Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 227
وَ اِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَاِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
وَاِنْ : اور اگر عَزَمُوا : انہوں نے ارادہ کیا الطَّلَاقَ : طلاق فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ سَمِيْعٌ : خوب سنے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور اگر انہوں نے طلاق یا تفریق کا پختہ ارادہ کرلیا ہے تو اللہ تعالیٰ سننے والا اور جاننے والا ہے
ربط آیات گزشتہ درس میں قسم کے متعلق بیان تھا۔ اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایلاء کا مسئلہ بیان فرمایا ایلاء سے مراد عورت سے عدم مقاربت کی قسم کھانا ہے اور اس کی مدت زیادہ سے زیادہ چار ماہ رکھی گئی ہے۔ اگر خاوند اس دوران رجوع کرے لے تو قسم کفارہ ادا کر دے اور اگر چار ماہ کی مدت پوری ہوگئی تو عورت پر ایک طلاق بائن پڑ جائیگی۔ تاہم بعض فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ طلاق خود بخود واقع نہیں ہوگی بلکہ ایلاء کرنے والے کو عدالت میں طلب کر کے رجوع یا طلاق کا فیصلہ کیا جائے گا۔ نکاح اور طلاق نکاح اور طلاق کے مسائل اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی مختلف سورتوں میں بیان فرمائے ہیں ، خصوصاً سورة احزاب ، طلاق اور اس سورة بقرۃ میں یہ مسائل آئے ہیں۔ نکاح میاں بیوی کے درمیان ایک دائمی اور اجتماعی معاہدہ ہے۔ جسے مرتے دم تک نبھانے کا ارادہ کیا جاتا ہے۔ جب تک نکاح کا معاہدہ طے نہیں پاتا ، اس معاہدہ کے فریقین یعنی مرد اور عورت کے اخلاق کی چھان بین کی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کس حد تک قابل قبول ہیں پھر جب نکاح طے پا جاتا ہے۔ تو زوجین پر معاہدہ نکاح کی قانونی پابندی عائد ہوجاتی ہے۔ جسے پورا کرنے کے وہ پابند ہوتے ہیں۔ شریعت نے مرد اور عورت دونوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کچھ حقوق دیئے ہیں اور کچھ فرائض سونپے ہیں۔ اگر فریقین ان کی پابندی کرتے ہیں تو ان کی ازدواجی زندگی نہایت پرسکون گزرتی ہے۔ تاہم بعض اوقات اس قسم کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ جن میں اس معاہدہ سے مسنلک فریقین کا نباہ ممکن نہیں رہتا ، تو ایسی صورت میں شریعت نے ان میں تفریق کا قانون بھی نافذ کردیا ہے۔ تاکہ وہ ساری عمر کٹھن زندگی گزارنے کی بجائے اپنے لئے کوئی دوسرا بہتر ذریعہ تلاش کرسکیں۔ دوسرے مذاہب سے تقابل اس مسئلہ میں اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب افراط وتفریط کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے معاشروں میں طرح طرح کی قباحتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ مثلاً بائیبل کے باب استثناء میں موجود ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی پر کسی وجہ سے ناراض ہوجائے تو فوراً طلاق نامہ عورت کے ہاتھ میں دے کر گھر سے نکال دے ، اس سلسلہ میں صفائی وغیرہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ادھر مطلقہ کو حق حاصل ہے کہ طلاق کے فوراً بعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔ یہ تو یہودی مذہب ہے اب عیسائیوں کو لیجیے ان میں طلاق کا تصور ہی نہیں ہے جب ایک دفعہ نکاح ہوگیا تو ساری عمر کے لئے میاں بیوی ایک دوسرے کے پابند ہوگئے۔ اب ان کو موت ہی علیحدہ کرسکتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب کسی جوڑے کا میلان طبع ایک سانہ ہوا اور ان میں ناچاقی پیدا ہوئی تو ساری عمر عذاب میں بسر کرنا پڑی۔ البتہ عیسائیوں کا دوسرا فرقہ جو صدیوں بعد کی پیداوار ہے اس نے عدالت کے ذریعے طلاق کو قانونی شکل دے دی ہے اس کا طریقہ کار ہے کہ عدالت مجاز فریقین کو طلب کرے گی۔ اور اس بات کی تحقیق کریگی کہ ترفیقین میں سے کسی نے دوسرے پر ظلم کیا ہے۔ یا کسی ایک نے زنا کا ارتکاب کیا ہے اگر کوئی ایسا جرم ثابت ہوجائے تو عدالت ان کے درمیان تفریق ڈال دے گی اور اس طرح طلاق واقع ہوجائے گی۔ اسی طرح ہندو مت میں بھی طلاق کا کوئی تصور نہیں مرتے دم تک میاں بیوی میں علیحدہ نہیں ہو سکتی۔ رومیوں اور یونانیوں میں بھی طلاق نامی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے ان مذاہب میں معاشرتی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ اسلام میں نظریہ طلاق اسلام نے افراط وتفریط سے ہٹ کر اعتدال کی راہ اختیار کی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ نکاح اس لئے نہیں کیا جاتا کہ زوجین میں تفریق ڈال دی جائے ۔ اس معاہدہ (Agreement) کو بنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے باوجود اگر میاں بیوی کے لئے اکٹھے زندگی گزارنا ممکن نہ ہو ، تو پھر اسلام نے طلاق کے ذریعے ان کی علیحدگی کا انتظام بھی کردیا ہے۔ اگرچہ طلاق پسندیدہ چیز نہیں ہے اور حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ ابغض المباحات الی اللہ الطلاق یعنی مباح اشیا میں سب سے ناپسندیدہ چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔ تاہم ضرورت کے تحت اس کی اجازت ہے۔ طلاق کی صورت میں اسلام نے ایک اور ضروری قانون عدت کا دیا ہے۔ جو دوسرے مذاہب میں نہیں ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت ایک خاص مدت تک دوسرا نکاح نہیں کرسکتی۔ اس کا مقصد تحفظ نسب ہے تاکہ پیدا ہونے والی اولاد کا نسب مشکوک نہ ہوجائے۔ طلاق کے بعد اگر عورت فوراً دوسرا نکاح کرلے تو بچے کے نسب پر شبہ ہو سکتا ہے کہ پہلے خاوند کا ہے یا دوسرے کا اور اس طرح کئی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا احتمال ہے اسلام نے عورت کے دو نکاحوں کے درمیان مختلف صورتوں میں مختلف مدتیں مقرر کردی ہیں۔ تاکہ اس بات کی وضاحت ہوجائے کہ آئندہ پیدا ہونے اولا بچہ کس باپ کا ہے۔ نیز پہلے نکاح کے احترام کا تقاضا بھی ہے۔ کہ دوسرے نکاح سے پہلے کچھ وقفہ ہونا چاہئے۔ عدت عدت اس کم از کم مدت کا نام ہے۔ جو طلاق کی تاریخ یا شوہر کی فوتیدگی کی تاریخ کرسکتی۔ عدت مختلف صورتوں کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً فوتیدگی کی صورت میں عدت تاریخ وفات سے چار ماہ دس دن ہے۔ اتنے عرصہ میں پتہ چل جاتا ہے۔ کہ عورت حاملہ تو نہیں ہے۔ اگر حاملہ نہیں ہے تو چار ماہ دس دن کی عدت گزار کر عورت نکاح کرسکتی ہے اور اگر حاملہ ہے تو اس کی عدت وضع حمل ہے جس دن بچہ جنے گی اس کے بعد نکاح کرسکتی ہے۔ بیوگی سے لے کر وضع حمل تک کی مدت کا کوئی تعین نہیں ہے۔ یہ عرصہ خواہ ایک دن کا ہو یا پورے نو ماہ کا حاملہ کی عدت وضع حمل ہے۔ لہٰذا بچہ جب بھی پیدا ہو ، عورت نکاح کرسکتی ہے۔ حجتہ الوداع کے سفر میں ایک صحابی اونٹنی سے گر کر فوت ہوگئے۔ ان کی بیوی حاملہ تھی۔ ٹھیک بائیس دن بعد اس کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا ، تو حضور ﷺ نے فرمایا ، اس کی عدت ختم ہوگئی ہے یہ جب چاہے نکاح ثانی کرسکتی ہے۔ اگر عورت عاقل ، بالغ اور آزاد ہے ، اور اسے حیض آتے ہیں کسی وجہ سے طلاق ہوگئی ہے تو اس کی عدت تین حیض ہوگی۔ یہ تین حیض خواہ دو ماہ میں آجائیں یا 19 ماہ میں ، اسے بہرحال تین حیض تک انتظار کرنا ہوگا۔ عام طور پر حیض ماہ بماہ آتے ہیں۔ اس لئے ایسی عورت کے حیص کم و یش تین ماہ میں پورے ہوجاتے ہیں جس کے بعد اسے نکاح کی اجازت ہوتی ہے۔ پاکستان میں نافذ عائلی قوانین میں ایسی عورت کی عدت نوے دن مقرر کی گئی ہے۔ جو کہ درست نہیں ہے حیض والی عورت کو تین حیض کی عدت پوری کرنا ہوگی۔ خواہ اس میں کتنا عرصہ لگے۔ البتہ ایسی عورت جو ابھی بالغ نہیں ہوئی یا جو کبر سنی میں پہنچی چکی ہے اور اس کے حیض بند ہوچکے ہیں۔ ایسی عورت کی عدت تین ماہ یا 90 دن درست ہے۔ اس کی تفصیلات سورة احزاب میں موجود ہیں۔ ایک اور صورت بھی ہو سکتی ہے کہ نکاح ہوگیا ۔ مگر میاں بیوی کی خلوت صحیحہ نہیں ہوئی ، انہیں مباشرت کا موقع نہیں ملا۔ ایسی صورت میں اگر طلاق واقع ہوجائے ، تو فرمایا فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا ایسی عورتوں کے لئے کوئی عدت نہیں۔ وہ جب چاہیں دوسرا نکاح کرسکتی ہیں۔ اس معاملہ میں بھی عائلی قوانین درست نہیں کیونکہ وہاں سب کے لئے نوے دن کی عدت مقرر ہے حالانکہ یہاں کوئی عدت نہیں ہے ۔ ایسا ہی عدت کا ایک مسئلہ ہمارے نوٹس میں آیا تھا۔ کہوٹہ کے رہنے والے ایک شخص نے بتایا کہ کسی عورت کو طلاق ہوگئی۔ اس کو یحض دیر سے آتا ہے اور نوے دن میں اس کے تین حیض مکمل نہیں ہوئے۔ مگر یونین کونسل والوں نے نوے دن کے بعد اس کا نکاح کرا دیا۔ حالانکہ یہ نکاح ہوا ہی نہیں ہے۔ کیونکہ عدت کے دوران نکاح ہو نہیں سکتا۔ تو اس قسم کی خرابیاں ہیں۔ جو عائلی قوانین میں خامی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس قسم کے نکاح قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں۔ جو ایسا حکم دیتے ہیں۔ حیض یا طہر الغرض فرمایا وا لمطلقت یتربض بانفسھن ثلاثۃ قروٓء ط مطلقہ عوتریں اپنے آپ کو تین حیض تک انتظار میں رکھیں۔ قروء قرء کی جمع ہے اور اس لفظ کے معانی میں فقہائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اہل لغت بھی اس کے مختلف معانی بتاتے ہیں۔ دراصل یہ لفظ دو معانی میں مشترک ہے یعنی اس کا معنی حیض بھی آتا ہے اور طہر بھی طہر اس وقفہ یا مدت کو کہتے ہیں۔ جو دو حیضوں کے درمیان ہوتا ہے۔ امام ابوحنیفہ قرء کا معنی حیض بتاتے ہیں۔ اسی لئے ان کے نزدیک بالغ مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہے۔ وہ ابو دائود شریف کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور ﷺ سے استخاضہ کے متعلق مسئلہ پوچھا ، تو آپ نے فرمایا تدع الصلوۃ ایام اقرآئہا یعنی حیض کے دنوں میں نماز نہ پڑھے البتہ جب حیض کے عام ایام گزر جائیں تو پھ رغسل کر کے نماز ادا کرے کیونکہ اب یہ حیض نہیں رہا ، بلکہ استخاضہ کا خون شمار ہوگا۔ مقصد یہ کہ اس حدیث سے قرء کا معنی حیض نکلتا ہے۔ البتہ امام شافعی قرء سے مراد طہر لیتے ہیں۔ ان کا مسلک یہ ہے کہ طلاق کے بعد عورت تین طہر گزرنے تک دوسرا نکاح نہ کرے۔ کتمان حمل جائز نہیں اللہ تعالیٰ نے اس معاملہ میں عورتوں کو متنبہ فرمایا ہے ولا یحل لھن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامھن کہ ان کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ چھپائیں اس چیز کو جو اللہ نے ان کے رحموں میں پیدا کی ہے۔ مقصد یہ کہ طلاق یا بیوگی کے وقت اگر عورت حمل سے ہے تو اسے وضع حمل تک انتظار کرنا چاہئے۔ محض نکاح ثانی کے لئے حمل کو چھپانا ہرگز جائز نہیں۔ ایسا کرنے سے نسل میں گڑ بڑ ہوگی۔ فرمایا ایسا ہرگز نہ کریں ان کن یومن باللہ والیوم الاخر اگر وہ اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکتھی ہیں تو انہیں کتمان حمل کا ارتکاب نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ شریعت کے مطابق صاف صاف بتلا دینا چاہئے اور پھر وہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے جو جائز ہو۔ طلاق رجعی آگے رجوع عن الطلاق کا مسئلہ بیان فرمایا کہ اگر طلاق سنت طریقہ کے مطابق دی گئی ہو۔ تو پہلی یا دوسری طلاق کے بعد خاوند کو حق حاصل ہے کہ وہ رجوع کے۔ وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارآدوا اصلاحاً ط اگر نیت اصلاح کی ہے تو مطلقہ عورتوں کے خاوندوں کو زیادہ حق حاصل ہے کہ وہ ان عورتوں کو واپس لوٹائیں اسے طلاق رجعی کہتے ہیں۔ مثلاً کسی شخص نے اپنی بیوی کو ایک طلاق صریح الفاظ میں دے دی ہے اور عدت شروع ہوگئی ہے تو اس خاوند کو حق حاصل ہے کہ عدت پوری ہونے سے پہلے بغیر دوبارہ نکاح کئے عورت کی طرف رجوع کرے اس امر کا اظہار زبانی طور پر کر دے یا ویسے ہی مباشرت کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے رجوع کرلیا۔ اسی طرح دوسری طلاق دینے کے بعد بھی بغیر نکاح کے رجوع ہو سکتا ہے بشرطیکہ عدت کے اندر ہو اور اگر عدت گزر گئی ، تو عورت آزاد ہو جائیگی۔ اب بغیر نکاح کے رجوع نہیں کرسکتا۔ یہ رجعی طلاق کا مسئلہ ہے جو محض ڈرانے دھمکانے کے لئے دی جائے۔ اگر طلاق بائن ہو ، خواہ ایک ہو یا دو ہوں تو ایسی صورت میں بغیر نکاح کے رجوع ممکن نہیں۔ رجوع کے لئے بہر صورت دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔ طلاق بائن کا مطلب یہ ہے کہ نیت جدا کرنے کی ہو۔ الفاظ صریح نہ ہوں محض اشارے کنائے سے کہہ دیا جاوے۔ کہ تو مجھ پر حرام ہے یا اپنے والدین کے ہاں چلی جا وغیرہ وغیرہ۔ اور اگر تینوں طلاقیں دے دی ہیں تو پھر کسی صورت رجوع نہیں ہو سکتا۔ عورت عدت پوری کرنے کے بعد نکاح ثانی کرنے کی مجاز ہوگی ، تو فرمایا کہ رجعی طلاق میں خاوندوں کا زیادہ حق ہے کہ وہ رجوع کرلیں بشرطیکہ ان کا ارادہ اصلاح کا ہو ، محض تنگ کرنا مقصود نہ ہو۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا کہ عورت کو تنگ کر نیکی غرض سے کبھی طلاق دے دی کبھی رجوع کرلیا تاکہ وہ دوسری جگہ بھی نہ جاسکے یہ بات جائز نہیں ہے۔ حقوق زوجین آگے اللہ تعالیٰ نے مرد و زن کے حقوق کا تذکرہ فرمایا ہے۔ لوھن مثل الذی علیھن بالمعروف دستور کے مطابق عورتوں کا مردوں پر اسی طرح حق ہے جس طرح مردوں کا عورتوں پر ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ زوجین کے اپنے اپنے دائرہ کار میں کچھ حقوق ہیں۔ لہٰذا ان کی پاسداری ہونی چاہئے۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ مرد و اپنے حقوق زبردستی عورت سے وصول کرے۔ مگر عورت کو اس کا حق نہ دے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے عورت کا وراثت میں حق رکھا ہے۔ لہٰذا مرد پر لازم ہے کہ اسے یہ حق ادا کیا جائے۔ زمانہ جاہلیت میں عورت کو وراثت میں حصہ دار نہیں سمجھا جاتا تھا۔ یہ بیماری عام معاشرتی حقوق سے بھی محروم تھی جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ رومی اور یونانی بھی عورت کو ذلیل سمجھتے تھے اور اس کا حق تسلیم نہیں کرتے تھے۔ عیسائی بھی اسی قسم کے تاثر کا شکار ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے مردو ! جس طرح تمہارے کچھ حقوق ہیں ، اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں۔ انہیں ان سے محروم نہ کرو یہ تو اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے کس فرد کو کس مقام پر رکھا ہے۔ ” خلق منھا زوجھا وبت منھما رجالاً کثیراً ونسآء “ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایک فرد سے سب کو پیدا کیا۔ پھر اسی میں سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور پھر بیشمار مرد و زن بکھیر دیئے۔ یہ اس کی حکمت ہے کہ کسی کو مرد بنا دیا اور کسی کو عورت بنا دیا۔ اب تمہارا فرض یہ ہے کہ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھو۔ دوسرے کو حقیر نہ سمجھو اور دستور کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ اچھا معاملہ کرو ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ ہے کہ اپنے اپنے دائرہ عمل میں حقوق و فرائض کو بجا لائو اور کسی دوسرے کا حق غصب نہ کرو۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم پر یہ حق ہے کہ بیوی کے لئے بھی ویسی ہی خوراک کا بندوبست کرو۔ جیسا کہ اپنے لئے کرتے ہو۔ جس معیار کا لباس پسند کرتے ہو ، عورت کو بھی مہیا کرو۔ اس کا بھی معقول ٹھکانہ بنا کر دو ۔ اس کا حق مہر ادا کرو اور اسے آزادی دو کہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے اس رقم کو خرچ کرسکے۔ یہ اس کے حقوق ہیں اسے بلاوجہ مارنا پیٹنا بھی جائز نہیں۔ ہاں اگر کسی جائز ضرورت کی بنا پر تنبیہ مقصود ہو۔ تو اتنی خفیف ضربات لگائو کہ ہڈی پسلی نہ ٹوٹے۔ اس کی اجازت ہے فاضربوھن ناجائز مارپیٹ درست نہیں۔ اس سے قطع تعلقی بھی نہیں کرنی چاہئے عورت پر بھی حق ہے کہ وہ خاوند کی مرضی کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے ۔ سینما وغیرہ کے لئے جانا تو ویسے ہی حرام ہے۔ جائز امور کے لئے بھی اجازت لینی چاہئے۔ اس کی تفصیلات آگے سورة نساء میں آئیں گی۔ مرد کی فضیلت فرمایا ان حقوق کے باوجود وللرجال علیھن درجۃ مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے ایک درجہ کی فضیلت حاصل ہے۔ اسی موضوع کو سورة نساء میں یوں بیان کیا ہے ” الرجال قوامون علی النسآء مرد عورتوں پر نگران ہیں یا ان کے محافظ ہیں ان سے برتر ہیں اور یہ ایک فطرتی امر ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور پھر مردوں کی برتری کی دلیل بھی بیان فرمائی ۔ ” وبما انفقوا من اموالھم “ کہ مرد اپنی کمائی عورتوں پر خرچ کرتے ہیں۔ ان کے کفیل ہیں اللہ نے انہیں برتری دی ہے اور مشقت کے کام مرد کے سپرد کئے ہیں۔ کمانا اس کے ذمہ ہے۔ عورت کا کام گھر کی ذمہ داریاں پوری کرنا ہیں۔ انہیں کم مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے۔ لہٰذا مرد کو برتری حاصل ہے اس کی مثال موجودہ دور میں بھی ملتی ہے کہ دنیا کی ڈیڑھ سو سے زیادہ اقوام میں سے صرف امریکہ ، روس ، برطانیہ ، فرانس اور چین کو ویٹو پاور حاصل ہے ان میں سے کوئی ایک ملک باقی پوری دنیا کے متفقہ فیصلے کو رد کرسکتا ہے کہ اس کو یہ طاقت حاصل ہے۔ اسی طرح گھر کی چار دیواری میں مرد کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ یہ پاور عورت کو یا بچوں کو حاصل نہیں ایک باپ اپنے سارے بیٹوں کے متفقہ مطالبہ کو رد کرسکتا ہے۔ طلاق کا حق مرد کو ہے اسی طرح طلاق کا حق بھی اللہ تعالیٰ نے مرد کو دیا ہے۔ عورت اس سے محروم ہے اس میں بھی مصلحت ہے ” بیدہ عقدۃ الناکح “ نکاح کی گرہ چونکہ مرد کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے اس گرہ کو کھولنے کا اختیار بھی مرد کو حاصل ہے۔ مگر قدرت کے اس قانون کے خلاف جب برطانیہ میں عورت کو طلاق کا حق مل گیا تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہاں پچاس فیصد سے زیادہ طلاقتیں ہونے لگیں ہیں۔ ہر عورت دعویٰ کرسکتی ہے کہ اسے طلاق ملنی چاہئے ؟ محض اس لئے کہ اس کا خاوند سوتے میں خراٹے لیتا ہے اور اس کی نیند خراب ہوتی ہے۔ دوسری کہتی ہے کہ میرا خاوند میرے کبوتر یا میرے کتے سے محبت نہیں رکھتا۔ میں اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ ایسی ایسی معمولی باتوں پر طلاق روزمرہ کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے قانون کے خلاف اپنا قانون جاری کیا ہے۔ یہ اس مساوات کا نتیجہ ہے۔ جو عورت کو مرد کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک کہتا ہے کہ مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے ۔ اب اس مساوات کی بناء پر دفتروں میں ، فوج میں ہر جگہ عوتریں ملازمت کر رہی ہیں ، حالانکہ فوجی خدمات عورت کے فرائض سے بالکل باہر ہیں۔ اسی خلط ملط کی وجہ سے طرح طرح کی معاشرتی برائیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اکثر ادارے بدکاری کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ کوئی صحیح نسل قائم نہیں ہ سکی۔ گزشتہ صدی میں ایک انگریزی مصنف ڈاکٹر لکھتا ہے کہ یورپ کی پینتالیس 45 کروڑ کی آبادی میں سے پینتالیس 45 آدمی بھی ایسے نہیں نکالے جاسکتے جن کو یقین کے ساتھ نطفہ حلال تسلیم کیا جائے یہ اس کی اپنے قانون کے متعلق رائے ہے کہ اتنا گندہ قانون وضع کیا گیا ہے جب شاپنگ کے لئے عورتوں کو آزادی ہوگی اور غیر مردوں کے ساتھ میل جول کریں گی۔ ائیرہوسٹس بن کر ساری دنیا کا سفر بغیر محرم کے کرینگی ، دفتروں میں مردوں کے ماتحت کام کریں گی ، تو پھر اچھے نتائج کی توقع …د کیسے کی جاسکتی ہے جہاں تک فوجی خدمات کا تعلق ہے صرف غیر معمولی (AB Normal) حالات میں عورت کو حصہ لینے کی اجازت ہے۔ وگرنہ عام حالات (Normal) میں عورت کو مردوں کے دوش بدوش کام کرنے کی قطعاً اجازت نہیں کیونکہ مرد کا دائرہ کار اور ہے عورت کا اور ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے عورت پر جمعہ فرض نہیں کیا۔ اس کی نماز گھر میں بہتر ہے۔ تاہم وہ خاوند کی اجازت سے نماز کے لئے مسجد میں جاسکتی ہے۔ بہرحال فرمایا کہ مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ کی فضیلت ہے۔ اس کی تفصیل سورة نساء میں آئیگی ۔ واللہ عزیز حکیم اللہ تعالیٰ کمال قوت کا مالک اور حکیم ہے۔ اس کا ہر حکم حکمت پر مبنی ہے۔ لہٰذا اس کے احکام پر عملدرآمد کرنا چاہئے۔
Top