Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 25
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْۤ اِلَیْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ
وَ : اور مَآ اَرْسَلْنَا : نہیں بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے مِنْ رَّسُوْلٍ : کوئی رسول اِلَّا : مگر نُوْحِيْٓ : ہم نے وحی بھیجی اِلَيْهِ : اس کی طرف اَنَّهٗ : کہ بیشک وہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : کوئی معبود اِلَّآ اَنَا : میرے سوا فَاعْبُدُوْنِ : پس میری عبادت کرو
اور نہیں بھیجا ہم نے اس سے پہلے کوئی رسول مگر یہ کہ ہم وحی کرتے تھے اس کی طرف کہ نہیں ہے کوئی معبود مگر میں۔ پس میری ہی عبادت کرو
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے ان مشرکوں کا رد فرمایا جنہوں نے زمین کو مختلف چیزوں کو معبود تسلیم کرلیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ارض وسما میں اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا معبود ہوتا تو سارانظام کائنات بگڑ جاتا چونکہ کائنات کا نظام بالکل ٹھیک چل رہا ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ پورے نظام کو کنٹرول کرنے والا صرف ایک ہی خدا ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی ذات ان تمام لغویات سے پاک ہے جن کو وہ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق اور مختار مطلق ہے ، لہٰذا اس سے کسی بات میں باز پرس نہیں ہوسکتی بلکہ وہ ساری مخلوق کے محاسبے کا حق رکھتا ہے۔ پھر فرمایا کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ورے معبود بنارکھے ہیں ، وہ اس پر کوئی عقلی یا نقلی دلیل لائیں۔ تمام کتب سماویہ اور صحائف اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، اور یہی پیغام اللہ کے تمام انبیائے کرام نے اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا۔ درس توحید : آج کی آیات میں بھی توحید ہی کا درس ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے وما ارسلنا من قبلک من رسول ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا الا نوحی الیہ مگر اس کی طرف یہی وحی کی گئی انہ لا الہ الا انا کہ بیشک میرے سوا کوئی معبود نہیں۔ فاعبدون لہٰذا عبادت بھی صرف میری ہی کرو۔ اسی بات کو اللہ نے سورة آل عمران میں اس طرح بیان فرمایا ہے وما من الہ الا اللہ (آیت 62) اور نہیں ہے کوئی معبود مگر صرف اللہ۔ معبود برحق وہی ہوسکتا ہے۔ جو علیم کل ، قادر مطلق اور نافع وضار ہو۔ وہ خالق اور مالک ہے ، وہ رب العلمین ہے۔ اس نے رسولوں کو بھیجا ، کتابیں نازل فرمائیں ، انسان کو عقل ، فہم اور شعور دیا اور اس طرح انسان کی ہدایت کے تمام سامان مہیا کردیے۔ انبیاء کے علاوہ معلم اور منذر آئے جو لوگوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرسکیں۔ ان تمام ذرائع ہدایت کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا عبادت کے لائق کوئی ہستی نہیں کیونکہ اللہ کی صفات اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسری ذات میں نہیں پائی جاتیں۔ الوہیت کے لئے ضروری ہے کہ وہ خالق ہو مگر صفت خلق بھی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔ سورة فاطر میں اللہ نے استفساریہ انداز میں فرمایا ہے ھل من………… …والارض (فاطر 3) کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا بھی خالق ہے جو تمہیں ارض وسما سے روزی پہنچاتا ہے ؟ جب اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر الٰہ بھی وہی ہوسکتا ہے جو خالق ہے۔ مخلوق میں سے خواہ فرشتے ہوں یا جنات ، انسان ہوں یا حیوان یا چرند اور پرند کوئی بھی الوہیت کے قابل نہیں۔ اسی طرح الٰہ وہ ذات ہوسکتی ہے جو الحی القیوم ہو۔ یعنی وہ خود بھی زندہ ہو اور دوسروں کو بھی زندگی بخشتا ہو جو خود بھی قائم ہو اور دوسروں کو قائم رکھتا ہو۔ ان صفات کی حاصل صرف ذات خداوندی ہے ، لہٰذا عبادت کے لائق بھی وہی ہے لا الہ………القیوم (آل عمران 2) اسی لئے فرمایا کہ ہم نے نہیں بھیجا تجھ سے پہلے کوئی رسول مگر ہم نے اس کی طرف وحی کی کہ میرے سوا عبادت کے لائق کوئی نہیں ، لہٰذا میری ہی عبادت کرو۔ میرے سوا نہ کوئی مشکل کشا ہے نہ حاجت روا ، نہ علیم کل اور نہ قادرمطلق۔ آگے اللہ تعالیٰ نے عقیدہ ابنیت کا رد فرمایا ہے وقالوا اتخذ الرحمن ولدا سبحنہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن نے بیٹا بنا لیا ہے ، حالانکہ وہ تو اولاد سے پاک ہے۔ خدا تعالیٰ کے لئے اولاد کا عقید رکھنے والے مشرکین عرب میں سے بھی تھے۔ قبیلہ بنو خزاعہ میں اس عقیدے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بعض فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے جیسا کہ دوسری سورتوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔ بعض ایسے ظالم بھی تھے جو اسے حقیقی معافی پر محمول کرتے تھے۔ جیسے فرمایا وجعلوا بینہ ……نسبا (الصفت 158) انہوں نے خدا تعالیٰ اور جنات کے درمیان رشتہ ناطہ قائم کرلیا تھا جس کے نتیجے میں وہ فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں کہتے تھے۔ اللہ نے فرمایا افاصفکم…………… …اناثا (بنی اسرائیل 40) ظالمو ! کیا تمہارے لئے تمہارے رب نے بیٹے پسند کیے اور اپنے لئے فرشتوں کو بیٹیاں تجویز کیا۔ یہ کتنی بیہودہ بات ہے کہ جس چیز کو تم خود اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ خدا کے لئے تجویز کرتے ہو۔ ادھر یہودیوں اور عیسائیوں کا عقیدہ بھی اللہ نے بیان کیا۔ وقالت…………ابن اللہ (التوبہ 30) یہودیوں نے کہا کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح (علیہ السلام) اللہ کا بیٹا ہے اس وقت یہودیوں کی کل آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے مگر ان میں سے ایک قلیل فرقہ ابنیت کا قائل ہے۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی (رح) کے ایک خادم امیر شاہ خاں آج سے کوئی سو سوا سو سال پہلے شام و فلسطین کی سیاحت پر گئے تو انہوں (تفسیر عثمانی ص 420 (فیاض) نے وہاں کے لوگوں سے پوچھا کہ وہ کون سے لوگ ہیں جو عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا تسلیم کرتے ہیں ، تو انہوں نے کہا یہاں شہر میں تو ایسا کوئی آدمی نہیں البتہ بعض دیہات میں ایسے لوگ مل جاتے ہیں۔ چناچہ ایک گائوں میں چند آدمی اس عقیدہ کے نکل آئے۔ یہ بات امیر شاہ خاں (رح) نے مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) کے سامنے بیان کی تھی۔ عیسائیوں میں عقیدہ ابنیت دو ظرح سے پایا جاتا ہے۔ اکثر لوگ مسیح (علیہ السلام) کو مجازی معنوں میں خدا کا بیٹا مانتے ہیں یعنی یہ کہ آپ اللہ کے مقرب اور پیارے ہیں۔ جیسا کسی کا بیٹا کسی کو محبوب ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنے پیارے کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ لوگوں کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرے۔ اللہ نے اس کا بھی رد فرمایا ہے کہ اس نے مخلوق میں سے کسی کو کوئی اختیار دے رکھا ہے۔ عیسائیوں میں ایک قلیل تعداد ایسی بھی ہے جو مسیح (علیہ السلام) کو خدا تعالیٰ کا حقیقی بیٹا تسلیم کرتی ہے ، چناچہ وہ حضرت مریم کو مادر خدا کہتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی حقیقی اولاد مانی جائے تو خدا تعالیٰ حادث ثابت ہوتا ہے نہ کہ ازلی اور ابدی ۔ اس لحاظ سے وہ عیبناک اور محتاج بھی ہوگا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ الصمد (الاخلاص 2) وہ بےنیاز ہے۔ ھوالغنی (یونس 68) وہ غنی ہے نہ کہ محتاج۔ انسان اس لئے بیٹے کی خواہش رکھتا ہے کہ اس کی نسل قائم رہے اور وہ اسے بڑھاپے میں مددگار ثابت ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ کو تو نہ بقائے نسل کی ضرورت ہے اور کسی سہارے کی وہ ازلی ابدی ہے ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔ وہ قادر مطلق ، علیم کل اور متصرف فی الامور ہے اسے کسی سہارے اور مدد کی بھی ضرورت نہیں سہارے کی تلاش تو اس کی صمدیت کے خلاف ہے بلکہ تمام مخلوق اس کی محتاج ہے۔ فرشتوں کی فرمانبرداری : فرمایا ، یہ لوگ فرشتوں کو خدا کی اولاد سمجھتے ہیں ، حالانکہ بل عباد مکرمون وہ تو اس کے عزت والے بندے ہیں ، مقرب اور معصوم ہیں۔ گزشتہ آیات میں گز ر چکا ہے کہ اس کے فرشتے ہر وقت اس کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور تھکاوٹ بھی محسوس نہیں کرتے ان کے لئے بندہ ہونا ہی باعث شرف ہے ، نہ وہ خود الٰہ ہیں اور نہ خدا کی اولاد ان کی فرمانبرداری کا یہ عالم ہے لا یسبقونہ بالقول وہ بات میں سبقت نہیں کرتے یعنی اللہ کے حکم کے بغیر بات بھی نہیں کرتے وھم بامرہ یعملون اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ہمہ تن مستعد رہتے ہیں۔ جو حکم ہوتا ہے ، فوراً تعمیل کرتے ہیں۔ گنہگاروں کے حق میں سفارش : فرمایا یعلم مابین ایدیھم وما خلفھم اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ وہ ان کی پیدائش سے لے کر اگلے پچھلے تمام حالات سے واقف ہے فرمایا یہ ایسے بزرگ فرشتے ہیں ولا یشفعون الا لمن ارتضی وہ تو کسی کی سفارش بھی نہیں کرتے سوائے اس کے کہ جس کو اللہ تعالیٰ پسند کرے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے بغیر فرشتے بھی کسی کی سفارش نہیں کرتے حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نبی ، فرشتے اور ایمان والے بھی گنہگاروں کے حق میں سفارش کریں گے۔ ایک حدیث میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ حضور نے فرمایا کہ میری سفارش میری امت کے حق میں کبیرہ گناہوں کے بارے میں ہوگی۔ صغیرے گناہ تو اللہ تعالیٰ ویسے ہی معاف کردیتا ہے یا انسان کی نیکیوں کے ذریعے معاف ہوجاتے ہیں ، لہٰذا سفارش کبائر کے متعلق ہوگی ، البتہ کفر اور شرک کے بارے میں کوئی سفارش قابل قبول نہیں ہوگی۔ کیونکہ اللہ ایسے لوگوں کے حق میں راضی ہوگا جن کا عقیدہ پاک ہوگا۔ حضور نے فرمایا ، میری سفارش ان کے حق میں ہوگی لمن لا یشرک باللہ جنہوں نے شرک نہیں کیا ہوگا۔ پچھلی سورة میں بھی گزر چکا ہے کہ سفارش اس شخص کے حق میں ہوگی من اذن………………قولا (طٰہ 109) جس کے لئے خداء رحمان اجازت دے گا اور جس کی بات بھی اللہ کو پسند ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بات اس شخص کی پسند ہوگی جو توحید والا ہوگا ، اللہ کا فرمان ہے ولا یرضی لعبادہ ……………لکم (الزمر 7) اللہ تعالیٰ کفر کرنے والوں سے راضی نہیں ہوتا بلکہ اگر شکر کرو گے تو وہ راضی ہوگا۔ اللہ اگرچہ کفر کرنے کی توفیق دے دیتا ہے مگر اس کو پسند نہیں کرتا۔ ارتضی اس کے حق میں ہوگا۔ جس کا اعتقاد صحیح ہوگا۔ خوف خدا : فرمایا وھم من خشیتہ مشفقون فرشتے اللہ کے خوف سے ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک موقع پر حضور ﷺ نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا کہ زمین پر ٹاٹ کی طرح نہایت عاجزی کے ساتھ پڑا ہوا ہے۔ اسی لئے فرمایا کہ فرشتے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے انکساری کرنے والے اور ڈرنے والے ہیں۔ جس کو خدا کا جتنا قرب حاصل ہوگا ، وہ اس کے جلال و عظمت سے اتنا ہی زیادہ ڈرتا ہوگا۔ حاملین ، عرش فرشتے ، حافین حول العرش فرشتے ، علیین کے فرشتے اور انبیاء (علیہم السلام) اسی لئے اللہ کا زیادہ خوف رکھتے ہیں کہ وہ مقام قرب میں ہوتے ہیں۔ انہیں خدا تعالیٰ کی شان اور عظمت کا علم ہوتا ہے۔ الوہیت کا دعویٰ : ارشاد ہوتا ہے ومن یقل منھم انی الہ من دونہ ان میں سے جو یہ کہے کہ میں خدا کے درے الٰہ ہوں فرشتہ ہو نبی ہو یا کوئی مقرب ہو ، جو بھی الوہیت کا دعویٰ کرے گا فذلک نجزیہ جھنم ہم اس کہ جہنم میں ڈالیں گے۔ اگرچہ مقربین الٰہی سے الوہیت کا دعویٰ محال ہے مگر پھر بھی اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے گا۔ تو وہ جہنم رسید ہوگا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی قانون ہے کذلک نجزی الظلمین فرمایا ہم ظالموں مکو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں اور ظالم کون ہیں ؟ فرمایا والکفرون ھم الظلمون (البقرہ 254) کافر ہی ظالم ہیں۔ نیز فرمایا ان الشرک لظم عظیم (لقمن 13) شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور دیگر مقربین کی برات کا ذکر کیا ہے کہ وہ تو صرف خدا تعالیٰ کی الوہیت کے قائل ہیں اور اسی کی عبادت کرتے ہیں اسی کو اپنا ولی اور کار ساز سمجھتے ہیں اور خود الوہیت کا دعویٰ نہیں کرتے۔
Top