Mualim-ul-Irfan - Al-Anbiyaa : 94
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا كُفْرَانَ لِسَعْیِهٖ١ۚ وَ اِنَّا لَهٗ كٰتِبُوْنَ
فَمَنْ : پس جو يَّعْمَلْ : کرے مِنَ : کچھ الصّٰلِحٰتِ : نیک کام وَهُوَ : اور وہ مُؤْمِنٌ : ایمان والا فَلَا كُفْرَانَ : تو ناقدری (اکارت) نہیں لِسَعْيِهٖ : اس کی کوشش وَاِنَّا : اور بیشک ہم لَهٗ : اس کے كٰتِبُوْنَ : لکھ لینے والے
جو شخص عمل کرے گا نیک کاموں میں سے ، بشرطیکہ وہ ایمان رکھتا ہو۔ پس نہیں ناقدری ہوگی اس کی کوشش کی۔ اور بیشک ہم اس کو لکھنے والے ہیں
ربط آیات : اس سورة مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مصائب و تکالیف ، ان کے طریقہ تبلیغ ، ان کی مناجات اور عبادت اور ان کے صبر پر روشنی ڈالی ہے۔ اور آئندہ آنے والوں کے لئے انہیں نمونہ بنایا ہے۔ آخر میں حضرت مریم ؓ اور مسیح (علیہ السلام) کا ذکر بھی کیا ہے اور پھر ایک اصولی بات یہ بیان فرمائی ہے کہ تمام انبیاء کی ملت اور دین ایک ہی رہا ہے۔ فرمایا میں تمہارا پروردگار ہوں ، لہٰذا میری ہی عبادت کرو۔ مگر بعد میں آنے والے لوگوں نے دین کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے اور مختلف فرقوں میں بٹ گئے۔ بعض نے عقائد کو خراب کرلیا اور کفر وشرک میں مبتلا ہوگئے۔ فرمایا سب نے ہماری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے ، اس وقت ہم ہر ایک کے ساتھ اس کے عقیدے اور عمل کے مطابق سلوک کریں گے۔ عمل صالح کی قدردانی : اب اللہ تعالیٰ نے اپنی بارگاہ میں پیش آنے والے محاسبہ اعمال کا قانون بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے فمن یعمل من الصلحت جو شخص نیک اعمال انجام دیتا ہے۔ حضرت مجدد صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ ایمان کے بعد بنیادی طور پر چار نیکیاں ہیں یعنی نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰۃ۔ اس کے بعد دیگر نیکیوں میں قرآن پاک کی تعلیم اور اس کی تلاوت ، تبلیغ دین ، صدقہ و خیرات اور رفاہ عامہ کے دیگر کام ہیں۔ فرمایا جو شخص نیک عمل کر گے گا وھو مومن بشرطیکہ وہ مومن ہو ، گویا کسی بھی نیکی کے لئے ایمان بطور شرط ہے۔ اگر ایمان ہوگا تو نیکی کار آمد ہوگی اور انسان کے لئے مفید ثابت ہوگی۔ ورنہ رائیگاں جائے گی۔ اگر خدانخواستہ عقیدے میں خرابی ہے تو پہاڑوں جتنی بڑی بڑی نیکیاں بھی کچھ مفید نہیں ہوں گی۔ کفر ، شرک ، نفاق کا شائبہ پایا جائیگا تو تمام نیکیاں ضائع ہوجائیں گی۔ ایسی نیکیوں کی وجہ سے دنیا میں شہرت تو حاصل ہوسکتی ہے۔ مگر آخرت میں ان کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ فرمایا جس نے ایمان کی حالت میں نیک کام انجام دیا فلا کفران لسعیہ تو اس کی کوشش کی ناقدری نہیں کی جائیگی۔ بلکہ اس کی محنت کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ وانا لہ کتبون اور ہم ہر نیکی کے کام کو لکھنے والے ہیں۔ ہر انسان کے اعمال کو محفوظ کرنے کے لئے اللہ نے فرشتے مامور کر رکھے ہیں جو ہر چھوٹا بڑا کام لکھتے جا رہے ہیں اگرچہ ہرچیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور لوح محفوظ میں بھی درج ہے مگر اس کے فرشتے بھی لکھتے جاتے ہیں اور اس طرح انسانی اعمال کی حفاظت کا پورا پورا انتظام موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے ساتھ کراماً کاتبین مقرر کردیے ہیں۔ اور ان کی ڈیوٹی یہ ہے مایلفظ……………عتید (قٓ 18) کوئی شخص جو بھی لفظ اپنی زبان سے ادا کرتا ہے ہمارے فرشتے اس کو فوراً نوٹ کرلیتے ہیں پھر جب یہ نامہ اعمال پیش ہوگا تو انسان پڑھ کر حیران ہوجائے گا۔ اور کہے گا مال ھذا…………………احصھا (الکہف 49) یہ کیسی کتاب ہے جس نے نہ کوئی چھوٹی چیز چھوڑی ہے اور نہ بڑی مگر اسے محفوظ کررکھا ہے۔ ہلاکت کا قانون : آگے اللہ نے نافرمانوں کی ہلاکت کا قانون بیان فرمایا ہے و حرام علی قریۃ اھلکنھا حرام ہے ان بستی والوں پر کہ جن کو ہم نے ہلاک کیا انھم لا یرجعون کہ وہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ مفسرین کرام یہاں پر حرام کا معنی دو طریقے پر کرتے ہیں۔ حرام کا معنی ضروری بھی ہوتا ہے ، اور اس طرح پورا مفوم یہ ہوگا کہ جن بستی والوں کو ہم نے ان کے جرائم کی پاداش میں ہلاک کیا ہے ، ان پر ضروری ہے کہ وہ واپس نہیں آئیں گے۔ حرام کا دوسرا معنی ممنوع ہے۔ یہ معنی عام فہم ہے اور حلال کے مقابلے میں بولاجاتا ہے۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو پورا جملہ اس طرح ہوگا کہ ہلاک شدہ بستی والوں پر دوبارہ واپس آنا ممنوع ہے یعنی ان کا دنیا میں دوبارہ آنا تاکہ وہ اپنے کفر ، شرک اور معاصی کی تلافی کرسکیں ، یہ ممکن نہیں ہے۔ اس مادی جہاں میں یہ زندگی کا ہی ایک موقعہ ہے کہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا ازالہ کرلے۔ جب سزا آگئی اور بستی تباہ ہوگئی تو پھر ایسی غلطیوں کی تلافی ممکن نہیں رہے گی۔ بعض اس آیت کا مطلب اس طرح بھی بیان کرتے ہیں کہ ہلاک ہونے والی بستی کے لوگ دوبارہ ہدایت کی طرف نہیں آتے۔ یہ بھی ایک طے شدہ امر ہے کہ جن لوگوں پر ان کی مجرمانہ کاروائیوں کی وجہ سے ہلاکت وتباہی مقرر ہوچکی ہے۔ وہ ایمان اور توحید کی طرف نہیں آئیں گے بلکہ اسی بد بختی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ اللہ کی طرف سے وعدے کا وقت آپہنچے اور پھر ایسے لوگوں کو اپنے اعمال بد کا بھگتان کرنا پڑے ، قوم عا د اور ثمود سے لے کر جن جن نافرمان قوموں کا ذکر اللہ نے قرآن پاک میں کیا ہے ، یا جن کا تذکرہ تاریخ کے اوراق میں ملتا ہے ان میں سے کوئی بھی آج تک پلٹ کر نہیں آیا ، بلکہ ان کی جگہ دوسرے لوگ ہی آتے رہے ہیں۔ بہرحال مفسرین نے یہ دونوں معنی بیان کیے ہیں۔ یاجوج ماجوج کا خروج : فرمایا جن بستی والوں کو ہم نے ہلاک کردیا۔ وہ واپس لوٹ کر نہیں آئیں گے حتیٰ اذا فتحت یاجوج وماجوج یہاں تک کہ جب کھول دیے جائیں گے یاجوج اور ماجوج وھم من کل حدب ینسلون اور وہ ہر اونچی جگہ سے پھسلتے چلے آئیں گے۔ یاجوج ماجوج کا خروج علامات قیامت میں سے ہے۔ پہلے مسیح (علیہ السلام) کا نزول ہوگا۔ وہ دجال کو ختم کریں گے ، اس کے بعد یاجوج ماجوج کا خروج ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مسیح (علیہ السلام) کو پیغام بھیجیں گے انی اخرجت عبادا لایدان لاحد بقتالھم میں نے ایسی مخلوق کو نکالا ہے جن کے ساتھ مقابلے کی کسی کو تاب نہیں ، لہٰذا تم چیدہ چیدہ بندوں کو ہمراہ لے کر طور پر چلے جائو۔ یاجوج ماجوج دراصل حضرت نوح (علیہ السلام) کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں۔ مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ اس مخلوق کی عمریں بڑی لمبی ہوتی ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس چیز سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان میں سے کوئی آدمی اس وقت تک نہیں مرتا جب تک کہ اپنی اولاد میں سے ایک ہزار کی تعداد کو نہیں دیکھ لیتا۔ باقی تمام انسانوں اور یاجوج ماجوج کی آبادی کی نسبت 999:1 ہے یعنی ہر انسان کے مقابلے میں یاجوج ماجوج 999 ہیں۔ البتہ ان کی اکثریت کفروشرک میں مبتلا ہوگی اور یہ سب جہنم میں جائیں گے۔ حدیث میں آتا ہے کہ یہ لوگ دنیا میں بڑا فساد مچائیں گے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اپنے مردوں کو بھی کھاجاتے ہیں۔ تفسیری روایات میں آتا ہے کہ جب یہ سدسکندری کے عقب سے ظاہر ہوں گے تو ہر چیز کو فنا کرتے چلے جائیں گے۔ بحیرہ طبریہ کے بارے میں آتا ہے کہ اس کا سارا پانی پی جائیں گے حتیٰ کہ ان کے بعد میں آنے والے پوچھیں گے کہ کیا اس خشک ندی میں کبھی پانی بھی بہتا تھا۔ اس قوم کی زیادتیوں کی وجہ سے مخلوق خدا سخت پریشانی میں مبتلا ہوجائے گی۔ پھر ان پر طاعون جیسی ایک وبا نازل ہوگی جس میں سب مرجائیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسے جانور بھیجے گا جو ان کی نعشوں کو اٹھا اٹھا کر زمین کے نشیبی علاقوں میں لے جائیں گے۔ پھر خوب بارش ہوگی جو ان نعتوں کی پس مادہ گندگی کو دھوڈالے گی۔ حدیث میں آتا ہے کہ یاجوج ماجوج کے مکمل خاتمہ کے بعد بھی انسان دنیا پر آباد رہیں گے اور وہ بیت اللہ کا حج بھی کرینگے البتہ اس کے بعد جلدی ہی قیامت برپا ہوجائیگی۔ کفار کا اظہار تاسف : یاجوج ماجوج کے خروج پر وافترب الوعدالحق سچا وعدہ قریب آجائے گا۔ اور وہ وعدہ وقوع قیامت کا ہے۔ جب قیامت برپا ہوگی تو عجیب و غریب حالات نظر آئیں گے فاذاھی شاخصۃ ابصار الذین کفروا اس وقت اچانک کافروں کی آنکھیں اوپر لگی ہوئی ہوں گی۔ وہ ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہوں گے۔ اس وقت ہر چیز درہم برہم ہوجائے گی ، اور پھر کافر لوگ کہیں گے یویلنا قدکنا فی غفلۃ من ھذا ہائے افسوس ! کہ ہم تو اس واقعہ سے غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ اللہ کے نبی بتاتے تھے کہ قیامت آنے والی ہے مگر ہم یقین ہی نہیں کرتے تھے بل کنا ظلمین یقینا ہم ہی زیادتی کرنے والے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوگا انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم تم اور تمہارے معبود جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے ، جہنم کا ایندھن ہیں۔ حصب ایندھن کو کہتے ہیں جس سے آگ جلائی جاتی ہے۔ عربی محاورے میں حصب کا معنی احطب بھی ہوتا ہے جو جلانے والی لکڑی کے لئے بولا جاتا ہے۔ امام بغوی (رح) نے حضرت علی ؓ کی قرات میں حطب جھنم بھی کہا ہے۔ عرضی کہ حصب اور حطب کا ایک ہی معنی ہے۔ بہرحال فرمایا کہ تم تابع اور متبوع جہنم کا ایندھن ہو انتم لھا واردون اور تم سب اس میں پہنچنے والے ہو۔ اس وقت مشرک لوگ کف افسوس ملیں گے اور اپنے معبودان باطلہ کے متعلق کہیں گے لوکان ھولاء الھۃ م اور دوھا اگر یہ سچے معبود ہوتے جن کی ہم عبادت کرتے رہے ہیں تو آج ہم جہنم میں نہ پھینکے جاتے ، بلکہ اس عذاب سے بچ جاتے وکل فیھا خلدون آج ان کی کوئی حسرت مفید نہیں ہوگی اور انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی جہنم میں رہنا ہوگا۔ پھر ان کی حالت یہ ہوگی لھم فیھا زفیر کہ وہاں انہیں چیخنا چلانا ہوگا۔ ان کی ہچکیاں بندھ جائیں گی تو ان کی وجہ سے چلانے کی آوازیں نکلیں گی۔ اور اس چلانے کی وجہ سے وھم فیھا لایسمعون ان کی کوئی بات نہیں سنی جائیگی۔ اتنا شوروغوغا ہوگا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیگی اور ان کا چیخنا چلانا بالکل رائیگاں جائیگا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ کافروں کو بڑے بڑے ستونوں کے ساتھ باندھ کر اوپر سرپوش ڈال دیئے جائیں گے ، وہ ان میں بند ہو کر رہ جائیں گے اور ان کی کوئی آواز سنائی نہیں دیگی۔ نیکوکاروں کی بریت : دیگر کفارومشرکین کی طرح مکہ کا ایک شاعر عبداللہ بن زبعرہ بھی سخت مخالفین میں سے تھا مگر بعد میں ایمان لے آیا۔ ابتدائی دور میں اس نے اسلام اور اہل اسلام کے خلاف بڑا پراپیگنڈا کیا۔ ایک دفعہ حضور ﷺ کے پاس حاضر ہو کر کہا مسیح (علیہ السلام) اور عزیر (علیہ السلام) کون ہیں ؟ کیا یہ اللہ کے نیک بندے نہیں ؟ پھر کہا فرشتے کون ہیں ، کیا یہ اللہ کی پاکیزہ مخلوق نہیں ؟ جب آپ نے دونوں سوالوں کا جواب اثبات میں دیا تو عبداللہ کہنے لگا کہ ہم تو انہی پاک ہستیوں کی پوجا کرتے ہیں ، ان کو معبود مانتے ہیں۔ اب اگر تمہارے کہنے کے مطابق عابد اور معبود سب جہنم میں جائیں گے تو یہ اچھی بات ہے کہ ہم ان پاکیزہ لوگوں کے ساتھ ہی رہیں گے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے دیا کہ معبودان باطلہ سے مراد حضرت مسیح (علیہ السلام) ، عزیر (علیہ السلام) اور فرشتے نہیں ہیں کیونکہ وہ اپنی پوری زندگی تمہارے شرک سے بیزاری کا اظہار کرتے رہے اور قیامت کو بھی تم سے برات کا اعلان کریں گے ، کہیں گے ہم نے تو انہیں اپنی پوجا کے لئے نہیں کہا ، بلکہ یہ تو اصل میں شیطان کی اتباع کرتے رہے لہٰذا وہ معبودان باطلہ کے زمرہ میں نہیں آتے اور وہ اس وعید سے مستثنیٰ ہوں گے ، فرمایا ان الذین سبقت لھم منا الحسنی بیشک وہ لوگ کہ جن کے لئے ہماری طرف سے پہلے ہی بھلائی کا فیصلہ ہوچکا ہے اللہ کے علم میں یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ وہ اللہ کے نبی اور اس کے نیک بندے ہیں اولئک عنھا مبعدون وہ اس جہنم سے دور رہیں گے۔ بلکہ اتنا دور ہوں گے لا یسمعون حسیسھا وہ تو دوزخ کی آہٹ بھی نہیں سنیں گے وھم فی ما اشتھت انفسھم خلدون وہ اپنی من پسند جگہ میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ، ان کی خواہشات پوری کی جائینگی اور وہ ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ اللہ نے ان کے زعم باطل کی تردید فرمادی کہ یہ پاک ہستیاں اور مشرکین و کفار اکٹھے رہیں گے۔ فرمایا نیک لوگوں کی بات تو یہ ہے لا یحزنھم الفزع الاکبر انہیں بڑے دن (قیامت) کی گھبراہٹ غم میں نہیں ڈالے گی۔ بلکہ وتتلقھم الملئکۃ فرشتے ان سے ملاقات کریں گے اور انہیں خوشخبری دیں گے ھذا یومکم الذی کنتم توعدون یہی وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اس دن تمہیں بڑا انعام واکرام ملے گا اور تم اللہ کی رحمت میں داخل ہوجائو گے۔ وقوع قیامت اور بعث ثانی : آگے اللہ نے قیامت کے کچھ حالات بیان فرمائے ہیں ارشاد ہوتا ہے یوم نطوی السماء کطی اسجل للکتب اس دن ہم آسمان کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح کسی نوشتے کو طورمار میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ مفسرین کرام سجل کے دو معنی کرتے ہیں۔ اس کا ایک معنی نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کے سردار کا نام ہے۔ جب انسان کے اعمال ختم ہوجاتے ہیں تو فرشہ انہیں لپیٹ کر رکھ دیتا ہے سورة بنی اسرائیل اعمال ختم ہوجاتے ہیں تو فرشتہ انہیں لپیٹ کر رکھ دیتا ہے سورة بنی اسرائیل میں ہے کہ پھر وہ نامہ اعمال انسان کی گردن میں لٹکا دیا جاتا ہے جب قیامت کا دن آئے گا تو کہا جائے گا کہ اپنا نامہ اعمال خود ہی کھول کر پڑھ لو۔ اس دن ہر شخص میں پڑھنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے گی اور وہ بغیر کسی منشی کی مدد کے اپنے اعمال کا جائزہ لے سکے گا۔ غرضیکہ نامہ اعمال کو لپیٹنے والا فرشتہ سجل کہلاتا ہے۔ اور دوسرا معنی جو عام مفسرین بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ سجل سے مراد طور مار یعنی وہ فائل کور ہے جس میں نامہ اعمال کے کاغذات لپیٹ کر محفوظ کردیئے جاتے ہیں۔ تو اللہ نے فرمایا کہ قیامت والے دن آسمانوں کو اس طرح لپیٹ دیا جائے گا۔ جس طرح کوئی کاغذات جلد یافائل کور میں لپیٹ دیئے جاتے ہیں۔ دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کو لپیٹ دیا جائے گا ۔ موجود نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ پہلے آسمانوں میں دریچے دریچے نظر آئیں گے اور پھر بالکل ختم کردیئے جائیں گے حتیٰ کہ عالم بالا کی چیزیں نظر آنے لگیں گی۔ پھر کیا ہوگا ؟ کما بدانا اول خلق نعیدہ جس طرح ہم نے مخلوق کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح ہم انہیں دوبارہ لوٹائیں گے۔ حضور ﷺ (مسلم ص 384 ج 2) نے اپنے خطبہ میں فرمایا تھا یا ایھا الناس انکم محشورون الی اللہ حفاۃ عراۃ غرلا کما بدانا اول خلق نعیدہ لوگو ! تم قیامت کے دن سر اور پائوں سے برہنہ اور بےختنہ پیدا کیے جائو گے۔ چناچہ حدیث میں آتا ہے کہ برہنگی کی اس حالت میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو لباس پہنایا جائے گا۔ البتہ حضور ﷺ کی خصوصیت الگ ہے۔ ترمذی شریف کی حدیث (ترمذی 519 (فیاض) میں آپ کا فرمان ہے کہ جب قیامت برپا ہوگی تو سب سے پہلے میری قبر شق ہوگی۔ میں باہر آئوں گا۔ فاکسی حلۃ من الجنۃ تو مجھے جنت کا لباس پہنایا جائے گا جبکہ باقی ساری مخلوق برہنہ ہوگی ۔ اس کے بعد حشر کے میدان میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو کپڑے پہنائے جائیں گے۔ فرمایا جس طرح ہم نے سب کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ، اسی طرح ہم دوبارہ بھی لوٹائیں گے۔ وعد علینا یہ ہمارا وعدہ ہے انا کنا فعلین اور بیشک ہم ایسا کرنے پر قادر ہیں۔ یہ ضرور ہو کر رہے گا۔ جب جزائے عمل کی منزل آئیگی تو انسانوں کو دوبارہ اٹھایا جائے گا اور وہ اپنے اعمال کا حساب دیں گے۔
Top