Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 8
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور بعض لوگوں میں سے وہ ہیں ، جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر حالانکہ وہ مومن نہیں ہیں
گزشتہ سے پیوستہ : ہدایت کے اعتبار سے انسانوں کے تین گروہوں کا ذکر آچکا ہے۔ پہلا گروہ وہ ہے جو ظاہراً اور باطنا ہدایت کو قبول کرتے ہیں ، وہ مومن اور متقی کہلاتے ہیں۔ سورة بقرہ کی پہلی چار آیتوں میں ان کا حال بیان ہوا ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو ظاہر اور باطناً ہدایت الٰہی کا انہار کرتا ہے۔ وہ کافروں کا گروہ ہے۔ اگلی دو آیات میں ان کا حال بیان ہوچکا ہے اب ان آیات میں تیسرے گروہ منافقین کا تذکرہ ہے جو ظاہر میں تو ہدایت کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان کے باطن میں کفر ہوتا ہے۔ اگلی تیرہ آیات میں منافقین کی خرابیاں ، انکی سازشوں اور چال بازیوں کا حال ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مثالوں کے ذریعے سارا معاملہ سمجھایا ہے منافقین کا گروہ : قرآن کریم میں منافقین کا حال مختلف سورتوں میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ بعض سورتیں صرف منافقین کے نام پر ہیں۔ مثلاً سورة منافقون ۔ اسی طرح نزول کے اعتبار سے آخری سورة توبہ میں بھی منافقین کی سازشوں سے آگاہ کیا گیا ہے۔ اور ان سے خبردار رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ امام ابوبکر جصاص (رح) بہت بڑے مفسر قرآن ہوئے ہیں امام یزید بن مبرد (رح) بھی بہت بڑے عالم گزرے ہیں انہوں نے علوم عربیہ میں “ کامل ” نامی عظیم کتاب لکھی ہے۔ یہ دونوں حضرات فرماتے ہیں (1 ۔ احکام القرآن ج 1 ، ص 26) کہ نفاق کا اشتقاق نافقا الیربوع سے ہے جس کا معنی ہے جنگلی چوہے کا بل ۔ مشہور ہے کہ گوہ یا جنگلی چوہے کے چار بل (سوراخ) ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ شکاری کو دھوکا دیتا ہے یہ کسی ایک سوراخ سے ظاہر ہوتا ہے۔ شکاری اس کو کھودتے ہیں ، تو وہ کسی دوسری طرف غائب ہوجاتا ہے۔ منافق کا حال بھی یہی ہے ۔ یہ شرک کو پوشیدہ رکھتا ہے۔ اور ایمان کو ظاہر کرتا ہے جنگلی چوہے کی طرح یہ بھی خداع یعنی دھوکے باز ہوتا ہے۔ شریعت میں منافق کی تعریف اس طرح کرتے ہیں لمن یظھر الایمان ویسر الکفر جو ایمان کو ظاہر کرتا ہے۔ اور کفر کو چھپاتا ہے۔ منافقین کی قسمیں : اب منافق کی کئی قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کا منافق وہ ہے جو ایمان کو ظاہر کرتا ہے مگر باطن میں کفر بھرا ہوا ہے ۔ اور وہ اس پر مطمئن ہے۔ دوسری قسم کا منافق وہ ہے جو ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے متذبذب ہوتا ہے۔ وہ ظاہراً اور باطنا شک میں ہوتا ہے ایسا منافق مذبذبین بین ذلک کا مصداق ہوتا ہے ان دونوں قسم کے منافقین کا نفاق شدید ہوتا ہے ان کے اعتقاد فاسد ہوتا ہے۔ اور اس مقام پر جن منافقین کا ذکر ہے۔ وہ یہی اعتقادی منافق ہیں۔ جن کے عقیدے میں کفر بھرا ہوا ہے ۔ تیسری قسم کا منافق وہ ہے جو اخلاقی اور عملی منافق ہوتا ہے ایسا شخص اپنے گناہوں کی وجہ سے آخرت کے نقصان کو دنیا کے نقصان پر ترجیح دیتا ہے ۔ اور دنیا کے نفع کو آخرت کے نفع پر ترجیح دیتا ہے۔ یہ ایسے منافق ہوتے ہیں کہ اگرچہ ان میں ایمان موجود ہوتا ہے۔ مگر یہ لوگ آخرت کو دنیا پر ترجیح نہیں دے سکتے۔ یہاں پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے “ ومن الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر ” بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں “ وما ھم بمؤمنین ” حالانکہ وہ مؤمن نہیں ہیں۔ ایسے لوگ دھوکے باز ہیں ۔ “ یخدعون اللہ والذین امنوا ” یہ اللہ تعالیٰ اور ایمانداروں کو دھوکا دیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے “ وما یخدعون الا انفسھم ” کہ یہ اپنی جانوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ یہ لوگ خدا تعالیٰ یا ایمان والوں کا کیا بگاڑیں گے۔ یہ تو اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں ۔ اور اپنا ہی انجام خراب کر رہے ہیں۔ اور یہ سوچتے بھی نہیں “ وما یشعرون ” یہ اتنا شعور بھی نہیں رکھتے کہ خود اپنا ہی نقصان کر رہے ہیں آخرت کو برباد کر رہے ہیں “ فی قلوبھم مرض ” ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ اور یہ بیماری شک کی بیماری ہے۔ اکثر صحابہ کرام ؓ خصوصاً حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ نے یہی معنی کیا ہے (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 48) کہ ان لوگوں کے دلوں میں شک ہے ۔ نفاق دینی بیماری ہے : نفاق کی بیماری جسمانی بیماری نہیں بلکہ دین کی بیماری ہے۔ جس طرح اجسام کی بیماریاں ہوتی ہیں ، اسی طرح دین اور عقیدے کی بھی بیماریاں ہوتی ہیں۔ تو اس بیماری سے مراد عقیدے کی بیماری ہے۔ امام بیضاوی (رح) فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 21) کہ جو شخص اعتدال کی حالت سے نکل جاتا ہے۔ وہ بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جسم کے مختلف عناصر اور اجزاء جب تک اعتدال پر قائم رہیں انسان کی صحت درست رہتی ہے۔ اور جب یہ اعتدال خراب ہوجائے تو جسم بیماری ہوجاتا ہے۔ عقیدے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ جب آدمی اعتدال کا راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ تو پھر بد عقیدگی ، حسد ، کینہ ، اور گناہوں کے ساتھ محبت کا راستہ کھل جاتا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو انسانوں کو فضیلت کی باتوں سے روکتی ہے۔ اور ابدی اور حقیقی زوال کا باعث بنتی ہے اسی لئے عربی زبان میں مرض کا لفظ نفاق پر بھی بولا جاتا ہے۔ کینے اور حسد کو بھی نفاق کہتے ہیں ۔ نفاق کا کام یہ ہے کہ خیر کو ظاہر کرتا ہے اور شر کو چھپاتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان اچھائی کا کام کر رہا ہے۔ مگر باطن میں فتنہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ بیضاوی) کہ اس آیت سے دل کی بیماریوں کا پتہ چلتا ہے۔ “ فی قلوبھم مرض ” ان کے دلوں میں بھی بیماری ہوتی ہے۔ اور یہ بیماری خون ، صٖغرا وغیرہ کی ظاہری بیماری نہیں ہوتی جو ظاہری جراثیم سے پیدا ہوتی ہے۔ بلکہ اس کے محرک باطنی جراثیم یعنی گناہ ہوتے ہیں۔ اور سب سے بڑے گناہ شرک ، کفر ، نفاق ، شک ، تردد اور الحاد وغیرہ ہیں۔ اور ان سے پیدا ہونے والی روحانی بیماریاں ہوتی ہیں۔ فرمایا “ فزادھم اللہ مرضا ” اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا کیونکہ اللہ کی سنت اسی طرح جاری ہے کہ جب علاج نہیں کیا جاتا تو بیماری بڑھ جاتی ہے دیکھ لیجئے اسلام کو ترقی نصیب ہو رہی ہے۔ مگر منافقوں کی بیماری روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے باطن میں پوشیدہ حسد اور کینہ ، اسلام کی مخالفت اور بد عقیدگی بڑھتی جا رہی ہے ۔ اسی کو فرمایا فزادھم اللہ مرضا اب اس بیماری کا نتیجہ یہ ہوگا “ ولھم عذاب الیم ” کہ ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ اور یہ سزا انہیں اس جرم کی پاداش میں ملے گی۔ “ بما کانوا یکذبون ” کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ زبان سے حق کا اقرار کرتے تھے۔ اہل ایمان کی رفاقت کا دم بھرتے تھے۔ مگر دل سے کفر کے ساتھ ہوتے تھے۔ گویا وہ زبان سے جھوٹ بولتے تھے۔ چناچہ فرمایا ان کے اس جھوٹ کی وجہ سے انہیں ہولناک عذاب کا مزہ چکھنا ہوگا۔ یہ ان کے نفاق یا حسد کی سزا ہے۔ فساد فی الارض : فرمایا حقیقت یہ ہے کہ منافقین اپنے نفاق کی وجہ سے فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اس سلسلے میں جب ان سے کہا جاتا ہے “ واذا قیل لھم لا تفسدوا فی الارض ” کہ زمین میں فساد برپا نہ کرو “ قالوا انما نحن مصلحون ” تو کہتے ہیں کہ ہمیں فسادی کون کہہ سکتا ہے۔ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ فساد اور اصلاح متضاد چیزیں ہیں۔ اعتدال کی حالت کو اصلاح اور اعتدال سے خروج کو فساد کہتے ہیں۔ لڑائی بھڑکانا ، فتنہ برپا کرنا ، کافروں سے دوستی ، مسلمانوں سے دھوکا ۔ ان کے رازوں کا افشاہ گناہوں کا اظہار ، دین کی اہانت ، قوانین شریعت کی خلاف ورزی یہ سب فساد فی الارض کے کام ہیں (1 ۔ بیضاوی ج 1 ص 22) ان لوگوں کے نزدیک فلاح اور اصلاح محض معا کی درستگی ہے۔ یہ لوگ نظام حق کو بگارتے ہیں۔ عبادت الٰہی کی بجائے کفر و شرک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں ۔ یہی فساد ہے۔ امام طبری (رح) اور ابن کثیر (رح) متعدد مفسرین کرام سے روایت کرتے ہیں (2 ۔ تفسیر طبری ج 1 ص 125 ، تفسیر ابن کثیر ج 1 ، ص 49) کہ “ اصلاح الارض والسمآء بالطاعۃ ” زمین و آسمان کی اصلاح اطاعت کے ذریعے سے ہو سکتی ہے ۔ اطاعت ہوگی تو ارض وسما کے معاملات درست ہوں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے قانون اور اس کے رسول کی اطاعت نہیں ہوگی تو زمین پر فساد کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ اور منافق یہی کچھ کرتے ہیں۔ منافقین کی دھوکہ دہی : اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا “ یخدعون اللہ ” یہ اللہ کو دھوکا دیتے ہیں حالانکہ دھوکا تو وہاں دیا جاسکتا ہے۔ جہاں کوئی حالات سے ناواقف ہو۔ اللہ تعالیٰ تو علیم کل ہے اسے دھوکا کیسے دیا جاسکتا ہے۔ اس اشکال کے متعلق امام بیضاوی (رح) اور دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں (3 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ص 21) کہ اللہ کو دھوکا دینے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کو دھوکا دیتے ہیں اور وہ اس طرح کہ زبان سے کہتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں آپ کے پیروکار اور فدائی ہیں ، مگر قلب کفر سے بھرپور ہے۔ ایمان کی مقدار ایک رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے۔ اور ویسے محاورے کے طور پر کرسکتے ہیں کہ جو اہل اللہ کو دھوکا دیتے ہیں۔ وہ گویا خدا تعالیٰ کو دھوکا دیتے ہیں مقصد یہ کہ اللہ کے رسول کو دھوکا دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں اس کی مثال موجود ہے “ ” ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ ” یعنی اے پیغمبر ! جو لوگ آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتے ہیں ، وہ گویا اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں۔ اسی طرح فرمایا “ من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ” جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ کیونکہ رسول خدا کا نائب اور اس کا پیغام مخلوق تک پہنچانے والا ہوتا ہے۔ اور وہ تمام امور اس کی رضا کے لیے انجام دیتا ہے ۔ اسی طرح اللہ کو دھوکا دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کے رسول کو دھوکا دیتے ہیں ۔ منافقین کا طریقہ واردات بھی وہی ہے۔ جو ایک عام دھوکا باز کا ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ اس طریقہ سے ہم اپنے مفاد بھی حاصل کرلیں گے اور ہمیں نقصان بھی نہیں پہنچے گا۔ اس طرح ہم اس بدعقیدگی پر قائم رہ سکیں گے۔ گویا اسلام کا دعوے بھی کرتے رہیں اور کفر کے پروگرام کو بھی ساتھ ہی جاری رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ دو متضاد پروگرام ہیں اور کسی صورت میں ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ اسلام کا پروگرام نہایت ترقی یافتہ پروگرام ہے۔ جب کہ کفر انتہائی رجعت پسندانہ نظام ہے۔ یہ دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے۔ ایک طرف توحید ، ایمان اور تقویٰ کا پروگرام ہے۔ اور دوسری طرف کفر ، شرک اور باطنی بیماریوں کا نظام ہے۔ معاصی اور جنگ وجدل کا نظریہ رکھنے والے یہی لوگ فساد فی الارض کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا “ الا انھم ھم المفسدون ” اصل فسادی یہی ہیں۔ جو زبان سے اسلام کا نام لیتے ہیں “ ولکن لا یعرون “ مگر یہ لوگ سمجھتے نہیں ان کا نفاق ظاہر ہوچکا ہے اور فساد ثابت ہوگیا ہے۔ حکومتی سطح پر نفاق : غور سے دیکھا جائے تو آج کل کی حکومتیں بھی اسی نفاق کا شکار ہیں۔ یہ بھی حق و باطل کو یکجا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ حالانکہ یہ ممکن نہیں۔ خود ہماری حکومت کا کیا حال ہے۔ اسلام کا نام بھی لیا جا رہا ہے۔ اور یورپ کے غیر اسلامی پروگرام بھی ساتھ چل رہے ہیں انگریز کا قانون بھی رائج ہے اور اسلامی قوانین بھی جاری کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ دونوں پروگرام اکٹھے نہیں چل سکتے۔ صرف ایک نظام کو اپنانا ہوگا۔ ورنہ فساد فی الارض کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسی طرح اسلام کے نظام تعلیم اور انگریزی تعلیم کو یکجا چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ایک نظام کا منبی ہی فساد ہے اور دوسرے کا ایمان ، تو یہ اکٹھے کیسے ہو سکتے ہیں جب تک تمام باطل نظاموں کو ختم کرکے صرف اسلامی نظام کو قائم نہیں کریں گے۔ کبھی فلاح حاصل نہیں ہوسکتی ۔ میں نے یہ بات اشارۃً کردی ہے۔ عذاب عظیم اور عذاب الیم میں فرق : مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس سے قبل کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے بارے میں فرمایا “ ولھم عذاب عظیم ” اور منافقوں کے متعلق فرمایا “ ولھم عذاب الیم ” یعنی کافروں کے لیے بڑا عذاب ہے۔ اور منافقوں کے لیے دردناک عذاب ۔ اس کے متعلق شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں (1 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 103 پارہ 1) کہ کافر مردود اور محروم ازلی ہے۔ اس کی استعداد تو ابتدا ہی سے خراب ہے۔ کافروں نے اپنی استعداد کو بگاڑ کر بابکل محرومی کی حالت اختیار کرلی ہے لہٰذا ان کے لیے عذاب اول سے آخر تک بڑا ہی ہوگا۔ جہاں تک منافقین کا تعلق ہے۔ ان میں استعداد تو موجود تھی ، مگر انہوں نے اس استعداد میں بگاڑ پیدا کر کے اپنے اندر خود محرومی پیدا کرلی۔ جب سزا کی نوبت آئے گی ، تو ان کو اس کا احساس ہوگا اور دکھ پیدا ہوگا۔ کہ افسوس ہمارے اندر استعداد تو موجود تھی مگر ہم نے اس کو نظر انداز کردیا لہذا ان کو مولم عذاب ہوگا۔ یعنی جس قدر احساس ہوگا۔ اسی قدر تکلیف ہوگی۔ اس کے علاوہ مفسرین کرام ایک اور بات بھی بیان فرماتے ہیں (2 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ص 102 پ 1) کہ کافروں نے تو ایمان کا ذائقہ چکھا ہی نہیں۔ وہ تو اول و آخر کافر ہی رہے۔ برخلاف اس کے منافقین نے اگرچہ دل سے حق کو قبول نہیں کیا۔ مگر زبان سے تو ایمان کا ذائقہ چکھا ہے۔ اور جو آدمی کسی چیز کا ذائقہ چکھ لیتا ہے۔ اس کا حکم اور ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے عذاب الیم مقرر کیا گیا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ بکثرت پھل پیدا کرنے والے علاقے کے لوگ کسی ایسی جگہ جاتے ہیں۔ جہاں ایسے پھل نہیں ہوتے۔ تو انہیں احساس محرومی ہوتا ہے۔ اور بڑی تکلیف پہنچتی ہے۔ بڑا مشہور واقعہ ہے کہ ابدالی نے جب پانی پت کا معرکہ سر کیا تو دلی کے بعض لوگوں نے کہا کہ آپ یہیں ٹھہر جائیں تو انہوں نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا۔ “ ایں جا انار قندھار کجا است ”۔ یعنی قندھار کا انار کہاں ہے۔ جو میں یہاں قیام کرلوں۔ وہ قندھاری انار کے ذائقہ سے واقف تھا۔ اس لیے وہ وہاں ٹھہر کر اس ذائقے سے محروم نہیں ہونا چاہتا ہے۔ منافقین کا حال بھی یہی ہوگا ۔ چونکہ انہوں نے زبان سے ایمان کا ذائقہ چکھا تھا۔ اس لیے آخرت میں انہیں محرومی کا سخت احساس ہوگا اور اس احساس کی وجہ سے ان کے دکھ اور درد میں اضافہ ہوگا ، اسی لیے اس کو عذاب الیم کہا گیا ہے۔
Top