Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 216
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْئًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ١ۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠ ۧ
كُتِبَ عَلَيْكُمُ
: تم پر فرض کی گئی
الْقِتَالُ
: جنگ
وَھُوَ
: اور وہ
كُرْهٌ
: ناگوار
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَعَسٰٓى
: اور ممکن ہے
اَنْ
: کہ
تَكْرَھُوْا
: تم ناپسند کرو
شَيْئًا
: ایک چیز
وَّھُوَ
: اور وہ
خَيْرٌ
: بہتر
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَعَسٰٓى
: اور ممکن ہے
اَنْ
: کہ
تُحِبُّوْا
: تم پسند کرو
شَيْئًا
: ایک چیز
وَّھُوَ
: اور وہ
شَرٌّ
: بری
لَّكُمْ
: تمہارے لیے
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
وَاَنْتُمْ
: اور تم
لَا تَعْلَمُوْنَ
: نہیں جانتے
تم پر لڑائی فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار گزرتی ہے اور شاید کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور شاید کہ تم کسی چیز کو پسند کرو ، اور وہ تمہارے لئے بری ہو اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
گزشتہ سے پیوستہ گزشتہ دروس میں مال کے مصارف کا بیان تھا۔ حضور ﷺ سے سوال ہوا کہ لوگ اپنا مال کن امور پر خرچ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب بھیجا کہ مال خرچ کرتے وقت سب سے پہلے والدین ، پھر قرابت داروں پھر یتیموں اور مسکینوں اور اس کے بعد مسافروں کو پیش نظر رکھیں۔ تاہم کلیہ کے طور پر اس بات کی وضاحت فرما دی کہ نیکی کا جو بھی کام انجام دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے اگر کوئی شخص صاحب نصاب ہے تو اسے سب سے پہلے زکوۃ ادا کرنی چاہئے۔ پھر صدقات واجبہ کا حکم آتا ہے۔ اس کے بعد نفلی صدقات پر خرچ کرے جس کے لئے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں۔ البتہ اجر وثواب کی خاطر اچھی سے اچھی چیز خرچ کرنا چاہئے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے لن تنالوا البرحتی تنفقوا مما تحبون جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز راہ خدا میں صرف نہ کرو نیکی کا اعلیٰ درجہ حاصل نہیں کرسکتے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ انفاق فی سبیل اللہ سے دو باتیں مقصود ہوتی ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ انسان کی تہذیب نفس حاصل ہوتی ہے۔ انسان کا نفس بخل جیسی رذیل خصلت سے پاک ہوتا ہے اور یہ شخص بارگاہ رب العزت میں پیش ہونے کے قابل ہوجاتا ہے اور اس سے دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان بنی نوع انسان کی خدمت کرسکتا ہے۔ غربا و مساکین کی اعانت بحیثیت مجموعی انسانیت کی ترقی کے لئے ضروری ہے ۔ لہٰذا کسی …… مستحق کی مالی مدد سے بنی نوع انسان کی ترقی کے راستے کھلتے ہیں۔ جہاد اور قتال میں فرق دین کی خاطر بعض اوقات مال سے بڑھ کر جان کی بازی بھی لگانی پڑتی ہے۔ اس کو قتال کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ جہاد عام لفظ ہے اور اس سے مراد اقامت دین کے لئے ہر قسم کی جدجہد ہے۔ جس میں قتال بھی شامل ہے۔ مگر قتال سے مراد راہ خدا میں لڑائی کے ذریعے جان پیش کرنا ہے جب کوئی شخص دشمن کے مقابلہ میں آتا ہے تو پھر اس بات کی پرواہ نہیں کرتا کہ اس کی جان سلامت رہتی ہے یا نہیں یہ قتال ہے اسی لئے فرمایا ” جاھدوا باموالکم وانفسکم “ دونوں طرح جہاد کرو۔ مال بھی صرف کرو اور بنفس نفیس خود بھی میدان جنگ میں کود پڑو۔ ابو دائود شریف کی روایت میں تین چیزوں کا ذکر آتا ہے۔ جاھدوالکفار باموالکم وانفسکم والسنتکم یعنی مال جان اور زبان کے ساتھ جہاد کرو۔ اللہ کے دین کو زبانی طور پر لوگوں تک پہنچانا ، ان کے شکوک و شبہات کو زبان کے ذریعے دور کرنا دین کی خوبیوں کو زبان کے ساتھ اجاگر کرنا ، یہ بھی جہاد میں شامل ہے۔ چناچہ یاں پر ارشاد ہوتا ہے۔ کتب علیکم القتال دشمن کے ساتھ لڑائی تم پر فرض کی گئی ہے۔ قتال کی فرضیت بعض دوسرے مقامات پر بھی بیان ہوئی ہے۔ سورة حج میں فرمایا ” اذن للذین یقتلون بانھم ظلموا “ مظلوم مسلمان جن کے ساتھ کفار لڑائی کرتے ہیں۔ اب انہیں بھی اجازت ہے کہ وہ کفار کے خلاف ہتھیار اٹھا لیں۔ فرض عین اور فرض کفایہ یہاں پر لفظ کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ قتال ہر شخص پر لازم ہے جیسے رمضان المبارک کے متعلق آیا ” کتب علیکم القیام “ تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں ظاہر ہے کہ روزوں کی فرضیت ہر مرد و زن کے لئے ہے اسی طرح یہاں پر ہے کتب علیکم القتال تم پر قتال فرض کیا گیا ہے۔ مگر قرآن پاک کے بعض دوسرے مقامات سے اور خود حضور ﷺ کے ارشادات سے واضح ہوتا ہے کہ جہاد اور قتال کے فرض ہونے کی دو صورتیں ہیں یعنی فرض عین اور فرض کفایہ۔ فرض عین ، فرض کی وہ صورت ہوتی ہے۔ جس سے کوئی مسلمان مرد وزن مستثنیٰ نہ ہو۔ یہ حالات و واقعات پر منحصر ہے اگر دشمن کا اس قدر غلبہ ہو کہ ہر مرد ، عورت ، چھوٹے بڑے ، آزاد اور غلام کی خدمت کی ضرورت ہے تو پھر ہر ایک پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ سب کو شامل ہونا ہوگا اگر کوئی اعراض کریگا تو گنہگار ہوگا۔ ایسی حالت میں اولاد کے لئے والدین کی جازت کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ہر فرد بلاچون و چرا جنگ میں کود پڑے گا۔ البتہ عام حالات میں قتال کا فریضہ فرض کفایہ کے طور پر ادا کیا جاتا ہے۔ جب جنگ کے لئے فوجی جوان کافی ہوں اور وہ اپنا دفاع کرسکتے ہوں اور بوقت ضرورت دشمن پر کاری ضرب لگا سکتے ہوں۔ تو ایسی صورت میں صرف ان خاص مجاہدین کا شریک جنگ ہونا ہی تمام مسلمانوں کے لئے کفایت کرے گا اور یہ فرض کفایہ ہوگا ہر ایک کا قتال میں شامل ہونا ضروری نہیں ہ گا۔ بالکل اسی طرح جس طرح میت کا جنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے ۔ جب بعض لوگ جنازے میں شامل ہوجائیں۔ تو باقیوں سے فرض ساقط ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر کوئی بھی شریک نہ ہو سب کے سب لوگ گنہگار ہوں گے۔ عام حالات میں اگر جہاد کے لئے جانا ہو ، تو والدین کی اجازت ضروری ہے۔ کیونکہ بعض اوقات ماں باپ کی خدمت کرنا فرض عین ہوتا ہے جبکہ جہاد میں شمولیت فرض کفایہ ہوتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور ! میں جہاد میں شریک ہونا چاہتا ہوں۔ آپ نے ارشاد فرمایا ، کیا تریے ماں باپ موجود ہیں۔ عرض کی ہاں فرمایا پھر والدین کی خدمت کرو۔ تمہیں جہاد کا ثواب مل جائے گا ۔ یاد رہے کہ والدین کی خدمت اس وقت فرض عین ہوجاتی ہے۔ جب کوئی دوسرا ان کی دیکھ بھال کرنے والا موجود نہ ہو۔ خیر و شر اللہ کے علم میں ہے یہاں پر ارشاد ہوتا ہے ۔ کتب علیکم القتال تم پر لڑائی فرض کی گئی ہے وھوکرہ لکم اور وہ تمہیں ناگوار گذرتی ہے۔ یہاں پر ناگوار گزرنے یا برا لگنے سے مراد طبعاً برا لگنا ہے۔ کیونکہ عقلاً تو کسی بھی حکم الٰہی کو کوئی مومن برا نہیں کرسکتا۔ البتہ طبیعت کے لحاظ سے ایسا ہو سکتا ہے کہ انسان کو کوئی چیز اچھی محسوس نہ ہو کیونکہ ” خلق الانسان ضعیفاً “ انسان پیدا ہی کمزور کیا گیا ہے اور یہ بعض بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ عقل کے لحاظ سے ہر مسلمان ہر حکم الٰہی پر امنا وصدقنا ہی کہے گا جو شاق گزرے ۔ دوسرے مقام پر عورت کے حمل کے متعلق آتا ہے ۔ ” حملتہ امہ کرھاً ووضعتہ کرھاً “ ماں بچے کو پیٹ میں بڑی مشقت سے اٹھاتی ہے۔ اور پھر اسے بڑی تکلیف اور مشقت کے ساتھ جنم دیتی ہے۔ اسی لئے تو اللہ نے ماں کا بڑا حق رکھا ہے۔ فرمایا بعض چیزوں کا ناگوار گزرنا انسان کی ظاہراً طبیعت پر منحصر ہے۔ مگر حقیقت اللہ ہی کے علم میں ہے۔ کیونکہ وعسی ان تکرھو شیئاً وھو خیر لکم شاید کہ تم کسی چیز کو ناگوار جانو مگر وہ تمہارے لئے بہتر ہو وعسی ان تحبوا شیئاً وھو شرلکم اور شائد کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لئے بری ہو۔ غالب اور مغلوب جان کی بازی لگا کر دشمن کے ساتھ جنگ لڑنا کوئی معمولی بات نہیں اور اس کا طبیعت پر ناگوار گزرنا بھی طبعی ہے۔ مگر اس کے نتائج و عواقب پر غور کرنے سے معلوم ہوگا جو قومیں اتنی آرام طلب ہوجائیں کہ وہ اپنا دفاع بھی نہ کرسکیں ، وہ جلد یا مدیر مغلوب ہوجاتی ہیں ظاہر ہے کہ دشمن غالب آئیگا اور پھر جان مال ، عزت و آبرو ہر چیز چھن جائے گی حتیٰ کہ زن و فرزند کی بےحرمتی تک ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا نتیجہ بہت ہی برا ہوگا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے جہاد فرض کر کے مسلمان کو مشقت میں نہیں ڈالا بلکہ اسے بدترین نتائج سے بچا لای ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کوئی قوم غالب آتی ہے۔ تو مغلوب قوم کو کس طرح پامال کرتی ہے۔ جب تاتاری غالب آئے تو انہوں نے ایک کروڑ مسلمانوں کو تہ تیغ کردیا۔ تمام کتب خانے جلا دیے ، عورتوں اور بچوں تک کو معاف نہیں کیا۔ اسی طرح جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا ، تو کون سا ظلم ہے جو یہاں کے باشندوں پر نہیں کیا۔ جی ٹی روڈ پر ہزاروں کی تعداد میں نعشوں کو درختوں پر لٹکایا گیا۔ ان میں غالب اکثریت مسلمانوں کی تھی ۔ جب عیسائیوں نے اندلس (سپین) پر حملہ کیا تو واں دو کروڑ کی تعداد میں مسلمان تھے۔ مگر جب وہ غالب آئے تو مسلمانوں کی تعداد صرف گیارہ ہزار رہ گئی تھی۔ باقیوں کو یا تو قتل کردیا گیا تھا یا مرتدکر لیا گیا یہ بلخ اور بخارا کا زمانہ تو قریب کا زمانہ ہے۔ صرف بخارا شہر میں چار سو مسجدیں تھیں۔ بیشمار دینی مدارس تھے۔ مگر اب وہاں کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ فرمایا جنگ کے حکم کو خوش دلی سے قبول کرو۔ تمہاری نظر صرف ظاہر پر ہے۔ مگر درحقیقت واللہ یعلم وانتم لاتعلمون اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ ہر کام کے نتیجے سے وہی واقف ہے تم اس کی اصلیت کو نہیں جانتے۔ حرمت والے مہینے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر لڑائی فرض کی ہے مگر اگلی آیت میں حرمت والے مہینوں کے دوران جنگ کے جواز یا عدم جواز کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ یعنی اے نبی (علیہ السلام) ! یہ لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں میں جنگ کرنے کے متعلق دریافت کرتے ہیں کہ ان مہینوں میں جنگ کرنا کیسا ہے۔ اس کا جواب خود اللہ تعالیٰ دیتے ہیں۔ قل قتال فیہ کبیر یعنی ان مہینوں میں لڑائی کرنا بڑا سخت گناہ ہے۔ اب پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ حرمت والے مہینے کون سے ہیں جن کے دوران لڑائی ممنوع ہے۔ اس ضمن میں سورة توبہ میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ” ان عدۃ الشھود عند اللہ اثنا عشر شھراً “ یعنی اللہ کے ہاں مہینوں کی تعداد بارہ ہے منھآ اربعۃ حرم “ ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں اور وہ یہ ہیں ، رجب ، ذی قعد ، ذ ی الحج اور محرم ، ملت ابراہیمی میں یہ بات مسلم تھی کہ ان چار مہینوں میں لڑائی قطعاً جائز نہیں۔ زمانہ جاہلیت میں مشرکین بھی اس کی پابندی کرتے تھے۔ چناچہ وہ ان مہینوں میں ہتھیار ڈال دیتے تھے کوئی لڑائی نہیں کرتے تھے۔ کسی قافلے کو نہیں لوٹتے تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی شریعت میں یہ حکم منسوخ ہوچکا ہے اور بعض اصحاب کہتے ہیں کہ یہ حکم مطلقاً منسوخ نہیں ہوا۔ بلکہ اس کی تاکید میں کمی ہوگئی ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ ان مہینوں میں مسلمان خود لڑائی کی ابتداء نہ کریں اور اگر دشمن شروع کرے تو پھر اس کا جواب دیا جائے۔ شان نزول دوسرا سوال شان نزو لکا ہے۔ کہ یہ آیت کس موقع پر نازل ہوئی اور لوگوں نے یہ سوال کیوں اٹھایا۔ محمد بن اسحاق کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے غزوئہ بدر سے پہلے حضرت عبداللہ بن حجش کی سرکردگی میں کفار کے ایک تجارتی قافلے کو پکڑنے کے لئے ایک جماعت کو بھیجا۔ آپ نے امیر جماعت کو ایک خط لکھ دیا اور ساتھ حکم دیا کہ مسلسل دو دن سفر کرنے کے بعد اس خط کو کھول کر پڑھنا اور پھر اس میں مندرجہ ہدایات کے مطابق عمل کرنا اس حکم کی تعمیل میں دو دن بعد جب خط کھول کر پڑھا گیا تو اس میں لکھا تھا کہ فلاں قافلہ کو گرفتار کرلو۔ اس کو کسی صورت میں جانے نہیں دینا۔ یہ دن جمادی الاخری کے آخری دن تھا۔ امیر لشکر نے فیصلہ کیا کہ چونکہ رجب حرمت والا مہینہ شروع ہونے والا ہے لہٰذا اس سے پہلے پہلے قافلے کو پکڑ لینا چاہئے۔ چناچہ اپنے حساب سے انہوں نے جمادی الاخری کی تیس تاریخ کو کفار کے قافلے پر حملہ کردیا۔ ایک آدمی مارا گیا۔ باقی قید ہوئے۔ سامان بھی ہاتھ آ گیا۔ لہٰذا لشکر واپس آ گیا۔ درحقیقت حملہ کرنے کی تاریخ جمادی الاخری کی تیس تاریخ نہیں تھی بلکہ رجب کی پہلی تھی ، جو کہ حرمت والا مہینہ ہے۔ لہٰذا مشرکوں کو بات کرنے کا موقع مل گیا کہ دیکھو مسلمانوں کے پیغمبر اپنے آپ کو ملت ابراہیم کے متبع کہتے ہیں ۔ مگر حرمت والے مہینہ کا بھی خیال نہیں کیا۔ قافلے پر حملہ کیا ہے۔ آدمی مارا گیا ہے اور قافلے کو بمع سامان گرفتار کرلیا ہے۔ یہ تھا وہ واقعہ جس کی وجہ سے حرمت والے مہینوں کے متعلق سوال پیدا کہ ان مہینوں میں لڑائی کرنا کیسا ہے۔ حرام فعل اس سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ لوگ آپ سے حرمت والے مہینوں کے متعلق پوچھتے ہیں تو آپ فرما دیجیے کہ ان مہینوں میں لڑائی کرنا بڑا گنا ہ ہے۔ تاہم جس واقعہ کو بنیاد بنا کر یہ سوال کیا گیا تھا۔ وہ تو غلطی سے ہا تھا ۔ مسلمان سمجھے کہ ابھی رجب کا مہینہ شروع نہیں ہوا۔ لہٰذا حملہ آور ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اس کا مزید جواب یہ دیا کہ مسلمانوں سے تو یہ خلاف ورزی خطاء ہوئی۔ مگر کفار و مشرکین اپنے گریبان میں منہ ڈلا کر نہیں دیکھتے کہ وہ خود کیا کچھ کر رہے ہیں۔ فرمایا بیشک حرمت والے مہینوں میں لڑائی حرام ہے۔ مگر وصد عن سبیل اللہ وکفر بہ اللہ کے راستے سے روکنا اور اس کے ساتھ کفر کرنا بھی تو سخت گناہ ہے والمسجد الحرام اور مسجد حرام سے روکنا بھی بڑا گناہ ہے۔ واخراج اھلہ منہ اکبر عند اللہ اور وہاں کے رہنے والوں کو مسجد حرام سے نکالنا بھی اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے فرمایا اے کفار و مشرکین تم یہ سلوک مسلمانوں سے کرتا ہو کیا یہ کوئی گم گناہ ہے تم جان بوجھ کر کر رہے ہو تم جس مسجد سے مسلمانوں کو نکال رہے ہو تم خود اس کے اہل نہیں ہو۔ ان اولیآء الا المتقون ، اس کے اہل تو صرف متقی ہیں اور وہ مسلمان ہیں فرمایا یاد رکھو ، والفتنہ اکبر من القتل یہ فتنہ برپا کرنا قتل سے بھی بڑا گناہ ہے مسلمانوں سے تو بھول کر ایک غلطی سر زد ہوگئی ہے مگر تم انہیں بیت اللہ شریف سے روک کر اور انہیں ہجرت پر مجبور کر کے فتنہ پیدا کر رہے ہو ، تمہارا کفر اور شرک پر اڑے رہنا بجائے خود ایک بہت بڑا فتنہ ہے اور اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی غلطی معمولی چیز ہے ۔ مرتد اور اس کی سزا اس کے بعد فرمایا کہ مسلمانوں کا یہ واقعہ تو کفار کو بہانہ کے طور پر مل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ولا یزالون یقاتلونکم یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا یہاں تک کہ اگر استطاعت رکھیں تو تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔ ان کا مقصد تمہیں اپنے سابقہ دین پر واپس لانا ہے۔ یہود و نصاریٰ کے متعلق بھی دوسرے مقام پر فرمایا کہ ان کا بھی یہی مقصد ہے ” ولن ترضی عنک الیھود ولا النصری “ یہود و نصاریٰ آپ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے ” حتی تتبع ملتھم “ جب تک کہ آپ کا دین اختیار نہ کرلیں (معاذ اللہ) گویا کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ مسلمانوں کو مرتد بنانا چاہتے ہیں۔ مگر یاد رکھو۔ ومن یرتدد منکم عن دینہ تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا۔ فیمت وھو کافر اور کفر کی حالت میں مر جائے گا فاولئک حبطت اعمالھم فی الدین والاخرۃ سو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا و آخرت دونوں جگہ پر ضائع ہوجائیں گے جو کوئی سچے دین اسلام کو چھوڑ کر یہودی یا عیسائی ہوگیا۔ کافر یا مرزائی ہوگیا۔ اس کی دنیا اور آخرت دونوں خراب ہوگئیں۔ دنیا میں اعمال ضائع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک مرتد شخص کی سابقہ نمازیں ، روزے ، زکواۃ ، حج وغیرہ سب ضائع ہوگئے۔ اسے ان نیکیوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، سب ضائع ہوگئیں۔ جب تک کہ وہ دوبارہ ایمان نہ لے آئے۔ علاوہ ازیں مرتد آدمی قوم و ملت کا غدار ہے۔ اور غدار کی سزا قتل ہے حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ من بدل دینا فاقتلوہ ، جو دین تبدیل کرتا ہے۔ وہ واجب القتل ہے۔ البتہ اس کا طریق کار یہ ہے کہ تین دن تک اس کے شکوک و شبہات دور کرنے کی کوشش کی جائے اور اس سے توبہ کرانے کی کوشش کی جائے۔ اور اگر یہ کوشش بار آو ر نہ ہو سکے اور مرتد دوبارہ مسلمان ہونے پر آمادہ نہ ہو تو اسے سزائے موت دے دی جائے یہ شخص دین کی توہین کا مرتکب ہوا ہے اور معافی کا حقدار نہیں۔ اشتراکی ممالک میں ان کے آئین کی توہین کرنے والا شخص موت کی سزا پاتا ہے۔ برطانوی قانون کے مطابق جب ایمری کے بیٹے نے جنگ کے دوران غداری کی تو اسے سولی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ کسی نے آواز نہیں اٹھائی کہ ان کے وزیر کے بیٹے کو سزائے موت کیوں دی گئی۔ موت کے بعد مرتد کی سزا یہ ہے کہ نہ اس کا جنازہ پڑھا جائے اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ مرتد اپنے مسلمان مورث کی وراثت کے حق سے محروم ہوجاتا ہے۔ یہ تو دنیا میں اس کے اعمال کا ضیاع ہے اور آخرت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ابدی جہنمی ہے۔ اسے کبھی دوزخ سے رہائی نہیں ہوگی مرتد اصل کافر سے بھی بڑا مجرم ہے۔ کافر سے توجز یہ قبول کرلیا جاتا ہے۔ مگر مرتد سے جزیہ بھی نہیں لیا جاتا۔ امام اعظم کے فتویٰ کے مطابق اگر عورت مرتد ہوجائے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ تامرگ قید میں ڈال دیا جائے گا…… اگر توبہ کرلے تو آزاد ہوجائے گی۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق فرمایا۔ واولئک اصحب النار یہ لوگ جہنمی ہیں اور ھم فیھا خلدون ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ ان کی رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اہل ایمان کے لئے خوشخبری کفار و مشرکین اور مرتدین کی مذمت کے بعد اہل ایمان کی خوشخبری دی جا رہی ہے۔ ان الذین امنو جو لوگ ایمان لے آئے والذین ھاجروا اور جنہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر ہجرت کی۔ نہ صرف وطن کو چھوڑا بلکہ من ھجر ما نھی اللہ عنہ بلکہ اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چیزوں سے منہ موڑ لیا کہ یہ ہجرت بہت بڑا عمل ہے۔ ان شان الھجرۃ لعظیم ہجرت کا معاملہ بڑا دشوار ہے دین کی خاطر سب کچھ چھوڑنا پڑتا ہے۔ جس نے ایسا کرلیا وجھدوا فی سبیل اللہ اور وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا اولئک یرجون رحمۃ اللہ ط یہی لوگ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں۔ واللہ غفور رحیم اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا مہربان ہے وہ نیکو کاروں کو پورا پورا اجر دیگا۔
Top