Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 238
حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰى١ۗ وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ
حٰفِظُوْا : تم حفاظت کرو عَلَي الصَّلَوٰتِ : نمازوں کی وَ : اور الصَّلٰوةِ : نماز الْوُسْطٰى : درمیانی وَ : اور قُوْمُوْا : کھڑے رہو لِلّٰهِ : اللہ کے لیے قٰنِتِيْنَ : فرمانبردار (جمع)
حفاظت کرو سب نمازوں کی اور خصوصاً درمیانی نماز کی اور کھڑے ہو کر اللہ کے سامنے عاجزی سے
ربطہ آیات گذشتہ آیات میں طلاق ، عدت اور حق مہر کے مسائل ذکر ہوئے ہیں۔ اب درمیان میں د و آیتیں نماز کے متعلق ہیں۔ اور اس کے بعد پھر طلاق اور عدت کے مسائل ہیں بظاہر ایک ہی نوعیت کے مسائل کے درمیان نماز کی یہ آیتیں بےربطہ معلوم ہوتی ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) اور بعض دیگر بزرگ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یہاں پر یہ بات سمجھاناچاہتا ہے کہ دیکھو ، نکاح ، طلاق ، عدت کے مسائل میں مشغول ہو کر کہیں نماز سے غافل نہ ہوجانا۔ نکاح طلاق کے مسائل ہی ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ بعض اوقات گفتگو طول پکڑ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں تمہاری نماز نہیں چھوٹنی چاہئے اس کا ہر حال میں خیال رکھو۔ اس طرح گویا نماز والی آیات دوسری آیات سے مربوط ہیں۔ حضرت مولانا عبیداللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ نماز کی آیات کو دیگر آیات سے اس طور ربط ہے۔ کہ گذشتہ اور آئندہ آیات میں نکاح ، طلاق ، عدت وغیرہ جیسے معاشرتی مسائل کا تذکرہ ہے اور یہ مسائل تدبیر منزل کے مسائل کہلاتے ہیں۔ درحقیقت ان مسائل پر عدل کی بنیاد قائم ہوتی ہے یعنی احکام کی پابندی کرو ، تقویٰ اختیار کرو۔ ظلم و زیادتی نہ کرو ، بچوں والی اور مطلقہ عورتوں کا حق ضائع نہ کرو۔ بیویوں کے حقوق ادا کرو اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کا حکم دیا ہے یعنی عدل اور احسان ان اللہ یامرو بالعدل والاحسان یعنی معاشرے میں عدل و انصاف کو قائم کرو اور احسان بھی کرو۔ تو یہ معاشرتی مسائل عدل کے تحت آتے ہیں جب کہ نماز کی ادائیگی احسان کی تعریف میں آتی ہے کہ نماز ادا کرنے سے انسان محسن بنتا ہے ، نیکو کاری اختیار کرتا ہے تو یہاں پر دونوں طرح کے مسائل کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے تاکہ عدل و احسان کے تقاضے بیک جا پورے کیے جاسکیں۔ اس طرح یہ آیات آپس میں مربوط ہیں۔ صلوۃ وسطیٰ عدل کے مسائل تو گذشتہ کئی درسوں میں آرہے ہیں اور آئندہ بھی آئیں گے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ نے احسان کا مسئلہ بیان فرمایا حافظو ا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ ساری نمازوں کی حفاظت کرو۔ اور خاص طور پر صلوٰۃ وسطیٰ کی۔ درمیانی نماز کے متعلق بہت سے اقوال ہیں کسی نے اسے فجر کی نماز بتایا ہے کسی نے ظہر کی کسی نے مغرب کی اور بعض نے عشاء کی ، مگر راحج قول یہ ہے کہ صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ اور یہ نبی (علیہ السلام) سے ثابت ہے اس نماز کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ نماز دورات کی ( مغرب اور عشائ) اور دو دن کی ( فجر اور ظہر) کے درمیان واقع ہے اور یہ وقت نسبتاً زیادہ مشغولیت کا ہوتا ہے۔ کاروبار کی وجہ سے اس نماز کے ضائع ہونے کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کی حفاظت کی زیادہ تاکید فرمائی گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ فجر کی نماز کے وقت اور پھر عصر کی نماز کے وقت ان فرشتوں کی ڈیوٹیاں تبدیل ہوتی ہیں۔ جو بندوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں لے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ وقت بڑا اہم ہے ، ترمذی شریف کی روایت میں آتا ہے من فاتتہ صلوٰۃ العصر فکانما و تراھلہ ومالہ یعنی جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا اس کا اہل اور مال سب کچھ ہلاک کردیا گیا۔ اسی لیے فرمایا کہ تمام نمازوں کی حفاظت کرو مگر خاص طور پر درمیانی نماز کی حفاظت کرو۔ وقومر اللہ قنتین اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی کے ساتھ کھڑے ہوجائو۔ گویا نماز میں پوری توجہ اسی طرح لگا دو ۔ ادھر ادھر کا خیال دل میں نہ لائو۔ بلکہ یہ تصور کرو کہ تم احکم الحاکمین کے حضور دست بستہ کھڑے ہو ، لہٰذا پوری توجہ کے ساتھ نماز کو ادا کرو۔ ایسی ہی حالت کے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ احسان اس بات کا نام ہے۔ ان تعبد اللہ کانک تراہ یعنی عبادت کے وقت تیری کیفیت یہ ہونی چاہئے گویا کہ تو اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ جب اس کے حضور میں نماز کے لیے کھڑا ہے تو اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہا ہے۔ فرمایا اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہوسکے۔ تو کم از کم اتنا تو ہے فانہ یرک کہ وہ تو تجھے بہرحال دیکھ رہا ہے۔ لہٰذا نماز کے لیینہایت مؤدب طریقے سے کھڑے ہو کہ تمہارے دل میں خشیت الٰہی ہو۔ اور تمہاری حرکات و سکنات سے عاجزی کا اظہار ہو۔ نمازِ خوف فان خفتم فرجالاً اور کباناً پس اگر تم خوف کی حالت میں ہو پس پیدل یا سواری پر نماز ادا کرلو۔ خوف سے م راد دشمن کا خوف ہے جب دشمن کے ساتھ حالت جنگ ہو۔ اور میدان کا رزار میں نماز کا وقت آجائے تو جنگ سے فارغ ہونے تک نماز کو موخر نہ کرو۔ بلکہ اس وقت اگر تم پیدل چل رہے ہو یا سواری پر ہو اور دشمن کا ہر آن خطرہ ہے۔ تو سواری کے اوپر چلتے چلتے ہی نماز ادا کرلو۔ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے وہ قبول کرنیوالا ہے۔ بغیر سواری کے پیدل امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک نماز درست نہیں ہے۔ عین جنگ کی حالت میں مجاہدین کے دو گروپ بنا کر نماز کی ادائیگی کا ذکر آتا ہے۔ ایک گروپ دشمن سے لڑتا رہے اور دوسرا نماز کرلے۔ پھر دوسرا دشمن کے مقابلے پر ہو اور پہلا نماز ادا کرلے۔ اور اگر مجاہدین ایک ہی امام کے پیچھے نمازپڑھنا چاہیں جیسا کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں صحابہ کرام ؓ کی خواہش ہوتی تھی تو پھر دونوں گروپ آدھی آدھی نماز امام کے ساتھ پڑھیں گے اور باقی آدھی آدھی خود پوری کریں گے۔ اگر د و رکعت نماز ادا کرنا ہے تو ایک گروپ امام کے پیچھے کھڑا ہوگا اور دوسرا دشمن کے مقابلے میں رہے گا۔ جب امام کے ساتھ ایک رفعت مکمل ہوجائے گی تو پہلا گروپ پیچھے ہٹ کر مورچے سنبھال لے گا اور حفاظت پر مامور دوسرا گروپ امام کے ساتھ دوسری رکعت میں شامل ہوجائے گا۔ اس طرح دونوں گروپ ایک ایک رکعت امام کے ساتھ ادا کریں گے اور دوسری رکعت خود پوری کریں گے۔ اگر نماز چار رکعت والی ہے تو ہر گروپ دو دو رکعت امام کے ساتھ پڑھے گا۔ اور باقی دو دو رکعت خود مکمل کرلے گا یہ اسی صورت میں ہے کہ مجاہدین کسی خاص نیک آدمی کے ساتھ جماعت میں شامل ہوناچا ہیں۔ ورنہ ہر گروپ اپنی اپنی پوری نماز بیک وقت ادا کرے گا۔ حضور ﷺ نے سفر اور اقامت ہر دو حالتوں میں چھ یا دس دفعہ صحابہ کرام ؓ کو صلوٰۃ الخوف پڑھائی۔ آپ نے سفر کی حالت میں دو رکعت اور اقامت کی حالت میں چار رکعت نماز پڑھائی۔ فرمایا فاذا امنتم جب تم امن کی حالت میں ہو۔ خوف دور ہوجائے۔ فاذکرو اللہ کما علمکم تو اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں تعلیم دی ہے۔ یعنی رکوع ، سجود ، قعدہ وغیرہ جو بھی شرائط ہیں۔ فرائض ، واجبات ، سنن اور مستجات ہیں سب کی رعایت رکھو۔ اللہ نے تمہیں ایسی تعلیم دی ہے مالم تکونو تعلمون جو تم نہیں جانتے تھے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے اپنی عبادت کا وہ طریقہ بھی بتلا دیا ہے جسے وہ پسند کرتا ہے پس اس طریقے کے مطابق اللہ کا ذکر کرو۔ بیوائوں پر احسان نماز کے تذکرے کے بعد اب پھر عورتوں کے مسائل کا بیان ہے فرمایا والذین یتوفون منکم و یذرون ازواجاً تم میں سے جو لوگ وفات دئیے جاتے ہیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جاتے ہیں وصیۃً لازواجھم وہ اپنی بیویوں کے حق میں وصیت کر جائیں متاعاً الی الحول غیر اخراجٍ کہ وہ ایک سال تک فائدہ اٹھائیں بغیر گھر سے نکالنے کے فان خرجن اور اگر وہ خود بخود نکل جائیں فلا جناح علیکم تو تم پر کوئی گناہ نہیں فی ما فعلن فی انفسھن من معروفٍ کہ جو کچھ وہ اپنے معاملہ میں دستور کے مطابق کرنا چا ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ مردوں پر یہ لازم ہے کہ عورتوں کیلئے وصیت کریں کہ کم از کم ایک سال تک ان کے گھر میں معمول کے مطابق بیٹھی رہیں۔ ان کے تمام اخرجات بھی پوری کیے جائیں۔ ہاں اگر عورتیں خود اپنے متعلق کوئی دوسرا فیصلہ کرلیں۔ یعنی دوسرا نکاح کرنا چا ہیں تو پھر وہ اپنی مرضی کی مالک ہیں تم پر اس کا کچھ گناہ نہیں۔ انہیں اپنا فیصلہ خود کرنے دیں۔ اس میں رکاوٹ بھی نہ بنیں۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ایک سال کی وصیت کا قانون اس وقت تک تھا جب تک بیوائوں کے لیے چار ماہ دس دن تک کی عدت مقرر نہیں ہوئی تھی اس وقت عورتیں سال بھر خاوند کے گھر رہ سکتیں تھیں۔ پھر جب اللہ نے عدت کی آیات نازل فرمائیں تو یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ بعض دوسرے مفسرین کرام کا قول ہے کہ کوئی بھی حکم منسوخ نہیں ہے بلکہ اصل عدت تو چار ماہ د س دن ہی ہے مگر یہ ایک سال کی وصیت عورت کے ساتھ مزید احسان ہے کہ اسے عدت کے فوراً بعد گھر سے نہ نکال دیاجائے۔ بعض اوقات عورت کے ماں باپ بھی نہیں ہوتے جن کے پاس چلی جائے اور نکاح ثانی کا بھی فوری بندوبست ن ہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ایک سال تک انہیں گھر سے نہیں نکالنا چاہئے بلکہ جہاں تک ہوسکے ان کے ساتھ احسان کا برتائو ہوناچاہئے۔ کیونکہ وہ بیوہ ہوچکی ہے وہ پہلے ہی غم واندوہ سے نڈھال ہے اس کے ساتھ مزید سختی نہایت ہی ناپسندیدہ فعل ہوگا۔ بعض فرماتے ہیں کہ ایک سال ٹھہرنے کی رعایت کو اس وقت تک حاصل تھی جس وقت تک وراثت کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ پھر سورة نساء میں مذکور تمام رشتے داروں کے حصے مقرر کردئیے گئے۔ اگر خاوند مر جائے تو بیوی کا حصہ بھی مقرر ہوا یعنی اگر اولاد موجود ہے تو کل وراثت کا آٹھواں حصہ اور اگر اولاد نہیں ہے تو چوتھا حصہ مقرر ہوا۔ لہٰذا اب سال بھر کی رعایت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ عورت کو وراثت میں حصہ مل گیا ہے۔ فرمایا واللہ عزیز حکیم یہ احکام خداوند تعالیٰ نازل کر رہا ہے جو کمال قوت کا مالک ہے اور حکمت والا ہے نہ کوئی کام اس کی قدرت سے باہر ہے اور نہ ہی کوئی کام حکمت سے خالی ہے اس لیے ان احکام پر پورا پورا عمل کرنا چاہئے۔ مطلقہ کے حقوق فرمایا وللمطلقت متاع بالمعروف مطلقہ عورتوں کو فائدہ پہنچانا ہے دستور کے مطابق۔ یعنی طلاق کی مختلف صورتوں کی نسبت سے ان کے حقوق ادا کرو۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ایسی عورت جسے مقاربت سے پہلے طلاق ہوگئی اور اس کا مہر بھی مقرر نہیں ہوا ، اس کو اپنی مالی حیثیت کے مطابق ایک جوڑا کپڑے دو ، جس میں ایک قمیص ، ایک دوپٹہ اور ایک بڑی چادر ہو۔ یا ایک دوپٹہ اور دو چادریں ہوں۔ یہ واجب ہے۔ ایسی عورت جس کا مہر مقرر ہوچکا ہے مگر بغیر مقاربت کے طلاق ہوگئی۔ اس کو نصف مہر ملیگا۔ یہاں پر جن عورتوں کا ذکر ہے وہ عام طلاق یافتہ ہیں۔ جو مہر مثل یا پورے مہر کی حقدار ہیں فرمایا کہ ان کو بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچائو۔ یہ مستحب ہے ان کو کچھ دے دلا کر رخصت کرو۔ وہ طلاق کے غم میں مغموم ہیں ان کی دل جوئی ہونی چاہئے ان کے لیے بھی ایک جوڑا کپڑے تو ضرور ہونے چاہئیں۔ حقاً علی المتقین یہ بات متقیوں پر لازم ہے۔ فرمایا کذلک یبین اللہ لکم اٰیتہِ اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لیے احکام بیان کرتا ہے۔ آیت کے مختلف معانی آتے ہیں مثلاً دلیل ، معجزہ ، نشانی وغیرہ تاہم یہاں پر آیت سے مراد اس کے احکام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ تمہارے لیے نازل کرتا ہے لعلکم تعقلون تاکہ تم انہیں اچھی طرح سمجھ کر ان پر عمل پیرا ہوجائو۔ اگر احکام پر چلتے رہو گے تو سعادت مندی کی منزل پالوگے۔
Top