Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 30
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓئِكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
رَبُّکَ
: تمہارے رب نے
لِلْمَلَائِکَةِ
: فرشتوں سے
اِنِّیْ
: میں
جَاعِلٌ
: بنانے والا ہوں
فِي الْاَرْضِ
: زمین میں
خَلِیْفَةً
: ایک نائب
قَالُوْا
: انہوں نے کہا
اَتَجْعَلُ
: کیا آپ بنائیں گے
فِیْهَا
: اس میں
مَنْ يُفْسِدُ
: جو فساد کرے گا
فِیْهَا
: اس میں
وَيَسْفِكُ الدِّمَآءَ
: اور بہائے گا خون
وَنَحْنُ
: اور ہم
نُسَبِّحُ
: بےعیب کہتے ہیں
بِحَمْدِکَ
: آپ کی تعریف کے ساتھ
وَنُقَدِّسُ
: اور ہم پاکیزگی بیان کرتے ہیں
لَکَ
: آپ کی
قَالَ
: اس نے کہا
اِنِّیْ
: بیشک میں
اَعْلَمُ
: جانتا ہوں
مَا
: جو
لَا تَعْلَمُوْنَ
: تم نہیں جانتے
اور اس وقت کو خیال میں لاؤ جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا۔ تحقیق میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے عرض کیا کیا زمین میں (ایسوں) کو بنائے گا جو اس میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے اور ہم تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ تیری تعریف کے ساتھ اور تیری تنزیہہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
گزشتہ سے پیوستہ : اس سے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے چار بنیادی مسائل یعنی توحید ، رسالت ، ایمان بالقرآن اور معاد (قیامت) کا ذکر فرمایا ہے۔ اس کے بعد قرآن و رسالت میں شک کرنے والے لوگوں کا رد فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ کی صفات کمال کا ذکر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے ان بیشمار انعامات کا بھی تذکرہ فرمایا۔ جو اس نے بنی نوع انسان پر کئے۔ ان میں خصوصاً مادی انعامات کا بیان تھا ۔ جس میں انسان کا اپنا وجود ، زمین و آسمان کی تخلیق ، زمین میں پیدا ہونے والی تمام چیزیں شامل ہیں۔ بالخصوص زمین سے نکلنے والے پانی کا ذکر تھا۔ جس سے انسان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اسی سے نباتات پیدا ہوتے ہیں جو انسان کی روزی کا ذریعہ ہے ۔ موضوع : مادی انعامات کے تذکرہ کے بعد اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے ان روحانی اور نفسانی نعمتوں کا ذکر کیا ہے جو اس نے انسان کو عطا فرمائیں۔ چناچہ اس مقام پر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور خلافت ارضی کو بیان فرمایا گیا۔ تخلیق آدم ایک بنیادی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی خلافت آدم (علیہ السلام) کو عطاء کی اور پھر یہ خلافت بنی نوع انسان میں ودیعت کرکے خلافت ارضی کے مسئلہ کو واضح کردیا۔ گویا اس رکوع کا موضوع خلافت ارضی ہے۔ ہر جنتی بادشاہ ہوگا : قرآن پاک کی آیات مبارکہ اور احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو لوگ دنیا کی زندگی کے بعد حشر و نشر کی منازل طے کرکے جنت میں پہنچیں گے۔ ان میں سے ہر شخص بادشاہ ہوگا۔ اس دنیا میں تو بادشاہی کروڑوں میں سے ایک کو نصیب ہوتی ہے۔ مگر جنت کے ہر باشندے کا اعزاز دنیا کے بادشاہ سے کہیں زیادہ ہوگا۔ ہر جنتی کو آرام و راحت کے ایسے ایسے سامان میسر ہوں گے۔ جو دنیا کے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی حاصل نہیں ہوسکتے ۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں جنت میں ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ بھی حاصل ہوجائے۔ تخلیق انسانی سے قبل کے ادوار : اس رکوع میں تخلیق آدم کا ذکر ہے ، مگر پہلے کے ادوار کو ہم نہیں جانتے۔ کسی کو خواب میں بھی معلوم نہیں ہوا۔ کہ آدم (علیہ السلام) سے پہلے کتنے دور گزر چکے ہیں۔ شاہ ولی اللہ (رح) نے اپنی کتاب “ تضیمات الٰہیہ ” میں بیان کیا ہے۔ اور شاہ اسماعیل شہید نے بھی اپنی کتاب “ عبقات ” میں اس طرف اشارہ کیا ہے۔ کہ کسی حکیم انسان کا کمال یہ ہے کہ وہ صرف آدم (علیہ السلام) کے دور ہی کو ابتداء سے انتہاء تک سمجھ لے۔ چہ جائیکہ کوئی شخص اس دور سے پہلے کے ادوار کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ حضرت مجدد الف ثانی (رح) ، شاہ عبد العزیز (رح) ، شاہ اسماعیل شہید (رح) اور ان کے جدا امجد خود شاہ ولی اللہ (رح) اس امت کے آخری دور کے حکماء میں سے ہیں۔ البتہ ان سے پہلے بڑے بڑے حکماء گزرے ہیں جنہوں نے قرآن پاک کی تفاسیر اور تاریخ کی کتابیں لکھی ہیں۔ ان میں امام ابن کثیر (رح) بڑے پائے کے محدث ، مفسر اور تاریخ دان ہوئے ہیں۔ آپ امام ابن تیمیہ (رح) کے شاگرد تھے آپ کا زمانہ آٹھویں صدی ہجری ہے۔ آپ کی تفسیر کی مشہور کتاب ابن کثیر ہے آپ نے بخاری شریف کی شرح اور اصول حدیث پر بھی کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کی تاریخ کی کتاب البدایہ والنہایہ نہایت مستند کتاب ہے۔ جو چودہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس میں انہوں نے ابتداء سے لے کر اپنے دور تک تمام زمانوں کی تاریخ لکھی ہے۔ یہ کتاب آپ نے روایت کے اعتبار سے ترتیب دی ہے۔ صحیح اور غلچ روایت کی پڑتال ہے۔ اگرچہ ابن خلدون (رح) اور ابن جریر (رح) جیسے بڑے بڑے مؤرخوں نے تاریخ کی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ سینکڑوں اور ہزاروں تاریخ کی کتب موجود ہیں۔ مگر ان سب سے مستند ترین کتاب امام ابن کثیر (رح) کی ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد میں امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ البدایہ والنہایہ ج 1 ص 55) کہ آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے پہلے اس زمین پر کئی دور گزر چکے ہیں۔ مثلاً ایک قوم یا افراد کو حن کہتے تھے۔ اس کے بعد بن کا دور گزرا۔ اور پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق سے دو ہزار سال قبل اس دنیا میں جنات کا دور دورہ تھا۔ انہوں نے زمین میں فساد برپا کیے۔ جس طرح آج کل کی دنیا میں قتل و غارت گری ایک عام معمول ہے اس طرح اس دور کے جنات میں بھی جنگ و جدل عام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے جنات کی سرکوبی کے لیے فرشتوں کو بھیجا ۔ چناچہ انہوں نے جنات کو مار مار کر پہاڑوں اور جزیروں میں بھگا دیا اور اس زمین کو صاف کیا۔ اس واقعہ کے دو ہزار سال بعد آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی۔ جنات کا ذکر تو قرآن پاک میں بیشتر مقامات پر آیا ہے ۔ تاہم حن اور بن کے ادوار کا علم تاریخی روایات سے ہوتا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ موجودہ دور سے پہلے کتنے دور گزر چکے ہیں۔ حکماء نے اپنی اپنی تحقیق کے مطابق اپنی کتابوں میں ان ادوار کا تذکرہ کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ فرشتوں کا مادو تخلیق : اللہ تعالیٰ نے انسانوں ، فرشتوں ، جنات اور شیاطین کو مختلف مادوں سے پیدا فرمایا۔ پھر ان مادوں کے عناصر بھی مختلف ہیں۔ فرشتے ایک خاص نوری مادے سے پیدا کئے گئے ہیں۔ پھر ان فرشتوں کے مختلف درجات ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں (1 ۔۔۔۔۔ ) ۔ کہ فرشتوں میں سے اعلیٰ درجہ ملا اعلیٰ کا ہے۔ یہ حاملین عرش فرشتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر حافین حول العرش والے فرشتے ہیں۔ یہ سب خطیرۃ القدس کے فرشتے ہیں پھر آسمانوں کے فرشتے پھر فضائی فرشتے۔ اس کے بعد ارضی فرشتے ہیں تو زمین پر موجود رہتے ہیں۔ (یہ ملاسافل کے فرشتے ہیں) ۔ حجۃ اللہ البالغۃ میں شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ حجۃ اللہ البالغہ ج 1 ص 16) کہ اول درجے کے فرشتوں کا مادہ تخلیق اس آگ کی مانند ہے جو دوران سفر طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ظاہر ہوئی۔ آپ اپنی زوجہ کے ہمراہ جا رہے تھے۔ بھیڑ بکریاں ستاھ تھیں۔ رات کا اندھیرا تھا بیوی حاملہ تھی۔ ان کو دردزہ شروع ہوگیا موسیٰ (علیہ السلام) کو دور سے آگ نظر آئی۔ آپ اس طرف گئے۔ تو وہ آگ ایک درخت سے نکل رہی تھی ۔ جو درخت کے پتوں کو جلانے کی بجائے انہیں سرسبز و شاداب کر رہی تھی۔ آگ جس قدر بھڑکتی تھی درخت کی شاخوں اور پتوں میں شادابی آتی تھی۔ یہ واقعہ کس قدر قرآن پاک میں موجود ہے۔ بعض تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آگ نہیں تھی بلکہ حجابِ نوری یا ناری تھا۔ الغرض ! فرشتوں کی تخلیق اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے مادے سے کی۔ پھر اس میں مقدس روحیں ڈالیں جس طرح انسانوں اور جنوں میں روحیں موجود ہیں۔ اسی طرح فرشتوں میں بھی روحیں ہیں۔ جنات اور شیاطین : جنات کے مادہ تخلیق کے متعلق قرآن پاک میں موجود ہے : “ والجان خلقنہ من قبل من نار ” یعنی جنات کا مادہ تخلیق آگ اور ہوا ہے۔ شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ حجۃ الہ البالغۃ ج 1 ص 17) کہ شیاطین کا مادہ تخلیق نہایت گندا اور غلیظ ہوتا ہے بالکل سنڈاس کی مانند کہ جب وہ زیادہ مقدار میں ہوتا ہے تو اس سے بخار اور بو اٹھتی ہے۔ تو گویا جنات اور شیاطین کا مادہ آگ اور ہوا ہے۔ اس میں گیس ہوتی ہے۔ اور تیش کا مادہ بھی ہوتا ہے۔ انسان کا مادہ تخلیق : انسان کا مادہ تخلیق خاک ہے۔ دنیا میں جتنے بھی خارجی عناصر پائے جاتے ہیں وہ سب آدم کے وجود میں موجود ہیں تخلیق انسانی کے متعلق قرآن پاک میں آتا ہے “ خلق الانسان من صلصال ” انسان کو کھڑکنے والی مٹی سے پیدا کیا۔ دوسرے مقامات پر تراب اور طین کا لفظ بھی آتا ہے۔ الغرض انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی۔ اور یہ تخلیق باقی تخلیقات کی نسبت پیچیدہ ہے۔ اس میں تمام عناصر پائے جاتے ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) : اس مقام پر تخلیق انسانی کے متعلق ارشاد ہوتا ہے “ واذ قال ربک للملئکۃ انی جاعل فی الارض خلیفۃ ” یعنی اس بات پر غور کرو کہ جب تیرے پروردگار نے فرشتوں کے سامنے فرمایا۔ کہ تحقیق میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں گویا آدم کی تخلیق اس واسطے ہوئی کہ اسے دنیا میں خلیفہ مقرر کیا جانا ہے۔ لہٰذا آدم کی تخلیق مستقل تخلیق نہیں بلکہ خلیفہ ہونے کی حیثیت سے ہے تو اللہ تعالیٰ نے یہاں خلافت کا ایک اہم ترین مسئلہ بھی سمجھا دیا۔ حضرت داؤد (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا۔ “ یداود انا جعلنک خلیفۃ فی الارض ” یعنی اے داؤد ! ہم نے آپکو دنیا میں خلیفہ بنایا ہے۔ قرآن پاک میں خلیفہ دو معانی میں آتا ہے۔ پہلا معنی وہی ہے جو آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا کہ میں آپ کو اپنا خلیفہ یعنی نائب بنانے والا ہوں۔ “ خلف یخلف ” دوسرے کے پیچھے آنے والے یعنی نیابت کرنے والے کو کہتے ہیں۔ قرآن پاک میں یہ بھی آتا ہے “ ھو الذی جعلکم خلیف فی الارض ” یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ذات ہے۔ جس نے تمہیں ایک دوسرے کا جانشین یا خلیفہ بنایا۔ جس طرح بیٹا اپنے باپ کا جانشین ہوتا ہے۔ خلیفہ کا دوسرا معنی جو اس مقام پر واضح ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ یعنی نیابت انجام دینے والا پیدا کیا انسان کے علاوہ باقی بیشمار مخلوقات بھی اس زمین پر پیدا کی گئی ہیں۔ مگر خلافت کا حق اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت انسان کو دیا ہے۔ اور اس سے بھی مراد یہ ہے کہ زمین اور ساری کائنات کی اصل بادشاہت تو اللہ تعالیٰ کی ہے۔ آدم (علیہ السلام) کو صرف نبابت تفویض ہوئی ہے گویا انسان دنیا میں خلافت اپنی مرضی سے انجام نہیں دے گا۔ بلکہ حکم تو اللہ تعالیٰ کا ہوگا اور انسان اس حکم کو نافذ کرنے کا ذمہ دار ہوگا ۔ سورة نور میں اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سے جس خلافت کا وعدہ فرمایا اور جس کو پورا فرمایا وہ یہی خلافت ہے “ وعد اللہ الذین امنوا منکم وعملوا الصلحت یستخلفنھم فی الارض ”۔ مسئلہ خلافت : معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ نظام ، نظام خلافت ہے۔ دین میں ملوکیت اور ڈکٹیٹر شپ کی کوئی حیثیت نہیں۔ انسان تو اس زمین پر اللہ تعالیٰ کا نظام نافذ کرنے والا ادارہ ہے۔ اس کی اپنی کوئی مستقل حیثیت نہیں ہے۔ کہ جس قسم کے احکام چاہے نافذ کرے بلکہ اسے احکام اللہ تعالیٰ سے ہی حاصل کرنا ہوں گے۔ مسلمانوں کے تمام فرقے اس بات پر متفق ہیں کہ خلیفہ ہونا چاہئے۔ صرف ایک خارجی فرقہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ حکومت صرف اللہ ہی کی ہے۔ کوئی اس کا خلیفہ نہیں ہے۔ یہ انار کسٹ لوگ ہیں۔ جو خلافت کو تسلیم نہیں کرئے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق ہی بطور خلیفہ کے کی ہے۔ اس معاملہ میں شیعہ مذہب بھی باطل ہے۔ کہ اس کے پیرو کار خلیفہ یا حاکم (امام) کو معصوم اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر شدہ مانتے ہیں۔ یہ نظریہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ خلیفہ کو منتخب کرنے والے عام لوگ ہیں اور وہی اسے معزول بھی کرسکتے ہیں۔ اس مسئلہ میں اہل السنت والجماعت کا نظریہ بالکل واضح ہے۔ کہ خلیفہ کا انتخاب واجب ہے اس کو منصوص اور مقرر نہیں کیا گیا۔ بلکہ جماعت المسلمین پر چھوڑا گیا ہے کہ وہ اپنے میں سے بہتر شخص کو اس منصب پر فائز کرلیں۔ خلیفہ کے بغیر نظام ارضی کا چلانا درست نہیں ہے صحابہ کرام ؓ اس بات کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ چناچہ حضور ﷺ کی وفات پر مسئلہ خلافت آپ کے دفن سے پہلے طے کرلیا گیا۔ ترمذی شریف کی روایت میں (1 ۔ شمائل ترمذی ص 601) آتا ہے۔ کہ اگر مسئلہ خلافت طے نہ کیا جاتا تو امت کے اختلافات کا ختم ہونا ممکن نہ تھا۔ حضور ﷺ کے دفن کے متعلق اختلاف رائے پیدا ہوا۔ کسی کی رائے یہ تھی کہ آپ کا جسد اطہر بیت المقدس لے جایا جائے۔ کوئی مکہ معظمہ لے جانے کے حق میں تھا۔ تو اس کا فیصلہ بھی حضور ﷺ کے جانشین حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے کیا۔ انہوں نے کہا (2 ۔ شمائل مع ترمذی ص 600 ، مطیع نور محمد کراچی) کہ اس معاملہ میں جھگڑا نہ کرو۔ میں نے خود آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے سنا تھا۔ کہ جس جگہ پر آپ کا وصال مبارک ہوا۔ اسی جگہ پر آپ کو دفن کیا جائے گا۔ اس طرح یہ اہم معاملہ طے ہوگیا۔ تاہم یہ واضح ہے کہ قرآن پاک یا حضور نبی کریم (علیہ السلام) نے کسی کا نام لے کر خلافت کا فیصلہ نہیں کیا۔ بلکہ یہ کام جماعت المسلمین پر چھوڑا کہ جس کو مناسب سمجھیں ، خلیفہ مقرر کرلیں۔ البتہ نبی (علیہ السلام) نے اشارتاً یہ بات سمجھا (3 ۔ مسلم ج 2 ص 273) دی “ یابی اللہ والمؤمنون الا ابابکر ” یعنی میرے بعد اللہ تعالیٰ بھی انکار کرے گا اور مومن بھی انکار کریں گے کہ خلیفہ ابوبکر ؓ کے سوا کوئی نہیں ہونا چاہئے۔ انتخاب خلیفہ کا ایک طریقہ تو یہ ہوگیا کہ عامۃ المسلمین جس کو چاہیں اپنے میں سے خلیفہ منتخب کرلیں جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا انتخاب ہوا۔ اس کے علاوہ بعض دوسرے ذرائع بھی ہیں۔ جو امت میں ملتے ہیں۔ مثلاً حضر ت ابوبکر ؓ نے آخری ایام میں حضرت عمر ؓ کا انتخاب بطور خلیفہ خود کردیا تھا (4 ۔ البدایہ والنہایہ ج 7 ص 18) آپ نے ایک خط لکھ دیا تھا کہ لوگوں کے سامنے پڑھ دینا۔ یہ گویا خلافت کا پروانہ تھا۔ حضرت عمر ؓ امت میں بہترین آدمی تھے۔ ان کا انتخاب اس طرح عمل میں آیا۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے بعد خلافت کا فیصلہ کرنے کے لیے چھ آدمیوں کی شوریٰ قائم کی اور فرمایا (1 ۔ البدایہ النہایہ ج 7 ص 144) کہ میرے بعد خلافت کا فیصلہ یہ لوگ کریں گے۔ یہ چھ آدمی وہ تھے کہ حضور ﷺ دنیا سے رخصت ہوتے وقت ان سے بڑے راضی تھے۔ چناچہ ان حضرات نے حضرت عثمان غنی ؓ کو خلیفہ منتخب کیا۔ خلافت پر فائز ہونے کی ایک چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص خود بخود غلبہ پا کر حکومت حاصل کرے۔ کہتے ہیں کہ ایسا شخص بھی قابل اطاعت ہے ہاں اگر وہ شریعت کے احکام جاری کرنے میں کوتاہی کرے۔ تو اسکی اطاعت نہیں کی جائے گی۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو زمین پر اسکے احکام نافذ کرنے کے لیے خلیفہ بنایا۔ اور پھر یہ خلافت آپ کی نسل میں باقی رکھی۔ کہ خلافت کا حق بنی نوع انسان کو حاصل ہے۔ یہ حق کسی اور مخلوق کو نہیں پہنچتا۔ الغرض ! جب اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو اپنا نائب مقرر کرنے کا ارادہ فرمایا۔ تو “ قالوا اتجعل فیھا من یفسد فیھا ویسفک الدمآء ” یعنی فرشتوں نے کہا اے مولا کریم تو دنیا میں ایسی ہستی کو اپنا خلیفہ مقرر کرنا چاہتا ہے۔ جو زمین میں فساد کریں گے۔ اور خون بہائیں گے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ فرشتوں کا یہ جواب کئی وجاہات کی بناء پر ہوسکتا ہے۔ اولاً یہ کہ خود اللہ تعالیٰ نے یہ بات انہیں الہام کی ہو۔ جس کی بناء پر انہوں نے یہ رائے دی۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتوں نے جنات کے حالات پر قیاس کیا۔ وہ دیکھ چکے تھے۔ کہ جنات نے زمین پر فتنہ و فساد برپا کیا۔ لہٰذا انہوں نے گمان کیا۔ کہ آدم کی اولاد بھی ایسا ہی کرے گی۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ فرشتوں نے خلیفہ کے لفظ سے یہ قیاس کیا۔ کہ خلیفہ جب زمین پر حکومت کی باگ ڈور سنبھالے گا تو وہاں پر لازماً فتنہ و فساد اور خونریزی بھی ہوگی۔ لہٰذا انہوں نے اللہ تعالیٰ کو یہ جواب دیا ۔ تاہم زیادہ تر مفسرین کرام فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر معالم التنزیل ج 1 ص 20 ، تفسیر جلالین ص 7) کہ فرشتوں کا یہ گمان جنات کے حالات کی بنا پر تھا۔ اس گمان کے اظہار کے ساتھ ساتھ فرشتوں نے بارگاہِ رب العزت میں یہ بھی عرض کیا “ ونحن نسبح بحمد ” مولا کریم ! اس فتنہ و فساد برپا کرنے والی مخلوق کی کیا ضرورت ہے۔ ہم تیری تسبیح بیان کرتے ہیں تیری حمد کے ساتھ۔ “ ونقدس لک ” اور تیری پاکیزگی بھی بیان کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم اس کام کے لیے کافی ہیں۔ تحمید کا معنی یہ کہ خوبی کی تمام باتیں اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ اور تنزیہہ کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات ہر قسم کے نقائص اور عیوب سے پاک ہے۔ وہ ہر قسم کی کمزوریوں اور نقص والی چیزوں سے مبرا ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ۔ وہ تمام شریکوں سے پاک ہے۔ فرشتوں کا یہ جواب سن کر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ قال انی اعلم ما لا تعلمون ” اے فرشتو ! تم اس راز کو نہیں جانتے۔ صرف میں ہی جانتا ہوں کہ میں نے آدم میں کسی قدر کمال اور شرف ودیعت کیا ہے۔
Top