Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 282
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوْهُ١ؕ وَ لْیَكْتُبْ بَّیْنَكُمْ كَاتِبٌۢ بِالْعَدْلِ١۪ وَ لَا یَاْبَ كَاتِبٌ اَنْ یَّكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللّٰهُ فَلْیَكْتُبْ١ۚ وَ لْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ وَ لْیَتَّقِ اللّٰهَ رَبَّهٗ وَ لَا یَبْخَسْ مِنْهُ شَیْئًا١ؕ فَاِنْ كَانَ الَّذِیْ عَلَیْهِ الْحَقُّ سَفِیْهًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ هُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّهٗ بِالْعَدْلِ١ؕ وَ اسْتَشْهِدُوْا شَهِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِكُمْ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّ امْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰىهُمَا فَتُذَكِّرَ اِحْدٰىهُمَا الْاُخْرٰى١ؕ وَ لَا یَاْبَ الشُّهَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا١ؕ وَ لَا تَسْئَمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰۤى اَجَلِهٖ١ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَرْتَابُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِیْرُوْنَهَا بَیْنَكُمْ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَكْتُبُوْهَا١ؕ وَ اَشْهِدُوْۤا اِذَا تَبَایَعْتُمْ١۪ وَ لَا یُضَآرَّ كَاتِبٌ وَّ لَا شَهِیْدٌ١ؕ۬ وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّهٗ فُسُوْقٌۢ بِكُمْ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ یُعَلِّمُكُمُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِذَا : جب تَدَايَنْتُمْ : تم معاملہ کرو بِدَيْنٍ : ادھار کا اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : تک مُّسَمًّى : مقررہ فَاكْتُبُوْهُ : تو اسے لکھ لیا کرو وَلْيَكْتُبْ : اور چاہیے کہ لکھ دے بَّيْنَكُمْ : تمہارے درمیان كَاتِبٌ : کاتب بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کرے كَاتِبٌ : کاتب اَنْ يَّكْتُبَ : کہ وہ لکھے كَمَا : جیسے عَلَّمَهُ : اس کو سکھایا اللّٰهُ : اللہ فَلْيَكْتُبْ : چاہیے کہ لکھ دے وَلْيُمْلِلِ : اور لکھاتا جائے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ : اس پر الْحَقُّ : حق وَلْيَتَّقِ : اور ڈرے اللّٰهَ : اللہ رَبَّهٗ : اپنا رب وَلَا : اور نہ يَبْخَسْ : کم کرے مِنْهُ : اس سے شَيْئًا : کچھ فَاِنْ : پھر اگر كَانَ : ہے الَّذِيْ : وہ جو عَلَيْهِ الْحَقُّ : اس پر حق سَفِيْهًا : بےعقل اَوْ : یا ضَعِيْفًا : کمزور اَوْ : یا لَا يَسْتَطِيْعُ : قدرت نہیں رکھتا اَنْ : کہ يُّمِلَّ ھُوَ : لکھائے وہ فَلْيُمْلِلْ : تو چاہیے کہ لکھائے وَلِيُّهٗ : اس کا سرپرست بِالْعَدْلِ : انصاف سے وَاسْتَشْهِدُوْا : اور گواہ کرلو شَهِيْدَيْنِ : دو گواہ مِنْ : سے رِّجَالِكُمْ : اپنے مرد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُوْنَا : نہ ہوں رَجُلَيْنِ : دو مرد فَرَجُلٌ : تو ایک مرد وَّامْرَاَتٰنِ : اور دو عورتیں مِمَّنْ : سے۔ جو تَرْضَوْنَ : تم پسند کرو مِنَ : سے الشُّهَدَآءِ : گواہ (جمع) اَنْ : اگر تَضِلَّ : بھول جائے اِحْدٰىھُمَا : ان میں سے ایک فَتُذَكِّرَ : تو یاد دلا دے اِحْدٰىهُمَا : ان میں سے ایک الْاُخْرٰى : دوسری وَلَا يَاْبَ : اور نہ انکار کریں الشُّهَدَآءُ : گواہ اِذَا : جب مَا دُعُوْا : وہ بلائے جائیں وَلَا : اور نہ تَسْئَمُوْٓا : سستی کرو اَنْ : کہ تَكْتُبُوْهُ : تم لکھو صَغِيْرًا : چھوٹا اَوْ : یا كَبِيْرًا : بڑا اِلٰٓى : تک اَجَلِهٖ : ایک میعاد ذٰلِكُمْ : یہ اَقْسَطُ : زیادہ انصاف عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَاَقْوَمُ : اور زیادہ مضبوط لِلشَّهَادَةِ : گواہی کے لیے وَاَدْنٰٓى : اور زیادہ قریب اَلَّا : کہ نہ تَرْتَابُوْٓا : شبہ میں پڑو اِلَّآ اَنْ : سوائے کہ تَكُوْنَ : ہو تِجَارَةً : سودا حَاضِرَةً : حاضر (ہاتھوں ہاتھ) تُدِيْرُوْنَهَا : جسے تم لیتے رہتے ہو بَيْنَكُمْ : آپس میں فَلَيْسَ : تو نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَلَّا تَكْتُبُوْھَا : کہ تم وہ نہ لکھو وَاَشْهِدُوْٓا : اور تم گواہ کرلو اِذَا : جب تَبَايَعْتُمْ : تم سودا کرو وَلَا يُضَآرَّ : اور نہ نقصان کرے كَاتِبٌ : لکھنے والا وَّلَا : اور نہ شَهِيْدٌ : گواہ وَاِنْ : اور اگر تَفْعَلُوْا : تم کرو گے فَاِنَّهٗ : تو بیشک یہ فُسُوْقٌ : گناہ بِكُمْ : تم پر وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَيُعَلِّمُكُمُ : اور سکھاتا ہے اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے ایمان والو ! جب تم آپس میں ادھار کا معاملہ کرو وقت مقررہ تک تو اس کو لکھ لیا کرو ، اور چاہے کہ تمہارے درمیان لکھے کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ اور نہ انکار کرے کوئی کاتب ( لکھنے والا) اس بات سے کہ وہ لکھے جیسا کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے اور اس کو چاہئے کہ وہ لکھ دے اور چاہئے کہ لکھوائے وہ شخص جس کے اوپر حق ہے اور اس کو چاہئے کہ اللہ سے ڈرتا رہے جو اس کا پروردگار ہے اور اس میں سے کسی چیز کو کم نہ کرے اور اگر وہ شخص جس کے اوپر حق ہے ، بےعقل ہے یا کمزور ہے ، یا لکھوانے کی طاقت نہیں رکھتا ، پس چاہئے کہ لکھوا دے اس کا سر پرست انصاف کے ساتھ۔ اور گواہ بنا لو دو گواہ اپنے مردوں میں سے ، پس اگر نہ ہوں مرد ، تو ایک مرد اور دو عورتیں ان میں سے جن کو تم گواہوں میں سے پسند کرتے ہو اس وجہ سے کہ اگر ان دو عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے ، اور گواہ انکار نہ کریں جس وقت ان کو بلایا جائے گواہی کے لیے ، اور نہ دلگیر ہو اس بات سے کہ لکھو تم معاملے کو چھوٹا ہو یا بڑا اس کی مدت تک ، یہ بات زیادہ انصاف والی ہے اللہ کے نزدیک ، اور گواہی کو زیادہ درست رکھنے والی ہے ، اور یہ زیادہ قریب ہے کہ تم شک نہ کرو مگر یہ کہ دست بدست تجارت ہو جس کو تم اپنے درمیان گردش دیتے ہو اور تم پر گناہ نہیں ہے۔ اس بات میں کہ اسے نہ لکھو اور گواہ بنا لو جس وقت تم سودا کرتے ہو اور نہ نقصان پہنچایا جائے لکھنے والے کو اور نہ گواہ کو ، اگر تم ایسا کرو گے تو یہ تمہارے اندر فسق اور نافرمانی والی بات ہوگی ، اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اور اللہ تم کو سکھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے
دستاویز کی اہمیت اس سورة کے چھیتسویں رکوع سے مالی مسائل بیان ہو رہے ہیں ، پہلے صدقہ و خیرات کے متعلق مختلف مسائل کا ذکر ہوا ۔ پھر سود کی حرمت اور اس کے احکام بیان ہوئے ، اب اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے قرض یا ادھار کے قوانین نازل فرمائے ہیں ، یہ ایک دوسرے کے ساتھ لین دین کے معاملات ہیں ، ان میں تین بنیادی قوانین ہیں اور ان کے ساتھ کچھ ضمنی مسائل ہیں ۔ بنیادی قوانین میں ۔۔۔۔۔ دستاویز کی تیاری ، گواہ کا تقرر اور رہن کی تفصیلات شامل ہیں ان کے ذریعے ادھار کے معاملات میں کسی ممکنہ متنازعہ سے بچا جاسکتا ہے۔ آج کے درس میں تحریر یعنی دستاویز کی تیاری کے متعلق احکام ہیں ۔ آج کے دور میں تحریر کرلینا ایک معمولی بات نظر آتی ہے۔ کیونکہ تعلیم عام ہے اور یہ کام آسانی کے ساتھ ہو سکتا ہے مگر چودہ صدیاں قبل جب کوئی پڑھا لکھا آدمی خال ہی نظر آتا تھا ، تحریر کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ اس وقت لوگ اپنے معاملات عموماً زبانی ہی طے کرتے تھے جس کی وجہ سے اکثر جھگڑے پیدا ہوجاتے تھے ، لہٰذا تحریر کے یہ احکام نازل کیے گئے ۔ کسی امر میں تحریر کرلینا کوئی فرض واجب تو نہیں مگر معاملات کی درستگی کیلئے مستحب کے درجہ میں آتا ہے معاملہ طے کرنیکے بعد آدمی بھول بھی سکتا ہے کہ کیا شرائط تھیں کتنی مدت مقرر تھی ۔ نسی ادم فنسیت ذریتہ کے مصداق حضرت آدم (علیہ السلام) سے چوک ہوئی تو ان کی اولاد بھی بھول جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بات لڑائی جھگڑے تک پہنچتی ہے اگر تحریر موجود ہوگی ۔ تو تنازعہ کے وقت کام آئیگی اور کوئی عدالت اس تحریر کی بناء پر فیصلہ کرسکے گی ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے دستاویز کے احکام نازل فرمائے تا کہ معاشرہ میں اس وجہ سے بگاڑ پیدا نہ ہو ۔ اسی لیے مولانا عبید اللہ سندھی (رح) فرماتے ہیں کہ تعلیم جبری ہونی چاہئے تا کہ لوگ معاملات کو درست رکھ سکیں ۔ تحریر کے مسائل ارشاد ہوتا ہے یایھا الذین امنوا یعنی اے اہل ایمان ! اذا تداینتم بدین الی اجل مسمی جب تم کسی خاص مدت تک ادھار کا معاملہ کرو فاکتبوہ پس اس کو لکھ لیا کرو۔ ولیکتب بینکم کاتب بالعدل اور چاہئے کہ تمہارے درمیان لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے۔ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے کیونکہ قلم کا فتنہ بہت بڑا فتنہ ہے۔ بسا اوقات اسکی وجہ سے بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ لہٰذا کاتب کے لیے ضروری ہے۔ ولا یاب کاتب ان یکتب کما علمہ اللہ کہ وہ لکھنے سے انکار نہ کرے جب کہ اللہ نے اسے علم دیا ہے۔ فلیکتب بلکہ چاہئے کہ وہ لکھ دے یعنی جب کسی ان پڑھ شخص کو تحریر کی ضرورت ہو تو پڑھے لکھے آدمی کو اسکی مدد کرنا چاہئے اور جب ضرورت تحریر کر دینی چاہئے اللہ تعالیٰ نے علم جو نعمت اسے عطا کی ہے۔ اس میں بخل نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے علم کی دولت دی تو اسے خدمت خلق کا موقع ملا ۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ ان من الصدقۃ ان تعن صانعاً او تصنع لاخرف یہ بھی صدقہ میں شامل ہے کہ تو کسی کاریگر کی مدد کر دے یا کسی بےہنر آدمی کو کوئی چیز بنا کر دے دے ۔ اس صول کے مطابق اگر کوئی شخص ان پڑھ ہے ، خود لکھ پڑھ نہیں سکتا تو اس کی فرمائش پر تحریر کردینا بھی صدقہ میں شامل ہے کہ تو کسی کاریگر کی مدد یا کسی بےہنر آدمی کو کوئی چیز بنا کردے دے ۔ اس اصول کے مطابق اگر کوئی شخص ان پڑھ ہے خود لکھ پڑھ نہیں سکتا تو اس کی فرمائش پر تحریر کردینا بھی صدقہ میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں اپنے علم سے دوسروں کو مستفید نہ کرنے والوں کے لیے حدیث شریف میں وعید بھی آئی ہے۔ من سئل علما ًیعلمہ جس سے کوئی ایسی بات دریافت کی گئی جسے وہ جانتا ہے فک تمہ پھر اس نے اسے چھپایا ۔ ایسے شخص کے متعلق فرمایا الجم بلجام من نار یوم القیامۃ قیامت کے دن ایسے شخص کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی ۔ کیونکہ اس نے دانستہ چیز کو چھپا لیا ، لہٰذا کاتب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کے مطابق حق و انصاف کے ساتھ تحریر کردے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ کاتب کے لیے تحریر کرنا واجب نہیں ہے۔ بلکہ یہ مستحب کا درجہ رکھتا ہے مطلب یہ کہ کسی شخص کو مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ضرورہی یہ فرمائش پوری کرے ۔ اسے انکار کرنے کا اختیار ہے اور اگر لکھائی کی اجرت لینا چاہے تو مناسب معاوضہ بھی جائز ہے تا ہم لکھ دینا بہتر ہے کیونکہ مستحسن بات ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسکی ترغیب دلائی ہے تا کہ ضرورت مند کی خدمت کی جائے کہ یہ بھی خدمت خلق کا ایک حصہ ہے۔ قرض اور دین میں فرق قرض اور دین ( ادھار) میں قدرے فرق ہے۔ اگرچہ دونوں الفاظ ادھار کے معنوں میں بھی استعمال ہوتے ہیں ، مگر ادھار یا دین عام ہے اور قرض خاص ہے قرض صرف رقم کے ادھار پر بولا جاتا ہے ، جب کہ دین میں ہر قسم کا ادھار شامل ہے خواہو ہ نقد رقم کا لین دین ہو یا کسی چیز کے بدلے میں ادھار ہو ۔ قرض کے متعلق پہلے بیان ہوچکا ہے من ذالذی یقرض اللہ قرضاً حسنا ً جو اللہ کو قرض حسن دے ، یعنی کسی ضرورت مند کو مقررہ مدت کے لیے نقد رقم ادھار پر دے دے اور اس سے زائد وصول نہ کرے۔ اگر نقد رقم کی واپسی پر اس کے ساتھ کچھ زائد وصول کرے گا تو وہ سود ہوگا ۔ جسکی حرمت کا بیان آ چکا ہے ، البتہ اگر کسی چیز کے تبادلے کے ضمن میں کوئی نقد رقم واجب الادا ہے ، تو وہ ادھار ہے اس صورت میں چیز بیچنے والا اپنی اصل لاگت سے زائد بھی لے سکتا ہے ، جسے منافع کہتے ہیں اور یہ جائز ہے اس آیت کریمہ میں اسی بات کا تذکرہ ہے کہ جب تم مقررہ مدت کے لیے ادھار کا معاملہ کرلو ، تو اسے لکھ لیا کرو ، کوئی شخص مکان یا زمین بیچتا ہے ۔ کوئی جانور فروخت کرتا ہے جنس کا سودا ہوتا ہے اور رقم کی ادائیگی کے لیے تاریخ یا دن کا تقررہوتا ہے۔ تو یہ مشتری کے ذمے دین یعنی ادھار ہے جو وہ مقررہ تاریخ پر ادا کرنے کا پابند ہے۔ عام طور پر خریدو فروخت نقد ہوتی ہے مالک کے پاس چیز موجود ہے اور گاہک کے پاس رقم موجود ہے۔ تو تبادلہ دست بدست ہوجائیگا اور اگر گاہک قیمت کی ادائیگی کے لیے مہلت طلب کرے ۔ تو یہ ادھار کہلائے گا ۔ ہاں اگر دونوں طرف چیز موجود نہ ہو ۔ نہ تو مالک کے پاس چیز موجود ہے اور نہ گاہک کے پاس رقم اور سودا طے پا جاتا ہے مثلاً زمیندار کہتا ہے کہ آئندہ فصل پر میں فلاں جنس اس بھائو پر فروخت کروں گا یا کارخانے کی فلاں مہینے کی فلاح پیداوار اتنے دام میں دوں گا اور گاہک اسے تسلیم کرلیتا ہے تو شرعی اصطلاح میں اسے ” بیع الکالی باالکالی کہتے ہیں یہ ناجائز ہے۔ نہی عن بیع الکالی بالکالی ایسی خریدو فروخت سے شریعت نے منع کردیا ہے۔ بیع سلم خرید و فروخت کی باقی دو صورتیں جائز ہیں ۔ ایک صورت یہ ہے کہ قیمت موجود ہے مگر چیز موجود نہیں ، وہ ادھار ہے۔ اس کو بیع سلم کہتے ہیں ۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے فلیسلف فی کیل معلوم ووزن معلوم الی اجل یعنی بیع مسلم شرائط کے ساتھ جائز ہے ۔ جب کہ اسکی پیمائش ، وز ن یا مدت معلوم ہو اور جگہ بھی معلوم ہو ۔ فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جنس بھی معلوم ہونی چاہئے اور بھائو طے کرلینا ضروری ہے ۔ مثلاً دو فریقوں کے درمیان طے پاتا ہے کہ فلاں چیز یا جنس کا اتنے تول یا ماپ میں فلاں تاریخ کو اس بھائو سے لین دین ہوگا ۔ چناچہ قیمت نقد ادا کر کے سودا طے پاتا ہے ۔ تو یہ درست ہے چیز کے ناپ تول میں کمی بیشی ہو سکتی ہے اور بھائو کے مطابق اس کی کل قیمت میں بھی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ بیع مسلم کے لیے بعض دیگر شرائط بھی ہیں ، مثلاً یہ کہ سودے کی مدت کم از کم پندرہ دن ہونی چاہئے بعض نے ایک ماہ کا تعین کیا ہے۔ ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس چیز کا سودا ہوا ہے۔ وہ مارکیٹ سے بالکل معدوم نہ ہو بلکہ معاہدہ طے پاتے وقت بازار میں موجود بھی ہو۔ اس قسم کی بیع میں مدت تبادلہ واضح ہونی چاہئے۔ اگر مدت کا تعین نہیں ہوگا تو بیع درست نہ ہوگی ۔ مثلاً اس قسم کا معاہدہ ہوتا ہے کہ جس کا تبادلہ اس وقت ہوگا جب فصل پکے گی جب کہ فصل پکنے اور کٹنے کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ۔ اسی طرح کوئی شخص یہ سودا کرتا ہے کہ جب جانور بچہ دیگا اس وقت قیمت ادا کی جائیگی ۔ اس قسم کی مجہول مدت قابل قبول نہیں اور ایسی بیع فاسد شمار ہوگی ۔ اجل مسمی کا لفظ وضاحت کر رہا ہے کہ مدت کا تعین لازمی ہے کہ فلاں دن یا فلاں تاریخ کو چیز وصول کی جائیگی اور اگر مدت مجہول ہو تو اسے بیع الغر کہتے ہیں یہ دھوکے والی بیع ہے اور شریعت کی رو سے ناجائز ہے۔ بیع سلم کی دوسری صورت یہ ہے کہ چیز موجود ہے ، وہ گاہک وصول کرلیتا ہے ، مگر قیمت فوری طور پر ادا نہیں کرتا بلکہ خاص مدت کے لیے ادھار کرلیتا ہے یہ بھی جائز ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضر ت عائشہ صدیقہ ؓ نے عرض کیا حضور ! آپ کے پاس اوڑھنے کے لیے کپڑا نہیں ہے۔ فلاں یہودی کے ہاں کپڑا موجود ہے ۔ آپ پیغام بھیج کر کپڑا ادھار لے لیں اور مدت مقرر پر رقم اد ا کردیں ۔ حضور ﷺ نے یہودی کو ایسا پیغام بھیجا تھا ، مگر اس نے کپڑا دینے سے انکار کردیا تھا تا ہم بیع کی یہ صورت بھی جائز ہے ۔ مدت مقرر کر کے قیمت کا ادھار کیا جاسکتا ہے۔ ادائیگی قرض کا عجیب واقعہ قرض کی واپسی کس قدر ضروری ہے ۔ اس کے متعلق حضور ﷺ نے سابقہ امت کا ایک عجیب و غریب واقعہ بیان فرمایا ۔ فرماتے ہیں ایک شخص نے دوسرے سے مقررہ مدت کے لیے ایک ہزار دینار قرض لیا۔ قرض خواہ نے کہا کہ کوئی گواہ لائو ، تو ضرورت مند کہنے لگا ، میرا گواہ تو اللہ ہی ہے ، پھر اس نے کہا کوئی ضامن ہی لائو ، تو وہ کہنے لگا ، میرا ضامن بھی اللہ ہی ہے۔ غرض اس نیک دل آدمی نے بغیر گواہ اور ضامن کے ایک ہزار دینار قرض میں دے دیے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جب قرض کی ادائیگی کا وقت آیا تو مقروض دریا سے اس پار سفر پر تھا ، تا ہم اسے ادائیگی قرض کی ذمہ داری کا احساس تھا ، وہ کنازے پر آیا مگر کوئی کشتی نہ پائی جو اسے دوسرے کنارے پر پہنچا دے۔ سخت پریشان تھا کہ قرض کی ادائیگی وقت پر نہ ہو سکے گی ۔ اسی سوچ بچار میں اس نے دونوں ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں دعا کے لیے اٹھا دیے اور عرض کیا ، مولا کریم ! میں نے فلاں شخص کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ اسکی رقم فلاں تاریخ کو لوٹا دوں گا ۔ رقم موجود ہے مگر دریا کے پارجانے کے لیے سواری موجود نہیں اگر قرض خواہ کو رقم وقت پر نہیں ملتی تو وعدہ خلافی ہوتی ہے۔ اے اللہ ! اب تو ہی اس کا انتظام فرما آخر اس کے دل میں ایک خیال ایا ۔ اس نے ایک لڑکی لی اس کو کھوکھلا کر کے اس میں ایک ہزار دینار اور قرض خواہ کے نام ایک رقعہ رکھ دیا ۔ پھر اس کا منہ اچھی طرح بند کر کے اس کو دریا میں ڈال دیا اور خود پھر ادھر ادھر کشتی تلاش کرنے لگا ۔ ادھر قرض خواہ کو یاد آیا کہ آج قرض کی ادائیگی کی تاریخ ہے اور وہ مقروض دریا سے اس پار گیا ہوا ہے پتہ نہیں آتا ہے یا نہیں ۔ اسی خیال میں وہ دریا کے کنارے پہنچا ، مگر دوسری طرف سے کوئی کشتی آتی دکھائی نہ دی ۔ وہ مایوس ہوگیا وہ واپس آنے ہی والا تھا کہ اسے بہتی ہوئی ایک لکڑی نظر آئی اس نے قریب سے لکڑی کو پکڑ لیا ا کہ گھر میں کسی کام آئے گی ۔ یا ایندھن کے طور پر ہی استعمال کرلیں گے ، گھر پہنچ کر جب اس کو توڑا گیا تو اس میں سے ایک ہزار دینار اور مقروض کا رقعہ ملا وہ شخص اپنا قرض واپس پا کر مطمئن ہوگیا ۔ کئی د ن بعد مقروض شخص کو کشتی میسر ا گئی چناچہ وہ دریا پار کر کے قرض خواہ کے ہاں پہنچا اور اسے ایک ہزار دینار پیش کیے۔ اس کے ساتھ معذرت بھی کی کہ وہ قرض کی رقم مقررہ تاریخ پر نہ لوٹا سکا ، کیونکہ اسے کشتی میسر نہیں آئی تھی ۔ مگر قرض خواہ نے یہ کہہ کر رقم لینے سے انکار کر دیا کہ مجھے رقم واپس مل چکی ہے۔ جب مقروض نے زیادہ اصرار کیا تو قرض خواہ نے کہا کہ تم حلیفہ بیان کر کہ کیا تم نے ایک ہزار دینار لکڑی میں بند کر کے سمندر میں نہیں بہا دیئے تھے ۔ آخر کار اسے تسلیم کرنا پڑا کہ اس نے واقعی تاریخ مقررہ پر ایسا ہی کیا تھا ۔ چناچہ ا ن کے درمیان تصفیہ ہوگیا ۔ یہ واقعہ نبی (علیہ السلام) سے صحیح سند کے ساتھ وارد ہوا ہے ۔ اس قسم کے واقعات اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نمونے ہوتے ہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے یہ واقعہ بیان کر کے مسلمانوں کو یاد دلایا کہ پکے سچے مسلمانوں کا شیوہ ایسا ہی ہونا چاہئے ۔ جیسے ان دو مسلمانوں کا تھا کہ قرض دینے والے نے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا اور لینے والے نے دوبارہ رقم لینے سے انکار کردیا ، مگر آج کے مسلمان کا حال یہ ہے کہ مقررہ تاریخ گزر جاتی ہے۔ قرض خواہ پیچھے پیچھے پھرتا ہے اور مقروض ٹا ل مٹول کرتا چلا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچتی ہے۔ نہ مقروض کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے اور نہ قرض خواہ اسکی مجبوری کو سمجھتا ہے ۔ دونوں خود غرضی کا شکار ہیں ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانی ہمدردی مفقود ہوجاتی ہے جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ مذکورہ مثال سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ جس فریقین نیک نیت ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ان کی مدد فرماتا ہے۔ تحریر مدیون کا حق ہے دستاویز کی اہمیت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح کردیا کہ دستاویز کی تیاری کس کا حق ہے ۔ یعنی کون فریق اس کو لکھوانے کا حق دار ہے۔ فرمایا ولیملل الذی علیہ الحق یعنی تحریر وہ شخص کرائے جس کے اوپر حق ہے اور وہ مدیون یا مقروض ہے۔ اسے چاہئے کہ وہ قرضہ کی شرائط ٹھیک ٹھیک لکھوائے اور اس معاملہ میں کسی قسم کی زیادتی نہ کرے۔ ولیتق اللہ ربہ اور اپنے پروردگار سے ڈر جائے۔ ولا یبخس منہ شیئاً اور تحریر کراتے وقت کسی چیز کی کمی نہ کرے ، بلکہ دستاویز بالکل درست طور پر لکھوائے کہ اتنی رقم یا فلاں چیز قرض پر لی گئی ہے اور یہ فلاں تاریخ کو فلاں جگہ واپس کرنی ہے۔ بعض اوقات لکھاتے وقت بھی ڈنڈی مار جاتے ہیں اور تحریر میں زبانی معاہدے کے بر خلاف لکھوا دیتے ہیں ، ایسا نہیں ہونا چاہئے اور انصاف کی بجائے ظلم قائم ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لکھوانے والا اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ درست طریقے سے دستاویز تیار کروا سکے ایسی صورت کے متعلق فرمایا فان کالذی الذی علیہ الحق سفیہا او ضعیفا اولا یستطیع ان یمل ھو یعنی اگر مقروض جسے دستاویز لکھوانے کا حق ہے ، بےعقل ہے یا ضعیف ہے ۔ یا تحریر کروانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ مقصد یہ کہ اس میں کوئی ایسی فطری کمزوری ہے جسکی بنا پر وہ درست تحریر کروانے سے قاصر ہے۔ ایسا کم عقل ہے کہ معاملے کو سمجھتا نہیں یا بہت کمزور یا بوڑھا ہے کہ حواس درست نہیں یا زبان نہ جاننے کی وجہ سے لکھانے کی استطاعت نہیں رکھتا ، تو فرمایا فلیملل ولیہ بالعدل اس کے ترجمان ، ولی ، سرپرست ، نمائندنہ یا وکیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف کے ساتھ تحریر مکمل کرا دے اور کسی قسم کی رو رعایت نہ کرے ۔ ادھار سے متعلق باقی دو قوانین یعنی گواہی اور رہن کا ذکر آئندہ دروس میں آئیگا۔ ربط آیات ادھار کے معاملے میں متعلق تین قوانین کا ذکر گزشتہ درس میں ہوچکا ہے یعنی دستاویز کی تیاری ، گواہی اور رہن ، ان میں دستاویز یعنی تحریر کے احکام بیان ہوچکے ہیں ۔ آج کے درس میں گواہی سے متعلق احکام ہیں اور اس کے ساتھ تحریر کی دوبارہ تاکید آئی ہے ۔ البتہ تیسرے اصول یعنی رہن کا ذکر اگلی آیت کریمہ میں آئے گا ۔ گواہی کی شرائط آپس میں لین دین کرتے وقت یا کوئی دیگر معاملہ طے کرتے وقت فرمایا استشھد وامشھیدین م رجالکم اپنے میں سے دو گواہ مقرر کرلو ۔ واہی کی ضرورت مختلف معاملات میں پڑتی ہیں ، مثلاً مقدمات میں سے فوجداری مقدمہ اور دیوانی مقدمہ میں گواہی کے معیار مختلف ہیں ، اسی طرح دینی معاملات اور دنیوی معاملات میں گواہی کی شرائط مختلف ہیں ، تو جس قسم کا معاملہ در پیش ہوگا ۔ اس کے مطابق گواہی کی شرائط عائد ہونگی ۔ عام معاملات میں اس آیت کی رو سے کم از کم دو گواہ ہونے چاہئیں ، مگر حدیث نبوی کی روایت کے متعلق ایک ثقہ دمی کی شہادت بھی کافی ہے۔ عام معاملات میں آزاد مرد کی گواہی قابل قبول ہوتی ہے ۔ غلام کی گواہی معتبر نہیں ہوتی ۔ روایت کے مسئلہ میں اگر استاد اور شاگرد ایک مجلس میں موجود ہوں تو شاگرد کی روایت مقبول ہے ، مگر دنیوی معاملات میں شہادت علی الشہادت کا اصول تسلیم کیا جاتا ہے۔ جب اصل موجود ہو تو فرع کی گواہی معتبر نہیں سمجھی جاتی ، یعنی اصل کی موجودگی میں فرع گواہی نہیں دے سکتا ۔ اس آیت کریمہ میں جس گواہی کا ذکر ہے ، وہ عام معاملات سے متعلق ہے ان میں سے فوجداری مقدمات میں سے حدود و قصاص کے مقدمات میں صرف مردوں کی گواہی قابل قبول ہے ، عورتوں کی شہادت قبول نہیں کی جاتی ۔ زنا کے مقدمہ میں سورة نور میں باربعۃ شھداء کا ذکر ہے۔ یعنی چار مرد عینی گواہ ہونے چاہئیں ۔ وہاں پر عورتوں کی شہادت قابل قبول نہیں ہے ۔ عام طور پر نا بالغ بچے کی گواہی تسلیم نہیں کی جاتی ، مگر امام مالک (رح) بعض شرائط کے ساتھ بچے کی گواہی بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ دیگر ائمہ کا موقف یہ ہے کہ گواہی کے سلسلے میں رجال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے مراد بالغ مرد ہے ، نہ کہ نابالغ بچہ ، اسی طرح مسلمان کی گواہی معتبر ہے۔ مگر کافر کی گواہی قابل قبول نہیں ۔ جب کہ وہ مسلمان پر ہو ، ہاں کافروں کی گواہی ایک دوسرے کے خلاف درست ہے۔ علاوہ ازیں گواہ کا عادل ہونا بھی شرط ہے۔ فاسق کی گواہی معتبر نہیں ، جو شخص شرعی حدود کی علی الاعلان خلاف ورزی کرتا ہے۔ وہ فاسق ہے اور ایسے شخص کی گواہی بھی قبول نہیں ۔ پھر گواہ کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ جس معاملے کے متعلق گواہی دے رہا ہے ، اس معاملے کا اسے علم ہو ، اگر اسے علم ہی نہیں ، تو پھر اس کی گواہی چہ معنی دارد وہ تو جھوٹا گواہ کہلائے گا۔ شہادت میں گواہ کا ذاتی مفاد نہیں ہونا چاہئے اگر اسے کوئی ذاتی فائدہ پہنچ رہا ہے تو ایسی گواہی مرد و د ہوگی ۔ یا اگر گواہ اس لیے گواہی دے رہا ہے کہ وہ خود کسی نقصان سے بچ جائیگاتو ایسی شہادت بھی مقبول نہ ہوگی ۔ اسی طرح گواہ لالچی اور بےمروت نہیں ہونا چاہئے جسکے خلاف گواہی دے رہا ہے اسکے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہونی چاہئے ورنہ گواہی باطل ہو جائیگی فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جہاں اتمام کا اطلاع ہوتا ہو وہاں بھی گواہی قبول نہیں کی جائیگی مثلاً باپ بیٹے کے بارے میں گواہی دے تو نا منظور ہوگی یا غلام نوکر وغیرہ اپنے مالک کے حق میں گواہی نہیں دے سکتا ، کیونکہ وہ محکوم ہے اور لازما ً اپنے حاکم کے حق میں جائیگا ۔ عورتوں کی گواہی فرمایا معتبر گواہی یہ ہے کہ تم میں سے دو مرد گواہی دیں فان لم یکونا رجلین اور اگر دو مرد گواہ میسر نہ ہوں ۔ فرجل وامراتن تو ایک مرد اور دو عورتیں کافی ہیں یعنی دو عورتوں کو ایک مرد کے برابر دیا اور یہ گواہ ایسے ہوں ممکن ترضعون من الھداء جو تمہیں پسند ہوں ۔ ظاہر ہے کہ پسند وہی ہونگے ، جو نیک اور عادل ہوں گے ، جن سے ٹھیک ٹھیک گواہی کی امید رکھی جاسکتی ہے کیونکہ غیر ثقہ اور جھوٹے آدمی سے درست گواہی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ فرمایا ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کو اکٹھارکھنے میں حکمت یہ ہے۔ ان تضل احدھما ۔۔۔ اگر ان میں سے ایک بھول جائے ، فتذکراحدھما الاخری تو دوسری اسکو یاد دلائے کیونکہ عورتیں عام طور پر مردوں کے مقابلے میں کمزور ہوتی ہیں ، ان کے دماغ میں رطوبت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان سے نسیان زیادہ واقع ہوتا ہے اور وہ بھول جاتی ہیں یہ ایک انسانی فطرت ہے وگرنہ بعض عورتیں بڑی ذہین ہوتی ہیں ۔ بعض اوقات ایک لڑکی امتحان میں لڑکے سے زیادہ نمبر حاصل کرلیتی ہے۔ بعض عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص صلاحیت بخشی ہوتی ہے ۔ جس کی وجہ سے وہ بعض اوقات مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ذہین ثابت ہوتی ہیں ۔ تا ہم عام فطرت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے یہ قانون عطا کیا کہ چونکہ عورت کا مزاج اعصابی ہوتی ہے اکثر بھول جاتی ہیں ۔ اللہ نے دماغی کیفیت ہی ایسی بنائی ہے ، لہٰذا ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی مقبول ہوگی ۔ حضور ﷺ نے ایک دفعہ خطبہ کے دوران فرمایا کہ عورتیں نا قصات العقل والدین ہیں ۔ ایک عورت نے عرض کیا کہ ہم ناقص العقل کیوں ہیں ، ہم میں کیا کمزوری پائی جاتی ہیں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اللہ نے دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر نہیں رکھتی تو اس نے عرض کیا ، ہاں حضور ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا یہ عقل کی کمی کی وجہ سے ہے۔ عورت میں نسیان یعنی بھول کا مادہ زیادہ ہوتا ہے ، پھر فرمایا کہ عورتوں میں دین کا نقصان یہ ہے کہ وہ ہر مادہ ہر ماہ کئی کئی روز تک نماز نہیں پڑھ سکتیں ، روزہ نہیں رکھ سکتیں ، یہ دین کا نقصان ہے ، اگرچہ گناہ نہیں ہے ، یہ ان کی مجبوری ہے مگر نقصان تو بہرحال ہے۔ شہادت اور قسم یہ شہادت کا قانون ضروری ہے ، کیونکہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کسی مقدمہ کا فیصلہ دو طریقہ سے ہو سکتا ہے ، یا تو فریقین گواہ پیش کریں گے یا فیصلہ قسم پر ہوگا ۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے۔ قضی بیمی وشاھد یعنی حضور ﷺ نے یا تو گواہوں پر فیصلہ فرمایا یا قسم پر ، یعنی اگر گواہ موجود نہیں ہیں ، تو پھر فیصلہ قسم کے ذریعے ہوگا ۔ امام شافعی (رح) تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ معاملات میں چونکہ دو گواہ ضروری ہیں اور اگر دو کی بجائے صرف ایک ہی گواہ میسر ہو ، تو دوسرے گواہ کی کمی قسم اٹھانے سے پوری ہوگی ۔ وگرنہ فیصلہ درست نہ ہوگا ۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور دیگر ائمہ کرام فرماتے ہیں ۔ البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر یعنی گواہ پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے اور قسم اٹھانا مدعا علیہ کے ذمہ ہے ۔ بہر حال حضور نے بعض اوقات گواہوں پر فیصلہ کیا اور بعض اوقات قسم پر یعنی اگر موقع کا کوئی گواہ موجود نہیں ہے تو مدعاعلیہ کی بریت کے متعلق اس سے قسم اٹھوائی کہ وہ بےگناہ ہے۔ گواہ کی ذمہ دار ی گواہوں کی حاضری کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ولایاب الشھداء اذا ما دعوا اور جب گاہوں کو طلب کیا جائے تو وہ گواہی کے لیے آنے سے انکار نہ کریں ۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے ، کوئی معاملہ الجھ گیا ہے ، وہ موقع کے گواہ ہیں تو انصاف کا تقاضا ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک شہادت دیکر معاملہ کا تصفیہ کرا دیں ۔ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے تا ہم فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ گواہ کا گواہی دینا استحباب کے درجے میں ہے ، اسے گواہی کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا ، ہاں اگر معاملہ اس ہج کا ہے کہ کوئی اور گواہ نہیں ہے۔ صرف یہی ایک گواہ ہے ، جو شہادت دینے پر آمادہ ہیں تو ایسی صورت میں اس پر واجب ہوجاتا ہے کہ وہ گواہی کے لیے حاضر ہو ، وہاں انکار کی کوئی گنجائش نہیں ایسے ہی معاملہ سے متعلق فرمایا کہ جب گواہوں کو شہادت کے لیے طلب کیا جاوے تو وہ انکار نہ کریں۔ جھوٹی گواہی حضور ﷺ نے جھوٹی گواہی ( شہادت زور) کو شرک کے برابر قرار دیا ہے خود اللہ تعالیٰ نے سورة فرقان میں عباد الرحمن کی صفات بیان فرمائی ہیں ، ان میں یہ بھی ہے ۔ والذین لا یشھدون الزور کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے ، جھوٹی گواہی دینا سخت گناہ کی بات ہے ، اس کی وجہ سے ہی جھوٹ کا سچ اور سچ کا جھوٹ بن جاتا ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ انگریز کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق شہادت خود بائی جاتی ہے۔ اس معاملہ میں گواہ آزاد نہیں ہوتا کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق شہادت دے بلکہ وکیل حضرات اور خود پولیس والے گواہ کو سکھاتے پڑھاتے ہیں کہ اس طرح کہنا ہے اور اس طرح نہیں کہنا یہ چیز دیانتداری کے خلاف ہے ، اللہ تعالیٰ کا حکم تو یہ ہے اقیموالشھادۃ للہ اللہ کے لیے بغیر کسی رو رعایت کے گواہی دو کسی امیر غریب ، چھوٹے بڑے ، اعلیٰ ادنیٰ کا لحاظ نہ کرو بلکہ صحیح صحیح واقعہ بیان کرو نہ کسی فریق سے ناجائز امید رکھو اور نہ کسی کے شر کا خوف دل میں لائو بلکہ گواہی کو محض اللہ کے لیے قائم کرو ، اگر یہ چیز پیدا نہ ہوگی ، تو دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکے گا ، لوگ ذلیل و خوار ہی ہوتے رہیں گے ، لہٰذا گواہی کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس کے بغیر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے۔ تحریر کب ضروری ہے آیت کے اگلے حصے میں اللہ تعالیٰ نے تحریر کی دوبارہ تاکید فرمائی ہے۔ فرمایا ولا تسموا ن تکتبوہ صغیرا ً او کبیراً الی اجلہ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا معمولی نوعیت کا ہو یا اہم اسے لکھنے میں دلگیر نہ ہو یعنی تحریر میں تساہل نہیں کرنا چاہئے ، بلکہ اسے مدت مقررہ تک لکھ لینا چاہئے۔ مستدرک امام حاکم (رح) کی روایت ہے جسے امام ابن کثیر (رح) نے بھی بیان فرمایا ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین قسم کے آدمیوں کی دعا قبول نہیں ہوتی ، پہلا شخص وہ ہے جو خود مومن اور عادل ہے ، مگر اس کی بیوی بد کردار ، بد اخلاق اور فاسق ہے وہ سمجھانے سے بھی نہیں سمجھتی ۔ اگر ایسا شخص بری عورت کو طلاق دے کر جدا نہیں کرتا ، تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ، کیونکہ وہ بےغیرتی کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ دوسرا شخص وہ ہے جو کسی یتیم کا سرپرست ہے مگر یتیم کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس کا مال اس کے حوالے کردیتا ہے اور بچہ مال کو ضائع کردیتا ہے۔ ایسے شخص کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی ، فرمایا تیسرا شخص وہ ہے جو کسی کو قرض دیتا ہے مگر اسے لکھتا نہیں ، یہ شخص بھی اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے لہٰذا اس کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی ۔ فرمایا تحریر کرلینا ذلکم اقسط عند اللہ اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ انصاف والی بات ہے ۔ واقوم للشھادۃ اور گواہی کو زیادہ درست رکھنے والی چیز ہے۔ وادنی الا ترتابوا اور زیادہ قریب ہے کہ تم شک و شبہ میں نہ پڑو ۔ یہ سب تحریر کے فوائد میں سے ہیں ، ہاں ایک صورت میں عدم تحریر کی گنجائش ہے الا ان تکون تجارۃ حاضرۃ تدیر و لھا بینکم کہ دست بدست تجارت ہو جسے تم اپنے درمیان گردش دیتے ہو ۔ یعنی معاملہ ایسا ہو کہ ادھر چیز لی اور ادھر رقم ادا کردی یعنی سودا بالکل نقد ہے ، اس میں ادھار کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ فلیس علیکم جناح الا تکتبوھا تو پھر نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔ تحریرکا مقصد تو یہ ہے کہ مقررہ مدت پر جب لی دی ہو ، تو کوئی جھگڑا نہ کھڑا ہوجائے ، مگر جب ادھار کا معاملہ ہی ہیں ہے اور تعیین مدت کا سوال ہی نہیں تو پھر تنازعہ پیدا ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے ، لہٰذا نقد معاملے میں تحریر کی ضرورت نہیں ہے ہاں اگر ایسی صورت میں بھی کوئی لکھنا چاہے۔ تو احسن ہے ، اگر آئندہ زمانے میں معاملے کی نوعیت معلوم کرنا چاہو ، تو تحریر کے ذریعے ٹھیک ٹھیک معلومات حاصل ہو سکیں گی ۔ تا ہم ایک عام اصول یہ بتایا کہ لین دی کے معاملہ میں واشھد وا اذا تبایعتم سودا کرتے وقت گواہ ضرور بنا لو ، اگر اس کی تحریر نہیں کرتے تو کوئی حرج نہیں ، مگر گواہ ضرور با لو کہ لین دین کا معاملہ ہے کسی وقت بھی کوئی تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے جس سے عہد برا ہونے کے لیے گواہی ضروری ہے۔ کاتب اور گواہ کا تحفظ اللہ تعالیٰ نے جہاں کتابت اور گواہ کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔ وہاں کاتب اور گواہ کا تحفظ بھی فرمایا ہے تنازعہ کی صورت میں بعض اوقات فریقین کے ساتھ کاتب اور گواہ کو بھی مشکلات پیش آتی ہیں ، جن کی وجہ سے انہیں نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ آج کے زمانے میں کوئی شخص گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا ۔ وہ جانتا ہے کہ اسے کتنی دفعہ عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا اور اس کا کتنا وقت ضائع ہوگا اور پھر جس کے خلاف گواہی دیگا وہ اس کا دشمن بن جائے گا اور اسے نقصان پہنچائے گا گواہی سے بازرکھنے کے لیے کتنے گواہوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے اور بعض اوقات قتل کردیا جاتا ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے معاملے کے فریقین کو نصیحت فرمائی ہے ولا یضار کاتب ولا شھید اور نہ نقصان پہنچایا جائے لکھنے والے کو اور نہ گواہ کو ، اگر ان اصحاب کو اور کوئی تکلیف نہ ہو تو کم از کم ان کے وقت کی قدر اور ان کی سواری کا انتظام تو ہونا چاہئے تا کہ کسی دوسرے شخص کی گواہی کے لیے انہیں ذاتی طور پر نقصان تو نہ ہو اسی لیے فرمایا کہ کاتب اور گواہ کو تکلیف نہ دو ، اسے نقصان نہ پہنچائو۔ فرمایا وان تفعلوا اگر تم ایسا کرو گے ، ان شریف آدمیوں کو نقصان پہنچائو گے ، ان کا تحفظ نہیں کرو گے ۔ فانہ فسوق بکم یہ فسق ہوگا ، خدا کی اطاعت سے باہر نکلنے کے مترادف ہوگا ، لہٰذا جہاں اپنے حقوق کا تحفظ چاہتے ہو ، وہاں کاتب اور گواہ کی جان و مال کے بھی محافظ بنو اور انہیں نا جائزتکلیف نہ پہنچائو۔ خوف خدا فرمایا واتقوا اللہ اللہ سے ڈر جائو ، اس کے احکام کی خلاف ورزی نہ کرنا معاملہ لین دین کا ہو یا نکاح طلاق کا ، ہر حالت میں خدا کو دل سے نہ نکالنا ، دنیا کے معاملات کے متعلق ہیرا پھیری کر کے دھوکا اور فریب دیکر معاملے کو رفع دفع کرلینے سے بظاہر مسئلہ ختم ہوجاتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ یاد کرا رہے ہیں کہ یہ معاملہ ایک دن اللہ کی عدالت میں بھی پیش ہونا ہے۔ یہاں تو تم چالاکی کر کے مواخذہ سے بچ جائو گے ، مگر اس سب سے بڑی عدالت کے سامنے کوئی چال کام نہیں آئیگی وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر رہے گا ، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے ڈر جائو جس کی عدالت میں بالآخر تمہیں پیش ہونا ہے۔ فرمایا ویعلمکم اللہ اللہ تمہیں ایسی ہی نیکی اور اچھائی کی باتیں سکھاتا ہے۔ دیوانی اور فوجداری مقدمات کے معاملات اور ا ن کے متعلق احکام تمہیں اللہ تعالیٰ سکھاتا ہے۔ ان پر عمل کرو گے تو اس دنیا میں بھی چین کی زندگی بسر کرو گے اور آخرت میں بھی اسکی گرفت سے بچ جائو گے اور یاد رکھو واللہ بکل شی علیم اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاتا ہے یہ نہ سمجھنا کہ وہ تمہارے حال سے ناواقف ہے بلکہ وہ تمہاری نیتوں سے بھی واقف ہے ، لہٰذا تم اس کی گرفت سے نکل نہیں سکتے اپنے اعمال کو ہمیشہ درست رکھو گے ، تو فلاح پائو گے۔ قرآن پاک کی یہ سب سے لمبی آیت ہے اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیسوں مسائل بیان فرمائے ہیں ، تا ہم لین دین کے معاملے میں دو قوانین یعنی تحریر اور گواہ کا بیان آ چکا ہے ، اب اگلی آیت میں تیسرے اہم قانون رہن کا تذکر ہ ہوگا ۔
Top