Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 84
وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُوْنَ دِمَآءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُوْنَ اَنْفُسَكُمْ مِّنْ دِیَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُوْنَ
وَاِذْ : اور جب اَخَذْنَا : ہم نے لیا مِیْثَاقَكُمْ : تم سے پختہ عہد لَا تَسْفِكُوْنَ : نہ تم بہاؤگے دِمَآءَكُمْ : اپنوں کے خون وَلَا تُخْرِجُوْنَ : اور نہ تم نکالوگے اَنفُسَكُم : اپنوں مِّن دِيَارِكُمْ : اپنی بستیوں سے ثُمَّ : پھر اَقْرَرْتُمْ : تم نے اقرار کیا وَاَنتُمْ : اور تم تَشْهَدُوْنَ : گواہ ہو
اور اس واقعہ کو یاد کرو جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا کہ آپس میں خونریزی نہ کرو گے۔ اور نہ ایک دوسرے کو اپنے شہروں سے نکالو گے۔ پھر تم نے اقرار کیا اور تم اس پر گواہ ہو
گزشتہ سے پیوستہ : بنی اسرائیل کی عہد شکنیوں کا ذکر آرہا ہے۔ اس سے بیشتر اس عہد کا بیان ہوچکا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اجتماعی حقوق اور انسانی حقوق سے متعلق بنی اسرائیل سے بذریعہ توراۃ لیا تھا۔ مگر انہوں نے اس عہد کو پورا بھی نہ کیا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ پھر چند آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھرگئے۔ اور تم اعراض کرنے والے ہی ہو۔ خون ناحق اور جلاوطنی : خون ناحق اور جلاوطنی بڑے گناہوں میں سے ہیں۔ ان دو برائیوں سے متعلق بھی اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے توراۃ میں عہد لیا تھا کہ ان گناہوں کا ارتکاب نہیں کریں گے۔ مگر یہ قوم اس عہد پر بھی قائم نہ رہی۔ ارشاد ہوتا ہے “ واذا اخذنا میثاقکم ” جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا “ لا تسفکون دمآء کم ” کہ ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے۔ یعنی اپنے ہی بھائی بندوں اور اپنے ہم مذہب اور اپنی ہی ملت والوں کا قتل ناحق نہیں کرو گے۔ جس طرح یہ حکم آج تک بائبیل میں موجود ہے۔ یہی حکم قرآن پاک میں موجود ہے۔ آگے سورة نساء سورة بنی اسرائیل اور سورة فرقان میں آئے گا کہ ایک دوسرے کا خون نہ بہاؤ۔ یہ قطعی حرام ہے اور اکبر الکبائر یعنی سب سے بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔ توراۃ میں دوسرا حکم یہ تھا “ ولا تخرجون انفسکم من دیارکم ” یعنی تم اپنے ہم مسلک لوگوں کو ان کے گھروں سے نہیں نکالو گے۔ مگر تم نے اس عہد کا بھی پاس نہ کیا۔ فرمایا “ ثم اقررتم ” یہ الفاظ توراۃ میں موجود ہیں۔ کہ اے بنی اسرائیل ! تم نے اقرار کیا کہ وعدہ کو ایفاء کریں گے اور توراۃ کے احکام کی پابندی کریں گے۔ “ وانتم تشھدون ” اور تم خود اس بات کے گواہ ہو کہ ایسا ہی ہوا تھا۔ تم نے اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ اقرار کیا تھا کہ تم اپنے بھائیوں کا خون نہیں بہاؤ گے اور نہ ہی انہیں جلاوطن کروگے بنی اسرائیل کی عہد شکنی : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے بنی اسرائیل ! تم ان تمام تر وعدوں کے باوجود “ ثم انتم ھؤلاء تقتلون انفسکم ” یہ تمہیں ہی ہو ، جو ایک دوسرے کو قتل کرتے ہو ناحق خون بہاتے ہو۔ “ ویخرجون فریقا منکم من دیارھم ” اور ایک گروہ کو ان کے گھروں سے بھی نکالتے ہو۔ یہی نہیں بلکہ “ تظھرون علیھم بالاثم والعدوان ” تم ان پر چڑھائی کرتے ہو گناہ اور تعدی کے ساتھ۔ کسی پر حملہ کرنا انہیں جانی اور مالی نقصان پہنچانا گناہ بھی ہے۔ اور مظلوموں کے ساتھ زیادتی بھی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کرکے گناہ کے مرتکب ہوئے۔ اور خلق خدا کے حقوق ضائع کرکے زیادتی کا ارتکاب کیا۔ یہ اتم اور عدوان میں آتا ہے۔ فرمایا تمہاری عجیب ذہنیت ہے کہ جن لوگوں کو تم جلاوطن کرتے ہو “ وان یاتوکم اسری ” جب یہی لوگ تمہارے پاس قیدی بن کر آتے ہیں “ تفدوھم ” تم انہیں فدیہ دیکر چھڑا لیتے ہو۔ پہلے خود ہی انہیں گھروں سے نکال کر اور پھر ان کا معاوضہ دیکر انہیں واپس لیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں “ وھو محرم علیکم اکراجھم ” ان کا جلا وطن کرنا ہی تم پر حرام تھا۔ تمہیں ایسا کام کرنا ہی نہ چاہئے تھا۔ جس کی وجہ سے تمہیں فدیہ کا مالی بوجھ بھی برداشت کرنا پڑا۔ دراصل بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے تھے ۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں قیدیوں کی رہائی کی تلقین کی تھی۔ اور یہ اچھی بات تھی مگر جہاں یہ لوگ اس حکم پر عمل کرتے تھے وہاں دوسرے دو احکام یعنی قتل ناحق اور جلاوطنی کے معاملہ میں عمل نہیں کرتے تھے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا “ افتؤمنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض ” کیا تم کتاب کے بعض احکام پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کردیتے ہو ؟ فرمایا جو لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ اس قسم کا سلوک کرتے ہیں۔ کہ جس حصے پر چاہا عمل کرلیا اور جس کو چاہا چھوڑ دیا۔ “ فما جزآء من نفعل ذلک منکم ” تم میں سے ایسا کرنے والوں کی جزا اس کے سوا کچھ نہیں کہ “ الا خزی فی الحیوۃ الدنیا ” دنیا میں ان کی جزا ذلت ہوگی۔ “ ویوم القیمۃ یردون الی اشد العذاب ” اور قیامت کے روز سخت عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ چناچہ تاریخ شاہد ہے کہ یہودیوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ یہود ، بنو قریظہ ، بنو نضیر اور خیبر والے سب ذلیل و خوار ہو کر مغلوب ہوئے۔ بنو قریظہ سخت سازشی قسم کے لوگ تھے۔ ان کا حشر بہت برا ہوا۔ بعض قتل ہوئے اور بعض کو جلا وطن کیا گیا۔ اسی طرح قبیلہ بنو قنقاع والوں نے بھی ذلت و رسوائی کا منہ دیکھا۔ اس کا ذکر سورة حشر میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ یہ تو ان کی زندگی میں عذاب ہوا۔ فرمایا آخرت کا عذاب تو سخت ترین ہوگا۔ اور یہ لوگ اس میں بھی مبتلا ہوگئے۔ یہودیوں کی باہمی لڑائیاں : ان آیات میں یہودیوں کی جس باہمی جنگ و جدل اور جلاوطنی کا ذکر ہے۔ اس کے متعلق حضرت شیخ الہند (رح) حاشیہ میں لکھتے ہیں (1 ۔ ترجمہ شیخ الہند ص 16 مطبوعہ دار المصنیف کراچی) کہ مدینہ کے دو بڑے قبیلے اوس اور خزرج تھے۔ جو اکثر آپس میں دست و گریبان رہتے تھے۔ ان کی آبادی ہزاروں کی تعداد تک پہنچتی تھی۔ جب مدینہ میں اسلام کی شمع رون ہوئی تو انصار مدینہ کی اکثریت بھی انہیں دو قبائل میں سے تھی۔ اب بنو قریظہ قبیلہ اوس کے حامی تھے۔ اور بنو نضیر قبیلہ خزوج کے طرفدار تھے۔ گویا یہودی اس طریقے سے دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ان میں اکثر جنگیں ہوتی رہتی تھیں۔ جب ایک قبیلہ دوسرے پر غالب آتا تو وہ مغلوب کو جلاوطن کردیتا یا ان کو قتل کردیتا اور ان کے مکانوں کر گرا دیتا۔ یہ سب ہم مذہب تھے۔ مگر دوسرے قبیلے کے ساتھ منسلک ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے۔ پھر یہی لوگ جنہوں نے انہیں جلاوطن کیا تھا مال اکٹھا کرتے اور ان کا معاوضہ ادا کرکے انہیں قید سے رہائی دلاتے۔ یہ لوگ قیدی کو چھڑانا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ مگر کشت و خون اور جلاوطنی کے احکام کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی اسی خصلت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ مفسرین کرام مشرکین کی ایک دوسری لڑائی کا بھی تذکرہ کرتے ہیں (2 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 389) جسے حرب بعاث کہا جاتا ہے ، یہ لڑائی چالیس سال تک جاری رہی۔ اس لڑائی میں بھی یہودی مختلف گروہوں میں منقسم تھے۔ یہودیوں کا ایک قبیلہ ایک فریق جنگ کے ساتھ تھا۔ جب کہ دوسرا قبیلہ دوسرے کے ساتھ تھا۔ اس جنگ میں بھی یہودیوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا۔ اگر کوئی ہم مذہب بھی سامنے آگیا اسے بھی مار ڈالتے تھے۔ امام ابن کثیر (رح) نے بھی ایک واقعہ نقل کیا ہے (3 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 112) کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ کے عہد میں مسلمان ایران کی طرف کسی جہاد میں مصروف تھے۔ اسلامی فوج میں حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ بھی شامل تھے۔ جو ایک یہودی عالم تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی دولت سے مشرف کیا تھا۔ جب جہاد میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو بہت سے قیدی بھی ہاتھ آئے ۔ جن میں وہ یہودی بھی شامل تھے جو کہ مجوسیوں کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ ان میں ایک یہودی عورت لونڈی بن کر آئی۔ جسے حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے نو سو درہم میں خرید لیا۔ جب آپ کوفہ میں واپس آئے تو وہاں کے ایک مشہور و معروف یہودی راس الجالوت سے ملاقات ہوئی ۔ آپ نے یہودی کو وہ لونڈی فروخت کرنے کی پیش کش کی۔ وہ رضا مند ہوگیا۔ اور قیمت دریافت کی۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے نو سو درہم میں خریدا ہے۔ مگر اب میں چار ہزار درہم سے کم پر نہیں دوں گا۔ پہلے تو راس الحالوت اتنی بڑی رقم دینے پر تیار نہ ہوا۔ پھر حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے اس کے کان میں توراۃ کی وہی آیت پڑھی “ وان تاتوکم اسری تفدوعم ” یعنی جب تمہارا کوئی ہم مسلک قیدی بن کر آئے تو اسے چھڑا لو۔ یہ سن کر یہودی مجبور ہوگیا۔ اور اس نے چار ہزار کے بدلے میں ہی خریدنا منظور کرلیا۔ مگر حضرت عبد اللہ بن سلام ؓ نے دو ہزار درہم لے لیے اور باقی دو ہزار واپس کردیے۔ اور اس طرح لونڈی اس کے پاس فروخت کردی۔ مقصد یہ کہ یہودی قیدیوں کو چھڑانے والے حکم پر سختی سے کاربند تھے۔ اگرچہ دوسرے احکام کی رد نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں کی حالت زار : یہودیوں کے جزوی ایمان کا جو نقشہ قرآن پاک نے ان آیات میں کھینچا ہے۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو آجکل مسلمانوں کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں۔ آج مسلمانوں کی حالت بھی یہی ہے کہ قرآن پاک کے کسی حصہ پر ایمان لاتے ہیں۔ اور بعض احکام کو نہیں مانتے۔ اسی لیے تو دنیا میں رسوا ہو رہے ہیں۔ غلامی سے بڑی ذلت اور کیا ہو سکتی ہے۔ جس کی وجہ سے تہذیب مٹ جاتی ہے۔ دیکھئے کابل والوں کا کیا حشر ہو رہا ہے۔ افغانستان پر غیر کا قبضہ ہوچکا ہے۔ یہی حال اس سے پہلے سمرقند اور بخارا کا ہوا تھا فلسطین میں کیا ہو رہا ہے بنگالیوں کو کون سی عزت نصیب ہو رہی ہے یہ سب ذلت و رسوائی نہیں تو اور کیا ہے۔ وجہ یہی ہے کہ مسلمانوں نے بھی یہودیوں کا طریقہ اختیار کرلیا ہے جو حکم ان کی خواہش کے مطابق ہوتا ہے اسے تسلیم کرلیتے ہیں۔ اور جو ان کی مرضی کے خلاف ہوتا ہے۔ اس کا انکار کردیتے ہیں۔ معاملہ نکاح و طلاق کا ہو یا سیاسی نوعیت کا ہو۔ اپنی مرضی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے قانون کی پروا نہیں کرتے ۔ عدل ، احسان اور تقویٰ کو فراموش کردیا ہے۔ محض نفسانی خواہشات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کا حشر بھی یہودیوں سے مختلف نہیں ہے۔ جب انگریز نے ہندوستان میں تسلط قائم کیا تو انہوں نے مسلمانوں سے بھی پوچھا تھا کہ تم اپنے معاملات میں شرعی قوانین کا اطلاق چاہو گے۔ یا مقامی رواج کے مطابق اپنے مسائل کا حل کردیتے۔ کتنے ہی مسلمان ہیں جنہوں نے لکھ کر دے دیا تھا کہ ہمیں شریعت وراثت منظور نہیں ہے۔ ہمارا فیصلہ رواج کے مطابق کیا جائے۔ حالت آج بھی یہی ہے۔ دعویٰ یہی ہے کہ ہم قرآن و حدیث کو برحق مانتے ہیں۔ مگر ان کے احکام پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عبادات تو تھوڑی بہت کرلیتے ہیں مگر تعزیرات کے قانون پر کیوں عمل نہیں کرتے۔ جہاد جیسی اہم چیز کو نہیں اپناتے۔ جس کے لئے قرآن و حدیث کے اوراق بھرے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں یہودی اور مسلمان برابر ہیں نہ ان کا اپنی شریعت پر عمل ہے۔ اور نہ مسلمانوں کو احکام کا پاس ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی دو رخی کا نتیجہ سوائے تباہی و بربادی کے اور کیا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے : فرمایا “ وما اللہ بغافل عما تعملون ” جو کچھ تم کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ وہ تمہارے دلوں میں مخفی ارادوں تک سے واقف ہے۔ اس لیے وہ اسی کے مطابق جزا دے گا۔ جب خدا تعالیٰ کی گرفت آئے گی تو سخت عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ “ اولئک الذین اشتروا الحیوۃ الدنیا بالاخرۃ ” یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی ان کرتوتوں کی وجہ سے آخرت کی دائمی زندگی کے بدلے دنیا کی عارضی اور حقیر زندگی کو خرید لیا ہے ایسے لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ جب وہ عذاب میں جکڑے جائیں گے “ فلا یخفف عنھم العذاب ” تو ان کے عذاب میں تخفیف بھی نہیں ہوگی “ ولاھم ینصرون ” اور نہ ہی کسی طرف سے انہیں امداد پہنچ سکے گی۔
Top