Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 78
وَ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْكُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ١ۚ وَ كُنَّا لِحُكْمِهِمْ شٰهِدِیْنَۗۙ
وَدَاوٗدَ : اور داو ود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان اِذْ : جب يَحْكُمٰنِ : فیصلہ کر رہے تھے فِي الْحَرْثِ : کھیتی (کے بارہ) میں اِذْ : جب نَفَشَتْ : رات میں چوگئیں فِيْهِ : اس میں غَنَمُ الْقَوْمِ : ایک قوم کی بکریاں وَكُنَّا : اور ہم تھے لِحُكْمِهِمْ : ان کے فیصلے (کے وقت) شٰهِدِيْنَ : موجود
اور دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کو دیا ہم نے علم اور حکمت۔ جب کہ وہ فیصلہ کرتے تھے دونوں کھیتی کے معاملہ میں جب کہ رات کے وقت کھیتی کو روند دیا ایک قوم کی بکریوں نے۔ اور تھے ہم ان کے فیصلے کے وقت حاضر
ربط آیات : ابتداء میں حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) کا ذکر ہوا۔ پھر ابراہیم (علیہ السلام) کی ابتلاء ان کے صبر و استقامت ، ان کے طریق تبلیغ اور مناجات کی بات ہوئی۔ اس کے بعد آپ کے صاحبزادے اسحاق (علیہ السلام) پر پوتے یعقوب (علیہ السلام) کا تذکرہ ہوا۔ پھر آپ کے بھتیجے اور اللہ کے نبی لوط (علیہ السلام) ان کے مصائب اور قوم کے ساتھ معاملات کا بیان ہوا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) بھی طویل عرصہ تک قوم کو تبلیغ کرتے رہے۔ آپ نے بڑی سختیاں جھیلیں ، مگر محدود آدمی ایمان لائے ، حتیٰ کہ آپ کی بیوی اور بیٹا بھی محروم ہی رہے ، آخر تنگ آکر اللہ تعالیٰ کے حضور قوم کے خلاف بددعا کی تو اللہ نے انہیں غرقابی جیسی سخت سزا دے کر صفحہ ہستی سے نابود کردیا۔ حضرت دائود اور سلیمان (علیہم السلام) کا تذکرہ : اب آج کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جلیل القدر انبیاء دائود اور سلیمان (علیہما السلام) اور ان پر کیے جانے والے انعامات کا ذکر کیا ہے۔ یہ دونوں حضرات باپ بیٹا ، صاحب خلافت اور صاحب کتاب نبی تھے۔ ان کی پوری تفصیلات تو دوسری سورتوں میں آئی ہیں تاہم اجمالی طور پر یہاں بھی ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ودائو وسلیمن اور دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کو بھی ہم نے علم و حکمت عطا کی۔ اگرچہ اس آیت میں علم و حکمت کے الفاظ نہیں ہیں آیت میں علم و حکمت کے الفاظ نہیں ہیں ، تاہم یہ گذشتہ آیت 74 پر عطف ہے جس میں حضرت لوط (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا کہ ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا فرمایا ، فرمایا ، اسی طرح ہم نے دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کو حکمت اور علم عطا فرمایا اذ یحکمن فی الحرث جب کہ وہ دونوں کھیتی کے بارے میں فیصلہ کرتے تھے اور وجہ تنازعہ یہ تھی اذ نفشت فیہ غنم القوم کہ رات کے وقت بعض لوگوں کی بکریاں اس کھیت کو چر گئی تھیں۔ دراصل نفش رات کے وقت کھیت کو روند ڈالنے یا پامال کردینے کو کہتے ہیں۔ کھیتی کے نقصان پر فیصلہ : بعض لوگوں کی بکریاں کسی دوسرے شخص کے کھیت میں رات کے وقت داخل ہوئیں اور انہوں نے پورے کھیت کو پامال کرکے رکھ دیا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں نقصان زدہ فریق نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے پاس شکایت کی اور اپنے نقصان کے ازالے کی درخواست کی۔ فرمایا جب یہ معاملہ فیصلے کے لئے اللہ کے نبیوں کے سامنے پیش ہوا وکنا لحکمھم شھدین تو تنازعہ کے فیصلے کے وقت ہم حاضر تھے ، گویا یہ فیصلہ ہماری موجودگی میں ہوا۔ کھیت کے اجاڑے کا فیصلہ تو باپ بیٹا دونوں نے کیا تھا ، تاہم فرمایا ففھمنھا سلیمن لیکن سلیمان (علیہ السلام) کو ہم نے زیادہ فہم و فراست عطا کی تھی اور زیادہ بہتر بات ان کو سمجھادی تھی وکلا اتینا حکما وعلما ہم نے ہر ایک کو حکمت اور علم عطا کیا۔ جب یہ مقدمہ پیش آیا اس وقت سلیمان (علیہ السلام) چھوٹی عمر کے تھے تاہم اللہ نے آپ کو زیادہ سمجھ عطا کی تھی۔ اس وقت مند خلافت پر حضرت دائود (علیہ السلام) فائز تھے۔ مقدمہ پیش ہوا بعض لوگوں کی بھیڑ بکریاں رات کے وقت کسی دوسرے شخص کے کھیت یا باغ میں داخل ہوگئیں اور انہوں نے فصل کا نقصان کیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ کھیتی تھی اور بعض کہتے ہیں کہ انگور کی بیلیں تھیں جو بکریوں نے روند ڈالیں۔ بہرحال کیس دائود (علیہ السلام) کی عدالت میں پیش ہوا۔ آپ نے فریقین کے دلائل سنے اور نتیجہ یہ اخذ کیا کو کھیتی یا باغ کا نقصان اس کو خراب کرنے والی بکریوں کی قیمت کے برابر بنتا ہے چناچہ آپ نے فیصلہ یہ کیا کہ ساری بکریاں کھیت یا باغ کے مالک کو دے دی جائیں۔ اس وقت حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھی عدالت میں موجود تھے فیصلہ سنائے جانے کے بعد انہوں نے بھی کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہی ، اجازت ملنے پر سلیمان (علیہ السلام) نے کہا کہ اس مقدمہ کا بہتر حل یہ ہے کہ ساری بکریاں کھیت والوں کے سپرد کردی جائیں ، وہ ان کے دودھ ، اون اور ان کے بچوں سے فائدہ اٹھائیں۔ اس اثنا میں بکریوں کے مالک کھیت پر کام کریں۔ جب فصل اسی حالت میں آجائے جس حالت میں اسے اجاڑا گیا تھا تو کھیت کے مالک اپنے کھیت کو سنبھال لیں اور بکریاں ان کے مالکوں کو واپس کردی جائیں۔ اس طرح فریقین کو ان کا حق بھی مل جائے گا۔ اور کسی ایک کا نقصان بھی نہیں ہوگا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) کو اپنے بیٹے سلیمان (علیہ السلام) کی یہ تجویز پسند آئی اور انہوں نے اپنا فیصلہ اس کے مطابق بدل دیا۔ سلیمان (علیہ السلام) کی عمر اس وقت گیارہ سال کی تھی اور وہ تیرہ سال کی عمر میں اپنے والد کے جانشین بنے۔ دائود (علیہ السلام) کے مزید اٹھارہ بیٹے بھی تھے مگر جو فہم وادراک اللہ نے سلیمان (علیہ السلام) کو بخشا تھا ، وہ کسی دوسرے بیٹے میں نہیں تھا۔ یہ دونوں باپ بیٹا اللہ کے صاحب کتاب نبی تھے اللہ نے دائو د (علیہ السلام) کو زبور اور سلیمان (علیہ السلام) کو بعض صحیفے عطا کیے۔ انہوں نے کم سنی میں ایسا عمدہ فیصلہ کیا۔ جو فریقین کے حق میں مفید تھا ، اگرچہ دائود (علیہ السلام) کا فیصلہ بھی شریعت کے مطابق صحیح تھا کہ جتنا کسی کا نقصان ہوا اتنا ہرجانہ دیا جائے۔ اور ہماری شریعت کا بھی یہی قانون ہے۔ کہ نقصان والے کا نقصان پورا ہو۔ تاہم شاہ عبدالقادر (رح) اور بعض دوسرے مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کا فیصلہ صواب (صحیح) تھا مگر سلیمان (علیہ السلام) کا فیصلہ اصوب (زیادہ درست ) تھا۔ خرابہ کے متعلق فقہی اختلاف : کسی کھیت یا باغ کے خرابے کے ازالے کے متعلق فقہائے کرام میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ حضور ﷺ کا ایک فرمان ہے کہ اگر کسی کے جانور دن کے وقت کسی فصل کا نقصان کردیں تو اس نقصان کی ذمہ داری کھیت کے مالک پر آتی ہے کیونکہ دن کے وقت کھیت کی حفاظت اس کے ذمے ہے۔ اور اگر ایسا نقصان رات کے وقت ہوا ہے تو اس کا ذمہ دار جانوروں کا مالک ہے ، وہ نقصان کی تلافی کرے گا۔ کیونکہ اس کا فرض تھا کہ رات کے وقت جانوروں کو باندھ کر رکھتا۔ اس حدیث کے مطابق امام شافعی (رح) یہی فتویٰ دیتے ہیں کہ اگر نقصان دن کے وقت ہوا ہے تو جانوروں کے مالک پر کوئی تاوان عاید نہیں ہوتا ہے اور اگر رات کو خرابہ ہوا ہے تو پھر اسے نقصان کا ازالہ کرنا پڑے گا۔ برخلاف اس کے امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ جانور دن کو نقصان کریں یا رات کو ان کے مالکوں پر ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ جب تک کہ اس میں تعدی کا عنصر نہ پائے جائے۔ یعنی اگر جانوروں کا مالک خود انہیں کسی دوسرے کے کھیت میں چھوڑتا ہے تو پھر وہ نقصان کا ذمہ دار ہوگا اور اگر جانور خود بخود رسہ تڑوا کر کسی کے کھیت کا نقصان کردیتے ہیں تو پھر ان کا مالک ذمہ دار نہیں ہوگا۔ اتفاقی موت کا مسئلہ : صحیحین کی روایت (مسلم 73 ج 2 (فیاض) میں آتا ہے العجماء جرحھا جبار اگر کسی کا جانور کسی شخص کو زخمی کردیتا ہے یا کوئی نقصان پہنچاتا ہے تو وہ رائیگاں ہے ، جانور کا مالک ذمہ دار نہیں ہوگا۔ البتہ اگر مالک جان بوجھ کر جانور کے لئے ایسے حالات پیدا کرتا ہے جس سے کسی کا نقصان ہوجاتا ہے تو یہ تعدی کی تعریف میں آئے گا اور مالک پر تاوان آئے گا۔ خواہ دن کا وقت ہو یا رات کا۔ آپ نے یہ بھی فرمایا والبئر جبار کو شخص کنواں کھدواتا ہے اور مزور اس کھدائی کے دوران ہلاک ہوجاتا ہے تو کنویں کے مالک پر کچھ تاوان عائد نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ اتفاقی موت سمجھی جائے گی۔ اسی طرح کان کن کا معاملہ بھی ہے کہ اگر دوران کار کوئی مزدور جان بحق ہوجائے ، تو مالک ذمہ دار نہیں ہوگا۔ البتہ اگر متعلقہ کمپنی یا حکومت مفاد عامہ کے لئے ایسا قانون بنادے جس میں ہلاک ہونے والے کے لئے معاوضہ مقرر ہو تو ایسا معاوضہ دینا اور لینا درست ہوگا۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے المعدن جبار کا نکن کی موت رائیگاں ہے۔ البتہ وفی الرکاز الخمس مع دنیات میں پانچواں حصہ زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہے۔ یہ درجہ اول کی صحیح حدیث ہے۔ فیصلے کی منسوخی کا مسئلہ : یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دائودعلیہ السلام کے فیصلے کو سلیمان (علیہ السلام) نے کیسے رد کردیا ؟ کیا یہ وحی الٰہی تھی یا اجتہاد تھا۔ معلوم ہتا ہے کہ جو بھی صورت تھی اس وقت کی شریعت میں فیصلے کی تبدیلی جائز تھی۔ آج بھی ایک جج دوسرے جج کے فیصلے کو منسوخ یا تبدیل کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔ بڑی عدالت چھوٹی عدال کے فیصلے کو تبدیل کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ ہر فریق کو اپیل کا حق ملتا ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دائود (علیہ السلام) کی طرح سلیمان (علیہ السلام) کو بھی جج کی حیثیت حاصل تھی اور آپ نے خود انہیں مقدمات کی دیکھ بھال کا کام تفویض کررکھا تھا۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی ہو سکتی ہے کہ دائودعلیہ السلام نے ابھی قطعی فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ صرف اپنی رائے ظاہر کی تھی کہ اس مقدمہ کا فیصلہ اس طرح ہونا چاہیے۔ اسی دوران میں سلیمان (علیہ السلام) نے بھی اپنی رائے کا اظہار کردیا جسے قبول کرلیا گیا۔ تاہم عام مفسرین یہی لکھتے ہیں کہ دائودعلیہ السلام نے حتمی فیصلہ کرلیا تھا لیکن بعد میں سلیمان (علیہ السلام) کی تجویز پر اپنے پہلے فیصلے کو منسوخ کردیا اور یہ نسخ بھی جائز تھا۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ کھیت اجاڑنے کا یہ فیصلہ وحی الٰہی سے نہیں بلکہ اجتہاد کے ذریعے کیا گیا تھا۔ وحی الٰہی کی عدم موجودگی میں انبیاء (علیہم السلام) کو اپنے اجتہاد سے فیصلہ کرنے کی بھی اجازت رہی ہے۔ البتہ نبی کے اجتہاد اور عام امتی کے اجتہاد میں فرق یہ ہے کہ اگر نبی اجتہاد میں غلطی کرے تو اس کی فوراً اصلاح کردی جاتی ہے۔ وحی کے ذریعے ایسے معاملہ کو درست کردیا جاتا ہے۔ عام امت کو یہ گارنٹی حاصل نہیں ہے۔ اگر کوئی جج فیصلہ کرنے میں غلطی بھی کرتا ہے تو ایک اجر اس کو پھر بھی ملے گا بشرطیکہ اس نے یہ فیصلہ بغیر کسی رورعایت کے کیا ہوا اور جج ایسے غلط فیصلہ میں ماخوذ بھی نہیں ہوگا۔ اور اگر اس کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی ہے ، سفارش مانی ہے ، رشوت وصول کی ہے یا ویسے ہی کسی فریق کی طرفداری کی ہے تو ایسا جج جنم رسید ہوگا۔ پہاڑوں اور پرندوں کی تسخیر : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے ان انبیاء پر کیے گئے بعض انعامات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وسخرنا مع دائود الجبال اور ہم نے پہاڑوں کو دائود (علیہ السلام) کے تابع کردیا تھا۔ یسبحن والطیر وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتے تھے۔ اور پرندوں کو بھی آپ کے تابع کردیا تھا۔ جب دائودعلیہ السلام خوش الحافی کے ساتھ کتاب الٰہی کی تلاوت کرتے ؟ اس کی حمدوثناء بیان کرتے ، تو پہاڑ اور پرندے بھی ہم زبان ہو کر تسبیح کرنے لگتے ۔ پہاڑوں اور پرندوں کی یہ تسبیح زبان حال سے نہیں بلکہ زبان قال سے ہوتی تھی۔ زبان حال کی تسبیح تو اب بھی ہر چیز بیان کرتی ہے جسے ہم نہیں سن سکتے ، مگر پہاڑ اور پرندے جو حضرت دائودعلیہ السلام کے ساتھ تسبیح میں شامل ہوتے تھے ، وہ زبان قال سے ہوتی تھی۔ یہ دائودعلیہ السلام کا معجزہ تھا کہ پتھر ، درخت اور پرندے بھی بولنے لگتے تھے۔ اللہ نے فرمایا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ دائودعلیہ السلام کا ذاتی فعل تھا اور انہیں اس کا اختیار حاصل تھا ، بلکہ وکنا فعلین اس فعل کو انجام دینے والے ہم تھے ، اللہ تعالیٰ یہ کام اپنی قدرت تامہ سے کرتا تھا۔ بعض سرسید اور پرویز قسم کے لوگ اس معجزے کو تسلیم نہیں کرتے یہ غالی اور ملحد لوگ ہیں جو طرح طرح کی تاویلیں کرتے ہیں حالانکہ یہ اللہ کا فعل تھا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ، اس میں عدم تسلیم کی کوئی گنجائش نہیں۔ ایک موقع پر ابو موسیٰ اشعری ؓ رات کو تلاوت قرآن پاک کر رہے تھے حضور ﷺ نے یہ خوش الحان آواز سنی تو فرمایا کہ ابو موسیٰ کو اللہ نے دائودعلیہ السلام جیسا گلا عطا کیا ہے۔ گویا خوش الحافی سے قرآن پاک کی تلاوت اچھی چیز ہے ، البتہ گانے کی طرز پر تلاوت کرنا مکروہ تحریمی ہے۔ ذرہ سازی کا فن : حضرت دائودعلیہ السلام پر اللہ تعالیٰ نے ایک اور انعام یہ فرمایا تھا۔ وعلمنہ صنعۃ لبوس لکم اور ہم نے آپ کے لئے لباس بنانے کا فن بتا دیا لتحصنکم من باسکم تاکہ وہ تمہیں دوران جنگ بجا سکے۔ حضرت دائودعلیہ السلام کی یہ خاصیت تھی کہ آپ لوہے کو گرم کیے بغیر کڑیاں بناتے اور پھر انہیں جوڑ کر زرہ تیار کرلیتے جو جنگ کے دوران پہنی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر لوہے کو موم کی طرح نرم کردیا تھا۔ فرمایا فھل انتم شکرون کیا تم شکریہ ادا کرنے والے ہو ؟ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا کہ تمہارے فائدے کے لئے دائودعلیہ السلام آسانی سے زرہ سازی کرلیتے تھے ، وگرنہ عام طور پر لوہے کو گرم کرکے زرہ سازی کے لئے بڑی محنت درکار ہوتی ہے۔ اس کا رواج موجودہ زمانے میں بھی اس کی ترقی یافتہ صورت میں موجود ہے۔ اب لوگ سروں پر خود پہنتے ہیں اور بڑی بڑی بکتر بند گاڑیاں جنگ میں استعمال ہوتی ہے۔ ہوا کی تسخیر : اس سلیمان (علیہ السلام) کی بعض خصوصیات کا ذکر ہوتا ہے۔ فرمایا ولسلیمن الریح عاصفۃ اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے تندوتیز ہوا کو مسخر کردیا تجری بامرہ الی الارض التی برکنا فیھا جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس ارض مقدس کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں۔ سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا کی تسخیر میں بھی بعض لوگوں کو اعتراض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عام ہوا آپ کے تابع نہیں تھی بلکہ سمندری ہوا تھی جو بحری بیڑے کو ساحل کی طرف آسانی سے لے جاتی تھی حالانکہ یہ بات نہیں جن لوگوں کو خدا تعالیٰ کی قدرت سمجھ میں نہیں آتی ، وہ ایسے ہی اعتراض کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ قارد مطلق ہے ، اس کی مشیت اور ارادے میں کوئی چیز حائل نہیں ہوسکتی۔ اس نے اگر پوری ہوا کو سلیمان (علیہ السلام) کے تابع کردیا ہو تو اس میں حیرانگی کی کون سی بات ہے۔ آپ اپنا تخت بچھاتے خودسوار ہوتے اور اپنے حواریوں کو سوار کراتے اور پھر ہوا کو حکم دیتے تو وہ آپ کا تخت ہیلی کاپٹر کی طرح فضا میں لے اڑتی تھی اور آپ ایک ماہ کا سفر ایک دن میں طے کرلیتے تھے۔ شام سے یمن اور یمن سے شام تک کا سفر آپ ایک دن میں بخوبی طے کرلیتے تھے اور کسی حادثے کا خطرہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ سورة صٓ میں آتا ہے کہ خود سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کی تھی کہ مولا کریم ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما ملکا لا ینبغی لا حد من بعدی (آیت 35) جو میرے بعد کسی کو نصیب نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول فرمائی اور آپ کو نہ صرف زمین پر خلافت عطا فرمائی بلکہ آپ کے لئے ہوائوں ، جنات ، پہاڑوں اور پرندوں کو بھی مسخر کردیا اور واقعی یہ آپ کی بےمثال حکومت تھی جو آپ کے بعد کسی کو نصیب نہیں ہوئی فرمایا ہم نے سلیمان (علیہ السلام) کے لئے تیز ہوا کو مسخر کردیا وکنا بکل شیء علمین اور ہم ہر چیز کو جاننے والے ہیں۔ ہمارے علم سے کوئی چیز باہر ہیں اور ہم ہر چیز پر قدرت بھی رکھتے ہیں۔ جنات پر تسلط : ومن الشیطین من یغھون لہ اور ہم نے شیاطین یعنی جنات کو بھی آپ کے تابع کردیا جو آپ کے لئے غوط لگاتے تھے۔ یعنی سمندروں سے ہوتی اور جواہرات نکالتے تھے ، جنہیں آپ کام میں لاتے تھے۔ و یعملون عملا دون ذلک اور یہ جنات اس کے علاوہ دیگر کام بھی انجام دیتے تھے۔ سورة سبا میں آتا ہے کہ پتھروں کو تراش کر برتن بناتے تھے۔ بڑے بڑے ، پتھروں کو کاٹ کر عمارتیں بناتے تھے۔ فرمایا وکنا لھم خفظین اور ہم ان کی نگرانی اور حفاظت کرنے والے تھے تاکہ کوئی شرارت وغیرہ نہ کرسکے۔ اگر کوئی جن کسی کام میں گڑ بڑ کرتا تھا یا نقصان پہنچاتا تھا تو اللہ نے فرمایا کہ ہم ان کو سزا بھی دیتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے جنات کو مکمل طور پر سلیمان (علیہ السلام) کے تسلط میں کردیا تھا کہ وہ جس طرح چاہیں ان سے کام لیں اور وہ حکم عدولی بھی نہیں کرسکتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود ان پر نگران تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) پر بڑا فضل کیا تھا اور انہیں بڑا بلند مقام عطا فرمایا تھا۔ تاہم آپ پر بعض آزمائشیں بھی آئیں جن کا ذکر دوسری سورتوں میں موجود ہے۔
Top