Mualim-ul-Irfan - Al-Hajj : 30
ذٰلِكَ١ۗ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰهِ فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ١ؕ وَ اُحِلَّتْ لَكُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ
ذٰلِكَ : یہ وَمَنْ : اور جو يُّعَظِّمْ : تعطیم کرے حُرُمٰتِ اللّٰهِ : شعائر اللہ (اللہ کی نشانیاں) فَهُوَ : پس وہ خَيْرٌ : بہتر لَّهٗ : اس کے لیے عِنْدَ رَبِّهٖ : اس کے رب کے نزدیک وَاُحِلَّتْ : اور حلال قرار دئیے گئے لَكُمُ : تمہارے لیے الْاَنْعَامُ : مویشی اِلَّا : سوا مَا يُتْلٰى : جو پڑھ دئیے گئے عَلَيْكُمْ : تم پر۔ تم کو فَاجْتَنِبُوا : پس تم بچو الرِّجْسَ : گندگی مِنَ : سے الْاَوْثَانِ : بت (جمع) وَاجْتَنِبُوْا : اور بچو قَوْلَ : بات الزُّوْرِ : جھوٹی
یہ بات (تو ہوچکی) اور جو شخص تعظیم کرے گا اللہ کی حرمتوں کی ، پس وہ اس کے لئے بہتر ہے اس کے پروردگار کے پاس۔ اور حلال کیے گئے ہیں تمہارے لیے مویشی مگر وہ جو تم کو پڑھ کر سنائے جاتے ہیں پس بچو بت پرستی کی گندگی سے اور بچو جھوٹی بات سے
ربط آیات : گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی تعمیر وتجدید کا ذکر فرمایا تھا۔ بیت اللہ شریف کی عمارت طوفان میں مٹ چکی تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہاتھوں سے اس کی دوبارہ تعمیرکروائی اس کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) سے اعلان حج کروایا اور اس بات کی ذمہ داری خود اٹھائی کہ اس اعلان کو قیامت تک آنے والی نسلوں تک پہنچائے گا۔ اللہ نے یہ پیشن گوئی بھی فرمائی کہ اس اعلان کے جواب میں لو گ دور دراز علاقوں سے پیادہ اور سوار حج کے لئے آئیں گے اور اس سفر سے دینی اور دنیاوی فوائد حاصل کریں گے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ مویشیوں کو اللہ کا نام لے کر اس کی راہ میں قربان کرو اور قربانی کے گوشت میں سے خود بھی کھائو اور محتاجوں کو بھی کھلائو۔ اللہ نے فرمایا کہ قربانی کرنے کے بعد اپنی میل کچیل دور کرو ، اپنی نذریں پوری کرو اور بیت اللہ شریف کے طواف زیارت کے لئے آئو۔ حرمات اور شعائر اللہ کی تعظیم : آگے اللہ نے شعائر اللہ کی تعظیم اور قربانی کے کچھ مسائل بیان فرمائے ہیں ارشاد ہوتا ہے ذلک یہ بات تو تم نے سن لی یعنی بیت اللہ کی تعمیرنو ، حج کی فرضیت اور قربانی کی بات تو تمہارے علم میں آگئی۔ اب یہ ایک اصولی بات ہے ومن یعظم حرمت اللہ فھو خیرلہ عند ربہ ، اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم کی تو یہ چیز اس کے حق میں بہتر ہے اسکے پروردگار کے ہاں یعنی اللہ کی حرمات کی تعظیم اعلیٰ درجے کی نیکی میں داخل ہے۔ اس کے برخلاف غیر اللہ کی حرمتوں کا ادب وآداب شرک میں داخل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محترم (قابل احترام) اشیاء میں بیت اللہ شریف ، صفا ومروہ ہنیٰ ، مزدلفہ ، عرفان اور تمام مساجد شامل ہیں جن چیزوں کو اللہ نے محترم قرار دیا ہے ان کی تعظیم حقیقت میں اللہ کی تعظیم ہے۔ لہٰذا تمام حرمات کا ادب کرنا چاہیے۔ ان چیزوں کی بےادبی اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔ اگلی آیت میں شعائر اللہ کی تعظیم کا ذکر بھی آرہا ہے اور شعائر سے بھی اللہ کی محترم چیزیں ہی مراد ہیں۔ شعائر اللہ کی تعظیم ہمارے دین کا اہم جز ہے۔ ملت ابراہیمی میں اس کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توحید کو ماننا ، خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا ، صبر کرنا بھی اجزائے دین میں داخل ہیں ، اللہ کی یہ نشانیاں خدا تعالیٰ کی عظمت ، جلال اور جمال کی علامت ہوتی ہیں لہٰذا ان کا احترام کرنا ازحد ضروری ہے ۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ادان ، اقامت ، نماز اور قربانی شعائر اللہ کا حصہ ہیں اور ان کا تمسخر اڑانا بےادبی اور بےدینی کی بات ہے۔ اعظم شعائر اللہ میں نماز ، خانہ کعبہ ، قرآن پاک اور پیغمبر ﷺ کی ذات مبارکہ بھی شامل ہے۔ چناچہ اللہ کی توحید کو ماننے والے اہل ایمان ان سب چیزوں کا ادب واحترام کرتے ہیں۔ اللہ نے تعظیم شعائر اللہ کو نیکی میں شمار کیا ہے اور اس کے خلاف کرنے والوں کو وعید سنائی ہے۔ حلال اور حرام جانور : آیت کے اگلے حصے میں اللہ نے مویشیوں کی حالت و حرمت کا قانون بیان فرمایا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے واحلت لکم الانعام الا ما یتلی علیکم اللہ تعالیٰ نے تم پر مویشی حلال کیے ہیں ماسوائے ان کے جو تمہیں اللہ کی کتاب سے پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ حلال جانوروں کی تفصیل سورة الانعام میں گزر چکی ہے کہ یہ چار قسم کے مویشی ہیں جن کے نر اور مادہ دونوں حلال ہیں اور یہی جانور قربانی کے لئے پیش کیے جاتے ہیں ان میں اونٹ ، بھیڑ بکری اور گائے شامل ہیں۔ ان جانوروں پر اللہ کا نام لے کر ان کے حلق پر چھری چلاسکتے ہو۔ اور جو مویشی تم پر ، حرام ہیں ان کی تفصیل بھی اللہ نے مختلف سورتوں میں بیان کردی ہے۔ سورة المائدہ میں ہے۔ حرمت علیکم… ……………………بالازلام (آیت 30) اللہ نے تم پر حرام کیا ہے مرا ہوا جانور ، اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی غیر کا نام پکارا جائے۔ اور جو جانور گلا گھٹ کر مرجائے۔ اور جو چوٹ لگ کر مرجائے اور گرکر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے اور جس کو درندے پھاڑ کھائیں مگر جسے تم مرنے سے پہلے ذبح کرلو ، اور وہ جانور جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ کہ تیرپانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ تھان پر ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی قبر ، تکیہ ، درخت یا پتھر کی تعظیم کے لئے اس کے پاس ذبح کیا جائے یا کسی بھی ایسی چیز کی تعظیم کے لئے جانور ذبح کیا جائے جس سے اللہ کی تعظیم مرادنہ ہو۔ یہ تمام چیزیں حرام ہیں اور مردار کے حکم میں داخل ہیں۔ بت پرستی کی نجاست : آگے فرمایا فاجتنبوا الرجس من الاوثان پس بت پرستی کی گندگی سے بچو۔ اوثان وثن کی جمع ہے جو ان گھڑے بت کے لئے بولا جاتا ہے۔ کوئی درخت ہو یا پتھر ہو جو کسی شکل پر نہ بنایا گیا ہو۔ اور صنم وہ ہوتا ہے جو کسی انسان یا جانور وغیرہ کی شکل کا بت ہو۔ مشرکین عرب دونوں قسم کے بتوں کے پجاری تھے۔ ہندو بھی کسی درخت یا پتھر وغیرہ پر چونا لگا کر اور اوپر دہی وغیرہ ڈال کر اس کی پوجا شروع کردیتے ہیں۔ اسی طرح صلیب کے پجاری صلیب کی ایسی حد درجہ تعظیم کرتے ہیں جیسی اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہیے۔ یہ سب شرکیہ افعال ہیں۔ ویسے مطلقاً بت پرستی دنیا میں عام ہے۔ کوئی زندہ کی پرستش کرتا ہے اور کوئی مردہ کی ۔ کوئی قبروں کی پوجا کرتے ہیں اور کوئی اولیاء اللہ اور ملائکہ کی۔ ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھ کر ان سے فریاد رسی کی جاتی ہے حالانکہ ایک مومن کا عقیدہ یہ ہے۔ ندا (کریما سعدی ص 2 (فیاض) ریم غیراز تو فریاد رس توئی عاصباں راخطا بخش وبس مولا کریم ! تیرے علاوہ کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے۔ کوئی بھی مافوق الاسباب غائبانہ مدد نہیں کرسکتا اور نہ کوئی کسی کی مشکل حل کرسکتا ہے نہ کوئی کسی کی ظاہری باطنی حاجت پوری کرسکتا ہے اور نہ کسی بیمار کو شفا دے سکتا ہے۔ اللہ کے سوا نہ کسی کو کلی علم ہے اور نہ اختیار۔ ساری مخلوق عابد ہے اور معبود صرف اللہ کی ذات ہے۔ وہ صاحب کمال اور صاحب جمال ہے فریاد رس وہی ہے۔ برخلاف اس کے بت پرستی ، گندگی اور نجاست ہے اور اسی سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ سورة المدثر میں بھی ہے والرجز فاھجر (آیت 5) اپنے آپ سے نجاست اور گندگی کو دور رکھو۔ یہاں بھی فرمایا کہ غیر اللہ کے تقرب کے لئے جانور ذبح کرنا شرک اور گندگی ہے ، اس سے بچ جائو۔ قربانی صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے کرو۔ جھوٹی گواہی : اللہ نے فرمایا ایک تو بت پرستی کی نجاست سے بچوں اور دوسرے واجتنبوا قول الزور اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ جھوٹی بات سے کوئی بھی جھوٹی بات ہوسکتی ہے اور اس میں جھوٹی گواہی کو خوصی حیثیت حاصل ہے کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے عرلت شھادۃ الزور بالا شراک باللہ یعنی جھوٹی گواہی دینا اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے اور اسے اکبر الکبائر میں شمار کیا گیا ہے۔ جھوٹا وعدہ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ حنیف نہ کہ مشرک : ارشاد فرمایا حنفاء للہ اللہ کے لئے حنیف بن جائو یعنی ہر طرف سے ہٹ کر صرف ایک اللہ کی طرف لگ جائو۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانتا ہے ، قبلہ کی طرف رخ کے نماز ادا کرتا ہے ، ختنہ کرتا ہے ، بیت اللہ کا حج کرتا ہے اور شرک نہیں کرتا ، وہ حنیف ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) اولین حنیف اور تمام حنفاء کے امام تھے۔ حنیفیت کا دور آپ ہی کے زمانے سے شروع ہوا۔ حنیفیت میں توحید کا ماننا مقدم ہے ، اسی بات کے لئے ابراہیم (علیہ السلام) نے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں اور قوم کو چھوڑا۔ آپ ہمیشہ شرک سے بچنے کی تلقین کرتے تھے۔ فرمایا اللہ کے لئے حنیف ہوجائو اس حال میں کہ غیر مشرکین بہ اس کے ساتھ کسی طرح بھی شرک کرنے والے نہ ہو۔ شرک قطعاً پسندیدہ نہیں ، اس کا اظہار نہ قول سے ہونا چاہیے ، نہ فعل سے ، نہ عمل سے اور نہ عقیدے سے۔ اگر کوئی شخص ایسا عمل کرتا ہے جس سے غیر اللہ کی انتہائی تعظیم ہوتی ہے تو وہ شخص مشرک بن جائے گا۔ غیر اللہ کی مدد ونیاز اور چڑھاوا فعل شرک ہے۔ شرک عبادت میں بھی ہوتا ہے اور عادت میں بھی جب تک انسان سچے دل سے توبہ نہ کرلے اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرتا۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلاں آدمی ہر چیز کو جانتا ہے ، جو چاہے کرسکتا اور بگڑی بنا سکتا ہے تو ایسا عقید رکھنے والا شخص مشرک ہوجائے گا۔ واللہ علی کل شیء شھید ہر چیز پر حاضر وناظر اور ہر چیز کو جاننے والا تو فقط خدائے ذوالجلال ہے واللہ علی کل شیء حفیظ ، ہر چیز پر نگہبان بھی وہی ہے ، لہٰذا مخلوق میں سے کوئی بھی اس صفت سے متصف نہیں۔ غیر اللہ کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا شرک فی العقیدہ میں شمار ہوگا۔ شرک کی قباحت : آگے الل تعالیٰ نے شرک کی قباحت دو مثالوں کے ذریعے بیان فرمائی ہے۔ فرمایا ومن یشرک باللہ اور جس شخص نے شرک باللہ کا ارتکاب کیا فکانما خرمن السمآء وہ ایسا ہے جیسا کہ آسمان سے گر پڑا فتخطفہ الطیر پھر اسے پرندوں نے اچک لیا۔ پرندوں میں مردار خور چیلیں یا گدھیں وغیرہ ہوتی ہیں جو مردہ جانور کو نوچ کر کھا جاتی ہیں۔ تو شرک کی ایک مثال تو یہ ہے گویا کہ اس کے مردہ جسم کو چیلیں نوچ نوچ کر کھاجائیں اور دوسری مثال یہ کہ اوتھوی بہ الریح فی مکان سحین ، یا کوئی ایسی تندوتیز ہوا چلے جو اسے اڑا کر دور کسی گڑھے میں جا پھینکے اور اس کا نام ونشان باقی نہ رہے۔ دونوں مثالیں مشرک آدمی کو نابود کرنے کے متعلق ہیں۔ گویا مشرک آدمی کو اللہ تعالیٰ اتنی سخت سزا دے گا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ غیر اللہ کی پرستش کرنا ، اس کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھنا ، اللہ کی تعظیم کی بجائے مخلوق کی تعظیم کرنا گویا آسمان کی بلندی سے گرنے کے مترادف ہے۔ ایسا شخص توحید جیسی بلندی سے گرکر ذلت کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔ مفسرین یہ بھی فرماتے ہیں کہ مشرک دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو شرک میں پوری طرح پختہ نہیں ہوتا بلکہ مذبذب ہوتا ہے اس کی مثال پرندوں کے نوچنے والی ہے۔ اور جو مشرک اپنے شرک میں پختہ ہوتا ہے۔ اس کی مثال دوسری ہے کہ ہوا اسے اڑا کر کہیں گڑھے میں جا پھینکے۔ بیت اللہ کی بنیاد تو اللہ نے توحید پر قائم کی ہے۔ اس کے برخلاف جو شرک کا راستہ اختیار کرتا ہے اس کا انجام اور شرک کی قباحت بھی بیان فرمادی۔ دلوں کا تقویٰ : پھر قربانی ہی کے تسلسل میں فریاد ذلک یہ بات تو تم نے سن لی یعنی جانوروں کی حلت و حرمت کا علم تو تمہیں ہوگیا۔ اب ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کریگا تو یہ دلوں کے تقویٰ کی بات ہے۔ دوسرے لفظوں میں جس شخص کے دل میں تقویٰ ہوگا وہی شعائر اللہ کی تعظیم کریگا۔ اذان ، اقامت ، نماز ، روزہ ، حج ، مسجد ، اولیاء اللہ ، نبی ، خانہ کعبہ اور دیگر تمام مقامات مقدسہ کی تعظیم تقوی سے تعلق رکھتی ہے۔ جس کے دل میں تقویٰ نہیں ، وہ تعظیم بھی نہیں کریگا۔ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ دل اللہ کی زمین میں ظروف کی مانند ہیں۔ تو اچھا برتن وہی ہوتا ہے جو صاف شفاف اور نجاست سے پاک ہو۔ اسی طرح انسان کا دل بھی کفر ، شرک ، نفاق اور بدعات کی نجاست سے پاک ہونا چاہیے یہی دل کا تقویٰ ہے اور جس کے ذریعے شعائر اللہ کی تعظیم آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود (علیہ السلام) پر وحی کے ذریعے پیغام بھیجا کہ وہ لوگوں کی تلقین کریں کہ لوگ اپنے دلوں کو صاف رکھیں۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے عرض کیا پروردگار ! دلوں کو کیسے پاک صاف رکھا جاسکتا ہے تو اللہ نے فرمایا کہ دل میں میری عظمت اور محبت پیدا کرو۔ جس دل میں محبت خداوندی کی آگ روشن ہوگی ، وہ آگ تمام ردی خواہشات ، کفر ، شرک ، بدعقیدگی اور نفاق کو جلا کر راکھ کردے گی اور دل پاک صاف ہوجائے گا۔ اس کے برخلاف جس دل میں شرکیہ عقائد و اعمال ہوں گے وہ صاف نہ ہوسکے گا۔ اسی لئے فرمایا کہ شعائر اللہ کی تعظیم دلوں کے تقویٰ کی وجہ سے ہوتی ہے۔ ہدی کے جانور : ارشاد ہوتا ہے لکم فیھا منافع الی اجل مسمی ، تمہارے لئے قربانی کے جانوروں میں ایک مقررہ مدت تک فائدے ہیں حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو بڑی تکلیف اٹھا کر پیدال چل رہا تھا حالانکہ اس کے ساتھ جانور بھی تھے آپ نے پوچھا کہ تم اس پر سوار کیوں نہیں ہوجاتے تو اس نے عرض کیا ، حضور ! یہ ہدی کے جانور ہیں جنہیں حرم شریف میں جاکر ذبح کرنا ہے۔ قربانی کے جانور ہونے کی وجہ سے میں نے ان پر سواری نہیں کی۔ آپ نے فرمایا کہ مجبوری کی حالت میں تو تمہیں کسی ایک پر سوار ہونے کی اجازت ہے ہاں اگر اس کے علاوہ تمہارے پاس کوئی دوسری سواری ہوتی جو قربانی کے لئے مخصوص نہ ہوتی تو پھر تم ان ہدی کے جانوروں پر سواری نہیں کرسکتے تھے۔ ایسی صورت میں قربانی کے جانوروں کا دودھ بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا اور نہ ان سے کوئی دوسری خدمت لی جاسکتی ہے۔ وہ شخص پھر بھی سوار ہونے سے ہچکچایا تو حضور ﷺ نے فرمایا ویلک ارکبھا افسوس ہے تمہارے اس پر سوار ہوجائو۔ جب خدا تعالیٰ نے اجازت دی ہے تو تم اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے۔ اسی لئے اللہ نے یہاں فرمایا ہے کہ ان قربانی کے جانوروں میں ایک خاص مدت تک تمہارے لئے فائدے کی بات ہے بعض فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسے جانوروں سے فائدہ اٹھانے کی اس وقت تک اجازت ہوتی ہے جب تک انہیں قربانی کے لئے نامزد نہ کردیا گیا ہو۔ جب نامزد کردیا تو پھر ان کا دودھ ، کھال ، بال وغیرہ سب صدقہ ہیں اگر ان میں سے کوئی چیز استعمال کرے گا۔ تو اس کی قیمت ادا کرنا ہوگی کیونکہ اب یہ تمام اشیاء اللہ کی نیاز بن چکی ہیں ۔ جو غریبوں اور محتاجوں کا حق ہے۔ بیت العتیق : فرمایا ثم محلھا الی البیت العتیق۔ پھر ان کے پہنچنے کی جگہ اللہ کا پرانا گھر ہے جہاں جاکر ان کو قربان کیا جائیگا۔ عتیق کے دو معنی آئے ہیں۔ عام فہم معنی تو پرانا گھر ہے کہ اللہ کی عبادت کے لئے بنایا جانے والا یہ اولین گھر ہے ، جیسے فرمایا ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا وھدی للعلمین (آل عمران 96) سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے عبادت کی غرض سے بنایا گیا وہ مکہ مکرمہ میں ہے اور جہان بھر کے لئے باعث ہدایت ہے۔ زمین کی تخلیق کا مرکز بھی یہی ہے۔ اسی مقام سے زمین کا پھیلائو ہوا۔ اس لحاظ سے بھی یہ پرانا گھر ہے۔ عتیق کا دوسرا معنی آزاد کرنے کا ہے اور یہ معنی بھی درست ہے کہ بیت اللہ شریف ہر جبار کے تسلط سے آزاد ہے جس نے بھی اس کی طرف بری نظر سے دیکھا ، اللہ نے اس کو ذلیل و خوار کیا۔ جب ابرہہ نے بیت اللہ شریف کو گرانے کا ارادہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے تین میل دور ہی وادی محسر میں اس کے لشکر کو تباہ کردیا۔ قیامت (بخاری ص 216 ج 1 وص 217 ج 1 (فیاض) کی نشانیوں میں البتہ آتا ہے کہ قرب قیامت میں حبشہ کا ایک ظالم شخص کعبۃ اللہ کو گرادیگا۔ اس سے پہلے کئی لشکر آتے رہے مگر اللہ نے ان کو زمین میں دھنسا دیا۔ اور بیت اللہ شریف کی آزادی پر حرف نہیں آنے دیا۔ مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی (رح) فرماتے ہیں کہ بیت اللہ محض اینٹوں اور پتھروں کی عمارت کا نام نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ پتھر اکھاڑ کر دوسری جگہ گھر بنادیا جاتا تو وہ بھی بیت اللہ ہوتا۔ مگر یہ بات نہیں ہے۔ بیت اللہ دراصل اس مقام کا نام ہے جس مقام پر یہ گھر تعمیر ہوا ہے۔ اگرچہ یہ مادی گھر ہے مگر اللہ نے اسے اپنی ذاتی تجلیات کا مہبط بنایا ہے اور یہ درجہ کسی دوسرے مقام کو حاصل نہیں ہے۔ اللہ نے اسے ہماری عبادت کے لئے جہت بنایا ہے ۔ قربانی کے جانور حدود حرم میں منیٰ یا دوسری جگہوں پر قربان کیے جاتے ہیں۔ اپنے اپنے ملکوں میں قربانی کرتے وقت بھی جانوروں کے رخ قبلہ کی طرف پھیردینے چاہئیں۔ یہ اس قدیم گھر کی تعظیم کے احکام میں سے ہے۔
Top