Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 68
قَالُوْا حَرِّقُوْهُ وَ انْصُرُوْۤا اٰلِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ
قَالُوْا : وہ کہنے لگے حَرِّقُوْهُ : تم اسے جلا ڈالو وَانْصُرُوْٓا : اور تم مدد کرو اٰلِهَتَكُمْ : اپنے معبودوں کو اِنْ : اگر كُنْتُمْ فٰعِلِيْنَ : تم ہو کرنے والے (کچھ کرنا ہے)
کہا ان لوگوں نے جلا ڈالا اس (ابراہیم (علیہ السلام) کو ، اور مدد کرو اپنے معبودوں کی اگر تم کچھ کرنے والے ہو
ربط آیات : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مشرکین کے مندر میں داخل ہو کر ان کے بتوں کہ تہس نہس کردیا۔ سوائے ایک بڑے بت کے کہ اسے صحیح سلامت چھوڑ دیا جب وہ لوگ اپنا تہوار منا کر واپس آئے تو اپنے بتوں کی یہ گت بنی ہوئی دیکھی بڑے ناراض ہوئے اور ملزم کی تلاش شروع کردی۔ آخرحضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بلالائے اور اس کاروائی کے متعلق دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا ، مجھے کیوں پوچھتے ہو ، اس بڑے بت سے دریافت کرو جو ان میں زندہ سلامت موجود ہے اور شاید یہ کاروائی اسی نے کی ہو۔ مشرک لوگ پہلے تو خود شرمسار ہوئے اور پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہم بھلا ان بتوں سے کیا پوچھیں ، یہ تو بولتے ہی نہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حق بات کہنے کا موقع مل گیا ، کہنے لگے تم پر صد افسوس ہے اور تمہارے ان معبودوں پر بھی کہ تم ایسی چیزوں کی عبادت کر رہے ہو جو کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے ، کچھ تو عقل کی بات کرو۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی سوختگی کا منصوبہ : جب مشرک حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بات کا جواب نہ دے سکے تو انہوں نے وہی حربہ اختیار کیا جو عام طور پر جہال لوگ ایسے موقع پر اختیار کرتے ہیں یعنی دلیل سے بات کرنے کی بجائے غنڈہ گردی پر اتر آئے۔ انہوں نے آپس میں صلاح مشورہ کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا قالو حرقوہ کہنے لگے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جلا ڈالو وانصروا الھتکم ان کنتم فعلین اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ، اگر کچھ کرنا چاہتے ہو۔ چونکہ بادشاہ سے لے کر ادنیٰ آدمی تک پوری کی پوری قوم مشرک تھی ، اس لئے انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ کسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو ختم کردیا جائے تاکہ آئندہ اسے ہمارے معبودوں کی توہین کرنے کا موقع نہ ملے۔ چناچہ انہوں نے آپ کو ختم کرنے کے لئے زندہ جلا ڈالنے کی سخت ترین سزا تجویز کی زنا جیسے قبیح جرم کی سزا سنگساری ہے جو سابقہ اقوام میں بھی رائج تھی اور ہماری شریعت میں بھی برقرار ہے ، مگر اس سے بھی سخت سزا جلا ڈالنے کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے بندوں کو یہ سزا دینے کا اختیار کسی کو نہیں دیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے ۔ کہ کسی آدمی کو آگ میں ڈالنے کی سزا نہیں دی جائے کیونکہ یہ سخت ترین سزا اللہ تعالیٰ خود مشرکین کو دیگا۔ بہرحال مشرکین نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو سوختگی کی سز دینے کا فیصلہ کرلیا۔ کہتے ہیں کہ اس حکم پر عمل درآمد کے لئے ایک ماہ کا وقفہ دیا گیا اور اس دوران میں آگ جلانے کے لئے وسیع پیمانے پر ایندھن جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی ، سب لوگوں نے اس کام میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ، حتیٰ کہ جو عورت بیمار ہوجاتی یا اس کا بچہ بیمار ہوجاتا تو وہ منت مانتی کو شفایابی پر ابراہیم (علیہ السلام) کی آگ کے لئے اتنا ایندھن جمع کروں گی۔ جب ایندھن جمع ہوگیا تو مقررہ تاریخ پر آگ جلائی گئی جس کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔ اب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکنے کا مسئلہ تھا۔ تو آپ کے کپڑے اتار کر بالکل برہنہ کردیا گیا اور آپ کو پھینکنے کے لئے منجنیق استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ یہ ایک توپ کی قسم کا آلہ ہوا کرنا تھا جس پر پتھر باندھ کر اس کی چرخی کو گھماتے تھے تو وہ پتھر یا بارود وغیرہ دشمن کے صفوں میں دورتک مار کرتا تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کو برہنہ حالت میں رسیوں کے ساتھ منجنیق پر باندھ دیا گیا اور اس کی چرخی گھما کر آگ کے وسط میں پھینک دیا گیا۔ بخاری اور ترمذی شریف کی حدیث میں آتا ہے کہ حشر کے میدان میں سب لوگ برہنہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ابراہیم (علیہ السلام) کو لباس پہنائیں گے ، آپ کو یہ اعزاز مشرکین کی طرف سے برہنہ کرکے آگ میں پھینکنے کے عوض میں ملے گا۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی سلامتی کا حکم : جب مشرکوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینک دیا تو اللہ کی طرف سے حکم ہوا قلنا ینارکونی بردا وسلم ا علی ابرھیم ہم نے کہا اے لوگ ! ابراہیم (علیہ السلام) پر ٹھنڈی اور سلامتی والی بن جا۔ خبردار آپ کو جلانا نہیں۔ تفسیری روایات کے مطابق ابراہیم (علیہ السلام) تین دن ، چالیس دن یا پچاس دن اس آگ میں پڑے رہے مشرکین کو یقین ہوگیا کہ آپ بھسم ہوچکے ہوں گے مگر ادھر سے اللہ کا حکم بھی ہوچکا تھا ، لہٰذا آگ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کی اور ابراہیم (علیہ السلام) کے جسم کا ایک بال بھی ضائع نہ ہوا۔ صرف وہ رسیاں جل گئیں جن سے آپ کے ہاتھ پائوں باندھے گئے تھے اور اس طرح آپ ان رسیوں سے بھی آزاد ہوگئے اور اللہ نے آپ کو زندہ سلامت رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آگ کو ابراہیم (علیہ السلام) کو جلانے سے روک دیا تھا۔ اور جلا ڈالنے والی آگ بطور معجزہ آپ پر ٹھنڈی اور سلامتی والی بن گئی۔ علت اور معلول کا رشتہ : مولانا عبدالباری (رح) نے سائنس کے متعلق کتاب لکھی ہے جس میں بہت سے سائنس دانوں کے اقوال نقل کیے ہیں۔ ان میں ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سبب جب مسبب سے ملتا ہے تو وہ حکم کا منتظر ہوتا ہے کہ اس سبب کا اثر ظاہر کروں یا نہ کروں۔ اللہ تعالیٰ تمام چیزوں کا مسبب الاسباب ہے۔ وہ جب چاہتا ہے کسی سبب کے اثر کو ظاہر کردیتا ہے اور جب چاہتا ہے اس اثر کو روک لیتا ہے ، اور جیسا کہ عرض کیا ہے اس اصول کو جدید سائنسدانوں نے بھی تسلیم کیا ہے۔ گویا سبب اور مسبب ، علت اور معلول یا Cause اور Effect کے درمیان یہ ربط عقلی طور پر لازمی نہیں بلکہ جدا بھی ہوسکتا ہے۔ چناچہ جب ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو مذکورہ بالا اصول کے تحت سبب یعنی آگ نے اپنے اثر کو روک لیا اور اس طرح ابراہیم (علیہ السلام) جلنے سے بچ گئے امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں وخرم نظام اللزوم غیر مرضی یعنی نظام قدرت میں علت اور معلول کے تلازم کو باطل کرنا پسندیدہ امر نہیں ہے۔ عام طور پر اللہ تعالیٰ علت اور معلول کے رشتے کو قائم رکھتا ہے اور علت معلول پر اثر انداز ہوجاتی ہے ، تاہم کبھی کبھی اس کے برعکس ہوجاتا ہے اور علت اپنا اثر ظاہر نہیں کرتی چونکہ یہ چیز عام عادت کے خلاف ہوتی ہے اس لئے اس کو معجزے سے تعبیر کیا جاتا ہے ، تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ معجزہ ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ عزت بخشی کہ آگ کے جلا ڈالنے کے اثر کو موقوف کردیا۔ اس قسم کی مثال بعض دوسری چیزوں میں بھی ملتی ہے مثلاً پیاس کے مریض کو پانی کا پورا تالاب پلادو اس کی پیاس نہیں بجھتی کیونکہ اللہ نے سبب کے اثر کو زائل کردیا ہے اور وہ عادت کے خلاف پیاس نہیں بجھاتا۔ مشرکوں کی ناکامی : ارشاد ہوتا ہے وارادوا بہ کیداً مشرکوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو جلاڈالنے کا برا ارادہ کیا تھا۔ فجعلنھم الا خسرین مگر ہم نے ان کو خسارہ اٹھانے والا بنادیا۔ وہ ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے۔ ابراہیم (علیہ السلام) کا آگ سے بچ جانا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا مگر آپ آگ میں بھی صحیح سلامت رہے اور مشرکوں کی ساری تدبیر ناکام ہوگئی۔ اپنی اس واضح شکست اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود وہ لو گ ایمان نہ لائے بلکہ اپنی پرانی دشمنی پر اڑے رہے اور آئندہ کے لئے مزید منصوبہ بند کرنے لگے۔ بائبل میں ہے کہ اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم ! گھبرائو نہیں۔ یہ لوگ تمہیں اس دنیا سے ختم کرنا چاہتے ہیں مگر میں تیری اولاد کو ریت کے ذرات کی طرح دنیا میں پھیلائوں گا۔ چناچہ آج دنیا کی اکثر آبادی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد پر ہی مشتمل ہے حالانکہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو ابراہیم (علیہ السلام) کی کوئی اولاد نہ تھی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑھاپے میں بیٹے عطا فرمائے جن کی نسل آگے چلی۔ ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت اور اولاد : انبیاء (علیہم السلام) کی زندگی میں ہجرت بھی ایک اہم موڑ آتا ہے جب ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ مشرکوں کی دشمنی کسی طرح بھی کم نہ ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بابل سے ہجرت کرجانے کا حکم دے دیا۔ ارشاد ہوتا ہے۔ وخینہ ولوطا الی الارض التی برکنا فیھا للعلمین ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے بھتیجے لوط (علیہ السلام) کو نجات دی اس سر زمین کی طرف جس میں ہم نے جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں۔ اس سے مراد شام و فلسطین کی سرزمین ہے ، جس جگہ کے لئے آپ کو ہجرت کرجانے کا حکم ہوا۔ آپ کا بھتیجا لوط بن حاران بن آزر بچپن ہی سے آپ کے پاس رہتا تھا اور ایماندار تھا ، تو ہجرت میں وہ بھی آپ کے ساتھ تھا۔ آپ کو اللہ نے کمال درجے کا علم اور حکمت عطا فرمائی تھی ۔ چناچہ سفر ہجرت کے دوران ہی اللہ تعالیٰ نے لوط (علیہ السلام) کو بھی نبوت عطا فرمائی اور حکم دیا کہ وہ شرق اردن کے علاقے میں سدوم ، صحودہ ، دوامہ وغیرہ کی بستیوں میں جاکر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں۔ فرمایا کہ ایک تو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ہجرت کے ذریعے ظالم قوم سے نجات دلائی اور دوسر ووھبنا لہ اسحاق اور آپ کو اسحاق جیسا عظیم بیٹا بھی عطا فرمایا۔ مفسر فراہی (رح) بیان کرتے ہیں کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کو حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ اسلام جیسا عظیم المرتبت بیٹا عطا فرمایا اور پھر اس کے سولہ سال بعد اسحاق (علیہ السلام) عطا کیا۔ آپ نے تو صرف بیٹے کے لئے ہی دعا کی تھی ، مگر اللہ تعالیٰ نے یہ انعام بھی کیا کہ ان کی زندگی میں ویعقوب نافلۃ حضرت یعقوب (علیہ السلام) جیسا پوتا بھی عطا کیا۔ نافلہ زائد چیز کو کہا جاتا ہے اور مطلب یہی ہے کہ خواہش تو صرف بیٹے کی تھی۔ مگر اللہ نے پوتا بھی دکھلا دیا۔ فرمایا وکلا جعلنا صلحین ہم نے سب کو نیکوکار بنایا۔ صالح تو عام ایماندار کو بھی کہا جاتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق اور یعقوب (علیہما السلام) کو اعلیٰ درجے کی صلاحیت اور نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا۔ وجعلنھم ائمۃ یھدون بامرنا اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کی ہدایت کا سامان کرتے تھے ، یعنی فریضہ نبوت و رسالت ادا کرتے تھے۔ پھر فرمایا واوحینا الیھم ہم نے ان کی طرف وحی کی فعل الخیرات نیکیوں کے کرنے کی واقام الصلوٰۃ اور نماز کے قیام کی وایتاء الزکوٰۃ اور زکوٰۃ کی ادائیگی کی وکانوا لنا عبدین اور وہ ہمارے عبادت گزار تھے۔ یہ سب کے شب وروز ہماری عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ جب اللہ نے نبوت و رسالت عطا فرمائی تو وہ اس کا شکریہ بھی ادا کرتے تھے۔ لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ : فرمایا ولوطا اتینہ حکما وعلما اور لوط (علیہ السلام) کہ ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا فرمایا۔ آپ کو فہم اور سمجھ عطا فرمائی۔ پیچھے گزر چکا ہے ولقد…………رشدہ (آیت 51) ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بچپن میں ہی کمال درجے کی سمجھ عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ نے لوط (علیہ السلام) کو بھی کمال درجے کی دانائی اور علم سے نوازا تھا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا جاچکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دوران سفر ہی لوط (علیہ السلام) کو نبوت عطافرمائی اور تبلیغ حق کے لئے شرق اردن کے علاقے میں مامور کیا وہاں پر آپ نے لمبا عرصہ گزارا ، شادی بھی وہیں ہوئی مگر وہ لوگ مشرک تھے اور نہایت غلط اور گندے کام کرتے تھے۔ آپ کو اللہ نے بیٹیاں بھی عطا فرمائیں جو ایمان لے آئیں مگر بیوی مشرکہ ہی رہی۔ جب اس بستی کے مظالم لوط (علیہ السلام) پر بہت بڑھ گئے تو اللہ نے فرمایا ونجینہ من القریۃ التی کانت تعمل الخبئث ہم نے لوط (علیہ السلام) کو ان بستی والوں سے نجات دلائی جس کے لوگ خبیث کام کرتے تھے۔ سورة العنکبوت میں ہے ائنکم……………السبیل (آیت 29) لوط (علیہ السلام) نے قوم سے سے فرمایا کہ تم خلاف وضع فطرت کام کرتے ہو اور لوگوں کا راستہ کاٹتے ہو ، اور ان کو پتھر مارتے ہو۔ یہ لوگ اپنی مجلسوں میں سرعا لواطت کرتے تھے۔ طبری کی روایت میں آتا ہے کہ زور زور سے گوز مارتے تھے ، کبوتر بازی کرتے تھے۔ تو فرمایا ہم نے نجات دی لوط (علیہ السلام) کو غلط کام کرنے والوں کی بستی سے انھم کانوا قوم سوء فسقین یہ برے لوگ تھے اور حد سے زیادہ نافرمان تھے۔ اللہ نے آپ کو اس قوم سے نجات دلائی اور قوم کو سخت عذاب میں مبتلا کیا۔ ان پر آسمان سے آگ اور پتھر برسے اور ان کی بستی الٹ دی گئی۔ اور لوط (علیہ السلام) کے بارہ میں فرمایا وادخلنہ فی رحمتنا ہم نے ان کو اپنی رحمت خاصہ میں داخل کیا انہ من الصلحین بیشک وہ نیکوکاروں میں سے تھے۔ آپ خدا کے پاکباز رسول تھے۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم سے نجات : آگے حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر اس طرح ہوتا ہے ونوحا اذ نادی من قبل اور ہم نے نوح (علیہ السلام) کو بھی نجات بخشی کہ انہوں نے اس سے پہلے پکارا سے پہلے سے مراد یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے بھی ہزاروں سال پہلے کا ہے نوح (علیہ السلام) نے طویل عرصہ تک اپنی قوم کو تبلیغ کی مگر رہ راہ راست پر نہ آئے بلکہ الٹا اللہ کے پیغمبر کو تکالیف پہنچاتے رہے۔ آخر تنگ آکر آپ نے اللہ سے درخواست کی کہ مولا کریم ! ان لوگوں کا فیصلہ فرمادے۔ اللہ نے فرمایا فاستجبنا لہ ہم نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا فنجینہ واھلہ من الکرب العظیم اور آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو سخت بےچینی سے نجات دلائی جو آپ کو ہر وقت لاحق رہتی تھی ونصرنہ من القوم الذین کذبوا بایتنا ہم نے ان کی مدد کی اس قوم کے مقابلے میں جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے۔ انھم کانوا قوم سوء بیشک وہ برے لوگ تھے ساری کی ساری قوم بدبخت تھی۔ سورة الاعراف میں ہے قوما عمین (آیت 640) ساری قوم اندھی تھی ۔ یہ آنکھوں سے اندھے نہیں تھے بلکہ ان کے دل کی آنکھیں اندھی تھیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم تھے صرف وہ لوگ ایمان لائے جو آپ کے ساتھ کشتی میں سوار ہوئے اور ان کی تعداد اسی کے قریب تھی۔ ان کے علاوہ آپ کی بیوی اور بیٹا بھی نافرمان تھے۔ اللہ نے فرمایا فاغرقنھم اجمعین ہم نے ان سارے نافرمانوں کو پانی میں ڈبو کر ہلاک کردیا اور اس طرح نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم سے نجات دلائی۔ ان تمام واقعات میں نبی (علیہ السلام) اور آپ کے رفقاء کے لئے تسلی کا مضمون ہے کہ دیکھو اللہ کے سابقہ نبیوں کے ساتھ بھی بڑی بڑی بدسلوکیاں کی گئیں اور منکرین تباہ وبرباد ہوئے۔ اسی طرح آپ کے مخالفین بھی تباہ ہوں گے ، آپ اطمینان رکھیں اور اپنا کام جاری رکھیں۔
Top