Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ : پوچھو بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل كَمْ : کس قدر اٰتَيْنٰھُمْ : ہم نے انہیں دیں مِّنْ : سے اٰيَةٍ : نشانیاں بَيِّنَةٍ : کھلی وَ : اور مَنْ : جو يُّبَدِّلْ : بدل ڈالے نِعْمَةَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْهُ : آئی اس کے پاس فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
آپ بنی اسرائیل سے پوچھیں کہ ہم نے ان کو کتنی واضح نشانیاں دیں اور جو کوئی اللہ کی نعمت کو تبدیل کرے گا۔ اس کے بعد کہ وہ نعمت اس کے پاس پہنچ چکی۔ پس بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
واضح نشانیاں گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا تھا۔ کہ اس کے واضح احکامات آجانے کے بعد ان کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ احکام الٰہی کی تعمیل ہونی چاہئے واضح نشانات کے بعد بھی اگر کوئی شخص پھسل جائے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آسکتا ہے۔ اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے بطور مثال ارشاد فرمایا ہے۔ سل بنی اسرآئیل ، آپی ذرا بنی اسرائیل سے دریافت تو کریں کم اتینھم من ایۃ بینہ ہم نے ان کو کتنی واضح نشانیاں عطا کیں۔ واضح یا کھلی نشانیوں میں تعلیم بھی آتی ہے۔ اور معجزات بھی آتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے توسط سے تمہیں کس قدر واضح معجزات عطا کئے۔ ان کی تفصیل پہلے آ چکی ہے منجملہ ان کے ابر کا سایہ کرنا پتھروں سے بارہ چشمے جاری کر کے بنی اسرائیل کو سیراب کرنا ، ان کے لئے من وسلویٰ کی خوراک مہیا کرنا ، دشمن کو آنکھوں کے سامنے ہلاک کرنا ، بنی اسرائیل کے لئے سمندر میں راستے بنا دینا وغیرہ وغیرہ ایسے واضح نشان اور معجزات ہیں جو بنی اسرائیل کو عطا کئے گئے ۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا انکار کیا اور پے در پے غلطیاں اور کوتاہیاں کیں جن کا ذکر اس سورة مبارکہ میں آ چکا ہے اور جن کی تعداد کم و بیش چالیس ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر بار معاف فرمایا۔ بنی اسرائیل بہت بڑی قوم تھی۔ دنیا میں جاہ و وقار کی مالک تھی۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کو اللہ نے علم و حکمت اور بادشاہی عطا کی۔ تمام دنیوی نعمتوں سے مالا مال کیا مگر اس کے باوجود جب ان کی سرکشی حد سے تجاوز کرگئی تو اللہ تعالیٰ نے ذلیل و خوار کر کے عذاب میں مبتلا کردیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے۔ ومن یتبدل نعمۃ اللہ من بعد ما جآء تہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کے پہنچ جانے کے بعد جو اسے بدل ڈالے فان اللہ شدید العقاب تو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔ انبیاء نعمت الٰہی ہیں انبیاء (علیہم السلام) کا وجود بھی خدا تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوتا ہے۔ اور عام لوگوں کے لئے معیار اور نمونہ ہوتا ہے۔ جسے دیکھ کر لوگ اپنے ظاہر و باطن کو درست کرسکتے ہیں۔ انبیاء کا وجود انسانوں کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے چناچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو اسی نعمت سے تعبیر کیا ہے۔ ” الم تر الی الذین بدلوا نعمۃ اللہ کفراً کیا تم نے مشرکین عرب کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کے ساتھ کفر کیا۔ اس نعمت سے مراد حضور پاک ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ آپ پر ایمان لانے اور آپ کا اسوہ اختیار کرنے سے اعراض کیا۔ لہٰذا خود بھی جہنم میں گئے اور قوم کو بھی جہنم رسید کیا۔ علم اور عمل انسان کے لئے لازمی چیزیں ہیں۔ ان کے بغیر کامیابی ممکن نہیں علم اللہ تعالیٰ کی جانب سے بذریعہ وحی حاصل ہوتا ہے اور عمل انبیاء سے ملتا ہے۔ انبیاء معیار ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر اعمال درست کئے جاتے ہیں۔ قرآن پاک نے فرمایا لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ اللہ کے رسول تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر اس اسوہ کی ضرورت ہے۔ خوشی کا موقع ہو یا غمی کا ، صلح کی حالت ہو یا جنگ کی ، نبی کی ذات ہر حالت میں نمونہ ہوتی ہے اور یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو تبدیل کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے ایسے شخص کو اپنا انجام دیکھ لینا چاہئے۔ انعامات کی ناقدری جس طرح پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات بابرکات انعام خداوندی ہے۔ اسی طرح قرآن پاک بھی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس نعمت کی بھی قدر نہیں کی۔ آپ ہر خطبہ میں سنتے ہیں خیر الکلام کلام اللہ تمام کلاموں سے بہتر اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ وخیر الھدی مدی محمد صلی اللہ لعیہ وسلم اور بہترین طریقہ حضور ﷺ کا طریقہ ہے۔ مگر آج کون ہے۔ جو ان دونوں انعامات سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمارے لئے راہ ہدایت ہیں۔ مگر جب کسی خوشی غمی ، قومی و ملکی ، سیاسی و معاشرتی معاملات میں راہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے ، تو ان سے راہنمائی حاصل کرنے کی بجائے رسم و رواج کا سہارا لیتے ہیں۔ یا دوسرے غیر اسلام ازموں کی طرف دیکھتے ہیں۔ کیا یہ انعامات کی ناقدری نہیں۔ گزشتہ چوبیس سال میں ہمارے پاس صرف ایک آدمی آیا ہے جس نے طلاق کے مسئلہ میں صحیح راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہنے لگا کہ ہمارے بچے اور بیوی میں تنازعہ ہے۔ دو سال سے مصالحت کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ نوبت طلاق تک پہنچ چکی ہے۔ لہٰذا آپ ہمیں طلاق کا شرعی طریقہ بتائیں تاکہ ہم عند اللہ ماخوذ نہ ہوں اس ایک کیس کے علاوہ ہمیشہ یوں ہوا ہے کہ از خود تین طلاقیں دے دیں اس کے بعد جب ندامت ہوئی تو ہمارے پاس آگئے کہ جلد ی میں طلاق دیدی ہے۔ اب کوئی ایسا طریقہ بتائیں جس سے مطلقہ دوبارہ حلال ہوجائے۔ اللہ کے بندو ! بغیر سوچے سمجھے ، بغیر مسئلہ دریافت کئے ایسا کام کیوں کرتے ہو ، جسے خود تمہیں تکلیف ہو اور جو تمہارے والدین اور پورے خاندان کے لئے باعث اذیت ہو چاروں مذاہب میں تیسری طلاق کے بعد بیوی حرام ہوجاتی ہے۔ اگر زبردستی حلال کرنے کی کوشش کرو گے ، تو حلال نہیں ہوگی۔ اولاد بھی مشکوک اور حرام ہوگی۔ پھر جا کر شیعوں اور اہل حدیثوں سے مسئلہ دریافت کرتے ہیں۔ کہ کسی طرح حلت کا فتویٰ مل جائے۔ یہ سب انعامات خداوندی کی ناقدری ہے۔ اس نعمت کو بروقت استعمال کرنا چاہئے اور شیطان کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہئے۔ جس قوم کے پاس قرآن و حدیث جیسی نعمت موجود ہو اسے کس چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟ کبھی امریکہ کی طرف دوڑتے ہیں۔ کبھی برطانیہ اور فرانس کی طرف دیکھتے ہیں کہ ہمیں سکیم دو ۔ کوئی ایڈوائزر بھیجو جو ہماری راہنمائی کریں یہ کس قدر کفران نعمت کی بات ہے فکر اور عقیدہ فاسد ہے۔ جس کی وجہ سے راہ راست میسر نہیں آ رہا ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو تبدیل کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ خود سخت سزا دینے والا ہے۔ اس کی نعمتوں سے روگردانی کر کے ، قرآن و سنت کا دامن چھوڑ کر عزت کہاں نصیب ہو سکتی ہے ۔ ایسی صورت میں تو عذاب و سزا کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اپنے اردگرد نظر مار کر دیکھ لیں ، کوئی قوم سلطنت کے چھ جانے کے عذاب میں مبتلا ہے کہیں بدعات اور رسوم باطلہ کا دور دورہ ہے۔ محتاجی ہے۔ دین محبوس ہوگیا ہے ۔ نیکی سے محرومی ہے۔ بدی کا چرچا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کی سزا ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ، جس باویہ میں جس کنوئیں پر تین آدمی موجود ہوں اور وہ نماز با جماعت ادا نہ کریں۔ استخوذ علیھم الشیطن ان پر شیطان قابو پا لیتا ہے۔ مقصد یہ کہ جب بھی کوئی قوم اسلام کے خلاف چلے گی ، اس پر شیطان قابو پا لے گا۔ اور یہی عذاب ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے انعامات کی قدر کرنا چاہئے۔ بنی اسرائیل نے ان نعمتوں کی قدر نہ کی ، معجزات کو ٹھکرایا ، نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئے اپنی سازشی ، تخریبی اور گندی ذہنیت کی بناء پر بدترین قوم بن کر رہ گئے۔ اسی طرح جو بھی قوم اللہ تعالیٰ کے انعامات کی ناقدری کریگی ذلیل و خوار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے آخری نبی کو مبعوث فرمایا۔ آپ کے ساتھ ایک معیاری جماعت کو پیدا کیا ، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ تھے۔ ان کی پیروی کرنے والے دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوئے۔ دنیا میں عروج حاصل ہوا فتوحات نصیب ہوئیں اور آخرت میں بھی بہترین اجر وثواب کے مستحق ہوئے۔ حب دنیا اس کے بعد دنیا کی حقیقت کو واضح فرمایا کہ کفار کے نزدیک دنیا کی کیا حیثیت ہے اور اہل ایمان کی حالت دنیا میں کیا ہے اور آخرت میں ان کے لئے کون سے انعامات تیار کئے گئے ہیں۔ فرمایا زین للذین کفروالحیوۃ الدنیا جن لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ، ان کے لئے دنیا کی زندگی مزین کی گئی ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو سارے شر و فساد کی جڑ ہے۔ جب کوئی شخص دنیا کی محبت میں اس قدر غرق ہوجائے کہ صرف اسی کو اپنا مقصد حیات بنا لے تو پھر طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ دوسروں کی حق تلفی ، قتل و غارت ، عیش و عشرت یہ سب دنیا سے غیر معمولی محبت کا ثمرہ ہے۔ حضور لعیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے۔ حب الدنیا راس کل خطیئۃ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ محبت سے مراد ایسی محبت ہے۔ جس سے آخرت بھی فراموش ہوجائے۔ دین ختم ہوجائے عبادت رہ جائے خدا پرستی کے طور طریقے ناپید ہوجائیں اور حالت یہ ہوجائے کہ یعلمون ظاھراً من الحیوۃ الدنیا وہ دنیا کی تمام ظاہری چیزوں کو جانتے ہیں وھم عن الاخرۃ غفلون مگر آخرت کے بارے میں بالکل غافل ہیں ، کچھ نہیں جانتے بظاہر بڑے عقل و دانش کے مالک ہیں۔ مگر معاد کے متعلق ذرہ بھر بصیرت نہیں رکھتے۔ اسی کا نام گمراہی ہے انسان جس قدر دنیوی محبت میں گرفتار ہوگا نیکی سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ اسی کے متعلق فرمایا کہ کافروں کے لئے دنیا کی زندگی کو مزین کیا گیا ہے۔ اہل ایمان سے ٹھٹھا فرمایا جو لوگ دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ ان کی ایک قبیح حرکت یہ ہے کہ ویسخرون من الذین امنوا وہ اہل ایمان کو تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایمان والوں کو ظاہری کمزوری ، ان کا فقر و فاقہ دنیا داروں کے لئے ٹھٹا بن جاتا ہے ان پر آوازے کستے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا واذا مروابھم یتغامزون کافر لوگ غریب مسلمانوں کو دیکھ کر اشارے کرتے ہیں کہ دیکھو یہ جنت کے وارث جا رہے ہیں۔ پھٹے پرانے کپڑے ، نہ زمین نہ باغات ، نہ رہنے کو مکان ، مگر دعویٰ جنت کا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن کے دل میں محض دنیا کی محبت گھر کرچکی ہے۔ ان کے لئے دنیا کے لوازمات اور آسائش ہی معیار ہے۔ ان کے نزدیک ایسا شخص حقیر ہے جس کے پاس دنیا کا مال و دولت نہیں ہے اور اس ساری خرابی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ اہل تقویٰ فرمایا اہل دنیا کے برخلاف والذین اتقوا جو لوگ اہل تقویٰ ہیں جو دنیا سے بےرغبت اور آخرت پر نظر رکھتے ہیں۔ فوقھم یوم القیمۃ وہ قیامت کے دن اہل دنیا سے بلند تر درجات پر فائز ہوں گے۔ تقویٰ ، کفر شرک اور معصیت سے پرہیز گاری کا نام ہے یعنی التقویٰ عن الشرک والکفر والنفاق والعصیان غرضیکہ عقائد و اعمال کی ہر برائی سے بچ جانا ہی تقویٰ ہے شیخ عبدالقادر جیلانی آیت پاک ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ متقی وہ لوگ ہیں جو عدل و انصاف پر قائم ہیں اور جو لوگ ظالم ہیں ، عدل و انصاف سے عاری ہیں۔ وہ متقی نہیں ہو سکتے۔ الغرض ! فرمایا کہ دنیا میں تو یہ لوگ اہل ایمان سے ٹھٹھا کرتے ہیں۔ مگر قیامت کے دن اہل ایمان ان سے بالا ہوں گے۔ حضرت علی کی روایت میں آتا ہے کہ جو شخص کسی مومن سے اس کی ناداری کی بناء پر پٹھا کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے شخص کو تمام اولین اور آخرین کے سامنے ذلیل و رسوا کرے گا جو کوئی شخص کسی مومن پر ایسا عیب لگاتا ہے جو اس میں نہیں پایا جاتا تو قیامت کے روز عیب لگانے والے کو آگ کے ٹیلے پر کھڑا کیا جائیگا اور کہا جائے گا کہ سب کے سامنے خود اپنی تکذیب کرو۔ میں نے اس پر جھوٹ کہا تھا۔ درحقیقت اس مرد مومن میں یہ عیب نہیں پایا جاتا تھا۔ آج تو یہ لوگ طرح طرح کے مذاق کرتے ہیں ، عیب جوئی کرتے ہیں اور بہتان لگاتے ہیں۔ مگر انہیں قیامت کے دن پتہ چلے گا۔ جب دنیوی زندگی میں کمزور ناتواں مومن ان پر حاوی ہوں گے اور بلند مراتب پر فائز ہوں گے۔ یہ مقام انہیں تقویٰ کی وجہ سے حاصل ہوگا۔ قرآن پاک میں متقین کا ذکر بار بار ہے۔ جیسے ھدی للمتقین سورة بقرہ کی ابتداء میں ہے۔ کہ یہ قرآن پاک ، یہ ہدایت متقیوں کے لئے ہے۔ دوسری جگہ فرمایا اولئک الذین صدقوا واولئک ھم المتقون یعنی جن لوگوں کا ایمان اعمال اور اخلاق اچھا ہے۔ جن میں تہذیب نفس پایا جاتا ہے۔ وہی لوگ سچے ہیں اور ایسے ہی لوگ متقی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ دنیا میں اگر ظاہری اسباب کے لحاظ سے کوئی شخص نادار اور کمزور ہے تو اس کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ مدار کا ر دولت مندی اور ناداری نہیں ، بلکہ ایمان ، تقویٰ اور نیکی ہے۔ کیونکہ ” ان اکرمکم عند اللہ اتقکم “ اللہ کے نزدیک قدر و منزلت کا معیار تقویٰ ہے۔ ایک مزدور بڑی محنت و مشقت سے اپنی روزی کماتا ہے۔ اس کا عقیدہ بھی درست ہے۔ فرائض کو ادا کرتا ہے ، تو ایک بڑے سے بڑا دولت مند اس کے خاک پا کے برابر بھی نہیں ۔ چہ جائیکہ ایک مالدار ایک مزدور کو حقیر سمجھے۔ یہ تو باعث لعنت ہے۔ ایسا شخص عذاب کا مستحق ہے۔ رزق کی فراوانی فرمایا واللہ یرزق من یشآء بغیر حساب اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ رقز کی فراوانی اللہ تعالیٰ کے مقرب ہونے کی دلیل نہیں اور نہ ہی یہ اللہ کی رضا کا معیار ہے۔ رزق کا بست و کشاد مالک الملک کی مصلحت پر موقوف ہے۔ اللہ یبسط الرزق لمن یشآء و یقدر “ اللہ تعالیٰ جس کا چاہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہے تنگ کردیتا ہے۔ اس کی مصلحت کو انسان نہیں جان سکتا۔ یہ اس کا اپنا پروگرام ہے۔ چاہے تو کافر دنیا میں دندناتے پھریں اور مومن کمزور محض ہو کر رہ جائے۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر نافرمان دنیا میں خوشحال ہوا اور ہر مومن تنگ دست ہو ۔ بلکہ کلا نمد۔ ھولآء وہ سب کو دیتا ہے مومن کو بھی ، کافر کو بھی مگر حقیقی کمال یہ ہے کہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام اور سلف صالحین کو بلندی کیسے نصیب ہوئی ہے۔ یہ چیز صرف اور صرف تقویٰ کی بنا پر حاصل ہوتی ہے۔ مال کے تین مصرف حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کا ارشاد گرامی ہے کہ اے ابن آدم تیری زبان میرا مال میرا مال کہتے نہیں تھکتی تو ہمیشہ مالی مالی کہتا رہتا ہے کبھی میری دکان کبھی میری زمین ، میرا کاروبار ، میرا باغ تیرے ورد زبان رہتا ہے۔ حالانکہ ھل مالک الامآ اکلت تیرا مال وہ ہے جو تو نے کھالیا۔ اولبست یا تو نے پہن لیا اور بوسیدہ کرلیا اور قدمت یا آگے بھیج دیا ۔ اس کے علاوہ تیرا اور کوئی مال نہیں ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے۔ الدنیا دار … من لا رارلہ یعنی دنیا تو اس شخص کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہ ہو۔ اس کا مال ہے ، جس کا مال نہ ہو ، اور صرف دنیا کی خاطر وہی انسان جمع کرتا ہے۔ جس کی عقل نہ ہو۔ کیونکہ صاحب عقل آخرت کی بھی فکر کرے گا۔ ایمان دار کو یہ فکر دامن گیر ہوگی کہ آخرت کا سامان ہوجائے ۔ وہاں پہنچ کر کہیں خالی ہاتھ نہ رہ جائیں۔ کیونکہ بعد میں وہاں کون لے کر آئیگا۔ لہٰذا آخرت کے لئے توشہ پہلے ہی بھیج دے۔ کس نیارد نہ پس تو پیش فرست الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ جسے چاہتا ہے۔ بغیر حساب کے روزی عطا کردیتا ہے اور کمال مدار ایمان اور تقویٰ ہے۔ سلف صالحین کو اسی چیز سے عروج حاصل ہوا۔ کافر لوگ حب دنیا کی وجہ سے اہل ایمان سے ٹھٹا کرتے ہیں حالانکہ یہی چیز خرابی کی اصل جڑ ہے۔ دنیا کو استعمال کرنے کی ممانعت نہیں ہے مگر اس کو معبود بنا کر اس کی پرستش شروع کردینا اور اس کی وجہ سے فرائض اور امور آخرت سے غافل ہوجانا باعث وبال ہے۔
Top