Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا
: اور جب ہم نے وعدہ کیا
مُوْسَىٰ
: موسیٰ
اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً
: چالیس رات
ثُمَّ
: پھر
اتَّخَذْتُمُ
: تم نے بنا لیا
الْعِجْلَ
: بچھڑا
مِنْ بَعْدِهِ
: ان کے بعد
وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ
: اور تم ظالم ہوئے
اور اس وقت کو یاد کرو جب کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس رات کا وعدہ کیا۔ پھر تم نے اس کے بعد بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ اور تم ظلم کرنے والے تھے
نزول توراۃ : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر انعامات فرمائے ان کا ذکر مسلسل آرہا ہے ۔ فرعون کی غلامی سے نجات دلانے۔ دریا کو پھاڑ کر معجزانہ طور پر پانی میں راستے بنانا اور بنی اسرائیل کو بچانا اور پھر فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت وغیرہ کا ذکر آچکا ہے۔ اس درس میں بعض مزید انعامات کا تذکرہ ہے۔ منجملہ ان کے بنی اسرائیل کو کتاب اور شریعت عطا کرنا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ “ واذ وعدنا موسیٰ اربعین لیلۃ ” اس بات کو دھیان میں لاؤ جب کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ کوہ طور پر چالیس رات تک تنہائی میں اعتکاف کریں۔ قرآن پاک میں ہے کہ اصل وعدہ ایک مہینہ کا تھا۔ مگر بعد میں بڑھا کر چالیس رات کردیا گیا۔ وعدہ یہ تھا کہ مسلسل چالیس رات کے اعتکاف کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی جائے گی۔ اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے نجات حاصل کرچکے تھے “ وعدنا ” باب مناعلہ کا صیغہ ہے۔ اور اس کا معنی بھی “ وعدنا ” ہی ہوتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے عظیم اور جلیل القدر پیغمبر تھے نبی ، رسول اور صاحب شریعت تھے خدا تعالیٰ کے خلیفہ بی تھے لفظ موسیٰ عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ جسے عربی میں ڈھال لیا گیا ہے عبرانی زبان کا اصل لفظ میث تھا “ می ” کا معنی پانی اور شا کا معنی درخت ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بچپن میں پانی میں بہتے چلے آ رہے تھے۔ جب انہیں اٹھایا گیا۔ وہاں درخت بھی موجود تھے اس بنا پر آپ کا نام میشا اور پھر عربی میں موسیٰ بن گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے سولہ سو سال پہلے ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر مبارک ایکسوبیس سال تھی۔ اسی عمر میں یہ سارے واقعات پیش آئے۔ آپ کے والد کا نام عمران تھا آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے موسیٰ بن عمران بن بعہر بن فاہث بن لادی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم لادی (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ص 240) یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور عرف عام میں بڑا بیٹا ہی ریاست اور نیابت کا وارث ہوتا ہے اس لحاظ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو دونوں حیثیتیں حاصل تھیں۔ حقیقی ریاست یعنی نبوت بھی ان کو حاصل تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی اور رسول بنایا۔ اور عام ریاست یعنی نیابت بھی بڑا ہونے کی حیثیت سے آپ کو ہی حاصل تھی۔ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کو احساس ہوا۔ کہ وہ اب آزاد ہوچکے ہیں۔ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ چکی ہیں۔ لہٰذا ان کے پاس اپنا قانون ہونا چاہئے۔ جس سے وہ راہنمائی حاصل کریں۔ اور اس کے مطابق زندگی بسر کریں۔ چناچہ قوم کی خواہش پر موسیٰ (علیہ السلام) نے رب العزت کی بارگاہ میں عرض کی کہ ہمیں کوئی قانون عطا کیا جائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ۔ کہ طور پر آکر چالیس دن کا اعتکاب کرو تو تمہیں کتاب دی جائے گی۔ جو تمہارے لئے مکمل قانون ہوگی۔ تفسیر معالم التنزیل اور بعض دیگر تفاسیر میں یہ روایت بیان کی گئی ہے (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 278) ۔ کہ بنی اسرائیل بحر قلزم کو عبور کرکے صحرائے سینا میں وارد ہوئے اور انہوں نے چالیس سال میدان تیر میں گزارے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات بھی وہیں ہوئی۔ ہارون (علیہ السلام) بھی اسی مقام پر فوت ہوئے۔ تاریخ سے بھی یہ چیز ثابت ہے کہ چالیس سال تک بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ہی صحرا نوردی کرتے رہے۔ یہ لوگ مصر کی طرف نہیں کئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ کہ ارض مقدس پر حملہ کرو۔ وہاں پر تمہیں قبضہ دلایا جائے گا۔ مگر یہ لوگ اس کے لیے تیار نہ ہوئے ۔ چالیس سال بعد نئی نسل نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ارض مقدس پر حملہ کیا اور کامیاب ہوئے اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نائب حضرت یوشع (علیہ السلام) منصب نبوت پر فائز تھے۔ انبیائے بنی اسرائیل میں حضرت یوشع (علیہ السلام) کا ذکر آتا ہے۔ تو ان کے زمانے میں شام اور فلسطین پر بنی اسرائیل قابض ہوئے۔ اس زمانے میں اس علاقے میں قوم عمالقہ کی حکومت تھی۔ معالم التنزیل کی روایت سے معلوم ہوتا ہے (2 ۔ ) کہ بحر قلزم کو پار کرتے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے قوم کے کچھ آدمیوں کو مصر کی طرف بھی بھیجا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ وہاں کا انتظام کریں ۔ ایسا نہ ہو کہ چور ، ڈاکو ، قزاق ، مفسد وغیرہ ملک میں بدامنی پھیلائیں ۔ یہ بات اگرچہ عام روایتوں کے خلاف ہے تاہم اس بات کا امکان ہو سکتا ہے۔ کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بعض لوگوں کو وہاں بھیجا ہو۔ مگر آپ خود وہاں نہیں گئے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کوہ طور پر معتکف ہوئے تو وہاں سے اللہ تعالیٰ کی کتاب توراۃ ملی ۔ توراۃ کا لفظی معنی قانون ہے اور اس سے مراد قانون شریعت ہے۔ اپنے زمانے میں توارۃ بڑی عظیم المرتبت کتاب تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا۔ کہ ایسی کتاب عنایت کروں گا جس کی شریعت اور قانون قرنوں تک جاری رہے گا۔ آسمانی کتب میں سب سے اعلیٰ مرتبہ قرآن پاک کا ہے اور اس کے بعد توراۃ کا ۔ جس طرح قرآن پاک میں قانون فوجداری ، دیوانی ، اخلاق ، عبادات ، معاملات وغیرہ موجود ہیں۔ اسی طرح توراۃ میں بھی ہر قسم کے قوانین موجود ہیں۔ جس طرح توراۃ کا معنی قانون ہے۔ انجیل کا معنی بشارت ہے۔ زبور کا معنی صحیفہ ہے۔ اور ا س میں زیادہ تر دعائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن ہے۔ جس کا معنی پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ چناچہ آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن پاک ہی ہے۔ حکمت خاص نعمت ہے : مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 27 ، ابن کثیر ج 1 ص 91) کہ موسیٰ (علیہ السلام) ذوالقعدہ کی ابتداء میں کوہ طور پر معتکف ہوئے اور ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے توراۃ عطا کی۔ گویا پورا ماہ ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن آپ نے اعتکاف کیا۔ یہ چالیس دن کا بھی خاص اثر ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے (2 ۔ فیض القدیر شرح جامع صغیر ج 2 ص 43) “ من اخلص للہ اربعین یوما ظھرت ینابیع الحکمۃ من قلبہ علی لسانہ ” جس نے چالیس دن تک اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کیا۔ حکمت اسکے دل سے نکل کر اس کی زبان پر ظاہر ہوجائے گی۔ حکمت دانشوری کو کہتے ہیں اور یہ بڑی گہری بات ہے جسے نصیب ہوجائے “ ومن یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا ” جسے حکمت عطا کردی گئی۔ اسے خیر کثیر مل گئی دوسری جگہ فرمایا “ ولقد اتینا لقمن الحکمۃ ” ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی۔ یہ لقمان اللہ والے ایک بزرگ تھے۔ نبی نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی دانائی عطا کی تھی۔ تو مقصد یہ ہے کہ چالیس دن تک اخلاص برتنے سے حکمت زبان پر جاری ہوجائے گی۔ حدیث شریف کا یہ مطلب ہے۔ عدد چالیس کی حکمت : ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 229) “ خمس طین ادم اربعین صباحا ” یعنی آدم (علیہ السلام) کی بھی چالیس روز تک خمیر کی گئی اور پیدائش کے سلسلہ میں بھی آتا ہے کہ جب حمل قرار پاتا ہے تو چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے۔ اس کے بعد علقہ میں تبدیل ہوجاتا ہے اس کے چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے۔ پھر چالیس د ن بعد اس میں روح انسانی ڈالی جاتی ہے (1 ۔ مسلم ج 2 ص 232 ، بخاری ج 2 ص 976) اس سے پہلے روح حیوانی ہوتی ہے۔ صوفیائے کرام عام طور پر چالیس دن کا چلہ کرتے ہیں ۔ چالیس دن روزہ بھی رکھواتے ہیں۔ اور عبادت بھی کرواتے ہیں جس کا خاص اثر ہوتا ہے ۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ کا مشہور واقعہ ہے (2 ۔ ) کہ ایک خوبصورت عورت باجماعت نماز پڑھا کرتی تھی۔ کسی نوجوان کی نظر پڑی تو اس پر عاشق ہوگیا۔ اس نے عورت کو ملاقات کا پیغام بھیجا۔ وہ بھی سمجھ گئی۔ کہ یہ شخص فتنے میں مبتلا ہوگیا ہے۔ وہ عورت کامل الایمان تھی کہنے لگی کہ میں تجھے ملاقات کا موقع اس شرط پر دینے کو تیار ہوں کہ تم حضرت عمر ؓ کے پیچھے چالیس دن تک نماز ادا کرو۔ اور یہ اس حالت میں ہو کہ تمہاری تکبیر اولیٰ فوت نہ ہو۔ اس شخص نے اسے نہایت آسان کام سمجھتے ہوئے نماز باجماعت شروع کردی۔ ابھی بارہ روز ہی گزرے تھے کہ اس میں تغیر آنا شروع ہوگیا۔ جب چالیس دن مکمل ہوئے تو اس شخص کی کایا ہی پلٹ چکی تھی۔ اب اس عورت نے پیغام بھیجا کہ تمہاری شرط پوری ہوچکی ہے۔ تم آکر ملاقات کرسکتے ہو۔ نوجوان نے جواب بھیجا کہ اب میری ملاقات اللہ تعالیٰ سے ہوچکی ہے۔ تمہاری ملاقات کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ چالیس دن کے چلے کا اس نوجوان پر یہ اثر ہوا۔ اس کے بعد اس عورت نے اس واقعہ کا ذکر اپنے خاوند سے کیا۔ اور اس نے سارا واقعہ حضرت عمر ؓ کو سنا دیا۔ آپ نے فرمایا “ صدق اللہ تعالیٰ ” اللہ تعالیٰ نے بالکل سچ فرمایا “ ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر ” بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور پھر نماز بھی ایسی جو امیر المؤمنین ؓ کے پیچھے ادا کی گئی ہو سبحن اللہ اس کا کیا ہی اثر ہوگا۔ بہرحال چالیس کے عدد کا یہ خاص اثر ہے۔ بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی : جب موسیٰ (علیہ السلام) چالیس روز کے لیے کوہ طور پر معتکف ہوگئے “ ثم اتخذتم العجل من بعدہ ” تم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ “ وانتم ظلمون ” اور تم بڑے ظلم کرنے والے تھے۔ تم نے کچھ خیال نہ کیا۔ تمہارے پاس ایک پیغمبر بھی موجود تھے۔ مگر اس کے باوجود تم گوسالہ پرستی میں مبتلا ہوگئے۔ شرک میں ملوث ہوگئے۔ حالانکہ “ ان الشرک لظلم عظیم ” شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ دوسری جگہ فرمایا “ والکفرون ھم الظلمون ” کفر کرنے والے بہت بڑے ظالم ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے حق میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ اس کی صفات میں شرک کرتے ہیں۔ یا اس کی عبادت میں شریک ٹھہراتے ہیں۔ سورة طہٰ میں آتا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی سے منع کرتے رہے۔ انہوں نے ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن اس قوم نے کوئی بات نہ مانی۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 241) کہ گوسالہ پرستی ہر قوم میں پائی جاتی ہے۔ یہ مت سمجھو کہ صرف بچھڑے کی پوجا ہی مشرکانہ فعل ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی بھی پوجا کی جائے گی۔ وہ شرک ہی ہوگا۔ ترمذی شریف میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (2 ۔ تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 241) “ تعس عبد الدنیار ” تباہ ہو دینار کا بندہ تباہ ہو درہم کا بندہ تباہ ہو کمبل کا بندہ۔ “ ان اعطی رضی وان لم یعط سخط ” اگر اسے دے دیا جائے تو راضی ہوجاتا ہے۔ اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض ہوتا ہے۔ یہ دراصل درہم و دینار کی عبادت ہی تو ہے۔ اس کو بھی گوسالہ پرستی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ایک عام مقولہ ہے کہ جو چیز تجھے خدا تعالیٰ کی عبادت سے غافل کردیتی ہے ۔ وہ تیرا طاغوت ہے۔ مختلف قوموں کے ایک دوسرے پر اثرات : اس مقام پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ہارون (علیہ السلام) جیسے نبی کی موجودگی میں بنی اسرائیل گوسالہ پرستی میں کیسے مبتلا ہوگئے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (3 ۔ قصص القرآن ج 1 ص 442) کہ اس کی غالب وجہ یہ ہے کہ مصر میں صدیوں تک رہتے ہوئے بنی اسرائیل نے مصریوں کے اثرات قبول کرلیے تھے۔ مصری لوگ سانپ کی پوجا کرتے تھے۔ گائے کی پوجا کرتے تھے۔ اور سورج کی پوجا کرتے تھے۔ فرعون کا معنی ہی بڑا دیوتا ہے۔ اور یہ سورج کے نام پر بنایا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ مظاہر فدرت کی پوجا کرتے تھے۔ یہی چیز بنی اسرائیل میں بھی سرایت کرچکی تھی۔ لہٰذا انہوں نے بھی بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ اقوام عالم کے ایک دوسرے پر اثرات تاریخی طور پر ثابت ہیں۔ برصغیر کے مسلمان ہندوں کے آثار سے بہت متاثر ہوئے۔ ہندوؤں کی بہت سی رسمیں مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مرنے والے کا تیجا ، ساتواں ، چالیسواں وغیرہ ہندو وانہ رسوم ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کا ان رسموں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح بنی اسرائیل چونکہ مصریوں کے غلام تھے۔ لہٰذا مصریوں کے اثرات بنی اسرائیل میں بھی سرایت کر گئے۔ موجودہ زمانے میں دیکھ لیں جو قومیں انگریز کی غلامی میں رہی ہیں۔ وہ سب ان کی تہذیب و تمدن سے متاثر ہیں۔ مشرقی ممالک میں سے ایرانیوں ، ہندوستانیوں اور پاکستانیوں نے ان کا بڑا اثر قبول کیا ہے۔ یہی حال عربوں ، مصریوں اور شامیوں کا ہے۔ بعینہ مصریوں کی عادات بنی اسرائیل میں سرایت کو چکی تھیں۔ لہٰذا موقع ملتے ہی انہوں نے گوسالہ شرستی شروع کردی۔ مسئلہ حلول : بعض اسرائیلی حلول عقیدہ رکھتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز میں حلول کرجاتا ہے۔ اور اس شکل میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ جیسے ہندوؤں میں اوتار کا عقیدہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ فلاں کی شکل میں ظاہر ہوگیا ہے۔ یا فلاں جہنم میں اس نے ظہور کرلیا ہے۔ تو اسی قسم کے غلط عقیدہ کی بنا پر سامری بدبخت انہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جیس ا کہ قرآن میں موجود ہے۔ سامری نے کہا “ ھذا الھکم والہ موسیٰ ” یعنی تمہارا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا الٰہ یہی ہے اللہ تعالیٰ اس بچھڑے میں حلول کر آیا ہے۔ اور اس کی پوجا شروع کر دو ۔ بچھڑے نے بولنا تو شروع کر ہی دیا تھا۔ جہال قسم کے بنی اسرائیل سامری کی باتوں میں آگئے ۔ اور انہوں نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ باقی رہ ایہ سوال کہ سامری نے یہ کرشمہ کیسے ظاہر کردیا۔ تو یہ شخص میجک ماسٹر یا مداری یا جادوگر تھا۔ دو مختلف قسم کے ٹرک جانتا تھا۔ چناچہ اس نے چال بازی سے کام لیا۔ جب فرعون کا لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں بحیرہ قلزم پر پہنچا اور ان کے گھوڑے سمندر میں اترنے سے ہچکچائے تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو گھوڑی پر سوار کرکے بھیجا جو لشکر فرعون کے آگے آگے چل نکلی۔ سامری نے دیکھا کہ جس جگہ پر جبرائیل (علیہ السلام) کی گھوڑی کا پاؤں لگتا ہے وہاں فوراً سبزہ اُگ آتا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس میں کوئی کرشمہ ہے ، اس نے گھوڑی کے پاؤں والی جگہ کی تھوڑی سی مٹی محفوظ کرلی۔ وہ سنار تو تھا ہی اس نے سونے کا بچھڑا بنایا۔ اور اس کے منہ میں وہ مٹی رکھ دی ۔ جس کی وجہ سے بچھڑے نے بولنا شروع کردیا۔ چناچہ اس نے مشہور کردیا۔ کہ خدا تعالیٰ اس میں حلول کر آیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی : موسیٰ (علیہ السلام) چالیس روزہ اعتکاف کے بعد اللہ تعالٰٰ کی کتاب لے کر واپس آئے تو دیکھا کہ کئی لوگ شرک میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ آپ سخت ناراض ہوئے۔ مشرکین کو زجر کیا۔ اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے بھی بڑے ناراض ہوئے کہ آپ نے قوم کو شرک میں مبتلا ہونے سے کیوں نہ روکا۔ بھائی نے عذر پیش کیا کہ میرا قصور نہیں ہے۔ میں نے تو انہیں ہر چند شرک سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ مگر یہ تو میرے قتل کے درپے ہوگئے تھے ۔ “ وکادوا یقتلوننی ” یہ سارا واقعہ سورة اعراف میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر یہ لوگ آپ کی بات نہیں مانتے تھے تو آپ ان کو چھوڑ کر الگ ہوجاتے اس کے جواب میں ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ میں نے تفریق کو پسند نہ کیا۔ کہ آپ واپس آکر اعتراض کرتے کہ قوم کو دو ٹکڑوں میں کیوں تقسیم کردیا ان میں پارٹی بازی پیدا کردی ہے۔ لہٰذا میں نے انہیں کے درمیان رہتے ہوئے انہیں سمجھانے کی کوشش کی ۔ مگر ان بدبختوں نے میری بات نہ مانی۔ بچھڑے کے پجاریوں کا قتل عام : جب موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو خوب ڈانٹا تو وہ پشیمان ہوگئے۔ انہیں احساس ہوگیا کہ انہوں نے غلط کام کیا ہے۔ اور اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ تو عرض کیا کہ ہمارے اس جرم کا ازالہ کس طرح ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ ثم عفونا عنکم من بعد ذلک لعلکم تشکرون ” ہم نے تمہیں معاف کردیا۔ تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ تمہاری توبہ قبول کرلی مگر بڑے سخت طریقے سے جیسا کہ آگے آیت میں آتا ہے “ واذا اتینا موسیٰ الکتب والفرقان جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی۔ اور فرقان یعنی فیصلہ کن طاقت یا معجزات عطا کیے “ لعلکم تھتدون ” تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا “ واذ قال موسیٰ لقومہ یقوم انکم ظلمتم انفسکم ” اے میری قوم کے لوگو ! تم نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیا ہے۔ “ باتخاذکم العجل ” کہ ایک بچھڑے کو معبود بنا لیا ہے۔ “ فتوبوا الی بارئکم ” پس توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے اور یہ توبہ صدق دل سے ہونی چاہئے۔ محض زبانی توبہ قابل قبول نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کا طریق کا ر یہ متعین فرمایا کہ “ فاقتلوا انفسکم ” اپنی ہی جانوں کو قتل کرو۔ مقصد یہ تھا کہ جب لوگوں نے شرک کا ارتکاب نہیں کیا۔ وہ شرکوں کو قتل کردیں۔ اس کے بغیر توبہ قبول نہیں ہوگی فرمایا یہ بظاہر بہت بڑا امتحان ہے کہ تم خود ہی ایک دوسرے کو قتل کرو۔ مگر یاد رکھو “ ذلکم خیر لکم عند بارہکم ” یہ بات تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے۔ الغرض حضرت ہارون (علیہ السلام) اپنے ان بارہ ہزار ساتھیوں کو لے کر آگئے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا سے اجتناب کیا تھا اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے ، ان کے ہاتھوں میں برہنہ تلواریں تھیں۔ ہارون (علیہ السلام) ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوگئے۔ اور کہا (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 245) “ یامعاشر بنی اسرائیل ان اخوانکم اتوکم شاھرین سیوفھم یریدون ان یقتلوکم فاتقوا اللہ واصبروا ”۔ یعنی اے بنی اسرائیل کے گروہ۔ یہ تمہارے بھائی برہنہ تلواریں لیے تمہارے قتل کے لئے آئے ہیں لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ اپنے قتل میں مزاحم نہ ہونا۔ چناچہ ہارون (علیہ السلام) کے ہمراہیوں نے تلواریں چلانا شروع کردیں ان کے اپنے عزیز و اقارب مارے گئے۔ بیشمار لوگ قتل ہوئے۔ فرمایا جب یہ شرط پوری ہوگئی تو “ فتاب علیکم ” اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کرلی “ انہ ھو التواب الرحیم ” بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے تو بہ کی قبولیت کا فائدہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل قتل ہو کر آخرت کے دائمی عذاب سے بچ گئے ۔
Top