Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ : اے اولاد اِسْرَائِیْلَ : یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تم پر وَاَنِّیْ : اور یہ کہ میں نے فَضَّلْتُكُمْ : تمہیں فضیلت دی میں نے عَلَى الْعَالَمِیْنَ : زمانہ والوں پر
اے اسرائیل کی اولاد ! یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم پر انعام کی اور یہ کہ میں نے تم کو فضیلت بخشی جہان والوں کے مقابلے میں
ربط آیات : پہلے رکوع میں اجمال تھا۔ اب یہاں سے اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ بنی اسرائیل کا ذکر کیا ہے۔ اور انہیں وہ انعامات یاد دلائے ہیں جو ان پر ظاہر کیے گئے تھے ، نزول قرآن کے زمانے کے بنی اسرائیل کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ایمان قبول کرلیں۔ نیز اس قوم میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ اہل ایمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی روش سے بچتے رہیں۔ کہیں ان کی خرابیوں میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ فرعون کی غلامی میں عرصہ دراز تک رہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں بیشمار خربیاں اور سرکشی کا مادہ پیدا ہوگیا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بیشمار انبیاء (علیہم السلام) تشریف لائے مگر سرکشی کا جو مادہ اس قوم میں پیدا ہوچکا تھا۔ وہ برقرار رہا یہ سب باتیں ان آیات سے واضح ہوں گی ۔ بنی اسرائیل کی فضیلت : اسرائیل کا معنی اللہ کا بندہ ہے۔ اور یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ ارشاد ہوتا ہے “ یبنی اسرآء یل ” اے فرزندان یعقوب “ اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم ” اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں بنی اسرائیل کی غلامی سے آزادی بحیثیت قوم انہیں برتری دنیا اور ان میں کثرت سے نبی بھیجنا وغیرہ شامل ہیں اور دوسری بات یہ کہ “ وانی فضلتکم علی العلمین ” تمہیں جہان والوں پر فضیلت بخشی ۔ سورة مائدہ میں آتا ہے “ اذجعل فیکم انبیآء وجعلکم ملوکا ” یاد کرو اس احسان کو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر بڑے بڑے بادشاہ پیدا کیے اور کثرت سے انبیاء مبعوث فرمائے۔ اور تم کو وہ چیز عطا کی جو جہان والوں میں سے کسی دوسری قوم کو عطا نہیں کی ۔ یہاں پر بنی اسرائیل کی جہان والوں پر فضیلت سے یہ مراد نہیں ہے کہ انہیں حضور اکرم ﷺ کی امت پر بھی فضیلت حاصل ہے قرآن پاک میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو سب سے زیادہ فضیلت بخشی ہے۔ اور اس فضیلت کا تعلق دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی گویا دونوں جہانوں میں امت محمدیہ کی فضیلت مسلم ہے۔ بنی اسرائیل کی فضیلت سے مراد یہ ہے کہ انہیں اپنے دور میں دینی اور دنیوی ہر دو لحاظ سے باقی قوام عالم پر برتری حاصل تھی۔ اس زمانے میں اس قوم میں صلاحیت بھی پائی جاتی تھی۔ اور ان کی علمی حیثیت بھی مستند تھی۔ ایک خاص چیز جو بنی اسرائیل میں پائی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس قوم نے اپنی تاریخ کو محفوظ رکھا ہے۔ چناچہ بائیبل کا ایک بڑا حصہ تاریخ بنی اسرائیل پر مشتمل ہے۔ برخلاف اس کے ہندو قوم ہزاروں برس تک برسراقتدار رہی ہے۔ مگر سوائے چھوٹے موٹے قصے کہانیوں کے ہندوؤں کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ اپنی یہ خامی خود ہندو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ گویا بنی اسرائیل کے دور میں جو دوسری اقوام موجود تھیں ان میں سے کسی کی تاریخ بھی محفوظ نہیں ہے۔ بنی اسرائیل ہی ایک واحد قوم ہے جس کی تاریخ ملتی ہے۔ اسلامی تاریخ کی حفاظت : البتہ جب حضور خاتم النبین ﷺ کی امت کا زمانہ آیا تو انہیں علمی لحاظ سے بھی برتری حاصل ہوئی اور انہوں نے اپنی تاریخ کو بھی محفوظ کرلیا۔ انہیں زمانے میں بڑا عروج حاصل ہوا ۔ مگر جب یہ امت بھی زوال پذیر ہوئی تو اس کی حیثیت بھی دنیا کی دیگر زوال پذیر اقوام سے مختلف نہ رہی۔ موجودہ دور کے مسلمان کو اپنی تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ نہ اپنی تاریخ کی حفاظت کی کوشش کرتا ہے۔ اور نہ اپنی کتاب کی تشریح اور تفسیر معلوم کرنے کی سعی کرتا ہے۔ مسلمانوں کے زمانہ عروج کی تاریخ تو آج بھی موجود ہے۔ اسلام نے بڑے بڑے مؤرخ پیدا کئے۔ جنہوں نے اپنے زریں دور کے ایک ایک لمحے کو اپنی کتابوں کے اوراق میں محفوظ کرلیا۔ ان مؤرخین میں علامہ طبری (رح) تیسری صدی ہجری میں ہوئے ہیں۔ ابن خلدون (رح) اور ابن کثیر ، آٹھویں صدی کے مؤرخ ہیں۔ ابن اثیر (رح) جنہوں نے تاریخ اور دیگر علوم کو محفوظ کیا۔ جو مفسر بھی ہیں اور تاریخ دان بھی۔ مگر آج ہم ہیں جو اپنے اکابر کے جمع کردہ علمی ذخیرہ سے بھی خاطر خواہ مستفید نہیں ہوپاتے ۔ جب سے انگریز کی جدت پیدا ہوئی ہے۔ اس نے مسلمانوں کو ان کی اپنی تاریخ سے بےبہرہ کردیا ہے آج مسلمان اپنی تاریخ کو فراموش کرچکا ہے۔ اسے اب یورپ کے افراد پر فخر ہے۔ ان کی تاریخ کو حفظ کرتے ہیں۔ اپنی تاریخ سے نہ تو واقفیت پیدا کی جاتی ہے ۔ اور نہ اسے محفوظ کرنے کی تگ و دو ہوتی ہے۔ امت مسلمہ کی برتری : بہرحال یہ چیز بنی اسرائیل کے خصائل میں سے ہے۔ کہ انہوں نے اپنی تاریخ کو محفوظ رکھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں فضیلت بخشی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں عالمین پر فضیلت بخشی۔ یہ بات قابل ذکر ہے۔ کہ عالمین سے مراد اقوام عالم ہیں۔ اور اس سے صرف انسان مراد ہیں۔ کیونکہ دنیا کی باقی اشیاء تو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لیے پیدا فرمائی ہیں “ خلق لکم ما فی الارض جمیعا ” زمین کی ہر چیز تمہارے لیے پیدا کی۔ لہٰذا برتری صرف انسان کو ہی حاصل ہے۔ چناچہ بنی اسرائیل کو اپنے زمانہ میں اقوام عالم پر فضیلت مطلقا ہر زمانے کے لیے نہیں تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ بخاری ج 1 ص 120 ومسلم ج 1 ص 182) بعد میں انے والی ہے۔ مگر قیامت کے دن سب سے آگے ہوگی ان کا حساب و کتاب بھی باقی امتوں سے پہلے ہوگا۔ اور جنت میں بھی سب سے پہلے جائیں گے۔ انہیں باقی تمام امتوں پر برتری حاصل ہوگی۔ برتری کا معیار تقویٰ ہے : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان پر کیے گئے انعامات یاد دلانے کے بعد فرمایا “ واتقوا یوما لا تجزی نفس عن نفس شیئا ” اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی نفس نہ بچائے گا دوسرے نفس سے کچھ بھی۔ بہت ہی خوفناک اور خطرناک دن آنے والا ہے۔ ہر نفس کو اپنے عقیدے اور عمل کے مطابق بھگتنا پڑے گا ۔ یاد رکھو اس دن انسان کی برتری تقویٰ کے اعتبار سے ظاہر ہوگی۔ تقویٰ کی تشریح میں شیخ عبد القادر جیلانی (رح) نے یہ آیت پڑھی تھی (1 ۔ غلبۃ الطالبین ج 1 ص 142 مطبوعہ مصر) ۔ “ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتآئ ذی القربی وینھی عن الفحشاء والمنکر ” تقویٰ یہ ہے کہ انسان دل و احسان کا دامن تھام لے۔ قربت داروں کے حق ادا کرے اور فحش اور بےحیائی کی باتوں سے بچتا رہے۔ عقیدے اور عمل میں اپنوں اور بیکانوں سے عدل لازم ہے۔ اور احسان تو بڑی منزل ہے۔ حقوق کی ادائیگی اس سے بھی آگے ہے۔ یہ تمام چیزیں تقوے میں شامل ہیں ۔ مسئلہ شفاعت : ولا یقبل منھا شفاعۃ اور نہ اس نفس سے سفارش قبول کی جائیگی ۔ شاہ رفیع الدین (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مطلق سفارش کی نفی کی گئی ہے ، حالانکہ سفارش برحق ہے۔ قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ سفارش ہوگی اس مقام پر جس سفارش کی نفی کی گئی ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کافر کے حق میں سفارش مفید نہیں ہوگی۔ کسی کافر سے سفارش قبول نہیں کی جائیگی۔ حضور ﷺ نے فرمایا (2 ۔ ترمذی ص 251 ، مسلم ج 1 ص 113) میری سفارش برحق ہے۔ اور یہ میری امت کے ہر اس شخص کو پہنچے گی “ من لایشرک باللہ شیئا ” جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا۔ مگر کافر کے حق میں یہ بالکل قبول نہیں ہوگی البتہ اگر کسی کی فطرت پاک ہوگی ۔ عقیدہ صحیح ہوگا۔ مشرک اور کافر نہیں ہوگا تو سفارش مفید ہوگی۔ “ من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ ” اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بھی کوئی سفارش نہیں ہوگی۔ سفارش کی دوسری شرط یہ ہے “ ورضی لہ قولا ” سفارش اس کے حق میں ہوگی۔ جس کا عقیدہ اور بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہوگی فاسد العقیدہ انسان کے بارے میں سفارش کا کوئی مکان نہیں۔ حضرت شاہ رفیع الدین (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر شاہ رفیع الدین ص 25) کہ ایک وقت ایس ابھی آئے گا جس وقت بالکل کوئی چیز مفید نہیں ہوگی حشر میں بڑی بڑی منزلیں آئیں گی۔ جب قہری تجلی زور سے نازل ہو رہی ہوگی تو انبیاء (علیہم السلام) بھی گھبرا جائیں گے۔ حدیث میں آتا ہے (2 ۔ مسلم ج 1 ص 111) کہ نفسی نفسی پکاریں گے۔ اس موقع پر سفارش کہاں ہوگی ۔ ہاں بعض دوسرے مواقع پر دو شرائط کے ساتھ سفارش ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت ہو اور جس کے حق میں سفارش کی جا رہی ہے۔ اس کا عقیدہ صحیح ہو۔ فرمایا اس دن سے ڈرو جس دن سفارش بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ “ ولا یؤخذ منھا عدل ” اور جس دن فدیہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ کہ کوئی شخص فدیہ دے کر اپنی جان چھڑا سکے۔ یہ بھی ممکن نہیں ہوگا۔ دوسری جگہ صاف موجود ہے۔ کہ اگر کوئی شخص سونے کی بھری ہوئی پوری زمین بھی فدیہ دیکر اپنی جان بچانا چاہے گا ۔ تو ایسا نہیں ہوسکے گا۔ اول تو اتنا مال و دولت ، سونا ، چاندی مہیا ہونا ہی ناممکن ہے۔ اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو اتنا بڑا فدیہ بھی کسی کام نہ آئے گا ۔ “ ولا ھم ینصرون ” اور نہ کسی طرف سے ان کی مدد ہوگی۔ دنیا میں کسی کو چھڑانے کے یہی طریقے ہیں۔ کہیں سفارش چل گئی۔ کہیں فدیہ یا نذرانہ دے دیا یا کہیں جتھا بندی کرلی۔ مگر میدان حشر میں ان میں سے کوئی چیز بھی کارگر نہیں ہوگی۔ بعض لوگوں نے سفارش کا عقیدہ بالکل ایسا بنا لیا ہے جیسے عیسائیوں نے کفارے کا عقیدہ بنا رکھا ہے۔ یہ غلط عقیدہ ہے۔ سفارش حقیقت میں انسان کے عقیدے اور اعمال کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہودیوں نے بھی غلط امید لگا رکھی ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوزخ کے دروازے پر کھڑے ہوں گے۔ اور وہ کسی ختبہ کئے ہوئے اسرائیل کو دوزخ میں نہیں گرنے دیں گے۔ ہم جو چاہیں کرتے رہیں ، دوزخ میں نہیں جاسکتے۔ آگے آرہا ہے کہتے تھے “ وقالوا لن تمسنا النار الا ایاما معدودۃ ” اگر ہم دوزخ میں گئے بھی تو صرف اتنے دن کے لیے جتنے دن ہمارے بڑوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ وہ کہتے ہیں “ لن یدخل الجنۃ ومن کان ھود و نصری ” یعنی جنت کے وارث صرف یہودی اور عیسائی ہیں ۔ ان کے علاوہ اور کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ سراسر غلط عقیدہ ہے سفارش کے متعلق بھی لوگوں نے اسی قسم کا عقیدہ بنا لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو یا ناراض ، عقیدہ درست ہو یا باطل ، اعمال کا کوئی حصہ ہو یا نہ ہو۔ ہمارے سفارشی ہمیں بچا لیں گے۔ نبیوں کی شریعتیں بتاتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکلف بنایا ہے۔ مکلف ۔۔۔ ہوتا ہے۔ اس سے باز پرس ہوتی ہے۔ عقیدے اور اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا۔ قرآن پاک میں صاف موجود ہے ۔ “ تاتی کل نفس تجاول عن نفسھا ” ہر نفس اپنی طرف سے دفاع کرے گا۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے (1 ۔ بخاری ج 2 ص 968) کہ وہ دن بھی آنے والا ہے۔ جس دن اللہ تعالیٰ انسان سے براہ راست خطاب کرے گا۔ “ ولیس بینہ وبینہ ترجمان ” جب خدا تعالیٰ اور انسان کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ براہ راست سوال و جواب ہوں گے۔ انسان مسؤل ہے اور جس سفارش کے عیسائی یا مشرک اور یہودی قائل ہیں ۔ ایسی سفارش کا اسلام میں کوئی مقام نہیں ہے۔ بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے مزید ارشاد ہوتا ہے “ واذنجینکم من ال فرعون ” اور یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے تھے۔ اس کے حواری بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ اور ظلم و ستم میں فرعون کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے۔ “ یسومونکم سوء العذاب ” وہ تمہیں ذلت ناک بت سری سزا دے رہے تھے “ یذبحون ابنآء کم ” تمہارے بچوں کو ذبح کرتے تھے “ ویستحیون نسآء کم ” اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ مردوں کے قتل اور عورتوں کے زندہ رکھنے کا عمل بنی اسرائیل کے ساتھ دو دفعہ پیش آیا۔ پہلی دفعہ یہ ظلم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے ڈھایا گیا جب نجومیوں نے پیشگوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ جو فرعون کی سلطنت کے زوال کا باعث بنے گا۔ اس وقت فرعون نے حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل میں جو بھی بچہ پیدا ہو۔ اسے ذبح کردیا جائے اور اسے زندہ نہ چھوڑا جائے مگر جب موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے گھر میں ہی ان کی پرورش کی اور وہ سارے واقعات پیش آئے جو سورة قصص میں مذکور ہیں۔ ظلم کی اس چکی میں کتنے بچے پسے۔ اس کے متعلق مختلف روایات آتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں (1 ۔ تفسیر ابو السعود ج 1 ص 80 ، معالم التنزیل ج 1 ص 25) کہ اس وقت نوے ہزار بچے ذبح کئے گئے ۔ ظلم و جور کی یہ انتہا تھی۔ ان والدین کے دل پر کیا گذرتی ہوگی۔ جن کے سامنے ان کے نومولود بچوں کو قتل کردیا جائے۔ ایسے والدین کی پریشانی کا کیا حال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے اس احسان کو یدا کرو۔ جب میں نے تمہیں اس ظلم سے نجات دی۔ بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا دوسری دفعہ حکم فرعون نے اس زمانے میں دیا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی بن کر آئے اور تبلیغ کا کام شروع ہوا۔ اس وقت فرعون کو دوبارہ خطرہ پیدا ہوا۔ کہ بنی اسرائیل کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اسے کسی طرح کم کرنا چاہئے۔ چناچہ اس نے حکم دے دیا۔ کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہوئے پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جائے۔ اور اگر لڑکی پیدا ہو تو اسے زندہ چھوڑ دیا جائے۔ لڑکیاں ہماری خدمت گزاری کے کام آسکیں گی۔ فرمایا “ وفی ذلکم بلاء من ربکم عصیم ” اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑا امتحان تھا۔ بنی اسرائیل کے لیے واقعہ یہ بہت بڑی آزمائش تھی۔ کہ اپنے سامنے بچوں کو ذبح کرا کر وہ کسی طرح اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جب بنی اسرائیل اس امتحان میں کامیاب ہوئے ۔ ہمت اور حوصلہ نہ چھوڑا۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس ظلم سے نجات دے دی۔ فرعون کی غرقابی : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دوسرا بڑا احسان یہ جتلایا “ واذفرقنا بکم البحر فانجینکم ” اور جب ہم نے تمہارے لیے دریا کو پھاڑ دیا۔ اور تم کو نجات دی بنی اسرائیل جب ہجرت کرکے مصر آئے تھے تو اس وقت یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان کے بہتر آدمی تھے۔ چار پانچ صدیوں کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکلے تو اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد تقریباً چھ لاکھ ستر ہزار ہوچکی تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔ کہ میرے ان بندوں کو لے کر یہاں سے نکل چلیں۔ آپ نے اپنی قوم سے مشورہ کیا اور طے یہ پایا کہ بغیر اطلاع یہاں سے نکلنا درست نہیں بلکہ فرعون سے اجازت حاصل کر لینی چاہئے ۔ چناچہ انہوں نے فرعون سے اجازت طلب کی کہ ہم باہر کسی تقریب میں جانا چاہتے ہیں۔ اجازت مل گئی۔ انہوں نے فرعونیوں سے زیورات وغیرہ بھی حاصل کرلیے کہ ایک خاص تقریب میں شامل ہونا ہے۔ چناچہ بنی اسرائیل سفر پر روانہ ہوگئے۔ سارا دن گزر گیا۔ اگلی رات فرعونیوں کو احساس ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل بالکل ہی چلے جائیں۔ ان کا پتا کرنا چاہئے۔ فرعون نے تعاقب کا حکم دے دیا۔ ایک دن لشکر کی تیاری میں گزر گیا۔ اور دوسری رات بھی گزر گئی۔ بنی اسرائیل مسلسل چلتے رہے۔ مصر سے مشرق کی جانب بحیرہ قلزم آتا ہے۔ اس کو عبور کرنے کے بعد صحرائے سینا آتا ہے۔ یہ بارہ کوس کی مسافت ہے تفسیری روائتوں میں آتا ہے (1 ۔ ) کہ فرعون کا لشکر بارہ لاکھ افراد پر مشتمل تھا۔ شاہ رفیع الدین (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر شاہ رفیع الدین ص 26 طبع 1272 ھ) کہ لشکری اور بازاری لوگ ملا کر کل نفری ساٹھ لاکھ کے قریب تھی۔ ادھر جب بنی اسرائیل بحیرہ قلزم کے کنارے پر پہنچے تو پتا چلا کہ پیچھے فرعون لشکر لے کر آرہا ہے بڑے گھبرائے کہ اب تو ہم پکڑے جائیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی زندہ نہیں بچے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو تسلی دی کہ گھبراؤ مت “ ان معی ربی سیھدین ” بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ ضرور راہنمائی کرے گا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا “ ان اضرب بعصاک البحر ” یعنی اے موسیٰ اپنی لاٹھی سے سمندر میں بارہ جگہ ضرب لگاؤ ۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بارہ مقامات پر ضرب لگائی اور بارہ راستے سمندر میں بن گئے۔ بارہ کوس کے لمبے راستے میں پانی کی دیواریں کھڑی ہوگئیں۔ گویا پانی منجمد ہوگیا۔ اور ان بارہ راستوں کے درمیانی دیواروں میں کھڑکیاں بھی بن گئیں۔ تاکہ دوران سفر ایک قبیلے کے لوگ دوسرے قبیلے والوں کو دیکھ بھی سکیں۔ یہ سب کچھ معجزانہ طور پر ہوا جس کی تصریح قرآن پاک اور تفاسیر میں موجود ہے۔ مگر سرسید اور پرویزی فرقے اس کا انکار کرتے ہیں ۔ بہرحال تمام قبیلے اپنے اپنے راستوں پر روانہ ہوئے پیچھے سے فرعون کا لشکر بھی آپہنچا۔ انہوں نے دیکھا کہ پانی میں راستے بنے ہوئے ہیں اور بنی اسرائیل ان راستوں پر رواں دواں ہیں۔ فرعونی گھوڑے پر سوار تھے۔ مگر ان کے گھوڑے پانی میں اترنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو گھوڑی پر سوار کرکے بھیجا۔ آپ آگے چلے۔ گھوڑی کی بو سونگھ کر فرعون کا گھوڑا بھی پیچھے پیچھے چل پڑا (1 ۔ تفسیر خازان ج 1 ص 54 ، مضطری ج 1 ص 68 ، معالم التنزیل ج 1 ص 26) میکائیل (علیہ السلام) کا حکم ہوا۔ کہ فرعون کے سارے لشکر کو پیچھے لاؤ۔ چناچہ انہوں نے کہا کہ دیکھو بنی اسرائیل تمہارے ہاتھوں سے نکلے جا رہے ہیں۔ تعاقب کرکے ان کو پکڑ لو۔ چناچہ سارا لشکر پانی میں بنے ہوئے راستوں پر چل نکلا بنی اسرائیل بارہ کوس مسافت طے کر کے سمندر سے پار ہوگئے۔ اور فرعون کا سارا لشکر پانی میں بنے ہوئے راستوں کے درمیان آگیا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا “ فغشیھم من انیم ما غشیھم ” پھر پانی کی موجوں نے انہیں اس طرح گھیرا کہ ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا۔ صرف فرعون کی لاش کو پانی نے عبرت کے لیے باہر پھینک دیا۔ اسی واقعہ کو یاد دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ واغرقنا ال فرعون ” ہم نے تمام فرعونیوں کو غرق کردیا “ وانتم تنضرون ” اور یہ سب کچھ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ میرے اس احسان کو یاد کرو۔ جب تمہارے لئے سمندر میں راستے بنا دیے جن کے ذریعے تم نے سمندر کو عبور کرلیا اور فرعونیوں سے نجات پالی۔ مگر اس پانی میں فرعون کے سارے لشکر کو تمہارے سامنے غرق کردیا۔ ان احسانات کو یاد دلانے کا مقصد یہ تھا کہ اب بھی اپنی برائیوں سے باز آجاؤ۔ اور اس دن سے ڈر جاؤ۔ جس دن نہ کوئی سفارش کام آئیگی اور نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا۔ اور جو کچھ میں نے تمہارے اوپر نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ۔
Top