Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 19
وَ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا یَسْتَحْسِرُوْنَۚ
وَ لَهٗ : اور اسی کے لیے مَنْ : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَالْاَرْضِ : اور زمین میں وَ مَنْ : اور جو عِنْدَهٗ : اس کے پاس لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ : وہ تکبر (سرکشی) نہیں کرتے عَنْ : سے عِبَادَتِهٖ : اس کی عبادت وَ : اور لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ : نہ وہ تھکتے ہیں
اور اس کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں۔ اور وہ جو اس کے نزدیک ہیں ، نہیں تکبر کرتے اس کی عبادت سے اور نہ وہ تھکتے ہیں
ربط آیات : گزشتہ درس تک کا زیادہ ترحصہ رسالت کے تذکرے پر مشتمل تھا۔ کافر اور مشرک اللہ کے نبیوں پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ تو انسان ہیں ، بھلا ہم ان کا اتباع کیسے کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا تردیدی جواب دیا۔ پھر پہلے لوگوں کا حال بیان کیا اور عذاب کی وعید سنائی۔ نافرمانوں کا انجام بھی بیان فرمایا۔ اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک کا رد کیا ہے۔ گزشتہ درس میں بیان ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ارض وسماکے کارخانے کو محض لہو ولعب کے لئے نہیں بنایا بلکہ یہ اس کی حکمت پر مبنی ہے۔ اس کائنات کا آغاز بھی ہے اور اس کا انجام بھی۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح : ارشاد ہوتا ہے ولہ من فی السموت ولارض اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ ہرچیز کو پیدا بھی اسی نے کیا ہے اور ہر چیز کی تدبیر بھی وہی کرتا ہے۔ وہ سب چیزوں کا مالک ہے اور ہرچیز پر اسے تصرف حاصل ہے۔ قدرت کے کارخانہ کو محض کھیل تماشہ سمجھنا بیوقوفی کی بات ہے۔ اس نے کسی چیز کو بیکار نہیں بنایا بلکہ ہر چیز کے ساتھ اس کی حکمت اور مصلحت وابستہ ہے۔ اس کے علاوہ ومن عندہ جو مخلوق اس کے نزدیک ہے ، یعنی ملائکہ جنہیں اللہ کا قرب نصیب ہے ، وہ بھی اسی کی ملکیت میں ہیں۔ فرشتے اپنے پروردگار کے تابع فرمان ہیں لا یستکبرون عن عبادتہ وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ۔ جب مقربین خدا اس کی عبادت سے سرتابی نہیں کرتے تو پھر باقی مخلوق کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے میں عفلت کریں۔ انسان تو فرشتوں کی نسبت زیادہ محتاج ہیں ، لہٰذا ان کا بطریق اولیٰ فرض ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے تکبر نہ کریں۔ تو فرشتوں کے متعلق فرمایا کہ ا کی تو وہ اپنے رب کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے او دوسرا یہ کہ ولا یستحسرون وہ تھکتے بھی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مسلسل عبادت کرنے کے باوجود ان پر تھکاوٹ کے اثرات پیدا نہیں ہوتے۔ ان کا کام یہ ہے یسبحون الیل والنھار وہ رات دن اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کرتے رہتے ہیں لا یفترون مگر ذرہ برابر بھی سستی نہیں کرتے۔ وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتحمید کرتے رہتے ہیں۔ یہاں پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بعض دیگرفرائض بھی سونپ رکھے ہیں تو وہ یہ فرائض اور عبادت اکٹھے کیسے انجام دیتے ہیں۔ بادی النظر میں تو ایک وقت میں ایک کام ہی ہوسکتا ہے۔ یا تو اپنے رب کی عبادت کریں یا دیگر فرائض انجام دیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں ، کہ فرشتوں کا عبادت کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی انسان غیرارادی طور پر ہر وقت سانس لیتا رہتا ہے یا وقفے وقفے سے آنکھ جھپکتا ہے۔ ہر شخص دنیا کے سارے کام محنت مزدوری ، کھیتی باڑی ، تجارت ، ملازمت ، کھانا پینا ، سونا جاگنا وغیرہ انجام دیتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ سانس بھی لیتا رہتا ہے جس کے لئے اسے کوئی محنت مشقت نہیں کرنا پڑتی کسی دوسرے کام کو چھوڑ کر سانس لے لے یا آنکھ جھپک لے۔ فرماتے ہیں کہ فرشتوں کا عبادت کرنا بھی بالکل اسی طرح ہے۔ وہ انسان کے سانس لینے اور آنکھ جھپکنے کی طرح بلا تکلف اللہ کی عبادت ، اس کی تسبیح وتحمید بھی ادا کرتے رہتے ہیں اور اپنی دیگر ڈیوٹی بھی دیتے رہتے ہیں۔ فرشتوں کی توجہ ہر وقت ذات خداوندی کی طرف لگی رہتی ہے اور وہ باقی فرائض بھی انجام دیتے رہتے ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو ان کی زبان سے خدا تعالیٰ کی تسبیح وتحمید اسی طرح بےاختیار جاری ہوجائیگی۔ جس طرح اس دنیا میں کوئی انسان یا حیوان بغیر اختیار و ارادہ کے سانس لیتا ہے جس طرح سانس لینا باقی اشغال کے مانع نہیں اسی طرح فرشتوں کا عبادت کرنا بھی ان کے دیگر فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ شرک کی تردید : اب اگلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے توحید کا اثبات اور شرک کی تردید بیان فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ام التخذوا الھۃ من الارض کیا ان کفار ومشرکین نے زمین سے معبود بنالیے ہیں ؟ ھم ینشرون کیا وہ انسانوں کو ان کی موت کے بعد دوبارہ زندہ کرسکیں گے ؟ ظاہر ہے کہ دوبارہ زندہ کرنے کا اختیار تو اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا۔ اور جو دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا۔ وہ معبود بھی نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا زمین کی کسی چیز کو معبود بنانا نہایت ہی حماقت کی بات ہے۔ مشرک لوگ زمینی مخلوق میں سے پتھروں اور پہاڑوں کو معبود بنالیتے ہیں۔ پتھروں سے تراشے ہوئے بت تو نزول قرآن کے زمانہ میں عام تھے ، یہاں ہندوستان کے مشرک بندھیا چل یا بعض دوسرے پہاڑوں کو بھی الٰہ مانتے ہیں اور ان کی ایسی تعظیم کرتے ہیں جیسی معبود برحق کی کرنی چاہیے۔ بعض گنگا ، جمنا جیسے دریائوں کی پوجا کرتے ہیں۔ سانپ کی پوجا کرنے والے ناگ پنچھمی بھی موجود ہیں۔ بعض لوگ شمس وقمر اور بعض پانی کی پرستش کرتے ہیں۔ بعض آگ کے پچاری ہیں اور بعض ہوا کے ، بندروں کی پوجا کرنے والے ہنومات کو مقدس سمجھتے ہیں۔ گائے ، بلی اور درختوں کے پجاری بھی برصغیر میں ملتے ہیں۔ الغرض ! فرمایا کہ ان لوگوں نے زمینی چیزوں کو معبود بنا رکھا ہے۔ ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھا جاتا ہے۔ بعض فرشتوں جیسی آسمانی مخلوق کو بھی الٰہ مانتے ہیں۔ بعض جنات کے پجاری ہیں۔ کراچی اور بعض دوسری جگہوں پر سورج پرست پائے جاتے ہیں جو ساحل سمندر پر کھڑے ہو کر طلوع شمس کے وقت اس کی تعظیم کرتے ہیں۔ اسی لئے فرمایا کہ کیا انہوں نے زمین کی مخلوق کو معبود بنارکھا ہے ؟ کیا یہ معبود قیامت کے دن انہیں زندہ کریں گے ؟ نہیں ، یہ ان کے بس کی بات نہیں ان میں سے بعض تو مٹی اور پتھر کی بےجان چیزیں ہیں ، اور جو جاندار بھی ہیں۔ ان کو کچھ اختیار حاصل نہیں۔ لہٰذا وہ کسی کو مرنے کے بعد زندہ نہیں کرسکتے قدرت تامہ کا مالک صرف خدا تعالیٰ ہے۔ رد شرک پر دلیل : اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے رد شرک پر ایک دلیل قائم کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے لو کان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا اگر زمین وآسمان میں اللہ کے علاوہ کوئی دوسرے معبود بھی ہوتے تو کائنات کا نظام یکسر بگڑ جاتا۔ زمین وآسمان اپنی موجودہ حالت پر قائم نہ رہتے۔ متکلمین اور علم اصول والے اس دلیل کی دلیل تمانع کے ساتھ موسوم کرتے ہیں۔ جس کی بنیاد تزاحم اور تضاد پر ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ایک سے زیادہ معبود ہوں گے تو ہر معبود مختلف امور کا ارادہ کرے گا۔ ایسی صورت میں اگر یہ ارادے پورے ہوجائیں تو ان میں تضاد ہوگا۔ مثلا کے طور پر ایک معبود کسی چیز کو پیدا کرتا ہے اور دوسرا اس کو فنا کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ اور اگر فرض کرلو کہ دونوں معبود آپس میں کسی امر پر اتفاق کرلیتے ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں کی قوت برابر سرابر ہے یا کم وبیش۔ اگر برابر ہے تو اتفاق مشکل ہے اور اگر کم وبیش ہے تو پھر کمزور معبود عاجز ہوگا اور الٰہ بننے کے قابل نہیں ہوگا۔ بالآخر ماننا پڑے گا کہ الٰہ صرف ایک ہے جو خالق ، مدبر ، ہتصرف اور سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ قدرت کا موجودہ نظام پورے قرینے اور نظم کے ساتھ قیامت تک چلتا رہے گا جو کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ ارض وسما میں کئی معبود ہوتے تو ان کا آپس میں تصادم (clash) ہوجاتا اور کائنات کا نظام نہ چل سکتا۔ ویسے بھی دنیا کا دستور ہے کہ ایک سلطنت میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے۔ شیخ سعدی (رح) کا مقولہ تو زبان زد عام ہے کہ ” دس درویش ایک گودڑی میں تو سما سکتے ہیں لیکن دو بادشاہ ایک ملک میں اکٹھے نہیں ہوسکتے “ اللہ نے دوسرے مقام پر فرمایا اذالا……………سبیلا (بنی اسرائیل 42) اگر اللہ کے سوا دوسرے معبود بھی ہوتے تو وہ عرش والے کی طرف مقابلہ کرنے کے لئے جاتے اور اس طرح بڑا فساد برپا ہوتا۔ مشہور ہے کہ عبدالملک ابن مروان نے اپنے ایک حریف کو قتل کردیا کیونکہ وہ بھی حکومت کرنے کا خواہشمند تھا۔ قتل کرنے کے بعد کہنے لگا کہ مقتول مجھے بڑا ہی عزیز تھا لیکن مشکل یہ ہے کہ دوسانڈھ تو ایک خشک اونٹنی پر اکٹھے نہیں ہوسکتے ، بھلا ہم ایک سلطنت میں کیسا اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ دلیل بیان فرمائی ہے کہ دیکھو ! اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسرا معبودبھی ہوتا تو ارض وسما کا سارا نظام بگڑ جاتا۔ چونکہ یہ نظام احسن طریقے سے چل رہا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ معبود برحق بھی ایک ہی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام شبیر احمد عثمانی (رح) (تفسیر عثمانی ص 419 (فیاض) اس مسئلہ کی تقریر اس طرح کرتے ہیں کہ عبادت نام ہے کامل درجے کے تذلل اور انتہائی درجے کی عاجزی کا۔ یہ دونوں چیزیں صرف اسی ذات کے سامنے اختیار کی جاسکتی ہیں جو اپنی ذات اور صفات میں ہر طرح سے کامل ہو اور اختیار رکھتا ہو۔ اس ذات کو ہم اللہ یا خدا کہتے ہیں۔ یہ ایسی ذات ہے جو نہ عاجز ہے ، نہ کمزور اور نہ مغلوب۔ وہ کسی کام کے لئے کسی دوسری ہستی سے مدد نہیں لیتا ، بلکہ سب کچھ اپنی مرضی اور ارادے سے کرتا ہے ۔ اس کے ارادے میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ اگر زمین میں ایک کی بجائے دو خدا ہوتے تو ظاہر ہے کہ دونوں بےعیب اور یکساں شان کے مالک ہوں گے۔ اگر پورے عالم بالا اور زیریں کی تخلیق وتدبیر میں دونوں متفق ہوجاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اکیلے خدا سے کام نہیں چل سکتا۔ لہٰذا دونوں نے مل کر اس کارخانہ قدرت کو بنایا اور چلایا۔ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دونوں خدائوں میں سے کوئی بھی کامل نہیں کیونکہ انہیں ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے۔ ایسی صورت میں دونوں میں سے کوئی بھی الوہیت کے قابل نہیں۔ اور اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ دونوں میں سے کوئی ایک بھی سارے کام انجام دے سکتا ہے تو پھر دوسرا خدا یقینا بیکار ہوگا ، پھر اس کی کیا ضرورت رہ گئی ، لہٰذا ایسا بیکار محض خدا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر دو مساوی خدائوں میں کشمکش شروع ہوجائے تو ایک غالب ہوگا اور دوسرا مغلوب۔ تو اس حالت میں الوہیت کے لائق وہی ہوگا جو غالب آئے گا ، اور اس طرح بھی ایک ہی خدا ماننا پڑے گا۔ اگر دو خدائوں کی آپس میں زور آزمائی کی نوبت آجائے تو جنگ وجدال میں ہر چیز ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور ارض وسما کا نظام قائم نہیں رہ سکے گا۔ چونکہ نظام کائنات مستحکم طریقے سے چل رہا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اس نظام کو چلانے والا وحدہ لاشریک ہے۔ وہ ہر لح اس سے کامل اور ہر عیب اور نقص سے پاک ہے۔ وہ علیم کل اور قادر مطلق ہے ، وہ خالق مدبر اور متصرف ہے ، اس کے ارادے میں کوئی چیز مزاحم نہیں ہوسکتی۔ آگے ارشاد ہتا ہے فسبحن اللہ رب العرش عما یصفون پس پاک ہے اللہ تعالیٰ جو عرش عظیم کا مالک ہے ان چیزوں سے جو لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ کسی نے مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہہ دیا اور کسی نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دے دیا۔ یہ سب باتیں غلط ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسی چیزوں سے پاک ہے۔ وہ مختار مطلق ہے لا یسئل عما یعفل وہ جو چاہے کرے ، اس سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا وھم یسئلون بلکہ خود ان لوگوں سے پوچھا جائے گا کہ تم نے فلاں کام کیوں کیا ، اور فلاں کیوں نہ کیا ؟ تفویض اختیارات کی نفی : شرک کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کو حاکم اعلیٰ مان کر اس کے ماتحت چھوٹے خدائوں کو بھی تسلیم کیا جائے اور یہ عقیدہ رکھا جائے کہ بڑے خدا نے اپنے ماتحتوں کو بعض اختیارات تفویض کر رکھے ہیں۔ اگلی آیت میں اس بات کا رد ہے۔ فرمایا ام اتخذوا من دونہ الھۃ کیا انہوں نے بنا رکھے ہیں اللہ کے ورے (ماتحت) معبود ؟ ظاہر ہے ، کہ خدا تعالیٰ کے مقابلہ کا تو کوئی نہیں ہے مگر اس نے اپنے کچھ کار ساز بنارکھے ہیں اور انہیں اختیار دے دیا ہے کہ فلاں کام تم انجام دے لیا کرو۔ گویا ایسے معبود خدا تعالیٰ کے عطاکردہ اختیارات سے لوگوں کو نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی کو کوئی اختیار نہیں دیا کہ وہ دوسروں کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرتا پھرے ، ہر چیز کا مدبر تو وہ خود ہے یدبر الامر من السماء الی ارض (آلم سجدہ 5) بلندیوں سے پستیوں تک ہر چیز کا تدبیر کنندہ وہ آپ ہے۔ اسے کائنات کی نگرانی میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ پھر وہ دوسروں کو اختیار کیوں دیگا۔ اس قسم کا اعتقاد پرانے مشرکین میں ضرور پایا جاتا تھا۔ حج کے موقعہ پر جب وہ تلبیہ پکارتے تھے تو کہتے تھے۔ لبیک لا شریک لک اے اللہ ! میں حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں الا شریکا ھولک تملکہ وما ملک البتہ تیرے وہ شریک ضرور ہیں جن کا تو خود مالک ہے اور ان چیزوں کا بھی مالک ہے جن کا اختیار تو نے انہیں دے رکھا ہے۔ گویا مشرکین لات ، منات وغیرہ کو خدا تعالیٰ کا شریک اس لحاظ سے سمجھتے تھے کہ اس نے انہیں بعض اختیارات دے رکھے ہیں اور وہ بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کرتے ہیں۔ فرمایا۔ تم نے جو شریک بنارکھے ہیں۔ ان کا کیا ثبوت ہے قل اے پیغمبر ! آپ ان سے کہہ دیں ھاتوا برھانکم اگر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے تو اسے پیش کرو۔ کوئی کتاب ، کوئی صحیفہ لائو جس میں لکھا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں ہستی کو فلاں فلاں اختیارات تفویض کردیے ہیں اپنے دعویٰ کی تائید میں کوئی عقلی دلیل لائو یا کوئی نقلی دلیل لائو ، تاکہ پتہ چلے کہ تم کس حد تک سچے ہو ، مگر قیامت تک ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکے گی۔ معبودواحد پر اتفاق : آگے قرآن پاک کی صداقت کا تذکرہ ہے ھذا ذکر من معی اس قرآن پاک میں میرے ساتھ والے لوگوں کا ذکر ہے وذکر من قبلی اور ان لوگوں کا بھی ذکر ہے جو مجھ سے پہلے گزرے ہیں چناچہ اگلے اور پچھلے سب اس بات پر متفق ہیں کہ معبود برحق صرف ایک ہی ہے نہ اس کا مدمقابل کوئی شریک ہے اور نہ اس کے ورے کوئی شر کی ہے کہ جس کو اس نے اختیار دے رکھا ہو۔ یہ سب جھوٹے دعویٰ ہیں۔ تمام آسمانی کتابیں ، صحیفے اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں بل اکثرھم لا یعلمون ، الحق مگر لوگ حق کو نہیں جانتے ۔ انہیں اس حقیقت کا علم نہیں فھم معروضون اور وہ اعراض کرتے ہیں۔ مشرکین مکہ جہالت کی بناء پر دھاندلی کرتے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے قرآن پاک کو مسترد کردیا۔ وہ اپنے عقلی ڈھکونسلے چلاتے تھے اور بیہودہ باتیں کرتے تھے۔ اکثر لوگ حق سے اعراض کرتے تھے۔ بہرحال تمام کتب سماویہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر متفق ہیں۔ اس کے بعد اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کا ذکر کیا ہے۔
Top