Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 229
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ١۪ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ١ؕ وَ لَا یَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ شَیْئًا اِلَّاۤ اَنْ یَّخَافَاۤ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ۙ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِهٖ١ؕ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوْهَا١ۚ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰهِ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
اَلطَّلَاقُ : طلاق مَرَّتٰنِ : دو بار فَاِمْسَاكٌ : پھر روک لینا بِمَعْرُوْفٍ : دستور کے مطابق اَوْ : یا تَسْرِيْحٌ : رخصت کرنا بِاِحْسَانٍ : حسنِ سلوک سے وَلَا : اور نہیں يَحِلُّ : جائز لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ : کہ تَاْخُذُوْا : تم لے لو مِمَّآ : اس سے جو اٰتَيْتُمُوْھُنَّ : تم نے دیا ان کو شَيْئًا : کچھ اِلَّآ : سوائے اَنْ : کہ يَّخَافَآ : دونوں اندیشہ کریں اَلَّا : کہ نہ يُقِيْمَا : وہ قائم رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا يُقِيْمَا : کہ وہ قائم نہ رکھ سکیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَا : ان دونوں پر فِيْمَا : اس میں جو افْتَدَتْ : عورت بدلہ دے بِهٖ : اس کا تِلْكَ : یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَلَا : پس نہ تَعْتَدُوْھَا : آگے بڑھو اس سے وَمَنْ : اور جو يَّتَعَدَّ : آگے بڑھتا ہے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود فَاُولٰٓئِكَ : پس وہی لوگ ھُمُ : وہ الظّٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
طلاق رجعی دو مرتبہ ہے۔ پھر اس کے بعد یا تو روک رکھنا ہے اس کو دستور کے مطابق یا اس کو آزاد کر دنیا ہے نیکی کے ساتھ اور تمہارے لئے حلال نہیں ہے کہ تم ان عورتوں سے اس چیز میں سے کچھ لے لو جو تم نے ان کو ید ہے۔ سوائے اس صورت کے کہ وہ دونوں (میاں بیوی) اس بات سے خوف کھاتے ہوں کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ پس اگر تمہیں خطرہ ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اس چیز میں کہ وہ عورت اپنی جان چھڑائی کا فدیہ دے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں۔ پس ان سے آگے نہ بڑھو اور جو شخص بھی اللہ کی حدود سے آگے بڑھے گا۔ پس وہی لوگ ظالم ہیں۔
ربط آیات گزشتہ آیت کریمہ میں عدت کا مسئلہ بیان ہوا تھا جس کا مقصد یہ ہے کہ طلاق اور دوسرے نکاح کے درمیان عورت وقفہ کرے تاکہ معلوم ہو سکے کہ وہ امید سے ہے یا نہیں۔ پھر اگر امید سے ہے تو وضع حمل تک نکاح ثانی نہ کرے اور امید سے نہیں تو تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھے۔ کم سن اور معمر عورتوں کی عدت تین ماہ مقرر کی گئی ہے اور بیوہ کے لئے چار ماہ دس دن عدت ہے۔ یہ بھی گزشتہ درس میں بیان ہوچکا ہے۔ کہ مرد کو عورت پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے وہ ان کے نگران اور کفیل ہیں۔ باقی حقوق میں مساوات ہے۔ کچھ حقوق مرد کے ہیں اور کچھ عورت کے ، اپنے اپنے دائرہ کار میں زوجین حقوق و فرائض کے ذمہ دا ر ہیں۔ نکاح و سنت انبیا ہے آج کے درس میں طلاق کی تعداد اور ان سے متعلقہ احکام کا ذکر ہے۔ کل بیان کیا تھا کہ نکاح مرد و عورت کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے ۔ جس کی پابندی فریقین کے لئے ضروری ہے۔ تاہم عام معاہدات اور نکاح کے معاہدہ میں قدرے فرق ہے کسی دو پارٹیوں کے درمیان لین دین کے سلسلہ میں ، کاروبار میں ، یا شراکت کے متعلق معاہدہ ہوتا ہے۔ یہ معاہدہ محض معاملہ کی حد تک ہوتا ہے۔ مگر ناکح کے معاہدہ میں معاملہ کے علاوہ عبادت اور سنت کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ آپ اکثر نکاح کے موقع پر خطبہ سنتے ہیں الناکح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی یعنی نکاح کرنا میری سنت ہے ، جو اس سے اعراض کرے ، وہ مجھ سے نہیں ہے۔ ایک اور حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا النکاح من سنۃ الانبیآء نکاح سارے نبیوں کی سنت ہے قرآن پاک میں بھی ابنیاء (علیہم السلام) کی حیثیت کے متعلق آتا ہے کہ سب نبیوں کی بیویاں تھیں اور سچے تھے ان میں سے ایسا کوئی نہیں جو کھاتا پیتا نہ ہو اور معاملہ نہ کرتا ہو ۔ اس کو نکاح وغیرہ سے واسطہ نہ پڑتا ہو۔ البتہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) جو ہر وقت عبادت میں مصروف رہتے تھے ان کو نکاح کا موقعہ نہیں مل سکا اور عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اس سے مستثنیٰ ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے نکاح نہیں کیا۔ البتہ جب وہ قرب قیامت میں دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو پھر نکاح بھی کریں گے اور ان کی اولاد بھی ہوگی ، اس کے بعد ان کی طبعی وفات بھی ہوگی اور وہ دفن بھی ہونگے بہرحال نکاح تمام انبیاء کی سنت ہے۔ شرائط نکاح نکاح اگرچہ ایک اجتماعی معاہدہ ہے۔ مگر اس کی بھی کچھ حدود اور قیود ہیں۔ شریعت مطہرہ نے کوئی سے مرد و زن کے درمیان نکاح کو جائز قرار نہیں دیا۔ بلکہ بعض صورتوں کو حرام قرار دیدیا ہے۔ آگے سورة نساء میں آئے گا ، ” حرمت علیکم امھتکم “ تمہارے لئے تمہاری مائیں ، بہنیں ، بیٹیاں ، بھتیجیاں ، بھانجیاں اور خوش دامن وغیرہ حرام کردی گئی ہیں۔ ان کے ساتھ نکاح کی طلاق نہ ہو۔ اس کے علاوہ رضاعی ماں بہن سے بھی نکاح نہیں ہو سکات۔ یہ سب محرمات ہیں۔ فرمایا ” واحل لکم ماورآء ذلکم “ ان کے علاوہ باقی عورتوں سے نکاح جائز ہے وہ تمہارے لئے حلال ہیں۔ نکاح کے لئے گواہان بھی لازمی ہیں کسی دیگر معاملہ میں گواہ کے بغیر بھی معاہدہ ہو سکتا ہے۔ مگر نکاح کا معاہدہ ایک ایسا معاہد ہ ہے کہ گواہوں کے بغیر پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ پھر نکاح کے لئے حق مہر مقرر ہونا بھی اس کی شرائط میں سے ہے۔ مہر دینا ڑے گا مال خرچ کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر نکاح درست نہیں۔ نکاح کے معاہدہ میں بعض حقوق کا تعین بھی ہے عورت اپنے حقوق طلب کرسکتی ہے ، کھانا ، کپڑا ، رہائش عورت کے حقوق ہیں۔ جو مرد کے ذمے ہیں۔ البتہ عورت کو چاہئے کہ وہ خاوند کی حیثیت کے مطابق ان چیزوں کا مطالبہ کرے ، اس کی حیثیت سے زیادہ طلب کر کے اسے مشکل میں نہ ڈالے ، پھر یہ بھی نکاح کی شرط ہے کہ اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کا گزارہ نہ ہو سکے ، تو خاص شرائط کے تحت اس معاہدہ کو ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ طلاق اور خلع کا قانون بھی شریعت میں موجود ہے زوجین کے درمیان تنازعہ کی صورت میں پہلے خود اسے حل کرنے کی کوشش کرو اگر ایسا نہیں ہوسکا۔ تو مرد و عورت کے خاندانوں میں سے ایک ایک نمائندہ لے لو ، جو مل کر صلح و صفائی کی کوشش کریں۔ اگر پھر بھی مصالحت نہ ہو سکے۔ تو پھر معروف طریقے سے میاں بیوی میں جدائی کرا دو کہ اب اس کے بغیر کوئی اور چارہ کار نہیں رہا۔ لہٰذا دونوں کی بھلائی اس میں ہے کہ ان میں فریق ڈال دی جائے۔ یہ سب نکاح کے اصول و قواعد ہیں۔ طلاق کی تین قسمیں میاں بیوی میں جدائی کے لئے شریعت نے طلاق کا طریقہ کار مقرر کیا ہے ……… فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ طلاق کی تین قسمیں ہیں یعنی احسن ، سنت اور بدعت ، طلاق احسن سے مراد اچھی اور بہتر طلاق ہے اور یہ اس طلاق کو کہتے ہیں۔ جو عورت کو اس طہر میں دی جائے۔ جس میں میاں بیوی کا ملاپ نہ ہوا ہو اور ایک وقت میں ایک ہی طلاق ہو۔ ایسی طلاق کی صورت میں عدت کے اندر خاوند دوبارہ عورت سے رجوع کرسکتا ہے اور رجوع کے لئے نکاح کی ضرورت نہیں۔ اگر عدت گزر جائے تو عورت آزاد ہوجائے گی۔ ہاں اگر کوئی شخص اب بھی رجوع کرنا چاہے تو دوبارہ نکاح کر کے عورت کو گھر لاسکتا ہے۔ عدت کے بعد عورت کسی دوسری جگہ نکاح کرنے کی بھی مجاز ہے۔ اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ یعنی دو یا زیادہ سے زیادہ تین طلاقیں دینا چاہتا ہے یعنی اس نے ارادہ کرلیا ہے کہ عورت کو کسی صورت میں بھی نہیں رکھنا ۔ تو پھر اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک طلاق دے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد اگر خاوند ، رجوع کرنا چاہے تو کرسکتا ہے ۔ اور اگر تیسری طلاق اس طلاق کو طلاق سنت کہتے ہیں کہ یہ سنت کے مطابق ہے۔ تیسری قسم طلاق ، طلاق بدعت کہلاتی ہے اور یہ ایسی ہے کہ یا تو طہر کی بجائے حیض کے دوران طلاق دے دے یا تینوں طلاقیں بیک وقت دے دے۔ اس طرح طلاق تو واقع ہوجائے گی مگر دینے والا گنہگار ہوگا۔ کیونکہ اس نے صحیح طریقہ اختیار نہیں کیا۔ رجعی طلاقیں دو ہیں اس آیت میں فرمایا الطلاق مرتن یعنی رجعی طلاقیں دو ہیں۔ ایک طلاق دینے کے بعد رجوع ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد اگر دوسری طلاق دے دی تو پھر رجوع کی گنجائش ہے۔ البتہ تیسری طلاق کے بعد یہ سہولت ختم ہوجاتی ہے۔ ہاں طلاق رجعی میں رجوع دو صورتوں میں ہو سکتا ہے۔ اگر طلاق صریح الفاظ میں دی گئی ہے۔ تو بغیر نکاح کے رجوع ہو سکتا ہے اور اگر اشارے کنایہ سے طلاق دی ہے اور نیت قطعی علیحدگی کی ہے تو یہ طلاق بائن ہوجائے گی۔ اس میں رجوع کے لئے دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔ خواہ ایک طلاق کے بعد رجوع مقصود ہے یا دوسری طلاق کے بعد تیسری طلاق کا ذکر تو آگے آئیگا۔ یہاں فرمایا کہ رجوع کے لئے زیادہ سے زیادہ دو طلاقیں ہیں۔ علیحدگی کا طریقہ کار فرمایا دسوری طلاق کے بعد فامساک بمعروف یا تو دستور کے مطابق روک لو اور اس سے اچھا سلوک کرو …… اس کا خرچہ ادا کرو۔ بشرطیکہ ارادہ اصلاح کا ہو ، تنگ کرنے کا نہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ نہ تو عورت کا حق ادا کیا جاوے اور نہ اس کو آزاد کیا جائے۔ بلکہ دستور کے مطابق اس سے اچھا سلوک کرنا چاہئے۔ شریعت مطہرہ نے عورت کے جو حقوق مقرر کئے ہیں ، انہیں ادا کرو اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو پھر او تسریح باحسان اسے نیکی کے ساتھ جدا کر دو ۔ لڑائی جھگڑے میں نہ پڑو بلکہ لین دین کا جو معاملہ ہے اسے احسن طریقے سے نپٹا کر مطلقہ کو رخص کر دو ۔ ہاں یاد رکھو ولا یحل لکم اور تمہارے لئے یہ چیز حلال نہیں ہے ان تاخذوا ممآ اتیتموھن شیآء کہ تم ان عورتوں سے کوئی چیز واپس لے لو ، جو تم نے انہیں دے کھی ہے۔ مثلاً اگر مہر ادا کردیا تھا ، تو طلاق کے وقت واپس لینے کی کوشش کی ہے یا کوئی تحفہ دیا تھا ، تو اس کا مطالبہ کردیا۔ یہ درست نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ عطیہ دے کر اس کو واپس لینا ایسا ہے۔ جیسے کتا قے کر کے خود ہی چاٹ لیتا ہے۔ فرمایا ہماری مسلمانوں کی مثال بری نہیں ہونی چاہئے۔ لیس لنا مثل السوٓء سورة نسآء میں آتا ہے کہ واتیتم احدلھن قنطاراً فلاتاخذوامنہ شیئاً ط اگر تم نے عورتوں کو ڈھیر مال بھی دے رکھا ہے تو ان سے کوئی چیز واپس نہ لو۔ خاص طور پر کوئی بہتان لگا کر مال واپس لینا اور بھی برا ہے ۔ یہ چیز مسلمان کے شایان نہیں ہے۔ لہذا اگر تم نے طلاق کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے۔ تو پھر دستور کے مطابق اچھے طریقے سے رخصت کر دو ۔ خلع کا بیان یہ بات گزشتہ درس میں بیان ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طلاق کا حق مرد کو دیا ہے۔ عورت کو نہیں دیا اور اس میں بھی اس کی مصلحت کارفرما ہے۔ تجربہ شاہد ہے کہ حیض و نفاس یا حمل کے دوران عورت کے اعصاب پر خاص اثر پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ جلد باز واقع ہوئی ہے۔ اگر طلاق کا حق عورت کو مل جاتا تو طلاق کے معاملات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا ۔ پھر یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ جن ممالک میں عورت کو یہ حق دیا گیا ہے۔ وہاں کس قدر معاشرتی برائیاں پیدا ہوئی ہیں۔ تو بہرحال طلاق کا حق اللہ تعالیٰ نے مرد کو دیا ہے۔ اور اسے عورت پر ایک درجہ فضیلت دی ہے البتہ بغض غیر معمولی حالات سے عہدہ برا ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ عورت کو خلع کا حق دیا ہے۔ اگر خاوند ظلم کرتا ہے اور طلاق بھی نہیں دیتا تو عورت کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت مجاز کی طرف رجوع کر کے اپنا معاملہ پیش کرے۔ عدالت فریقین کے دلائل سننے کے بعد اگر مناسب سمجھے تو میاں بیوی میں علیحدگی کرا سکتی ہے۔ اس صورت میں طلاق کی ضرورت نہ ہوگی۔ البتہ اگر فریقین رضا مند ہوجائیں کہ خاوند اتنے مال کے عوض خلع پر راضی ہوگا۔ تو عورت اتنا مال مرد کو ادا کر کے خلع حاصل کر لیگی۔ اسی چیز کے متعلق فرمایا کہ عام حالات میں تو مرد کو حق حاصل نہیں کہ وہ ادا شدہ مال عورت سے واپس لے۔ الا ان یخاف الا یقیما حدود اللہ سوائے اس صورت کے کہ ان دونوں کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدود قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ یعنی ان کا نباہ مشکل ہوگیا ہے اور علیحدگی ضروری ہے۔ تو جب دونوں فریق خلع کے بدلے کسی مال کی ادائیگی پر رضا مند ہوجائیں تو ایسا مال خاوند لے سکتا ہے۔ اس قسم کا واقعہ 1 ؎ خود حضور ﷺ کے زمانے میں پیش آیا۔ رئیس المنافقین عبداللہ ابن ابی کی بیٹی 2 ؎ جمیلہ حضور ﷺ کے ایک صحابی ثابت بن قیس کے نکاح میں تھی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ باپ دشمن اسلام ہے اور اس کا بیٹا اور بیٹی جاں نثار ان اسلام ہیں۔ حضرت ثابت بڑے نیکی آدمی تھے۔ مگر شکل و صورت کے لحاظ سے جمیلہ کو قابل قبول نہ تھے۔ انہیں احساس کمتری اس طرح پیدا ہوا کہ کسی 1 ؎ قرطبی 139/ج 3 ، 2 ؎ الطبقات الکبری لاسن سعد 382 (فیاض موقع پر حضرت جمیلہ نے کسی مقام پر پردہ اٹھایا تو وہاں ایک جماعت موجود تھی جن میں حضرت ثابت بھی موجود تھے۔ حضرت جمیلہ نے محسوس کیا کہ ان کا خاوند رنگ روپ اور شکل و صورت کے لحاظ سے سب سے کم تر ہے ۔ چناچہ اس نے اس بات کا ذکر حضور ﷺ سے کیا کہ حضور ہم دونوں بطور میاں بیوی نہیں رہ سکتے۔ آپ نے دریافت فرمایا کیا ثابت میں کوئی اخلاق کمزوری واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے تو متنفر ہوگئی ہے ۔ تو اس نے عرض کیا۔ حضور ! ایسی بات نہیں۔ وہ بڑا با اخلاق ہے۔ ولکنی اکرہ الکفر فی الاسلام مگر میں اسلام میں رہ کر کفر کو پسند نہیں کرتی۔ مقصد یہ کہ وہ مجھے بالکل پسند نہیں۔ میں اس سے گلو خلاصی چاہتی ہوں کیوں کہ اگر میں بادل نخواستہ اس کے ساتھ رہوں گی تو اس کی فرمانبرداری میں فرقآئے گا اور یہ چیز اسلام کی تعلیمات کے منافی ہوگی۔ لہٰذا آپ ہماری علیحدگی کی کوئی صورت پیدا فرما دیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ثابت نے آپ کو حق مہر میں یا تحفہ کے طور پر جو باغ دیا تھا کہ تم وہ باغ واپس کرنے کے لئے تیار ہو۔ حضرت جمیلہ نے کہا کہ ہاں میں ایسا کرنے پر رضا مند ہوں۔ اس کے علاوہ اگر ثابت کا اور بھی مطالبہ ہو تو میں پورا کرنے کو تیار ہوں۔ چناچہ باغ کی واپسی کی شرط پر حضور ﷺ نے خلع کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ان دونوں کی علیحدگی کرا دی۔ بہرحال خلے میں طلاق کے الفاظ کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ البتہ یہ طلاق بائن کا قائم مقام ہوتا ہے اور طلاق کی طرح اس میں بھی عورت کو عدت گزارنا ہوتی ہے۔ البتہ عدت کی مدت کے متعلق فقہائے کرام میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض فقہائے کرام کا خیال ہے کہ خلع میں عدت ایک حیض ہے۔ تاہم جمہور فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ طلاق کی مانند خلع کی عدت بھی تین حیض یا تین ماہ ہے جیسی صورت بھی ہو۔ طلاق بالمال خلع کے علاوہ علیحدگی کی ایک اور صورت بھی ہے جسے طلاق بالمال کہتے ہیں ۔ خاوند مال کا مطالبہ کرے کہ اتنا مال مجھے دو تو میں طلاق دیتا ہوں۔ اگر فریقین رضا مند ہوجائیں تو مقررہ مال کے عوض خاوند باقاعدہ طلاق دے دیگا اور وہ طلاق کے حکم میں آئے گی۔ خلع نہیں ہوگا۔ آیت کے اگلے حصے میں روئے سخن مسلمانوں کی عام جماعت کی طرف ہے۔ فرمایا فان خفتم الا یقیما حدود اللہ اے لوگو ! اگر تم کو ڈر ہے کہ یہ میاں بیوی اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ یعنی ان میں اختلافات کی خلیج اتنی وسیع ہوچکی ہے کہ اب ان کا میاں بیوی کی حیثیت سے گزر اوقات ممکن نہیں فلا جناح علیھما فیما افتدت بہ تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اس چیز میں کہ وہ اپنی جان چھڑائی کا فدیہ دے ۔ یعنی عورت فدیہ دے کر مرد سے خلع حاصل کرے۔ ہاں یہ بات یاد رہے کہ اگر خاوند بےقصور ہے۔ اور عورت اس سے بلاوجہ علیحدگی چاہتی ہے تو وہ گنہگار ہوگی اور اگر خاوند بلاوجہ عوتر کو تنگ کرتا ہے تو وہ گنہگار ہوگا۔ تاہم دونوں صورتوں میں خلع واقع ہوجائے گا۔ امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اس قسم کا مال لینا مکروہ ہے۔ مگر بہرحال جائز ہے دوسرے فقہائے کرام کا کہنا ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے خاص حالات میں خلع کی اجازت دے دی ہے۔ اس لئے اس کے عوض مال وصول کرنا بالکل جائز ہے۔ اس میں کوئی کراہت نہیں۔ حدود اللہ کا احترام فرمایا تلک حدود اللہ فلاتعتدوھا یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں ان سے آگے نہ بڑھو۔ یہ نکاح ، طلاق ، ایلاء خلع وغیرہ اللہ تعالیٰ کے نافذ کردہ قوانین ہیں ان کی پاسداری کرو اور ان کے خلاف کر کے اللہ کی حدود کو نہ توڑ بیٹھنا ۔ رمضان المبارک میں جہاں روزوں کی فرضیت کا ذکر تھا ، وہاں فرمایا کہ روزہ رکھ کر کھانا پینا اور مباشرت حرام ہے۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں۔ فلاتقربوھا “ ان کے قریب بھی نہ جانا اور یہاں فرمایا فلاتعتدوھا ان کو عبور نہ کرنا۔ ظاہر ہے کہ کھانا ، پینا اور مباشرت کرنا انسان کی غایت درجہ کی خواہشات ہیں اور انسان کسی وقت بھی ان کو پورا کرسکتا ہے۔ اس لئے وہاں پر سخت حکم دیا کہ ان حدود کے قریب بھی نہ جائو ، کہیں پھسل کر حدود اللہ کو ضائع نہ کر بیٹھو اور نکاح طلاق وغیرہ کے مسئلہ میں تنازعہ ہوتا ہے دو فریق ملوث ہوتے ہیں۔ اس لئے یہاں پر حدود کی خلاف ورزی کا اتنا خطرہ نہیں ہوتا۔ جتنا روزہ کے معاملہ میں ہوتا ہے۔ اس لئے یہاں پر فرمایا کہ اللہ کی حدود پار نہ کر جانا۔ ورنہ تباہ ہو جائو گے اور یاد رکھو ومن یتعد حدود اللہ فاولئک ھم الظلمون ، جو اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدود سے آگے بڑھے گا۔ ایسے ہی لوگ ظالم ہیں۔ ظاہر ہے ظالم مستوجب سزا ہوتا ہے۔ اللہ کی گرفت میں آتا ہے ۔ اس لئے فرمایا جو اللہ کی حدود کو توڑے گا وہ ظالموں میں شمار ہو کر سزا کا مستحق ہوگا۔
Top