Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 222
وَ یَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِ١ؕ قُلْ هُوَ اَذًى١ۙ فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِ١ۙ وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَ١ۚ فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ
وَيَسْئَلُوْنَكَ : اور وہ پوچھتے ہیں آپ سے عَنِ : سے (بارہ) الْمَحِيْضِ : حالتِ حیض قُلْ : آپ کہ دیں ھُوَ : وہ اَذًى : گندگی فَاعْتَزِلُوا : پس تم الگ رہو النِّسَآءَ : عورتیں فِي : میں الْمَحِيْضِ : حالت حیض وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ : اور نہ قریب جؤ ان کے حَتّٰى : یہانتک کہ يَطْهُرْنَ : وہ پاک ہوجائیں فَاِذَا : پس جب تَطَهَّرْنَ : وہ پاک ہوجائیں فَاْتُوْھُنَّ : تو آؤ ان کے پاس مِنْ حَيْثُ : جہاں سے اَمَرَكُمُ : حکم دیا تمہیں اللّٰهُ : اللہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے التَّوَّابِيْنَ : توبہ کرنے والے وَيُحِبُّ : اور دوست رکھتا ہے الْمُتَطَهِّرِيْنَ : پاک رہنے والے
اور لوگ آپ سے حیض کا حکم پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے وہ گندگی ہے ، پس الگ رہو عورتوں سے حیض کے دوران اور ان کے قریب مت جائو ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائیں ، جب وہ خوب اچھی طرح پاک ہوجائیں ، پس جائو ان کے پاس جہاں سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے ، بیشک اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے توبہ کرنے والوں کو اور پسند کرتا ہے طہارت حاصل کرنے والوں کو
ربط آیات پچھلے رکوع میں مختلف مسائل کا ذکر تھا اور سوالات کے جوابات تھے ، خصوصاً شراب اور جوئے سے متعلق سوال کا جواب تھا ، پھر شراب اور جوئے کی قیامت کا ذکر ہوا ، پھر مال میں سے خرچ کرنے کے متعلق سوال آیا ۔ اس کے جواب میں بنیادی قانون سمجھایا گیا کہ اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے بعد خرچ کرنا چاہئے ، پھر یتیموں کی اصلاح اور ان کے خرچ کو اپنے ساتھ ملانے کے بارے میں سوال کیا گیا ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ یتیموں کے حق میں جو چیز بہتر ہو ، وہ ہونی چاہئے ، ان کی اصلاح اور ان کے مال کی حفاظت بہر صورت پیش نظر رہنی چاہئے ۔ یتیموں کا مال کھانا ، جوئے کی کمائی کھانا ، شراب کو استعمال کرنا یا اس کا کاروبار کرنا ، کسی کا حق ناجائز طور پرکھانا ، یہ سب چیزیں حرام ہیں ، اسی طرح مومن مرد کا مشرکہ عورت کے ساتھ اور مومنہ عورت کا مشرک مرد کے ساتھ نکاح حرام قرار دیا گیا ۔ ان تمام نا پاک افعال سے منع کیا گیا ہے۔ نکاح ہی کے ضمن میں عورتوں کے ایام ماہواری کا سوال پیدا ہوا ، جس کا جواب اس آیت زیر درس میں دیا گیا ہے۔ عورتوں کے خون مخصہ فقہائے کرام فرماتے ہیں الدماء المختصۃ بالنساء ثلاثۃ عورتوں کے مخصوص خون تین قسم ہیں ، ان میں سے پہلی قسم حیض کا خون ہے جو تندرست عورت کے رحم سے ہر ماہ چند د ن تک خارج ہوتا ہے ، اس کا اخراج لازمی ہے اگر کسی وجہ سے یہ خون بند ہوجائے ، تو عورت طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتی ہیں گویا یہ خون عورت کی تندرستی کی علامت ہے ، جب تک عورت بالغ نہیں ہوتی ، یہ خون شروع نہیں ہوتا ۔ شادی کے بعد جب حمل ٹھہرجاتا ہے تو یہی خون بچے کی خوراک بنتا ہے ، لہٰذا حمل کے دوران بھی خارج نہیں ہوتا ، اس کے بعد جب تک بچہ دودھ پیتا ہے ، عموماً یہ خون رکا رہتا ہے اور پھر جب عورت کبر سنی میں پہنچ جاتی ہے ، یعنی تقریباً پچاس سال کی عمر میں جا کر یہ خون ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتا ہے ۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ حضور نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھیں ، جب آپ کا قافلہ مکہ معظمہ کے قریب سرف کے مقام پر پہچا ، تو حضرت عائشہ ؓ کے ایام ماہواری شروع ہوگئے۔ ایام حج قریب تھے اور آپ کو خدشہ پیدا ہوا کہ اس حالت کی وجہ سے وہ حج سے محروم نہ ہوجائیں ، لہٰذا فرط غم سے رونے لگیں ۔ حضور ﷺ تشریف لائے ، تو فرمایا گھبرائو نہیں ھذا شی کتبہ اللہ علی نبات آدم یہ ایک فطری چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے۔ فرمایا حج کے ضیاع کا فکر نہ کرو ، تم احرام باندھ لو ، حج کے تمام ارکان ادا کرو ، سوائے اس کے کہ طواف کو موخر کر دو ، کیونکہ اس کے لیے مسجد الحرام میں جانا ضروری ہے اور وہاں ایسی حالت میں نہیں جا سکتیں۔ عورت کے خون مختص کی دوسری قسم نفاس ہے نہ زچگی کے دوران آتا ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد کم و بیش چالیس روز تک رہتا ہے ، اس کے بعد اسے نفاس نہیں شمار کیا جاتا ، عموماً یہ خون دس بیس دن یا مہینہ تک ختم ہوجاتا ہے۔ حیض اور نفاس کے خون کے احکام مشترکہ ہیں ، البتہ تیسری قسم کا خون استحاضہ کہلاتا ہے یہ بیماری کی وجہ سے آتا ہے ، عورت کے رحم میں کوئی باریک سی رگ پھٹنے سے خون رستا رہتا ہے ، اس کا حکم الگ ہے۔ مدت حیض حیض کی مدت کے متعق فقہائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ امام ابوحنیفہ (رح) امام سفیان ثوری (رح) ، امام محمد (رح) اور امام ابو یوسف (رح) کہتے ہیں کہ حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہے ، اگر تین دن سے کم خون آ کر ختم ہوگیا ، تو وہ حیض شمار نہیں ہوگا ، بلکہ کسی بیماری وغیرہ کا اثر ہوگا ، اسی طرح اگر دس دن سے زیادہ عرصہ تک خون آتا رہا ، تو وہ بھی حیض کے زمرہ میں نہیں آئے گا ، بلکہ استحاصہ ہوگا ، بر خلاف اس کے امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ حیض کی مدت ایک دن سے لے کر پندرہ دن تک ہے اور ان ایام حیض ہی کے احکام لا گو ہوں گے ۔ عورت نماز نہیں پڑھ سکے گی ۔ امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے مطابق تین دن سے دس دن تک کی مدت کے علاوہ بھی اگر خون آتا ہے تو عورت کو غسل کر کے نماز پڑھنا ہوگی ۔ ہندو مذہب میں بھی حیض کی مدت پندرہ دن تک ہے ، البیرونی نے کتاب الہند میں لکھا ہے کہ ہندو لوگ بھی پندرہ دن تک حیض شمار کرتے ہیں۔ افراط و تفریط اس مسئلہ میں دیگر مذاہب میں افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ مثلاً عیسائی حیض کی حالت میں عورت سے جماع کرلیتے تھے ، بر خلاف اس کے یہودی ، مجوس اور ہندو مت والے حائضہ ہے اس قدر نفرت کرتے تھے کہ اسے گھر سے نکال دیتے نہ وہ کسی چیز کو ہاتھ لگا سکتی اور نہ کھانا پکا سکتی ، بلکہ یہودیوں کی خود ساختہ تورات میں موجود ہے کہ اگر حائضہ عورت کسی شخص کے کپڑے کو ہاتھ لگا دے تو وہ شخص چوبیس گھنٹے کے لیے ناپاک ہوجائے گا جو کوئی ایسی کپڑے کو دھوئے گا وہ بھی پورے دن کے لیے پلید ہوجائے گا ۔ سوال و جواب افراط وتفریط کے اس دور میں صحابہ کرام ؓ کو حیض کے متعلق احکام الٰہی کی ضرورت محسوس ہوئی ، چناچہ انہوں نے حضور نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا ۔ اسی سوال کے متعلق فرمایا ویسئلونک عن المحیض اے پیغمبر (علیہ السلام) یہ لوگ آپ سے حیض کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ آیا ان ایام میں عورت کے قریب جانا چاہئے یا نہیں ۔ یا اس سے تعلق بالکل ہی قطع کرلینا چاہئے ، اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل یعنی اے نبی کریم ﷺ ! ان سے کہ دیں ھوا ذی یہ گندگی ہے ، اذی اس گندگی کو کہتے ہیں جو تکلیف دہ ہو یعنی یہ سخت ناپاکی کی حالت ہے۔ فاعتزلوا النساء فی المحیص لہٰذاحیض کی حالت میں عورت کے قریب نہ جائو ، مطلب یہ کہ ان ایام میں مباشرت کرنا حرام ہے۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص حیض کی حالت میں عورت سے جماع کرتا ہے اور اسے حلال بھی جانتا ہے تو وہ کافر ہوگیا ۔ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ کے قطعی حکم کو توڑ دیا ہے اور اگر نفسانی اور شیطانی غلبہ سے یہ کام کیا ہے ، تو گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے ، چناچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایسی غلطی کرنے والے کو توبہ کرنی چاہئے ، استغفار کرے اور ایک دینار یا نصف دینارصدقہ دے۔ طبی لحاظ سے بھی حیض کے دوران جمع کرنا میاں بیوی کے لیے مضر صحت ہے۔ یہ خون بعض اوقات بدبو دار بھی ہوتا ہے ، اس کی رنگت بھی ایسا اوقات سیاہی مائل یا مٹیالی ہوتی ہے ، لہٰذا اس حالت میں عورت سے پرہیز کرنا چاہئے ، البتہ یہودیوں کی طرح یہ بھی نہیں ہونا چاہئے کہ عورت کو بالکل ہی گھر سے الگ کردیا جائے کہ کسی چیز کو ہاتھ بھی نہ لگا سکے ، اسلام میں ایسا نہیں ہے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس آیت میں عورتوں سے الگ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے مباشرت نہ کرو۔ اس کے علاوہ عورتیں کھانا پکا سکتی ہیں ، تم ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہو ۔ ایک چارپائی پر لیٹ سکتے ہو ان سے دیگر خدمات لے سکتے ہو ، تا ہم ناف سے لیکر گھٹنے تک کے حصہ کو نہ ہاتھ لگا سکتے ہو اور نہ دیکھ سکتے ہو۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حیض کی حالت میں ام المومنین حضور ﷺ کا سر مبارک دھوڈالتی تھیں۔ الغرض ! اسلام نے اس معاملہ میں افراط وتفریط سے بچتے ہوئے ، بہتر اور درمیانہ راستہ اختیار کیا ہے۔ حائضہ کے احکام حیض والی عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اس حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی ، اس کے لیے حرام ہے۔ اسی طرح روزہ بھی نہیں رکھ سکتی ، اس کے لیے نماز کی قضا بھی نہیں ہے ، البتہ روزے کی قضا لازم ہے۔ حائضہ عورت کا مسجد میں داخلہ منع ہے اسی لیے طواف بھی نہیں کرسکتی ۔ قرآن کریم کو ہاتھ نہیں لگا سکتی کیو کہ ناپاک ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ حیض و نفاس والی عورت یا جابت والی عورت یا مرد قرآن کو نہ چھو سکتے ہیں اور نہ اس کی تلاوت کرسکتے ہیں ، البتہ درود شریف پڑھ سکتے ہیں ۔ دیگر وظائف استغفار بسم اللہ وغیرہ کا ورد کرسکتے ہیں ۔ فرمایا ولا تقربو ھن حتیٰ یطھرن ان کے قریب نہ جائو جب تک کہ وہ پاک نہ ہوجائیں ۔ فاذا تطھرن اور جب وہ اچھی طرح پاکیزگی حاصل کرلیں ، یہ مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی خوب طہارت حاصل کرلیں ، غسل جنابت کے سلسلہ میں بھی یہی صیغہ استعمال ہوا ہے ۔ فاطھروا یعنی خوب اچھی طرح غسل کیا جائے ، حتیٰ کہ بال برابرجگہ بھی خشک نہ رہے۔ حیض و نفاس سے طہارت کا مطلب بھی یہی ہے کہ خوب اچھی طرح غسل کیا جائے کیونکہ حیض نے فرمایا کہ ہر بال کے نیچے جناب ہوتی ہے ۔ لہٰذ ا خوب مل مل کر بڑے اہتمام سے غسل کرنا چاہئے۔ جب یہ چیز حاصل ہوجائے۔ فاتوھن من حیث امرکم اللہ پس جائو ان کے پاس جہاں سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ یعنی جب عورتیں پاک صاف ہوجائیں تو پھر تم مباشرت کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ کل مدت حیض یعنی دس دن گزرنے کے بعد اگر کوئی شخص عورت کے غسل کیے بغیر بغیر بھی مباشرت کرے تو کوئی حرج نہیں ، اور اگر ان دس ایام کے اندر خون بند ہوگیا تو پھر جب تک عورت غسل نہ کرے یا ایک نماز کا وقت نہ گزر جائے مباشرت جائز نہیں ہوگی۔ توبہ اور پاکیزگی فرمانا ان اللہ یحب التوابین بیشک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ، جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس سے معافی مانگتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہوجاتے ہیں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا کلکم خطاء ون تم سب کسی نہ کسی لحاظ سے خطا کار ہو ۔ چھوٹی موٹی غلطیاں ہوجاتی ہیں و خیر الخطائین التوابون اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرلیتے ہیں ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ عاجزی کرنے والوں ، استغفار کرنے والوں اور معافی مانگے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔ فرمایا ویحب المتطھرین اور اللہ تعالیٰ پاکیزگی اور طہارت حاصل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے یہاں پاکیزگی سے مراد ہر قسم کی پاکیزگی ہے ، جس میں جسم ، لباس ، خوراک ، مکان حتیٰ کہ عقیدہ نظریات کی پاکیزگی بھی مقصود ہے ، طہارت کا اصول ۔ اتنا اہم اصول ہے کہ شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ چار چیزیں تمام ادیان میں اٹل رہی ہیں اور ہمارے دین میں بھی ہیں ، نمبر ایک طہارت جس کا بیان آ چکا ہے دوسرے نمبر پر اخبات ہے جس کا مطلب خدا کے سامنے عاجزی کا اظہار ہے نماز ، روزہ ، حج اور ذکر و اذکار سب اخبات کا حصہ ہیں ۔ تیسری چیز سماحت ہے یعنی خسیس اور حقیر چیزوں سے بچ جانا ، منجملہ ان کے ہر قسم کا گناہ ، اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء ، کفر شرک ، حسد ، بغض ، لالچ وغیرہ ان چیزوں سے اعراض کرنا سماحت کہلاتا ہے اور آخری چیز ہے۔ عدالت پوری زندگی کے ہر مرحلہ پر عدل و انصاف کا دامن تھامے رہنا اور کسی سے ظلم و زیادتی نہ کرنا یہ تمام امتوں کے مشرکہ اصول ہیں ۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ پاکیزگی کے اصول میں عقیدہ کی پاکیزگی کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ سورة مدثر میں آیا ہے والرجز فاھجر یعنی دل دماغ سے کفر و شرک اور بدعت کی گندگی کو نکال باہر کرو ، جب تک عقیدہ پاک نہیں ہوگا ، نماز روزہ ، حج ، زکوٰۃ کچھ کام نہ آئے گا ۔ لہٰذا اس طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے ایک اور اہم طہارت مال کی طہارت ہے جس مال سے انسان خوراک کھاتا ہے ۔ لباس پہنتا ہے ، مکان بناتا ہے ، وہ مال بھی پاک ہونا چائے ۔ چوری ، ، خیانت ، رشوت اور بلیک کا مال اللہ تعالیٰ کا ہرگز پسند نہیں ۔ اسی طرح جس مال سے زکوٰۃ نہیں نکالی گئی وہ مال بھی پاک نہیں ہے۔ ایسے مال سے اللہ تعالیٰ صدقہ قبول نہیں کرتا ایسے شخص کی عبادت قبول نہیں کرتا ، ایسا شخص مر گیا تو اپنے پیچھے جہنم کے راستہ کا توشہ چھوڑ گیا ۔ عورت بمنزلہ کھیتی آگے ایک اور مسئلہ بیان فرمایا ۔ عورت کو کھیتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے ارشاد ہوا ۔ نساء کم حرث لکم تمہاری عورتیں تمہارے لیے بمنزلہ کھیتی کے ہیں ۔ فاتوا حرثکم انی شئۃ پس جائو اپنی کھیتوں میں جس طرح چاہو۔ اس مقام پر عورت کو کھیتی کہ کر اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھا دی کہ مرد کا نطفہ بمنزلہ تخم کے ہے اور اولاد بمنزلہ پیداوار کے ہیں ۔ جس طرح زمین میں بیج ڈالا جاتا ہے اور اس سے فصل پیدا ہوتی ہے ۔ اسی طرح مرد کا یہ قطہ اب عورت کے رحم میں جا کر بچے کی پیدائش کا سبب بنتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اولاد جبھی ہوگی جب نطفہ اصل مقام میں جائے گا ۔ لہٰذا دوسرے مقام میں مباشرت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور اس کے متعلق سخت وعید آئی ہے۔ فرمایا من اتی امرۃ فی دبرھافقد کفر بما نزل علی محمد ﷺ یعنی جس شخص نے عورت کے ساتھ پیٹھ کے راستے مباشرت کی ، اس نے محمد کی شریعت کا انکار کردیا وہ باغی اور مجرم ٹھہرا۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ انی شئتم سے جماع کی کیفیت مراد ہے یعنی تم جس طرح بھی پسند کرو مثلاً لیٹ کر یا بیٹھ کر یا کروٹ کے بل یا پیچھے سے ہو کر مگر شرط یہ ہے کہ فی صمام واحد مقام ایک ہی ہو دوسرے مقام کے استعمال کی اجازت نہیں ، اللہ تعالیٰ نے یہاں پر کھیتی کا لفظ لا کر ان سب باتوں کی وضاحت فرما دی۔ نیک اولاد صدقہ جاریہ نیک اولاد صدقہ جاریہ فرمایا وقد موالا انفسکم اپنے نفسوں کے لیے کچھ آگے بھی بھیجو یعنی اگلے جہاں کے لیے بھی نیکی کا کچھ فکر کرو ، نیت صحیح ہونی چاہئے ۔ مباشرت سے مقصود محض شہوت رانی ہی نہ ہو ، اگرچہ یہ بھی روا ہے مگر اس کا اصل مقصداولاد کی پیدائش ہونا چاہئے ، اگر صالح اولاد ہوگی ، تو وہ تمہارے پیچھے صدقہ جاریہ ہوگی۔ حضور ﷺ نے فرمایا او ولد صالح یدعوالہ نیک اولاد ہوگی تو تمہارے لیے دعا کریگی جو تمہارے لیے ذخیرہ آخرت ہوگا ۔ وتقوا اللہ اور اللہ سے ڈرو ، کہیں اس کے قاون کی خلاف ورزی نہ کر بیٹھا ۔ اس نے طہارت اور مباشرت تک کے قانون واضح کردیے ہیں ، اب ان سے روگردانی نہ کرنا ، ایام حیض میں مباشرت سے نہ صرف اخلاق بگڑ جائے گا بلکہ طرح طرح کی بیماریاں بھی لا حق ہو سکتی ہیں واعلموا انکم ملقوہ اور یاد رکھو ، ایک نہ ایک دن تمہیں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنی ہے ، اس کے حضور پیش ہونا ہے ، وہ ایسا دن ہوگا یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا جب ہر شخص خود اپنے نفس سے سوال و جواب کریگا ، درمیان میں کوئی ترجمان نہیں ہوگا نہ کوئی دلیل ہوگا اور نہ کوئی ساتھی اپنی جو ابدی آپ ہی کرنا پڑیگی اور آخری جملہ فرمایا وبشر المومنین جو اہل ایمان ہیں ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔ پیغمبر پر ان کا ایمان ہے۔ احکام الٰہی پر یقین رکھتے ہیں ۔ اس کے قانون کی پابندی کرتے ہیں ۔ انہیں خوشخبری سنا دیں کہ اللہ کے نزدیک ان کے لیے فلاح و کامیابی کے درازے کھلے ہیں۔
Top