Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 23
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ١۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم ہو فِیْ : میں رَيْبٍ : شک مِمَّا : سے جو نَزَّلْنَا : ہم نے اتارا عَلَىٰ عَبْدِنَا : اپنے بندہ پر فَأْتُوْا : تولے آؤ بِسُوْرَةٍ : ایک سورة مِنْ ۔ مِثْلِهِ : سے ۔ اس جیسی وَادْعُوْا : اور بلالو شُهَدَآءَكُمْ : اپنے مدد گار مِنْ دُوْنِ اللہِ : اللہ کے سوا اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور اگر تم اس چیز سے شک میں ہو جس کو ہم نے نازل کیا ہے اپنے بندے (یعنی حضرت محمد ﷺ) پر ، پس لاؤ تم ایک سورة اس کے مانند۔ اور بلاؤ اپنے مددگاروں کو اللہ تعالیٰ کے سوا۔ اگر تم سچے ہو
گزشتہ سے پیوستہ : سورة کے ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے “ اھدنا الصراط المستقیم ” کا جواب “ ذلک الکتب لاریب فیہ ” سے دیا۔ پھر انسانون کے تین گروہ بیان فرمائے۔ پہلا مومنین ، متقین کا گروہ۔ اور اس کے اوصاف بیان فرمائے۔ اس کے بعد دوسرے گروہ کفار کا ذکر کیا جو ظاہراً اور باطناً اللہ تعالیٰ کی توحید اس کے دین اور قیامت کے منکر ہیں اس کے بعد تیرہ آیات میں منافقین کا حال ذکر کیا۔ جو سب سے زیادہ خطرناک گروہ ہے ان کی علامات کارنامے اور ان کی ذہنیت کا بیان ہوا۔ اس کے بعد مثالوں کے ذریعے ہر قسم کے منافقوں کی نشاندہی کی ۔ جو کفر میں پکے ہوچکے ہیں یا پھر ابھی متردد ہیں۔ اور پھر ان کے برے انجام کا بھی ذکر فرمایا۔ سورة بقرہ دو سو چھیاسی آیات کی سب سے لمبی سورة ہے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس سے پہلے مکی زندگی میں جس قدر سورتیں نازل ہوئیں اور ان میں جتنی تعلیم دی گئی۔ سب کا خلاصہ اس سورة میں آگیا ہے اس کے علاوہ اور بھی بہت سے احکام اس میں آگئے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے نظام کو مکمل طور پر اس میں بیان فرما دیا ہے۔ چناچہ سب سے پہلی بنیادی تعلیم جس پر تمام کتب آسمانی متفق ہیں اس کا حکم دیا کہ “ یایھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم ” یعنی عبادت خالصتاً اللہ تعالیٰ ہی کی کرنا۔ اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں اس کے بعد معرفت الٰہی پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ کی پہچان ضروری ہے۔ اس کے بغیر عبادت بھی کسی کی کار آمد نہیں۔ مشرکین اور یہود و نصاریٰ اگرچہ خدا تعالیٰ کو مانتے تھے مگر صحیح پہچانتے نہیں تھے۔ اسی لیے وہ ناکام ہوئے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی پہچان اس کی ذات سے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ وہ انسانی عقل و فکر سے بلند ہے۔ وہاں تک کی رسائی نہیں اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو عالم جبروت سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا پہچاننا بھی بڑا مشکل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی صفت کی پہچان اس کی مخلوق اور اس کی مصنوعات میں غور کرنے سے ہوتی ہے۔ جب کوئی انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو پہچان لیتا ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو بھی پہچان لیتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان صفات کا ذکر کیا “ ربکم الذی خلقکم ” تمہارا رب رہ ہے۔ جس نے تمہیں پیدا کیا۔ اس کے سوا نہ کوئی خالق ہے نہ قادر مطلق ہے اور نہ علیم کل ہے۔ عبادت کے لائق وہی ذات ہے جو ان صفات کی مالک ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ربوبیت اور خالقیت کو بیان کیا کہ دیکھو ! اللہ تعالیٰ نے کس طرح زمین کو تمہارے لیے بچھونا اور فرش بنا دیا۔ اور آسمان کو چھت کی مانند کھڑا کردیا۔ آسمان سے پانی اتار کر پھلوں کے ذریعے تمہاری روزی کا سامان مہیا کردیا۔ لہٰذا عبادت صرف اسی کی کرو۔ “ فلا تجعلوا للہ ان دادا ” کسی چیز میں بھی خدا کا شریک نہ بناؤ۔ تم جانتے ہو کہ خدا کے سوا دوسرا کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ سارے محتاج اور اس کی عاجز مخلوق ہیں ، خواہ وہ انسان ہوں جن ہوں یا فرشتے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی ان آیات میں چار عمدہ مضامین کا ذکر کیا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید کہ یہ بنیادی مسئلہ ہے۔ اس کے بعد رسالت ہے۔ کہ نبی پر ایمان لائے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کے اوامر اور نواہی کا علم نہیں ہو سکتا۔ بڑے بڑے یونانی حکماء محض اس لیے گمراہ ہوئے کہ انہوں نے نبیوں کی اتباع کی ضرورت کو محسوس نہ کیا۔ وہ تو کہتے تھے کہ یہ تو جاہل لوگوں کے لیے ضروری ہے ہم تو بڑے عقل مند ہیں۔ تیسرا مضمون خود قرآن پاک کی صداقت ہے۔ کہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور چوتھا مضمون قیامت پر ایمان ہے نیک و بد اعمال کی جزا و سزا قیامت پر منحصر ہے۔ لہٰذا اس پر بھی ایمان لانا ضروی ہے۔ قرآن پاک خاص معجزہ ہے : ان حالات میں قرآن پاک اور پیغمبر (علیہ السلام) کا اکٹھا تذکرہ فرمایا ہے “ وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا ” اگر تمہیں اس چیز کے بارے میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کیا ہے۔ کہ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے۔ گویا اس کلام الٰہی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے نبی کی نبوت کی تصدیق مطلوب ہے۔ نبی دعویٰ کرتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا فرستادہ ہوں۔ تو اسکی تصدیق کے لیے کسی معجزہ کا ہونا ضروری ہے ۔ احادیث میں حضور ﷺ کے تین ہزار سے زیادہ معجزات کا ذکر آتا ہے۔ مگر قرآن پاک حضور ﷺ کا خصوصی معجزہ ہے۔ آپ نے فرمایا (1 ۔ مسلم ج 1 ص 86) اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو کوئی نہ کوئی خصوصی معجزہ عطا فرمایا ہے۔ پھر جس کی قسمت میں ٹھہرا وہ ایمان لے آیا۔ فرمایا میرا خصوصی معجزہ وحی الٰہی ہے۔ جس کے ذریعے قرآن پاک جیسا بیمثال معجزہ عطا ہوا۔ اسی لیے آپ نے ارشاد فرمایا “ ارجعو ان اکون اکثرھم تابعا یوم القیمۃ ” یعنی مجھے امید ہے کہ قیامت کے روز سب سے زیادہ پیروکار میرے ہوں گے۔ کیونکہ میرا خصوصی معجزہ پائیدار اور دائمی ہے باقی پیغمبروں کے معجزات عارضی تھے۔ جو وقت کے ساتھ ختم ہوگئے۔ مگر حضور ﷺ کا معجزہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے۔ عبد باعزت لفظ ہے : اس آیت میں حضور ﷺ کے لیے عبد کا لفظ استعمال ہوا ہے جو کہ بڑا باعزت لفظ ہے “ نزلنا علی عبدنا ” کسی پیغمبر کی عبدیت کا اظہار اس کی بہت بڑی صفت ہے کیونکہ کامل درجے کی عبدیت انبیاء کرام (علیہم السلام) میں ہوتی ہیں ۔ اور پھر تمام نبیوں میں حضور ﷺ اکمل ترین بندے ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب نصیب ہے۔ قرآن پاک میں جہاں بھی عبد کا لفظ آیا۔ وہاں پر خاص انعام کا ذکر ہے۔ جیسے “ سبحن الذی اسری بعبدہ ” دوسری جگہ فرمایا “ نزل الفرقان علی عبدہ ” ایک اور جگہ ارشاد ہے “ فاوحی الی عبدہ ما اوحی ” الغرض یہ عبد کا لفظ نہایت اعلیٰ مقام کا حامل ہے۔ نماز میں جب تک کوئی “ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ ” نہ کہے۔ اس کی نماز کامل ہی نہیں ہوتی۔ تمام انبیاء (علیہم السلام) اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ نہ تو خدا تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ نہ اوتار ہیں اور نہ خدا نے ان میں حلول کیا ہے۔ نہ ان میں الوہیت کی صفت پائی جاتی ہے وہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے اس کے عبد یعنی بندے ہیں۔ معبود صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ بعض لوگ جہالت کی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ انبیاء ہیں کہ انبیاء (علیہم السلام) بشر یا انسان نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان ہونا فخر کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ “ انی خالق برا من طین ” میں تو مٹی سے انسان جیسی برگزیدہ ہستی کو پیدا کرنے والا ہوں۔ بشر ہونا کوئی بےعزتی کی بات نہیں ہے۔ خاص طور پر عبدیت تو بہت اعلیٰ صفت ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ عطا کر دے حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اندر تو عبدیت والی بات ہی نہیں پائی جاتی۔ ہماری عبدیت کی حالت خراب ہے۔ ہم گندے انسان ہیں۔ جو گناہوں سے آلودہ ہیں۔ جنہیں عبدیت کا مقام حاصل ہے وہ تو پاکیزہ نفوس ہیں جو ہر وقت خدا تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت میں مشغول رہتے ہیں۔ قرآن پاک بطور چیلنچ : خود قرآن پاک اس بات کا گواہ ہے کہ مشرکین اسے خدا تعالیٰ کا کلام ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے اس خیال کے رد کے طور پر قرآن پاک میں تین قسم کی آیات نازل فرمائیں۔ اولا سورة بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا کہ یہ قرآن پاک کسی انسان کا وضع کردہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ انسان کے بس کی بات ہے۔ بلکہ “ لئن اجتمعت الانس والجن علی ان یاتوا بمثل ھذا القرن لا یاتون بمثلہ ولو کان بعضھم لبعض ظھیرا ” یعنی تمام انسان اور تمام جن مل کر بھی اس قرآن پاک کی مثل لانا چاہیں تو نہیں لاسکتے۔ اگرچہ یہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔ گویا یہ ساری مخلوق عاجز ہے۔ اس بات سے کہ قرآن پاک جیسا کوئی کلام پیش کرسکیں۔ دوسری جگہ فرمایا۔ کہ اگر تمہیں اس کلام پاک کے منجانب اللہ ہونے میں کسی قسم کا شک ہے۔ یعنی یہ کہ یہ انسانی کلام ہے تو “ فاتوا بعثر سور مثلہ ” تو اس جیسی دس سورتیں ہی بنا کرلے آؤ۔ خواہ چھوٹی ۔ چھوٹی ہی ہوں۔ پتا چل جائے گا۔ کہ واقعی یہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں ہے۔ بلکہ کوئی انسان بھی ایسی چیز پیش کرسکتا ہے۔ مگر کوئی بھی اس چیلنچ کا جواب نہ دے سکا۔ اب تیسرے نمبر پر آیت پاک میں آخری چیلنچ دیا جا رہا ہے۔ کہ اگر تم کو اس کلام پاک میں شک ہے۔ فاتوا بسورۃ من مثلہ ، تو اس جیسی ایک سورة ہی بنا کرلے آؤ چاہے وہ تین آیات کو چھوٹی سے چھوٹی سورة ہی کیوں نہ ہو امام ابوبکر جصاص (رح) چوتھی صدی ہجری میں ہوئے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں (1 ۔ احکام القرآن ج 1 ص 28) کہ قرآن پاک کے اس چیلنج کو صدیاں گزر جانے کے باوجود کسی نے اس کا جواب دینے کی جرات نہیں کی اور اگر مسیلمہ کذاب جیسے کسی شخص نے حماقت کی تو اسے منہ کی کھانی پڑی۔ اس کے ہم عصر کافروں نے اس کے منہ پر تھوک دیا تھا۔ کہ تم پر لعنت ہو۔ کیا تمہارا وضع کردہ کلام محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والے کلام کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ یہ تمہارے بس کا روگ نہیں ہے۔ قرآن پاک کا یہ اعجاز چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود قائم و دائم ہے۔ اور آج تک کوئی ایک سورة بھی بنا کر پیش نہیں کرسکا۔ عام مفسرین کرام فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر مظہری ج 1 ص 37) کہ یہ چیلنج قرآن پاک کی فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے ہے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) بھی انہیں مفسرین میں شامل ہیں ۔ جو فرماتے ہیں کہ قرآن پاک ایسا فصیح وبلیغ کلام ہے۔ کہ اس جیسی فصاحت و بلاغت آج تک کوئی دوسرا کلام پیش نہیں کرسکا۔ مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے ۔ اگر یہ چیلنج فصاحت و بلاغت تک ہی محدود ہے تو پھر یہ خطہ عرب تک ہی محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ جہاں عربی زبان بولی جاتی ہے۔ کیونکہ قرآن پاک عربی زبان میں نازل ہو ! مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ چیلنچ تسلیم کیا جائے۔ تو اسکا مطلب یہ ہوگا۔ کہ فصاحت و بلاغت کے علاوہ نہ کوئی دوسرا کلام اس جیسا ہے نہ اس میں دیے ہوئے نظام جیسا کوئی نظام دیا جاسکتا ہے۔ اور نہ ہی اس جیسا کوئی دوسرا دستور پی کیا جاسکتا ہے۔ حضور ﷺ کے ماحول جیسی اجتماعیت کوئی دوسرا قانون پیش نہیں کرسکتا۔ حتی کہ سابقہ کتب آسمانی اور صحیفے بھی ایسا اجتماعی نظام نہیں دے سکتے۔ جیسا قرآن پاک نے عطا کیا۔ اسی لیے فرمایا کوئی ایک سورة لاکر دکھاؤ۔ جو قرآن جیسی جامعیت پیدا کرسکے۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی (رح) برصغیر جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ صرف سولہ سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی۔ اور آپ سکھ مت چھوڑ کر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوری (رح) کے والد محترم شیخ حبیب اللہ حضرت سندھی (رح) کے دوست تھے اور آپ کے ساتھ ہی اسلام لائے۔ رشتے کے لحاظ سے حضرت مولانا سندھی حضرت مولانا لاہوری کے خسر تھے۔ تو مولانا عبید اللہ سندھی نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے (1 ۔ سرگزشت کابل ص 80) کہ دنیا بھر کی اقوام اگر انصاف کی نظر سے دیکھیں تو ان پر واضح ہوجائے گا۔ کہ جو پروگرام اور نظام عدل اسلام اور قرآن پاک نے پیش کیا ہے دنیا کی کوئی قوم پیش نہیں کرسکتی۔ خواہ وہ ہندو ہوں یا عیسائی یا یہودی۔ انہیں یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ اسلام جیسا اٹل ، مضبوط اور غیر تغیر پذیر قانون کہیں سے نہیں مل سکتا۔ امام شافعی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 4 ص 547) کہ قرآن پاک کی چھوٹی سی سورة “ والعصر ” اتنی جامع سورة ہے کہ ساری کائنات کی ہدایت کے لیے یہی کافی ہے۔ بشرطیکہ بنی نوع انسان اس پر غور و فکر کرکے اس سے راہنمائی طلب کریں۔ الغرض ! فرمایا اگر ہمارے نازل کردہ کلام میں تمہیں کوئی شک ہے تو اس جیسی ایک سورة ہی بنا کر لاؤ۔ صرف یہی نہیں بلکہ “ وادعوا شھدآء کم من دون اللہ ان کنتم صدقین ” اور اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ کے علاوہ اپنے گواہ بھی بلالو۔ یعنی خود بھی آجاؤ اور اپنے دیگر مددگار اور حمایتی بھی بلا لو۔ مگر تم اس کلام جیسی ایک سورة بھی پیش نہیں کرسکو گے۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں ہے تو اس چیلنج کو قبول کرو ۔ یہ قرآن پاک عربی زبان میں ہے۔ یہ تمہاری مادری زبان ہے۔ حضور ﷺ نے اسی تمہارے ماحول سے عربی زبان سکھی ہے۔ آپ مکہ میں رہے ہیں۔ یاد یار نبی بکر میں ۔ یہ اسی علاقے کی زبان ہے اگر حضور ﷺ خود کلام بنا سکتے ہیں۔ تو پھر تم بھی کوئی سورة بنا کر دکھاؤ۔ حضور نبی کریم ﷺ کے زمانہ مبارک میں عربی زبان اپنے انتہائی عروج پر تھی اس انتہا پر پہنچنے کے بعد تنزل کی ہی توقع کی جاسکتی ہے۔ مگر کسی شاعر نے قرآن پاک کی مثل لانے کی جرات نہیں کی۔ جو بھی قرآن پاک کی کوئی آیت سنتا تھا ۔ دم بخود رہ جاتا تھا۔ حضرت ابو ذرغفاری ؓ کے بھائی حضرت انس ؓ کہتے تھے (1 ۔ مسلم ج 2 ص 296) کہ میں شاعروں کا کلام بھی جانتا ہوں اور ساحروں کا بھی اور کاہنوں کا بھی۔ میں نے کلام الٰہی کا ان سب کلاموں کے ساتھ موازنہ کیا ہے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی قرآن پاک کا مقابل نہیں۔ خدا کا کلام تمام کلاموں سے منفرد اور ممتاز ہے۔ منکرین قرآن کی سزا : قرآن پاک نے چیلنج پیش کرنے کے بعد پھر خود ہی اس کا جواب دیا “ فان لم تفعلوا ولن تفعلوا ” پس اگر تم نہ کرسکے اور تم ہرگز نہیں کرسکو گے ۔ گویا پیشگوئی بھی کردی۔ کہ تم اس کلام کی مثل ہرگز پیش نہیں کرسکو گے ۔ تو خبردار فرمایا “ فاتقوا النار ” اس آگ سے بچو “ التی وقودھا الناس والحجارۃ ” جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں گویا دوزخ کی آگ میں اس کلام کے مکذبین خود کفار جلیں گے۔ اور پھر جلانے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئلے سے جلائی گئی آگ سخت ہوتی ہے۔ اسی طرح پتھر سے جلنے والی آگ شدید تر ہوگی۔ یا پتھر سے مراد وہ پتھر کے بت ہیں جن کی پوجا کی جاتی تھی۔ وہ بھی دوزخ کی آگ میں جلائے جائیں گے (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 132 ، ابن کثیر ج 1 ص 61) فرمایا یہ ایسی آگ ہے “ اعدت للکفرین ” جو کفار کے لیے تیار کی گئی ہے۔ کفار لوگ اسی آگ کا ایندھن بنیں گے۔ ایمانداروں کے لئے بشارت : اس مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے ترہیب و ترغیب کو ساتھ ساتھ بیان فرمایا ہے۔ کفار کا انجام بیان کرنے کے بعد ایمانداروں کے لیے بشارت سنائی “ وبشر الذین امنوا وعملوا الصلحت ” آپ ان لوگوں کو خوشخبری سنا دیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور نبی کی رسالت پر ایمان لائے۔ کلام الٰہی کو سچا کلام تسلیم کیا۔ قیامت کو برحق جانا اور پھر اس کے ساتھ شائستہ کام بھی انجام دیے۔ یعنی نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ جیسے فرائض پورے کئے۔ صدقہ و خیرات کیا۔ حلال و حرام میں امتیاز روا رکھا۔ کہ “ ان لھم جنت تجری من تحتھا الانھر ” ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے باغات تیار کر رکھے ہیں۔ جن کے نیچے نہریں جا ری ہیں۔ پھلوں میں مشابہت : فرمایا “ کلما رزقوا منھا من ثمرۃ رزقا ” جب وہ ان بہشتوں میں پھلوں سے روزی دیے جائیں گے “ قالوا ھذا الذی رزقنا من قبل ” تو کہیں گے یہ تو وہی ہے ۔ جو ہمیں اس سے پہلے دی گئی “ واتوابہ متشابھا ” اور وہ اس میں دیے جائیں گے ایک دوسرے کے مشابہ پھل۔ مقصد یہ کہ ایک دفعہ جنتیوں کو پھل پی کیے جانے کے بعد جب دوسری دفعہ ان سے ملتے جلتے پھل دیے جائیں گے تو جنتی لوگ کہیں گے کہ یہ وہی پھل ہیں جو ہمیں اس سے پہلے دے گئے تھے۔ مگر جب وہ انہیں کھائیں گے تو ان کا ذائقہ پہلے پھلوں سے بالکل مختلف ہوگا یا اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کے پھل دنیا کے پھلوں سے مشابہ ہوں گے اور جنتی انہیں دیکھ کر دنیا کے پھلوں پر قیاس کریں گے۔ مگر ان دونوں قسم کے پھلوں میں ذائقے کے اعتبار سے بڑا تفاوت ہوگا۔ حضرت مولانا شاہ اشرف علیٰ تھانوی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ ) کہ پھلوں میں مشابہت کی ایک اور توجیہ یہ ہے کہ فطرت سلیمہ رکھنے والے اس دنیا میں جب ی کی اور اطاعت کے کام کرتے تھے تو انہیں لذت محسوس ہوتی تھی۔ اس کے نتیجے میں جب بہشت میں انہیں پھل دیے جائیں گے تو وہ لوگ کہیں گے کہ ان میں وہی لذت پائی جاتی ہے۔ جو دنیا میں نیکی کرتے وقت حاصل ہوتی تھی۔ ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے (1 ۔ ترمذی ص 499) کہ جنت کی زمین خالی ہے “ سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ” کہنا اس خالی زمین میں درخت لگانے کے مترادف ہے۔ جب کوئی مومن دل کی گہرائیوں سے الحمدللہ کہتا ہے تو جنت میں اس کے لیے ایک درخت لگا دیا جاتا ہے۔ جب اس درخت کا پھل انہیں میسر ہوگاتو وہ کہیں گے کہ اس کا ذائقہ تو بالکل وہی ہے جیسا ذائقہ ہمیں دنیا میں نیکی کی توفیق پر حاصل ہوتا تھا۔ اسی نیکی کے صلے میں آج ہمیں جنت میں یہ نعمتیں حاصل ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا میں آرام و راحت کا جو بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ وہ سب جنت میں حاصل ہوگا۔ خواہ وہ لباس کی صورت میں ہو خوراک کی صورت میں ہو یا اعلیٰ مقام کی صورت میں۔ ہر چیز وہاں حاصل ہوگی اور اسی کو پھلوں کی مشابہت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پاکیزہ بیویاں : جنتیوں کے ایک اور انعام کے متعلق فرمایا “ ولھم فیھا ازواج مطھرۃ ” اور ان کے لیے پاکیزہ بیویاں ہوں گی ان مادی نعمتوں کے علاوہ دوسرے مقام پر روحانی نعمتوں کا بھی ذکر ہے۔ فرمایا “ ولکم فیھا ما تشتھی انفسکم ” اس میں تمہارے لیے ہر وہ چیز ہوگی جس کے لیے تمہارا جی چاہے گا۔ جنت کی نعمتوں کی ایک اور خصوصیت یہ ہوگی کہ وہ نہ ختم ہونے والی ہونگی۔ دنیا میں کسی چیز کے میسر آجانے کے بعد بھی ہر وقت خطرہ لگا رہتا ہے۔ کہ یہ کسی وقت چھن بھی سکتی ہے یا ختم ہو سکتی ہے۔ مگر جنت کی نعمتیں دائمی ہوں گی۔ ان کے لیے زوال کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا اسی لئے فرمایا کہ جنتی لوگ کسی محدود عرصے کے لیے جنت کی نعمتوں سے مستفید نہیں ہوں گے۔ بلکہ “ وھم فیھا خلدون ” اور وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے وہیں رہیں گے اور ان کے انعامات میں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ ان آیات میں قرآن پاک پر ایمان لانے والوں کا انجام بھی بیان فرما دیا اور اس کی تکذیب کرنے والوں کے حشر سے بھی اللہ تعالیٰ نے آگاہ کردیا۔
Top