Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ
: پوچھو
بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ
: بنی اسرائیل
كَمْ
: کس قدر
اٰتَيْنٰھُمْ
: ہم نے انہیں دیں
مِّنْ
: سے
اٰيَةٍ
: نشانیاں
بَيِّنَةٍ
: کھلی
وَ
: اور
مَنْ
: جو
يُّبَدِّلْ
: بدل ڈالے
نِعْمَةَ
: نعمت
اللّٰهِ
: اللہ
مِنْۢ بَعْدِ
: اس کے بعد
مَا
: جو
جَآءَتْهُ
: آئی اس کے پاس
فَاِنَّ
: تو بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
شَدِيْدُ
: سخت
الْعِقَابِ
: عذاب
آپ بنی اسرائیل سے پوچھیں کہ ہم نے ان کو کتنی واضح نشانیاں دیں اور جو کوئی اللہ کی نعمت کو تبدیل کرے گا۔ اس کے بعد کہ وہ نعمت اس کے پاس پہنچ چکی۔ پس بیشک اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
واضح نشانیاں گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے متنبہ کیا تھا۔ کہ اس کے واضح احکامات آجانے کے بعد ان کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ احکام الٰہی کی تعمیل ہونی چاہئے واضح نشانات کے بعد بھی اگر کوئی شخص پھسل جائے۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آسکتا ہے۔ اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے بطور مثال ارشاد فرمایا ہے۔ سل بنی اسرآئیل ، آپی ذرا بنی اسرائیل سے دریافت تو کریں کم اتینھم من ایۃ بینہ ہم نے ان کو کتنی واضح نشانیاں عطا کیں۔ واضح یا کھلی نشانیوں میں تعلیم بھی آتی ہے۔ اور معجزات بھی آتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے توسط سے تمہیں کس قدر واضح معجزات عطا کئے۔ ان کی تفصیل پہلے آ چکی ہے منجملہ ان کے ابر کا سایہ کرنا پتھروں سے بارہ چشمے جاری کر کے بنی اسرائیل کو سیراب کرنا ، ان کے لئے من وسلویٰ کی خوراک مہیا کرنا ، دشمن کو آنکھوں کے سامنے ہلاک کرنا ، بنی اسرائیل کے لئے سمندر میں راستے بنا دینا وغیرہ وغیرہ ایسے واضح نشان اور معجزات ہیں جو بنی اسرائیل کو عطا کئے گئے ۔ مگر اس کے باوجود انہوں نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کا انکار کیا اور پے در پے غلطیاں اور کوتاہیاں کیں جن کا ذکر اس سورة مبارکہ میں آ چکا ہے اور جن کی تعداد کم و بیش چالیس ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہر بار معاف فرمایا۔ بنی اسرائیل بہت بڑی قوم تھی۔ دنیا میں جاہ و وقار کی مالک تھی۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی اولاد کو اللہ نے علم و حکمت اور بادشاہی عطا کی۔ تمام دنیوی نعمتوں سے مالا مال کیا مگر اس کے باوجود جب ان کی سرکشی حد سے تجاوز کرگئی تو اللہ تعالیٰ نے ذلیل و خوار کر کے عذاب میں مبتلا کردیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے۔ ومن یتبدل نعمۃ اللہ من بعد ما جآء تہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کے پہنچ جانے کے بعد جو اسے بدل ڈالے فان اللہ شدید العقاب تو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔ انبیاء نعمت الٰہی ہیں انبیاء (علیہم السلام) کا وجود بھی خدا تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہوتا ہے۔ اور عام لوگوں کے لئے معیار اور نمونہ ہوتا ہے۔ جسے دیکھ کر لوگ اپنے ظاہر و باطن کو درست کرسکتے ہیں۔ انبیاء کا وجود انسانوں کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے چناچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو اسی نعمت سے تعبیر کیا ہے۔ ” الم تر الی الذین بدلوا نعمۃ اللہ کفراً کیا تم نے مشرکین عرب کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کے ساتھ کفر کیا۔ اس نعمت سے مراد حضور پاک ﷺ کی ذات مبارکہ ہے۔ آپ پر ایمان لانے اور آپ کا اسوہ اختیار کرنے سے اعراض کیا۔ لہٰذا خود بھی جہنم میں گئے اور قوم کو بھی جہنم رسید کیا۔ علم اور عمل انسان کے لئے لازمی چیزیں ہیں۔ ان کے بغیر کامیابی ممکن نہیں علم اللہ تعالیٰ کی جانب سے بذریعہ وحی حاصل ہوتا ہے اور عمل انبیاء سے ملتا ہے۔ انبیاء معیار ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر اعمال درست کئے جاتے ہیں۔ قرآن پاک نے فرمایا لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ اللہ کے رسول تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہیں۔ زندگی کے ہر موڑ پر اس اسوہ کی ضرورت ہے۔ خوشی کا موقع ہو یا غمی کا ، صلح کی حالت ہو یا جنگ کی ، نبی کی ذات ہر حالت میں نمونہ ہوتی ہے اور یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو تبدیل کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے ایسے شخص کو اپنا انجام دیکھ لینا چاہئے۔ انعامات کی ناقدری جس طرح پیغمبر (علیہ السلام) کی ذات بابرکات انعام خداوندی ہے۔ اسی طرح قرآن پاک بھی اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہے مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس نعمت کی بھی قدر نہیں کی۔ آپ ہر خطبہ میں سنتے ہیں خیر الکلام کلام اللہ تمام کلاموں سے بہتر اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ وخیر الھدی مدی محمد صلی اللہ لعیہ وسلم اور بہترین طریقہ حضور ﷺ کا طریقہ ہے۔ مگر آج کون ہے۔ جو ان دونوں انعامات سے مستفید ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہمارے لئے راہ ہدایت ہیں۔ مگر جب کسی خوشی غمی ، قومی و ملکی ، سیاسی و معاشرتی معاملات میں راہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے ، تو ان سے راہنمائی حاصل کرنے کی بجائے رسم و رواج کا سہارا لیتے ہیں۔ یا دوسرے غیر اسلام ازموں کی طرف دیکھتے ہیں۔ کیا یہ انعامات کی ناقدری نہیں۔ گزشتہ چوبیس سال میں ہمارے پاس صرف ایک آدمی آیا ہے جس نے طلاق کے مسئلہ میں صحیح راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہنے لگا کہ ہمارے بچے اور بیوی میں تنازعہ ہے۔ دو سال سے مصالحت کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ نوبت طلاق تک پہنچ چکی ہے۔ لہٰذا آپ ہمیں طلاق کا شرعی طریقہ بتائیں تاکہ ہم عند اللہ ماخوذ نہ ہوں اس ایک کیس کے علاوہ ہمیشہ یوں ہوا ہے کہ از خود تین طلاقیں دے دیں اس کے بعد جب ندامت ہوئی تو ہمارے پاس آگئے کہ جلد ی میں طلاق دیدی ہے۔ اب کوئی ایسا طریقہ بتائیں جس سے مطلقہ دوبارہ حلال ہوجائے۔ اللہ کے بندو ! بغیر سوچے سمجھے ، بغیر مسئلہ دریافت کئے ایسا کام کیوں کرتے ہو ، جسے خود تمہیں تکلیف ہو اور جو تمہارے والدین اور پورے خاندان کے لئے باعث اذیت ہو چاروں مذاہب میں تیسری طلاق کے بعد بیوی حرام ہوجاتی ہے۔ اگر زبردستی حلال کرنے کی کوشش کرو گے ، تو حلال نہیں ہوگی۔ اولاد بھی مشکوک اور حرام ہوگی۔ پھر جا کر شیعوں اور اہل حدیثوں سے مسئلہ دریافت کرتے ہیں۔ کہ کسی طرح حلت کا فتویٰ مل جائے۔ یہ سب انعامات خداوندی کی ناقدری ہے۔ اس نعمت کو بروقت استعمال کرنا چاہئے اور شیطان کے نقش قدم پر نہیں چلنا چاہئے۔ جس قوم کے پاس قرآن و حدیث جیسی نعمت موجود ہو اسے کس چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے ؟ کبھی امریکہ کی طرف دوڑتے ہیں۔ کبھی برطانیہ اور فرانس کی طرف دیکھتے ہیں کہ ہمیں سکیم دو ۔ کوئی ایڈوائزر بھیجو جو ہماری راہنمائی کریں یہ کس قدر کفران نعمت کی بات ہے فکر اور عقیدہ فاسد ہے۔ جس کی وجہ سے راہ راست میسر نہیں آ رہا ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو تبدیل کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ خود سخت سزا دینے والا ہے۔ اس کی نعمتوں سے روگردانی کر کے ، قرآن و سنت کا دامن چھوڑ کر عزت کہاں نصیب ہو سکتی ہے ۔ ایسی صورت میں تو عذاب و سزا کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اپنے اردگرد نظر مار کر دیکھ لیں ، کوئی قوم سلطنت کے چھ جانے کے عذاب میں مبتلا ہے کہیں بدعات اور رسوم باطلہ کا دور دورہ ہے۔ محتاجی ہے۔ دین محبوس ہوگیا ہے ۔ نیکی سے محرومی ہے۔ بدی کا چرچا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناقدری کی سزا ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ، جس باویہ میں جس کنوئیں پر تین آدمی موجود ہوں اور وہ نماز با جماعت ادا نہ کریں۔ استخوذ علیھم الشیطن ان پر شیطان قابو پا لیتا ہے۔ مقصد یہ کہ جب بھی کوئی قوم اسلام کے خلاف چلے گی ، اس پر شیطان قابو پا لے گا۔ اور یہی عذاب ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے انعامات کی قدر کرنا چاہئے۔ بنی اسرائیل نے ان نعمتوں کی قدر نہ کی ، معجزات کو ٹھکرایا ، نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئے اپنی سازشی ، تخریبی اور گندی ذہنیت کی بناء پر بدترین قوم بن کر رہ گئے۔ اسی طرح جو بھی قوم اللہ تعالیٰ کے انعامات کی ناقدری کریگی ذلیل و خوار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے آخری نبی کو مبعوث فرمایا۔ آپ کے ساتھ ایک معیاری جماعت کو پیدا کیا ، خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ کرام آنے والی نسلوں کے لئے نمونہ تھے۔ ان کی پیروی کرنے والے دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوئے۔ دنیا میں عروج حاصل ہوا فتوحات نصیب ہوئیں اور آخرت میں بھی بہترین اجر وثواب کے مستحق ہوئے۔ حب دنیا اس کے بعد دنیا کی حقیقت کو واضح فرمایا کہ کفار کے نزدیک دنیا کی کیا حیثیت ہے اور اہل ایمان کی حالت دنیا میں کیا ہے اور آخرت میں ان کے لئے کون سے انعامات تیار کئے گئے ہیں۔ فرمایا زین للذین کفروالحیوۃ الدنیا جن لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ، ان کے لئے دنیا کی زندگی مزین کی گئی ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو سارے شر و فساد کی جڑ ہے۔ جب کوئی شخص دنیا کی محبت میں اس قدر غرق ہوجائے کہ صرف اسی کو اپنا مقصد حیات بنا لے تو پھر طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ دوسروں کی حق تلفی ، قتل و غارت ، عیش و عشرت یہ سب دنیا سے غیر معمولی محبت کا ثمرہ ہے۔ حضور لعیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے۔ حب الدنیا راس کل خطیئۃ دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ محبت سے مراد ایسی محبت ہے۔ جس سے آخرت بھی فراموش ہوجائے۔ دین ختم ہوجائے عبادت رہ جائے خدا پرستی کے طور طریقے ناپید ہوجائیں اور حالت یہ ہوجائے کہ یعلمون ظاھراً من الحیوۃ الدنیا وہ دنیا کی تمام ظاہری چیزوں کو جانتے ہیں وھم عن الاخرۃ غفلون مگر آخرت کے بارے میں بالکل غافل ہیں ، کچھ نہیں جانتے بظاہر بڑے عقل و دانش کے مالک ہیں۔ مگر معاد کے متعلق ذرہ بھر بصیرت نہیں رکھتے۔ اسی کا نام گمراہی ہے انسان جس قدر دنیوی محبت میں گرفتار ہوگا نیکی سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ اسی کے متعلق فرمایا کہ کافروں کے لئے دنیا کی زندگی کو مزین کیا گیا ہے۔ اہل ایمان سے ٹھٹھا فرمایا جو لوگ دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہیں۔ ان کی ایک قبیح حرکت یہ ہے کہ ویسخرون من الذین امنوا وہ اہل ایمان کو تمسخر کا نشانہ بناتے ہیں۔ ایمان والوں کو ظاہری کمزوری ، ان کا فقر و فاقہ دنیا داروں کے لئے ٹھٹا بن جاتا ہے ان پر آوازے کستے ہیں۔ دوسری جگہ فرمایا واذا مروابھم یتغامزون کافر لوگ غریب مسلمانوں کو دیکھ کر اشارے کرتے ہیں کہ دیکھو یہ جنت کے وارث جا رہے ہیں۔ پھٹے پرانے کپڑے ، نہ زمین نہ باغات ، نہ رہنے کو مکان ، مگر دعویٰ جنت کا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن کے دل میں محض دنیا کی محبت گھر کرچکی ہے۔ ان کے لئے دنیا کے لوازمات اور آسائش ہی معیار ہے۔ ان کے نزدیک ایسا شخص حقیر ہے جس کے پاس دنیا کا مال و دولت نہیں ہے اور اس ساری خرابی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ اہل تقویٰ فرمایا اہل دنیا کے برخلاف والذین اتقوا جو لوگ اہل تقویٰ ہیں جو دنیا سے بےرغبت اور آخرت پر نظر رکھتے ہیں۔ فوقھم یوم القیمۃ وہ قیامت کے دن اہل دنیا سے بلند تر درجات پر فائز ہوں گے۔ تقویٰ ، کفر شرک اور معصیت سے پرہیز گاری کا نام ہے یعنی التقویٰ عن الشرک والکفر والنفاق والعصیان غرضیکہ عقائد و اعمال کی ہر برائی سے بچ جانا ہی تقویٰ ہے شیخ عبدالقادر جیلانی آیت پاک ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ متقی وہ لوگ ہیں جو عدل و انصاف پر قائم ہیں اور جو لوگ ظالم ہیں ، عدل و انصاف سے عاری ہیں۔ وہ متقی نہیں ہو سکتے۔ الغرض ! فرمایا کہ دنیا میں تو یہ لوگ اہل ایمان سے ٹھٹھا کرتے ہیں۔ مگر قیامت کے دن اہل ایمان ان سے بالا ہوں گے۔ حضرت علی کی روایت میں آتا ہے کہ جو شخص کسی مومن سے اس کی ناداری کی بناء پر پٹھا کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے شخص کو تمام اولین اور آخرین کے سامنے ذلیل و رسوا کرے گا جو کوئی شخص کسی مومن پر ایسا عیب لگاتا ہے جو اس میں نہیں پایا جاتا تو قیامت کے روز عیب لگانے والے کو آگ کے ٹیلے پر کھڑا کیا جائیگا اور کہا جائے گا کہ سب کے سامنے خود اپنی تکذیب کرو۔ میں نے اس پر جھوٹ کہا تھا۔ درحقیقت اس مرد مومن میں یہ عیب نہیں پایا جاتا تھا۔ آج تو یہ لوگ طرح طرح کے مذاق کرتے ہیں ، عیب جوئی کرتے ہیں اور بہتان لگاتے ہیں۔ مگر انہیں قیامت کے دن پتہ چلے گا۔ جب دنیوی زندگی میں کمزور ناتواں مومن ان پر حاوی ہوں گے اور بلند مراتب پر فائز ہوں گے۔ یہ مقام انہیں تقویٰ کی وجہ سے حاصل ہوگا۔ قرآن پاک میں متقین کا ذکر بار بار ہے۔ جیسے ھدی للمتقین سورة بقرہ کی ابتداء میں ہے۔ کہ یہ قرآن پاک ، یہ ہدایت متقیوں کے لئے ہے۔ دوسری جگہ فرمایا اولئک الذین صدقوا واولئک ھم المتقون یعنی جن لوگوں کا ایمان اعمال اور اخلاق اچھا ہے۔ جن میں تہذیب نفس پایا جاتا ہے۔ وہی لوگ سچے ہیں اور ایسے ہی لوگ متقی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ دنیا میں اگر ظاہری اسباب کے لحاظ سے کوئی شخص نادار اور کمزور ہے تو اس کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ مدار کا ر دولت مندی اور ناداری نہیں ، بلکہ ایمان ، تقویٰ اور نیکی ہے۔ کیونکہ ” ان اکرمکم عند اللہ اتقکم “ اللہ کے نزدیک قدر و منزلت کا معیار تقویٰ ہے۔ ایک مزدور بڑی محنت و مشقت سے اپنی روزی کماتا ہے۔ اس کا عقیدہ بھی درست ہے۔ فرائض کو ادا کرتا ہے ، تو ایک بڑے سے بڑا دولت مند اس کے خاک پا کے برابر بھی نہیں ۔ چہ جائیکہ ایک مالدار ایک مزدور کو حقیر سمجھے۔ یہ تو باعث لعنت ہے۔ ایسا شخص عذاب کا مستحق ہے۔ رزق کی فراوانی فرمایا واللہ یرزق من یشآء بغیر حساب اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے رزق دیتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ رقز کی فراوانی اللہ تعالیٰ کے مقرب ہونے کی دلیل نہیں اور نہ ہی یہ اللہ کی رضا کا معیار ہے۔ رزق کا بست و کشاد مالک الملک کی مصلحت پر موقوف ہے۔ اللہ یبسط الرزق لمن یشآء و یقدر “ اللہ تعالیٰ جس کا چاہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہے تنگ کردیتا ہے۔ اس کی مصلحت کو انسان نہیں جان سکتا۔ یہ اس کا اپنا پروگرام ہے۔ چاہے تو کافر دنیا میں دندناتے پھریں اور مومن کمزور محض ہو کر رہ جائے۔ مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر نافرمان دنیا میں خوشحال ہوا اور ہر مومن تنگ دست ہو ۔ بلکہ کلا نمد۔ ھولآء وہ سب کو دیتا ہے مومن کو بھی ، کافر کو بھی مگر حقیقی کمال یہ ہے کہ حضور ﷺ کے صحابہ کرام اور سلف صالحین کو بلندی کیسے نصیب ہوئی ہے۔ یہ چیز صرف اور صرف تقویٰ کی بنا پر حاصل ہوتی ہے۔ مال کے تین مصرف حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کا ارشاد گرامی ہے کہ اے ابن آدم تیری زبان میرا مال میرا مال کہتے نہیں تھکتی تو ہمیشہ مالی مالی کہتا رہتا ہے کبھی میری دکان کبھی میری زمین ، میرا کاروبار ، میرا باغ تیرے ورد زبان رہتا ہے۔ حالانکہ ھل مالک الامآ اکلت تیرا مال وہ ہے جو تو نے کھالیا۔ اولبست یا تو نے پہن لیا اور بوسیدہ کرلیا اور قدمت یا آگے بھیج دیا ۔ اس کے علاوہ تیرا اور کوئی مال نہیں ہے۔ حضور ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے۔ الدنیا دار … من لا رارلہ یعنی دنیا تو اس شخص کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہ ہو۔ اس کا مال ہے ، جس کا مال نہ ہو ، اور صرف دنیا کی خاطر وہی انسان جمع کرتا ہے۔ جس کی عقل نہ ہو۔ کیونکہ صاحب عقل آخرت کی بھی فکر کرے گا۔ ایمان دار کو یہ فکر دامن گیر ہوگی کہ آخرت کا سامان ہوجائے ۔ وہاں پہنچ کر کہیں خالی ہاتھ نہ رہ جائیں۔ کیونکہ بعد میں وہاں کون لے کر آئیگا۔ لہٰذا آخرت کے لئے توشہ پہلے ہی بھیج دے۔ کس نیارد نہ پس تو پیش فرست الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ جسے چاہتا ہے۔ بغیر حساب کے روزی عطا کردیتا ہے اور کمال مدار ایمان اور تقویٰ ہے۔ سلف صالحین کو اسی چیز سے عروج حاصل ہوا۔ کافر لوگ حب دنیا کی وجہ سے اہل ایمان سے ٹھٹا کرتے ہیں حالانکہ یہی چیز خرابی کی اصل جڑ ہے۔ دنیا کو استعمال کرنے کی ممانعت نہیں ہے مگر اس کو معبود بنا کر اس کی پرستش شروع کردینا اور اس کی وجہ سے فرائض اور امور آخرت سے غافل ہوجانا باعث وبال ہے۔
Top