Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 55
وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ
وَاِذْ قُلْتُمْ : اور جب تم نے کہا يَا مُوْسَىٰ : اے موسٰی لَنْ : ہرگز نُؤْمِنَ : ہم نہ مانیں گے لَکَ : تجھے حَتَّىٰ : جب تک نَرَى اللہ : اللہ کو ہم دیکھ لیں جَهْرَةً : کھلم کھلا فَاَخَذَتْكُمُ : پھر تمہیں آلیا الصَّاعِقَةُ : بجلی کی کڑک وَاَنْتُمْ : اور تم تَنْظُرُوْنَ : دیکھ رہے تھے
اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ! ہم ہرگز تیری تصدیق نہیں کریں گے یہاں تک کہ ہم دیکھ لیں اللہ کو ظاہر ۔ پس پکڑ لیا تم کو بجلی نے اور تم دیکھ رہے تھے
ربط آیات : بنی اسرائیل کی خرابیوں اور ان کی سرکشی کا ذکر آچکا ہے اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر جو انعامات کیے ان کا ذکر بھی ہوگیا ہے۔ گزشتہ درس میں بیان ہوا تھا۔ “ واذ اتینا موسیٰ الکتب والفرقان ” یعنی اس وقت کو دھیان میں لاؤ جب ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور فیصلہ کن بات عنایت کی۔ اس کے لیے خود بنی اسرائیل کے لوگوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ان کے لیے کوئی ضابطہ حیات ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر اعتکاف بیٹھنے کی ہدایت کی اور تکمیل اعتکاف پر اللہ تعالیٰ نے توراۃ عطا فرمائی ۔ رؤیت اعلیٰ کی خواہش : موسیٰ (علیہ السلام) کتاب توراۃ لے کر قوم کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے یہ ضابطہ حیات دیا ہے۔ قوم نے کہا کہ ہمیں پڑھ کر سنائیے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کتاب کو پڑھنا شروع کیا۔ تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے پاس کیا ثبوت ہے۔ کہ یہ کتاب واقعی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے۔ یا آپ خود بنا لائے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرکے بنی اسرائیل کو خطاب ہے “ واذا قلتم یموسی ” اور اس وقت کو یاد کرو ۔ جب تم نے کہا اے موسیٰ “ لن نؤمن لک ” ہم ہرگز آپ کی بات کی تصدیق نہیں کریں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ کتاب ہے۔ “ حتی نری اللہ جھرۃ ” یہاں تک ہم خود اللہ تعالیٰ کو ظاہری طور پر نہ دیکھ لیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا۔ چلو تمہاری یہ شرط بھی پوری ہوگی۔ آپ نے ستر آدمی منتخب کیے۔ کہ میرے ساتھ طور پر چلو۔ وہاں میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے براہ راست سنوا دوں گا کہ یہ کتاب اسی نے نازل کی ہے ۔ تو یہ طور پر چلنے کے لیے تیار ہوگئی آپ نے ہر قبیلے سے چھ چھ آدمی نکالے۔ بارہ قبیلوں کے ستر آدمی جمع ہوئے۔ ان میں دو آدمی حضرت یوشع اور قلب کہنے لگے کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے لہٰذا ہمیں طور پر جانے کی ضرورت نہیں۔ چونکہ ان دو آدمیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کی اس لیے اللہ تعالیٰ نے بعد میں انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) باقی ستر آدمیوں کو لے کر طور پر پہنچے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کیا کہ ہاں یہ کتاب میں نے ہی دی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی بات سننے کے باوجود یہ لوگ ایمان نہ لائے۔ بعض مفسرین کرام کہتے ہیں (1 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 28 ، ابن کثیر ج 1 ص 94) کہ جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی تھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان میں سے ستر آدمی کو منتخب کیا۔ کہ کوہ طور پر جاکر اللہ تعالیٰ سے اس فعل شنیع کی معافی طلب کریں۔ وہاں پر اللہ تعالیٰ کا کلام سننے کے بعد ان لوگوں نے یہ بےادبی کی کہ اے موسیٰ ! ہم ہرگز تیری تصدیق نہیں کریں گے۔ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو ظاہراً نہ دیکھ لیں اس پاداش میں اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی۔ جس کا ذکر آگے آتا ہے۔ بنی اسرائیل کو سزا : تفسیری روایات اور بائیبل کی ہدایات کے مطابق جب ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کا کلام بالمشافہ سننے کے بعد بھی توراۃ کو کتاب الٰہی تسلیم نہ کیا “ فاخذتکم الصعقۃ ” تو انہیں بجلی نے پکڑ لیا۔ ان کی سرکشی کی یہ سزا دی گئی کہ یکدم بجلی چمکی اور سب کو فنا کرگئی۔ کہتے ہیں کہ بجلی دراصل عالم مثال کا حجاب نوری یا ناری تھا۔ جس کی چمک ظاہر ہوئی تھی۔ اور جو ان لوگوں کی تباہی کا باعث بنی۔ بنی اسرائیل کو یاد دلایا گیا۔ کہ یہ سارا واقعہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ “ وانتم تنظرون ”۔ رویت الٰہی اس جہاں میں ممکن نہیں : بنی اسرائیل کی رؤیت الٰہی کی شرط قابل قبول نہیں تھی۔ کیونکہ اس جہاں میں کسی شخص کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں ہے۔ جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کرسکے اس مادی جہان کے بعد جب اگلے جہان میں پہنچیں گے تو وہاں پر یہی نگاہیں اتنی طاقتور ہوجائیں گی کہ ان میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی حضور ﷺ کا فرمان ہے (1 ۔ جامع صغیر مع شرح فیض القدیر ج 2 ص 557) “ انکم لن تروا ربکم عزوجل حق تصولوا ” تم مرے بغیر اپنے رب کو نہیں دیکھ سکتے۔ چناچہ قیامت کے بعد جنت میں پہنچ کر اللہ تعالیٰ کی روایت تمام محدثین اور فقہاء کے نزدیک بالاتفاق ثابت ہے۔ وہاں پر اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا۔ قرآن پاک میں موجود ہے “ وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ ” کئی چہرے ان دن تروتازہ ہوں گے۔ اور اپنے رب کا دیدار کرنے والے ہوں گے۔ مگر یہ سب اگلے جہان کی بات ہے۔ اس جہاں کے کثیف اعضاء میں یہ طاقت نہیں ہے۔ کہ وہ زیارت الٰہی سے مشرف ہوں۔ بلکہ اگلے جہاں کے لطیف اعضاء میں اللہ تعالیٰ یہ صلاحیت پیدا فرما دیں گے ۔ اللہ تعالیٰ کی روئیت کا انکار بعض گمراہ فرقے مثلاً راقضی ، معتزلہ اور خارجی وغیرہ کرتے ہیں۔ جن کا اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نہ اس دنیا میں ممکن ہے اور نہ اگلے جہان میں دلیل ان کی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لامکان ہے ۔ جہت اور سمت سے بھی پاک ہے۔ اور روئیت کسی مکان اور سمت میں ہی ممکن ہے۔ دائیں ، بائیں ، اوپر ، نیچے وغیرہ لہٰذا اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن نہیں محدثین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رؤیت قرآن و سنت سے ثابت ہے مگر اس رؤیت کی کیفیت کوئی نہیں بتا سکتا۔ یہ بےکیف رؤیت ہوگی اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ انسان میں ایسی صلاحیت پیدا کردے کہ اسے بےکیف رؤیت الٰہی نصیب ہوجائے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ حجۃ اللہ البالغہ ج 1 ص 65) کہ رؤیت تو یقیناً ہوگی مگر “ لاتدر کہ الابصار ، وھو یدرک الابصارۃ ” انسانی آنکھیں اس کو نہیں پاسکتیں مگر وہ آنکھوں کو پالیتا ہے۔ یہاں یہ کیفیت ہے۔ مگر وہاں کیا ہوگا۔ وہاں تو تجلیات ہوں گی اور علی قدر المراتب ہوں گی۔ وہاں ذاتی اور صفاتی دونوں قسم کی تجلیات ہوں گی۔ جن میں انسان دیکھے گا خدا تعالیٰ کی رؤیت اس طریقے سے ہوگی۔ مگر یہ اس جہاں میں ممکن نہیں۔ آگے سورة اعراف میں موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ آتا ہے جب انہوں نے اللہ تعالیٰ سے کلام کیا تو انہیں رؤیت کا اشتیاق بھی پیدا ہوا۔ عرض کیا “ رب ارنی انظر الیک ” مولا کریم میں تجھے ایک نظر دیکھنا چاہتا ہوں۔ حکم ہوا “ لن ترنی ” تم نہیں دیکھ سکتے فرمایا پہاڑ کی طرف دیکو۔ “ فان استقر مکانہ فسوف ترنی ” اگر یہ پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہ گیا تو پھر شائد تم بھی مجھے دیکھ سکو۔ “ فلما تجلی ربہ للجبال ” جب اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر تھوڑی سی تجلی ڈالی۔ “ حملہ دکا ” پہاڑ ریزے ریزے ہوگیا “ وخر موسیٰ صعقا ” اور موسیٰ (علیہ السلام) بیہوش ہر کر گر پڑے۔ پھر جب ہوش میں آئے تو کہنے لگے “ تبت الیک ” مولا کریم ! میں توبہ کرتا ہوں میری درخواست درست نہیں تھی۔ فرمایا “ فخذ ما اتینک ” اے موسیٰ ! جو میں تمہیں دے دوں اسی پر اکتفا کرو۔ “ ولکن من الشکرین ” اور شکر گزار بن جاؤ۔ مقصد یہ کہ رؤیت الٰہی اس جہان میں ممکن نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے۔ جسے بدلا نہیں جاسکتا۔ حضور ﷺ نے معراج کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا تھا یا نہیں۔ اس میں مختلف آراء ہیں۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ دیدار کیا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر مظہری ج 9 ص 109 ، 112 ، الخیر الکثیر ص 177 ، مکتبہ رحیمیہ اکوڑہ خٹک پشاور) کہ حضور ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا۔ مگر عالم بالا میں کیا۔ اس مادی جہاں میں نہیں کیا عالم بالا میں رؤیت کے وقت تو حضور ﷺ خطیرہ القدس میں پہنچے ہوئے تھے۔ وہاں تو رؤیت یقیناً ہوگی ۔ بنی اسرائیل کو ہلاک کرنا اور دوبارہ زندہ کرنا : الغرض جب بنی اسرائیل نے یہ بےادبی کہ ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس کتاب پر ایمان نہیں لائیں گے۔ تو اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوا ۔ بجلی پڑی اور ستر کے ستر آدمی ہلاک ہوگئے۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کو ایک اور پریشانی لاحق ہوگئی جیسا کہ سورة اعراف میں آیا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت عاجزی کے ساتھ بارگاہِ رب العزت میں دعا کی ۔ مولا کریم ! اگر تو چاہتا تو مجھے بھی ہلاک کردیتا۔ تو ان اسرائیلیوں کو اس سے پہلے بھی ہلاک کرسکتا تھا۔ یہ بیوقوف ہیں ۔ ان کی وجہ سے میری ذات پر کوئی حرف نہ آئے اگر میں واپس قوم میں اکیلا جاؤں گا تو وہ کہیں گے کہ ہمارے آدمی لے جا کر مروا دیے۔ اے مولا کریم ! مہربانی فرما نتیجہ یہ ہوا ۔ کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ اور فرمایا “ ثم بعثنکم من بعد موتکم ” پھر ہم نے تمہاری موت کے بعد تمہیں اٹھایا۔ صریح لفظ موجود ہیں۔ وہ لوگ مرچکے تھے۔ موت کے بعد انہیں زندہ کیا۔ بعض توجیہہ کرتے ہیں ۔ کہ مرے نہیں تھے۔ بلکہ سکتہ پڑگیا تھا ۔ پھر ہوش میں آگئے۔ یہ بات درست نہیں۔ “ موتکم ” سے واضح ہے کہ ان لوگوں کی موت واقع ہوگئی تھی۔ اور پھر تفسیری روایتوں میں یہ بھی آتا ہے (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 93) کہ ان کی زندگی سر کی طرف سے شروع ہوئی وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے جسم کا باقی حصہ راکھ ہوچکا ہے۔ پھر اس میں زندگی کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے۔ اور پھر وہ پورے کے پورے زندہ ہوگئے۔ یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ فرمایا یہ اس واسطے کیا “ لعلکم تشکرون ” تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔ قرآن پاک میں حضرت عزیز (علیہ السلام) کا واقعہ بھی اسی قسم کا ہے۔ جب عزیزی (علیہ السلام) سو سال کے بعد اٹھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ کم لبثت ” تم کتنے دن سوئے رہے۔ عرض کیا “ لبثت یوما اور بعض یوم ” ایک دن یا اس کا کچھ حصہ سویا ہوں ۔ فرمایا “ بل لبثت مائۃ عام ” تم تو سو سال تک سوئے رہے اتنا عرصہ گزر گیا۔ اس دوران تمہارا گدھا فنا ہوگیا۔ اس کی ہڈیاں چورا چورا ہوگئیں۔ اب دیکھو اس کی ہڈیوں کو ہم کیسے اکٹھا کرتے ہیں ۔ پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں اور زندگی بخشتے ہیں۔ برخلاف اس کے کھانا جلد خراب ہوجانے والی چیز ہے۔ مگر وہ بالکل تازہ پاس پڑا ہے ۔ “ لم یتسنہ ” وہ گلا سڑا نہیں۔ آخر میں فرمایا “ اعلم ان اللہ علی کل شیء قدیر ” میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ قادر مطلق ہے۔ وہ جس طرح چاہے اور جب چاہے کرسکتا ہے۔ الغرض ! ان ستر آدمیوں کو اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد دوبارہ زندگی دی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔ ان لوگوں نے دوبارہ زندہ ہو کر اقرار کیا۔ کہ ہم ہی غلطی پر تھے۔ ہمیں ایسی گستاخی نہیں کرنی چاہئے تھی کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ کرتے اس کے بعد انہوں نے قوم میں آکر گواہی دی۔ کہ بیشک ہم نے خدا تعالیٰ کا کلام سنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی ہے۔ اے بنی اسرائیل ! اس پر عمل پیرا ہو جاؤ جہاد سے فرار : اس کے علاوہ دوسری بات یہ تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو یاد دلایا کہ شام و فلسطین تمہارے جد امجد حضرت ابراہیم اور اسحاق (علیہما السلام) کی وراثت ہے۔ لہٰذا تم اپنی وراثت دوبارہ حاصل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے یعقوب (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ ان کا ٹھکانہ یہی ہے ۔ اب اس علاقے پر عمالقہ قوم کا قبضہ ہے۔ تم ان کے خلاف جہاد کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارا وطن واپس دلادیں گے۔ وہی وطن جہان تمہارے آباؤ و اجداد آباد تھے۔ اور جن کی قبریں بھی وہیں ہیں۔ تم تھوڑی سی ہمت کرو۔ اللہ تعالیٰ فتح عطا کریں گے۔ بنی اسرائیل مسلسل غلامی کی وجہ سے بزدل ہوچکے تھے۔ ان میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوچکی تھیں۔ ان کے ضمیر مردہ ہوچکے تھے۔ اس لیے وہ جہاد پر آمادہ نہیں تھے۔ یہ غلامی کا اثر تھا۔ آج ہمارا حال بھی یہی ہے۔ انگریز کی سو سالہ غلامی کے نتیجے میں اخلاق بگڑ چکے ہیں ۔ جنہوں نے انگریز کا دودھ پیا ہے۔ ان کے اخلاق کی درستگی کا کوئی امکان نہیں ۔ البتہ نئی نسل آئے گی۔ نئے حالات پیدا ہوں گے۔ تو عرصہ کے بعد اخلاق کی درستگی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ قوم عمالقہ بڑے سخت لوگ تھے۔ جب بنی اسرائیل نے ان کی جرات و شجاعت کے کارنامے سنے تو ان کے حوصلے مزید پست ہوگئے۔ کہنے لگے ہم جہاد نہیں کرسکتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑا سمجھایا کہ تم صرف کمر ہمت باندھو۔ اللہ تعالیٰ ضرور فتح عطا فرمائیں گے۔ سورة مائدہ میں تفصیلات موجود ہیں۔ یہ قوم کسی طرح جہاد پر آمادہ نہ ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا میں مبتلا کیا۔ چالیس سال تک صحرا میں نظر بند رہے۔ “ یتیھون فی الارض ، فلاتاس علی القوم الفسقین ” اے موسیٰ ! یہ فاسق لوگ ہیں ان پر افسوس نہ کریں۔ یہ اسی سر زمین میں حیران و پریشان پھرتے رہیں گے۔ اس صحرا سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ نیز یہ کہ یہ ساری نسل یہیں ختم ہوجائے گی۔ نئی نسل کا نیا خون آئے گا۔ تو ان میں جذبہ جہاد پیدا ہوگا۔ چناچہ ایسا ہی ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) وہیں وفات پاگئے۔ پرانی نسل کے وہ لوگ جنہوں نے فرعون کی غلامی کا دور دیکھا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ ختم ہوگئے۔ ستر سال کے بعد نئی نسل نے علم جہاد بلند کیا اور شام و فلسطین کو فتح کیا۔ بادل کا سایہ : بنی اسرائیل کی تمام تر نافرمانیوں کے باوجود اللہ تعالیٰ ان کو انعامات سے نوازتا رہا۔ صحرائے تیہ میں نظر بندی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاش اور زندگی کے اسباب معجزانہ طور پر مہیا فرمائے۔ بنی اسرائیل خیموں میں اقامت پذیر تھے۔ جب خیمے پھٹ گئے تو ان کے لیے سورج کی گرمی سے بچنا مشکل ہوگیا۔ صحرا کی گرمی بھی ایسی جو پاکستان کی گرمی سے چھ گنا زیادہ ہو۔ بنی اسرائیل سخت تکلیف میں مبتلا ہوگئے۔ اس حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک اور انعام فرمایا “ وظللنا علیکم الخمام ” یعنی اے بنی اسرائیل ہم نے تم پر بادلوں کا سایہ کردیا۔ جب دن کے وقت دھوپ تیز ہوتی تو اللہ تعالیٰ بادلوں کو حکم دیتے وہ بنی اسرائیل پر چھا جاتے۔ اور اس طرح وہ دن کے وقت سورج کی تپش سے محفوظ رہتے ۔ من اور سلویٰ : صحرائے سینا میں خوردونوش کے لیے کوئی چیز میسر نہ تھی۔ نہ کھیتی باڑی اور نہ کوئی فصل مگر چھ لاکھ ستر ہزار افراد کے لیے کھانے کے بغیر چارہ نہ تھا ۔ نسل بتدریج بڑھ رہی تھی۔ اور اشیائے خودرونوش کی ضرورت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے پینے کا انتظام اس طرح فرمایا “ وانزلنا علیکم المن والسلوی ” اے بنی اسرائیل ! ہم نے تم پر من اور سلویٰ نازل کیا۔ من کا لفظی معنی احسان ہوتا ہے۔ سورة حجرات میں آتا ہے۔ “ یمنون علیک ان اسلموا ” آپ پر احسان جتلاتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئے ہیں۔ تاہم من میں یہ معنی پوشیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بغیر کسی محنت و مشقت کے احسان کے طور پر انہیں کھانا مہیا کیا۔ کوئی کھیتی باڑی نہیں کرنی پڑی ۔ اور نہ ہی کوئی دوسرا کاروبار کرنا پڑا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے بالکل مفت میں ان کے لیے کھانے کا بندوبست کردیا۔ من ترنجین کی قسم کے دانے تھے جیسے دھنیا کے دانے ہوتے ہیں۔ یہ نہایت شیریں مادہ تھا۔ جو رات کو بنی اسرائیل کے خیموں یا دوسری رہائش گاہوں کے اردگرد برس جاتا تھا۔ اور اسکی مقدار اس قدر کافی ہوتی تھی کہ ہر فرد کو ایک ایک سیر کے قریب میسر آجاتا تھا۔ صبح اٹھتے تھے اور یہ دانے اکھٹے کرلیتے تھے۔ یہ ان کی چوبیس گھنٹے کی خوراک کے لیے کافی ہوتا تھا۔ چونکہ ہفتے کے روز چھٹی ہوتی تھی ۔ اس لیے جمعہ کے دن دو دن کی خوراک مل جاتی تھی۔ من کے دانوں میں خاص قسم کی شکر ہوتی تھی جو کہ حیات انسانی کے لیے بڑی ضروری ہے۔ انسانی جسم کی حرارت کو برقرار رکھنے کے لیے شکر کا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ انسان کا جسم ٹھنڈا ہو کر ختم ہوجائے گا۔ قدرت نے انسان کے جسم میں ایسا نظام پیدا کردیا ہے کہ انسان جو بھی غذا استعمال کرتا ہے یہ جگر میں پہنچ کر شکر بن جاتی ہے۔ یہ شکر ہر قسم کے اناج اور پھلوں وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر ہم یہ اصلی شکر نہ بھی کھائیں تو بھی انسانی جسم خوراک کے دیگر اجزاء سے شکر حاصل کرلیتا ہے۔ گویا انسانی جسم کو گلوکوز کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو اللہ تعالیٰ اشیائے خوردونوش سے جگر میں پیدا کرتا ہے۔ اور پھر وہ جسم کے باقی حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ اس طرح انسانی جسم کو نشاستہ ، پروٹین یا لحمیات کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو دانوں وغیرہ سے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ الغرض ! بنی اسرائیل کیلئے اللہ تعالیٰ نے من کے دانے مہیا کرکے ان کی یہ ضرورت پوری کر دی حضور ﷺ نے اپنے ایک ارشاد میں عجوہ نامی کھجور اور من کی تعریف فرمائی ہے۔ صحیح حدیث میں آتا ہے (1 ۔ ترمذی ص 302) “ العجوۃ من الجنۃ وفیھا شفاء من السم عجوہ ”۔ جنت کی کھجور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ نے زہر اور سحر کا علاج رکھا ہے۔ اسی طرح فرمایا (2 ۔ بخاری ج 2 ص 643 ، مسلم ج 2 ص 182) “ الکماۃ من المن ومآءھا شفاء للعین ” یعنی کھنبیاں من میں سے ہیں اور ان کے پانی میں اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کے لیے شفا رکھی ہے۔ یہ چھوٹی موٹی زرد وسفید کھنبیاں خود رو سبزی ہے۔ بڑی لذیذ چیز ہے۔ انسانی جسم کے لیے گوشت کا اثر رکھتی ہے۔ نہ ان کا کوئی بیج بوتا ہے اور نہ ان کی کوئی حفاظت کرتا ہے۔ خودبخود اگتی ہیں اور لوگوں کے کام آتی ہے ۔ حضور ﷺ نے فرمایا ان کے پانی میں اللہ تعالیٰ نے آنکھوں کے لیے شفا رکھی ہے۔ اس کا پانی سرمہ میں ملا کر لگایا جائے یا ویسے ہی سلائی اس کے پانی میں بھگو کر آنکھوں میں لگائی جائے تو آنکھوں کی کئی بیماریوں کے لیے شفا کا حکم رکھتی ہے فرمایا یہ کھنبیاں من ہی کی ایک قسم ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ترنجین کی قسم کے اس مادہ کو بنی اسرائیل کے لیے خوراک کا ذریعہ بنایا۔ سلوٰی سلوٰن کے مادہ ہے۔ یہ بٹیر کی قسم کا جانور تھا۔ ہر ہفتے ان جانوروں کے غول کے غول دریائے شور کی صرف سے اڑ کر آتے تھے اور بنی اسرائیل کے خیموں کے قریب آکر بیٹھ جاتے تھے۔ جنہیں وہ آسانی سے پکڑ لیتے تھے۔ انہیں پکڑنے کے لیے دوسرے شکار کی طرح ان کو محنت نہیں کرنی پڑتی تھی بلکہ جونہی ذرا اندھیرا ہوتا تھا ۔ بنی اسرائیل ان جانوروں کو آسانی کے ساتھ اپنی اپنی ضرورت کے مطابق پکڑ لیتے تھے۔ پھر ان کو ذبح کرکے ان کا گوشت پکاتے تھے۔ اور کباب بناتے تھے اللہ تعالیٰ نے نہایت اعلیٰ درجے کی خوراک مہیا کی تھی ۔ اپنے آپ پر ظلم : بادل کے سائے اور خوراک کی ہم رسانی کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ایک اور نعمت عطا کی تھی۔ تفسیری روائتوں میں آتا ہے (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 250) کہ ایک بہت بڑا ستون نما راڈ تھا۔ جس سے بنی اسرائیل روشنی حاصل کرتے تھے ۔ رات کے وقت یہ راڈ چمک اٹھتا تھا۔ جس سے اس قدر روشنی میسر آجاتی تھی جو بنی اسرائیل کی ضروریات کے لیے کافی تھی۔ فرمایا “ کلوا من طیبت ما رزقنکم ” اے بنی اسرائیل کھاو پاک چیزیں جو ہم نے تم کو روزی دی ہیں “ وما ظلمونا ” اور انہوں نے ہم پر کوئی زیادتی نہیں کی “ ولکن کانوا انفسھم یظلمون ” بلکہ انہوں نے اپنی ہی جانوں پر ظلم کیا۔ بنی اسرائیل کو حکم یہ تھا کہ کھانے پینے کی جو چیزیں ہم نے عطا کی ہیں۔ انہیں خوب کھاؤ پئو۔ مگر ان کا ذخیرہ نہ کرو۔ لیکن انہوں نے ذخیرہ کرنا شروع کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکل کہ گوشت گلنے سڑنے لگا۔ مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے (2 ۔ بخاری ج 1 ص 469 ، مسلم ج 1 ص 275) “ لولا بنواسرائیل ” یعنی اگر بنی اسرائیل ذخیرہ اندوزی کا ارتکاب نہ کرتے تو گوشت کبھی نہ گلتا سڑتا۔ خواہ مہینوں پڑا رہتا مگر ان کی اس نافرمانی کی وجہ سے گوشت سڑنے لگا۔ اس طرح گویا انہوں نے خود اپنا نقصان کیا۔ ہم پر کوئی ظلم نہ کیا۔ بلکہ خود اپنی جانوں پر ظلم کے مرتکب ہوئے ۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر بڑے انعام کئے۔ ان کی نافرمانی اور معصیت کی وجہ سے طرح طرح کی آزمائشیں بھی آتی تھیں۔ اس کے باوجود یہ لوگ سرکشی میں مبتلا ہوئے۔ جہاد کا انکار کیا۔ نبی کی تکذیب کی ۔ اس کو ستایا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کی خوراک کا غیر معمولی انتظام فرمایا۔ پانی کی ضرورت پیش آئی تو جیسا کہ آگے آئے گا وہ بھی مہیا فرمایا۔
Top