Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 243
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ وَ هُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ١۪ فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا١۫ ثُمَّ اَحْیَاهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْكُرُوْنَ
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَرَجُوْا : نکلے مِنْ : سے دِيَارِھِمْ : اپنے گھر (جمع) وَھُمْ : اور وہ اُلُوْفٌ : ہزاروں حَذَرَ : ڈر الْمَوْتِ : موت فَقَالَ : سو کہا لَهُمُ : انہیں اللّٰهُ : اللہ مُوْتُوْا : تم مرجاؤ ثُمَّ : پھر اَحْيَاھُمْ : انہیں زندہ کیا اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَلَي النَّاسِ : لوگوں پر وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَشْكُرُوْنَ : شکر ادا نہیں کرتے
کیا نہیں دیکھا آپ نے ان لوگوں کو جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے موت کے ڈر سے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا مر جائو پھر ان کو زندہ کیا۔ بیشک اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن اکثر لوگ شکریہ ادا نہیں کرتے
ربطہ آیات ولیس البر بان تانو البیوت من ظھورھا سے لے کر اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام بیان فرماتے ہیں جن کا تعلق بر یعنی نیکی کے ساتھ ہے۔ ان میں نکاح ، طلاق ، عدت اور ان کے متعلقات بیان ہوئے ہیں۔ حلت اور حرمت کا مسئلہ بھی آیا ہے۔ اس کے علاوہ عبادات ، معاملات اور اخلاق سے متعلق مسائل کا بیان ہوا ہے۔ اب یہاں سے جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کا تذکرہ شروع ہورہا ہے۔ پہلی آیت مسئلہ جہاد فی سبیل اللہ میں تمہید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد حاکم کے انتخاب اور اس کے تحت جہاد میں حصہ لینے کا تذکرہ ہے کسی پہلی امت کا واقعہ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ وہ لوگ جہاد سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے راستے میں ان پر موت طاری کردی۔ پھر انہیں عجیب و غریب طریقہ سے دوبارہ زندگی نصیب ہوئی۔ اسلوبِ خطاب اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا الم تر کیا تو نے نہیں دیکھا اے مخاطب۔ تر کا لفظ رویت سے مشتق ہے جس کے معنی دیکھنے کے ہیں مگر رویت بھی دو قسم کی ہے۔ ایک رویت بصری یعنی اس ظاہری آنکھ سے دیکھنا اور دوسری قسم ہے روایت قلبی یعنی علم کے ذریعے کسی چیز کو جان لینا۔ جیسے کسی کو کہاجائے الم تعلم کیا تو نہیں جانتا۔ تجھے یہ بات معلوم نہیں۔ دوسرے لفظوں میں تجھے یہ بات ضرورمعلوم ہے چناچہ موقع محل کے مطابق بعض اوقات رویت کے معنی آنکھ سے دیکھنا ہوتا ہے اور بعض اوقات علم سے جاننا۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں کہ یہاں پر الم تر سے مراد علم کے ذریعے جاننا ہے ، نہ کہ ظاہری آنکھ سے ظاہر ہے کہ اب جو واقعہ بیان ہورہا ہے۔ وہ پہلی امتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ لہٰذا اس زمانہ میں اس واقعہ کو آنکھ سے دیکھنا ممکن نہیں۔ البتہ بعد میں اس کا علم ہوا ہے۔ یہ واقعہ حضور ﷺ کے زمانہ یعنی نزول قرآن سے بھی پہلے کا ہے اس لیے اس وقت بھی یہ رویت بصری نہیں تھی۔ بلکہ رویت قلبی یا رویت علمی تھی۔ اس طرح کا اسلوب بیان بعض دوسری آیات میں بھی ملتا ہے۔ جیسے الم ترا الی الذی حاج ابرھم فی ربہ کیا تو نے اس شخص کی طرف نہیں دیکھا جس نے ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے متعلق جھگڑا کیا۔ سورة فیل میں فرمایا الم تر کیف فعل ربک باصحب الفیل کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ یہ واقعات خود حضور ﷺ کے زمانے سے بہت پہلے کے ہیں۔ مگر لفظ الم تر ہی لایا گیا ہے مقصد یہ ہے کہ ہم نے علم کے ذریعے آپ کو بتا دیا ہے کہ فلاں فلاں واقعہ ایسے ایسے پیش آیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے یوسف (علیہ السلام) کا واقعہ بیان فرمایا تو آخر میں فرمایا ” ذلک من انسباء الغیب توحیہ الیک وما کنت لدیھم “ یعنی یہ غیب کی خبریں ہیں۔ جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ آپ اس وقت ان کے پاس نہ تھے۔ گویا یہ بات آپ کو بذریعہ علم معلوم ہوئی۔ جہاد سے فرار اور موت الغرض ! فرمایا الم ترا کیا آپ نے نہیں جانا ان لوگوں کا حال الی الذین خرجو من دیارھم جو اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے وھم الوف اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ کس وجہ سے بھاگ کھڑے ہوئے حذر الموت موت سے ڈر کر۔ اب سوال یہ ہے کہ انہیں موت کیوں نظر آرہی تھی۔ اس ضمن میں مفسرین کے مختلف اقوام ہیں۔ تورات کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ بنی اسرائیل سے تھے۔ اور انہیں ایک دوسری فلتی نامی قوم سے جہا د کا حکم ہوا تھا۔ مگر یہ لوگ جہا د پر آمادہ ہونے کی بجائے جان بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے تاکہ دوسری جگہ چلے جائیں گے تو موت سے بچ جائیں گے۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ ان لوگوں میں طاعون کی وبا پھیل گئی تھی جس کی وجہ سے وہ اپنے علاقے سے بھاگ کر پہاڑوں کے دروں میں پناہ گزین ہوگئے۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں کی آب و ہوا نسبتاً بہتر ہے اور اس پر فضا ماحول میں وہ طاعون سے بچ جائیں گے۔ جہاں تک ان کی تعداد کا تعلق ہے ، مستدرک حاکم کی روایت اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے کہ وہلوگ چار ہزار کی تعداد میں تھے۔ بعض روایتوں میں ستر ہزار تک کی تعداد کا ذکر آتا ہے۔ مگر ابن عباس ؓ کی روایت زیادہ قوی ہے۔ حضور ﷺ کا فرمان مبارک ہے جس علاقہ میں طاعون پھیل جائے وہاں سے بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ کیونکہ ہوسکتا ہے ۔ بھاگنے والے اپنے ساتھ وبائی اثرات لے جائیں اور اگلے علاقے میں وبا پھوٹ پڑے۔ نیز وبائی مرض سے باہر رہنے والے لوگوں کو فرمایا کہ وہ متاثر مقام پر جانے کی کوشش نہ کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ بھی مرض میں مبتلا ہوجائیں۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی روایت میں بھی آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ وبائی مرض والے خطہ سے باہر نہ نکلو اور نہ وہاں جانے کی کوشش کرو۔ بہرحال یہ احتیاطی تدابیر ہیں مگر جس کی موت لکھی جا چکی ہے وہ رک نہیں سکتی ۔ ک وہ جہاں بھی ہوگا اس پر موت طاری ہوجائیگی اور پھر یہی حال ان بھاگنے والوں کا ہوا۔ فقال لھم اللہ موتوا اللہ تعالیٰ نے اي سے کہا مر جائو۔ وہ جس وجہ سے بھی بھاگ کر پہاڑوں میں پہنچے اللہ نے ان پر وہیں موت طاری کردی اور ان کا اپنے گھروں سے بھاگ نکلنا کچھ کام نہ آیا۔ دوبارہ زندگی ان لوگوں کی دوبارہ زندگی کے متعلق کئی ایک روایتیں ہیں بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ ان زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی بنی حزقیل (علیہ السلام) موجود تھے جن پہاڑی دروں میں یہ لوگ پناہ گزین ہوئے وہاں حزقیل (علیہ السلام) کبھی کبھی عبادت کے لیے آتے تھے ان لوگوں کی موت کے بعد جب اللہ کے نبی حسب معمول عبادت کیلئے گئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان دروں میں ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں انہیں علم نہیں تھا کہ کونسا واقعہ پیش آیا ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ان مردوں کو دوبارہ زندگی عطا کردی۔ ثم احیاھم پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کردیا۔ اس مقام پر یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ دوبارہ زندگی ایک غیر معمولی واقعہ تھا اور معجزانہ طورپرعطا ہوئی وگرنہ موت کے بعد دوبارہ میل ملاپ کی زندگی تو قیامت کو ہی ملیگی تاہم اس قسم کے غیر معمولی واقعات کچھ اور بھی ملتے ہیں۔ جیسے اسی سورة بقرہ میں عامیل کا واقعہ ہے جسے اس کے عزیزوں نے قتل کردیا تھا۔ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت اللہ تعالیٰ نے ورثائے مقتول کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور گوشت کا ٹکڑا مردے کو لگانے سے وہ زندہ ہوگیا۔ رہا یہ سوال کہ یہ لوگ کتنا عرصہ موت کی آغوش میں رہنے کے بعد دوبارہ زندہ ہوئے۔ اس بات میں بھی مختلف اقوال ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کی موت کے آٹھ دن بعد حضرت حزقیل (علیہ السلام) آئے تو انکی دعا سے ان لوگوں کو دوبارہ زندگی ملی۔ بعض دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو مرے ہوئے کافی عرصہ گزر چکا تھا۔ اور ان کے جسم گل سڑ چکے تھے صرف ہڈیا باقی رہ گئی تھیں۔ جب کہ اللہ نے انہیں زندہ کیا۔ اسی آیت کریمہ کی تفسیر میں اما ابوبکر حصاص (رح) فرماتے ہیں کہ عذاب قبر کا انکار کرنے والے باطل پر ہیں۔ جس طرح اس قوم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد پھر زندہ کردیا تھا۔ اسی طرح ہر مرنے والے کو برزخی زندگی عطا کرتا ہے۔ نیکو کاروں پر انعامات ہوتے ہیں اور گنہگار سزا کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ بعض دوسری آیات اور احادیث مبارکہ میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ برزخ میں بھی لوگوں کو سزاو جزا بھگتنا پڑتی ہے اگرچہ حقیقیجزا وسزا تو قیامت کو ہی ہوگی تاہم قبر میں بھی سکون و راحت یا سزا و عذاب ہوتا ہے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ثم احیا ھم پھر اللہ نے انہیں دوبارہ زندہ کیا۔ بائبل کی روائتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موت و زندگی کے ان مراحل سے گزرنے کے بعد وہ حقیقت حال کو سمجھ گئے۔ اللہ سے معافی مانگی ، جہاد میں حصہ لیا۔ فلسطینیوں کے خلاف جواں مردی کے جوہر دکھائے اور آخر ان کو فتح حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے غلبہ عطا کیا۔ جہاد سے گریز حرام ہے موت وحیات قبضہ قدرت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کی جتنی زندگی مقررک ی ہے اس سے پہلے انسان کی موت واقع نہیں ہوسکتی اور نہ اس سے زیادہ زندگی حاصل ہوسکتی ہے۔ لہٰذا اس خوف سے جہاد سے گریز کرنا کہ موت آجائیگی ، یہ حرام ہے حضور کا فرمان ہے لن تموت نفس حتیٰ تستکمل رزقھا جب تک انسان اپنی روزی پوری نہیں کرلیتا ، اس کی موت نہیں آتی۔ لہٰذا حرام روزی تلاش نہیں کرنی چاہئے۔ اسی لیے فرمایا فاتقوا اللہ واجملوا اللہ سے ڈرو اور اچھے راستے پرچلو۔ چاہے کتنے بڑے حادثات پیش آجائیں موت قبل از وقت نہیں آسکتی۔ کیونکہ اس کے لیے وقت متعین ہے۔ انسان کو اپنا فرض ادا کرتے رہناچاہئے خواہ جہاد میں سر دھڑ کی بازی لگانا پڑے جب تک اللہ کو منظور ہے اسے موت نہیں آسکتی۔ نہ دشمن اس کا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ حضرت خالد بن ولید ؓ کی موت بستر پر واقع ہوئی ، حالانکہ آپ نے زندگی میں جی بھر کر جہاد کیا۔ بڑی بڑی جنگوں میں لشکر کی کمانڈ کی۔ آپ کہا کرتے تھے ، خدا تعالیٰ بزدل کی آنکھ کو ٹھنڈا نہ کرے ، میرے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں ، جس پر تیر ، تلوار یا نیزے کا زخم نہ ہو آرزو تھی کہ میدان جہاد میں شہادت نصیب ہو ، مگر افسوس کہ آج بستر پر موت آرہی ہے بخاری شریف میں روایت میں ہے کہ حضرت زبیر ؓ کی ساری زندگی بھی جہاد میں گزری ، ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی زخموں سے خالی نہ تھا۔ حتیٰ کہ اعضاء مستورہ پر بھی نیزے کا زخم تھا ، مگر ان کو بھی میدان جہاد میں شہادت کی موت نہ مل سکی۔ لہٰذا انسان کا فرض ہے کہ موت کے خوف کو دل سے نکال دے اور فریضہ جہاد کو انجام دیتا رہے۔ فرمایا ان اللہ لذو فضل علی الناس اللہ تعالیٰ بڑا فضل کرنیوالا ہے ولکن اکثر الناس لا یشکرون مگر اکثر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے۔ یعنی اس کی قدرت پر یقین نہیں رکھتے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے یہ واقعہ بیان کرکے موت وحیات کی حقیقت کو سمجھا دیا۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کوئی مال خرچ کرنا چا ہے تو شیطان کہتا ہے دیکھنا تمہارے پاس کچھ نہیں بچے گا۔ اور اگر کوئی جہاد میں شرکت کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے کان میں کہتا ہے سوچ سمجھ لو ، تمہارے بچے یتیم ہوجائیں گے۔ حالانکہ موت وحیات ایک اٹل حقیقت ہے ۔ انسان کو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فریضہ کو انجام دیتا رہے اور موت کو خاطر میں نہ لائے۔ جہاد کا حکم جہاد کے اس تمہیدی طور پر ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے جان و مال کے ذریعے جہاد کا صریح حکم دیا ۔ وقاتلو فی سبیل اللہ اور اللہ کے راستے میں جہاد کرو۔ اس کے دین کی سربلندی کے لیے دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوجائو کیونکہ موت وحیات تو اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ وقت متعین سے پہلے نہ موت آسکتی ہے اور نہ وقت معین کے بعد زندگی باقی رہ سکتی ہے۔ واعلمو ا ان اللہ سمیع علیم اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سنتا ہے۔ ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے اور ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ کوئی شے اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں ، لہٰذا اپنی جان کو اللہ کی راہ میں پیش کرو۔ اس کا حکم ہے جاھدو ا باموالکم وانفسکم فی سبی اللہ اپنی جانوں کے ساتھ جہا د کرو۔ اگر اس مالک المک نے جان کی قربانی قبول کرلی۔ تو اس سے اچھا سودا کیا ہوسکتا ہے۔ اس کا تو اعلان ہے ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ اس نے تو مونوں کے جان و مال جنت کے بدلے خرید رکھے ہیں۔ جہاد بالمال جہاد بالمال کے متعلق فرمایا من ذی الذی یقرض اللہ قرضاً حسناً کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض دیتا ہے۔ قرض حسن۔ اللہ کو قرض دینا یہ ہے کہ اس کے راستے میں مال کے ذریعے جہاد کیا جائے اس کو قرض حسن اس لیے کہا گیا ہے کہ انسان کو یقین کامل ہوجائے کہ جہا د میں لگائی ہوئی اسکی رقم ضائع نہیں جائے گی۔ اس کا بدلہ اسے بڑھا چڑھا کر مل جائے گا فیضعفہ لہ اضعافاً کثیرۃً اس قرض حسن کو اللہ تعالیٰ دگنا بلکہ کئی گنا کردے گا۔ بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خلوص کے ساتھ دیا ہوا کھجور کا ایک دانہ ، اُحد کے پہاڑ کے برابر بڑھ کر واپس ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس کے اجر وثواب کو اس قدر بڑھا دیں گے جو شخص فی سبیل اللہ ایک پیسہ خرچ کریگا ، اس کو کم از کم دس گنا تو ضررو ملیگا کہ یہ قطعی قانون ہے من جاء بالحسنۃ فلہ عشرا مثا لھا البتہ جہاد میں خرچ ہونے والے مال کے بدلے کی کم از کم مقدار سات سو گنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کی کوہان کی بلندی جہاد میں مضمر ہے۔ جہاد کی اہمیت جہاد بالمال اور جہاد بالنفس دونوں بڑی اہم حیثیت کے حامل ہیں۔ اگر جہاد سے گریز ہوگا تو نہ عزت ہوگی اور نہ دین کا غلبہ باقی رہے گا۔ بےدین اور کافر طاقتیں غالب آجائیگی ، حضور ﷺ کے ارشاد سے اور قرآن کریم کے مطابق جہاد سے گریز کرنے والے فاسق ہوجاتے ہیں یا منافق ہوجاتے ہیں۔ ابو دائود شریف کی روایت میں ہے کہ اگر تم جہاد کو ترک کرکے تجارت ، کھیتی باڑی یا دوسرے کاموں میں منہمک ہوگئے یسلط اللہ علیکم الذلۃ تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کریدگا۔ حتی ترجعوا الیٰ دینکم اور جب تک دین کی طرف واپس نہیں آئو گے۔ اللہ تعالیٰ تم سے ذلت کو دور نہیں کریں گے۔ جب تک مسلمانوں میں جذبہ جہاد موجود تھا ان کو عزت اور غلبہ حاصل تھا۔ جب جذبہ جہاد میں سستی واقع ہوئی تو نہ عزت رہی نہ غلبہ غیر اقوام کی ملی بھگت سے مسلمان آپس میں جنگ وجدال میں مصروف ہیں۔ یہ انگریزی تہذیب کا اثر ہے کہ ہم اپنے اکابرین کو بھول کر غیر اقوام کے گن گا رہے ہیں۔ دنیا میں چالیس سے زیادہ اسلامی سلطنتیں ہونے کے باوجود ان پر سپر پاور کا غلبہ ہے۔ اس قسم کے تجربات گذشتہ تاریخ میں بھی ملتے ہیں۔ جب عیسائیوں نے سپین ( اندلس) پر قبضہ کیا تو وہاں مسلمانوں کی آبادی د و کروڑ کے قریب تھی مگر بعد میں وہاں صرف گیارہ ہزار باقی رہ گئے ، کچھ مارے گئے ، کچھ جبراً عیسائی بنا لیے گئے۔ یہ مسلمانوں کی آپس کی نااتفاقی ہے کہ ہر جگہ ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ایران اور عراق کئی سالوں سے دست و گریباں ہیں۔ دونوں اسلامی ملکوں کی طاقت کمزور ہورہی ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ کسی غیر مسلم قوم کو موقع مل جائے ۔ اور یہ دونوں ان کے قبضہ میں چلے جائیں۔ روس اور امریکہ ہمیشہ ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ افغانستان میں کیا ہوا۔ یکے بعد دیگرے کتنے سربراہ قتل ہوئے ، ملک کمزور ہوگیا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روس بزور شمشیر قبضہ کیے بیٹھا ہے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار قرض حسن اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے متعلق ان دروس میں کئی دفعہ بیان آچکا ہے یہاں اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اتفاق فی سبیل اللہ کو قرض حسن سے تعبیر فرمایا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس کو قرض دینے کے مترادف ہے جو وہ کئی گنا بڑھا کردیگا۔ اس سے پہلے اس ضمن میں آچکا ہے ولا تلقوا بایدیکم الی التھکۃ مال کو روک کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈلو۔ حضرت شیخ الہند (رح) فرماتے ہیں کہ قرض حسن وہ قرض ہے جسکی واپسی کا تقاضا نہ کیا جائے۔ مقروض پر احسان نہ جتایاجائے اس کو حقیر نہ سمجھا جائے اور اس سے بدلہ نہ لیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کو قرض دینے سے مراد جہاد میں خرچ ہے۔ یا غریبوں ، محتاجوں کی اعانت ہے۔ اس کا بدلہ قطعی طور پر آخرت میں کئی گنا بڑھا چڑھا کردیاجائیگا۔ ایک شخص نے جہاد کے لیے ایک اونٹنی پیش کی۔ جس کے ساتھ مہارتھی اور اس پر پالان کسا ہوا تھا۔ حضور ﷺ نے فرمایا ، بہت اچھا کام ہے۔ قیامت کے روز اسے ایسی سات سو اونٹنیاں ملیں گی۔ قبض و بسط بظاہر خرچ کرنے سے مال کم ہوجاتا ہے۔ مگر انسان کو جان لیناچاہئے واللہ یقبض ویبصط قبض وبصط تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس کا چاہتا ہے مال قبض کرلیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے بڑھادیتا ہے یہ اختیار اس نے اپنے پاس رکھا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ کس کو کتنا مال دیتا ہے۔ چناچہ وہ اس کے مطابق رزق میں کمی اور زیادتی کرتا ہے لہٰذا انسان کا یہ وہم کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کا مال کم ہوجائیگا کچھ حقیقت نہیں رکھتا۔ انسان بڑا ناشکر گزار ہے جب اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے تو اسے زور بازو کا نتیجہ کہتا ہے اور جب وہ کم کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینا شروع کردیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ تنگی کے لیے میں ہی رہ گیا تھا۔ خدا پر شکوہ کرتا ہے مگر اپنے کرتوت کو نہیں دیکھتا۔ کہ میرے افعال کیسے ہیں فرمایا یہ بات یہیں ختم ہونے والی نہیں ہے والیہ ترجعون تم سب کو اسی مالک الملک کی طرف لوٹ کر جانا ہے لہٰذا جہاد بالنفس اور جہاد بالمال ہر دو طریقوں سے اللہ کو راضی کرو۔
Top