Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 63
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّوْرَ١ؕ خُذُوْا مَاۤ اٰتَیْنٰكُمْ بِقُوَّةٍ وَّ اذْكُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
وَاِذْ اَخَذْنَا
: اور جب ہم نے لیا
مِیْثَاقَكُمْ
: تم سے اقرار
وَرَفَعْنَا
: اور ہم نے اٹھایا
فَوْقَكُمُ
: تمہارے اوپر
الطُّوْرَ
: کوہ طور
خُذُوْا
: پکڑو
مَا آتَيْنَاكُمْ
: جو ہم نے تمہیں دیا ہے
بِقُوْةٍ
: مضبوطی سے
وَاذْكُرُوْا
: اور یا درکھو
مَا فِیْهِ
: جو اس میں
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَتَّقُوْنَ
: پرہیزگار ہوجاؤ
اور اس واقعہ کو یاد کرو جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا اور ہم نے تمہارے اوپر طور کو بلند کیا۔ جو کچھ ہم نے دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑو۔ اور یاد کرو جو کچھ اس میں ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ
بنی اسرائیل کا عہد : ان آیات میں بھی بنی اسرائیل کی خرابیوں کا ہی ذکر ہے اس سے پچھلی آیت میں قانون نجات کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔ کہ نجات کسی خاص فرقہ کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ بلکہ اس کا دارومدار ایمان باللہ ، ایمان بالآخرۃ اور اعمال صالحہ پر ہے۔ آیات زیر درس میں بنی اسرائیل کی توجہ اس واقعہ کی طرف دلائی جا رہی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ جو کتاب میں تمہیں دے رہا ہوں اس کے احکام کی پابندی کروگے۔ مگر وہ کہنے لگے کہ یہ احکام تو بڑے مشکل ہیں ہم سے عمل نہیں ہو سکے گا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ڈرانے کے لیے ان کے سروں پر کوہ طور کو کھڑا کردیا۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے “ واذا اخذنا میثاقکم ” اس واقعہ کو یاد کرو جب ہم نے تم سے پختہ عہد کیا ۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 271) کہ جب بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات حاصل ہوگئی۔ فرعون اور اس کے تمام لشکر ہلاک ہوگئے۔ تو بنی اسرائیل نے خود ہی موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمائش کی کہ ہمارے لیے کوئی شریعت مقرر کرو۔ جس کی ہم پابندی کریں۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کو تورات عطا فرمائی ۔ مگر وہ طرح طرح کے حیلے بہانوں سے اس کے احکام کو ٹالنے کی کوشش کرنے لگے۔ اور تو انہوں نے تورات کے منزل من اللہ ہونے پر شک و شبہ کا اظہار کیا۔ اور اعتراض یہ کیا کہ ہم اس کتاب پر ایمان لانے کیلئے تیار نہیں جب تک خود اللہ تعالیٰ اس کی تصدیق نہ کرے۔ کہ یہ اس کی عطا کردہ کتاب ہے۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) ستر آدمیوں کو لے کر کوہ طور پر گئے۔ ان لوگوں نے اپنے کانوں سے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا ۔ مگر اس کے باوجود گستاخی کی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی۔ بجلی آئی اور سب کو خاکستر کرگئی۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے پھر انہیں زندگی عطا کی۔ مفسرین کرام بیان فرماتے ہیں (1 ۔ قصص القرآن ج 1 ص 472 ، 474) کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود طور سے واپس آنے والے لوگوں نے اپنی قوم سے کہا۔ کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہم سے ہمکلام ہوا ہے۔ اور اس نے کہا ہے کہ یہ کتاب میں نے ہی دی ہے۔ مگر اس کے تمام احکام پر عمل کرنا ضروری نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ جس قدر ممکن ہو ۔ اس پر عمل کرلینا اور باقی کو چھوڑ دینا۔ چناچہ انہوں نے خود ہی فیصلہ کرلیا کہ توراۃ کے جملہ احکام تو بہت مشکل ہیں۔ لہذا ہمیں ساری توراۃ پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور انہوں نے صریح احکام کی خلاف ورزی شروع کردی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے اس کتاب پر عمل کرنے کا پختہ عہد کرلیا تھا۔ چناچہ اسی کو فرمایا گیا ہے ۔ “ واذاخذنا میثاقکم ” ا۔ تفاع طور : فرمایا “ ورفعنا فوقکم الطور ” اور ہم نے تمہارے اوپر طور کو بلند کیا ۔ جیسا کہ الفاظ سے ظاہر ہے۔ مطلب واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے طور پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سروں پر سائے کی طرح کھڑا کردیا تھا یہ اتنی خوفناک صورت حال تھی کہ پہاڑ کسی وقت بھی ان پر گر کر ان کو چکنا چور کرسکتا تھا۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پوچھا کہ تم تورات کے احکام پر عمل کرو گے یا نہیں۔ تو انہوں نے عہد کیا کہ مولا کریم ! ہم سے یہ مصیبت ٹال دے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تیرے احکام پر عمل پیرا ہوں گے۔ معجزات کے بعد منکرین “ رفعنا ” کی مختلف تاویلیں کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔ کہ پہاڑ کو بنی اسرائیل کے سروں پر معلق نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ بنی اسرائیل کو پہاڑ کے دامن میں اس طرح کھڑا کیا گیا تھا کہ پہاڑ کا کچھ حصہ ان پر جھکا ہوا تھا یہ ان کی غلط فہمی ہے سورة اعراف میں “ نتقنا ” کا واضح لفظ آتا ہے جس کا مطلب اکھاڑ کر کھڑا کردینا ہے اور معجزانہ طور پر ایسا ہوجانا کونسی بعید بات ہے ، جو اللہ تعالیٰ پتھر سے پانی نکال سکتا ہے سمندر کو پھاڑ کر اس میں بارہ راستے بنا سکتا ہے۔ من اور سلویٰ نازل کرسکتا ہے وہ اگر کسی پہاڑ کو اٹھا کر سروں پر معلق کر دے تو کون سی بڑی بات ہے۔ بلکہ تورات میں تو یہ تفصیل بھی آتی ہے کہ نہ صرف پہاڑ معلق ہوگیا تھا۔ بلکہ ساتھ دھواں اٹھ رہا تھا۔ اور آگ کے شعلے سامنے نظر آرہے تھے الغرض ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وہ عہد لیا۔ جس کا تذکرہ اس آیت میں آیا ہے۔ لغوی طور پر طور ایسے پہاڑ پر بولا جاتا ہے جو سرسبز ہو ۔ یعنی اس پر بکثرت درخت پائے جائیں۔ خشک پہاڑ کے لیے طور کا لفظ استعمال نہیں ہوتا۔ یہاں پر جس پہاڑ کا ذکر ہے یہ وہی طور ہے۔ جو صحرائے سینا کے اطراف میں واقع ہے۔ اور اس کی ایک چوٹی پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ سے شرفِ تکلم حاصل ہوا تھا۔ اسی پہاڑ پر آپ کو توراۃ ملی تھی۔ دین میں جبر نہیں : بنی اسرائیل کے سروں پر طور معلق کرکے عہد لینے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو جبری عہد ہوگیا۔ جو کہ ٹھیک نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے “ لا اکراہ فی الدین ” یعنی دین میں جبر نہیں ہے۔ مگر یہاں پر جبراً عہد کرایا گیا۔ مفسرین کرام (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ نمبر 1 ص 276) اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ بیشک دین میں جبر نہیں۔ مگر اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کو کوئی دین اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ خواہ اس کا دل مانے یا نہ مانے۔ کم از کم اسلام میں تو ایسا نہیں ہے۔ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ تبلیغ کی جائے۔ اسلام کی خوبیاں بیان کی جائیں۔ اس کے معتقل اگر کوئی غلط فہمیاں ہیں تو انہیں دور کیا جائے۔ دوسروں کے ساتھ ہمدردی کی جائے۔ اور اسے اسلام کی دعوت دی جائے۔ اسلام کی پوری تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے کسی بھی زمانے میں کسی پر جبر نہیں کیا نہ کسی کو زبردستی مسلمان بنایا۔ البتہ کیمونسٹوں اور عیسائیوں کی تاریخ واضح ہے کہ انہوں نے کیسے کیسے ظلم کئے۔ مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنایا گیا۔ اور بعض کو تہ تیغ کیا گیا۔ کسی غیر مسلم کو اسلام میں داخل کرنے کے لیے قطعا جبرروا نہیں۔ البتہ فی الجملہ اسلام میں جبر ہے۔ جو قانون شکنی کا مرتکب ہوگا۔ اس پر جبر بھی ہوگا۔ بنی اسرائیل پر پہاڑ معلق کرنے کا مقصد بھی یہی تھا۔ کہ جو عہد کیا تھا اس کی پابندی کرو۔ ورنہ یہ پہاڑ تمہارے اوپر گراد یا جائے گا۔ تو راۃ میں تو یہ الفاظ آتے ہیں ۔ کہ اگر تم نے عہد کی پابندی نہ کی تو تمہارا مدفن یہیں بنے گا اگر قانون کی پابندی کے لیے جبر کو جبر فی الدین سمجھ لیا جائے تو سارا معاملہ ہی درہم برہم ہوجائے گا۔ حدود اور تعزیرات کا سلسلہ بند کرنا پڑے گا۔ جب کسی ملزم کو سزا دیجائے گی تو وہ جبر جبر کی دہائی دینے لگے گا۔ کہ اس پر زیادتی ہو رہی ہے۔ اسے جبراً کوڑے لگائے جا رہے ہیں یا سے جبراً قید میں ڈالا جا رہا ہے۔ حالانکہ یہ اس پر جبر نہیں ہوگا بلکہ قانون کی خلاف ورزی پر تعزیر ہوگی۔ الغرض ! اسلام میں داخل کرنے کے لیے کسی پر جبر نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ قانون کی پابندی کرانے کے لیے جبراً سزا دی جاسکتی ہے۔ مسلمانوں کے انحطاط کے زمانہ میں سلطان سلیم ترکی (رح) نے عیسائیوں کی سازشوں سے تنگ آکر حکم دے دیا کہ ترکی کی عملداری میں تمام عیسائیوں کو جبراً مسلمان بنا لیا جائے۔ اس زمانے کے شیخ الاسلام کو اس حکم کی خبر ملی تو فوراً سلطان کے پاس پہنچے اور اس سے اس حکم کے متعلق دریافت کیا۔ سلطان نے تسلیم کیا۔ کہ اس نے عیسائیوں کی سازشوں سے تنگ آکر یہ حکم صادر کیا ہے۔ تو شیخ السلام نے دوٹوک الفاظ میں سلطان سے کہا۔ کہ آپ کا یہ حکم اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے “ لا اکراہ فی الدین ” کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ مگر آپ غیر مسلموں پر جبر کر رہے ہیں۔ کہ وہ اسلام میں داخل ہوں۔ سلطان بات کو سمجھ گیا اور اپنا حکم واپس لے لیا۔ یہ تاریخی واقعہ ساری دنیا کو معلوم ہے۔ استمسان بالکتاب : جب اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا۔ اور انہوں نے اس کی پابندی کا اقرار کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ خذواما اتینکم بقوۃ ” جو کچھ ہم نے دیا ہے اسے مضبوطی سے پکڑ لو۔ استمساک بالکتاب کا مطلب یہ ہے کہ اسے تسلیم کرو ۔ اس پر ایمان لاؤ۔ اور پھر اسی کے مطابق عمل کرو۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی پارہ 1 ص 272) کہ پوری کوشش اور جانفشانی کے ساتھ اس کا پڑھنا پڑھانا ، سیکھنا سکھانا اس میں مندرج قوانین کی پابندی کرنا انسان کی ترقی اور خطیرۃ القدس کا ممبر بننے اور علیین تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے۔ غرض کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے کا مطلب مضبوط ہاتھوں سے پکڑنا نہیں۔ بلکہ اس کے قوانین پر سخٹی کے ساتھ عملدرآمد کرنا ہے۔ محض خالی خولی وعدوں سے کام نہیں بنے گا۔ قوانین کی پابندی : استمساک بالکتاب کے بعد دوسرے نمبر پر فرمایا “ واذکروا ما فیہ ” اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو۔ یعنی اس کو پڑھتے پڑھاتے رہو۔ یہ قرآن پاک قانون خداوندی ہے۔ سنت رسول اس کی شرح ہے۔ مگر آج کتنے لوگ ہیں۔ جو قرآن و سنت سے فیضیاب ہو رہے ہیں۔ اس آیت میں بنی اسرائیل کو خطاب کرکے بات ہمیں سمجھائی جا رہی ہے کہ جو کچھ قرآن پاک میں قانون نازل ہوا ہے۔ اسے یاد کرو۔ اس کو خود پڑھو اور دوسروں کو پڑھاؤ۔ اس کی تشہیر کرو۔ تاکہ قانون کی تفصیلات عوام الناس تک پہنچ سکیں۔ جس طرح ایک عام دنیوی حکومت کے قانون کی تشہیر ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قانون قرآن پاک کو عام کرنا بھی ہمارے فرائض میں داخل ہے۔ شاہ عبد العزیز (رح) فرماتے ہیں (1 ) کہ حاکم وقت کو اپنی رعایا پر اس طرح مہربان ہونا چاہئے جیسے کوئی باپ اپنی اولاد پر ہوتا ہے۔ ایک باپ کی یہ انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی اچھی تربیت کرے۔ ہر شریف النفس باپ ایسا ہی چاہے گا۔ بلکہ باپ تو یہ پسند کرے گا۔ کہ اس کا بیٹا اس سے زیادہ ترقی کرے۔ اسی طرح حاکم کو بھی اپنی رعایا کی تربیت اولاد کی طرح کرنی چاہئے۔ اور اپنے قانون کی خوب تشہیر کرنی چاہئے۔ تاکہ رعایا کا کوئی فرد اس سے ناواقف نہ رہے۔ اور قانون پر عمل پیرا ہوجائے۔ اب اگر حاکم خود اپنے قانون کی پابندی کرے گا۔ تو رعایا بھی اس پر کاربند ہوگی۔ اور اگر وہ خود پابندی نہیں کرتا تو وہ دوسروں سے کیسے پابندی کروائے گا۔ جس شخص خود فاسق و فاجر اور بدکار ہے وہ دوسروں کو نیکی اور بھلائی کا کیا درس دے گا۔ جو خود جواء کھیلتا ہے۔ وہ دوسرے جو اریوں کو کیسے سزا دے گا۔ شرابی حاکم شرابیوں سے کیسے نپٹے گا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ حاکم پہلے خود قانون کی پابندی کرے اور پھر دوسروں سے سختی کے ساتھ پابندی کروائے۔ اس کے بعد جو کوئی قانون شکنی کرے اسے سخت ترین سزا دے۔ فرمایا “ واذکروا ما فیہ ” اس میں جو کچھ لکھا ہوا ہے اسے یاد کرو۔ اور اس کے پڑھانے کے لیے وسائل بھی مہیا کرو۔ مدرسے قائم کرو۔ معلم مقرر کرو تاکہ ہر خاص و عام اس کی تعلیمات سے مستفید ہوں۔ اسے علم ہونا چاہئے۔ کہ ہمارا قانون بہترین قانون ہے۔ اس دستور سے بڑھ کر دنیا میں کوئی دستور نہیں۔ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی (رح) نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ میں تمام شریف ہندوؤں اور دوسرے غیر مسلموں کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر وہ پوری نیک نیتی کے ساتھ غور کرینگے تو اسلام سے بہتر کوئی قانون نہیں پائیں گے۔ لہٰذا میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کہ جس طرح میں نے اس دستور کو قبول کرلیا ہے۔ آؤ تم بھی اسے گلے لگالو۔ اور فلاح پا جاؤ۔ کہ اس سے بڑھ کر کوئی ضابطہ حیات نہیں ہے۔ “ واذکروا ما فیہ ” کا یہی مطلب ہے۔ وہ کون سے جرائم ہیں۔ جو اس دنیا میں نہیں ہو رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے “ ولا تقربوا لزنی ” کہ زنا کے قریب تک نہ جاؤ۔ مگر آج آپ کے سامنے کیا کیا واقعات پیش ہو رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں کے ساتھ زنا بالجبر اور پھر انہیں ہلاک کردینا ایک عام معمول بن چکا ہے جس سر زمین پر اس قسم کے واقعات پیش آتے ہوں۔ وہاں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کیسے نازل ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا غضب ہی آسکتا ہے۔ 1917 ء میں روس میں کیا ہوا۔ پونے دو کروڑ انسانوں کو ہلاک کردیا گیا۔ بڑے بڑے مالداروں کو ٹانگوں سے باندھ کر کئی کئی میل تک گھسیٹا گیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ سرمایہ داروں کی طرفداری کرتے تھے۔ یہ لوگ انسانیت کے دشمن تھے۔ جس معاشرے میں اس قسم کے ظلم ہوتے ہوں اور ان کے انسداد کا کوئی بندوبست نہ ہو۔ اس سے کیا نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ یہ سب کچھ عنقریب دنیا کے سامنے آجائے گا۔ فرمایا جو کچھ اس کتاب میں موجود ہے اسے یاد کرو۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا “ لعلکم تتقون ” کہ تم متقی بن جاؤ گے۔ اگر انسان کا عقیدہ صحیح ہو۔ قرآن پاک کو پڑھتا پڑھاتا رہے فریضہ تبلیغ انجام دیتا رہے۔ تو متقیوں کی فہرست میں شامل ہوجائے گا۔ اور تقویٰ ایک ایسی چیز ہے۔ کس کو اختیار کرنے سے شریعت کے احکام کی تعمیل انسان کے لیے آسان ہوجاتی ہے۔ اسی لیے قرآن پاک کو “ ھدی للمتقین ” کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کی عہد شکنی : فرمایا اے بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ سے پختہ عہد کرنے کے بعد “ ثم تولیتم من بعد ذلک ” تم اس کے بعد اس عہد سے پھرگئے اسے پورا نہ کیا اللہ تعالیٰ نے پھر بھی تم پر مہربانی کی اور تمہیں موقع دیتا رہا کہ تم اپنے عہد کی پاسداری کرسکو۔ حتیٰ کہ یہ آخری موقع بھی دیا ۔ کہ اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآں پاک بھی نازل ہوچکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا آخری نبی (علیہ السلام) بھی آچکا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ایفائے عہد کرتے ہوئے “ وامنوا بما انزلت مصدقا لما معکم ” اس چیز پر ایمان لے آؤ جو میں نے نازل کی ہے یعنی قرآن پاک جو کہ اسی چیز کی تصدیق کرتا ہے جو پہلے سے تمہارے پاس ہے۔ یعنی توراۃ اور دیگر کتب سماویہ۔ لہٰذا اب بھی موقع ہے کہ ایمان لے آؤ “ ولا تکونوا اول کافر بہ ” اور اس کے ساتھ اولین کفر کرنے والے نہ بنو۔ اگر ایسا کروگے تو آنے والی نسلیں بھی تمہارے ہی نقش قدم پر چل کر راہ راست سے بھٹکی رہیں گی۔ فرمایا اس کے باوجود “ فلولا فضل اللہ علیکم ورحمتہ ” اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی “ ولکنتہ من الخسرین ” تو تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوتے فوراً ہلاک ہوجاتے اور تمہیں دوبارہ موقع بھی نہ ملتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ وہ تمہیں بار بار موقع دے رہا ہے۔ کہ اب بھی سمجھ جاؤ اور راہ راست پر آجاؤ۔ ورنہ اگر اللہ تعالیٰ تمہاری کوتاہیوں اور غلطیوں کی طرف دیکھے تو فوراً ہلاک کر دے اور توبہ کا موقع بھی نہ مل سکے ۔
Top