Mualim-ul-Irfan - Al-Hajj : 23
اِنَّ اللّٰهَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا١ؕ وَ لِبَاسُهُمْ فِیْهَا حَرِیْرٌ
اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُدْخِلُ : داخل کرے گا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کیے الصّٰلِحٰتِ : صالح (نیک) جَنّٰتٍ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْهٰرُ : نہریں يُحَلَّوْنَ فِيْهَا : وہ پہنائے جائیں گے اس میں مِنْ اَسَاوِرَ : کنگن مِنْ ذَهَبٍ : سونے کے وَّلُؤْلُؤًا : اور موتی وَلِبَاسُهُمْ : اور ان کا لباس فِيْهَا : اس میں حَرِيْرٌ : ریشم
بیشک اللہ تعالیٰ داخل کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے اچھے کام کیے بہشتوں میں جن کے سامنے نہریں بہتی ہیں اور پہنائے جائیں گے ان (بہشتوں) میں ان کو سونے کے کنگن اور موتیوں کے ہار ، اور لباس ان کا ریشم کا ہوگا
ربط آیات : گزشتہ آیات میں دو قسم کے دعویداروں کا ذکر تھا۔ ایک قسم اہل ایمان اور اہل توحید کی ہے جب کہ دوسری قسم اہل کفر اور اہل شرک کی۔ قیامت کے دن ان دونوں گروہوں کا مقدمہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوگا اور پھر وہاں فیصلہ ہوگا۔ اللہ نے فرمایا کہ کافروں کے سروں پرکھولتا ہوا پانی ڈالا جائیگا جو ان کے پیٹوں میں موجود ہر چیز کو کاٹ کر باہر پھینک دے گا۔ ان کی کھالوں کو جلایا جائے گا اور ان پر لوہے کے ہتھوڑے برسائے جائیں گے اور اس طرح وہ جلاڈالنے والے عذاب میں مبتلا ہوں گے ان پر یہ عذاب ہمیشہ مسلط رہے گا۔ اور اس سے باہر نکلنے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ اہل ایمان کے لئے انعامات : قرآن کا یہ اسلوب بیان ہے کہ جہاں کفار کا ذکر ہوتا ہے ساتھ اہل ایمان کی بات بھی کی جاتی ہے اور پھر دونوں گروہوں کی سزا اور جزاء کا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ گزشتہ آیت میں کفار کی سزا کا ذکر ہوگیا تھا ۔ اب اس آیت میں اہل ایمان کے انعامات کا بین ہورہا ہے ارشاد ہوتا ہے ان اللہ یدخل الذین امنوا ، اللہ تعالیٰ داخل کرے گا ان لوگوں کو جو ایمان لائے۔ جنہوں نے اللہ کی وحدانیت پر یقین رکھا۔ ان کے نبیوں کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے ، آسمانی کتب اور ملائکہ کو برحق جانا اور اس کے ساتھ ساتھ وعملوا الصلحت انہوں نے اچھے اعمال بھی انجام دیے۔ اچھے اعمال میں بنیادی طور پر عبادات اربعہ یعنی نماز ، روزہ ، زکوٰۃ اور حج ہیں۔ یہ چاروں عبادات ہر عاقل بالغ اہل ایمان پر فرض ہیں اور اعمال صالحہ میں داخل ہیں۔ اس کے علاوہ تمام مالی ، بدنی یا مرکب عبادات ، حسن اخلاق ، خدمت خلق اور اللہ کی رضا کی تمام باتیں نیکیوں میں داخل ہیں تو فرمایا جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دیے۔ اللہ تعالیٰ ان کو داخل کردے گا۔ جنت تجری من تحتھا الانھر ایسے باغات میں جن کے سامنے نہریں بہتی ہوں گی۔ اہل ایمان وہاں رہائش پذیر ہوں گے اور ان کی زیب وزینت کے لئے یحلون فیھا من اساور من ذھب وہاں پر ان کو سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ، حدیث شریف (مسلم ص 127 ج 1 (فیاض) آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں کو ان کے اعضائے وضو پر زیور پہنائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس دن ان سے اپنی خوشنودی کا اظہار فرمائے گا۔ نیز ولولوا ان کو موتیوں کے ہار بھی پہنائے جائیں گے ۔ و لباسھم فیھا حریر اور جنت میں ان کا لباس ریشم کا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اہل بہشت پر یہ انعامات فرمائے گا۔ ان کو کوئی دیکھ اور پریشانی نہیں ہوگی ، وہاں پر انہیں ہر طرح کی آسودگی حاصل ہوگی۔ دنیا میں سونا اور ریشم مردوں کے لئے حرام ہے ، لہٰذا جو اہل ایمان اس دنیا میں ان چیزوں سے محروم رہے ، تو یہ چیزیں انہیں بہشت میں نصیب ہوں گی۔ اور جو شخص دنیا میں ریشم کا لباس پہنے گا وہ آخرت میں اس سے محروم رہے گا۔ یہاں پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ اس آیت کریمہ میں تو اللہ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ اہل جنت کا لباس ریشمی ہوگا۔ مگر حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں ریشم پہن لیا وہ جنت میں اس سے محروم ہوجائیں گے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے کسی وقت دنیا میں ریشم پہن لیا ، اگر وہ جنت میں بھی چلے گئے تو وہاں انہیں ریشمی لباس نہیں ملے گا ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ریشم پہننے والے جنتی کچھ عرصہ کے لئے جنت میں اس سے محروم رہیں گے۔ لیکن بالآخر ان کو بھی یہ لباس مل جائے گا۔ بعض دوسرے مفسرین فرماتے ہیں کہ اگرچہ ایسے لوگ جنت میں ریشمی لباس سے محروم رہیں گے مگر انہیں اس ضمن میں کسی قسم کی تکلیف یا کوفت یارنج نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ انہیں ریشم کی بجائے ایسا لباس پہنائیں گے۔ جس سے وہ مطمئن ہوجائیں گے۔ پاک راستے کی طرف راہنمائی : انہی خوش قسمت لوگوں کے متعلق فرمایا وھدوا الی الطیب من القول ، کہ ان کو پاکیزہ بات کی طرف ہدایت دی گئی ہے۔ اور وہ پاکیزہ بات کلمہ توحید لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔ دوسری سورة میں اس کو قول ثابت یعنی پختہ بات بھی کہا گیا ہے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو دنیا میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور برزخ میں بھی کہ جب ان سے سوال کیا جاتا ہے تو وہ صحیح صحیح جواب دیتے ہیں۔ غرضیکہ قول ثابت اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا کلمہ ہی ہے۔ بعض یہ بھی فرماتے ہیں کہ پاک قول سے مراد قرآن پاک ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی قرآن کریم کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے کلام پاک کی تلاوت کرتے ہیں جس سے انہیں ہدایت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ تو یہ معنی بھی درست ہے۔ فرمایا وھدوا الی صراط الحمید ، اور ان کو اچھے اور پسندیدہ اور تعریفوں والے راستے کی طرف ہدایت دی گئی ہے۔ یہ راستہ ایمان اور اسلام کا راستہ ہے ، توحید ، اللہ کی شریعت اور اس کے دین کا راستہ ہے جو انہیں دکھایا گیا ہے اور جس پر وہ گامزن ہیں۔ خدا کی مرضیات تک پہنچنے کا یہی راستہ ہے اسی راستے پر چل کر اہل ایمان جنت میں پہنچیں گے اور پھر حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق اللہ کی تسبیح وتحمید ان کی زبانوں پر اس طرح جاری ہو جائیگی جس طرح کوئی انسان بےاختیار و ارادہ سانس لیتا ہے۔ اسی چیز کو پاکیزہ قول فرمایا ہے جو تعریفوں والے پسندیدہ راستے پر چل کر حاصل ہوگا۔ حرم شریف کی حرمت : اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے کفار خصوصاً حرم پاک میں ظلم و زیادتی کرنے والوں کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ پھر اللہ کے گھر کی تعمیر کا ذکر آئے گا اور حج اور قربانی کا بیان ہوگا۔ تمہید کے طور پر اس آیت میں حرم پاک کی بےحرمتی کرنیوالوں کی مذمت ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ان الذین کفروا ، بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ویصدون عن سبیل اللہ ، اور جو روکتے ہیں اللہ کے راستے سے۔ میدان بدر میں کفار کے آنے کا یہی مقصد تھا کہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روک کر کفر کے راستے پر ڈال دیا جائے اور اسلام کی بجائے کفر کا پروگرام غالب بنایا جائے۔ اللہ کے راستے سے روکنے کا یہی مطلب ہے۔ نیز والمسجد الحرام ، وہ مسجد حرام سے بھی روکتے ہیں۔ اس کی واضح مثال 6 ھ کا واقعہ حدیبیہ ہے۔ حضور ﷺ چودہ سو صحابہ ؓ کے ہمراہ عمرہ کی غرض س مدینہ سے مکہ آرہے تھے قربانی کے جانور ساتھ تھے۔ چند ایک کے سو ا سب لوگوں نے احرام باندھ رکھے تھے مگر کفار نے حدود حرم یعنی حدیبیہ کے مقام پر روک دیا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی کہ اتنا دور دراز کا سفر اختیار کرنے کے باوجود وہ اللہ کے گھر کی زیارت سے محروم ہو رہے تھے۔ مصالحت کی بات چیت ہوئی جس میں طے پایا کہ اس سال مسلمان بغیر عمرہ ادا کیے واپس چلے جائیں گے۔ البتہ آئندہ سال اس کی اجازت ہوگی مگر وہ تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہیں کرسکیں گے۔ چناچہ اہل ایمان نے قربانی کے جانور حدیبیہ میں ہی ذبح کردیے اور مدینے لوٹ گئے۔ اس مقام پر مسجد حرام سے مراد صرف وہ مسجد مراد نہیں جو خانہ کعبہ کے گرد ہے بلکہ پورا حرم مراد ہے جس کی حد حدیبیہ کے مقام سے شروع ہوتی ہے۔ حدیبیہ کا کچھ حصہ حرم میں داخل ہے اور کچھ باہر ہے ، اسی لئے کفار نے اسی مقام پر مسلمانوں کو روک دیا تھا۔ یہ جگہ مکہ مکرمہ سے نو ، دس میل کے فاصلے پر ہے ۔ مدینہ کی طرف سے حدود صرف تین ، ساڑھے تین میل پر ہے۔ بعض اطراف سے دس میل بھی ہے۔ یہ سارا خطہ حرم کہلاتا ہے۔ اور یہاں پر یہی مراد ہے کہ کافر لوگ حرم سے روکتے ہیں۔ حرم کے بعض مسائل بھی ہیں جو کہ اس کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں۔ مثلا حدود حرم میں شکار کرنا درخت کاٹنا ، خود روگھاس کاٹنا وغیرہ حرام ہے اللہ تعالیٰ نے حرم پاکی کی حرمت کا قانون الگ رکھا ہے۔ کوئی سا ممنوع فعل کرنے سے تاوان عائد ہوتا ہے۔ حرم شریف کے یکساں حقوق : فرمایا ، یہ بدبخت لوگ اس حرم پاک سے روکتے ہیں الذی جعلنہ للناس سواء جسے ہم نے تمام لوگوں کے لئے برابر قرار دیا ہے یعنی اس سرزمین پر تمام اہل ایمان کے یکساں حقوق ہیں اور اس لحاظ سے اس خطہ کو وقف کی حیثیت حاصل ہے۔ پھر بھلا مشرکوں کو مسجد حرام سے روکنے کا کیا حق پہنچتا ہے۔ اللہ نے فرمایا وماکانوا اولیاء ہ (الانفال 34) یہ تو مسجد حرام کے متولی نہیں ہوسکتے ۔ اس کے متولی تو متقی اہل ایمان ہی ہوسکتے ہیں۔ بہرحال حرم پاک کا خط تمام اہل ایمان کے لئے یکساں ہے۔ خواہ وہ دنیا کے کسی بھی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں ن العاکف فیہ والباد وہ حدود حرم کے رہنے والے ہوں یا باہر سے آنے والے ہوں ، سب کے حقوق برابر ہیں اور کوئی کسی کو اس میں داخل ہونے سے نہیں روک سکتا۔ حدود حرم میں مقامات عبادت اور رہائش مکانات کے حقوق ملکیت کے متعلق فقہائے کرام میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس مسئلہ میں تو کسی کو اختلاف نہیں ہے کہ حدود وحرم میں جتنے بھی عبادت کے مقام ہیں۔ مثلاً مسجد حرام ، صفا مروہ ، منی ، مزدلفہ اور میدان عرفات جہاں ارکان حج ادا کیے جاتے ہیں۔ وہ مقامات تو کسی کی ملکیت نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے وقف ہیں اور جہاں کوئی چاہے داخل ہو کر عبادت کرسکتا ہے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔ البتہ شر مکہ اور اطراف کے رہائشی مکانات کے متعلق کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ حدود حرم میں رہائشی علاقوں کی زمین تو ویسی ہی وقف ہے جیسی دوسری زمین ، البتہ اس پر تعمیر کی گئی عمارت کسی کی انفرادی ملکیت ہوسکتی ہے اور اس طرح مالک مکان اس کا کرایہ بھی وصول کرسکتا ہے۔ بعض فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی زمین پر عمارت تعمیر کرتا ہے اسے عمارت کے علاوہ زمین کے حقوق ملکیت حاصل ہوجاتے ہیں۔ اس کے ثبوت میں وہ حضرت عمر ؓ کا عمل پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار درہم میں خرید کر اسے قید خانہ میں تبدیل کردیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے کلی حقوق ملکیت حاصل ہوجاتے ہیں۔ جہاں تک امام ابوحنیفہ (رح) کا موقف ہے تو اس کے متعلق امام ابوبکر حصاص (رح) لکھتے ہیں (احکام القرآن للبحصاص ص 229 ج 3 (فیاض) کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی ملکیتی زمین پر مکان تعمیر کرلے ظاہر ہے کہ عمارت تو تعمیر کنندہ کی ہوگی ، مگر زمین کا حق ملکیت اسے حاصل نہیں ہوگا۔ جب تک وہ زمین کی قیمت ادا نہ کرے یا مالک اراضی کو راضی نہ کرے حرم کا پور ا خطہ چونکہ وقف ہے اس لئے اس کی زمین کسی کی انفرادی ملکیت میں نہیں آسکتی ۔ بہرحال اللہ نے فرمایا کہ خواہ کوئی مقامی آدمی ہو یا بیرونی ہم نے خطہ حرم کو سب کے لئے برابر بنایا ہے۔ حرم میں الحاد کی ڈبل سزا : اللہ نے دوسرا مسئلہ یہ بیان فرمایا ہے ومن یرد فیہ بالحاد بظلم جو کوئی اس خط مقدس میں ظلم وشرارت کے ساتھ کجروی اختیار کرے گا ، یعنی شرک ، کفر ، بدعت ، قتل و غارت اور معاصی کا ارتکاب کریگا۔ نذقہ من عذاب الیم ہم اسے درد ناک عذاب کا مزا چکھائیں گے۔ بعض اوقات خطے اور زمانے کے لحاظ سیاعمال کی جزا اور سزا میں فرق پڑجاتا ہے۔ مثلاً مسجد حرام میں ایک نماز ادا کرنے کا اجر دوسری جگہ کی ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ اسی طرح مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ پھر بعض زمانوں میں گناہ کا ارتکاب کرنے سے اس کی سزا بڑھ جاتی ہے۔ جیسے حرمت والے چار مہینے۔ تو اسی طرح ان پاک مقامات پر گناہ کی سزا بھی ڈبل ہوجاتی ہے کیونکہ اس نے اس پاک خطے کی حرمت کو برقرار نہیں رکھا۔ اسی طرح بعض افراد کو بھی خصوصی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ سورة احزاب میں اللہ کا فرمان ہے ینساء النبی لستن کا حد من النساء (آیت 32) اے نبی کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں۔ اللہ نے تمہیں شرف بھی بڑا عطا فرمایا ہے۔ اور اگر تم کوئی برا کام کروگی۔ یضعف………ضعفین (آیت 30) تو تمہاری سزا بھی دگنی ہوگی بہرحال فرمایا کہ جو شخص حرم پاک میں کجروی اختیار کرے گا اسے ہم درد ناک عذاب چکھائیں گے۔
Top