Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 51
وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ
وَاِذْ وَاعَدْنَا : اور جب ہم نے وعدہ کیا مُوْسَىٰ : موسیٰ اَرْبَعِیْنَ لَيْلَةً : چالیس رات ثُمَّ : پھر اتَّخَذْتُمُ : تم نے بنا لیا الْعِجْلَ : بچھڑا مِنْ بَعْدِهِ : ان کے بعد وَاَنْتُمْ ظَالِمُوْنَ : اور تم ظالم ہوئے
اور اس وقت کو یاد کرو جب کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس رات کا وعدہ کیا۔ پھر تم نے اس کے بعد بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ اور تم ظلم کرنے والے تھے
نزول توراۃ : اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر انعامات فرمائے ان کا ذکر مسلسل آرہا ہے ۔ فرعون کی غلامی سے نجات دلانے۔ دریا کو پھاڑ کر معجزانہ طور پر پانی میں راستے بنانا اور بنی اسرائیل کو بچانا اور پھر فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت وغیرہ کا ذکر آچکا ہے۔ اس درس میں بعض مزید انعامات کا تذکرہ ہے۔ منجملہ ان کے بنی اسرائیل کو کتاب اور شریعت عطا کرنا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ “ واذ وعدنا موسیٰ اربعین لیلۃ ” اس بات کو دھیان میں لاؤ جب کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا تھا۔ یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ کوہ طور پر چالیس رات تک تنہائی میں اعتکاف کریں۔ قرآن پاک میں ہے کہ اصل وعدہ ایک مہینہ کا تھا۔ مگر بعد میں بڑھا کر چالیس رات کردیا گیا۔ وعدہ یہ تھا کہ مسلسل چالیس رات کے اعتکاف کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی جائے گی۔ اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے۔ جب بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے نجات حاصل کرچکے تھے “ وعدنا ” باب مناعلہ کا صیغہ ہے۔ اور اس کا معنی بھی “ وعدنا ” ہی ہوتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے عظیم اور جلیل القدر پیغمبر تھے نبی ، رسول اور صاحب شریعت تھے خدا تعالیٰ کے خلیفہ بی تھے لفظ موسیٰ عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ جسے عربی میں ڈھال لیا گیا ہے عبرانی زبان کا اصل لفظ میث تھا “ می ” کا معنی پانی اور شا کا معنی درخت ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بچپن میں پانی میں بہتے چلے آ رہے تھے۔ جب انہیں اٹھایا گیا۔ وہاں درخت بھی موجود تھے اس بنا پر آپ کا نام میشا اور پھر عربی میں موسیٰ بن گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش سے سولہ سو سال پہلے ہوئے ہیں۔ آپ کی عمر مبارک ایکسوبیس سال تھی۔ اسی عمر میں یہ سارے واقعات پیش آئے۔ آپ کے والد کا نام عمران تھا آپ کا شجرہ نسب اس طرح ہے موسیٰ بن عمران بن بعہر بن فاہث بن لادی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم لادی (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پ 1 ص 240) یعقوب (علیہ السلام) کے سب سے بڑے بیٹے تھے اور عرف عام میں بڑا بیٹا ہی ریاست اور نیابت کا وارث ہوتا ہے اس لحاظ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو دونوں حیثیتیں حاصل تھیں۔ حقیقی ریاست یعنی نبوت بھی ان کو حاصل تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی اور رسول بنایا۔ اور عام ریاست یعنی نیابت بھی بڑا ہونے کی حیثیت سے آپ کو ہی حاصل تھی۔ فرعون کی غرقابی کے بعد بنی اسرائیل کو احساس ہوا۔ کہ وہ اب آزاد ہوچکے ہیں۔ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ چکی ہیں۔ لہٰذا ان کے پاس اپنا قانون ہونا چاہئے۔ جس سے وہ راہنمائی حاصل کریں۔ اور اس کے مطابق زندگی بسر کریں۔ چناچہ قوم کی خواہش پر موسیٰ (علیہ السلام) نے رب العزت کی بارگاہ میں عرض کی کہ ہمیں کوئی قانون عطا کیا جائے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ۔ کہ طور پر آکر چالیس دن کا اعتکاب کرو تو تمہیں کتاب دی جائے گی۔ جو تمہارے لئے مکمل قانون ہوگی۔ تفسیر معالم التنزیل اور بعض دیگر تفاسیر میں یہ روایت بیان کی گئی ہے (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 278) ۔ کہ بنی اسرائیل بحر قلزم کو عبور کرکے صحرائے سینا میں وارد ہوئے اور انہوں نے چالیس سال میدان تیر میں گزارے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات بھی وہیں ہوئی۔ ہارون (علیہ السلام) بھی اسی مقام پر فوت ہوئے۔ تاریخ سے بھی یہ چیز ثابت ہے کہ چالیس سال تک بنی اسرائیل صحرائے سینا میں ہی صحرا نوردی کرتے رہے۔ یہ لوگ مصر کی طرف نہیں کئے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا تھا۔ کہ ارض مقدس پر حملہ کرو۔ وہاں پر تمہیں قبضہ دلایا جائے گا۔ مگر یہ لوگ اس کے لیے تیار نہ ہوئے ۔ چالیس سال بعد نئی نسل نے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے ارض مقدس پر حملہ کیا اور کامیاب ہوئے اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے نائب حضرت یوشع (علیہ السلام) منصب نبوت پر فائز تھے۔ انبیائے بنی اسرائیل میں حضرت یوشع (علیہ السلام) کا ذکر آتا ہے۔ تو ان کے زمانے میں شام اور فلسطین پر بنی اسرائیل قابض ہوئے۔ اس زمانے میں اس علاقے میں قوم عمالقہ کی حکومت تھی۔ معالم التنزیل کی روایت سے معلوم ہوتا ہے (2 ۔ ) کہ بحر قلزم کو پار کرتے وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے قوم کے کچھ آدمیوں کو مصر کی طرف بھی بھیجا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ وہاں کا انتظام کریں ۔ ایسا نہ ہو کہ چور ، ڈاکو ، قزاق ، مفسد وغیرہ ملک میں بدامنی پھیلائیں ۔ یہ بات اگرچہ عام روایتوں کے خلاف ہے تاہم اس بات کا امکان ہو سکتا ہے۔ کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بعض لوگوں کو وہاں بھیجا ہو۔ مگر آپ خود وہاں نہیں گئے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کوہ طور پر معتکف ہوئے تو وہاں سے اللہ تعالیٰ کی کتاب توراۃ ملی ۔ توراۃ کا لفظی معنی قانون ہے اور اس سے مراد قانون شریعت ہے۔ اپنے زمانے میں توارۃ بڑی عظیم المرتبت کتاب تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا۔ کہ ایسی کتاب عنایت کروں گا جس کی شریعت اور قانون قرنوں تک جاری رہے گا۔ آسمانی کتب میں سب سے اعلیٰ مرتبہ قرآن پاک کا ہے اور اس کے بعد توراۃ کا ۔ جس طرح قرآن پاک میں قانون فوجداری ، دیوانی ، اخلاق ، عبادات ، معاملات وغیرہ موجود ہیں۔ اسی طرح توراۃ میں بھی ہر قسم کے قوانین موجود ہیں۔ جس طرح توراۃ کا معنی قانون ہے۔ انجیل کا معنی بشارت ہے۔ زبور کا معنی صحیفہ ہے۔ اور ا س میں زیادہ تر دعائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن ہے۔ جس کا معنی پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ چناچہ آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب قرآن پاک ہی ہے۔ حکمت خاص نعمت ہے : مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 27 ، ابن کثیر ج 1 ص 91) کہ موسیٰ (علیہ السلام) ذوالقعدہ کی ابتداء میں کوہ طور پر معتکف ہوئے اور ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے توراۃ عطا کی۔ گویا پورا ماہ ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن آپ نے اعتکاف کیا۔ یہ چالیس دن کا بھی خاص اثر ہوتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے (2 ۔ فیض القدیر شرح جامع صغیر ج 2 ص 43) “ من اخلص للہ اربعین یوما ظھرت ینابیع الحکمۃ من قلبہ علی لسانہ ” جس نے چالیس دن تک اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کیا۔ حکمت اسکے دل سے نکل کر اس کی زبان پر ظاہر ہوجائے گی۔ حکمت دانشوری کو کہتے ہیں اور یہ بڑی گہری بات ہے جسے نصیب ہوجائے “ ومن یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا ” جسے حکمت عطا کردی گئی۔ اسے خیر کثیر مل گئی دوسری جگہ فرمایا “ ولقد اتینا لقمن الحکمۃ ” ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی۔ یہ لقمان اللہ والے ایک بزرگ تھے۔ نبی نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی دانائی عطا کی تھی۔ تو مقصد یہ ہے کہ چالیس دن تک اخلاص برتنے سے حکمت زبان پر جاری ہوجائے گی۔ حدیث شریف کا یہ مطلب ہے۔ عدد چالیس کی حکمت : ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے (3 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 229) “ خمس طین ادم اربعین صباحا ” یعنی آدم (علیہ السلام) کی بھی چالیس روز تک خمیر کی گئی اور پیدائش کے سلسلہ میں بھی آتا ہے کہ جب حمل قرار پاتا ہے تو چالیس دن تک نطفہ رہتا ہے۔ اس کے بعد علقہ میں تبدیل ہوجاتا ہے اس کے چالیس دن بعد گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے۔ پھر چالیس د ن بعد اس میں روح انسانی ڈالی جاتی ہے (1 ۔ مسلم ج 2 ص 232 ، بخاری ج 2 ص 976) اس سے پہلے روح حیوانی ہوتی ہے۔ صوفیائے کرام عام طور پر چالیس دن کا چلہ کرتے ہیں ۔ چالیس دن روزہ بھی رکھواتے ہیں۔ اور عبادت بھی کرواتے ہیں جس کا خاص اثر ہوتا ہے ۔ حضرت عمر ؓ کے زمانہ کا مشہور واقعہ ہے (2 ۔ ) کہ ایک خوبصورت عورت باجماعت نماز پڑھا کرتی تھی۔ کسی نوجوان کی نظر پڑی تو اس پر عاشق ہوگیا۔ اس نے عورت کو ملاقات کا پیغام بھیجا۔ وہ بھی سمجھ گئی۔ کہ یہ شخص فتنے میں مبتلا ہوگیا ہے۔ وہ عورت کامل الایمان تھی کہنے لگی کہ میں تجھے ملاقات کا موقع اس شرط پر دینے کو تیار ہوں کہ تم حضرت عمر ؓ کے پیچھے چالیس دن تک نماز ادا کرو۔ اور یہ اس حالت میں ہو کہ تمہاری تکبیر اولیٰ فوت نہ ہو۔ اس شخص نے اسے نہایت آسان کام سمجھتے ہوئے نماز باجماعت شروع کردی۔ ابھی بارہ روز ہی گزرے تھے کہ اس میں تغیر آنا شروع ہوگیا۔ جب چالیس دن مکمل ہوئے تو اس شخص کی کایا ہی پلٹ چکی تھی۔ اب اس عورت نے پیغام بھیجا کہ تمہاری شرط پوری ہوچکی ہے۔ تم آکر ملاقات کرسکتے ہو۔ نوجوان نے جواب بھیجا کہ اب میری ملاقات اللہ تعالیٰ سے ہوچکی ہے۔ تمہاری ملاقات کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ چالیس دن کے چلے کا اس نوجوان پر یہ اثر ہوا۔ اس کے بعد اس عورت نے اس واقعہ کا ذکر اپنے خاوند سے کیا۔ اور اس نے سارا واقعہ حضرت عمر ؓ کو سنا دیا۔ آپ نے فرمایا “ صدق اللہ تعالیٰ ” اللہ تعالیٰ نے بالکل سچ فرمایا “ ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر ” بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور پھر نماز بھی ایسی جو امیر المؤمنین ؓ کے پیچھے ادا کی گئی ہو سبحن اللہ اس کا کیا ہی اثر ہوگا۔ بہرحال چالیس کے عدد کا یہ خاص اثر ہے۔ بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی : جب موسیٰ (علیہ السلام) چالیس روز کے لیے کوہ طور پر معتکف ہوگئے “ ثم اتخذتم العجل من بعدہ ” تم نے موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بچھڑے کو معبود بنا لیا۔ “ وانتم ظلمون ” اور تم بڑے ظلم کرنے والے تھے۔ تم نے کچھ خیال نہ کیا۔ تمہارے پاس ایک پیغمبر بھی موجود تھے۔ مگر اس کے باوجود تم گوسالہ پرستی میں مبتلا ہوگئے۔ شرک میں ملوث ہوگئے۔ حالانکہ “ ان الشرک لظلم عظیم ” شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ دوسری جگہ فرمایا “ والکفرون ھم الظلمون ” کفر کرنے والے بہت بڑے ظالم ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے حق میں دخل اندازی کرتے ہیں۔ اس کی صفات میں شرک کرتے ہیں۔ یا اس کی عبادت میں شریک ٹھہراتے ہیں۔ سورة طہٰ میں آتا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو گوسالہ پرستی سے منع کرتے رہے۔ انہوں نے ہر طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن اس قوم نے کوئی بات نہ مانی۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 241) کہ گوسالہ پرستی ہر قوم میں پائی جاتی ہے۔ یہ مت سمجھو کہ صرف بچھڑے کی پوجا ہی مشرکانہ فعل ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے سوا جس کی بھی پوجا کی جائے گی۔ وہ شرک ہی ہوگا۔ ترمذی شریف میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (2 ۔ تفسیر عزیزی پارہ 1 ص 241) “ تعس عبد الدنیار ” تباہ ہو دینار کا بندہ تباہ ہو درہم کا بندہ تباہ ہو کمبل کا بندہ۔ “ ان اعطی رضی وان لم یعط سخط ” اگر اسے دے دیا جائے تو راضی ہوجاتا ہے۔ اور اگر نہ دیا جائے تو ناراض ہوتا ہے۔ یہ دراصل درہم و دینار کی عبادت ہی تو ہے۔ اس کو بھی گوسالہ پرستی سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ ایک عام مقولہ ہے کہ جو چیز تجھے خدا تعالیٰ کی عبادت سے غافل کردیتی ہے ۔ وہ تیرا طاغوت ہے۔ مختلف قوموں کے ایک دوسرے پر اثرات : اس مقام پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ہارون (علیہ السلام) جیسے نبی کی موجودگی میں بنی اسرائیل گوسالہ پرستی میں کیسے مبتلا ہوگئے۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (3 ۔ قصص القرآن ج 1 ص 442) کہ اس کی غالب وجہ یہ ہے کہ مصر میں صدیوں تک رہتے ہوئے بنی اسرائیل نے مصریوں کے اثرات قبول کرلیے تھے۔ مصری لوگ سانپ کی پوجا کرتے تھے۔ گائے کی پوجا کرتے تھے۔ اور سورج کی پوجا کرتے تھے۔ فرعون کا معنی ہی بڑا دیوتا ہے۔ اور یہ سورج کے نام پر بنایا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ مظاہر فدرت کی پوجا کرتے تھے۔ یہی چیز بنی اسرائیل میں بھی سرایت کرچکی تھی۔ لہٰذا انہوں نے بھی بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ اقوام عالم کے ایک دوسرے پر اثرات تاریخی طور پر ثابت ہیں۔ برصغیر کے مسلمان ہندوں کے آثار سے بہت متاثر ہوئے۔ ہندوؤں کی بہت سی رسمیں مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مرنے والے کا تیجا ، ساتواں ، چالیسواں وغیرہ ہندو وانہ رسوم ہیں۔ ورنہ مسلمانوں کا ان رسموں سے کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح بنی اسرائیل چونکہ مصریوں کے غلام تھے۔ لہٰذا مصریوں کے اثرات بنی اسرائیل میں بھی سرایت کر گئے۔ موجودہ زمانے میں دیکھ لیں جو قومیں انگریز کی غلامی میں رہی ہیں۔ وہ سب ان کی تہذیب و تمدن سے متاثر ہیں۔ مشرقی ممالک میں سے ایرانیوں ، ہندوستانیوں اور پاکستانیوں نے ان کا بڑا اثر قبول کیا ہے۔ یہی حال عربوں ، مصریوں اور شامیوں کا ہے۔ بعینہ مصریوں کی عادات بنی اسرائیل میں سرایت کو چکی تھیں۔ لہٰذا موقع ملتے ہی انہوں نے گوسالہ شرستی شروع کردی۔ مسئلہ حلول : بعض اسرائیلی حلول عقیدہ رکھتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز میں حلول کرجاتا ہے۔ اور اس شکل میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ جیسے ہندوؤں میں اوتار کا عقیدہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ فلاں کی شکل میں ظاہر ہوگیا ہے۔ یا فلاں جہنم میں اس نے ظہور کرلیا ہے۔ تو اسی قسم کے غلط عقیدہ کی بنا پر سامری بدبخت انہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ جیس ا کہ قرآن میں موجود ہے۔ سامری نے کہا “ ھذا الھکم والہ موسیٰ ” یعنی تمہارا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا الٰہ یہی ہے اللہ تعالیٰ اس بچھڑے میں حلول کر آیا ہے۔ اور اس کی پوجا شروع کر دو ۔ بچھڑے نے بولنا تو شروع کر ہی دیا تھا۔ جہال قسم کے بنی اسرائیل سامری کی باتوں میں آگئے ۔ اور انہوں نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی۔ باقی رہ ایہ سوال کہ سامری نے یہ کرشمہ کیسے ظاہر کردیا۔ تو یہ شخص میجک ماسٹر یا مداری یا جادوگر تھا۔ دو مختلف قسم کے ٹرک جانتا تھا۔ چناچہ اس نے چال بازی سے کام لیا۔ جب فرعون کا لشکر بنی اسرائیل کے تعاقب میں بحیرہ قلزم پر پہنچا اور ان کے گھوڑے سمندر میں اترنے سے ہچکچائے تو اللہ تعالیٰ نے جبرئیل (علیہ السلام) کو گھوڑی پر سوار کرکے بھیجا جو لشکر فرعون کے آگے آگے چل نکلی۔ سامری نے دیکھا کہ جس جگہ پر جبرائیل (علیہ السلام) کی گھوڑی کا پاؤں لگتا ہے وہاں فوراً سبزہ اُگ آتا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس میں کوئی کرشمہ ہے ، اس نے گھوڑی کے پاؤں والی جگہ کی تھوڑی سی مٹی محفوظ کرلی۔ وہ سنار تو تھا ہی اس نے سونے کا بچھڑا بنایا۔ اور اس کے منہ میں وہ مٹی رکھ دی ۔ جس کی وجہ سے بچھڑے نے بولنا شروع کردیا۔ چناچہ اس نے مشہور کردیا۔ کہ خدا تعالیٰ اس میں حلول کر آیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی واپسی : موسیٰ (علیہ السلام) چالیس روزہ اعتکاف کے بعد اللہ تعالٰٰ کی کتاب لے کر واپس آئے تو دیکھا کہ کئی لوگ شرک میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ آپ سخت ناراض ہوئے۔ مشرکین کو زجر کیا۔ اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) سے بھی بڑے ناراض ہوئے کہ آپ نے قوم کو شرک میں مبتلا ہونے سے کیوں نہ روکا۔ بھائی نے عذر پیش کیا کہ میرا قصور نہیں ہے۔ میں نے تو انہیں ہر چند شرک سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ مگر یہ تو میرے قتل کے درپے ہوگئے تھے ۔ “ وکادوا یقتلوننی ” یہ سارا واقعہ سورة اعراف میں موجود ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ اگر یہ لوگ آپ کی بات نہیں مانتے تھے تو آپ ان کو چھوڑ کر الگ ہوجاتے اس کے جواب میں ہارون (علیہ السلام) نے کہا کہ میں نے تفریق کو پسند نہ کیا۔ کہ آپ واپس آکر اعتراض کرتے کہ قوم کو دو ٹکڑوں میں کیوں تقسیم کردیا ان میں پارٹی بازی پیدا کردی ہے۔ لہٰذا میں نے انہیں کے درمیان رہتے ہوئے انہیں سمجھانے کی کوشش کی ۔ مگر ان بدبختوں نے میری بات نہ مانی۔ بچھڑے کے پجاریوں کا قتل عام : جب موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو خوب ڈانٹا تو وہ پشیمان ہوگئے۔ انہیں احساس ہوگیا کہ انہوں نے غلط کام کیا ہے۔ اور اپنے آپ پر ظلم کیا ہے۔ تو عرض کیا کہ ہمارے اس جرم کا ازالہ کس طرح ممکن ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ ثم عفونا عنکم من بعد ذلک لعلکم تشکرون ” ہم نے تمہیں معاف کردیا۔ تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ تمہاری توبہ قبول کرلی مگر بڑے سخت طریقے سے جیسا کہ آگے آیت میں آتا ہے “ واذا اتینا موسیٰ الکتب والفرقان جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی۔ اور فرقان یعنی فیصلہ کن طاقت یا معجزات عطا کیے “ لعلکم تھتدون ” تاکہ تم ہدایت پاجاؤ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا “ واذ قال موسیٰ لقومہ یقوم انکم ظلمتم انفسکم ” اے میری قوم کے لوگو ! تم نے اپنی جانوں پر بڑا ظلم کیا ہے۔ “ باتخاذکم العجل ” کہ ایک بچھڑے کو معبود بنا لیا ہے۔ “ فتوبوا الی بارئکم ” پس توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے اور یہ توبہ صدق دل سے ہونی چاہئے۔ محض زبانی توبہ قابل قبول نہ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ کا طریق کا ر یہ متعین فرمایا کہ “ فاقتلوا انفسکم ” اپنی ہی جانوں کو قتل کرو۔ مقصد یہ تھا کہ جب لوگوں نے شرک کا ارتکاب نہیں کیا۔ وہ شرکوں کو قتل کردیں۔ اس کے بغیر توبہ قبول نہیں ہوگی فرمایا یہ بظاہر بہت بڑا امتحان ہے کہ تم خود ہی ایک دوسرے کو قتل کرو۔ مگر یاد رکھو “ ذلکم خیر لکم عند بارہکم ” یہ بات تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے۔ الغرض حضرت ہارون (علیہ السلام) اپنے ان بارہ ہزار ساتھیوں کو لے کر آگئے جنہوں نے بچھڑے کی پوجا سے اجتناب کیا تھا اور دوسروں کو بھی منع کرتے تھے ، ان کے ہاتھوں میں برہنہ تلواریں تھیں۔ ہارون (علیہ السلام) ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوگئے۔ اور کہا (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 245) “ یامعاشر بنی اسرائیل ان اخوانکم اتوکم شاھرین سیوفھم یریدون ان یقتلوکم فاتقوا اللہ واصبروا ”۔ یعنی اے بنی اسرائیل کے گروہ۔ یہ تمہارے بھائی برہنہ تلواریں لیے تمہارے قتل کے لئے آئے ہیں لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ اپنے قتل میں مزاحم نہ ہونا۔ چناچہ ہارون (علیہ السلام) کے ہمراہیوں نے تلواریں چلانا شروع کردیں ان کے اپنے عزیز و اقارب مارے گئے۔ بیشمار لوگ قتل ہوئے۔ فرمایا جب یہ شرط پوری ہوگئی تو “ فتاب علیکم ” اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کرلی “ انہ ھو التواب الرحیم ” بیشک وہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے تو بہ کی قبولیت کا فائدہ یہ ہوا کہ بنی اسرائیل قتل ہو کر آخرت کے دائمی عذاب سے بچ گئے ۔
Top