Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 208
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے ادْخُلُوْا : تم داخل ہوجاؤ فِي : میں السِّلْمِ : اسلام كَآفَّةً : پورے پورے وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْا : نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم الشَّيْطٰنِ : شیطان اِنَّهٗ : بیشک وہ لَكُمْ : تمہارا عَدُوٌّ : دشمن مُّبِيْنٌ : کھلا
اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ بیشک وہ تمہارے لئے کھلا دشمن ہے
مکمل اسلام گزشتہ آیات میں منافقین کی مذمت اور مخلص ایمان والوں کی تعریف بیان کی گئی تھی کہ وہ اپنی جان اور مال ہر چیز اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے قربانی کرنے کو تیار ہوتے ہیں اب ان مخلص مئومنین سے خطاب ہے۔ یایھا الذین امنوا داخلوا فی السلم کآفۃ اے ایمان والو ! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو۔ کافۃ کا معنی جمیعاً ہوتا ہے۔ یعنی انسان اپنے جسم کے لحاظ سے اور ادھر احکام شریعت کے لحاظ سے پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں۔ وفاداری صرف اور صرف اسلام سے ہو ، باقی تمام ادیان ، بدعات ، رسومات باطلہ وغیرہ سے مکمل طور پر علیحدگی ہو۔ کیونکہ یہ چیزیں اسلام کے منافی ہیں۔ اگر اسلام کے ساتھ ساتھ ایسی قبیح چیزوں کے ساتھ بھی تعلق قائم رکھے گا ، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسا شخص مکمل طور پر اسلام میں داخل نہیں ہوا۔ کافۃ کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ انسان کے ظاہر و باطن اور عقیدے اور عمل میں کسی قسم کا تضاد نہ ہو جو کچھ دل کے اندر ہے زبان پر بھی وہی آنا چاہئے اور عقیدہ ہے عمل بھی اس کے مطابق ہو۔ زبانی دعویٰ کچھ ہو اور عملی طور پر اس کی تردید ہوتی ہو تو یہ اسلام میں مکمل طور پر داخلہ نہیں ہوگا۔ اگر عقیدہ توحید کا ہو اور عمل میں شرک پایا جائے۔ زبان پر اتباع سنت کا دعویٰ ہو ، مگر رواج بدعات کو دیا جا رہا ہے تو یہ چیز کافۃ کے منافی ہوگی۔ شیخ الند اور ترجمہ قرآن حضرت مولانا شیخ الہند محمود الحسن برصغیر کے بلند پایہ مفسر قرآن ہوئے ہیں انہوں نے حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے ترجمہ قرآن پاک کو آسان بنایا۔ ان کے زمانے میں جو ا لفاظ متروک زبان ہوچکے تھے انہیں آسان اور عام فہم الفاظ کے ساتھ بدل دیا یہ بامحاورہ ترجمہ آپ نے اسیری کے دوران مالٹا جیل میں مکمل کیا اور ساتھ دو سورتوں کا حاشیہ بھی لکھا مگر زندگی نے وفا نہ کی چناچہ بقیہ قرآن پاک کا حاشیہ آپ کے شاگرد شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے مکمل کیا۔ اس وقت برصغیر میں اردو زبان کا سب سے بہتر حاشیہ یہی ہے جو مختصر اور صحیح ہے۔ تفسیریں اور حاشیے تو اور بھی بہت سے ہیں۔ کوئی لمبا کوئی مختصر عربی اور فاسری زبانوں میں بھی بیشمار حواشی موجود ہیں۔ مگر یہ ترجمہ اور حاشیہ سب سے بہتر ہے۔ جو تمام عالمانہ خصوصیات کا حامل ہے۔ اس میں بدعات کا خاص طور پر روکا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب شیخ الہند مالٹا سے بذریعہ بحری جہاز واپس آ رہے تھے ۔ تو سمندر میں طوفان آ گیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب جہاز کے بچ نکلنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ نے ایک شاگرد کو جو ہمراہ تھا فرمایا کہ اس ترجمہ کو اپنے سینہ سے باندھ لو۔ اگر جہاز کی تباہی کی صورت میں تیرنا بھی پڑے تو اس ترجمہ کو ساتھ لیجانا۔ یہ مولانا عزیز گل سخاکوٹ پشاور کے رہنے والے تھے۔ اور تیرنا جانتے تھے۔ حضرت شیخ الہند کے ہمراہی پانچ شاگردوں میں سے مولانا عزیز گل ماشاء اللہ آج بھی 1 ؎ بقیہ حیات ہیں ۔ سمندری طوفان کے دوران اگر آپ کو کسی چیز کی فکر لاحق ہوئی تو وہ ترجمہ قرآن پاک تھا۔ جو آپ نے نہایت عرق ریزی سے لکھا تھا۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی اور جہاز صحیح سلامت طوفان سے بچ نکلا۔ الغرض حضرت شیخ الہند کو اس ترجمہ قرآن پاک کی اتنی فکر تھی کہ اور کسی چیز کی پروا نہ کی۔ آپ کو صرف اسی گوہر نایاب کی فکر لاحق ہوئی۔ شیخ الہند بڑے خدا پرست انسان تھے۔ محمد ث اور فقیہہ تھے۔ انگریزوں کے سخت دشمن تھے۔ انہیں ایک آنکھ دیکھنا بھی پسند نہ فرماتے آپ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کے دین ، مذہب اور قوم کو خراب کرنے والے انگریز ہی ہیں۔ مسئلہ کشمیر ، فلسطین ، قبرص ، شا م اور لبنان سب انگریز کے پیدا کردہ مسائل ہیں۔ یہ امریکہ تو کل کی پیداوار ہے۔ اصل فتنہ پرداز انگلینڈ والے ہیں۔ جو یہاں سے بھاگ کر امریکہ چلے گئے اور وہاں حکومت قائم کرلی۔ عیسائی خواہ امریکی ہوں یا برطانوی یا روسی انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کی مخالفت کی۔ انہوں نے ہندوستان میں ہندوئوں کے ساتھ ملا کر مسلمانوں کے ساتھ سازشیں کیں ان کو ذلیل و خوار کیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں سب پیروں اور مولویوں نے ترکی کے خلاف کفر کا فتویٰ دے دیا۔ یہ صرف حضرت مولانا شیخ الہند تھے جنہوں نے انگریز کی ڈٹ کر مخالفت کی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو گرفتار کر کے مالٹا میں قید کردیا گیا۔ بد عات کی تردید حضرت شیخ الہند نے اپنے ترجمہ قرآن میں کافۃ کا معنی یہی لکھا ہے کہ اسلام میں اس طرح داخل ہو جائو کہ تمہارا کوئی عمل احکام اسلام کے خلاف نہ ہو۔ اپنی عقل یا دوسرے کے کہنے سے دین میں کوئی چیز داخل نہ کرو کہ یہ بدعت ہے۔ مگر لوگ اسے اسلام کے نام کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ کیونکہ بدعت نام ہی اس عمل کا ہے۔ جسے اچھا سمجھ کر دین میں اپنی طرف سے شامل کرلیا جائے۔ حالانکہ دین کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو۔ فرماتے ہیں کہ اس کی مثال ایسے ہے ۔ جیسے نماز اور روزہ افضل ترین عبادات میں سے ہیں۔ لیکن جب کوئی شریعت کی مقررہ نماز کے علاوہ ؎ اب وفات پا چکے ہیں۔ (فیاض) اپنی طرف سے کوئی نماز ایجاد کریگا تو وہ بدعت ہوگی ۔ مثلاً عید کے روز عید گاہ میں نوافل ادا کرنا اگرچہ نماز ہے مگر اسے بدعت کہیں گے۔ کیونکہ دین میں اس کی اصل نہیں ہے۔ اسی طرح ہزارہ روزہ رکھنا بھی بدعت میں شمار ہوگا۔ کیونکہ اپنی طرف سے دین میں شامل کیا گیا ہے۔ ایصال ثواب کی تمام رسوم بھی اسی قبیل سے ہیں۔ تیرا ، دسواں چہلم وغیرہ کار ثواب اور مزدے کے لئے باعث اجر سمجھ کر کیا جاتا ہے مگر شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ اسی طرح حضور ﷺ کی مدح سرائی کے لئے نعت خوانی اور محافل میلاد منعقد کی جاتی ہیں اور مختلف مقامات پر مختلف طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ شریعت کی منشا اور اس کے حکم کے بغیر ہوتا ہے۔ ملا علی قاری اور دیگر فقہائے کرام لکھتے ہیں۔ کہ نماز جنازہ کی سلام پھیرنے کے بعد دعا نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ جنازہ میں اپنی طرف سے اضافہ تصور ہوگا۔ یہ چیز شارع (علیہ السلام) سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح جب اقامت صلوۃ کے آخری کلمات لا الہ الا اللہ کہے جاتے ہیں تو دوسرے لوگ محمد رسول اللہ کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی بہت بڑی نیکی اور ثواب کی خاطر کیا جاتا ہے حالانکہ حضور ﷺ سے قطعاً ثابت نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آج کے مسلمان کو حضور ﷺ کے طریقے پر یقین نہیں آیا۔ لہٰذا اس میں اضافہ کرلیا ہے۔ اذان سے پہلے درود شریف بہت بڑی سعادت سمجھ کر پڑھا جاتا ہے۔ حالانکہ حضور ﷺ نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ اس قسم کی بدعات کا ارتکاب محض اپنی عقل کی پیروی میں کیا جاتا ہے۔ نوافل کی ادائیگی بلاشبہ خیر کثیر ہے۔ مگر اس کی جماعت ثابت نہیں ۔ فقہائے کرام نے اسے بھی بدعت سے تعبیر کیا ہے۔ ہاں جن نمازوں کی جماعت حضور ﷺ سے ثابت ہے ، وہ درست ہے۔ ان میں نماز تراویح ، صلوۃ کسوف اور نماز استسقاء وغیرہ مگر صلوۃ التسبیح کی جماعت کہاں سے آگئی۔ علمائے احناف اسے بھی بدعت قرار دیتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک میں درست نہیں ہے۔ حالانکہ یہ نماز ہے اور اعلیٰ درجے کی عبادت ہے۔ الغرض ! خلاصہ ان آیات کا یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ ایمان لائو اور بدعات سے بچتے رہو اور اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی بعض لوگ مکمل طور پر اسلام میں داخل نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں اہل کتاب کی مثال موجود ہے۔ یہودی علماء میں سے حضرت عبداللہ بن سلام کو اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی اور وہ اسلام لائے۔ بعض دوسرے یہودی بھی مشرف بہ اسلام ہوئے حضرت شیخ الہند لکھتے ہیں کہ اگرچہ وہ پورے اخلاص کے ساتھ مسلمان ہوئے تھے۔ مگر ان کا خیال تھا کہ قرآنی احکام کے ساتھ ساتھ تورات کے احکام کی بھی رعایت ہونی چاہئے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس خیال کی تردید فرما دی کہ اسلام کے ساتھ ساتھ کسی اور شریعت یا دین کی رعایت اسلام میں مکمل داخلے کی نفی ہوگی۔ لہٰذا باقی تمام شرائع اور ادیان کو چھوڑ کر اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو۔ تورات میں حکم موجود ہے کہ ہفتہ کے روز سوائے عبادت الٰہی کے اور کوئی کام نہ کرو۔ گویا اس دن دنیوی کاروبار مکمل طور پر بند کرنے کا حکم تھا۔ حتیٰ کہ چولہا بھی گرم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ نہ زراعت ، نہ دکانداری اور نہ کوئی اور کام کرنے کی اجازت تھی۔ اسی طرح یہودیوں کے دین میں اونٹ کا گوشت کھانا اور دودھ پینا ممنوع تھا۔ تو نو مسلم یہودیوں نے خیال کیا کہ اسلام میں جمعہ کو افضل دن قرار دیا گیا ہے۔ ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں اور سا کے ساتھ ساتھ پرانے طریقے پر اگر ہفتہ کی تعظیم بھی روا رکھی جائے اور ممنوعات کی پابندی کی جائے تو کیا حرج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسی بات سے منع فرما دیا اور حکم دیا کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو۔ اب اسلامی احکام کے ساتھ دوسری شریعت کی پابندی روا نہیں ہے اگر اب بھی ایسا کیا جائے تو یہ فعل بدعث شمار ہوگا۔ کیونکہ شریعت محمدی نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔ ظاہر و باطن میں یکسانگی ادخلوا فی السلم کآفۃ ایک جامع آیت ہے۔ اسلام میں مکمل داخلہ صرف ظاہری اعمال تک ہی موقوف نہیں۔ بلکہ باطنی طور پر بھی اسلام کے احکام پر پورا پورا یقین ہونا چاہئے۔ ظاہراً تمام اعضاء مثلاً ہاتھ ، پائوں ، کان اور آنکھ احکام اسلام پر کاربند ہوں جس طرح بعض روایات میں آتا ہے کہ روزہ صرف بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں بلکہ آنکھ ، کان ، زبان اور دیگر تمام اعضاء جوارح کا روزہ ہونا چاہئے اسی طرح باطناً دل میں بھی پورا ایمان و یقین ہو کہ ان احکام کو پورے خلوص نیت کے ساتھ انجام دینا ہے۔ اگر ایسی کیفیت پیدا ہوجائے ، تو سمجھ لیجیے کہ آپ نے کآفۃ کا مفوہم پا لیا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے۔ ظاہر و باطن میں تضاد پایا جاتا ہے۔ کچھ حصہ اسلام کا لے لیا اور کچھ بدعات کو بھی اپنا لیا یا کوئی عبادت اسلام سے لے لی اور کچھ چیزیں کسی اور شریعت یا مقامی رسم و رواج سے حاصل کرلیں تو اسلام میں مکمل داخلہ تصور نہیں ہوگا۔ آپ کو یاد ہے سابقہ حکومت نے نعرہ لگایا تھا کہ دین تو مہارا اسلام ہے۔ مگر معیشت ہماری سوشلزم اور رسالت ہماری جمہوریت ہوگی تو بتائیے یہ اسلام کی مکمل اتباع کیونکہ ہوگی۔ یہ تو تثلیث بنا کر رکھ دی۔ یقینا یہ اس آیت کریمہ کی نفی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو حکم دیتا ہے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائو اور یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک تہائی اسلام کا لیں گے اور باقی دو تہائی کے لئے دوسروں کے دروازے پر جائیں گے ہم نے اسی وقت کردیا تھا کہ یہ نعرہ اسلام کے سراسر منافی ہے اگر دین اسلام ہے تو پھر معیشت اور سیاست بھی اسلام یہ سے کرنا ہوگی۔ ورنہ یہ قول و فعل میں تضاد اور ظاہر و باطن میں عدم یکسانیت ہوگی۔ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کے ارشاد عالیہ کتب احادیث بخاری و مسلم وغیرہ میں مرتب شکل میں دستیاب ہیں ان میں نظام حکومت کا مکمل خاکہ موجود ہے۔ خلفاء راشدین کے نظام حکومت کی تفصیلات موجود ہیں۔ شاہ ولی اللہ کی ازالتہ الخفاء اور یدگر کتب میں دستور مملکت موجود ہے۔ مگر آپ اس کو چھوڑ کر غیروں کے نظام تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں ابھی تک انگریز کا قانون نافذ ہے۔ قوانین دیوانی و فوجداری ، تجارت و معیشت وغیرہ سب انگریزی قانون ہیں انگریز کے زمانہ میں ان قوانین کو قبول کرنا تو ہماری مجبوری تھی ، اب کیا تکلیف ہے ہم اسلامی نظام کیوں نافذ نہیں کرسکتے کیا کار پرداز ان حکومت کو اسلام کے قوانین و نظریات پر اعتماد نہیں ہے۔ اگر اعتماد ہوتا تو انگریزی قوانین پہلے دن سے تبدیل کردیئے جاتے۔ اسلام انقلابی مذہب ہے اصل بات یہ ہے کہ اس وقت اسلام کو انقلابی مذاہب ہم خود اور ہمارے حکمران تسلیم نہیں کرتے۔ اسی لئے وہ اسلام کا نفاذ بتدریج چاہتے ہیں نتیجہ یہ ہوگا۔ کہ جس طرح پہلے حکمران نفاذ نہیں ہوگا۔ اور اس کے بعد تیسرا آجائے گا وہ اپنا طور طریقہ اپنا ئیگا۔ ہر کہ آمد عمارت نو ساخت مگر لوگ اسلام کی برکات سے محروم ہی رہیں گے۔ جب تک اسلام کو انقلابی اقدام کے طور پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔ کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس ضمن میں حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کا طریقہ دیکھیے ۔ فتح مکہ کے روز حضور نے انقلابی اعلان فرمایا تھا کہ جاہلیت کی ہر رسم آج میرے پائوں کے نیچے روند دی گئی ہے۔ آج کے بعد کسی مشرک کو برہنہ حالت میں طواف کعبہ کی اجازت نہیں ہوگی کسی غیر مسلم کو مکہ مکرمہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ آج کے بعد تمام سودی کاروبار بند کئے جاتے ہیں۔ یہ سب انقلابی مذہب کے انقلابی پروگرام تھے جو غلط پروگرام کی جگہ فی الفور نافذ کردیئے گئے۔ مقصد یہ کہ اگر عقیدہ اسلام کا ہے تو پھر قوانین بھی اسلامی نافذ ہونے چاہئیں جو ہر شعبہ زندگی پر حاوی ہوں۔ ملکی مسائل معاشی ہوں یا معاشرتی ، عبادات ہوں یا رسم و رواج ہر معاملہ میں اسلام سے راہنمائی حاصل کرنا ہوگا۔ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر سے کام نہیں چلے گا۔ ہمارے پاس ہر ہر شعبہ کے لئے قوانین موجود ہیں ، ضرورت صرف عمل کی ہے۔ اسلام کی عملداری میں نہ انگریز کی جمہوریت چلے گی ، نہ سوشلزم کی اقتصادیات ہوں گی اور نہ کارل مارکس کی اشتراکیت کا کوئی حصہ ہوگا۔ بلکہ پورے کا پورا نظام نظام اسلامی ہوگا۔ حتیٰ کہ دیوانی اور فوجداری قوانین بھی وہی نافذ ہوں گے جو اسلام نے عطا کئے ہیں حق دار کی حق رسی انہی قوانین کے ذریعے ممکن ہے اور ظالم کو ظلم کا بدلہ یہی قوانین دلا سکتے ہیں۔ یہی وہ قوانین ہیں ، جن کے ذریعے دنیا میں امن وامان قائم ہو سکتا ہے۔ ادخلوا فی السلم کافۃ کا یہی مطلب ہے۔ شیطان کے نقش قدم یہودیوں میں بھی یہی خصلت پائی جاتی ہے کہ وہ بھی اپنی کتاب پر مکمل ایمان نہیں رکھتے تھے۔ کسی حکم کو مانتے تھے اور کسی کا انکار کردیتے تھے۔ جبھی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں جتلایا افتومنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض کیا تم کتاب کے کسی حصے کے ساتھ ایمان لاتے ہو اور کسی حصے کو نہیں مانتے۔ یہ تمہارا ایمان کیسا ہے۔ یہ تو سرا سر منافقت ہے۔ اس روش کو چھوڑ کر پورے کے پورے ایمان میں داخل ہو جائو ولا تتبعوا خطوت الشیطن اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔ گویا بدعات پر چلنا شیطان کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ انہ لکم عدو مبین۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اس کے بہکاوے میں نہ آجانا۔ مطلب یہ کہ جو کوئی دین اسلام کا راستہ چھوڑ کر ہندوانہ رسم و رواج کو اپنائے گا۔ انگریزوں اور اشتراکیوں کا قانون اختیار کرے گا۔ وہ شیطان کے نقش قدم پر چلے گا اور ظاہر ہے کہ دشمن ہمیشہ دشمنی کرتا ہے۔ وہ کبھی خیر خواہی کی بات نہیں کرتا۔ وہ تمہیں پستی کی طرف لے جائے گا۔ شیطان کا تو کام ہی یہ ہے۔ یدعوا حزبہ لیکونوا من اصحب السعیر وہ تو اپنا بڑے سے بڑا گروہ لے کر جہنم کی طرف رواں ہے اور اپنے نقش قدم پر چلنے والوں کو اس کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ وعید خداوندی اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مکمل نفاذ کی ترغیب دینے کے بعد اس سے روگردانی کرنے والوں کو وعید بھی سنائی ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ فان زللتم من بعد ماجآء تکم البینت اور اگر تم پھسل گئے بعد اس کے کہ تمہارے پاس نشانیاں آگئیں۔ فاعلموا تو یاد رکھو ان اللہ عزیز حکیم بیشک اللہ تعالیٰ زبردست ہے اور حکمت والا ہے وہ کمال قدرت کا مالک ہے اس کی سزا سے بچ نہیں سکتے۔ اس کی حکمت کے مطابق دیر ہو سکتی ہے ۔ مگر گرفت سے بچائو ممکن نہیں۔ وہ تمہارے کئے کا ضرور بدلہ دے گا۔ دوسرے مقام پر فرمایا قد تببین الرشد من الغنی نیکی اور بدی کی واضح نشان دہی ہوچکی اب تمہارا کوئی عذر قبول نہیں کیا جائے گا۔ ان واضح ہدایت کے بعد نیکی یا بدی کا اختیار کرنا تمہارے بس میں ہے اور اس پر جزا یا سزا دینا اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے ذمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے احکام نہ ماننے والوں کے متعلق یہ ارشاد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے وہ کیوں ایمان نہیں لاتے۔ انہیں کس چیز کا انتظار ہے۔ جسے دیکھ کر ایمان لائیں گے۔ ھل ینظرون الا ان یاتیھم اللہ فی ظلل من الغمام والملئکۃ یہ لوگ محض اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے ان کے پاس بادلوں کے سائے میں آئیں مطلب یہ کہ منکرین کی خواہش یہ ہے کہ جو چیز قیامت کو ظاہر ہونے والی ہے۔ وہ آج ہی ہوجائے۔ بادلوں کے سائبانوں پر نزول اجلال تو قیامت کے روزہو گا جب اللہ تعالیٰ خود نزول اجلال فرمائیں گے اور سائبان جو ہوں گے۔ وہ نار ، نور اور پانی کے ہوں گے۔ ستر ہزار حجاب میں اللہ تعالیٰ نزول اجلال فرمائے گا۔ اردگرد فرشتے تسبیح پڑھ رہے ہوں گے۔ اس وقت عدالت قائم ہوگی اور اللہ تعالیٰ ہر ایک کا فیصلہ فرمائیں گے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ سب کچھ آج ہی ہوجائے۔ بھلا قبل از وقت یہ کیسے ممکن ہے۔ دوسری جگہ فرمایا ” فبای حدیث بعدہ یومنون “ قرآن پاک اللہ کی آخری کتاب ہے ، اس کے آجانے کے بعد یہ اور کس کتاب کے منتظر ہیں ۔ جس پر ایمان لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر خاتم النبین تشریف لا چکے۔ اب ان کی راہنمائی کے لئے اور کون سا نبی آئے گا۔ جس کا یہ لوگ انتظار کر رہے ہیں اب کوئی شریعت ، کوئی پروگرام نہیں جو باقی ہے اور جس کا انتظار کیا جائے۔ الغرض فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا بادلوں کے سائبانوں میں نزول اجلال تو قیامت کے روز ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی تجلی ستر ہزار پردوں کے اندر ظاہر ہوگی۔ کائنات کی ہر چیز درہم برہم ہوجائے گی۔ اور سخت ناراضگی کا ظہور ہوگا۔ چناچہ اس وقت وقضی الامر فیصلہ کردیا جائے گا مگر یاد رکھو والی اللہ ترجع الامور تمام کام اللہ ہی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون اٹل ہے۔ اس کا مقرر کردہ ہر کام وقت پر ہوگا۔ اسی کے قانون کے مطابق انسانوں کو اس دنیا پر مہلت دی جاتی ہے۔ مگر آخری فیصلہ اور نزول اجلال قیامت کے روز ہی ہوں گے۔ یہ چیزیں قبل از وقت وقوع پذیر نہیں ہوں گی۔
Top