Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 47
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
يَا بَنِیْ
: اے اولاد
اِسْرَائِیْلَ
: یعقوب
اذْكُرُوْا
: تم یاد کرو
نِعْمَتِيَ
: میری نعمت
الَّتِیْ
: جو
اَنْعَمْتُ
: میں نے بخشی
عَلَيْكُمْ
: تم پر
وَاَنِّیْ
: اور یہ کہ میں نے
فَضَّلْتُكُمْ
: تمہیں فضیلت دی میں نے
عَلَى الْعَالَمِیْنَ
: زمانہ والوں پر
اے اسرائیل کی اولاد ! یاد کرو میری اس نعمت کو جو میں نے تم پر انعام کی اور یہ کہ میں نے تم کو فضیلت بخشی جہان والوں کے مقابلے میں
ربط آیات : پہلے رکوع میں اجمال تھا۔ اب یہاں سے اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ بنی اسرائیل کا ذکر کیا ہے۔ اور انہیں وہ انعامات یاد دلائے ہیں جو ان پر ظاہر کیے گئے تھے ، نزول قرآن کے زمانے کے بنی اسرائیل کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ایمان قبول کرلیں۔ نیز اس قوم میں پیدا ہونے والی خرابیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ساتھ ساتھ اہل ایمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی روش سے بچتے رہیں۔ کہیں ان کی خرابیوں میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ فرعون کی غلامی میں عرصہ دراز تک رہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل میں بیشمار خربیاں اور سرکشی کا مادہ پیدا ہوگیا تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بیشمار انبیاء (علیہم السلام) تشریف لائے مگر سرکشی کا جو مادہ اس قوم میں پیدا ہوچکا تھا۔ وہ برقرار رہا یہ سب باتیں ان آیات سے واضح ہوں گی ۔ بنی اسرائیل کی فضیلت : اسرائیل کا معنی اللہ کا بندہ ہے۔ اور یہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) کا لقب ہے۔ ارشاد ہوتا ہے “ یبنی اسرآء یل ” اے فرزندان یعقوب “ اذکروا نعمتی التی انعمت علیکم ” اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات میں بنی اسرائیل کی غلامی سے آزادی بحیثیت قوم انہیں برتری دنیا اور ان میں کثرت سے نبی بھیجنا وغیرہ شامل ہیں اور دوسری بات یہ کہ “ وانی فضلتکم علی العلمین ” تمہیں جہان والوں پر فضیلت بخشی ۔ سورة مائدہ میں آتا ہے “ اذجعل فیکم انبیآء وجعلکم ملوکا ” یاد کرو اس احسان کو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر بڑے بڑے بادشاہ پیدا کیے اور کثرت سے انبیاء مبعوث فرمائے۔ اور تم کو وہ چیز عطا کی جو جہان والوں میں سے کسی دوسری قوم کو عطا نہیں کی ۔ یہاں پر بنی اسرائیل کی جہان والوں پر فضیلت سے یہ مراد نہیں ہے کہ انہیں حضور اکرم ﷺ کی امت پر بھی فضیلت حاصل ہے قرآن پاک میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو سب سے زیادہ فضیلت بخشی ہے۔ اور اس فضیلت کا تعلق دنیا سے بھی ہے اور آخرت سے بھی گویا دونوں جہانوں میں امت محمدیہ کی فضیلت مسلم ہے۔ بنی اسرائیل کی فضیلت سے مراد یہ ہے کہ انہیں اپنے دور میں دینی اور دنیوی ہر دو لحاظ سے باقی قوام عالم پر برتری حاصل تھی۔ اس زمانے میں اس قوم میں صلاحیت بھی پائی جاتی تھی۔ اور ان کی علمی حیثیت بھی مستند تھی۔ ایک خاص چیز جو بنی اسرائیل میں پائی جاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس قوم نے اپنی تاریخ کو محفوظ رکھا ہے۔ چناچہ بائیبل کا ایک بڑا حصہ تاریخ بنی اسرائیل پر مشتمل ہے۔ برخلاف اس کے ہندو قوم ہزاروں برس تک برسراقتدار رہی ہے۔ مگر سوائے چھوٹے موٹے قصے کہانیوں کے ہندوؤں کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ اپنی یہ خامی خود ہندو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ گویا بنی اسرائیل کے دور میں جو دوسری اقوام موجود تھیں ان میں سے کسی کی تاریخ بھی محفوظ نہیں ہے۔ بنی اسرائیل ہی ایک واحد قوم ہے جس کی تاریخ ملتی ہے۔ اسلامی تاریخ کی حفاظت : البتہ جب حضور خاتم النبین ﷺ کی امت کا زمانہ آیا تو انہیں علمی لحاظ سے بھی برتری حاصل ہوئی اور انہوں نے اپنی تاریخ کو بھی محفوظ کرلیا۔ انہیں زمانے میں بڑا عروج حاصل ہوا ۔ مگر جب یہ امت بھی زوال پذیر ہوئی تو اس کی حیثیت بھی دنیا کی دیگر زوال پذیر اقوام سے مختلف نہ رہی۔ موجودہ دور کے مسلمان کو اپنی تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ نہ اپنی تاریخ کی حفاظت کی کوشش کرتا ہے۔ اور نہ اپنی کتاب کی تشریح اور تفسیر معلوم کرنے کی سعی کرتا ہے۔ مسلمانوں کے زمانہ عروج کی تاریخ تو آج بھی موجود ہے۔ اسلام نے بڑے بڑے مؤرخ پیدا کئے۔ جنہوں نے اپنے زریں دور کے ایک ایک لمحے کو اپنی کتابوں کے اوراق میں محفوظ کرلیا۔ ان مؤرخین میں علامہ طبری (رح) تیسری صدی ہجری میں ہوئے ہیں۔ ابن خلدون (رح) اور ابن کثیر ، آٹھویں صدی کے مؤرخ ہیں۔ ابن اثیر (رح) جنہوں نے تاریخ اور دیگر علوم کو محفوظ کیا۔ جو مفسر بھی ہیں اور تاریخ دان بھی۔ مگر آج ہم ہیں جو اپنے اکابر کے جمع کردہ علمی ذخیرہ سے بھی خاطر خواہ مستفید نہیں ہوپاتے ۔ جب سے انگریز کی جدت پیدا ہوئی ہے۔ اس نے مسلمانوں کو ان کی اپنی تاریخ سے بےبہرہ کردیا ہے آج مسلمان اپنی تاریخ کو فراموش کرچکا ہے۔ اسے اب یورپ کے افراد پر فخر ہے۔ ان کی تاریخ کو حفظ کرتے ہیں۔ اپنی تاریخ سے نہ تو واقفیت پیدا کی جاتی ہے ۔ اور نہ اسے محفوظ کرنے کی تگ و دو ہوتی ہے۔ امت مسلمہ کی برتری : بہرحال یہ چیز بنی اسرائیل کے خصائل میں سے ہے۔ کہ انہوں نے اپنی تاریخ کو محفوظ رکھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں فضیلت بخشی اور فرمایا کہ میں نے تمہیں عالمین پر فضیلت بخشی۔ یہ بات قابل ذکر ہے۔ کہ عالمین سے مراد اقوام عالم ہیں۔ اور اس سے صرف انسان مراد ہیں۔ کیونکہ دنیا کی باقی اشیاء تو اللہ تعالیٰ نے انسان کی خدمت کے لیے پیدا فرمائی ہیں “ خلق لکم ما فی الارض جمیعا ” زمین کی ہر چیز تمہارے لیے پیدا کی۔ لہٰذا برتری صرف انسان کو ہی حاصل ہے۔ چناچہ بنی اسرائیل کو اپنے زمانہ میں اقوام عالم پر فضیلت مطلقا ہر زمانے کے لیے نہیں تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ بخاری ج 1 ص 120 ومسلم ج 1 ص 182) بعد میں انے والی ہے۔ مگر قیامت کے دن سب سے آگے ہوگی ان کا حساب و کتاب بھی باقی امتوں سے پہلے ہوگا۔ اور جنت میں بھی سب سے پہلے جائیں گے۔ انہیں باقی تمام امتوں پر برتری حاصل ہوگی۔ برتری کا معیار تقویٰ ہے : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان پر کیے گئے انعامات یاد دلانے کے بعد فرمایا “ واتقوا یوما لا تجزی نفس عن نفس شیئا ” اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی نفس نہ بچائے گا دوسرے نفس سے کچھ بھی۔ بہت ہی خوفناک اور خطرناک دن آنے والا ہے۔ ہر نفس کو اپنے عقیدے اور عمل کے مطابق بھگتنا پڑے گا ۔ یاد رکھو اس دن انسان کی برتری تقویٰ کے اعتبار سے ظاہر ہوگی۔ تقویٰ کی تشریح میں شیخ عبد القادر جیلانی (رح) نے یہ آیت پڑھی تھی (1 ۔ غلبۃ الطالبین ج 1 ص 142 مطبوعہ مصر) ۔ “ ان اللہ یامر بالعدل والاحسان وایتآئ ذی القربی وینھی عن الفحشاء والمنکر ” تقویٰ یہ ہے کہ انسان دل و احسان کا دامن تھام لے۔ قربت داروں کے حق ادا کرے اور فحش اور بےحیائی کی باتوں سے بچتا رہے۔ عقیدے اور عمل میں اپنوں اور بیکانوں سے عدل لازم ہے۔ اور احسان تو بڑی منزل ہے۔ حقوق کی ادائیگی اس سے بھی آگے ہے۔ یہ تمام چیزیں تقوے میں شامل ہیں ۔ مسئلہ شفاعت : ولا یقبل منھا شفاعۃ اور نہ اس نفس سے سفارش قبول کی جائیگی ۔ شاہ رفیع الدین (رح) فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مطلق سفارش کی نفی کی گئی ہے ، حالانکہ سفارش برحق ہے۔ قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ سفارش ہوگی اس مقام پر جس سفارش کی نفی کی گئی ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کافر کے حق میں سفارش مفید نہیں ہوگی۔ کسی کافر سے سفارش قبول نہیں کی جائیگی۔ حضور ﷺ نے فرمایا (2 ۔ ترمذی ص 251 ، مسلم ج 1 ص 113) میری سفارش برحق ہے۔ اور یہ میری امت کے ہر اس شخص کو پہنچے گی “ من لایشرک باللہ شیئا ” جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا۔ مگر کافر کے حق میں یہ بالکل قبول نہیں ہوگی البتہ اگر کسی کی فطرت پاک ہوگی ۔ عقیدہ صحیح ہوگا۔ مشرک اور کافر نہیں ہوگا تو سفارش مفید ہوگی۔ “ من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ ” اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بھی کوئی سفارش نہیں ہوگی۔ سفارش کی دوسری شرط یہ ہے “ ورضی لہ قولا ” سفارش اس کے حق میں ہوگی۔ جس کا عقیدہ اور بات اللہ تعالیٰ کو پسند ہوگی فاسد العقیدہ انسان کے بارے میں سفارش کا کوئی مکان نہیں۔ حضرت شاہ رفیع الدین (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر شاہ رفیع الدین ص 25) کہ ایک وقت ایس ابھی آئے گا جس وقت بالکل کوئی چیز مفید نہیں ہوگی حشر میں بڑی بڑی منزلیں آئیں گی۔ جب قہری تجلی زور سے نازل ہو رہی ہوگی تو انبیاء (علیہم السلام) بھی گھبرا جائیں گے۔ حدیث میں آتا ہے (2 ۔ مسلم ج 1 ص 111) کہ نفسی نفسی پکاریں گے۔ اس موقع پر سفارش کہاں ہوگی ۔ ہاں بعض دوسرے مواقع پر دو شرائط کے ساتھ سفارش ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کی اجازت ہو اور جس کے حق میں سفارش کی جا رہی ہے۔ اس کا عقیدہ صحیح ہو۔ فرمایا اس دن سے ڈرو جس دن سفارش بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ “ ولا یؤخذ منھا عدل ” اور جس دن فدیہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ کہ کوئی شخص فدیہ دے کر اپنی جان چھڑا سکے۔ یہ بھی ممکن نہیں ہوگا۔ دوسری جگہ صاف موجود ہے۔ کہ اگر کوئی شخص سونے کی بھری ہوئی پوری زمین بھی فدیہ دیکر اپنی جان بچانا چاہے گا ۔ تو ایسا نہیں ہوسکے گا۔ اول تو اتنا مال و دولت ، سونا ، چاندی مہیا ہونا ہی ناممکن ہے۔ اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی جائے تو اتنا بڑا فدیہ بھی کسی کام نہ آئے گا ۔ “ ولا ھم ینصرون ” اور نہ کسی طرف سے ان کی مدد ہوگی۔ دنیا میں کسی کو چھڑانے کے یہی طریقے ہیں۔ کہیں سفارش چل گئی۔ کہیں فدیہ یا نذرانہ دے دیا یا کہیں جتھا بندی کرلی۔ مگر میدان حشر میں ان میں سے کوئی چیز بھی کارگر نہیں ہوگی۔ بعض لوگوں نے سفارش کا عقیدہ بالکل ایسا بنا لیا ہے جیسے عیسائیوں نے کفارے کا عقیدہ بنا رکھا ہے۔ یہ غلط عقیدہ ہے۔ سفارش حقیقت میں انسان کے عقیدے اور اعمال کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہودیوں نے بھی غلط امید لگا رکھی ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) دوزخ کے دروازے پر کھڑے ہوں گے۔ اور وہ کسی ختبہ کئے ہوئے اسرائیل کو دوزخ میں نہیں گرنے دیں گے۔ ہم جو چاہیں کرتے رہیں ، دوزخ میں نہیں جاسکتے۔ آگے آرہا ہے کہتے تھے “ وقالوا لن تمسنا النار الا ایاما معدودۃ ” اگر ہم دوزخ میں گئے بھی تو صرف اتنے دن کے لیے جتنے دن ہمارے بڑوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ وہ کہتے ہیں “ لن یدخل الجنۃ ومن کان ھود و نصری ” یعنی جنت کے وارث صرف یہودی اور عیسائی ہیں ۔ ان کے علاوہ اور کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ سراسر غلط عقیدہ ہے سفارش کے متعلق بھی لوگوں نے اسی قسم کا عقیدہ بنا لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ راضی ہو یا ناراض ، عقیدہ درست ہو یا باطل ، اعمال کا کوئی حصہ ہو یا نہ ہو۔ ہمارے سفارشی ہمیں بچا لیں گے۔ نبیوں کی شریعتیں بتاتیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکلف بنایا ہے۔ مکلف ۔۔۔ ہوتا ہے۔ اس سے باز پرس ہوتی ہے۔ عقیدے اور اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا۔ قرآن پاک میں صاف موجود ہے ۔ “ تاتی کل نفس تجاول عن نفسھا ” ہر نفس اپنی طرف سے دفاع کرے گا۔ بخاری شریف کی روایت میں ہے (1 ۔ بخاری ج 2 ص 968) کہ وہ دن بھی آنے والا ہے۔ جس دن اللہ تعالیٰ انسان سے براہ راست خطاب کرے گا۔ “ ولیس بینہ وبینہ ترجمان ” جب خدا تعالیٰ اور انسان کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا۔ براہ راست سوال و جواب ہوں گے۔ انسان مسؤل ہے اور جس سفارش کے عیسائی یا مشرک اور یہودی قائل ہیں ۔ ایسی سفارش کا اسلام میں کوئی مقام نہیں ہے۔ بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے مزید ارشاد ہوتا ہے “ واذنجینکم من ال فرعون ” اور یاد کرو اس وقت کو جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی۔ فرعون نے بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رکھے تھے۔ اس کے حواری بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ اور ظلم و ستم میں فرعون کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ وہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے۔ “ یسومونکم سوء العذاب ” وہ تمہیں ذلت ناک بت سری سزا دے رہے تھے “ یذبحون ابنآء کم ” تمہارے بچوں کو ذبح کرتے تھے “ ویستحیون نسآء کم ” اور تمہاری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے۔ مردوں کے قتل اور عورتوں کے زندہ رکھنے کا عمل بنی اسرائیل کے ساتھ دو دفعہ پیش آیا۔ پہلی دفعہ یہ ظلم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے ڈھایا گیا جب نجومیوں نے پیشگوئی کی کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے۔ جو فرعون کی سلطنت کے زوال کا باعث بنے گا۔ اس وقت فرعون نے حکم دے دیا کہ بنی اسرائیل میں جو بھی بچہ پیدا ہو۔ اسے ذبح کردیا جائے اور اسے زندہ نہ چھوڑا جائے مگر جب موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے گھر میں ہی ان کی پرورش کی اور وہ سارے واقعات پیش آئے جو سورة قصص میں مذکور ہیں۔ ظلم کی اس چکی میں کتنے بچے پسے۔ اس کے متعلق مختلف روایات آتی ہیں۔ بعض کہتے ہیں (1 ۔ تفسیر ابو السعود ج 1 ص 80 ، معالم التنزیل ج 1 ص 25) کہ اس وقت نوے ہزار بچے ذبح کئے گئے ۔ ظلم و جور کی یہ انتہا تھی۔ ان والدین کے دل پر کیا گذرتی ہوگی۔ جن کے سامنے ان کے نومولود بچوں کو قتل کردیا جائے۔ ایسے والدین کی پریشانی کا کیا حال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے اس احسان کو یدا کرو۔ جب میں نے تمہیں اس ظلم سے نجات دی۔ بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا دوسری دفعہ حکم فرعون نے اس زمانے میں دیا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی بن کر آئے اور تبلیغ کا کام شروع ہوا۔ اس وقت فرعون کو دوبارہ خطرہ پیدا ہوا۔ کہ بنی اسرائیل کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اسے کسی طرح کم کرنا چاہئے۔ چناچہ اس نے حکم دے دیا۔ کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہوئے پیدا ہوتے ہی قتل کردیا جائے۔ اور اگر لڑکی پیدا ہو تو اسے زندہ چھوڑ دیا جائے۔ لڑکیاں ہماری خدمت گزاری کے کام آسکیں گی۔ فرمایا “ وفی ذلکم بلاء من ربکم عصیم ” اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑا امتحان تھا۔ بنی اسرائیل کے لیے واقعہ یہ بہت بڑی آزمائش تھی۔ کہ اپنے سامنے بچوں کو ذبح کرا کر وہ کسی طرح اس امتحان میں کامیاب ہوتے ہیں۔ جب بنی اسرائیل اس امتحان میں کامیاب ہوئے ۔ ہمت اور حوصلہ نہ چھوڑا۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس ظلم سے نجات دے دی۔ فرعون کی غرقابی : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دوسرا بڑا احسان یہ جتلایا “ واذفرقنا بکم البحر فانجینکم ” اور جب ہم نے تمہارے لیے دریا کو پھاڑ دیا۔ اور تم کو نجات دی بنی اسرائیل جب ہجرت کرکے مصر آئے تھے تو اس وقت یعقوب (علیہ السلام) کے خاندان کے بہتر آدمی تھے۔ چار پانچ صدیوں کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے نکلے تو اس وقت بنی اسرائیل کی تعداد تقریباً چھ لاکھ ستر ہزار ہوچکی تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔ کہ میرے ان بندوں کو لے کر یہاں سے نکل چلیں۔ آپ نے اپنی قوم سے مشورہ کیا اور طے یہ پایا کہ بغیر اطلاع یہاں سے نکلنا درست نہیں بلکہ فرعون سے اجازت حاصل کر لینی چاہئے ۔ چناچہ انہوں نے فرعون سے اجازت طلب کی کہ ہم باہر کسی تقریب میں جانا چاہتے ہیں۔ اجازت مل گئی۔ انہوں نے فرعونیوں سے زیورات وغیرہ بھی حاصل کرلیے کہ ایک خاص تقریب میں شامل ہونا ہے۔ چناچہ بنی اسرائیل سفر پر روانہ ہوگئے۔ سارا دن گزر گیا۔ اگلی رات فرعونیوں کو احساس ہوا کہ کہیں بنی اسرائیل بالکل ہی چلے جائیں۔ ان کا پتا کرنا چاہئے۔ فرعون نے تعاقب کا حکم دے دیا۔ ایک دن لشکر کی تیاری میں گزر گیا۔ اور دوسری رات بھی گزر گئی۔ بنی اسرائیل مسلسل چلتے رہے۔ مصر سے مشرق کی جانب بحیرہ قلزم آتا ہے۔ اس کو عبور کرنے کے بعد صحرائے سینا آتا ہے۔ یہ بارہ کوس کی مسافت ہے تفسیری روائتوں میں آتا ہے (1 ۔ ) کہ فرعون کا لشکر بارہ لاکھ افراد پر مشتمل تھا۔ شاہ رفیع الدین (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر شاہ رفیع الدین ص 26 طبع 1272 ھ) کہ لشکری اور بازاری لوگ ملا کر کل نفری ساٹھ لاکھ کے قریب تھی۔ ادھر جب بنی اسرائیل بحیرہ قلزم کے کنارے پر پہنچے تو پتا چلا کہ پیچھے فرعون لشکر لے کر آرہا ہے بڑے گھبرائے کہ اب تو ہم پکڑے جائیں گے اور ہم میں سے ایک شخص بھی زندہ نہیں بچے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو تسلی دی کہ گھبراؤ مت “ ان معی ربی سیھدین ” بیشک میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ ضرور راہنمائی کرے گا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا “ ان اضرب بعصاک البحر ” یعنی اے موسیٰ اپنی لاٹھی سے سمندر میں بارہ جگہ ضرب لگاؤ ۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بارہ مقامات پر ضرب لگائی اور بارہ راستے سمندر میں بن گئے۔ بارہ کوس کے لمبے راستے میں پانی کی دیواریں کھڑی ہوگئیں۔ گویا پانی منجمد ہوگیا۔ اور ان بارہ راستوں کے درمیانی دیواروں میں کھڑکیاں بھی بن گئیں۔ تاکہ دوران سفر ایک قبیلے کے لوگ دوسرے قبیلے والوں کو دیکھ بھی سکیں۔ یہ سب کچھ معجزانہ طور پر ہوا جس کی تصریح قرآن پاک اور تفاسیر میں موجود ہے۔ مگر سرسید اور پرویزی فرقے اس کا انکار کرتے ہیں ۔ بہرحال تمام قبیلے اپنے اپنے راستوں پر روانہ ہوئے پیچھے سے فرعون کا لشکر بھی آپہنچا۔ انہوں نے دیکھا کہ پانی میں راستے بنے ہوئے ہیں اور بنی اسرائیل ان راستوں پر رواں دواں ہیں۔ فرعونی گھوڑے پر سوار تھے۔ مگر ان کے گھوڑے پانی میں اترنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو گھوڑی پر سوار کرکے بھیجا۔ آپ آگے چلے۔ گھوڑی کی بو سونگھ کر فرعون کا گھوڑا بھی پیچھے پیچھے چل پڑا (1 ۔ تفسیر خازان ج 1 ص 54 ، مضطری ج 1 ص 68 ، معالم التنزیل ج 1 ص 26) میکائیل (علیہ السلام) کا حکم ہوا۔ کہ فرعون کے سارے لشکر کو پیچھے لاؤ۔ چناچہ انہوں نے کہا کہ دیکھو بنی اسرائیل تمہارے ہاتھوں سے نکلے جا رہے ہیں۔ تعاقب کرکے ان کو پکڑ لو۔ چناچہ سارا لشکر پانی میں بنے ہوئے راستوں پر چل نکلا بنی اسرائیل بارہ کوس مسافت طے کر کے سمندر سے پار ہوگئے۔ اور فرعون کا سارا لشکر پانی میں بنے ہوئے راستوں کے درمیان آگیا۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا “ فغشیھم من انیم ما غشیھم ” پھر پانی کی موجوں نے انہیں اس طرح گھیرا کہ ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا۔ صرف فرعون کی لاش کو پانی نے عبرت کے لیے باہر پھینک دیا۔ اسی واقعہ کو یاد دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ واغرقنا ال فرعون ” ہم نے تمام فرعونیوں کو غرق کردیا “ وانتم تنضرون ” اور یہ سب کچھ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ میرے اس احسان کو یاد کرو۔ جب تمہارے لئے سمندر میں راستے بنا دیے جن کے ذریعے تم نے سمندر کو عبور کرلیا اور فرعونیوں سے نجات پالی۔ مگر اس پانی میں فرعون کے سارے لشکر کو تمہارے سامنے غرق کردیا۔ ان احسانات کو یاد دلانے کا مقصد یہ تھا کہ اب بھی اپنی برائیوں سے باز آجاؤ۔ اور اس دن سے ڈر جاؤ۔ جس دن نہ کوئی سفارش کام آئیگی اور نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا۔ اور جو کچھ میں نے تمہارے اوپر نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ۔
Top