Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ : اور جب قَالَ : کہا رَبُّکَ : تمہارے رب نے لِلْمَلَائِکَةِ : فرشتوں سے اِنِّیْ : میں جَاعِلٌ : بنانے والا ہوں فِي الْاَرْضِ : زمین میں خَلِیْفَةً : ایک نائب قَالُوْا : انہوں نے کہا اَتَجْعَلُ : کیا آپ بنائیں گے فِیْهَا : اس میں مَنْ يُفْسِدُ : جو فساد کرے گا فِیْهَا : اس میں وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ : اور بہائے گا خون وَنَحْنُ : اور ہم نُسَبِّحُ : بےعیب کہتے ہیں بِحَمْدِکَ : آپ کی تعریف کے ساتھ وَنُقَدِّسُ : اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں لَکَ : آپ کی قَالَ : اس نے کہا اِنِّیْ : بیشک میں اَعْلَمُ : جانتا ہوں مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
اور اس وقت کو خیال میں لاؤ جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا۔ تحقیق میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا زمین میں (ایسوں) کو بنائے گا جو اس میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے اور ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ تیری تعریف کے ساتھ اور تیری تنزیہہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
گزشتہ سے پیوستہ : اس سے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے چار بنیادی مسائل یعنی توحید ، رسالت ، ایمان بالقرآن اور معاد (قیامت) کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کے بعد قرآن و رسالت میں شک کرنے والے لوگوں کا رد فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفات کمال کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان بیشمار انعامات کا بھی تذکرہ فرمایا۔ جو اس نے بنی نوع انسان پر کئے۔ ان میں خصوصاً مادی انعامات کا بیان تھا ۔ جس میں انسان کا اپنا وجود ، زمین و آسمان کی تخلیق ، زمین میں پیدا ہونے والی تمام چیزیں شامل ہیں۔ بالخصوص زمین سے نکلنے والے پانی کا ذکر تھا۔ جس سے انسان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی سے نباتات پیدا ہوتے ہیں جو انسان کی روزی کا ذریعہ ہے ۔ موضوع : مادی انعامات کے تذکرہ کے بعد اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے ان روحانی اور نفسانی نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے انسان کو عطا فرمائیں۔ چناچہ اس مقام پر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور خلافت ارضی کو بیان فرمایا گیا۔ تخلیق آدم ایک بنیادی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت آدم (علیہ السلام) کو عطاء کی اور پھر یہ خلافت بنی نوع انسان میں ودیعت کرکے خلافت ارضی کے مسئلہ کو واضح کردیا۔ گویا اس رکوع کا موضوع خلافت ارضی ہے۔ ہر جنتی بادشاہ ہوگا : قرآن پاک کی آیات مبارکہ اور احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی کے بعد حشر و نشر کی منازل طے کرکے جنت میں پہنچیں گے۔ ان میں سے ہر شخص بادشاہ ہوگا۔ اس دنیا میں تو بادشاہی کروڑوں میں سے ایک کو نصیب ہوتی ہے۔ مگر جنت کے ہر باشندے کا اعزاز دنیا کے بادشاہ سے کہیں زیادہ ہوگا۔ ہر جنتی کو آرام و راحت کے ایسے ایسے سامان میسر ہوں گے۔ جو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی حاصل نہیں ہوسکتے ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں جنت میں ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ بھی حاصل ہوجائے۔ تخلیق انسانی سے قبل کے ادوار : اس رکوع میں تخلیق آدم کا ذکر ہے ، مگر پہلے کے ادوار کو ہم نہیں جانتے۔ کسی کو خواب میں بھی معلوم نہیں ہوا۔ کہ آدم (علیہ السلام) سے پہلے کتنے دور گزر چکے ہیں۔ شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنی کتاب “ تضیمات الٰہیہ ” میں بیان کیا ہے۔ اور شاہ اسماعیل شہید نے بھی اپنی کتاب “ عبقات ” میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ کہ کسی حکیم انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ صرف آدم (علیہ السلام) کے دور ہی کو ابتداء سے انتہاء تک سمجھ لے۔ چہ جائیکہ کوئی شخص اس دور سے پہلے کے ادوار کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ حضرت مجدد الف ثانی (رح) ، شاہ عبد العزیز (رح) ، شاہ اسماعیل شہید (رح) اور ان کے جدا امجد خود شاہ ولی اللہ (رح) اس امت کے آخری دور کے حکماء میں سے ہیں۔ البتہ ان سے پہلے بڑے بڑے حکماء گزرے ہیں جنہوں نے قرآن پاک کی تفاسیر اور تاریخ کی کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں امام ابن کثیر (رح) بڑے پائے کے محدث ، مفسر اور تاریخ دان ہوئے ہیں۔ آپ امام ابن تیمیہ (رح) کے شاگرد تھے آپ کا زمانہ آٹھویں صدی ہجری ہے۔ آپ کی تفسیر کی مشہور کتاب ابن کثیر ہے آپ نے بخاری شریف کی شرح اور اصول حدیث پر بھی کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کی تاریخ کی کتاب البدایہ والنہایہ نہایت مستند کتاب ہے۔ جو چودہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس میں انہوں نے ابتداء سے لے کر اپنے دور تک تمام زمانوں کی تاریخ لکھی ہے۔ یہ کتاب آپ نے روایت کے اعتبار سے ترتیب دی ہے۔ صحیح اور غلچ روایت کی پڑتال ہے۔ اگرچہ ابن خلدون (رح) اور ابن جریر (رح) جیسے بڑے بڑے مؤرخوں نے تاریخ کی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ سینکڑوں اور ہزاروں تاریخ کی کتب موجود ہیں۔ مگر ان سب سے مستند ترین کتاب امام ابن کثیر (رح) کی ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد میں امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ البدایہ والنہایہ ج 1 ص 55) کہ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے پہلے اس زمین پر کئی دور گزر چکے ہیں۔ مثلاً ایک قوم یا افراد کو حن کہتے تھے۔ اس کے بعد بن کا دور گزرا۔ اور پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل اس دنیا میں جنات کا دور دورہ تھا۔ انہوں نے زمین میں فساد برپا کیے۔ جس طرح آج کل کی دنیا میں قتل و غارت گری ایک عام معمول ہے اس طرح اس دور کے جنات میں بھی جنگ و جدل عام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جنات کی سرکوبی کے لیے فرشتوں کو بھیجا ۔ چناچہ انہوں نے جنات کو مار مار کر پہاڑوں اور جزیروں میں بھگا دیا اور اس زمین کو صاف کیا۔ اس واقعہ کے دو ہزار سال بعد آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی۔ جنات کا ذکر تو قرآن پاک میں بیشتر مقامات پر آیا ہے ۔ تاہم حن اور بن کے ادوار کا علم تاریخی روایات سے ہوتا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ موجودہ دور سے پہلے کتنے دور گزر چکے ہیں۔ حکماء نے اپنی اپنی تحقیق کے مطابق اپنی کتابوں میں ان ادوار کا تذکرہ کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ فرشتوں کا مادو تخلیق : اللہ تعالیٰ نے انسانوں ، فرشتوں ، جنات اور شیاطین کو مختلف مادوں سے پیدا فرمایا۔ پھر ان مادوں کے عناصر بھی مختلف ہیں۔ فرشتے ایک خاص نوری مادے سے پیدا کئے گئے ہیں۔ پھر ان فرشتوں کے مختلف درجات ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں (1 ۔۔۔۔۔ ) ۔ کہ فرشتوں میں سے اعلیٰ درجہ ملا اعلیٰ کا ہے۔ یہ حاملین عرش فرشتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر حافین حول العرش والے فرشتے ہیں۔ یہ سب خطیرۃ القدس کے فرشتے ہیں پھر آسمانوں کے فرشتے پھر فضائی فرشتے۔ اس کے بعد ارضی فرشتے ہیں تو زمین پر موجود رہتے ہیں۔ (یہ ملاسافل کے فرشتے ہیں) ۔ حجۃ اللہ البالغۃ میں شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ حجۃ اللہ البالغہ ج 1 ص 16) کہ اول درجے کے فرشتوں کا مادہ تخلیق اس آگ کی مانند ہے جو دوران سفر طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ظاہر ہوئی۔ آپ اپنی زوجہ کے ہمراہ جا رہے تھے۔ بھیڑ بکریاں ستاھ تھیں۔ رات کا اندھیرا تھا بیوی حاملہ تھی۔ ان کو دردزہ شروع ہوگیا موسیٰ (علیہ السلام) کو دور سے آگ نظر آئی۔ آپ اس طرف گئے۔ تو وہ آگ ایک درخت سے نکل رہی تھی ۔ جو درخت کے پتوں کو جلانے کی بجائے انہیں سرسبز و شاداب کر رہی تھی۔ آگ جس قدر بھڑکتی تھی درخت کی شاخوں اور پتوں میں شادابی آتی تھی۔ یہ واقعہ کس قدر قرآن پاک میں موجود ہے۔ بعض تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آگ نہیں تھی بلکہ حجابِ نوری یا ناری تھا۔ الغرض ! فرشتوں کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے مادے سے کی۔ پھر اس میں مقدس روحیں ڈالیں جس طرح انسانوں اور جنوں میں روحیں موجود ہیں۔ اسی طرح فرشتوں میں بھی روحیں ہیں۔ جنات اور شیاطین : جنات کے مادہ تخلیق کے متعلق قرآن پاک میں موجود ہے : “ والجان خلقنہ من قبل من نار ” یعنی جنات کا مادہ تخلیق آگ اور ہوا ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ حجۃ الہ البالغۃ ج 1 ص 17) کہ شیاطین کا مادہ تخلیق نہایت گندا اور غلیظ ہوتا ہے بالکل سنڈاس کی مانند کہ جب وہ زیادہ مقدار میں ہوتا ہے تو اس سے بخار اور بو اٹھتی ہے۔ تو گویا جنات اور شیاطین کا مادہ آگ اور ہوا ہے۔ اس میں گیس ہوتی ہے۔ اور تیش کا مادہ بھی ہوتا ہے۔ انسان کا مادہ تخلیق : انسان کا مادہ تخلیق خاک ہے۔ دنیا میں جتنے بھی خارجی عناصر پائے جاتے ہیں وہ سب آدم کے وجود میں موجود ہیں تخلیق انسانی کے متعلق قرآن پاک میں آتا ہے “ خلق الانسان من صلصال ” انسان کو کھڑکنے والی مٹی سے پیدا کیا۔ دوسرے مقامات پر تراب اور طین کا لفظ بھی آتا ہے۔ الغرض انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی۔ اور یہ تخلیق باقی تخلیقات کی نسبت پیچیدہ ہے۔ اس میں تمام عناصر پائے جاتے ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) : اس مقام پر تخلیق انسانی کے متعلق ارشاد ہوتا ہے “ واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ ” یعنی اس بات پر غور کرو کہ جب تیرے پروردگار نے فرشتوں کے سامنے فرمایا۔ کہ تحقیق میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں گویا آدم کی تخلیق اس واسطے ہوئی کہ اسے دنیا میں خلیفہ مقرر کیا جانا ہے۔ لہٰذا آدم کی تخلیق مستقل تخلیق نہیں بلکہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہاں خلافت کا ایک اہم ترین مسئلہ بھی سمجھا دیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا۔ “ یداود انا جعلنک خلیفۃ فی الارض ” یعنی اے داؤد ! ہم نے آپکو دنیا میں خلیفہ بنایا ہے۔ قرآن پاک میں خلیفہ دو معانی میں آتا ہے۔ پہلا معنی وہی ہے جو آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا کہ میں آپ کو اپنا خلیفہ یعنی نائب بنانے والا ہوں۔ “ خلف یخلف ” دوسرے کے پیچھے آنے والے یعنی نیابت کرنے والے کو کہتے ہیں۔ قرآن پاک میں یہ بھی آتا ہے “ ھو الذی جعلکم خلیف فی الارض ” یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذات ہے۔ جس نے تمہیں ایک دوسرے کا جانشین یا خلیفہ بنایا۔ جس طرح بیٹا اپنے باپ کا جانشین ہوتا ہے۔ خلیفہ کا دوسرا معنی جو اس مقام پر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ یعنی نیابت انجام دینے والا پیدا کیا انسان کے علاوہ باقی بیشمار مخلوقات بھی اس زمین پر پیدا کی گئی ہیں۔ مگر خلافت کا حق اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت انسان کو دیا ہے۔ اور اس سے بھی مراد یہ ہے کہ زمین اور ساری کائنات کی اصل بادشاہت تو اللہ تعالیٰ کی ہے۔ آدم (علیہ السلام) کو صرف نبابت تفویض ہوئی ہے گویا انسان دنیا میں خلافت اپنی مرضی سے انجام نہیں دے گا۔ بلکہ حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہوگا اور انسان اس حکم کو نافذ کرنے کا ذمہ دار ہوگا ۔ سورة نور میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے جس خلافت کا وعدہ فرمایا اور جس کو پورا فرمایا وہ یہی خلافت ہے “ وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت یستخلفنھم فی الارض ”۔ مسئلہ خلافت : معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ نظام ، نظام خلافت ہے۔ دین میں ملوکیت اور ڈکٹیٹر شپ کی کوئی حیثیت نہیں۔ انسان تو اس زمین پر اللہ تعالیٰ کا نظام نافذ کرنے والا ادارہ ہے۔ اس کی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہے۔ کہ جس قسم کے احکام چاہے نافذ کرے بلکہ اسے احکام اللہ تعالیٰ سے ہی حاصل کرنا ہوں گے۔ مسلمانوں کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ خلیفہ ہونا چاہئے۔ صرف ایک خارجی فرقہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ حکومت صرف اللہ ہی کی ہے۔ کوئی اس کا خلیفہ نہیں ہے۔ یہ انار کسٹ لوگ ہیں۔ جو خلافت کو تسلیم نہیں کرئے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق ہی بطور خلیفہ کے کی ہے۔ اس معاملہ میں شیعہ مذہب بھی باطل ہے۔ کہ اس کے پیرو کار خلیفہ یا حاکم (امام) کو معصوم اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر شدہ مانتے ہیں۔ یہ نظریہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ خلیفہ کو منتخب کرنے والے عام لوگ ہیں اور وہی اسے معزول بھی کرسکتے ہیں۔ اس مسئلہ میں اہل السنت والجماعت کا نظریہ بالکل واضح ہے۔ کہ خلیفہ کا انتخاب واجب ہے اس کو منصوص اور مقرر نہیں کیا گیا۔ بلکہ جماعت المسلمین پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ اپنے میں سے بہتر شخص کو اس منصب پر فائز کرلیں۔ خلیفہ کے بغیر نظام ارضی کا چلانا درست نہیں ہے صحابہ کرام ؓ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ چناچہ حضور ﷺ کی وفات پر مسئلہ خلافت آپ کے دفن سے پہلے طے کرلیا گیا۔ ترمذی شریف کی روایت میں (1 ۔ شمائل ترمذی ص 601) آتا ہے۔ کہ اگر مسئلہ خلافت طے نہ کیا جاتا تو امت کے اختلافات کا ختم ہونا ممکن نہ تھا۔ حضور ﷺ کے دفن کے متعلق اختلاف رائے پیدا ہوا۔ کسی کی رائے یہ تھی کہ آپ کا جسد اطہر بیت المقدس لے جایا جائے۔ کوئی مکہ معظمہ لے جانے کے حق میں تھا۔ تو اس کا فیصلہ بھی حضور ﷺ کے جانشین حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کیا۔ انہوں نے کہا (2 ۔ شمائل مع ترمذی ص 600 ، مطیع نور محمد کراچی) کہ اس معاملہ میں جھگڑا نہ کرو۔ میں نے خود آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے سنا تھا۔ کہ جس جگہ پر آپ کا وصال مبارک ہوا۔ اسی جگہ پر آپ کو دفن کیا جائے گا۔ اس طرح یہ اہم معاملہ طے ہوگیا۔ تاہم یہ واضح ہے کہ قرآن پاک یا حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے کسی کا نام لے کر خلافت کا فیصلہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ کام جماعت المسلمین پر چھوڑا کہ جس کو مناسب سمجھیں ، خلیفہ مقرر کرلیں۔ البتہ نبی (علیہ السلام) نے اشارتاً یہ بات سمجھا (3 ۔ مسلم ج 2 ص 273) دی “ یابی اللہ والمؤمنون الا ابابکر ” یعنی میرے بعد اللہ تعالیٰ بھی انکار کرے گا اور مومن بھی انکار کریں گے کہ خلیفہ ابوبکر ؓ کے سوا کوئی نہیں ہونا چاہئے۔ انتخاب خلیفہ کا ایک طریقہ تو یہ ہوگیا کہ عامۃ المسلمین جس کو چاہیں اپنے میں سے خلیفہ منتخب کرلیں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا انتخاب ہوا۔ اس کے علاوہ بعض دوسرے ذرائع بھی ہیں۔ جو امت میں ملتے ہیں۔ مثلاً حضر ت ابوبکر ؓ نے آخری ایام میں حضرت عمر ؓ کا انتخاب بطور خلیفہ خود کردیا تھا (4 ۔ البدایہ والنہایہ ج 7 ص 18) آپ نے ایک خط لکھ دیا تھا کہ لوگوں کے سامنے پڑھ دینا۔ یہ گویا خلافت کا پروانہ تھا۔ حضرت عمر ؓ امت میں بہترین آدمی تھے۔ ان کا انتخاب اس طرح عمل میں آیا۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے بعد خلافت کا فیصلہ کرنے کے لیے چھ آدمیوں کی شوریٰ قائم کی اور فرمایا (1 ۔ البدایہ النہایہ ج 7 ص 144) کہ میرے بعد خلافت کا فیصلہ یہ لوگ کریں گے۔ یہ چھ آدمی وہ تھے کہ حضور ﷺ دنیا سے رخصت ہوتے وقت ان سے بڑے راضی تھے۔ چناچہ ان حضرات نے حضرت عثمان غنی ؓ کو خلیفہ منتخب کیا۔ خلافت پر فائز ہونے کی ایک چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص خود بخود غلبہ پا کر حکومت حاصل کرے۔ کہتے ہیں کہ ایسا شخص بھی قابل اطاعت ہے ہاں اگر وہ شریعت کے احکام جاری کرنے میں کوتاہی کرے۔ تو اسکی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اسکے احکام نافذ کرنے کے لیے خلیفہ بنایا۔ اور پھر یہ خلافت آپ کی نسل میں باقی رکھی۔ کہ خلافت کا حق بنی نوع انسان کو حاصل ہے۔ یہ حق کسی اور مخلوق کو نہیں پہنچتا۔ الغرض ! جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنا نائب مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا۔ تو “ قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدمآء ” یعنی فرشتوں نے کہا اے مولا کریم تو دنیا میں ایسی ہستی کو اپنا خلیفہ مقرر کرنا چاہتا ہے۔ جو زمین میں فساد کریں گے۔ اور خون بہائیں گے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فرشتوں کا یہ جواب کئی وجاہات کی بناء پر ہوسکتا ہے۔ اولاً یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ بات انہیں الہام کی ہو۔ جس کی بناء پر انہوں نے یہ رائے دی۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے جنات کے حالات پر قیاس کیا۔ وہ دیکھ چکے تھے۔ کہ جنات نے زمین پر فتنہ و فساد برپا کیا۔ لہٰذا انہوں نے گمان کیا۔ کہ آدم کی اولاد بھی ایسا ہی کرے گی۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ فرشتوں نے خلیفہ کے لفظ سے یہ قیاس کیا۔ کہ خلیفہ جب زمین پر حکومت کی باگ ڈور سنبھالے گا تو وہاں پر لازماً فتنہ و فساد اور خونریزی بھی ہوگی۔ لہٰذا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو یہ جواب دیا ۔ تاہم زیادہ تر مفسرین کرام فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر معالم التنزیل ج 1 ص 20 ، تفسیر جلالین ص 7) کہ فرشتوں کا یہ گمان جنات کے حالات کی بنا پر تھا۔ اس گمان کے اظہار کے ساتھ ساتھ فرشتوں نے بارگاہِ رب العزت میں یہ بھی عرض کیا “ ونحن نسبح بحمد ” مولا کریم ! اس فتنہ و فساد برپا کرنے والی مخلوق کی کیا ضرورت ہے۔ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں تیری حمد کے ساتھ۔ “ ونقدس لک ” اور تیری پاکیزگی بھی بیان کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم اس کام کے لیے کافی ہیں۔ تحمید کا معنی یہ کہ خوبی کی تمام باتیں اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ اور تنزیہہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے نقائص اور عیوب سے پاک ہے۔ وہ ہر قسم کی کمزوریوں اور نقص والی چیزوں سے مبرا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ وہ تمام شریکوں سے پاک ہے۔ فرشتوں کا یہ جواب سن کر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ قال انی اعلم ما لا تعلمون ” اے فرشتو ! تم اس راز کو نہیں جانتے۔ صرف میں ہی جانتا ہوں کہ میں نے آدم میں کسی قدر کمال اور شرف ودیعت کیا ہے۔
Top