Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل یاد کرو میری ان نعمتوں کو جو میں نے تم پر انعام کیں۔ اور پورا کرو میرے عہد کو۔ میں پورا کروں گا تمہارے عہد کو۔ اور خاص مجھ ہی سے ڈرو
تاریخ بنی اسرائیل : “ یایھا الناس اعبدوا ” سے تمام بنی نوع انسان سے عمومی خطاب تھا۔ پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق اور خلافت ارضی کا ذکر تھا۔ اس کے بعد “ واذ قال ربک للمئکۃ ” میں بھی عمومی نعمت کا ذکر ہوا۔ جو حضرت آدم (علیہ السلام) کے ذریعے تمام انسانوں کو حاصل ہوئی۔ اب یہاں سے بنی اسرائیل کو خصوصی خطاب ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتیں یاد دلائی ہیں۔ اور ان معجزات کا ذکر کیا ہے۔ جو ان میں ظاہر ہوئے۔ بنی اسرائیل کے بالکل شکوک و شبہات کا ازالہ بھی کیا ہے۔ اور اس قوم میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ ان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ یہ بیان یہاں سے شروع ہو کر “ واذابتلی ابراھیم ربہ بکلمت ” تک چلا جائے گا ۔ خلافت ارضی عمومی نعمت ہے جو آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کو نصیب ہوئی۔ یہ خلافت بنی اسرائیل میں عرصے تک قائم رہی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ نعمت چھین لی اور بنی اسرائیل کو حاصل ہوگئی۔ یہاں پر بنی اسرائیل کی ان خرابیوں کا ذکر ہوگا جن کی وجہ سے اس عزت شرافت اور فضیلت سے وہ محروم ہوگئے۔ اسرائیل یعقوب (علیہ السلام) کا نام ہے۔ ان دونوں خاندانوں یعنی بنی اسرائیل اور بنی اسمعیل کے جد امجد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں۔ جن کا وطن مالوف موجودہ بغداد سے ستر میل دور بابل شہر تھا۔ آپ کی پیدائش کے وقت بابل بہت بڑا شہر اور تہذیب کا مرکز تھا۔ یہ چالیس مربع میل میں پھیلا ہوا تھا۔ اور بہت بڑی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہاں سے ہجرت کی جیسا کہ فرمایا “ انی مھاجر الیٰ ربی ” اور مصر کے راستے شام پہنچے۔ کچھ عرصہ وہاں قیام فرمایا۔ اور پھر حجاز آئے اور مکہ مکرمہ بھی گئے۔ آپ اصلاً عراقی تھے۔ پھر شامی پر حجازی ہوئے۔ اس زمانے میں فلسطین کو کنعان کہتے تھے۔ اور یہ شام ہی کے ماتحت تھا۔ بعد میں اس کو بڑی شہرت حاصل ہوئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی ہاجرہ ؓ سے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تولد ہوئے۔ آپ کے بارہ فرزند تھے پھر ان کے آگے بیشمار قبیلے ہوئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دوسری بیوی آپ کی چچا زاد حضرت سارہ ؓ تھیں۔ جن کا ذکر قرآن پاک میں بھی آتا ہے۔ آپ کے بطن سے حضرت اسحاق (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور پھر ان سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے عظیم نبی ہوئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی میں ہی بشارت سنا دی تھی۔ “ ومن ورآء اسحاق یعقوب ” یعنی تمہارے فرزند اسحاق (علیہ السلام) سے ان کے بیٹے یعقوب (علیہ السلام) ہوں گے۔ پھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بارہ بیٹے ہوئے “ اثنتی عشرۃ اسباطا امما ” سورة اعراف میں موجود ہے۔ یہ اسی بات کی طرف اشارہ ہے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک تیسری بیوی قطورا بھی تھی (1 ۔ ارض القرآن ج 2 ص 2) جس کی اولاد بنی قطورا کہلاتی ہے مگر انہیں زیادہ شہرت حاصل ہے نہ ہوئی۔ واقعہ اس طرح ہے کہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے دو بیٹے یعنی عیص اور یعقوب جڑواں بچے تھے۔ البتہ عیص ذرا پہلے پیدا ہوئے اور یعقوب (علیہ السلام) بعد میں ۔ یعقوب کا لفظی معنی پیچھے آنے والے کے ہیں۔ خدا کی قدرت کہ اسحاق (علیہ السلام) کو عیص کے ساتھ زیادہ محبت تھی۔ اور ان کی بیوی کو یعقوب (علیہ السلام) زیادہ پیارے تھے۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) زیادہ صحت مند اور مضبوط جسم کے مالک تھے اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) نے انہیں یہ فریضہ سونپ رکھا تھا۔ کہ وہ دروازے پر موجود رہیں۔ جب تک میں عبادت میں مصروف رہوں۔ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دیں تاکہ عبادت میں خلل واقع نہ ہو۔ ایک موقع پر انسانی شکل میں فرشتہ آیا اور اندر جانا چاہا ۔ مگر یعقوب (علیہ السلام) نے روکا۔ جب اسحاق (علیہ السلام) باہر آئے تو دیکھا کہ یعقوب (علیہ السلام) فرشتے کے ساتھ الجھ رہے ہیں تو انہوں نے تحسین فرمائی۔ کہ واقعی تم نے اپنی ڈیوٹی پوری پوری ادا کی ہے۔ فرشتے نے آپ کا نام دریافت کیا تو انہیں یعقوب بتایا گیا۔ اس نے کہا اس کا نام اسرائیل ہے۔ سریانی یا جبرانی زبان میں اسرا کا معنی بندہ اور ایل کا معنی اللہ ہے۔ گویا فرشتے نے یعقوب (علیہ السلام) کا نام اسرائیل یعنی اللہ تعالیٰ کا بندہ رکھا۔ جو کہ عبد اللہ کے مترادف ہے یہیں سے آپ کا نام اسرائیل مشہور ہوا (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 200) اور آپ کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ چونکہ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی محبت عیص کے ساتھ زیادہ تھی۔ اس لیے انہوں نے عیص سے فرمایا۔ کہ میں آخری وقت میں تیرے لیے خصوصی دعا کروں گا جب ماں کو پتا چلا تو اس نے چاہا کہ یہ دعا یعقوب (علیہ السلام) کے حق میں ہو۔ چناچہ اس نے یعقوب (علیہ السلام) کو عیص کا لباس پہنا کر ان کے باپ کے پاس بھیج دیا۔ اور ساتھ نصیحت کی کہ باپ کے سامنے آہستہ بولنا تاکہ وہ تمہیں پہچان نہ سکیں ۔ چونکہ اس وقت حضرت اسحاق (علیہ السلام) کی نظر کمزور ہوچکی تھی۔ وہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو عیص سمجھے اور ان کے حق میں دعا فرمائی۔ کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد میں نبوت کو جاری رکھے۔ یہ خصوصی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی ۔ چناچہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک اللہ تعالیٰ نے چار ہزار نبی اور رسول اس خاندان میں مبعوث فرمائے۔ کچھ عرصہ بعد عیص نے باپ کو یاد دلایا کہ آپ نے میرے حق میں دعا کا وعدہ فرمایا تھا تو انہوں نے کہا کہ وہ دعا تو میں نے کردی ہے۔ عیص نے کہا کہ وہ دعا تو آپ نے یعقوب (علیہ السلام) کے حق میں فرمائی ہے تو انہوں نے کہا ۔ مجاوہ تو اس کے لیے ہوگئی۔ تمہارے لئے دعا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے خاندان میں بادشاہت قائم رکھے (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 201) چناچہ آپ کی دعا سے بادشاہت کا زیادہ تر سلسلہ عیص کی اولاد میں ہی رہا۔ جب حضرت اسحاق (علیہ السلام) اس دنیا میں رخصت ہوئے تو ان کے سارے مال واسباب پر عیص نے قبضہ کرلیا اور یعقوب (علیہ السلام) کو کچھ نہ ملا۔ اسی مال و دولت کی وجہ سے لوگوں کا رجوع بھی حیص کی طرف ہوگیا۔ اور یعقوب (علیہ السلام) نادار ہونے کی وجہ سے کسی شمار میں نہ آتے تھے۔ ان کے ماموں کسی دوسری جگہ مقیم تھے۔ اور بڑے مالدار تھے۔ ماں نے مشورہ دیا کہ ان کے پاس چلے جاؤ۔ ان کے پاس مال و دولت بھی ہے۔ اور اس کی بیٹی بھی ہے۔ جس کے ساتھ وہ تمہارا نکاح بھی کر دے گا۔ چناچہ آپ اپنے لایان نامی ماموں کے پاس پہنچے۔ وہ آپ کو دیکھ کر بڑا خوش ہوا۔ اور کہا اپنے بھائی کی بدسلوکی سے دل برداشتہ نہ ہونا۔ میں تمہاری ہر طرح سے مدد کروں گا۔ چناچہ اس نے اپنے سارے مال و اسباب کا متصرف حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو بنا دیا۔ اور اپنی بیٹی کا نکاح بھی کردیا۔ اس بیوی سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹے عطا کیے۔ اور اس کے بعد بیوی کا انتقال ہوگیا۔ ماموں نے آپ پر مزید احسان کیا۔ کہ دوسری بیٹی کا نکاح کردیا۔ اس سے دو فرزند پیدا ہوئے اور وہ بھی فوت ہوگئی۔ اس کے بعدماموں نے تیسری لڑکی آپ کے نکاح میں دے دی۔ اس سے ایک لڑکی اور دو لڑکے پیدا ہوئے اس کے بعد وہ بھی اللہ تعالیٰ کو پیاری ہوگئی۔ پھر ماموں نے اپنی چوتھی لڑکی راحیل کا نکاح کردیا۔ اس وقت تک حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی عمر چالیس برس ہوچکی تھی ۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور حکم دیا کہ اس مقام کو چھوڑ کر کنعان چلے جاؤ۔ اور وہاں پر تبلیغ کا فریضہ انجام دو ۔ جب ماموں کو پتا چلا تو اس نے کہا کہ تمہاری جدائی سے تکلیف تو ضرور ہوگی۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رضا ہر چیز پر مقدم ہے۔ چناچہ آپ نے بخوشی حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو کنعان چلے جانے کی اجازت دے دی۔ اور بیوی بچوں کو بھی ساتھ بھیج دیا۔ اور ان کی خدمت کے طور پر پانچسو گھوڑے ، پانچسو اونٹ ، پانچسو گائے ، پانچسو خچر ، پانچسو بھیڑیں اور بہت سادیگر سامان ہمراہ کردیا۔ کنعان پہنچ کر آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے تبلیغ کا کام شروع کردیا۔ وہاں پر آپ کی چوتھی بیوی راحیل کے بطن سے دو بیٹے یوسف اور بنیامین پیدا ہوئے۔ یوسف (علیہ السلام) ابھی دو سال کے تھے کہ راحیل بھی فوت ہوگئی۔ جب ماموں کو پتا چلا تو اس نے اپنی پانچویں بیٹی بھی نکاح میں دے دی۔ اور اسے یعقوب (علیہ السلام) کے نکاح میں بھیج دیا۔ تاکہ بچوں کی پرورش ہوسکے۔ اس طرح یعقوب (علیہ السلام) کے کل بارہ بیٹے ہوئے۔ جن سے اگے بارہ خاندان ظہور میں آئے (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ، ص 202) اللہ تعالیٰ نے عیص کو بھی اس فضیلت سے محروم نہ رکھا۔ جیسا حضرت یعقوب (علیہ السلام) کنعان کی طرف آرہے تھے تو راستہ میں عیص نے بھی آپ کا استقبال کیا۔ اور عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کے ذریعے مجھر پر فضیلت بخشی ہے۔ آپ دعا کریں ۔ کہ اللہ تعالیٰ میرے خاندان میں بھی نبوت جاری فرمائے۔ آپ نے دعا فرمائی۔ تو وحی نے خبر دی۔ کہ اللہ تعالیٰ عیص کے خاندان میں ایک نبی ایوب (علیہ السلام) کو پیدا فرمائے گا۔ اور ایک عظیم المرتبت بادشاہ ذوالقرنین بھی آپ کے ہی خاندان میں ہوگا۔ چناچہ آگے چل کر ایسا ہی ہوا (2 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ص 203) ۔ بنی اسرائیل پر انعامات : ان آیات میں ان انعامات کا تذکرہ ہے جو اللہ رب العزت نے بنی اسرائیل پر کیے۔ “ یبنی اسرائیل اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم ” اے بنی اسرائیل ! میرے ان انعامت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کیے۔ ان میں سے دو بنیادی انعام تھے۔ یعنی اس قوم میں انبیاء (علیہم السلام) مبعوث کیے اور بادشاہت بھی عطا کی ۔ سورة مائدہ میں موجود ہے “ اذ جعل فیکم انبیآء وجعلکم ملوکا ” اللہ تعالیٰ نے کتنا عظیم احسان اس قوم پر کیا اس وقت اس کے برابر دنیا بھر میں کوئی دوسری قوم نہیں تھی۔ ان کو عزت ، دولت اور شہرت حاصل تھی۔ مگر آہستہ آہستہ ان میں بگاڑ پیدا ہونے لگا ۔ حتیٰ کہ مسیح (علیہ السلام) کے زمانے تک ان کی ذلت انتہاء کو پہنچ گئی ۔ انجیل اور تواریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہوچکی تھیں۔ ہزاروں سال گذرنے کے بعد نزول قرآن کا زمانہ نہ آیا۔ خاتم النبین ﷺ دنیا میں تشریف لائے اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام اور شریعت نازل ہوئے۔ اس وقت بھی بیشمار خرابیوں کے باوجود یہی لوگ صاحب علم سمجھے جاتے تھے۔ چناچہ قرآن پاک نے اس مقام پر بنی اسرائیل کو ہی دعوت فکر دی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو جنہیں تم اپنی خرابی کی وجسہ سے کھوچکے ہو۔ لہٰذا اب بھی راہ راست پر آجاؤ۔ نبی آخر الزمان پر ایمان لے آؤ۔ اور خدا تعالیٰ کے آخری پیغام کو تسلیم کرلو تو تمہاری چھنی ہوئی عزت واپس آسکتی ہے۔ اور اگر ایسا نہیں کرو گے۔ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہوگے۔ تو تمہارے حصے میں ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا چناچہ اگلے رکوع میں ذکر آئے گا۔ کہ بنی اسرائیل میں کس طرح خرابیاں پیدا ہوئیں۔ بنی اسرائیل کی عہد شکنی : اللہ تعالیٰ نے انعامات کا تذکرہ کرنیکے بعد فرمایا “ واوفوا بعھدی ” اے بنی اسرائیل میرے عہد کو پورا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے یہی عہد تو لیا تھا کہ میر ی اطاعت کرنا انبیاء علیھم السلام کی اطاعت کرنا۔ اور فرائض کو پورا کرنا۔ فرمایا اس کے بدلے میں “ اوف بعھدکم ” میں تمہارا عہد پورا کروں گا۔ تمہارا عہد یہ ہے کہ تمہارے گناہ معاف کرکے تمہیں بخش دوں گا اور جنت تک پہنچاؤں گا۔ تمام بنی نوع انسان نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا ہوا ہے۔ آگے اس کے مطالبے یعنی میثاق کا ذکر بھی آئے گا۔ بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ میثاق بھی پورا کرو۔ “ الذی واثقکم بہ ” جو تم نے پختہ عہد کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ صحیح دین اور سچی بات کو مت چھپانا۔ مگر انہوں نے کیا کیا۔ “ فنبذوہ ورآء ظھورھم ” اس عہد کو پس پشت ڈال دیا۔ نزول قرآن کے وقت تک بنی اسرائیل میں ۔۔۔ اور کتمان حق کی بیماری اپنے عروج پر تھی۔ یہ لوگ توراۃ ، انجیل اور دیگر کتب میں موجود آخری نبی (علیہ السلام) کے متعلق پیشن گوئیوں کو چھپاتے تھے۔ اور اس حسد میں مبتلا تھے کہ نبی آخر الزمان بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسمعیل میں کیوں آیا ہے۔ یہ لوگ صاحب علم ہونے کے باوجود معتصب تھے ۔ مشرکین نے تو ایمان قبول کرلیا۔ مگر یہ لوگ اپنی ضد پر اڑے رہے۔ جیسا کہ “ ولکن کثیر منھم فسقون ” یعنی ان کی اکثریت نافرمانوں کی ہے۔ جب کہ نہایت ہی قلیل تعداد راہ راست پر آئی ہے چناچہ ان میں سے حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ جیسے چند حق پرستوں نے اسلام کی دعوت قبول کی۔ الغرض فرمایا تم میرا عہد پورا کرو۔ میں تمہارا عہد پورا کروں گا۔ “ وایای فارھبون ” اور خاص مجھ ہی سے ڈرو میں ہی تمہارا خالق اور مالک ہوں۔ میں نے تم پر پہلے بھی انعام کئے۔ آئندہ بھی کروں گا۔ بشرطیکہ مجھ سے ڈر کر سیدھے راستے پر آجاؤ۔ ایمان بالقرآن : بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے مزید فرمایا “ وامنوا بما انزلت ” اور جو چیز میں نے نازل کی ہے۔ اس پر ایمان لاؤ۔ اور یہ چیز “ مصدقا لما معکم ” اس چیز کی تصدیق کرتی ہے۔ جو تمہارے پاس موجود ہے۔ یعنی توراۃ اور دیگر سابقہ کتب یہاں پر یہ نکتہ یاد رہے۔ کہ قرآن پاک سابقہ کتب کی ہر چھوٹی بڑی چیز کی تصدیق نہیں کرتا۔ بلکہ اصولی طور پر بعض اہم باتوں کی تصدیق کرتا ہے۔ جس طرح ہر نبی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ سابقہ بنی کی تصدیق کرے مگر اس کی شریعت اور احکام کی من و عن تصدیق نہیں کرتا کیونکہ بسا اوقات دوسرا نبی پہلے نبی کی بعض چیزیں منسوخ کردیتا ہے۔ اسی طرح قرآن پاک بھی سابقہ کتب کی تصدیق کرتا ہے۔ لہٰذا تم اس قرآن پاک کو بحیثیت کلام الٰہی تسلیم کرلو۔ اور اس پر عمل پیرا ہوجاؤ۔ “ ولاتکونوا اول کافر بہ ” اور تم لوگ قرآن پاک کے اولین منکرین نہ بن جاؤ۔ قرآن پاک کا نزول مکہ مکرمہ میں شروع ہوا۔ اور سب سے پہلے انکار کرنے والے تو کفار تھے۔ پھر جب حضور ﷺ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو وہاں ہود نے اس کا انکار کیا۔ تو اس لحاظ سے قرآن پاک کے اولین منکرین کفار مکہ ہیں ۔ نہ کہ یہود مدینہ ۔ مگر یہاں بنی اسرائیل کو خطاب ہو رہا ہے کہ تم اولین مکذبین نہ بن جاؤ۔ مفسرین کرام اس کی توجیہہ یہ بیان فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 206 ، 209) کہ مکہ والوں کے پاس تو کوئی کتاب نہیں تھی۔ کتاب یعنی توراۃ تو مدینے کے یہود کے پاس تھی۔ لہٰذا اہل کتاب میں سے اولین کافرین یہی لوگ تھے ۔ اسی لیے ان کو کہا گیا کہ تم اولین منکرین میں سے نہ ہوجانا۔ اس کا دوسرا مطلب مفسرین کرام یہ بھی بیان فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ اگر تم موجودہ نسل والے انکار کر دو گے تو تمہارے بعد آنے والی نسلیں بھی تمہاری روش پر چل کر انکار کردیں گی۔ اس طرح پیچھے آنے والی نسلوں کی گمراہی کے ذمہ دار بھی تم ہی ٹھہرؤ گے اس لیے اولین منکرین نہ بن جاؤ۔ دنیا کی محبت : پھر فرمایا “ ولا تشتروا بایتی ثمنا قلیلا ” اور مت خریدو میری آیتوں کے بدلے تھوڑی قیمت۔ تھوڑی قیمت سے مراد دنیا کی حقیر مال ہے ۔ جیسا کہ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 208) کہ دنیا کی چار چیزیں ایسی ہیں جن کے پیچھے لوگ مرتے ہیں۔ یعنی کھانا ، پینا ، پہننا اور نکاح کرنا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کھانے کا انجام گندگی اور پینے کا انجام بول ہے۔ اچھے سے اچھا لباس بھی کچھ عرصہ بعد پھٹ جاتا ہے۔ اور اسے پھینک دیا جاتا ہے رہا نکاح تو اس کی وجہ سے انسان طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہوتا اور اذیتیں برداشت کرتا ہے یہ چاروں چیزیں عقیدے کو فاسد اور دین کو بگاڑنے والی ہیں۔ مگر لوگ ان حقیر اشیاء کے حصول کے لیے قیمتی اور اعلیٰ چیز یعنی ایمان کو خراب کرلیتے ہیں۔ فرمایا “ وایای فاتقون ” اور مجھ ہی سے ڈرو۔ آخرت کی خبر لو۔ دنیا کے پیچھے مت پڑو آخرت میں میرے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ حساب و کتاب ہوگا۔ اور پھر تمہیں اپنے کئے کی جزا یا سزا بھگتنا ہوگی۔ لہٰذا مجھ سے ڈرتے رہو۔ تلبیس اور کتمان حق : “ ولا تلبسوا الحق بالباطل ” اور حق کو باطل کے ساتھ غلط ملط نہ کرو۔ “ وتکتموا الحق ” اور نہ ہی حق کو چھپاؤ یہ بنی اسرائیل کی عام عادت تھی۔ کہ وہ اپنی کتاب میں موجود سچی بات چھپا لیتے تھے۔ آگے آئے گا۔ کہ یہ لوگ قرآن پاک اور نبی آخر الزمان ﷺ کو اسی طرح پہچانتے تھے۔ جس طرح اپنی اولاد کو پہچانتے تھے۔ مگر پھر بھی انکار کردیتے تھے۔ یہ لوگ واضح علامات کو بگاڑ کر پیش کرتے تھے ۔ اور ان میں تحریف کے مرتکب ہوتے تھے۔ یہ عیسائی اور یہودی تحریف میں بڑے ماہر ہیں۔ خود عیسائیوں کے بڑے بڑے پادریوں نے تسلیم کیا ہے کہ انجیل میں تین ہزار تحریفیں ہوچکی ہیں (1 ۔ تقریر دلپذیر) ظاہر ہے کہ جہاں اس قدر تحریف کا عمل آزمایا گیا ہو۔ وہاں کس قدر بگاڑ پیدا ہوگا۔ اور جس کتاب کے ساتھ یہ سلوک ہوا ہو۔ اس کا کیا سے کیا بن گیا ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (2 ۔ ترمذی ص 379) کہ جس طرح آپ کی امت میں بھی پیدا ہوگا۔ آج کے دور میں دیکھ لیں کہ بدقماش قسم کے علماء محض دنیوی مفاد کی خاطر کس طرح غلط فتوے جاری کرتے ہیں۔ یہ چیز کتمان حق سے ہی پیدا ہوتی ہے اسی قسم کے لوگ امراء اور بادشاہوں کو خوشی کرنے کے لیے غلط فتوے دیتے ہیں۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ حاکم وقت راضی ہوجائے تو اپنی عیش ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ظالم بادشاہ اور فاسق امراء آخرت سے بےخوف ہو کر کمزور طبقے پر ظلم و جور کے پہاڑ توڑتے ہیں ۔ یہ لوگ علماء سو کے فتوے کی آڑ لے کر اپنی من مانی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔ یہی حال وزیروں اور دیگر دفتری اہلکاروں کا ہے۔ قانون کی آڑ میں عوام کے حق غصب کرتے ہیں۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے (3 ۔ فیض القدیر شرح جامع صغیر ج 6 ص 370 بحوالہ سنن سعید بن منصور ومسند احمد دحلیۃ الاولیاء) “ ویل لمن لا یعلم وحد من الویل ” جو کسی چیز کو نہیں جانتا۔ اس کے لیے ایک بار ہلاکت ہے مگر “ ویل لمن یعلم ولا یعمل سبع من الویل ” جو جاننے کے باوجود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔ اس پر سات بار ہلاکت ہے۔ مقصد یہ کہ کتمان حق کرنے والے دنیا پرست لوگ حق بات کو جاننے کے باوجود اس کو چھپاتے ہیں۔ اور حق پر عمل نہیں کرتے۔ لہٰذا یہ سات گنا سزا کے مستحق ہیں۔ پیروں ، گدی نشینوں اور علمائے سوء کا حال دیکھ لیں۔ انہیں فرائض کا کوئی خیال نہیں کہ پورے ہو رہے ہیں یا نہیں۔ مگر مستحبات اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جنہیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ لوگ ملک پہ کافر کی حکومت برداشت کرلیں گے جیسا کہ پیروں اور علماء سوء نے انگریز کی حمایت کی ۔ مگر یہ اپنے خود ساختہ عقیدے کے خلاف کوئی چیز برداشت کرنے کے لیے کبھی تیار نہ ہوں گے۔ ایسے ہی لوگ کتمان حق کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آجکل دین کے ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے۔ نہ کسی کو فرائض کی پروا ہے۔ اور نہ واجبات کی۔ معمولی معمولی باتوں کو نشانہ بنا کر ان کی تشہیر ہو رہی ہے۔ پراپیگنڈا جاری ہے۔ تفرقہ بازی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اور پھر کالی گلوچ تک نوبت پہنچتی ہے۔ یہ سب کیا ہے ۔ بنی اسرائیل کے شیوہ کو اپنایا جا رہا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ ترمذی ص 379) جو بیماریاں۔ بنی اسرائیل میں پائی جاتی تھیں۔ اے میری امت تم میں بھی وہی بیماریاں عود کر آئیں گی “ حذرا لنعمل بالنعل ” جس طرح ایک جوتا دوسرے کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی طرح میری امت کی خرابیاں بنی اسرائیل کی خرابیوں کے مشابہ ہوں گی۔ فرمایا حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور نہ حق کو چھپاؤ۔ “ وانتم تعلمون ” اور تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ غرضیکہ اس مقام پر بنی اسرائیل کی خرابیوں کا اجمالاً بیان ہوا ہے اگلے رکوعات میں تفصیل کے ساتھ ایک ایک خرابی کی نشان دہی ہوگی۔ آج بھی یہ خطاب موجود ہ دور کے بنی اسرائیل کے لیے موجود ہے۔ ان کے بڑوں کی خرابیوں کو ان کے سامنے رکھا جا رہا ہے۔ اور جو خرابیاں ان کے اندر پائی جاتی ہیں۔ ان کی نشاندہی بھی ہو رہی ہے۔ گویا یہ دعوت الی القرآن ہے کہ “ امنوا بما انزلت ” جس چیز کو میں نے نازل کیا ہے۔ یعنی قرآن پاک آؤ آج بھی اس پر ایمان لے آؤ تو فلاح پا جاؤ گے۔ قرآن پاک پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ اور آخرت نوشتہ اور صحیفہ ہے اس پر ایمان لائے بغیر اور اس کے پیش کردہ پروگرام پر عمل کیے بغیر فلاح نصیب نہیں ہوسکتی۔
Top