Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 213
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً١۫ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ١۪ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ١ؕ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْ١ۚ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
كَانَ : تھے النَّاسُ : لوگ اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک فَبَعَثَ : پھر بھیجے اللّٰهُ : اللہ النَّبِيّٖنَ : نبی مُبَشِّرِيْنَ : خوشخبری دینے والے وَ : اور مُنْذِرِيْنَ : ڈرانے والے وَاَنْزَلَ : اور نازل کی مَعَهُمُ : ان کے ساتھ الْكِتٰبَ : کتاب بِالْحَقِّ : برحق لِيَحْكُمَ : تاکہ فیصلہ کرے بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ فِيْمَا : جس میں اخْتَلَفُوْا : انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں وَمَا : اور نہیں اخْتَلَفَ : اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں اِلَّا : مگر الَّذِيْنَ : جنہیں اُوْتُوْهُ : دی گئی مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَا : جو۔ جب جَآءَتْهُمُ : آئے ان کے پاس الْبَيِّنٰتُ : واضح حکم بَغْيًۢا : ضد بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان ( آپس کی) فَهَدَى : پس ہدایت دی اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْنَ : جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے لِمَا : لیے۔ جو اخْتَلَفُوْا : جو انہوں نے اختلاف کیا فِيْهِ : اس میں مِنَ : سے (پر) الْحَقِّ : سچ بِاِذْنِهٖ : اپنے اذن سے وَاللّٰهُ : اور اللہ يَهْدِيْ : ہدایت دیتا ہے مَنْ : جسے يَّشَآءُ : وہ چاہتا ہے اِلٰى : طرف راستہ صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
سب لوگ ایک ہی امت (دین ملت) پر تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے نبی بھیجے۔ خوشخبری سنانے والے اور ڈرانے والے اور ان نبیوں کے ساتھ سچی کتاب اتاری ، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اس بات میں فیصلہ کریں ، جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں اور نہیں اختلاف کیا اس میں مگر ان لوگوں نے جنہیں کتاب دی گئی بعد اس کے کہ ان کے پاس واضح باتیں آ چکی تھیں (یہ اختلاف کیا انہوں نے ) آپس میں سرکشی کرتے ہوئے پس اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ہدایت دی اپنے حکم سے جو ایمان لائے اس بات میں جس میں وہ اختلاف کرتے تھے حق سے ، اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی تھی کہ جو شخص نعمت الٰہی کے حصول کے بعد اس کی تکذیب کرتا ہے ، وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ اللہ جل جلالہ ، نے بنی اسرائیل کا بطور مثال ذکر فرمایا کہ ہم نے انہیں بہت سی نعمتوں سے نوازا مگر اس قوم نے ناشکر گزاری کی اور طرح طرح کی مصیبتوں میں گرفتار ہوئی۔ گویا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنی۔ گزشتہ درس میں یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ فتنہ و فساد کی اصل جڑ حب دنیا ہے۔ دنیا کی محبت میں گرفتار کفار اہل ایمان سے ٹھٹا کرتے ہیں اور ان کو حقیر جانتے ہیں۔ حالانکہ کامیابی کا اصل دار و مدار مال و دولت پر نہیں بلکہ تقویٰ و پرہیز گاری پر ہے۔ اہل تقویٰ قیامت کے دن اہل دنیا پر برتری حاصل کرلیں گے۔ امت واحدہ آیت زیر درس میں اللہ تعالیٰ نے دین و ملت کی وحدت کا تذکرہ فرمایا ہے ارشاد ہوتا ہے کان الناس امۃ واحدۃ سب لوگ ایک ہی ملت پر تھے ، ملت اس جماعت کو کہتے ہیں ، جس کے افراد کے افکار و خیالات ایک جیسے ہوں۔ ملت حق بھی ہوتی ہے اور ملت باطل بھی۔ مگر اس آیت میں جس ملت کا ذکر ہو رہا ہے اس سے مراد ملت حق ہے۔ تمام لوگ ایک ہی ملت پر کب تھے۔ اس کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس کا تعلق عالم ارواح سے ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو حاضر کر کے ان سے سوال کیا تھا۔ الست بربکم “ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ تو سب نے یک زبان ہو کر کہا تھا۔ ” قالوا بلی “ اے مولا کریم ! کیوں نہیں ، تو ہی ہمارا رب ہے۔ اس وقت تمام لوگ امت واحدہ تھے یعنی ایک ہی ملت پر قائم تھے۔ اس قسم کے اشارات سورة اعراف اور بعض دوسری سورتوں میں بھی ملتے ہیں مقصد یہ کہ اس وقت تمام روحوں نے ملت واحدہ پر ہونے کا اقرار کیا تھا تو اس دنیا میں اس سے انکار کی کیا وجہ ہے۔ یہ تو بڑی ناانصافی کی بات ہے۔ اس ضمن میں مشہور تر تشریح جو اکثر مفسرین کرام نے بیان فرمائی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ملت واحدہ کا زمانہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ادریس (علیہ السلام) تک کا ہے اس عرصہ میں تمام لوگ ایک ہی امت تھے اور وہ ملت واحدہ پر قائم تھے۔ ان کا دین بعینہ وہی تھا جو حضرت آدم (علیہ السلام) کا تھا۔ ان میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ اس کے بعد اختلافات پیدا ہونے لگے اور حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانے تک ان کا دائرہ بہت وسیع ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے زمانے میں لوگوں کی وسیع پیمانے پر تطہیر ہوئی ان کی اکثریت ہلاک ہوئی اور صرف گنتی کے وہ افراد بچ گئے جو دین حق پر قائم تھے۔ کہ کشتی میں سوار ہو کر بچ جانے والوں میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی اور بیٹا تک شامل نہیں تھے ، کیونکہ وہ دین حق سے رو گردانی کرچکے تھے۔ کشتی کے ذریعے ہلاکت سے محفوظ رہنے والے لوگ کافی عرصہ تک دین توحید اور ایمان خالص پر کار بند رہے۔ حتیٰ کہ ایک زمانہ ایسا آیا ، جب اختلاف نے پھر زور پکڑ لیا اور امت میں غلط ملط عقیدے پیدا ہوگئے۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ امت واحدہ کا زمانہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کا زمانہ ہے۔ آپ کے بعد ڈیڑھ ہزار سال تک لوگ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل (علیہما السلام) کے سچے دین پر قائم رہے۔ تان کہ حضور نبی کریم ﷺ کی بعثت مبارکہ سے تقریباً ساڑھے چار سو سال پہلے عمرو بن لحی جسے عمرو ابن قمیہ بھی کہتے ہیں۔ اس نے عربوں میں بت پرستی کو رواج دیا۔ اس کے بعد چند صدیوں میں بت پرستی کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ اللہ کا پاک گھر بیت اللہ شریف بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا جب نبی کریم نے مکہ کو فتح کیا تو اس پاک گھر کو بتوں سے پاک کیا اور پھر حضور ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں عرب کا ہر حصہ کفر و شرک کی نجاست سے پاک ہوگیا۔ یہ سب تفسیریں ملتی ہیں ۔ مگر زیادہ مشہور تفسیر وہ ہے۔ جس میں حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت ادریس (علیہ السلام) تک کا زمانہ بیان کیا جاتا ہے۔ بعثت انبیاء امت واحدہ کے تذکرے کے بعد فرمایا فبعث اللہ النبین پس اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو مبعوث فرمایا۔ اب آیت کے ان دونوں حصوں کا ترجمہ یوں ہوگا کہ تمام لوگ ایک ہی ملت پر تھے ، پھر اللہ نے انبیاء کو مبعوث فرمایا۔ یہاں پر اشکال پیا ہوتا ہے کہ ملت کا دین حق سرکار بند ہونا بعثت کی علت نہیں بنتا۔ اس سلسلہ میں مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ آیت کے ان دو جملوں کے درمیان لفظ فاختلفوا محذوف ہے اس لفظ کو درمیان میں لانے سے اشکال دور ہوجائے گا کیونکہ اب پورا جملہ اس طرح ہوگا کہ سب لوگ ایک ہی دین حق پر تھے پھر ان میں اختلاف پیا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو وقتاً فوقتاً مبعوث فرمایا ۔ جب لوگ اختلاف کی بنا پر دین سے ہٹ جاتے تھے تو اصل دین کی نشاندہی کے لئے انبیاء کو بھیجا گیا۔ وہ لوگوں کو بتاتے تھے کہ تم اصل دین سے ہٹ چکے ہو ، صحیح راستہ یہ ہے ، اس کی طرف آئو۔ اس بات کی مزید وضاحت سورة انبیاء میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ابنیاء (علیہم السلام) سے فرمایا ” ان ھذہ امتکم امۃ واحدۃ وانا ربکم “ اے گروہ انبیاء تم سب کی ایک ہی جماعت ہو جو سچا دین بتلانے والی ہے اور میں تم سب کا رب ہوں۔ شب معراج میں جب نبی کریم ﷺ نے تمام انبیاء سے دریافت فرمایا کہ آپ کی بعثت کا مقصد کیا ہے۔ تو سب نے یہی جواب دیا۔ بعثنا بالتوحید ہمیں توحید کی اشاعت کے لئے بھیجا گیا ہے تاکہ لوگوں کی صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرسکیں۔ فرمایا ان تمام انبیاء کی ایک صفت یہ ہے مبشرین کہ یہ مبشرین ہیں۔ ایمان اور نیکی کا راستہ اختیار کرنے والوں کو جنت کی خوش خبری دیتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تم اعلیٰ مقام پر فائز کئے جائو گے۔ خدا تعالیٰ تم پر راضی ہوگا اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آرام و سکون حاصل ہوجائے گا برخلاف اس کے جو لوگ کفر شرک اور معصیت کا راستہ پکڑیں گے۔ ان کے لئے یہی پیغمبر منذرین ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے دوزخ کے عذاب سے ڈراتے ہیں سورة مدثر میں اللہ تعالیٰ نے یہی حکم حضور خاتم النبین کو دیا قم فانذر ، آپ کھڑے ہوجائیں اور ان کفار و مشرکین کو ان کے برے انجام سے ڈرائیں ۔ ان کو اچھی طرح خبردار کردیں تاکہ کل کو یہ عذر پیش نہ کرسکیں کہ ہمارے پاس کوئی بشیر یا نذیر نہیں آیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو بھیج کر یہ حجت پوری کردی ہے۔ ” لئلایکون للناس علی اللہ حجۃ بعد الرسل “ انبیاء کے آنے کے بعد یہ عذر باقی نہیں رہا کہ ہمارے پاس کوئی خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا نہیں۔ نبی کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام امت تک پہنچا دے۔ علم عقائد والوں نے نبی کی تعریف یوں کی ہے۔ ھو انسان بعثہ اللہ لتبلیغ مآ اوحہ اللہ الیہ۔ یعنی نبی ایک انسان ہوتا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ شرعی احکام کی تبلیغ کے لئے مبعوث فرماتا ہے۔ مطلب یہ کہ چونکہ تبلیغ انسانوں کو کرنا مقصود ہوتی ہے۔ لہٰذا نبی بھی انسانوں میں سے بھیجا جاتا ہے کوئی فرشتہ یا کسی دوسری نوع سے نہیں ہوتا۔ تاہم نبی کا یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نزول وحی کے لئے اسے منتخب فرماتا ہے۔ نبی معصوم عن الخطا یعنی خطائوں سے پاک ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود اس کی حفاظت کرتا ہے۔ کتب سماویہ فرمایا انبیاء کی بعثت کے علاوہ وانزل معھم الکتب بالحق ان کے ساتھ سچی کتاب بھی نازل فرمائی۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور پیغمبر بھیجے اور ایک سو چار کتابیں نازل فرمائیں ان میں چار بڑی کتابیں ہیں۔ زبور ، تورات ، انجیل اور قرآن پاک اور ایک سو چھوٹے چھوٹے صحیفے ہیں جو مختلف انبیاء پر نازل وئے۔ تاہم تمام کتب سماویہ کا موضوع ایک ہی تھا یعنی سچے دین کی تبلیغ اور لوگوں کو ان کی غلطیوں پر آگاہ کرنا ۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات اتاری اور پھر آپ کے پیچھے آنے والے کئی ہزار پیغمبر اس کی اتباع و تبلیغ کرتے رہے۔ انبیاء کے ساتھ کتابوں کے نزول کی وجہ یہ ہے کہ بنی تو انسان ہوتا ہے ، جسے دوام حاصل نہیں۔ لہٰذا جب نبی اپنا کام ختم کر کے اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے تو اس کے بعد اس کی لائی ہوئی کتاب آنے والی نسلوں کی راہنمائی کرتی رہتی ہے۔ نبی کالا یا ہوا علم اور اس کی شریعت کتاب کی صورت میں موجود رہتا ہے۔ فرمایا انبیاء کے ساتھ کتابیں نازل کرنے کا مقصد یہ ہے لیحکم بین الناس فیما اختلفوا فیہ تاکہ وہ لوگوں کے درمیان اس بات کا فیصلہ کریں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ یدگر کتب سماویہ کی طرح قرآن پاک کے نزول کا مقصد بھی یہی بیان کیا گیا ہے۔ ” لتحکم بین الناس بما ارئک اللہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے آپ کو سمجھائی ہے ، اس کے مطابق فیصلہ کریں ۔ گویا نبی کتاب کے ذریعے اللہ کی وحی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ وجہ اختلاف آگیا اس امر کی وضاحت کی جا رہی ہے کہ اہل کتاب میں اختلاف کسی غلط فہمی کی بنا پر نہیں ہوا تھا۔ بلکہ یہ احکام الٰہی سے بغاوت اور سرکشی کی وجہ سے تھا۔ ارشاد ہوتا ہے وما اختلف فیہ الا الذین اوتوہ من بعد ما جآء تھم البینت بغیاً بینھم اور اس میں صرف انہی لوگوں نے اختلاف ہوئے اور اس کی وجہ ان کی خود غرضی ، ضد اور حسد تھا۔ جیسا کہ یہود … کے متعلق پہلے بھی آ چکا ہے۔ یعرفونہ کما یعرفون ابنآء ھم یہ لوگ حضور خاتم النبین ﷺ کو اپنی اولاد کی طرح پہچانتے تھے۔ مگر آپ سے اختلاف کی وجہ ” حسداً من عند انفسھم “ محص حسد تھا کہ نبوت بنو اسماعیل میں کیوں منتقل ہوگئی ہے۔ یہ لوگ اپنی برتری کو قائم و دائم دیکھنا چاہتے تھے اور کسی صورت اقتدار کو ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتے تھے مگر یہ تو مشیت ایزدی تھی کہ ختم نبوت کا تاج حضور خاتم النبین ﷺ کے سر پر رکھا گیا۔ حدیث شریف میں موجود ہے کہ قیصر روم نے زبان سے اقرار کیا تھا کہ حضور نبی کریم ﷺ کے آخری نبی ہیں جن کا ذکر سابقہ کتابوں میں موجود ہے مگر وہ ایمان کی دولت سے محض اس لئے محروم رہا کہ اس کی زد اس کے جاہ و مال اور حکومت و اقتدار پر پڑتی تھی۔ ایمان لا کر وہ اپنی بادشاہت اور مطلق العنانی کو قائم نہیں رکھ سکتا تھا۔ لہٰذا وہ کفر پر اڑا رہا۔ مقصد یہ کہ حق سے اختلاف کی وجہ اکثر و بیشتر حسد ، بغض ، عناد ، خود غرضی وغیرہ ہی ہوتی ہے۔ اگرچہ بعض اوقات غلط فہمی کی بنا پر بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ مگر یہ شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔ اصل وجہ اختلاف وہی ہے جس کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ اس ضمن میں یہود و نصریٰ کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ حق و باطل میں تمیز کفر و شرک ، بغض و حسد ، اور حب مال و جاہ کے اندھیروں میں کہیں کہیں شمع ہدایت بھی نظر آتی ہے۔ اور یہ مالک الملک کا خاص کرم ہوتا ہے فھدی اللہ الذین امنوا لما اختلفوا فیہ من الحق باذنہ ط پس اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو اپنے حکم سے حق سے مختلف فیہ امور میں ہدایت بخشی۔ اختلافی معاملات میں ہدایت کی تلاش حضور نبی کریم رئوف الرحیم ﷺ کا ہمیشہ طرہ امتیاز رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور ﷺ نوافل کے دوران سجدے کی حالت میں دعا فرماتے تھے اللھم فاطر السموت والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون اھدنی لما اختلف فیہ من الحق باذنک انک تھدی من تشآء الی صراط مستقیم اے خالق ارض و سماء اے عالم ظاہر و اطن ! تو ہی مختلف فیہ امور میں اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے ۔ حق سے اختلافی معاملات میں اپنے حکم سے میری راہنمائی فرما۔ تو جسے چاہتا ہے ، راہ راست کی طرف راہنمائی فرماتا ہے۔ ایک دعا میں یہ الفاظ بھی منقول ہیں اللھم اریا الحق حقاً اے اللہ ! ہمیں حق بات سچ کر کے دکھا اور اس کا اتباع بھی نصیب فرما۔ والباط باطلاً اور باطل کو باطل کی صورت میں ہی کھا۔ وارزقنا اجتنایہ اور ہمیں اس سے اجتناب کرنے کی توفیق بھی عطا کر۔ ولا تجعلہ ملتبساً اور اسے خلط ملط نہ بنا کر کہیں ہمارے لئے حق و باطل کی تمیز ہی نہ اٹھ جائے۔ حضرت مولانا شیخ الہند نے یہاں پر بڑا عمدہ نوٹ لکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد ایک مدت تک ایک ہی سچا دین یعنی دین توحید قائم رہا۔ اس کے بعد لوگوں نے اس میں اختلاف پیدا کیا تو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو بھیجا ، جو اہل ایمان کو اطاعت اور ثواب کی بشارت دیتے تھے اور اہل کفر و باطل کو عذاب سے ڈراتے تھے۔ ان انبیاء کے ساتھ سچی کتاب بھی نازل فرمائی تاکہ لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والا نزاع دور ہو سکے۔ اہل کتاب یہود و نصاریٰ محض ضد اور حسد کی بنا پر اختلاف کیا۔ حالانکہ وہ حق کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اہل حق کی راہنمائی فرمائی اور انہیں گمراہی اور اختلاف سے بچا لیا جیسا کہ آپ کی امت کو عقیدہ و عمل میں امر حق کی تعلیم فرمائی اور اہل کتاب جیسی افراط وتفریط سے محفوظ رکھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ سے دو باتیں معلو م ہوئیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو متعدد نبی اور کتابیں بھیجیں تو ان کا مقصد لوگوں کو ہر نبی کے علیحدہ علیحدہ فرقہ میں تبدیل کرنا نہیں تھا۔ بلک ایک ہی راستہ کی طرف راہنمائی کرنا مقصود رہا ہے جب لوگ اصل دین کو چھوڑ کر گمراہی کی طرف راغب ہوتے ۔ تو اللہ تعالیٰ ایک اور نبی اور کتاب بھیج کر اصل راستہ کی پہچان کرا دیتا تاکہ لوگ اسی صراط مستقیم کی طرف لوٹ آئیں۔ اس کی مثال آپ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ انسانی جسم کے لئے صحت فقط ایک چیز ہے مگر بیماریاں لاتعداد ہیں۔ جب کسی انسان کے جسم میں کوئی ایک بیماری پیدا ہوتی ہے۔ تو معالج اس بیماری کے مطابق دوائی اور پرہیز تجویز کرتا ہے۔ پھر دوسرا مرض پیدا ہوتا ہے تو اس کے مطابق دوسرا علاج اور پرہیز تجویز کیا جاتا ہے۔ یہی حال امتوں کا ہے۔ جب کسی قوم میں کوئی روحانی بیماری پیدا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اور کتاب بھیج کر اس بیماری کا علاج کیا۔ پھر دوسری بیماری پیدا ہوئی تو اس کے حساب حال نبی اور کتاب آئی۔ اور پھر آخر میں نبی آخر الزماں اور آخری کتاب قرآن پاک بھیج کر تمام روحانی بیماریوں کا شافی علاج کردیا۔ تاکہ لوگ قیامت تک پیدا ہونے والی بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ صبر و استقامت حضرت مولانا شیخ الہند فرماتے ہیں کہ اس آیت سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اہل حق کو صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے۔ یہ سنت اللہ ابتداء سے جاری ہے کہ ہر نبی اور ہر کتاب آسمانی کی مخالفت بڑے لوگ کرتے ہیں۔ کیونکہ حق کو تسلیم کرلینے کی زد ان ہی کے اقتدار پر پڑتی ہے نبی اور کتاب اللہ کی مخالفت ہمیشہ انہی لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔ لہٰذا اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ ان لوگوں کے ٹھٹا کرنے ، بدسلوکی اور ایذا رسانی سے گھبرائیں نہیں۔ بلکہ صبر و استقامت سے ہر تکلیف کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ ہدایت ربانی فرمایا انبیاء (علیہم السلام) اور کتابوں کو بھیجنے کے باوجود ہدایت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ واللہ یھدی من یشآء الی صراط مستقیم وہ جسے چاہتا ہے راہ راست کی طرف راہنمائی فرما دیتا ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ ہدایت اسی کو نصیب کرتا ہے جس کے اندر حصول ہدایت کی طلب اور صلاحیت ہوتی ہے اور جو کوئی ظلم و جفا پر اڑا رہتا ہے اسی کے متعلق دوسرے مقام پر فرمایا ” واللہ لایھدی القوم الظلمین “ ایسے لوگوں کی قسمت میں ہدایت نہیں ہوتی۔ بہرحال لمن یشآء سے واضح ہے کہ ہدایت ہر ایک کے حصہ میں نہیں آتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت اہل حق کو ہی حاصل ہوتی ہے۔
Top