Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 224
وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰهَ عُرْضَةً لِّاَیْمَانِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَلَا تَجْعَلُوا : اور نہ بناؤ اللّٰهَ : اللہ عُرْضَةً : نشانہ لِّاَيْمَانِكُمْ : اپنی قسموں کے لیے اَنْ : کہ تَبَرُّوْا : تم حسن سلوک کرو وَ : اور تَتَّقُوْا : پرہیزگاری کرو وَتُصْلِحُوْا : اور صلح کراؤ بَيْنَ : درمیان النَّاسِ : لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ سَمِيْعٌ : سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنائو کہ تم نیکی نہیں کرو گے ، پرہیز گاری اختیار کرو گے اور یہ کہ تم لوگوں کے درمیان صلح نہیں کر ائو گے ، بیشک اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے
ربط آیات اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ حیض کی وضاحت فرمائی کہ ایسی حالت میں عورت سے مباشرت حرام ہے ، تا ہم طہارت حاصل کرلینے کے بعد عورتوں کے پاس جانے کی اجازت ہے ، اس سے گزشتہ آیت میں مشرک مرد اور مشرکہ عورتوں سے نکاح کی ممانعت فرمائی تھی ۔ اس سے پہلے یتیموں کے مال سے متعلق مسائل تھے ، اور انہیں ساتھ ملانے کی اجازت دی تا ہم فرمایا کہ ہر حال میں یتیموں کی اصلاح پیش نظر ہونی چاہئے ، محتاجوں کی اعانت کے متعلق بھی حکم آ چکا ہے کہ اپنی جائز ضروریات سے زاید مال مستحقین پر خرچ کر دو ، ضرورت سے زیادہ مال رکھنا شرکا باعث ہے ، اس سے پہلے شراب اور جوئے کی حرمت کا بیان بھی آ چکا ہے کہ یہ سب ناپاک چیزیں ہیں اور ہر برائی کی جڑ ہیں۔ مسئلہ قسم گزشتہ دروس کی آیات میں متذکرہ قبیح چیزوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس درس کی آیات میں لوگوں میں پائی جانے والی ایک اور بری بات کا ذکر فرمایا ہے اور وہ ہے نیکی کا کام ہ کرنے پر اللہ کی قسم اٹھانا ، قسم کے متعلق احکام مختلف سورتوں میں بیان ہوئے ہیں ، منجملہ ان کے یہ آیات اور سورة مائدہ کی آیات ہیں ۔ قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قسم اٹھانا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اگر کوئی سچا ہو اور قسم اٹھائے بغیر چارہ بھی نہ ہو ، تو ایسی صورت میں قسم اٹھانے کی اجازت ہے اور اس میں شرط یہ ہے کہ قسم اللہ کے کسی نام یا اس کی صفت کے ساتھ اٹھائی جائے ، کسی انسان ، جن ، نبی یا کسی اور چیز کی قسم نہیں اٹھانی چاہئے ، کیونکہ من اقسم بغیر اللہ فقد اشرک جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی اس نے شرک کا ارتکاب کیا ، اور اگر ایسی قسم اٹھانے والا شخص اس غیر اللہ کی ایسی ہی تعظیم کرتا ہے جیسی اللہ کی کرنی چاہئے یا اس کی صفت کو ویسی ہی جانتا ہے۔ جیسی اللہ کی صفت ، تو پھر ایسے شخص نے حقیقتاً شرک کیا اور مشرک یا کافر ہوگیا اور اگر حقیقی تعظیم غیر اللہ مراد نہ ہو پھر بھی غیر اللہ کی تعظیم میں شبہ ہوگا ، اس کے مناسب نہیں کہ کسی حال میں بھی غیر اللہ کی قسم اٹھائی جائے اور مطلقاً بھی قسم اچھی نہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ حتیٰ الامکان قسم اٹھانے سے گریز کیا جائے۔ اما شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے پوری زندگی میں کبھی قسم نہیں اٹھائی۔ نا جائز قسم کی ممانعت اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جائز امور میں تو قسم اٹھانے کی اجازت ہے مگر بری باتوں میں قسم مت ٹھائو ۔ ولا تجعلوا اللہ عرضۃ لا یمانکم اللہ تعالیٰ کے پاک ناموں کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنائو ۔ ان امور میں ا تبروا اوتتقوا وتصلحوا بین الناس کہ تم نیکی نہیں کرو گے ۔ پرہیز گاری اختیار نہیں کرو گے یا لوگوں کے درمیان صلح نہیں کر ائو گے ۔ فرمایا یہ تو بہت بری حرکت ہے کہ ایک اچھائی کے کام میں اللہ کی قسم کھاتے ہو کہ ہم یہ نیکی کا کام نہیں کریں گے۔ یہ تو بہت ہی بری بات ہے یا مثلاً کوئی اس بات کی قسم اٹھائے کہ میں والدین سے کلام نہیں کرونگا ۔ یا کسی محتاج کی اعانت نہیں کروں گا ، یا کوئی فرض ادا نہیں کروں گا تو فرمایا ایسا نہ کرو۔ واللہ سمیع اللہ تعالیٰ سنے والا ہے ۔ لہٰذا کوئی ایسی بات زبان پر نہ لائو جو قابل مواخذہ ہو اور وہ علیم بھی ہے۔ جو دلوں کے رازوں کو بھی جانتا ہے اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ وہ تمہاری یتوں سے بھی واقف ہے کہ کوئی کام تم اچھی نیت سے کر رہے ہو یا بری نیت سے ، لہٰذا اپنا دل قابو میں رکھو اور اس میں کوئی برا خیال نہ آنے دو ۔ زبان پر کنٹرول ہونا چاہئے۔ زبان سے کوئی بری بات نہ نکلے کیونکہ اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے تم اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ قسم کی تین قسمیں فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ قسم کی تین قسمیں ہیں ۔ پہلی قسم یمین لغو ہے۔ جو بغیر ارادے کے زبا سے نکل جائے ، ایسی قسم پر کوئی مواخذہ نہیں اور نہ ہی کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اس پر آخرت میں بھی کوئی گرفت نہیں ، ہاں اگر دل کے ارادے سے قسم اٹھائی جائے بما کسبت قلوبکم ایسی قسم پر یقینا مواخذہ ہوگا ۔ دوسری قسم یمین غموس ہے۔ غمس کا معنی کسی گناہ میں غوطہ مارا ہے ، اگر کوئی شخص کسی گزشتہ واقعہ کے متعلق دیدہ دانستہ غلط قسم اٹھاتا ہے ، مثلاً یہ کہ فلاں شخص میرے پاس آیا تھا ، مگر حقیقت میں وہ نہیں آیا تھا تو ایسی قسم غموس کہلاتی ہے۔ اس میں اگرچہ کفارہ نہیں ہے ، مگر قسم اٹھانے والا گناہ گار ہوتا ہے اور آخرت میں قابل مواخذہ ہے۔ قسم کی تیسری قسم یمین منعقدہ ہے یعنی کوئی شخص آے والے زمانہ کے لیے قسم اٹھائے کہ میں فلاں کام کروں گا یا فلاں کام نہیں کروں ۔ اگر ایسی قسم جائز کام سے متعلق ہے اور اس نے قسم کو پورا بھی کردیا ، تو وہ بری ہوگیا ، اگر اس نے قسم کو توڑ دیا ہے تو کفارہ دینا پڑے گا اور قسم کسی ناجائز کام سے متعلق اٹھائی ہے تو قسم کو توڑ کر کفارہ ادا کرنا چاہئے۔ قسم کا کفارہ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جب میں کسی بات پر قسم کھا لیتا ہوں اور پھر دیکھتا ہوں کہ دوسری بات زیادہ بہتر ہے۔ تو قسم توڑکر کفار ادا کردیتا ہوں ۔ ایک موقع پر 1 ؎ مشہور صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے عرض کیا ، حضور ! ہم جہاد پر جانا چاہتے ہیں ، ہمارے لیے سواری کا انتظام فرما دیں ۔ آپ نے فرمایا واللہ لا احملکم اللہ کی قسم میں تم کو کسی سواری پر سوار نہیں کر ائوں گا۔ صحابی خاموش ہو کر چلے گئے ۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو بلا کر اونٹ ان کے حوالے کردیے۔ انہوں نے عرض کیا حضور آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ آپ ہمیں سوار نہیں کریں گے ، اور میں نے اپنے ساتھیوں سے بھی کردیا کہ آپ نے یہ قسم اٹھا لی ہے ۔ حضور ! اگر اب میں اونٹ لے گیا تو اپنے ساتھیوں میں جھوٹا ثابت ہوں گا ، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ، جب میں کسی معاملہ میں قسم اٹھالیتا ہوں اور پھر دیکھتا ہوں کہ دوسری بات بہتر ہے تو قسم توڑ کر کفارہ ادا کردیتا ہوں ۔ ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایک بات پر اصرار نہ کرے جب کہ دوسری بات بہتر ہو ، اس کو چاہئے کہ ایسی قسم توڑ کر کفارہ ادا کر دے ، اللہ تعالیٰ کی رضا اسی میں ہے۔ قسم کا کفارہ سورة مائدہ میں مذکور ہے قسم توڑنے والا ایک غلام آزاد کرے۔ غلامی کا رواج اب ختم ہوچکا ہے۔ لہٰذا یہ کفارہ تو اب ادا نہیں کیا جاسکتا ، البتہ یہ کہ دس مسکینوں کو اتنا کپڑا پہنا دیا جائے ، جس میں وہ نماز ادا کرسکیں ، یا دس مسا کی کو دو وقت اوسط درجے کا کھانا کھلا یا جائے ، نہ زیادہ اچھا ہو اور نہ برا ہو ۔ سادہ گوشت روٹی کھلا دینا کافی ہوگا ۔ اگر اتنی استطاعت بھی نہ ہو ، تو پھر تین دن 1 ؎۔ مسلم ص 47 ج 2 (فیاض) قسم اٹھائے کہ میں فلاں کام کروں گا یا فلاں کام نہیں کروں۔ اگر ایسی قسم جائز کام سے متعلق ہے اور اس نے قسم کو پورا بھی کردیا ، تو وہ بری ہوگیا۔ اگر اس نے قسم کو توڑ دیا ہے۔ تو کفارہ دینا پڑے گا۔ اور قسم کسی ناجائز کام سے متعلق اٹھائی ہے تو قسم کو توڑ کر کفارہ ادا کرنا چاہئے۔ قسم کا کفارہ حضور (علیہ الصلوۃ والسلام) کا ارشاد گرامی ہے کہ جب میں کسی بات پر قسم کھا لیتا ہوں اور پھر دیکھتا ہوں کہ دوسری بات زیادہ بہتر ہے تو قسم توڑ کر کفار ادا کردیتا ہوں۔ ایک موقع 1 ؎ پر مشہور صحابی حضرت ابو موسیٰ اشعری نے عرض کیا ، حضور ! ہم جہاد پر جانا چاہتے ہیں ، ہمارے لئے سواری کا انتظام فرما دیں۔ آپ نے فرمایا واللہ لا احملکم اللہ کی قسم میں تم کو کسی سواری پر سوار نہیں کر ائوں گا۔ صحابی خاموش ہو کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور ﷺ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو بلا کر اونٹ ان کے حوالے کردیئے ۔ انہوں نے عرض کیا حضور آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ آپ ہمیں سوار نہیں کریں گے اور میں نے اپنے ساتھیوں سے بھی کہہ دیا کہ آپ نے یہ قسم اٹھا لی ہے۔ حضور ! اگر اب میں اونٹ لے گیا تو اپنے ساتھیوں میں جھوٹا ثابت ہوں گا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جب میں کسی معاملے میں قسم اٹھا لیتا ہوں اور پھر دیکھتا ہوں کہ دوسری بات بہتر ہے۔ تو قسم توڑ کر کفارہ ادا کردیتا ہوں۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ حضور نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص ایک بات پر اصرار نہ کرے جب کہ دوسری بات بہتر ہو۔ اس کو چاہئے کہ ایسی قسم توڑ کر کفارہ ادا کر دے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اسی میں ہے۔ قسم کا کفارہ سورة مائدہ میں مذکور ہے قسم توڑنے والا ایک غلام آزاد کرے۔ غلامی کا رواج اب ختم ہو چاک ہے۔ لہٰذا یہ کفارہ تو اب ادا نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ یہ کہ دس مسکینوں کو اتنا کپڑا پہنا دیا جائے ، جس میں وہ نماز ادا کرسکیں۔ یا دس مساکین کو دو وقت اوسط درجے کا کھانا کھلایا جائے۔ نہ زیادہ اچھا ہو اور نہ برا ہو۔ سادہ گوشت روٹی کھلا دینا کافی ہوگا۔ اگر اتنی استطاعت بھی نہ ہو ، تھر تین دن 1 ؎ مسلم ص 47/ج 2 (فیاض) کے مسلسل روزے رکھے۔ ان چاروں صورتوں سے قسم کا کفارہ ادا ہوتا ہے۔ الغرض ! فرمایا لا یواخذکم اللہ باللغو فی ایمانکم اللہ تعالیٰ تماری لغو قسموں پر مئواخذہ نہیں کرتا ولکن یواخذکم بما کسبت قلوبکم بلکہ ان قسموں پر مئواخذہ کرتا ہے جو تم دل کے ارادے سے اٹھاتے ہو۔ لہٰذا کثرت سے قسمیں نہیں اٹھانا چاہئیں جو کوئی ایسا کرے گا ، اسے ان احکام کی پابندی کرنا ہوگی۔ ہاں ! اگر کوئی شخص ایسی کوتاہی کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے اور مذکورہ احکام کے تحت کفارہ ادا کر دے تو واللہ غفور حلیم اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور بردبار ہے مگر ایک بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اس کی بردباری سے انسان کی حوصلہ افزائی نہیں ہونی چاہئے۔ بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں اس کی گرفت میں نہ آجائے۔ مسئلہ ایلا۔ اس سے پیشتر حیض کا مسئلہ بیان ہوچکا ہے کہ حیض کے دوران عورت کے قریب جانا حرام ہے۔ اب اسی نوعیت کا ایک اور مسئلہ بیان ہو رہا ہے جسے ایلاء کہتے ہیں۔ ایلاء کا لغوی معنی قسم اٹھانا ہے اور مراد اس سے یہ ہے کہ کوئی شخص اس امر کی قسم اٹھا لے کہ وہ اپنی عورت کے قریب نہیں جائیگا۔ اس کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں۔ (1) مطلقاً قسم اٹھانا کہ عورت کے قریب نہیں جائوں گا۔ (2) چار ماہ کی مدت مقرر کرے کہ اتنا عرصہ عورت کے قریب نہیں جائوں گا۔ (3) چار ماہ سے زیادہ مثلاً پانچ ، چھ ، آٹھ ماہ کے لئے قسم کھائے کہ عورت کے قریب نہیں جائوں گا۔ (4) چار ماہ سے کم مدت ایک ، دو ، تین ماہ تک کے لئے قسم کھائے کہ عورت کے قریب نہیں جائوں گا۔ چوتھی صورت یعنی چار ماہ سے کم مدت کے ایلاء کو شرعی ایلاء نہیں کہا جائے گا۔ اور اگر اس دوران عورت سے مقاربت کرلی۔ تو قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ باقی تین صورتوں میں حکم یہ ہے کہ ایسے شخص کو قسم توڑ دینی چاہئے اور اس کا کفارہ ادا کرنا چاہئے اور اگر چار ماہ کا عرصہ گزر گیا اور قسم کھانے والا شخص عورت کے پاس نہیں گیا ، تو پھر ایلاء مئوثر ہوگیا۔ البتہ اس کے حکم میں فقہائے کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ کا قول ہے۔ کہ ایسی صورت میں ایک طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ اب اگر مرد دوبارہ رجوع کرنا چاہے تو اسے نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔ اگر رجوع کا کوئی ارادہ نہیں تو عورت آزاد ہے ، عدت گزرنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ البتہ ائمہ ثلاثہ امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد فرماتے ہیں کہ چار ماہ کی مدت گزرنے کے بعد طلا قخود بخود واقع نہیں ہوگی ، بلکہ حاکم وقت اس شخص کو عدالت میں طلب کر کے اسے مجبور کریگا کہ یا تو وہ رجوع کرلے یا طلاق دے دے دونوں صورتوں میں جو بھی فیصلہ ہوگا۔ اس کے مطابق عمل ہوگا۔ اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ شرعی ایلاء اس صورت میں قائم ہوگا جب عورت کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی گئی ہو۔ اگر قسم نہیں کھائی ویسے ہی کردیا کہ بیوی کے پاس نہیں جائوں گا۔ تو یہ ایلاء شمار نہیں ہوگا۔ بعض مفسرین (جیسا صاحب تفہیم القرآن کو مغالطہ ہوا ہے اور اس نے غلط مسئلہ لکھا ہے) کو مغالطہ ہوا ہے۔ جو کہتے ہیں کہ بغیر قسم کے بھی ایلاء ہوجاتا ہے۔ حالانکہ حضرت علی اور دوسرے صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ ایلاء کے لئے قسم اٹھاناضروری ہے۔ کیونکہ اگر کوئی شخص و بسے ہی ایک دو سال کے لئے علیحدہ رہے تو ایلاء قائم نہیں ہوگا۔ لغوی اعتبار سے بھی قسم ضروری ہے کیونکہ ایلاء کا معنی ہ قسم ہے۔ البتہ قسم کے بغیر ایسی بات کرنے سے انسان گنہگار ضرور ہتا ہے۔ ایسی چیزوں سے اجتناب کرنا چاہئے اس سے عورت کو تنگ کرنا مقصود ہے جو کہ ناروا ہے۔ جس طرح میاں بیوی کے دیگر حقوق ہیں۔ اسی طرح نفسانی خواہش کی تکمیل بھی دونوں کا حق ہے اور کسی فریق کو اس کے حق سے محروم کرنا مستحسن نہیں ہے۔ بلکہ بری بات ہے۔ فرمایا للذین یولون من نسآئھم تربص اربعۃ شہر ان لوگوں کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے۔ جو اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھالیتے ہیں۔ فان فآء وا پس اگر وہ اس دوران لوٹ آئیں۔ فان اللہ غفور رحیم تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے غلطی کوتاہی معاف ہوجائے گی
Top