصود ہے۔ بعض لوگ مکان بناتے وقت اس کی بنیادوں میں جانور کا خون ڈالتے ہیں اس ذبیح سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ جنات کے شر سے محفوظ رہیں۔ یہ بھی شرک ہے۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ کی نیاز کے طور پر جانور ذبح کر کے فقراء کو کھلایا جائے تو درست ہے۔ حالت اضطرار چار محرکات کو بیان فرمایا کہ یہ سب انسان کے لئے حرام ہیں البتہ ایک صورت ایسی بھی ہے کہ یہ حرام مباں ہوجاتے ہیں فمن اضطر غیر باغ ولا عادفلا اثم علیہ جو کوئی اضطراری حالت میں ہو ، مثلاً بھوک سے مر رہا ہے اور صرف محرمات میں سے کوئی چیز میسر ہے تو ایسی صورت میں جان بچانے کی خاطر ان اشیاء کا کھانا درست ہوگا۔ فرمایا یہ اس حد تک ہی جائز ہے کہ نہ تو بغاوت پر اتر آیا ہے اور نہ ہی ضرورت سے زیادہ استعمال کرنے والا ہے۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ باغ سے مراد یہ ہے کہ اضطراری حالت میں مباح چیز ہے نہ لذت طلب کرے اور نہ اس کو حلال سمجھے اور تعدی سے مراد یہ ہے کہ ایسی کوئی چیز کم از کم مقدار میں استعمال کرے جس سے اس کی بھوک دور ہو سکتی ہو اور ضرورت سے زیادہ کھائے گا ، تو عاد میں داخل ہوجائے گا۔ بعض دوسرے آئمہ فرماتے ہیں کہ باغ سے مراد بغاوت کرنے والا ہے اور عاد سے مراد معصیت کرنے والا ہے مثلاً ایک شخص چوری کی نیت سے جا رہا ہے اور اس پر اضطراری حالت وارد ہوگئی تو ایسے شخص کے لئے مباح نہیں ہوگا۔ وہ گناہ میں مبتلا ہے۔ اور ایسی حالت میں اگر اس کی موت بھی واقع ہوجائے تو کوئی پروا نہیں۔ بہرحال فقہائے کرام نے فرمایا ہے کہ اضطرار تین حالتوں میں ثابت ہوتا ہے ۔ اگر ان میں سے کوئی حالت وارد ہوجائے ، تو حرام کا کھانا مباح ہوجائیگا اور جان بچانے کی حد تک جائز ہوگا۔ شدید بھوک لگ رہی ہو یا سخت بیماری ہو اور حرام کردہ چیز استعمال کرنے کے علاوہ کوئی اور صورت باقی نہ ہو۔ تیسری حالت اضطرار یہ ہے کہ کوئی غالب مغلوب کو ایسی چیز کھانے پر مجبور کر دے اور عدم تعمیل کی صورت میں جا نکا خطرہ ہو ، تو ایسی حالت میں بھی حرام چیز مباح ہوگی۔ فرمایا مجبوری کی حالت میں حرام کو استعمال کرنے پر کوئی مئواخذہ نہیں ان اللہ غفور الرحیم بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے وہ کسی مخلوق پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ایک شبہ اور اس کا ازالہ اس آیت میں صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے یعنی مردار ، خون ، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر نامزد کی ہوئی چیز ، حالانکہ ان کے علاوہ بھی بہت سے جانور مثلاً کتا ، بلی ، ریچھ ، بندر ، لنگور ، گدھا ، کوا ، چھپکلی ، کیڑے مکوڑے وغیرہ حرام ہیں۔ شاہ رفیع الدین فرماتے ہیں کہ صرف چار چیزوں کی حرمت بیان کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان چار کے علاوہ باقی تمام چیزیں حلال ہیں۔ بلکہ بات یہ ہے کہ یہاں صرف ان چزیوں کا نام لیا گیا ہے ، جو عام طور پر استعمال میں آتی ہیں اور مقصودیہ ہے کہ ان چیزوں کو کبھی حلال نہ جاننا ، یہ قطعی حرام ہیں ۔ البتہ اس کے علاوہ بہت سی دوسری چیزیں بھی حرام ہیں جن کا ذکر قرآن پاک کے دوسرے مقامات پر آتا ہے۔ حدیث پاک میں بھی بعض اشیاء کی حرمت بیان ہوئی ہے۔ لہٰذا ان چار کے علاوہ باقی سب چیزوں کو حلال سمجھنا درست نہیں۔ صرف چار چیزوں کی حرمت بیان کرنے کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ مشرک لوگ چار حلال چیزوں کو حرام سمجھتے تھے۔ ان کا ذکر سورة مائدہ میں موجود ہے کہ وہ لوگ بحیرہ ، سائبہ ، وصیہ اور حام کو حرام سمجھتے تھے ، مگر اللہ نے فرمایا کہ ہم نے تو ان چیزوں کو حرام نہیں کیا ، تم نے ان کی حرمت کس شریعت سے نکالی ہے۔ ان چار حلال چیزوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ چار چیزیں قطعی حرام ہیں۔
Top